الأربعاء، 15 رجب 1446| 2025/01/15
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

سوال و جواب

ای کامرس

 

(ترجمہ)

(ھمام ابراہیم کے لئے)

 

سوال:

 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اللہ آپ کے وقت میں برکت دے، میرے بھائی،

مجھے ایک سوال پوچھنا ہے اور امید کرتا ہوں کہ مجھے تفصیلی جواب ملے گا۔

 

سوال :

کیا ملائیشین کمپنی DXN کے ساتھ ای کامرس جائز ہے؟ یہ کمپنی غذائی سپلیمنٹس، شیمپو، اسکن کریمز وغیرہ فروخت کرتی ہے۔ اگر آپ اس کمپنی سے ایک مخصوص رقم تک کی خریداری کرتے ہیں تو یہ آپ کو رعایت دیتی ہے۔ اگر آپ کے پوائنٹس 100 تک پہنچ جائیں تو یہ آپ کو 6 فیصد رعایت دیتی ہے۔ جتنے زیادہ پوائنٹس ہوں گے، اتنی ہی زیادہ رعایت ملے گی، اور یہ پوائنٹس ایک رقم میں تبدیل ہو جاتے ہیں جو یا تو ایک لفافے یا خط کی صورت میں آپ تک ماہانہ پہنچا دی جاتی ہے یا آپ کے بینک بیلنس میں منتقل کر دی جاتی ہے۔

 

میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ آپ اس کمپنی میں ممبران شامل کر سکتے ہیں، اور جو ممبر اس کمپنی سے خریداری کرتا ہے اسے بھی پوائنٹس ملتے ہیں، اور بدلے میں آپ کو بھی پوائنٹس ملتے ہیں کیونکہ یہ ممبر آپ کے ذریعے رجسٹرڈ ہوا ہوتا ہے۔ آپ جتنے چاہیں لوگوں کو رجسٹر کر سکتے ہیں، اور جتنا زیادہ وہ لوگ پوائنٹس حاصل کریں گے، اتنے ہی زیادہ آپ کے پوائنٹس بڑھیں گے۔ یوں آپ کے پاس منتقل ہونے والی رقم کا بیلنس بھی بڑھتا جائے گا، اور یہ عمل اتنا بڑھ سکتا ہے کہ آپ اس کمپنی میں پارٹنر بن جائیں اور خاطر خواہ منافع حاصل کریں۔

 

(براہ کرم اس کمپنی کے بارے میں غور سے پڑھیں اور مجھے اس بارے میں ایک تفصیلی جواب دیں)۔ شکریہ۔

 

 

جواب:

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

 

کچھ عرصہ پہلے بھی ایک بہن نے ہم سے ملائیشین کمپنی DXN کے ساتھ معاملات کے بارے میں اسی طرح کا سوال کیا تھا، اور ہم نے 07 نومبر، 2024ء کو اس کا جواب دیا تھا۔ یہ جواب آپ کے سوال سے زیادہ تفصیل میں تھا۔ میں آپ کو وہ سوال اور اس کا جواب منتقل کر رہا ہوں، شاید یہ مقصد پورا کر دے، ان شاء اللہ:

 

]سوال:

ہمارے معزز شیخ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

میں ایک ملائیشین کمپنی DXN کے لیے کام کرتی ہوں، جو صحت اور ذاتی دیکھ بھال کی مصنوعات تیار کرتی ہے۔ میں اپنی ایک دوست سے ملی جو اردن سے ہے، اور اس نے مجھے کمپنی میں رجسٹر کیا اور مجھے ایک ممبرشپ نمبر دیا۔ میں نے کئی لوگوں سے کمپنی کے کام کے بارے میں پوچھا کہ آیا یہ حلال ہے یا حرام؟ انہوں نے مجھے جواب دیا کہ یہ حلال ہے۔ لیکن جب میں نے اس کمپنی کے مالیاتی پلان کی ٹریننگ اور لیکچرز میں شرکت کی، تو مجھے اس کے کام کے بارے میں شک ہونے لگا کہ آیا اس میں کچھ حرام تو نہیں؟

 

کمپنی کا کام فروخت کے دو طریقوں پر مبنی ہے:

 

