الثلاثاء، 24 جمادى الأولى 1446| 2024/11/26
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

المكتب الإعــلامي
ولایہ پاکستان

ہجری تاریخ    15 من شوال 1441هـ شمارہ نمبر: 66 / 1441
عیسوی تاریخ     ہفتہ, 06 جون 2020 م

پریس ریلیز
آئی ایم ایف کے حکم پر پی ٹی آئی  کے بجٹ میں لگائے گئے ٹیکسوں کے برخلاف خلافت اسلام کی جانب سے عائد کی گئی
ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے محصولات جمع کرے گی جو نہ معیشت پر بوجھ ڈالتے ہیں نہ ہی غریب کو کچلتے ہیں


کئی دہائیوں سے آئی ایم ایف پاکستان کے بجٹ پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والا ادارہ ہے جبکہ پی ٹی آئی کی حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ مقامی ضروریات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے حکومت خود اپنا بجٹ تیار کر رہی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وزیرِ اعظم کے مشیر برائے خزانہ و محصولات ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اور گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان ڈاکٹر رضا باقر، دونوں نے 8 اپریل 2020 کو ایک لیٹر آف انٹینٹ (letter of intent) پر دستخط کیے جس کے تحت پاکستان پر آئی ایم ایف کی  سخت شرائط تسلیم کرنا لازم ہو گیا۔ آئی ایم ایف کی ٹیکس کے حوالے  سے پالیسی، جو کہ پاکستان کے بجٹ کا سب سے اہم حصہ ہے، کا مقصد مقامی معیشت کا گلا گھونٹنا ہے تاکہ اُن مغربی سرمایہ کاروں کے نفع کو زیادہ سے زیادہ بڑھایا جائے جو پاکستان کی معیشت اور قرضوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ اپریل 2020 میں آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ "آئی ایم ایف کنٹری رپورٹ نمبر 114/20" جاری کی جس میں اس نے پی ٹی آئی حکومت کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ یہ حکومت "مراعات اور چھوٹ کے خاتمے کے ذریعے ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے اور بجٹ اصلاحات میں آگے بڑھی"۔ آئی ایم ایف کا ہدف ہے کہ پاکستان کی ترقی پذیر اور مشکلات کی شکار معیشت پر سرمایہ دارانہ ٹیکسوں کے حجم کو دوگنے سے بھی زیادہ کر دیا جائے۔ 20/2019 کے بجٹ میں آئی ایم ایف نےحکومتِ پاکستان کو 4600 ارب روپے تک کے ٹیکس جمع کرنے کا کہا تھا  اور وہ اس میں مسلسل اضافہ کرتے ہوئے اس کو 25/2024 تک 10000 ارب روپے پر لے جانا چاہتا ہے۔


آئی ایم ایف بھاری بھرکم ٹیکس اس لیے لگواتی ہے تاکہ ڈیمانڈ کنٹریکشن (اشیاء کی طلب میں شدید کمی) پیدا ہو جائے جس سے مقامی معیشت سست روی کا شکار ہو جاتی ہے۔  ڈیمانڈ کنٹریکشن کے ذریعے آئی ایم ایف مقامی معیشت میں معاشی سرگرمیوں کو مفلوج کر کے درآمدات کو کم سے کم کر کے زرمبادلہ (غیر ملکی کرنسی یعنی ڈالر، یورو) کے استعمال میں کمی لاتی ہے اور اس طرح آئی ایم ایف شرح تبادلہ (exchange rate) کو سپورٹ کرتی ہے۔ اس کے بعد چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے کے نام پر آئی ایم ایف "مالی نظم و ضبط" (Fiscal Discipline) مسلط کر کے عوام کے لیے ریاست کی جانب سے سبسڈی (subsidies) اور امداد (grants) کو کم کرواتا ہے اور شرح تبادلہ (exchange rate) پر دباؤ کو کم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ شرح تبادلہ کو مستحکم کر کے آئی ایم ایف اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ مغربی سرمایہ دار جنہوں نے پاکستان کو سود پر مبنی قرض دیے ہوئے ہیں، ان کے پیسے کی حفاظت کی جائے۔  آئی ایم ایف یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ٹیکس بحثیت کُل ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح کے، کا زیادہ ہونا معیشت کے استحکام کے لیے ضروری ہے اور اس طرح پاکستان اپنے وسائل کے مطابق معیشت کو چلانے کی عادت کو اپنائے گا، لیکن حقیقت میں اس طرح کی پالیسی مغربی سرمایہ داروں کے مفاد میں پاکستان کی معیشت کے استحصال کے علاوہ کچھ نہیں۔


سرمایہ دارانہ نظام کا ٹیکسوں کے متعلق نقطہ نظر، ایک انتہائی امیر چھوٹی سی اشرافیہ کا حکمرانی کے نظام  پر زبردست اثر و رسوخ کا نتیجہ ہے۔ یہ صورتحال سرمایہ دارانہ نظام میں دی جانے والی "ملکیت کی آزادی" کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے جس نے چند ہاتھوں میں بے شمار دولت کو جمع کر دیا ہے۔ امیر افراد اور کمپنیاں جمہوری نظام  میں پارلیمنٹ میں اپنے نمائندے بھجوانے کے لیے کثیر سرمایہ خرچ کرتے ہیں تاکہ وہ ان نمائندوں کے ذریعے بجٹ میں رقم مختص کروائیں جو ان امیر افراد اور ان کمپینوں کے مفاد کے حصول کے لیے خرچ کی جا سکے۔ "وسائل کی تقسیم" اور " پیداوار کے لیے وسائل مختص کرنے"  اور "نجی شعبے کی حوصلہ افزائی"  کے نام پر بڑے بڑے سرمایہ دار اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ٹیکس کا بوجھ عوام پر بڑھتا رہے جبکہ وہ اپنے لیے دونوں ہاتھوں سے دولت جمع کرتے رہیں چاہے یہ کاروبار کے لیے ٹیکس مراعات کے نام پر ہو یا معاشی بحرانوں کے دوران ملنے والے بڑے بڑے حکومتی بیل آوٹ پیکجز کی شکل میں۔ مسلم علاقوں میں مقامی سرمایہ دار اشرافیہ اس استعماری  لوٹ مار کو قبول کرتی ہے اور استعمار کے ساتھ  مل کر سرمایہ دارنہ نظام کے  نفاذ کو طول بخشتی ہے تاکہ وہ اس لوٹ مار میں سے اپنا حصہ لے سکے۔


محصولات جمع کرنے کے حوالے سے اسلام کا نقطہ نظر منفرد اور مغربی سرمایہ دارانہ نظام کے برعکس ہے۔ اسلام نجی ملکیت کو ایک ایسی حرمت قرار دیتا ہے جس کو پامال نہیں کیا جا سکتا اور جس کو دوسرے افراد اور ریاست سے تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ اسلام محصولات کو اس نقطہ نظر سے دیکھتا ہے کہ یہ نجی ملکیت پر اللہ کا حق ہے جس کا تعین   صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی کر سکتے ہیں۔ لہٰذا ٹیکس لگانے کے لیے شرعی جواز چاہیے جس کی بنیاد قرآن و سنت سے ملتی ہو۔


اسلام میں بیت المال (ریاست کے خزانہ) میں آنے والے محصول مختص ہوتے ہیں جن کا ادا کرنا مسلمانوں پر فرض ہے۔ بیت المال کے مستقل  مختص محصولات کے ذرائع زکوۃ، خراج، عشر، جزیہ اور فئہ ہیں۔ زکوۃ مویشیوں، فصلوں، پھلوں، کرنسی اور ہر طرح کی تجارتی اشیاء پر وصول کی جاتی ہے۔ زکوۃ مسلمانوں پر فرض ہے اگر ان کے پاس نصاب سے زیادہ مال ہو اور اس پر ایک سال گزر جائے۔ زرعی شعبے میں خراج  زمین کے مالک سے اس زمین کی ممکنہ پیداواری صلاحیت کی بنیاد پر وصول کی جاتی ہے۔ خراج اس کسان سے نہیں لیا جاتا جو زمین کا مالک نہ ہو بلکہ اس پر ایک ملازم کے طور پر کام کر رہا ہو۔ جزیہ اسلامی ریاست کے غیر مسلم مرد شہری سے لیا جاتا ہے جو مالی لحاظ سے مستحکم ہو جبکہ فئے مالِ غنیمت ہے جو ریاست پاس اس وقت آتا ہے جب اسلامی ریاست کی افواج اسلام کے لیے کوئی نیا علاقہ فتح کریں۔ ان وسائل کے علاوہ اسلامی ریاست عوامی اثاثوں، جیسا کہ بجلی، گیس، تیل اور معدنیات، سے حاصل ہونے والی آمدنی وصول کرتی ہے کیونکہ اسلام ان اثاثوں کی نجکاری کی اجازت نہیں دیتا بلکہ اسلامی ریاست پر ان کے امور کی نگرانی اور دیکھ بھال کی ذمہ داری عائد کرتا ہے۔  ریاست کے خزانے میں کمیونیکیشن سروسز جیسا کہ ڈاک، ٹیلی فون، انٹرنیٹ اور سٹلائیٹ کمیونیکیشن، سے آنے والے وسائل بھی جمع ہوتے ہیں۔ ریاست کے خزانے میں پبلک ٹرانسپورٹ جیسا کہ بسز، ٹرینوں، بحری جہاز اور ہوائی جہاز کی سروس سے آنے والے وسائل بھی جمع ہوتے ہیں۔ لوگوں کے امور پر خرچ کرنے کے لیے درکار وسائل ان کارخانوں سے بھی آتے ہیں جو عوامی اثاثوں سے منسلک ہوتے ہیں  جیسا کہ آئل ریفائنری، اسٹیل مل وغیرہ۔ اس طرح     ریاستی ملکیت  میں موجود ان کارخانوں سے بھی وسائل بیت المال میں آتے ہیں جو ان شعبوں میں کام کرتے ہیں جہاں بہت زیادہ سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن نفع بھی بہت زیادہ ہوتا ہے جیسا کہ بھاری صنعتیں، بحری جہاز، ہوائی جہاز اور ٹرینیں بنانے کے کارخانے وغیرہ۔ اور اسلامی ریاست شرعی قوانین کے مطابق ان اشیاء پر بھی کسٹم ٹیکس لگاتی ہے جو ریاست کی سرزمین میں باہر سے لائی جائیں۔


اگر ان ذرائع سے جمع ہونے والا مال بیت المال کی ضروریات کے لیے ناکافی ہو تو پھر ریاست کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کی دولت پر ٹیکس لگائے وہ دولت جو ان کے معیار زندگی کے مطابق  بنیادی ضروریات اور آسائشوں کو پورا کرنے کے بعد ان کے پاس بچتی ہو۔ جن مسلمانوں کے پاس زائد دولت نہیں ہوتی ان سے ٹیکس نہیں لیا جا سکتا جیسا کہ وہ لوگ جو خود ضرورت مند ہوں یا وہ جو قرض میں ڈوبا ہو۔ لیکن ریاست اس قسم کا ٹیکس صرف چھ اخراجات کے لیے لگا سکتی ہے اور یہ وہ اخراجات ہیں کہ جن پر خرچ کرنا مسلم معاشرے پر فرض ہے: 1۔ جہاد کے لیے، 2۔ فوجی صنعت اور اس سے منسلک صنعت کے لیے، 3۔ غریب، ضرورت مند اور مسافر پر خرچ کرنے  کے لیے، 4۔ سپاہیوں، سرکاری ملازمین، ججز، اساتذہ، ڈاکٹرز اور وہ تمام لوگ جو امت کے مفاد میں اپنی خدمات  پیش کرتے ہیں ان کی تنخواہوں پر خرچ کرنے کے لیے، 5۔ امت کو ان سہولیات کی فراہمی کہ جن کے نہ ہونے سے نقصان پہنچے جیسا کہ سڑک، اسکول، یونیورسٹی، ہسپتال، مسجد، پانی کی فراہمی وغیرہ پر خرچ  کرنے کے لیے، 6۔ ہنگامی صورتحال جیسا کہ قحط، زلزلہ، سیلاب، وباء اور دشمن کےحملے کے حوالے سے اخراجات برداشت کرنے کے لیے۔


اے پاکستان کے مسلمانو!

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، 

وَمَن أَعرَضَ عَن ذِكري فَإِنَّ لَهُ مَعيشَةً ضَنكًا وَنَحشُرُهُ يَومَ القِيامَةِ أَعمىٰ

"اور جو میری نصیحت سے منہ پھیرے گا اس کی زندگی تنگ ہو جائے گی اور قیامت کو ہم اسے اندھا کر کے اٹھائیں گے" (طہ، 20:124)۔

 

ہماری معاشی زندگی اس قدر مشکلات کا اس لیے شکار ہے کیونکہ پی ٹی آئی کی حکومت نے اسلام کے احکامات کو نظر انداز اور ہماری معاشی آزادی کو آئی ایم ایف کے قدموں میں قربان کر دیا ہے۔ یہ حکومت ایسے ظالمانہ ٹیکس لگاتی ہے جسے ادا کرنے کی افراد میں مالیاتی صلاحیت موجود نہیں ہوتی اور جو ہماری معیشت کا گلا دبا دیتے ہیں۔ یہ حکومت وہاں خرچ کرتی ہے جہاں خرچ کرنے کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے اور ہمیں مزید قرض کی دلدل میں ڈبو رہی ہے۔ یقیناً ہم کبھی بھی کشکول نہیں توڑ پائیں گے اور نہ ہی اپنی مشکلات میں کمی دیکھیں گے جب تک ہم اسلام کو نافذ نہ کر لیں۔ پی ٹی آئی کی بدترین ناکامی کے بعد یقیناً یہی وقت ہے کہ نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کے ساتھ مل کرجدوجہد کی جائے۔


ولایہ پاکستان میں حزب التحريرکا میڈیا آفس

المكتب الإعلامي لحزب التحرير
ولایہ پاکستان
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ
تلفون: 
https://bit.ly/3hNz70q
E-Mail: HTmediaPAK@gmail.com

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک