الإثنين، 23 محرّم 1446| 2024/07/29
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن افواج پاکستان کو کمزور اور امریکی راج کو مضبوط کرے گا

شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن ملک میں امریکی فتنے کی جنگ کو مزید بڑھانے کا باعث بنے گا۔ یہ فوجی آپریشن پاکستان اور افواج پاکستان کو کمزور اور پاکستان میں امریکی راج کو مزید مستحکم کرے گا۔ حکمرانوں کی غداری اورامریکی غلامی کا ثبوت اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتا ہے کہ ملک کی خودمختاری اور مسلمانوں کو ڈرون حملوں سے بچانے کے بجائے امریکہ کو پیش کش کی جا رہی ہے کہ امریکہ ہدف بتائے اور پاکستان خود F-16 طیاروں سے بمباری کر کے اپنے ہی مسلمان شہریوں کو شہید کرے گا۔ یوں آقا کو نہ ہی زحمت اٹھانی پڑے گی اور نہ ہی خرچہ! یہ ہیں سیاسی و فوجی قیادت میں موجودوہ غدار جنہوں نے پاک فوج کو کرائے کی فوج (Mercenary Army) بنا کر رکھ دیا ہے۔ یہ غدار حکمران مسلم دنیا کی سب سے بڑی فوج کو کشمیر اور سیاچن کو آزاد کروانے کے لیے استعمال نہیں کرتے لیکن اپنے آقا امریکہ کے حکم پر ملکی معیشت کو 70 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان پہنچا کر ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے خلاف کھڑا کر کے ملک کو فتنے کی جنگ میں جھونک دیتے ہیں۔ اس سے قبل سوات اور قبائلی علاقوں میں ہونے والے فوجی آپریشنز نہ تو حکومتی رٹ کو قائم کر سکے اور نہ ہی ملک میں جاری فتنے کی جنگ کے خاتمے کا پیش خیمہ بن سکے لہذا اب شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن مزید ملک کی سیاسی ،معاشی اور دفاعی تباہی کا باعث بنے گا۔ اس سے بڑھ کر مسلمانوں کے خلاف فوجی آپریشن کرنا حرام ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُهُ وَمَالُهُ وَعِرْضُهُ

ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون، اس کی عزت اور مال حرام ہے (مسلم )۔

یہ کس قسم کی قیادت ہے جو سلالہ میں بے دردی سے قتل کیے گئے فوجیوں کی شہادت پر نہ تو ان کا خوم کھولتا ہے اور نہ ہی وہ اپنی فوجوں کو حرکت میں لاتے ہیں لیکن اسی قاتل امریکہ کے کہنے پر اپنی فوج اپنے ہی شہریوں کو قتل کرنے کے لیے بھیجنے پر باخوشی تیار ہیں۔ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کی یہ پالیسی ہے کہ فوج کو ملک میں ہی چاروں طرف مصروف کر دیا جائے جس کے نتیجے میں افواج پاکستان بھارت کا مقابلہ کرنے کا قابل ہی نہیں رہے گی اور پاکستان کو بھارت کا طفیلی ریاست بنا دیا جائے۔ اور یقینا یہی امریکہ کی پالیسی ہے کیونکہ ایک مضبوط فوج جس کی پشت پر پوری قوم کھڑی ہو امریکہ اور بھارت دونوں کو منظور نہیں۔ صدام حسین نے بھی حکومتی رٹ کو قائم کرنے کے نام پر عراق کے جنوبی اور شمالی حصوں میں فوج کشی کی اور اپنے ہزاروں شہریوں کو قتل کیا لیکن جب امریکہ عراق پر چڑھ دوڑا تو وہ فوج ملک کا دفاع تو کیا کرتی اپنا دفاع بھی نہ کر سکی۔ حزب التحریر افواج پاکستان میں مخلص افسران کو ایک بار پھر پکارتی ہے کہ غداروں کی غداریوں پر خاموشی ملک اور فوج دونوں کو فنا کر دے گی جس طرح عراق میں ہوا۔ اپنی خاموشی کو توڑیں، سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کو اکھاڑ پھنکیں اور خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کو نصرة دیں۔ یہ خلافت ہی ہو گی جو افواج اور امت کو یکجا کر کے نہ صرف پاکستان سے بلکہ اس خطے سے امریکی راج کا خاتمہ کرے گی۔

شہزاد شیخ
پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

 

Read more...

کیانی افواجِ پاکستان سے ہر اس آفیسر کو نکال دینا چاہتا ہے جو امریکی راج کا خاتمہ چاہتا ہو

3 اگست 2012 کو چیف آرمی سٹاف، جنرل کیانی نے افواجِ پاکستان کے پانچ افسران کے خلاف قید بامشقت کی سزا کی منظوری دے دی۔ ان افسران میں انتہائی مشہور اور باعزت آفیسر بریگیڈئر علی خان بھی شامل ہیں۔

حزب التحریر کا موقف ہے کہ بریگیڈئر علی خان جیسے افسران کے خلاف کورٹ مارشل کی کاروائی اس امریکی پالیسی کا حصہ ہے جس کے تحت مسلم افواج میں سے ہر اس مخلص اور قابل افسر کو نکال دیا جائے جو ایک مضبوط اور آزاد امت مسلمہ کے تصور کو عملی جامہ پہنانا چاہتا ہو۔ یہ پالیسی اس لیے اپنائی گئی کیونکہ امریکہ کئی سالوں سے اس اندیشے کا شکار تھا کہ کہیں مسلم افواج کے معاملات اس کے قابو سے باہر نہ نکل جائیں۔ مارچ 2009 کو اس وقت کے سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹروس کے مشیر ڈیوڈ کلکِلن نے واشنگٹن پوسٹ میں لکھے گئے اپنے مضمون "امریکہ کی جنگ" میں لکھا کہ "پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کی آبادی 173 ملین ہے، اوراس کے پاس 100 نیوکلیئر ہتھیار ہیں، اور اس کی فوج امریکہ کی فوج سے بڑی ہے...ہم ایسے نقطے پر پہنچ گئے ہیں کہ...انتہاء پسند اقتدار میں آجائیں گے...اور یہ ایسی صورتِ حال ہے کہ آج کی دہشت گردی کے خلاف جنگ اس خطرے کے سامنے کچھ بھی نہیں"۔ یہی وہ امریکی پالیسی ہے جس کے تحت بنگلادیش میں امریکی ایجنٹوں نے، جن کی قیادت شیخ حسینہ کر رہی ہے، بنگلادیش کی افواج کے سینکڑوں مخلص افسران کو گرفتار کیا جنھوں نے حکمرانوں کی امریکہ نواز پالیسی کے خلاف مزاحمت کی اور اسلام کے لیے ایک موقف اختیار کیا۔ یہی وہ پالیسی ہے جس پر شام میں کئی دہائیوں سے عمل ہو رہا تھا لیکن ان مخلص اور بہادر افسران کی وجہ سے حال ہی میں یہ پالیسی شام کے حکمران کے سر پر ہی اُلٹ گئی جب ان افسران نے خلافت کے قیام کا مطالبہ کرنے والے عوام کا ساتھ دے دیا اور ظالم بشار کی حمائت سے ہاتھ کھینچ لیا۔

حزب التحریر پوچھتی ہے کیا یہ امریکہ کی پالیسی نہیں کہ کیانی اور ظہیر الاسلام جیسے افسران کو امریکی مفادات کی تکمیل میں ان کی بے پناہ کاوشوں کے عوض ترقیوں اور انعامات سے نوازا جائے؟ کیا یہ امریکی پالیسی نہیں ہے کہ امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے افواجِ پاکستان کو اپنے ہی عوام کے خلاف کھڑاکر دیا جائے جبکہ افواجِ پاکستان نے تو بیرونی حملہ آوروں کے خلاف اپنے مسلمان بھائیوں کے تحفظ کی قسم کھائی ہے؟ کیا اسی پالیسی کو قبائلی علاقوں میں نافذ نہیں کیا گیا اور کیا کیانی اور ظہیر الاسلام نے فتنے کی اس جنگ کو کراچی سمیت ملک کے بڑے شہروں تک پھیلانے پر اپنی آمادگی کا اظہار نہیں کیا؟ کیا یہی وہ پالیسی نہیں ہے جس کے تحت ایسے ہر مخلص آفیسر کو عبرت کا نمونہ بنا دیا جاتا ہے جو ڈرون حملوں، ایبٹ آباد اور سلالہ پر حملے اور امریکی راج کے خلاف ردعمل کا اظہار کرتا ہے تا کہ ان غداریوں کے خلاف کوئی دوسرا آواز اٹھانے کی جرأت نہ کرے؟ تو ہم پوچھتے ہیں کہ کس کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے؟ بریگیڈئر علی خان جیسے مخلص افسران کا یا کیانی اور ظہیر الاسلام جیسے غداروں کا۔

حزب التحریر کیانی اور واشنگٹن میں موجود اس کے آقاؤں کو بتا دینا چاہتی ہے کہ اگر وہ ایک ایک افسر کے گھر میں بھی گھس جائیں تب بھی ناکام رہیں گے بالکل ویسے ہی جیسے فرعون موسی علیہ اسلام کی تلاش میں ناکام و نامراد ہوا تھا۔ حزب التحریر افواجِ پاکستان کے مخلص افسران کو پکارتی ہے کہ وہ خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کو نصرة دیں۔ مخلص اور بہادر افسران کے ذریعے اللہ وہ دن جلد لائے گا جب اسلام کی سچائی کی بدولت ان مجرم غداروں کے فساد اور باطل کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ فرماتا ہے:


لِيُحِقَّ الْحَقَّ وَيُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ
"تاکہ اللہ حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا ثابت کر دے گو یہ مجرم لوگ ناپسند ہی کریں"۔ (الانفال۔8)


میڈیا آفس حزب التحریر ولایہ پاکستان

Read more...

میانمار کے مسلمانوں کا قتل عام پوری دنیا کے سامنے بے دھڑک جاری ہے جبکہ اس کا مجرم صدر مسلمانوں کو جلا وطن کرنے کی دھمکی دے رہا ہے

رمضان کے مبارک مہینے کے پہلے چند دنوں میں اور پچھلے چھ ہفتوں سے مسلسل میانمار کے مسلمانوں کا منظم طریقے سے قتل عام پوری دنیا کے سامنے جاری ہے جبکہ نام نہاد عالمی برادری نے اس قتل عام پر مجرمانہ خاموشی اختیار کررکھی ہے اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عرب اور عالمی میڈیا نے اس ظالمانہ اور مجرمانہ فعل پر اپنی آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ ایسا نظر آتا ہے کہ جیسے پوری دنیا نے ناصرف میانمار کے مسلمانوں کے خلاف سازش کی ہوئی ہے بلکہ وہ وہ ان مسلمانوں کے وجود کو مٹا نے کا منصوبہ رکھتے ہیںیہاں تک کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا 19جولائی2012کو جاری ہونے والے بیان کو بھی میڈیا میں کسی قسم کی کوئی پذیرائی نہیں ملی۔

اس خونی اور انتہائی خوف ناک مجرمانہ فعل کے بعد جس میں دو ہزار سے زائد مسلمانوں کو قتل کیا گیا اور نوے ہزار سے زائد بے گھر ہو گئے ،میانمار کے قاتل صدر Thein Seinکو 11جولائی بروز بدھ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر Antonio Jaterresسے ملاقات کے دوران یہ کہنے کی ہمت ہوئی کہ میانمار میں موجود اقلیتی روہنگیا مسلمانوں کو پناہ گزینوں کے کیمپوں میں منتقل کردیا جائے اور اس کے بعد انھیں ملک سے بے دخل کردیا جائے۔اس نے اس ملاقات کے دوران مزید کہا کہ یہ ممکن نہیں کہ ان روہنگیا لوگوں کو قبول کیا جائے جو ملک میں غیر قانونی طور پر داخل ہوئے ہیں اور وہ ہماری نسل سے بھی نہیں ہیں اور یہ لوگ ہماری قومی سلامتی کے لیے خطرہ بھی ہیں۔

یہ کس قسم کے انتہائی متعصبانہ اور قابل مزاحمت خیالات ہیں کہ رنگ،نسل اور مذہب کی بنیاد پرلوگوں کی درجہ بندی کی جارہی ہے۔جبکہ اسلام اہل کتاب اور مشرکوں کے ساتھ بغیر کسی امتیاز کے وہی سلوک روا رکھتا ہے جس کے مسلمان مستحق ہوتے ہیں۔کتنا بڑا فرق ہے انسانوں کے بنائے ہوئے ناقص اور مجرمانہ نظام میں اوراسلام کے مثالی نظام میں جو کہ انتہائی اعلی اور عمدہ صفات کے قوانین سے مزین ہے۔ان لوگوں کو صرف اس لیے قتل کیا جارہا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہے اور انھیں قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا جارہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے بالکل درست فرمایاکہ ''اگر تمھیں شرم نہیں تو جو چاہے کرو‘‘۔

میانمار میں تقریباًآٹھ لاکھ روہنگیا مسلمان صوبے اراکان میں رہتے ہیں ۔ اقوام متحدہ ان مسلمانوں کو دنیا کی سب سے زیادہ مظلوم اور کمزور اقلیت قرار دیتی ہے جن کے خلاف انتہائی آسانی سے ظلم و جبر کا سلوک روا رکھا جاسکتا ہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ میانمار کی حکومت روہنگیا مسلمانوں کو اپنا شہری تسلیم نہیں کرتی بلکہ انھیں غیر قانونی تارکین وطن قرار دیتی ہے جو بنگلادیش سے آئے ہوئے ہیں۔
میانمار میں ہونے والے واقعات کے متعلق کسی بھی قسم کی مصدقہ خبروں اور اطلاعات کی غیر موجودگی میں ہم روہنگیا مسلمانوں کی انتہائی قابل رحم حالت زار کے حوالے سے اقوام متحدہ کے کمشنربرائے پناہ گزین کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہیں جس کے مطابق'' میانمار میں روہنگیا ہر طرح کے جبر کا شکار ہیں جس میں جبری مشقت، زبردستی ان کا مال لے لینا،نقل و حرکت پر پابندی، رہائشی حقوق کی کمی، شادی کے غیر منصفانہ قوانین اور زمین ضبط کر لینا شامل ہے‘‘۔

برما کے مسلمانوں کے قتل عام کے تین فریق ذمہ دار ہیں:

.1میانمار کی مجرم ریاست جو کہ مغرب کی آلہ کار ہے اور اس کے خلاف ہمارا وہی موقف ہے جو دیگر مغربی ممالک کے خلاف ہے کہ اگرچہ جبر و استبداد کے دن کتنے ہی طویل کیو ں نہ ہوجائیں بلا آخر اس ملک کے لیے افسوس اور خسارے کا باعث ہی ہوتا ہے۔فرعون کے جبر اور غرورکا دور اگر چہ بہت طویل تھا لیکن بلا آخر اللہ نے اس کو ذلیل ورسوا کیا اور اس کو تباہ کردیا۔اور ظالموں کے لیے اللہ کا یہی قانون ہے۔

.2 میانمار کی پڑوسی ریاست بنگلادیش ایک مسلم ریاست ہے اور اس کی آبادی کی اکثریت مسلمان ہے لیکن اس نے اپنی سرحدوں سے چند گز کے فاصلے پر ہونے والے قتلِ عام اور بے دخلی کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا۔لہذا بنگلادیش کی ریاست بھی اتنی ہی غدار اور مجرم ہے جتنا کہ میانمار کی ریاست۔

.3میڈیا بھی اس ظلم میں معاون ہے۔کوئی ایمان دارانہ ،شفاف اور مقصد سے مزین خبر میسر نہیں ہے ۔ ''رائے اور اختلاف رائے‘‘اور''مزید جاننا‘‘ کے نعرے محض جھوٹ اور دھوکہ ہیں۔ صرف وہ کچھ جانیں جو وہ آپ کو بتانا چاہتے ہیں اور میڈیا کایہ دعوہ کہ ہم حقیقت کواس کی اصل صورت میں پہنچاتے ہیں بھی ایک جھوٹ ہے کیونکہ وہ حقیقت کو بھی جھوٹ کا تڑکا لگا کر ویسے دیکھاتے ہیں جیسا کہ ان کے آقا دنیا کو دیکھانا چاہتے ہوں۔لہذا میڈیا بھی استعماری ریاستوں کا ایک باج گزار غلام ہے۔

اگرچہ ہم نے ان لوگوں کی نشان دہی کردی ہے جن کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگین ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ صرف یہ لوگ ہی اس کے ذمہ دار ہیں۔ درحقیقت وہ تمام مسلمان اس کے ذمہ دار ہیں جو ان کی مددو معاونت کرسکتے ہیں۔تو کیا چیز ہے جو میانمار کے پڑوسی مسلمان ممالک بنگلادیش،انڈونیشیا اور ملائیشیا کے فوجیوں کو ان مسلمانوں کی مدد سے روکتی ہے۔کیا وہ اپنے مسلمان بھائیوں کواپنی آنکھوں کے سامنے بے دخل اور قتل ہوتے ہوئے نہیں دیکھ رہے؟کیا اسلام اور مسلمانوں کی محبت ان کے جسم اور روح کو اس ظلم کو روکنے کے لیے نہیں اکساتی؟کیا انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے الفاظ نہیں سنے کہ

((المسلمون نتنکافا دماو ھم ویسعی بذمتھم ادناھم، و ھم ید علی من سو اھم))

''مسلمانوں کا خون ایک جیسا(برابر)ہے،

ان کے ماتحت ان کی امان میں ہیں اور وہ ایک امت ہیں تمام دوسروں کو چھوڑ کر‘‘۔

ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ ہماری التجاوں کو جلد شرفِ قبولیت عطا فرمائیں کیونکہ ہمارے بھائیوں کی تکلیفیں بڑھتی جارہی ہیں اور اقوام ان پر ہر طرف سے ایسے جھپٹ رہی ہیں جیسا کہ وہ اپنا اپنا حصہ چاہ رہی ہوں۔ بہرحال ظلم و ناانصافی کی رات کتنی ہی طویل کیوں نہ ہوجائے اللہ کے حکم سے دوبارہ خلافت راشدہ قائم ہوگی جو دوبارہ انصاف کا بول بولا کرے گی اور ظالموں سے ان کے مظالم کا حساب لے گی اور دنیا کو ایک بار پھر انصاف کے زیور سے مزین کردے گی۔

حزب التحریرمیانمار میں اپنے بھائیوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کو دنیا کے سامنے لاتی رہے گی لیکن ہم امت سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اللہ کے حکم کے مطابق ایک خلیفہ ایک امام کو بیعت دیں جو ہم پر اللہ کے احکامات کے مطابق ہم پر حکومت کرے،مسلمانوں کے خون،مال اور عزت کی ظالموں اور مجرموں سے حفاظت کرے۔اور مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اور اللہ یقیناًآپ سے آپ کے بھائیوں کے متعلق سوال پوچھے گا اور آپ کا احتساب کرے گا۔

وَاللّہُ غَالِبٌ عَلَی أَمْرِہِ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُونَ
اللہ اپنے ارادے پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ بے علم ہوتے ہیں

عثمان بخاش
ڈائریکٹرمرکزی میڈیا آفس حزب التحریر

Read more...

التریمسا (شام) میں ہونے والا قتل عام دنیا بھر کے بے شرم حکمرانوں خصوصاً مسلم دنیا کے حکمرانوں کے منہ پر ایک بد نما داغ ہے

سلامتی کونسل میں موجود عالمی طاقتوں کے مجوزہ منصوبے میں دی گئی دس روز کی ڈیڈلائن کے اختتام سے قبل ہی، ظالم بشار کی حکومت نے، جو کہ نہتے شہریوں کے قتل عام کے لیے مشہور ہے، ایک بار پھر ان شہروں اور دیہاتوں پر ہر طرح کے اسلحے سے بمباری کا سلسلہ شروع کر دیا جنہوں نے انقلاب میں حصہ لیا۔ بشار کی حکومت اس طرح کا قتلِ عام حکومت کی مضبوطی اور رٹ کو ثابت کرنے کے لیے کرتی ہے۔ بشار کی فوجوں نے شام میں قتل ِعام کے باب میں ایک نئے باب کا اضافہ اس وقت کیا جب انھوں نے حما شہرکے نواح میں موجود ایک قصبے التریمسا میں دو سو تیس سے زائد نہتے بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کو قتل کر دیا۔ جمعرات 12 جولائی کی الصبح فوج نے اس پرامن علاقے کا محاصرہ کر لیا اورگھروں پر اندھا دھند بمباری شروع کر دی۔ اس کے بعد انھوں نے اسد کے پاگل کتوں شبیہا (بھوت) ملیشیا کو کھلا چھوڑ دیا جنھوں نے جان بچا کر بھاگنے والے خاندانوں کو کھلے میدانوں میں چاقوں اور خنجروں کے ذریعے قتل کرنا شروع کر دیا۔

اس سے قبل بشار الاسد نے 23 جون کو قائم ہونے والی اپنی جنگی حکومت کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عوام کو خبردار کیا تھا اور اس نے اس بات پر زوردیا تھا کہ حکومت کی تمام تر کوشش اس جنگ کو جیتنے کے لیے ہونی چاہیے۔ یہ اس صدر کی حقیقت ہے جس سے شام کے لوگ بھلائی کی امید رکھتے تھے اسی لیے عوام نے پہلے اس کے اقتدار پر غاصبانہ قبضے کے خلاف خاموشی اختیار کی تھی۔ اس خاموشی کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے عوام کو قتل کیا اور ان کے ٹکڑے کیے۔

یہ بات انتہائی قابل افسوس ہے کہ اس صورتحال میں کچھ لوگ غیر ملکی طاقتوں سے مدد کے طلبگار ہیں جنھوں نے بشار کو قوت بخشی اور ان تمام لوازمات سے نوازا جس کے ذریعے وہ اپنی بقا کی جنگ لڑ سکے۔ انھیں طاقتوں نے بشار کو ان مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کا موقع فراہم کیا جو اس کے اقتدار کا خاتمہ چاہتے ہیں اور انشاء اللہ عوام اب اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے کے جتنے قریب ہیں اس سے قبل کبھی بھی نہ تھے۔

امریکہ اور اس کا مقابلہ کرنے والی یورپی طاقتیں دونوں ہی اس وقت باغی تحریک کو قابو کرنے کے لیے بشار کے کسی متبادل کو تلاش کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ خودساختہ "اپوزیشن" اس انقلاب سے ہزاروں میل دور یورپ اور امریکہ کے آرام دہ شہروں میں بیٹھی ہے جبکہ انقلابیوں کو کسی قسم کی کوئی مدد حاصل نہیں سوائے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے۔ اس صورتحال نے مشرق و مغرب کی طاقتوں کی نیندیں حرام کر دیں ہیں۔ اسی لیے انھوں نے اس بات کا فیصلہ کیا کہ عوامی سطح پر روس اور اس کی اتحادی قاتل بشار کی حکومت کی حمائت کریں جبکہ امریکہ اور مفلوج زدہ یورپ کھوکھلے بیانات کے ذریعے ایسا کردار ادا کریں جیسے وہ بشار کی حکومت کے خلاف ہیں لیکن خفیہ طور پر یہ اب بھی بشار کے ساتھ ہیں اور اب بھی بشار کو اس بات کا موقع دے رہے ہیں کہ وہ معصوم لوگوں کے خون سے کھیلے۔ اوبامہ انتظامیہ کا روسی جنگی بحری بیڑے کا شام کی بندر گاہ ٹارٹوس کے دورے کو ایک معمول کی کاروائی قرار دینا آپ کے سامنے ہے۔ یہ تمام ممالک حقیقی قاتل ہیں اور شام کی مبارک سرزمین جو کہ شہداء کے خون سے سیراب کی گئی ہے سے ان ظالم طاقتوں کے اثر و رسوخ کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے۔ اس اثر و رسوخ کا خاتمہ اس طرح ہونا چاہیے کہ امریکہ کبھی بھی کسی خوبصورت ایجنٹ کے ذریعے اس سرزمین میں داخل نہ ہو سکے، جس کی امریکہ اس وقت شدید جد و جہد کر رہا ہے تاکہ وہ ایجنٹ مغربی سیکولر جمہوری نظام کو برقرار رکھتے ہوئے امریکہ کے اثر و رسوخ کو دوام بخشے۔

اس مجرم پاگل حکومت کو قائم رکھنے والے ستون گرنا شروع ہو چکے ہیں اور اس کو زندگی بخشنے والے اجزاء خود اپنی زندگی سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ فوج اور سفارتی حلقوں کے اعلی افسران کا حکومتی حمائت سے دستبرداری اور انقلاب کا حکومتی کنٹرول میں موجود دو بڑے اور اہم شہروں دمشق اور آلیپو تک پہنچ جانے کے بعد، آلیپو کے شہریوں نے پوری طاقت کے ساتھ حکومت کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا جبکہ دمشق میں بشار الاسد کی خواب گاہ سے چند گز کے فاصلے پر ماٹر شیل پھٹنے شروع ہو گئے۔ اور اب جب بشار کی حکومت اس مبارک انقلاب کو کچلنے میں مکمل طور پر ناکام ہو گئی ہے جس کا بھر پور اظہار دمشق کے بہادر تاجروں کی ہڑتال سے ہوتا ہے جن کو بشار اپنی خونی فوج کا سپاہی سمجھتا تھا، تو اس ظالم حکومت کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا کہ نہتے اور کمزور لوگوں کا قتل عام کرے۔

اے شام کے بہادر و شجاع لوگوں!

اللہ کی قسم آپ ضرور کامیاب ہوں گے۔ اللہ سنتا بھی ہے اور دیکھتا بھی ہے۔ اللہ آپ کے ساتھ بھی بالکل ویسے ہی ہے جیسا کہ اللہ اپنے بندے موسی علیہ سلام کے ساتھ تھا۔ اللہ آپ کی بھی مدد کرے گا اگر چہ اس میں وقت لگے۔ جیسا کہ موسی علیہ سلام اور ان کی قوم نے صبر و استقامت کے ساتھ فرعون اور اس کی فوج کے جبر کا سامنا کیا اور بغیر کسی مدد کے ایک لمبے سفر کو اختیار کیا یہاں تک کہ اللہ کی مدد آ گئی اور اللہ نے فرعون کو ڈبو دیا۔ اللہ آپ کے صبر پربھی بالکل ایسے ہی مدد کرے گا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:

(وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ)

ترجمہ:پھر ہماری چاہت ہوئی کہ ہم ان پر کرم فرمائیں جنہیں زمین میں بے حد کمزور کر دیا گیا تھا اور ہم انہیں کو پیشوا اور (زمین) کا وارث بنائیں۔ (القصص۔5)

چیرمین برائے انفارمیشن آفس حزب التحریر ولایہ شام

انجینئر ہشام البابا

Read more...

حزب التحریر کا شام کے مسلمانوں کی مزاحمت کے حق میں شام کے سفارت خانے کے سامنے مظاہرہ شام کے ظالم و جابر بشار کی حکومت کاخاتمہ اور خلافت کا قیام قریب ہے  

حزب التحریر نے بروز جمعرات 26 جولائی 2012 کو اسلام آباد میں شام کے سفارت خانے کے سامنے مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھا جن پر تحریر تھا "شام کے جابر کا خاتمہ قریب ہے اور اب وقت خلافت کے قیام کا ہے "اور "امت کی وحدت خلافت"۔ یہ مظاہرہ شام کے بہادر مسلمانوں کی جاری اس مزاحمت کی حمائت میں کیا گیا جس کو شروع ہوئے ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور اب دوسرے رمضان میں داخل ہو چکی ہے جبکہ اس دوران ہزاروں مسلمان شہید ہو چکے ہیں۔ یہ مظاہرہ ان مسلمانوں کی حمائت میں کیا گیاجوظالم و جابر بشار کے ٹینکوں اور طیاروں کی پروا نہ کرتے ہوئے "الشعب یرید خلافة من جدید" امت نئی خلافت کا قیام چاہتی ہے کا مطالبہ کرتے رہے اور صبر کے ساتھ افواج میں موجود اپنے بھائیوں سے خلافت کے قیام کے لیے نصرة طلب کرتے رہے۔ یہ مظاہرہ شامی مسلمانوں کے اس جزبہ ایمان کی تعریف میں کیا گیا جس نے شامی افواج کے ان افسران کوبھی اس حد تک کو متاثر کیا کہ وہ جابر کے خلاف امت کی حمائت میں امت کے ساتھ جڑ گئے جبکہ وہ اس مزاحمتی تحریک کی ابتداء میں بشار کے ساتھ کھڑے تھے۔ مظاہرین نے اللہ سبحان و تعالی سے دعا کی کہ اس مبارک ماہ رمضان میں امت کوشام کی مقدس سرزمین میں اس کی ریاست خلافت عطا فرمادیجئے۔ یہ وہ مقدس سرزمین ہے جس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

أَلاَ إِنَّ عُقْرَ دَارِ الإسلام الشَّامُ»

یقیناًاسلام کے مسکن کا مرکز شام کی سرزمین ہے

شام وہ سرزمین ہے جہاں عیسی ابن مریم اتارے جائیں گے اور دجال سے لڑیں گے۔ اور شام کی سرزمین وہ زمین ہے جہاں ہند کو فتح اور اس کے حکمرانوں کو قید کرنے والے مسلمان حضرت عیسی سے ملاقات کریں گے۔ مظاہرین نے مسلم دنیا کی طاقتور ساٹھ لاکھ افواج میں سے سب سے زیادہ طاقت رکھنے والی افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران سے مطالبہ کیا کہ اسلام اور مسلمانوں کی پکار پر لبیک کہیں۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ وہ کیانی اور سیاسی و فوجی قیادت میں موجود اس کے چھوٹے سے ساتھی غداروں کے ٹولے کو اکھاڑ پھینکے۔ انھوں نے مخلص افسران سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ حزب التحریر کو نصرة دیں تا کہ نبوت کے طریقے پر خلافت کا قیام عمل میں لایا جائے اور پھر وہ خلافت تمام مسلم ممالک کوجوڑ کر دنیا کی سب سے طاقتور ریاست کہلائے۔

وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ (الروم: 4)

بِنَصْرِ اللَّهِ (الروم: 5)

اس روز مسلمان شادمان ہوں گے

اللہ کی مدد سے (الروم:4.5)

میڈیا آفس حزب التحریر ولایہ پاکستان

 

Read more...

