گیس کی مصنوعی قلت اور قیمتوں میں اضافہ عوام کے ساتھ جمہوریت کا انتقام ہے
- Published in پاکستان
- سب سے پہلے تبصرہ کرنے والے بنیں
- الموافق
صرف خلافت ہی امت کو مہنگی توانائی اور اس کی قلت سے نجات دلائے گی
2اکتوبر2012کو مشیر پیٹرولیم و قدرتی وسائل ڈاکٹرعاصم حسین نے اس بات کا اعتراف کیا کہ تیل و گیس کی کئی کمپنیوں نے پچھلے چند سالوں کے دوران گیس کے ذخائر دریافت کرنے کے باوجود انھوں نے نئے ذخائر کی دریافت کا اعلان نہیں کیا تھا کیونکہ انھیں اس کی کم قیمت مل رہی تھی لیکن پیٹرولیم پالیسی 2012کے اعلان کے بعد یہ کمپنیاں نئے دریافت شدہ ذخائر سے نئی قیمتوں پرگیس کی پیداوار دینے کے لیے تیار ہو گئیں ہیں ۔ اس ظالم حکومت نے 2012کی پیٹرولیم پالیسی میں نئے دریافت ہونے والے ذخائر سے حاصل ہونے والی گیس کی قیمت 3.24 ڈالرMMBTUسے بڑھا کر 6ڈالرMMBTU کردی ہے۔یہ ہے سرمایہ دارانہ نظام کا کمال کہ انسانی اور ملکی ضرورت کی ایک انتہائی اہم چیز کی پیداوار صرف اس لیے نہیں لی جارہی تھی کیونکہ چند کمپنیوں کو ان کی مرضی کا منافع حاصل نہیں ہورہا تھا ۔ یہ مجرمانہ اور ظالمانہ فعل اس وقت اختیار کیا گیا جب ملک میں گیس کی قلت کی وجہ سے ہزاروں صنعتیں ہفتوں بند رہیں، لاکھوں مزدور بے روزگاری کا شکار ہو کر فاقوں پر مجبور ہوئے اور ملکی معیشت کو اس کے نتیجے میں کھربوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ جمہوری حکمران اس حقیقت کو پہلے دن سے جانتے تھے لیکن انھوں نے چار سال تک خاموشی اختیار کی اور جب گیس کی قلت کا بحران انتہأ کو پہنچ گیا تونئی پیٹرولیم پالیسی کا اعلان کرکے ساتھ ہی عوام کو یہ خوش خبری بھی سنائی کہ اس سال سردیوں میں گیس کی قلت میں کمی واقع ہو جائے گی۔ OGDCL(آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کارپوریشن لمیڈڈ)،جس کا پاکستان کی تیل کی پیداوار میں حصہ 58فیصد اور گیس کی پیداوار میں 27فیصد حصہ ہے ، نے مالیاتی سال 2011-12میں بعد از ٹیکس 91ارب روپے کا خالص منافع کمایا جو کہ 2010-11کے مالیاتی سال سے 27ارب روپے زائد ہے۔اگر صرف ایک کمپنی کا ایک سالانہ منافع اس قدر زیادہ ہے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ باقی کمپنیاں بھی سالانہ اربوں روپے کمارہی ہیں اور اب نئی قیمتوں کے اطلاق کے بعد ان کے منافعوں میں مزید کئی گنا اضاٖفہ ہوجائے گا۔ مشیر پیٹرولیم کا بیان اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ جمہوریت اور آمریت دونوں صورتوں میں سرمایہ دارانہ نظام ہی نافذ ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور استعماری طاقتیں مسلم ممالک میں آمر اور جمہوری دونوں طرح کے حکمرانوں کی حمائت کرتے ہیں کیونکہ دونوں صورتوں میں حکمران امریکہ اور مغربی طاقتوں کی منشأ کے مطابق پالیسیاں بناتے ہیں۔
اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کہ کئی ممالک زبردست قدرتی وسائل رکھنے کے باوجود ان ممالک کے عوام غربت کی دلدل میں دھنسے ہوتے ہیں جبکہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اور حکمران اس دولت سے اپنی تجوریاں بھر رہے ہوتے ہیں کیونکہ آمریت اور جمہوریت میں تیل، گیس اور معدنی وسائل کو آزاد معیشت کے نام پر نجی ملکیت میں دے دیا جاتا ہے۔صرف خلافت ہی امت مسلمہ اور انسانیت کو اس ظلم سے دلائے گی کیونکہ اسلام نے قانون سازی کا حق انسانوں سے لے کر کرہمیشہ کے لیے کرپشن کے اس دروازے کو بند کردیا ہے۔ اسلام تیل،گیس اور تمام معدنی وسائل کو امت کی ملکیت قرار دیتا ہے اور ریاست پر لازم کرتا ہے کہ وہ ان وسائل کو امت تک صرف اس پر آنے والی لاگت کی قیمت پر پہنچائے۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
((المسلمون شرکاء في ثلاث في الماء والکلأ والنارو ثمنہ حرام))
''تمام مسلمان تین چیزوں میں مشترک ہیں:آبی ذخائر،چراگاہیں یا جنگلات،اورآتش(توانائی کے وسائل)۔ اوراِن کی قیمت حرام ہے‘‘(داود)۔
اسلام کے صرف اس ایک حکم کے نفاذ سے کھربوں روپے کا منافع جو اس وقت حکمرانوں اورملٹی نیشنل کمپنیوں کی تجوریوں میں جارہا ہے اس کا رخ عوام کی جانب مڑ جائے گا، امت کو سستی اور وافر توانائی کے وسائل میسر ہوں گے اور سستی توانائی کی بدولت صنعتیں زبردست ترقی کریں گی۔
پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان
شہزاد شیخ