ازبکستان کے جابر کے قیدخانوں سے شہداء کےجنازوں کا سلسلہ جاری ہے
- Published in سینٹرل میڈیا آفس
- سب سے پہلے تبصرہ کرنے والے بنیں
- الموافق
پریس ریلیز
وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُواْ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعونَ
"صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو کہ جب انھیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہمارا مالک تو اللہ ہی ہیں اور اسی کی جانب ہمیں لوٹنا ہے"(البقرۃ:156)
ازبکستان کے جابر،مجرم اوریہودی کریموف کے ہاتھوں حزب التحریر کے شباب کی شہادتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ 2ستمبر2013 کو بھائی نیمانوف کریم جون رَستامووچ شہید ہوگئے اور اللہ کے حکم سے جنت کے حقدار ٹہر گئے۔ ہم دعا گو ہیں اور اللہ کے سواء کسی کی تعریف نہیں کرتے۔ وہ 1975 میں تاشقند میں پیدا ہوئے اور شہادت کے وقت ان کی عمر 38 برس تھی۔
اللہ ہمارے بھائی نیمانوف پر اپنی رحمتیں نازل کرے، حزب التحریر میں شامل ہونے سے قبل وہ ازبک پولیس میں کام کرتے تھے لیکن حزب التحریر کے شباب سے ملنے اور اسلامی طرز زندگی کی بحالی کے لیے اُن کی دعوت اورازبکستان کی مجرم حکومت کے خلاف اُن کی جدوجہد کو جاننے کے بعد، انھوں نے اپنی نوکری چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور حزب التحریر میں شامل ہوگئے تاکہ وہ کریموف اور اس کی ظالم حکومت کے جرائم میں شمولیت اور حمائت سے محفوظ رہ سکیں اور ایسا انھوں نے صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے کیا۔ اس طرح سے نیمانوف نے رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے مطابق خلافت راشدہ کے قیام اور اسلامی طرز زندگی کے اسرنو احیاء کے لیے حزب التحریر کے ساتھ کام کرنا شروع کیا۔
جیل میں کریموف کے غنڈوں کے ہاتھوں تذلیل اور جان سے مارنے کی دھمکیوں کے باوجود ہمارے بھائی نیمانوف کے جذبہ استقامت اور شوق شہادت کو ختم نہ کیا جاسکا۔ جب جابر اس کے ایمان کو کمزور کرنے میں ناکام ہوگیا تو اس سے کہا جانے لگا کہ وہ صرف یہ لکھ دے کہ وہ حزب التحریر کو مسترد کرتا ہے اور ظالم کریموف اور اس کے ساتھیوں سے رحم کی اپیل کرتا ہے تو اس کو رہا کردیا جائے گا۔ لیکن آفرین ہے نیمانوف پر ۔ وہ ظالم کس طرح اس کے جذبہ استقامت کو توڑ سکتے تھے جس نے اپنی روح اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سپرد کردی تھی۔
بدنام زمانہ قید خانہ نمبر 64/36میں ان مجرموں نے انتہائی بھیانک جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے نیمانوف کو ٹیوبرکلاسس کے وائرس کا انجکشن لگا دیا۔ اور جب وہ اس بیماری کا شکار ہوگیا تو اس وقت تک اسے علاج کی سہولت فراہم نہیں کی گئی جب تک اسے خون کی الٹیاں آنی شروع نہیں ہو گئیں۔
ہمارے بھائی کی شہادت کی کچھ دنوں کے بعد وہ انگورڈ18کے قید خانے سے اُس کی پاک و مقدس لاش اُس کے گھر لائے۔ اپنے اس خوفناک جرم کو چھپانے کے لیے کہ کہیں یہ خبر عوام الناس تک نہ پہنچ جائے انٹیلی جنس کے کئی افراد اور مقامی کونسل کے ممبران نے شہید کے گھر والوں کوشہید کا جسد خاکی جلد دفنانے پر مجبور کیا اور اس کی نمازے جنازہ بھی ادا کرنے کی اجازت نہیں دی۔
ان بزدلوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ اسلام کے اِن داعیوں سے اُن کی موت کے بعد بھی ویسے ہی خوفزدہ ہوتے ہیں جیسے کہ اُن کی زندگی میں ہوتے تھے۔
ہمارا بھائی اپنے پسماندگان میں دو بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑ گیا ہے اور یہ بچے بھی اُن یتیموں میں شامل ہوگئے ہیں جن کے والدین کو ظالم کریموف کی حکومت نے قتل کردیا تھا۔ اللہ کریموف کو تباہ کرے۔
وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبيلِ اللّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاء وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَ
" جو اللہ کی راہ میں قتل کردیے جائیں انھیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم اس کی سمجھ نہیں رکھتے "(البقرۃ:154)