اوبامہ کی مسئلہ کشمیر پر بھارتی موقف کی حمائت، پاکستان کے حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ ہے

مسئلہ کشمیر پر امریکی صدر اوبامہ کا بیان پاکستان کے حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ اوبامہ نے ایک بھارتی صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ "امریکہ سمیت کسی بھی ملک کو باہر سے اپنا حل تھوپنا نہیں چاہیے"۔ پاکستان سال ہا سال سے کشمیر کو ایک بین الاقوامی مسئلہ قرار دیتا آیا ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس کے حل اور بین الاقوامی ثالثی کا مطالبہ کرتا آیا ہے۔ جبکہ بھارت کئی دہائیوں سے کشمیر کو دو ممالک کے درمیان ایک مسئلہ قرار دیتا رہا ہے اور کسی بھی قسم کی بین الاقوامی مداخلت چاہے وہ اقوام متحدہ کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو کو ہمیشہ مسترد کرتا رہا ہے۔ اوبامہ نے پاکستان کے موقف کو مکمل طور پر مسترد اور بھارتی موقف کی بھرپور حمائت کا اعلان کیا ہے۔ 9/11 کے بعد اس وقت کے امریکی ایجنٹ جنرل مشرف نے افغانستان میں پاکستان کی ہمدرد حکومت کے خاتمے اور افغانستان کے مسلمانوں کے قتل عام میں شمولیت کے بدلے ایٹمی پروگرام، معیشت، افغانستان میں پاکستان کی دوست حکومت کے قیام اور کشمیر کے مسئلے پر امریکی حمائت کا پاکستان کے عوام کو یقین دلایا تھا۔ جس طرح ایٹمی پروگرام اور پاکستان کی معیشت کے خلاف امریکی دشمنی اور افغانستان میں بھارتی اثر و رسوخ کو پھیلانے میں امریکی حمائت واضع ہو چکی ہے، اسی طرح کشمیر پر بھارتی موقف کی حمائت سے یہ بات بھی ثابت ہو گئی ہے کہ امریکہ بھارت کا دوست اور پاکستان کا دشمن ہے۔ مشرف کی طرح موجودہ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار بھی امریکہ کے ایجنٹ ہیں جو اس حقیقت کے واضع ہو جانے کے باوجود امریکی پالیسیوں کے مسلسل نفاذ کو قومی مفاد میں قرار دے رہے ہیں۔ اوبامہ کا کشمیرپر بھارتی موقف کی حمائت سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں اور امریکی چاکری کے مشورے دینے والوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ مسئلہ کشمیر پر امریکہ اور اقوام متحدہ پر انحصار کرنا ایک غیر اسلامی عمل ہے اور اس کے ذریعے کشمیر کا مسئلہ کبھی بھی حل نہیں ہوسکتا۔ اللہ سبحان و تعالی فرماتے ہیں:

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلاَلاً بَعِيدًا- النساء:60

ترجمہ:کیا آپ ﷺ نے نہیں دیکھا ان لوگوں کو جو دعوی کرتے ہیں کہ ایمان لائے ہیں اس پر جو آپ ﷺکی طرف اور آپ ﷺ سے پہلے نازل ہوا، چاہتے ہیں کہ اپنے فیصلے طاغوت (غیر اللہ) کے پاس لے جائیں حالانکہ ان کو حکم ہو چکا ہے کہ طاغوت کا انکار کر دیں۔ (النسائ۔60)

حزب التحریر افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران سے پوچھتی ہے کہ کب تک سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کے جھوٹے دلاسوں سے دھوکا کھاتے رہیں گے۔ امریکہ کی مدد و حمائت کی خوش فہمی میں ہم پہلے ہی آدھا ملک گنوا چکے ہیں اور آج بھی مسلسل نقصان اٹھا رہے ہیں۔ آج امریکی پالیسیوں کی حمائت کا یہ جواز یکسر ختم ہو چکا ہے کہ یہ پاکستان کے قومی مفاد میں ہیں۔ مسئلہ کشمیر کا واحد حل خلافت کا قیام اور اس کی افواج کے ذریعے جہاد ہے۔ اے افواج پاکستان کے مخلص افسران سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کو ہٹاو اور حزب التحریر کو نصرة دو تا کہ خلافت کا قیام عمل میں لایا جا سکے اور بذریعہ جہاد کشمیر کو آزاد کروایا جائے۔

 

پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

شہزاد شیخ

 

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک