المكتب الإعــلامي
ولایہ پاکستان
ہجری تاریخ | 17 من ربيع الاول 1441هـ | شمارہ نمبر: 1441/20 |
عیسوی تاریخ | جمعرات, 14 نومبر 2019 م |
پریس ریلیز
باجوہ-عمران حکومت کے معاشی بحالی کے دعوؤں میں وہی حقیقت ہے
جو 17 روپے کلو ٹماٹر کے دعوؤں میں ہے!
عمران خان اوراس کی کابینہ کا باچھیں کھول کر ایک دوسرے کو نام نہاد معاشی بحالی پر مبارکبادیں دینا بےحسی کےساتھ عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے برابر ہے۔ ان دعووں کی حقیقت کااندازہ اتوار بازاروں اور مارکیٹوں میں عوام کی کسمپرسی اور بےچارگی سے کیا جا سکتا ہے۔ درحقیقت جمہوری سرمایہ دارانہ نظام خود عوام کے ساتھ ایک گھناؤنے اور بھیانک مذاق سے کم نہیں، جس کی نظر میں لوگوں کو روٹی ،کپڑا اور مکان جیسی بنیادی انفرادی ضروریات مہیا کرنا معاشی بحالی نہیں بلکہ آئی ایم ایف کے مقرر کردہ ان اعشارئیوں اور اہداف کا حصول معاشی بحالی ہے جن کو یہ میکرو ایکنامک انڈیکیٹرز کہتے ہیں اور جن کی بہتری کیلئے قربانی کا بکرا دولت مندوں کے بجائے عوام کو بننا پڑتا ہے ۔
باجوہ-عمران حکومت سوا سال سے گلہ پھاڑ کر جس تجارتی خسارے کی دہائیاں دے رہی ہے، اس کی وجہ بین الاقوامی تجارت میں ڈالر کی اجارہ داری کو قبول کرتے ہوئے پاکستانی کرنسی کو ڈالرسے منسلک کرنا ہے، جس کے باعث امپورٹز جب ایکسپورٹزسے مسلسل زیادہ ہوں تو ڈالر وں کی مقدار میں کمی واقع ہو جاتی ہے اور مزید امپورٹز اور قرضوں کی واپسی کیلئے ڈالر کم پڑ جاتے ہیں ۔اس نظام کے پاس اس مسئلہ کا حل ضروری امپورٹزپر ڈیوٹیاں لگا کر ملکی معیشت کا گلا گھونٹنا ، مزید استعماری سودی قرضے لینا اور ملکی ضروریات کے بجائے ایکسپورٹ انڈسٹری قائم کرنےکی کوشش کرنا ہے، تاکہ ڈالر کمائیں جا سکیں لیکن معیشت چلانے کےاس ماڈل سےملکی معیشت کا انحصار دوسرے ممالک پرہونےکے باعث ملکی خودمختاری کمپرومائز ہو جاتی ہے۔ اسلام میں کرنسی سونے اور چاندی پر مبنی ہونے کے باعث تجارتی خسارہ اہم ترین معاشی مسئلہ ہے ہی نہیں۔ کیونکہ ریاست اپنی مرضی سے سونا یا چاندی چھاپ نہیں سکتی جیسے کہ آج کل کی کاغذی کرنسی میں ہوتا ہے تو اس لیے مجبوراً ریاست کو تجارتی خسارے کو محدود رکھنے کی پالیسی اپنانی پڑتی ہے ورنہ ریاست سے سونے اور چاندی کے ذخائر باہر منتقل ہونا شروع ہو جائیں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ خلافت اپنی ضرورت کی اشیاء ملک میں بناتی ہےاور ایک ایکسپورٹ انڈسٹری کے بجائے مقامی خرچ کو فروغ دے کر بیرونی انحصار سے چھٹکارا اور مستحکم معیشت کو پروان چڑھاتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے ایجنٹ یہ حکمران تجارتی اور بجٹ خسارہ عوام کا خون نچوڑ کر کم بھی اسلئے کرتے ہیں تاکہ سود خور ساہوکاروں کی قسطوں کی رقم پوری ہو، نہ کہ عوام کو ریلیف مل سکے، اور اس کیلئے یہ حکمران پاکستان کے اہم ترین وسائل کو نیلام کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ جبکہ اسلام بیرونی سودی قرضوں جیسے معاہدے کرنے کی اجازت دیتا ہے نہ ہی انہیں پورا کرنے کی۔
ان حکمرانوں کی جی ڈی پی کی شرح کیلئے ہلکان ہونے کی حقیقت چند ارب پتی لوگوں کی دولت میں بڑھوتری کے سوا اور کچھ نہیں ۔اس کا ثبوت آکسفیم کی رپورٹ ہے جسکے مطابق26 ارب پتی افراد کے پاس دنیا کے آدھی غریب عوام کے برابر دولت ہے۔ پس جمہوری سرمایہ دارانہ نظام میں عام عوام کیلئے سوائے غربت، مفلسی اور ‘قربانیاں دینے’ کے سوا کچھ نہیں رکھا۔ جبکہ اسلام کےنظام کا پورا فوکس دولت کی منصفانہ تقسیم کے ذریعے اس بات کی گارنٹی دینا ہے کہ ہر شہری کو روٹی، کپڑا، مکان اور تمام معاشرے کو صحت، تعلیم اور امن و امان کی ضمانت حاصل ہو۔ یہی معاشی بحالی ، معاشی ترقی اور معاشی استحکام ہے جو خلافت نے تیرہ سو سال تک قائم کر کےدکھایا تھا۔ پی ٹی آئی پروجیکٹ بھی پچھلے جمہوری تجربوں کی مانند فیل ہو چکا ہے۔ اور اب وقت آ گیا ہے کہ عوام کے ساتھ مزید کھلواڑ کرنے کے بجائے اہل قوت خلافت کے قیام کیلئے حزب التحریر کو بیعت دیں۔
”أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ“
”کیا وہ (ہی) نہیں جانے گا جس نے پیدا کیا، اور وہی ہے ہر باریکی جانتا، خبردار“ (سورہ الملک : 14)
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير ولایہ پاکستان |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: https://bit.ly/3hNz70q |
E-Mail: HTmediaPAK@gmail.com |