بسم الله الرحمن الرحيم
امتِ مسلمہ کو مغربی استعمار کے پنجے سے نجات دلانے ا ور خلافت کے دوبارہ قیام کیلئے علمائے پاکستان کو پُرزورپکار
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
الحمدللّٰہ رب العلمین والصلٰوۃ والسلام علٰی خیر الخلق وخاتم النبیین
وعلٰی آلہ واصحابہ اجمعین،
معززعلمائے کرام،نبی کریم ﷺ کی زبانِ مبارک کے ذریعے آ پ لوگوں کی کتنی اعلیٰ تعریف کی گئی ہے،آپ ﷺنے فرمایا :(( العلماء ورثۃ الانبیاء))'' علماء انبیاء کے وارث ہیں‘‘ (اخرجہ ابو داؤد والترمذی، بروایۃ ابی داؤد)۔ اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی کتنی بلیغ تعریف کی ہے، فرمایا:(اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمآؤُ) ''بیشک اللہ کے بندوں میں سے علماء اللہ سے ڈرنے والے ہیں ‘‘(فاطر:۲۸)۔ پس اگرآپ اللہ سے ڈرتے ہوں تو آپ اللہ کی مخلوق میں سے اللہ کے زیادہ قریب ہیں کیونکہ آپ اوامر پر عمل کرنے والے ، اللہ کی امانتوں کو اٹھانے والے اورحق وصداقت اور عدل پر قائم ہونے والے ہیں ۔ اسی طرح آپ فرضِ عین اور کفائی فرائض کوبجا لاتے ہیں ۔ ہمارے پروردگارنے قرآن میں علماء کی مدح کی ہے ، فرمایا:
(ھَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَایَعْلَمُوْنَ)(الزمر:۹)
''کیا جو علم رکھتے ہیں اور جو علم نہیں رکھتے ہیں ،بھلاوہ برابر ہوسکتے ہیں؟‘‘۔
اس آ یت میں علماء کے مقام ومرتبہ کو بیان کیا ہے جو اللہ کے دین کے ساتھ مخلص ہوتے ہیں او ر افراد،حکومت اور معاشرے کی اصلاح کی ذمہ داری کو بجالاتے ہیں۔ یقیناًبگڑے ہوئے حالات کی اصلاح میں علماء کا نمایاں مقام اوربڑاحصہ رہا ہے۔ اور یہی لوگ ہیں جو امتِ اسلامیہ کے جسم کو ناسور وں سے پاک کرنے کا کا م کرتے رہے ہیں اوربہتری کی طرف تبدیلی میں ان کی اہمیت مسلّم ہے ۔ لہٰذا علمائے امت کی مثال ان ستاروں کی سی ہے جن کے ذریعے لوگ راہنمائی حاصل کرتے ہیں اور وہی خیر و عدل کی بنیاد ڈالنے والے ہیں ۔ وہی ہیں جو جابر حکمرانوں ، طاغوت اور اس کے حواریوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں ، انہیں لگام دیتے ہیں اوران کی سازشوں کو ناکام بناتے ہیں ۔
اے فاضل علمائے کرام !
وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی عظیم تاریخ کااز سرِ نو جائزہ لیں ۔ اُس اسلامی ریاستِ خلافت کی تاریخ کاجائزہ جسے رسول اللہ ﷺ نے قائم کیاتھا۔ پھر آپ ﷺکے بعدآپ ﷺکے خلفاء راشدین نے اسے مضبوط کیا تھا۔ جس میں مسلمان اپنے رب پر اعتماد کے ساتھ زندگیاں گزارتے تھے اور اپنے دین کے سبب با عزت تھے۔ اور یہ خلافت اموی ،عباسی اورعثمانی خلفاء کے سایے میں صدیوں قائم رہی اور اس خلافت کی وجہ سے اسلام کا جھنڈا سربلندہوکرلہراتا رہا اوراسی کے دبدبہ وشوکت سے سرمایۂ اسلام محفوظ رہا اور مسلمانوں کا رعب اقوامِ عالم پر چھایارہا ۔ چنانچہ ریاستِ خلافت میں عراق کا والی حجاج بن یوسف ایک مسلمان عورت کی پکار پر لبیک کہتا ہے ،جسے راجہ داہر کے زمانے میں بحری قزاقوں نے لُوٹنے کی کوشش کی تھی۔ جب وہ عورت دریا کے بیچ میں پکار رہی تھی:''اغثنا یاحجاج اغثنا یاحجاج‘‘۔ جب حجاج کو یہ خبر پہنچی تو وہ اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوااور کہا : لبیک یا امۃ اللّٰہ''اے اللہ کی بندی میں حاضر ہوں‘‘۔ پھر حجاج نے محمد بن قاسم کی قیادت میں لشکر روانہ کیا ،جس نے ظالموں سے جنگ کی اور انہیں سبق سکھایا۔ یہ واقعہ ۹۳ھ کا ہے۔ اسی طرح جب شاہِ روم نکفورنے مسلمانوں کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی کی، توخلیفہ ہارون رشید نے اسے سخت جواب دیا، اور لکھا:'' خلیفۃ المسلمین ہارون رشید کی طرف سے ،روم کے کتے نکفور کی طرف۔ میراجواب وہ ہوگا جسے تم اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے ،نہ کہ وہ جسے تم سُن لو ‘‘۔ اورپھر خلیفہ نے اپنی افواج کو روانہ کیا اور اسے شکست دی اور یوں نکفور کواس کے کیے کی سزا مل گئی۔ اور جب روم کے علاقے میں قید ایک مسلمان عورت کی یہ صداخلیفہ معتصم بِاللہ تک پہنچی:'' وامعتصماہ! وامعتصماہ!‘‘۔ تو خلیفہ خودلشکر لیکر اس کی مدد کیلئے روم گیا اور دشمن سے اسکے ظلم کا انتقام لیااور مسلمان عورت کی عزت کی حفاظت کی اور اسے امن و تحفظ فراہم کیا۔
یوں مسلمان خلافت کے دور میں تمام دنیا کے سردار تھے اور اچھائی کی طرف بلانے والے تھے ،بلکہ وہ ہر چیز میں سب سے آگے تھے ،خواہ یہ صنعت ہو یا جنگی سامان ،علوم ہوں یا سائنسی فنون۔ اور اس بات کی گوا ہی د وست کیا، د شمن بھی دیتے ہیں ۔ مسلمانوں نے خلافتِ اسلامیہ کے سائے میں جو علمی کارنامے سرانجام د یئے تاریخ ان پر گواہ ہے ۔ وہ ہر حقدار کو اس کا حق دلانے میں اول رہے ،خواہ وہ عورت ہو یا مرد ،جبکہ غیر اسلامی حکومتوں میں عورت مرد کی ملکیت سمجھی جاتی تھی ،جس کی خرید وفروخت کی جاتی تھی ،اور جس کی کوئی قدراورحیثیت نہیں تھی ۔ سو اسلام نے آکر عورت کو عز ت دی اور اسے محترم بنادیا ،اس کی مستقل مالی ذمہ داری کا تعین کیااور اسے رائے کا حق دیا اور عالمہ اور فقہیہ اور قابلِ قدر بنادیا ۔
خلافت کا سایہ مغرب میں شمالی افریقہ تک، مشرق میں ہندوستان تک اور شمال میں وسط ایشیاء تک پھیلا ہوا تھا ۔ یہ عظیم الشان اور وسیع و عریض ریاست اسلام کی محافظ اور اسلامی دعوت کی علمبردار تھی ۔ چنانچہ یہ کفارکے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی۔ لہٰذا اسلام کے دشمن کفاراور ان کی تنظیمیں اور ادارے خلافتِ اسلامی کوختم کرنے اور اسے توڑنے کیلئے اکھٹے ہوگئے اور سازشوں میں لگ گئے ،یہاں تک کہ انہوں نے ایجنٹ مصطفیٰ کمال اتاترک کے ذریعے 28رجب1342ہجری کو مسلمانوں کی ریاستِ خلافت کا خاتمہ کر دیا ۔
معزز علماء کرام یہ بات آپ حضرات پر مخفی نہیں کہ جب دشمنانِ اسلام خلافت کوختم کرنے میں کامیاب ہوگئے، تو ہم کنجوس کے دستر خوان پر یتیموں کی مانند ہوگئے اور ہماری طاقت پارہ پارہ ہوگئی ، مسلمانوں کی سرزمین کے پچاس سے زائد ٹکڑے کر دیے گئے ،ہمار ے اثاثے اورزمین کے اندر پوشیدہ معدنیات و ذخائرلوٹ لئے گئے ،ہمارے علاقے ہر لالچی کیلئے لُوٹ مارکا میدان بن گئے ۔ اس طرح ہماری زمین سمٹتی گئی۔ آپ فلسطین کو لیجئے جو اسراؤمعراج کی سر زمین ہے، یہود یوں نے اس پر قبضہ کیا ہو اہے اور اسمیں جب چاہے مسلمانوں کا خون بہاتے ہیں۔ دوسری طرف کشمیر ہے جس پر ہندوؤں نے قبضہ کیا ہوا ہے، و ہ وہاں مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہیں اور ایسے قبیح جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں کہ جس سے رونگٹے کھڑے ہوجائیں ۔ اسی طرح مشرقی تیمورکو انڈونیشیا سے الگ کر کے عیسائیوں کے حوالے کردیا گیا ۔ جنوبی سوڈان کو مسلم سوڈان سے توڑا جارہا ہے اور قبرص کے جزیرے کو ترکی کی سرزمین سے کاٹ دیا گیا ہے۔ قوقاز،انگوشتیا،چیچنیا، بشکیرستان ، تاتارستان اور جولفا کو روس نے اپنی چراہ گاہ بنایاہوا ہے جہا ں اس نے خون ریزی اور سفاکی کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔ جبکہ امریکہ نے عراق اور افغانستان پر قبضہ کیا ہوا ہے اوروہ پاکستانی حدود کو آئے روز پامال کرتا رہتا ہے ، اوروزیرستان ،اورکزئی اور خیبر ایجنسی میں دیہاتوں اور شہری آبادیوں کواپنے ڈرون حملوں کا نشانہ بناتا ہے ۔
اسلام کے داعیو،کیا اب بھی ہمارے لئے وہ وقت نہیں آیا کہ ہم امریکا اور اسکے اتحادیوں سے اپنی جانو ں اور اپنی عورتوں اور بچوں کی حفاظت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں ۔
اسلام کے داعیو، کیا آپ یہ نہیں دیکھ رہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے نئے صلیبی حملے کے ذریعے ا سلام کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا ہے،جس کے ذریعے وہ روئے زمین سے اسلام کو مکمل طور پر اُکھیڑنا چاہتے ہیں اور عالمِ اسلام میں اپنافرسودہ اورباطل نظام (جمہوریت )قائم کرنا چاہتے ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنے نئے صلیبی حملے کے دوران ایک سال میں دو لاکھ سے زائد مسلمانوں کو ظلم و بر بر یت اوردہشتگردی وسفاکی سے قتل کردیا ، جبکہ مشرق ومغرب میں دنیا گیارہ ستمبر کے واقعہ کوہی رورہی تھی ،تا ہم کسی کے دل میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کا خیال تک بھی نہ آیا ۔ کسی نے اس بات کا افسوس نہ کیا کہ جب امریکہ نے عراق پر پابندیاں عائد کیں تو ایک سال میں ایک لاکھ اکیس ہزاردوسو سینتیس(۱۲۱۲۳۷) عراقی بچے خوراک اور ادویات کی عدم فراہمی کی وجہ سے مرگئے ۔ ۲۰۰۱ ء میں تیرہ ہزار دوسو دو(۱۳۲۰۲) سے زائد افغان مسلمانوں کو امریکہ کے افغانستان پرا بتدائی فوجی حملے میں موت کے گھا ٹ اُتار دیاگیا جبکہ شہروں ،دیہات ،گھروں ،مساجد اور شادی بیاہ کے تقریبات پر امریکی جنگی طیارے وحشیانہ بمباری کرتے رہے۔ دوسری طرف بھارتی ریاست گجرات میں ایک ہزار چوراسی مسلمانوں کومتعصب بھارتی حکومت کی نگرانی میں ہندوؤں کے ہاتھوں جلا کر قتل کیا گیا ۔ اورنہ ہی کسی کو۵۰۷۸چیچن مسلمانوں یاد آئے جنہیں امریکہ کی طرف سے گرین سگنل ملنے پر روسی فضائی بمباری کے ذریعے قتل کیا گیا۔ اور نہ ہی ۳۰۳۹ وہ فلسطینی مسلمان جنہیں صرف ایک سال میں امریکی اسلحے کے ذریعے اسرائیلی بمباری میں قتل کیا گیا ۔ اور نہ دوہزار ایک سو ستراوزبک مسلمان یادآئے جنہیں کریموف حکومت نے خود ساختہ دہشت گردی کے مقابلہ میں ان کے گھروں سے اُٹھا کر جیلوں میں ڈال دیا ۔ اوریہ بھی امریکی آشیر آباد کے ساتھ کیا گیا اورآج بھی ان نوجوانوں کے انجام کا کوئی پتہ نہیں۔ اور دنیا کووہ تین ہزار معصوم بچے ، عورتیں ، بوڑھے اور نوجوان کیوں یاد نہیں آئے جنہیں وزیرستان،اورکزئی اور خیبر ایجنسی میں امریکی ڈرون حملوں سے قتل اور زخمی کیا گیا ،ان حملوں کے نتیجے میں اہلِ علاقہ بے گھر ہوگئے جو خیموں میں انتہائی مشقت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
ہاں دنیا کو یہ سب کچھ یاد نہیں آیا جبکہ مغربی دنیا اور مسلم ممالک کے حکمران ۱۱ستمبر کے واقعے اور اس کے بعد امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف نام نہادجنگ کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔
اے پا کستان کے معزز علماء کرام !
امت کی ذلت وخواری کی یہ صورتحا ل آپ پر مخفی نہیں اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ حالات اسی طرح سدھارے جاسکتے ہیں جس طرح اول دور میں عربوں کے حالات سدھارے گئے تھے۔ اور آپ یہ جانتے ہیں کہ ان بیماریوں کا علاج صرف تمام تر اسلام کا علمبردار بننے اوراسلام کے نظامِ خلافت کے نفاذ سے ہی ممکن ہے۔
اور اے معشر العلماء ،اے خیرو بھلائی کے پیامبرحضرات! امت کو تباہی اور ہلاکت سے بچا کرامن و سلامتی کی طرف لے جانے اور امت کو اسلام کے افکارو احکامات سے آگاہی دینے کی ذمہ داری آپ ہی کی گردنوں پر ہے اور علماء ہی کے ہاتھ میں مسلمانوں کی بھاگ ڈور ہونی چاہئے۔
بخاری نے انسؓ سے آپ ﷺ کاارشاد نقل کیا ہے:
((لا یومن احدکم حتی یحب لاخیہ ما یجب لنفسہ))
'' تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں بن سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کیلئے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے‘‘۔
پس حزب التحریر کے شباب جو خلافت کے قیام کے لیے دن رات سرگرمِ عمل ہیں،اس بات کے خواہاں ہیں کہ آپ ان کے ساتھ قیامِ خلافت علیٰ منہاجِ النبوہ کے خیر والے عمل میں شریک ہوجائیں ۔ ا ور علماء سے زیادہ کون اس عظیم ذمہ داری کو پورا کرنے کا اہل ہے، جو امت کی وحدت کا راز ہے۔ ایک متقی اور پرہیز گار عالم ہی کو یہ کام زیادہ لائق ہے اور عالم کی شان تو یہ ہے کہ وہ خیر کے تمام مواقع میں صفِ اول میں موجود ہو۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ خلافت کا دوبارہ قیام کوئی ثانوی مسئلہ نہیں کہ جس سے صرفِ نظر کیا جاسکے بلکہ یہ امت کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے کیونکہ اس سے امت کی عزت ،حفاظت اور قوت وابستہ ہے ۔ اور یہ مسلمان کیلئے جاہلیت کی موت سے بچنے کا طوق ہے۔ کیونکہ مسلم نے عبداللہ بن عمرؓ کی روایت سے آپ ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے:
((ومن مات ولیس فی عنقہ بیعۃ مات میتۃ جاہلیۃ))''
جسے خلیفہ کی بیعت کے بغیر موت آئی ،وہ جاہلیت کی موت مرا‘‘۔
خلیفہ مسلمانوں کی شیرازہ بندی کرتاہے ، عدل کو قائم کرتاہے ،خیر کو پھیلاتا ہے اور شریعت کا نفاذ کرتا ہے ۔ یوں ریاستِ خلافت میں مسلما ن مرد و عورت امن وامان، چین اور سکون کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ وہ اللہ کے بند ے بن کر اور اللہ پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے دین کی بدولت عزت سے جیتے ہیں اوراللہ کی خاطر کسی کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے ۔ اورتب مسلمان زمین وآسمان کی بھلائیاں پالیتے ہیں ، زمین اپنے خزانے اگلنا شروع کردیتی ہے اور آسمان سے برکتیں نازل ہونا شروع ہو جاتی ہیں:
(وَلَوْ اَنَّ اَہْلَ الْقُرآی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ)'
'اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور اللہ سے ڈرتے تو ہم زمین و آسمان سے ان پر نعمتوں کے دروازے کھول دیتے‘‘(الاعراف:۹۶)
اے علماء کرا م !
حزب التحریر کے شباب آپ کے تعاون اور مساعی کے منتظر ہیں۔ اور ہم آپ سے یہ نہیں کہتے کہ آپ ہمارے ساتھ فقط تعاون کریں ۔ بلکہ اس سے بڑ ھ کرآپ ہمارے ہاتھوں میں ہاتھ دیں اوراس کارِ خیر میں ہمارے ساتھ شریک ہوجائیں، اگرآپ اقامتِ خلافت کی بشارت کے پورا ہونے اورخلافت کے انہدام کے بعد اس کے دوبارا قائم ہونے پر یقین رکھتے ہیں۔ بے شک خلافتِ اسلامی کی صبح قریب ہے اوراسلام اور مسلمانوں کی عزت کی واپسی اب زیادہ دور نہیں ۔ اورآ پ اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے اہل بھی ہیں اور مکلف بھی۔ خلافت کا قیام اللہ کا وعدہ ہے اور اس کا وعدہ برحق ہے ۔ ارشادِ رب العلمین ہے:
﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾
''اور اللہ نے تم میں سے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو ایمان لائے اور جنہوں نے صالح اعمال کئے کہ وہ انہیں زمین میں موجودہ حکمرانو ں کی جگہ حکمرانی عطا کرے گا، جیسا کہ اللہ نے ان سے پہلے لوگوں کو عطا کی، اللہ ان کیلئے ان کے اس دین کو مضبوط بنیادوں پر جما دے گا جسے اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں پسند کر لیا ہے۔ اور ان کی موجودہ خوف کی حالت کو امن سے بدل دے گا۔ پس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ، اور جو اس کے بعد کفر کریں تو ایسے لوگ ہی فاسق ہیں‘‘( النور:۵۵)۔
سویہ اللہ کی طرف سے خوف،مصیبتوں اور تنگیوں کے بعداستخلاف اورتمکین فی الارض کا وعدہ ہے ۔ اور اللہ اپنے نور کو پورا کرکے رہے گا،اگرچہ کافروں کو ناگوارگذرے۔ آپ ﷺ نے امتِ مسلمہ کو بشارت دی ہے جسے امام احمد نے تمیم الداری سے روایت کیا ہے :
((لیبلغن ھٰذ االامر ما بلغ اللیل والنہار ولا یترک اللّٰہ بیت مدر ولا وبر الا اد خلہ اللّٰہ ھٰذاالدین بعز عزیز او بذل ذلیل عزاً یعز اللہ بہ الاسلام وذلاً یذل بہ الکفر))
''یہ دین وہاں تک پہنچ جائے گاجہاں تک رات اور دن پہنچتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کوئی مٹی یا ٹاٹ سے بنا ہوا گھر ایسا نہیں چھوڑے گا جہاں اس دین کو داخل نہ کردے ،خواہ کوئی اس سے عزت پائے یا ذلت میں مبتلا ہو، اللہ تعالیٰ اسلام کو عزت دیگا اور کفر کو ذلیل کردیگا ‘‘۔
اور اسی طرح ہم سب اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے اُس وعدے کی تصدیق کرتے ہیں جو فتحِ روم کے بارے میں ہے ، جبکہ اس سے قبل قسطنطنیہ کی فتح سے متعلق آپ ﷺ کی بشارت پوری ہوچکی ہے۔ تو روم خلافت کے بغیر کیسے فتح ہوگا؟ اورخلافت کی افواج کے بغیر القدس کیسے آزاد ہو گا؟ اور خلافت کے بغیراسلام زمین پر کیسے حکمرانی کریگا؟ اورکیا خلیفۂ مسلمین کے علاوہ بھی کوئی ہے جو مسلمانوں کی مدد اورنبیﷺکی ناموس کا دفاع کیلئے اسلامی افواج کو حرکت میں لائے ۔
لہٰذا محترم علماء کرام ، ہمارے اوپر یہ لازم ہے کہ ہم اسلامی ریاستِ خلافت کے قیام کے ذریعے اسلامی زندگی کے از سرِ نو آغازکی راہ میں سچی کوشش کریں ،جو شریعت کا نفاذ کریگی اوربیعت کے ذریعے امت کو خلافتِ اسلامیہ کے سائے میں اکٹھا کریگی ۔ ہمارے لئے اس کے متبادل کوئی اور طریقہ نہیں ۔ مسلمان گذشتہ صدی کے دوران اللہ کی شریعت کونافذ کرنے، زمین میں اسلام کی حکمرانی کو قائم کرنے،مسلم معاشرے کی اصلاح اور مسلمانوں کے مسائل کو حل کرنے کیلئے مختلف طریقے آزما چکے ہیں ۔ انہوں نے اسمبلیوں میں داخل ہونے اورموجودہ کفریہ نظام کے تحت انتخابات میں حصہ لینے کا تجربہ کیا تا ہم وہ اس مقصد میں ناکام رہے، جیسا کہ اُردن ، الجزائر ،مصر ،پاکستان اور ترکی میں ہوا ۔ مسلمانوں نے حکام کے خلاف اسلحہ کے ساتھ خروج اور فوجی تصادم کاتجربہ بھی کیا لیکن کامیابی نہ ملی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مدِ مقابل دشمن کوئی مخصوص حکمران نہیں ہے بلکہ وہ کفریہ نظام ہے جو مسلمانوں کے سروں پر مسلط ہے اور ان پر اللہ کے نازل کردہ احکامات سے متضاد قوانین نافذ کر رہاہے ۔ اسی طرح مسلمانوں نے مؤثرتقریروں اور بلیغ مواعظ کے ذریعے 'پہلے فرد اور پھرمعاشرہ کی اصلاح‘ کی کوششیں کر کے بھی دیکھ لیں ،مگر کفر کا سیلاب بڑھتا ہی چلا گیااور آج بھی مسلمان نسلوں کو گمراہی کی طرف دھکیل رہا ہے ۔
اے شریعتِ الٰہی کے رکھوالو !
امریکی طاغوت اور اس کے اتحادی اور مسلمان ممالک میں ان کے ایجنٹ مسلمانوں کیلئے ان کی زمین کو جہنم بنا کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ مسلمان کے بیٹوں کو قتل کرتے ہیں اور بچوں ،بوڑھوں اور عورتوں کو ذلیل کرتے ہیں ۔ بے شک علما ء تو ہمیشہ دین و ملک اور مسلمانوں کے آبرو پر ہاتھ ڈالنے والوں اور باطل کے سامنے کھڑے ہو تے تھے اور ہرجگہ ،ہر وقت اسلامی حدود کا دفاع کرتے تھے اورہر جابر سلطان کے سامنے حق کا جھنڈا بلند کرتے تھے ۔ آج امریکہ نہ تو ہمارے اوپر رحم کریگا اور نہ ہی وہ ہماری خیر ، امن اور سکون چاہتا ہے،وہ ہمارے خلاف منصوبے بناتا ہے اور سازشیں کرتا ہے تا کہ ہمارے تشخص اور دین کاخاتمہ کردے۔ لہٰذامعزز علماء کرا م ہمارے اوپر لازم ہے کہ ہم جلد از جلدمسلمانوں پر واضح کریں:
1) امریکہ کے ساتھ کسی بھی قسم کا اتحادحرام ہے۔
2) مغربی جمہوری یا سوشلسٹ نظاموں میں شرکت اور داخل ہوناجائز نہیں اور ان استعماری نظاموں سے ہمیں ناکامی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔
3) اقامتِ خلافت اور اس کیلئے سعی و جد و جہد دینی فریضہ ہے اور انتہا ئی ضروری ہے ۔
4) جو لوگ امریکی منصوبوں کی تائید کرتے ہیں اور دشمنوں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں ان کا بائیکاٹ کرنا واجب ہے۔
5) اس فاسدصورتحال کی تبدیلی خواہ وہ سیاسی ہو یا اقتصادی ، ثقافتی ہو یا عسکری ،خلافتِ اسلامیہ کے دوبارہ قیام یعنی شریعت کے نفاذاور صالح واہل لوگوں کو حکومت سپر د کئے بغیر نہیں آسکتی ۔
6) علماء انبیاء کے وارث ہیں اور حق کی طرف راہنمائی کرنے والے ہیں، لہٰذا ان کے اوپر حزب التحریر کے شباب کی تائید اور ان کے ساتھ اقامتِ خلافت کیلئے بھرپورتعاون کرنالازم ہے تاکہ آپ ﷺکے اس فر مان پر عمل ہوسکے:
((انما الامام جنۃ یقاتل من وراءۃ ویتقیٰ بہ ))''بے شک خلیفہ ڈھال کی مانند ہے جس کے پیچھے رہ کر لڑا جاتا ہے اور اسی سے تحفظ حاصل ہوتا ہے‘‘۔
7 ) مغربی استعماری طاقتوں کی پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کو روکنا واجب ہے ۔
8) امریکہ کو اس بات پر مجبور کرنا واجب ہے کہ وہ افغانستان اور عراق سے نیٹو افواج کا انخلاء کرے ا ورسوڈان اور وسط اشیا کے اسلامی ممالک کے معاملات میں دخل اندازی بندکرے۔
9) دہشت گردی اور قتل و غارت گری میں ملوث بلیک واٹراور ایکس ای سروسز جیسی تنظیموں کو عراق، افغانستان اور پاکستان سے نکالا جائے ،جو کھلم کھلا انتہائی قبیح جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔
10) اسلامی ممالک کے حکمران بالخصوص پاکستان کے حکمران مغربی استعماری طاقتوں سے دوستی کرتے ہیں اور ان کے مفادات کیلئے کام کرتے ہیں اور مسلم سرزمین کے اندر موجود بیش قیمت اشیاء کو کوڑیوں کے دا م فروخت کرتے ہیں۔ اگر یہ لوگ مغربی آقاؤں کیلئے چاکری وچاپلوسی کاکردار ادا کرنے سے باز نہ آئے، تو عنقریب امت ان کے کرتوتوں کاپورا حساب لے گی ۔
علما ء کا امت میں عظیم کردار رہا ہے اور آج امتِ مسلمہ کی ذمہ داری ان پر دوسروں سے کئی گنا بڑ ھ کر ہے۔ اوررسول اللہا ﷺکا یہ قول: ((العلماء ور ثۃ الانبیاء))اگرچہ خبریہ صیغے میں آیا ہے مگر اس میں دلالۃ التکلیف موجود ہے اور متقی ومخلص علما ء سے زیادہ کون اس ذمہ داری کا مکلف ہوسکتا ہے ۔ لہٰذا محترم بھائیو!اقامتِ خلافت کے اس کام میں جُت جاؤ اور اس عظیم جدوجہد میں ہمارے ساتھ شریک ہوجاؤ۔ کیونکہ دنیا میں امت کے لیے عزت و شرف حاصل کرنے او رآخرت میں فردوسِ اعلیٰ کے حصول کا یہی راستہ ہے اورآخرت میں اللہ کی خوشنودی سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ۔
ہم اس بات پر مطمئن ہیں کہ اللہ کے حکم سے خلافت کا قیام ضرور ہو گا۔ اس خلافت کے قیام کو روکنے کے لیے کفار کی سر توڑکوششیں اورامت کے مختلف حصوں میں اُٹھنے والی بیداری کی لہر بھی اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ قرآن وسنت کی نصوص اس بات کی بشارت دیتی ہیں کہ اللہ ضرورباعمل مؤمنین کو حکمرانی عطا کرے گا ، خلافتِ راشدہ دوبارہ قائم ہو گی اور اسلام کا عدل اور نور دنیا سے ظلم اور اندھیروں کا خاتمہ کر دے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا:
(هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ)
''وہ اﷲ ہی ہے جس نے اپنے رسول ﷺ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے خواہ مشرکوں کو ناگوار ہی ہو‘‘(التوبۃ: 33)۔
ماضٰی میں اسلام بہت سے ادیان پر غالب آچکا ہے لیکن ابھی وہ مغرب کے دین ( لبرل جمہوریت ) پرغالب نہیںآیا،وہ دین کہ جس کے مطابق آج دنیا کا ایک بڑا حصہ زندگی گذاررہا ہے ۔ یہ آیت واضح طور پر اس با ت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اس پر بھی اسلام کاغلبہ ہوجائے گا ۔ اور آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
((ان اللّٰہ زوی لی الارض فرأیت مشارقہا ومغاربہا وان امتی سیبلغ ملکہا مازوی لی منہا))'
'اللہ تعالیٰ نے مجھے زمین دکھادی تو میں نے اس کے مشرق و مغرب کودیکھا اور میری امت اس تمام زمین کی مالک بنے گی جو مجھے دکھا ئی گئی ‘‘(رواہ مسلم)۔
اورامام احمد نے حذیفہؓ بن یمان سے روایت کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
((تکون النبوۃ فیکم ما شاء اللّٰہ أن تکون،ثم یرفعھا إذا شاء أن یرفعھا، ثم تکون خلافۃً علی منھاج النبوۃ فتکون ما شاء اللّٰہ أن تکون، ثم یرفعھا۔ إذا شاء أن یرفعھا۔ ثم تکون ملکاً عاضاً، فیکون ما شاء اللّٰہ أن تکون، ثم یرفعھا۔ إذا شاء أن یرفعھا، ثم تکون ملکاً جبریۃً فتکون ما شاء اللّٰہ أن تکون، ثم یرفعھا إذا شاء أن یرفعھا،ثم تکون خلافۃً علی منھاج النبوۃ،ثم سکت))'
'تم میں اُس وقت تک نبوت رہے گی جب تک اللہ چاہے گا کہ نبوت رہے،پھر اللہ جب چاہے گا اسے اُٹھا لے گا،پھر نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت ہوگی،تو وہ باقی رہے گی جب تک اللہ چاہے گا،پھر وہ جب چاہے گا اسے اُٹھا لے گا،پھر موروثی حکمرانی کا دور ہوگا،تو وہ رہے گی جب تک اللہ چاہے گا،پھر وہ جب چاہے گا اسے اُٹھا لے گا،پھرجبری اور استبدادی حکومت ہوگی،تو وہ باقی رہے گی جب تک اللہ چاہے گا،پھر وہ اسے اُٹھا لے گا جب وہ چاہے گا،پھر نبوت کے نقشِ قدم پر (دوبارہ )خلافت ہوگی۔ پھر آپ ﷺ خاموش ہو گئے‘‘(مسند احمد)
یا اللہ! ہم آپ سے نبوت کے نقشِ قدم پر خلافتِ راشدہ کے قیام کی دعا کرتے ہیں جس سے اسلام اور مسلمانو ں کو عزت ملے اور کفر ، نفاق اور کفار کو ذلت ملے۔ اے اللہ ہمیں اپنے دین اور اپنے رستے کی طرف بلانے والوں میں شامل کردے۔ اور ہمیں ایسا داعی بنادے جو خیر کی طرف دعوت دینے والے ہوں ،منکرات کو روکتے ہوں اور معروفات کا حکم دیتے ہوں۔
وصل اللّٰہ علی سیدنا محمد و علی آلہ وصحابتہ اجمعین۔
والسلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
ہجری تاریخ :
عیسوی تاریخ : جمعرات, 03 مارچ 2011م
حزب التحرير