پہلا طریقہ: براہ راست فروخت کا طریقہ: جہاں میں اپنے ممبرشپ نمبر کے ساتھ کمپنی کے سیلز پوائنٹس سے مصنوعات تھوک قیمت پر خریدتی ہوں اور انہیں اپنی مرضی کے منافع کے ساتھ فروخت کر دیتی ہوں۔ کمپنی مجھے ہر پروڈکٹ خریدنے پر کچھ پوائنٹس دیتی ہے، اور اگر میں ہر مہینے 100 پوائنٹس یا اس سے زیادہ جمع کر لوں تو کمپنی مجھے کیش بونس دیتی ہے۔ ابتدا میں میری شرح 6 فیصد تک ہوتی ہے، لیکن اگر میں 100 پوائنٹس سے کم جمع کرتی ہوں تو کمپنی کی طرف سے مجھے کیش تو نہیں ملتا، لیکن پوائنٹس میرے ذاتی اکاؤنٹ میں رہتے ہیں تاکہ وہ اسٹار ایجنٹ کے درجے تک پہنچ سکیں۔

فروخت کا دوسرا طریقہ: ملٹی لیول نیٹ ورک مارکیٹنگ کا طریقہ (لیکن اس تک میں نہیں پہنچی ): جہاں ایک ٹیم بنائی جاتی ہے اور کمیشن کا حساب لگایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، لیڈر S کی ٹیم S، A، اور Jپر مشتمل ہے، اور لیڈر S کی ٹیم کا ہر فرد 100 پوائنٹس جمع کرتا ہے۔ لیڈر S کو اس وقت تک منافع نہیں ملتا جب تک وہ خود 100 پوائنٹس حاصل نہ کر لے۔ بدلے میں ٹیم کے کسی بھی فرد کا حق ضائع نہیں ہوتا۔

 

ٹیم پر کمیشن کا طریقہ:

ٹیم لیڈر کے فیصد اور ٹیم کے رکن کے فیصد کے فرق کو 35% سے ضرب دی جاتی ہے، پھر اسے رکن کے جمع کردہ پوائنٹس کی تعداد سے ضرب دیا جاتا ہے۔ ممبر اور اس کی ٹیم کی طرف سے جمع کردہ پوائنٹس ممبر کے مجموعی اکاؤنٹ میں تب تک رہتے ہیں جب تک وہ ”اسٹار ایجنٹ“ کا درجہ حاصل نہ کر لے۔

 

میں اپنے سوال اور اس کی وضاحت کی طوالت پر معذرت خواہ ہوں۔ اللہ آپ کو خلافتِ راشدہ کے قیام کے لیے محفوظ رکھے۔ امید ہے کہ میں نے سوال کو واضح کر دیا ہے۔ اللہ آپ کو اجر دے اور ہمیں اور آپ کو وہ کچھ کرنے کی توفیق دے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہو اور وہ اس سے راضی ہو۔ (اختتام)

 

 

جواب:

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

سب سے پہلے، آپ کی نیک دعاؤں کے لیے اللہ آپ کو جزائے خیر عطا کرے، اور ہم بھی آپ کے لیے نیک دعائیں کرتے ہیں۔

          1-کمپنی سے معاملات کے پہلے طریقے کے بارے میں:

 

آپ نے سوال میں ذکر کیا کہ آپ کمپنی سے مصنوعات تھوک قیمت پر خرید لیتے ہیں، پھر اسے  بیچتے ہیں اور منافع کماتے ہیں۔ اس کے علاوہ، اگر آپ کمپنی کی مقررہ شرائط کے مطابق مصنوعات کا ایک مخصوص تناسب فروخت کرتے ہیں تو آپ کو کمپنی کی طرف سے اضافی منافع (کیش بونس) ملتا ہے۔ یعنی کمپنی خود کو اس بات کا پابند بناتی ہے کہ اگر آپ مطلوبہ تناسب میں مصنوعات ماہانہ فروخت کرتے ہیں تو آپ کو کیش بونس دیا جائے گا، جو غالباً صارفین کو اپنی فروخت میں اضافہ کرنے کی ترغیب دینے کے لیے ہے ...اگر تو معاملہ ویسا ہی ہے جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا، تو یہ طریقہ شرعی طور پر جائز ہے کیونکہ مصنوعات کو تھوک قیمت پر خریدنا اور منافع کے ساتھ فروخت کرنا جائز ہے اور یہ تجارت کا ایک معروف طریقہ ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں بھی شامل ہے،

 

﴿وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾

”اور اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام کیا ہے“ (البقرۃ؛ 2:275)

 

نیز، کمپنی آپ کو اس شرط پر کیش بونس دینے کا وعدہ کر سکتی ہے کہ آپ ایک مخصوص تناسب میں اشیاء فروخت کریں، اور یہ ایک تحفہ کے زمرے میں آتا ہے، جیسا کہ ہم نے اسی حوالے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں 14 مئی 2007ء کو ذکر کیا تھا کہ: [اگر کسی کو ایک مخصوص مقدار خریدنے پر اضافی رقم، تحفہ یا اس جیسی کوئی چیز دی جائے تو یہ جائز ہے۔ اور یہ فروخت درست ہے، اور اضافی رقم تحفہ کے زمرے میں آتی ہے، جو کہ جائز ہے]۔

 

تاہم، کمپنی کے ساتھ اس لین دین کا جواز دو شرائط پر منحصر ہے:

پہلی شرط:آپ کی خریداری مارکیٹ میں تھوک قیمت کے برابر ہو، یعنی تھوک قیمت کی حد میں ہو اور اس حد سے تجاوز نہ کرے کہ یہ خریدار سے دھوکہ دہی کے زمرے میں آ جائے کہ اسے یہ دھوکہ دیا گیا ہو کہ اسے کیش بونس ملے گا ...وغیرہ۔ دھوکہ دہی ناجائز ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے ذکر کیا کہ اسے بیع میں دھوکہ دیا جا رہا تھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: «إِذَا بَايَعْتَ فَقُلْ لَا خِلَابَةَ»”جب تم بیچو تو کہو: دھوکہ نہیں“۔ اس حدیث میں لفظ ”خِلَابَةَ“ – 'خ' پر کسرہ کے ساتھ ہے اور اس کا مطلب دھوکہ یا فریب ہے۔ دھوکہ دینا ممنوع ہے۔

 

دوسری شرط:

یہ طریقہ کار دوسرے طریقے سے آزاد ہو، یعنی پہلا طریقہ دوسرے طریقے سے الگ ہو اور اس پر منحصر نہ ہو۔ اگر یہ دوسرے طریقے سے جڑا ہوا ہو یا اس کے لیے شرط ہو، تو پھر جو کچھ ہم دوسرے طریقے کے بارے میں ذکر کریں گے، وہ اس پر بھی لاگو ہوگا۔

 

2-کمپنی سے معاملات کے دوسرے طریقے کے بارے میں:

جو کچھ سوال میں ذکر کیا گیا ہے، وہ واضح نہیں ہے، لیکن لگتا ہے کہ یہ عام نیٹ ورک مارکیٹنگ سے زیادہ مختلف نہیں ہے اور ہم نے نیٹ ورک مارکیٹنگ کے موضوع پر پہلے بھی کئی بار جوابات دیئے ہیں، اور وضاحت کی ہے کہ یہ شرعی طور پر جائز نہیں۔

 

میں ان جوابات میں سے آپ کے لئے دو کا ذکر کروں گا، جو آپ کے سوال سے ملتے جلتے ہیں:

 

پہلا :

19 اگست، 2015ء کو سوال کا جواب، جو Quest Net کمپنی کے بارے میں تھا، جو نیٹ ورک مارکیٹنگ کی ایک قسم ہے۔ اس کا متن درج ذیل ہے:

 

Quest Net] کمپنی کی حقیقت اور اس کے طریقہ کار کا جائزہ لینے کے بعد، یہ واضح ہوتا ہے کہ اگرچہ معاملات کے مختلف طریقۂ کار کے باوجود اس کمپنی کا تصور ایک ہی ہے، یعنی کمپنی ان مارکیٹرز کے ساتھ معاملات کرتی ہے جو اس کے لیے خریدار  لاتے ہیں اور انہیں مخصوص شرائط کے مطابق کمیشن دیتی ہے، مطلب یہ کہ وہ کمپنی کے لیے بروکر ہوتے ہیں جو کمپنی کے لئے خریدار لاتے ہیں اور ان کے بدلے کمیشن لے لیتے ہیں ...اس لین دین کے جائزے سے درج ذیل امور واضح ہوتے ہیں:

 

پہلی بات: اس قسم کی کمپنیاں مختلف مصنوعات کو اس مارکیٹنگ نیٹ ورک کے ذریعے کرتی ہیں، اور ان کمپنیوں کی شرط ہوتی ہے کہ جو شخص ان کی مصنوعات کی مارکیٹنگ کرنا چاہے، وہ ان مصنوعات میں سے کچھ خریدے۔ اس کے بعد ہی وہ اسے حق دیتی ہیں کہ وہ خریدار لا سکے اور اس کے بدلے میں کمیشن حاصل کرے (یعنی وہ کمپنی کا بروکر بنے جو خریدار لائے اور کمپنی سے کمیشن لے)۔ کمپنی اس وقت تک کمیشن نہیں دیتی جب تک وہ چھ خریدار نہ لائے (وسطی ایشیا کے سوال کے مطابق)، یا دو خریدار نہ لائے (کسی اور علاقے کے سوال کے مطابق)… یعنی کمپنی کے اس پروگرام کے مطابق جو اس نے اس مقصد کے لیے تیار کیا ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، پہلا خریدار ان دو (یا چھ) خریداروں پر کمیشن حاصل کرتا ہے جو وہ لے کر آیا ہوتا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ پہلے دو کے ذریعے لائے گئے مزید چار یا چھ خریداروں پر بھی کمیشن حاصل کرتا ہے۔

 

اور مارکیٹنگ کا کام ”بروکریج“ اسی طرح جاری رہتا ہے، یعنی بروکریج کے تسلسل یا مارکیٹنگ نیٹ ورک کی شکل میں۔

 

دوسری بات:

اس قسم کا کاروبار شرعی طور پر ممنوع ہے، اور اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:

1- کمپنی یہ شرط لگاتی ہے کہ ”مارکیٹر“ کو اس کی مصنوعات لازمی خریدنی ہوں گی تاکہ وہ بروکر کے طور پر کمیشن حاصل کرنے کا حق رکھے، یعنی وہ کمپنی کے لیے خریدار لائے اور ان پر کمیشن لے، چاہے یہ کمیشن چھ خریدار لانے کے بعد ملے یا دو خریدار لانے کے بعد۔

 

اس کا مطلب ہے کہ خرید و فروخت کا معاہدہ اور بروکریج کا معاہدہ ایک ہی معاہدے میں شامل ہیں یا ایک ہی معاہدہ میں دو معاہدے شامل ہیں، یا دو معاملات کو ایک معاملہ کر دیا گیا ہے کیونکہ یہ ایک دوسرے پر مشروط ہیں اور ایسا کرنا ممنوع ہے، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: «نَهَى رَسُولُ اللهِ ﷺ عَنْ صَفْقَتَيْنِ فِي صَفْقَةٍ وَاحِدَةٍ» ”رسول اللہ ﷺ نے ایک سودا میں دو سودوں سے منع فرمایا“۔ (احمد نے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن مسعود سے اور انہوں نے اپنے والد کے حوالے سے روایت کیا ہے)۔ یعنی اگر میں آپ سے کہوں: اگر آپ مجھے فروخت کریں تو میں آپ سے کرایہ پر لوں گا یا آپ کے لیے بروکری کروں گا یا آپ سے خریدوں گا… وغیرہ۔ یہ واضح ہے کہ سوال کے مطابق یہی حقیقت موجود ہے، کیونکہ فروخت اور بروکریج ایک ہی معاہدے میں شامل ہیں، یعنی کمپنی سے خریداری کی ذمہ داری بروکریج کے کام کی شرط ہے، یعنی کمپنی کے لیے خریداروں کو لے کر آنے پر کمیشن کے ساتھ مارکیٹنگ کرنا۔

 

2- بروکریج ایک معاہدہ ہے بیچنے والے اور اس شخص کے درمیان جو اس کے لیے خریدار لاتا ہے۔ اس معاہدے میں بروکریج کا کمیشن صرف ان خریداروں پر دیا جاتا ہے جنہیں وہ شخص خود لائے، نہ کہ ان پر جو دوسرے لوگ لاتے ہیں۔ کمپنی کے مذکورہ لین دین میں بروکریج کا کمیشن مارکیٹر کو ان خریداروں پر دیا جاتا ہے جنہیں وہ خود لے کر آیا ہوتا ہے، اور ان پر بھی جو دوسرے لوگ لاتے ہیں، جو کہ بروکریج کے معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔

 

3- کمپنی سے خریداری کی قیمت دھوکہ دہی کے ساتھ مشروط ہے، اور اگرچہ خریدار اس بات سے واقف ہوتا ہے، لیکن معاملہ دھوکہ دہی سے خالی نہیں ہے کیونکہ کمپنی اپنے کاروبار کو فروغ دینے کے لیے ”چالاک“ طریقے استعمال کرتی ہے، جس کے نتیجے میں خریدار کمپنی کی مصنوعات کے لیے ایک غیر معمولی قیمت ادا کرتا ہے، جو حقیقی قیمت کے ایک چھوٹے سے حصے کے برابر بھی نہیں ہوتی ... یہ سب اس لیے ہوتا ہے کیونکہ کمپنی خریدار کے لیے ایک ”روشن“ مستقبل کو فروغ دیتی ہے، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ اسے کمپنی کی مصنوعات کی مارکیٹنگ کے بدلے کمیشن ملے گا، ان خریداروں پر بھی جنہیں وہ کمپنی کے لیے لاتا ہے، اور ان خریداروں پر بھی جنہیں وہ پہلے لائے گئے افراد لاتے ہیں !

 

جب خریدار مزید خریدار نہیں لا سکتا، خاص طور پر خریداروں کی اس لڑی کے آخر والے کیس میں، تو وہ دھوکہ دہی میں گِر جاتا ہے اور وہ زیادہ قیمت کھو دیتا ہے جو اس نے ایسی مصنوعات کے لیے ادا کی تھی جو اس قیمت کے دسویں حصے کے بھی قابل نہ تھی ! دھوکہ دہی اسلام میں حرام ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «الخَدِيعَةُ فِي النَّارِ…» ”دھوکہ دہی آگ کی طرف لے کر جاتی ہے“ (بخاری نے ابن ابی اوف کے حوالے سے روایت کیا)۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا جس کے ساتھ بیع و فروخت میں دھوکہ کیا جا رہا تھا: «إِذَا بَايَعْتَ فَقُلْ لَا خِلَابَةَ» ”جب تم بیع کرو تو کہو’کوئی دھوکہ نہیں‘ “ (بخاری نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت کیا)۔ ”خِلَابَہ“ دھوکہ دہی کو کہتے ہیں۔ حدیث کے لغوی الفاظ اور مفہوم دونوں اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ دھوکہ دہی حرام ہے۔ لہٰذا یہ لین دین شریعت کے مطابق جائز نہیں۔

 

خلاصہ یہ ہے کہ سوالات میں بیان کیے گئے طریقے کے مطابق کمپنی ” Quest Net“ کے ساتھ لین دین اسلامی قانون کے خلاف ہے…] اقتباس کا اختتام۔

 

یہی وہ رائے ہے جو میں اس معاملے میں سب سے مضبوط سمجھتا ہوں، اور اللہ بہتر جاننے والا اور حکمت والا ہے۔

اس سب کا مطلب یہ ہے کہ اوپر ذکر کردہ دوسرا طریقہ اسلامی قانون کے مطابق نہیں ہے۔ 07 نومبر، 2024ء]

مجھے امید ہے کہ اوپر دیا گیا ہمارا جواب کافی ہوگا۔ اللہ مدد کرنے والا ہے۔

 

اختتام۔

 

آپ کا بھائی

عطاء بن خلیل ابو الرشتۂ

 

17 جمادی الثانی 1446 ہجری

19 دسمبر، 2024 عیسوی

Last modified onمنگل, 14 جنوری 2025 13:36

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک