المكتب الإعــلامي
مرکزی حزب التحریر
ہجری تاریخ | 4 من رجب 1446هـ | شمارہ نمبر: 1446 AH / 068 |
عیسوی تاریخ | ہفتہ, 04 جنوری 2025 م |
پریس ریلیز
کیا تم لوگ "قومی مذاکرات" چاہتے ہو جب کہ اللہ کی کتاب تمہارے درمیان موجود ہے؟
)ترجمہ)
میڈیا میں شائع کی گئی خبر کے مطابق شام کی نئی انتظامیہ نے ایک "شامی قومی مذاکراتی کانفرنس" منعقد کرنے کا ارادہ کیا ہے، جس کے ذریعے عبوری حکومت کے انتخاب کے لیے ایک عوامی ادارہ بنایا جائے گا اور آئین تیار کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کانفرنس سے وجود میں آنے والے اداروں اور کمیٹیوں میں شریک ہونے کے لیے شامی معاشرے کے تمام نمائندوں کو دعوت نامے بھیجے جائیں گے۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ کانفرنس میں نمائندگی کے لیے شامی عوام کے تمام عناصر کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔ کانفرنس کے دوران، حکومت کے انتخاب کے لیے ایگزیکٹو کمیٹیاں اور قانون ساز کمیٹیاں بنانے اور ان کے کام کے طریقہ کار پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ نیز، کانفرنس کے ذریعے، نئے آئین کو تیار کرنے کے لیے ماہرین کی ایک کمیٹی وجود میں آئے گی، جس پر عوام سے رائے لی جائے گی (الجزیرہ نیٹ عربی)۔
اس فیصلے میں سب سے پہلی چیز جو دیکھنے میں آتی ہے وہ ایک ذہنیت ہے جس نے اسے تیار کیا ہے۔ یہ ذہنیت سائیکس پیکو کے معاہدے سے اپنے فیصلے اخذ کرتی ہے۔ یہ بات شام کو اس کے اسلامی تشخص سے الگ کر دینے اور مذاکرات کو شامیوں تک محدود رکھنے سے واضح ہے۔ فیصلہ ساز نے اس بات کو مدنظر نہیں رکھا کہ شام اسلامی ممالک کا ایک اٹوٹ حصہ ہے، یا یہ کہ شام ایک عظیم اسلامی ریاست کا مرکز بن سکتا ہے، اور نبوت کے نقشِ قدم پر قائم ہونے والی خلافت کا نقطہ آغاز ہو سکتا ہے۔ اس نے اس کے تہذیبی کردار کا بھی خیال نہیں رکھا، جس کی جڑیں صدیوں سے اسلامی تاریخ میں پیوست ہیں۔ بلکہ وہ اسے ویسا ہی رکھنا چاہتا ہے جیسا کہ کافر استعمار نے اسے بنایا تھا، یعنی مسلمانوں کے ممالک کے ٹکڑوں میں سے ایک ٹکڑا۔
اس فیصلے میں کافر استعمار کی خواہشات کی مکمل اطاعت بھی دیکھنے میں آتی ہے، جس کی بنا پر چھوٹے نسلی گروہوں کو بڑا کردار دیا جا رہا ہے، یہ جانتے ہوئے کہ شام کے باشندوں کی اکثریت مسلمان ہے۔ سابقہ فرقہ وارانہ حکومت نے ان کے حقوق چھینے، انہیں گرفتار کیا، انہیں تشدد کا نشانہ بنایا، انہیں قتل کیا اور انہیں بے گھر کیا۔ کیا اس فیصلے کے ذمہ داروں کو یہ بات یاد نہیں رہی کہ کافر مغرب اپنی مکاری اور خباثت سے ان نسلی گروہوں کو ہمارے ممالک میں اپنا اثر و رسوخ پھیلانے والا استعماری آلہ بنا رہا ہے اور ہمیں وہ فیصلہ لینے سے روکنے کا ذریعہ بنا رہا ہے جس سے ہمارا رب راضی ہو، یعنی اس کی شریعت کو نافذ کرنا، اور نبوت کے نقشِ قدم پر قائم خلافت کے جھنڈے تلے متحد ہونا؟ کیا وہ بھول گئے کہ تاریخ اسلام کی اس صلاحیت کی گواہ ہے کہ وہ تمام لوگوں کو اپنے اندر سمو سکتا ہے، اور اس کی حکمرانی کے تحت تمام لوگ مذہب اور نسل سے قطع نظر حکمرانی، قانونی چارہ جوئی اور فلاح و بہبود میں مساوی حیثیت سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں؟
پھر یہ مذاکرات کرنے والے کس چیز پر بات چیت کریں گے؟ خبروں کے مطابق، مذاکراتی کانفرنس کے دوران حکومت کے انتخاب کے لیے ایگزیکٹو کمیٹیاں، قانون ساز کمیٹیاں اور ان کے کام کرنے کے طریقہ کار تشکیل دینے کے میکانزم پر تبادلہ خیال کیا جائے گا، اور اس کے علاوہ ایک نئے آئین کو تیار کرنے کے لیے ماہرین کی ایک کمیٹی بھی بنے گی، جس پر عوام سے رائے لی جائے گی! اس منصوبے کو بنانے والے شخص کی حقیقت دو ممکنات میں سے ایک ہے ؛ پہلی حقیقت یہ کہ وہ ایک کنفیوژ شخص ہے جو کنفیوژن کا شکار ہے اور جس کے پاس تبدیلی کا کوئی حقیقی منصوبہ نہیں ہے، اور وہ ان شرعی احکام کو نہیں جانتا جو اسلام نے ہر مسلمان پر عائد کیے ہیں؛ اور یہ وہ احکام ہیں جو اللہ تعالیٰ کو حکمرانی اور قانون سازی میں یکتا بنانے سے متعلق ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ﴾
"حکم صرف اللہ کا ہے" (سورۃ یوسف: آیت 40)
لہذا، شرعی احکام کو بحث، مذاکرات یا انتخاب کے لیے پیش کرنا جائز نہیں ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللهُ وَرَسُولُهُ أَمْراً أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالاً مُّبِيناً﴾
"اور کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں تو انہیں اپنے معاملے میں کوئی اختیار حاصل رہے، اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تو وہ یقیناً کھلی گمراہی میں پڑ گیا۔" (سورۃ الأحزاب: آیت 36)
اور مسلمان کا صحیح شرعی موقف اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے مکمل طور پر سرِ تسلیم خم کرنا ہے۔ اور اس سرِ تسلیم خم کرنے میں ہی فلاح ہے۔
﴿إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾
"مومنوں کا قول تو یہی ہے کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جائے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کریں تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی، اور یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔" (سورۃ النور: آیت 51)
دوسری صورت میں، دور کی گمراہی اور کھلا نقصان ہے۔
یا دوسری حقیقت یہ ہے کہ یہ کسی بیرونی طاقت کی مرضی کو نافذ کررہا ہے۔ اور یہ بات مغربی وفود کی نئی انتظامیہ کے ساتھ ملاقاتوں سے واضح طور پر سامنے ہے۔ ان سب نے ان سے چھوٹے نسلی گروہوں کے حقوق کو محفوظ کرنے کا مطالبہ کیا ہے چاہے وہ امریکی وفدہو ،یا یورپی یونین کا وفد،یا برطانوی وفد یا کوئی اور وفد۔ کیا نئی انتظامیہ نے اس مطالبے کے پیچھے پائی جانے والی برائی اور مکاری کو محسوس نہیں کیا؟ اور کیا اسے واقعی یہ معلوم نہیں ہوا کہ یہ مغرب کے ہتھیاروں میں سے ایک ہے جس سے وہ نئی انتظامیہ پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں جیسا کہ وہ مسلمانوں کی سرزمینوں میں موجود دیگر ریاستوں پر قابو پاتے ہیں؟
اس تناظر میں، ہم شامی انتظامیہ کے فیصلے کے ذمہ داروں کو یہ بات واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور کافر استعمار کی رضا ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتیں۔ ترمذی نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مَنِ الْتَمَسَ رِضَا اللهِ بِسَخَطِ النَّاسِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، وَأَرْضَى عَنْهُ النَّاسَ. وَمَنِ الْتَمَسَ رِضَا النَّاسِ بِسَخَطِ اللهِ سَخِطَ اللهُ عَلَيْهِ، وَأَسْخَطَ عَلَيْهِ النَّاسَ»
"جس نے لوگوں کی ناراضگی مول لے کر اللہ کی رضا طلب کی، اللہ اس سے راضی ہو گا اور لوگوں کو بھی اس سے راضی کرے گا۔ اور جس نے اللہ کی ناراضگی مول لے کر لوگوں کی رضا طلب کی، تو اللہ اس پر ناراض ہو گا اور لوگوں کو بھی اس پر ناراض کرے گا"
اس کے علاوہ، کافر استعمار اس وقت تک آپ سے راضی نہیں ہو ں گے جب تک آپ ان کے دین کی پیروی نہ کر لیں، اور آپ زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتے ہیں کہ ان کی خواہشات کی پیروی کریں، اور اس کے نتیجے میں آپ اللہ تعالیٰ کی حمایت اور مدد سے محروم ہو جائیں گے۔
﴿وَلَن تَرْضَى عَنكَ الْيَهُودُ وَلاَ النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَى اللهِ هُوَ الْهُدَى وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءهُم بَعْدَ الَّذِي جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللهِ مِن وَلِيٍّ وَلاَ نَصِيرٍ﴾
"اور نہ تو یہودی اور نہ ہی عیسائی آپ سے اس وقت تک راضی ہوں گے جب تک آپ ان کے دین کی پیروی نہ کر لیں۔ کہہ دیجئے کہ اللہ کی ہدایت ہی ہدایت ہے۔ اور اگر آپ نے اس علم کے بعد جو آپ کے پاس آیا ہے، ان کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ کی طرف سے نہ تو آپ کا کوئی ولی ہو گا اور نہ ہی کوئی مددگار۔" (سورۃ البقرۃ: آیت 120)
مسلمانوں کا آئین اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے اخذ کیا جانا چاہیے، اور صحابہ کرام کے اجماع اور شرعی قیاس سے جس کی طرف قرآن و سنت نے رہنمائی کی ہے۔ اسے اخذ کرنے والے علماء ہیں، نہ کہ عام لوگ، اور یہ عام مباحثے کا موضوع نہیں ہے، اور نہ ہی اس پر رائے شماری کروانا جائز ہے۔ کسی مومن مرد یا عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں تو انہیں کوئی اختیار حاصل ہو، بلکہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جائے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کریں تو انہیں کہنا چاہیے کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی، اور اسی میں کامیابی ہے، بصورتِ دیگر گمراہی اور نقصان ہے۔
آخر میں ہم دو مسائل میں فرق کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ قانون سازی، حکومت اور آئین کا مسئلہ، اور مجلس امت یا مجلس شوریٰ میں لوگوں کی نمائندگی کا مسئلہ۔ ان دونوں کو ملانا جائز نہیں ہے۔ سب سے پہلے کتاب و سنت اور ان کے رہنمائی کردہ مصادر سے اخذ کردہ اسلامی آئین کو نافذ کیا جانا چاہیے۔ اس کے بعد مجلس امت کی تشکیل کی طرف پیش قدمی کی جانی چاہیے۔ لوگ اس مجلس میں اپنے نمائندوں کا انتخاب کریں گے تاکہ وہ ریاست کا احتساب کر سکیں اور اپنی رائے کا اظہار کر سکیں۔ مجلس امت ریاست کے اداروں میں سے ایک ادارہ ہے، نہ کہ آئین ساز!
ذیل میں حزب التحریر کی جانب سے کتاب و سنت اور ان کے رہنمائی کردہ مصادر سے اخذ کردہ آئین کا لنک دیا گیا ہے، جسے ریاستِ خلافت میں نافذ کیا جانا چاہیے، جس کی از سرِ نو بحالی کے لیے حزب التحریر ، اللہ کی مدد و توفیق سے، کام کر رہی ہے تاکہ اللہ کا وعدہ پورا ہو جائے
﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ﴾
"اللہ نے تم میں سے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو ایمان لائے اور نیک کام کیے کہ وہ انہیں زمین پر اسی طرح خلیفہ بنا دے گا جس طرح ان لوگوں کو بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے" (سورۃ النور: آیت 55)
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خوشخبری کو پورا کرتے ہوئے، جو ہم جبر کی بادشاہی کے بعد دیکھیں گے، جس جبری بادشاہت میں ہم ابھی جی رہے ہیں۔ احمد نے حذیفہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«.. ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سَكَتَ».
"...پھر جبری بادشاہی ہوگی، اور یہ جب تک اللہ چاہے گا رہے گی، پھر جب اللہ چاہے گا اسے اٹھا لے گا، پھر نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت ہوگی۔ پھر آپ خاموش ہو گئے۔"
https://www.hizb-ut-tahrir.org/PDF/AR/ar_books_pdf/MshrAdstr03062014.pdf
حزب التحریر کا مرکزی میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير مرکزی حزب التحریر |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ Al-Mazraa P.O. Box. 14-5010 Beirut- Lebanon تلفون: 009611307594 موبائل: 0096171724043 http://www.hizb-ut-tahrir.info |
فاكس: 009611307594 E-Mail: E-Mail: media (at) hizb-ut-tahrir.info |