الجمعة، 24 ربيع الأول 1446| 2024/09/27
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

عالمی سیاست اور بیدار امت

الم . غُلِبَتِ الرُّومُ . فِي أَدْنَى الأَرْضِ وَهُم مِّن بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ ‏.‏ فِي أَدْنَى الأَرْضِ وَهُم مِّن بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ . فِي بِضْعِ سِنِينَ لِلَّهِ الأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ } [الروم‏:1‏ ـ4].‏

 

حافظ ابن کثیر اپنی تفسیر میں  لکھتے ہیں کہ یہ آیتیں اس وقت نازل ہوئیں جبکہ نیشاپور کا شاہ فارس بلاد شام اور جزیرہ کے آس پاس کے شہروں پر غالب آگیا اور روم کا بادشاہ ہرقل تنگ آکر قسطنطیہ میں محصور ہوگیا۔ مدتوں محاصرہ رہا آخر پانسہ پلٹا اور ہرقل کی فتح ہوگی۔ مفصل بیان آگے آرہا ہے۔ مسند احمد حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اس آیت کے بارے میں مروی ہے کہ رومیوں کو شکست پر شکست ہوئی اور مشرکین نے اس پر بہت خوشیاں منائیں۔ اس لئے کہ جیسے یہ بت پرست تھے ایسے ہی فارس بھی ان سے ملتے جلتے تھے اور مسلمانوں کی چاہت تھی کہ رومی غالب آئیں اس لئے کم از کم وہ اہل کتاب تو تھے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جب یہ ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا رومی عنقریب پھر غالب آجائیں گے۔ صدیق اکبر نے مشرکین کو جب یہ خبر پہنچائی تو انہوں نے کہا آؤ کچھ شرط بدلو اور مدت مقرر کرلو اگر رومی اس مدت میں غالب نہ آئیں تو تم ہمیں اتنا اتنا دینار دینا اور اگر تم سچے نکلے تو ہم تمہیں اتنا اتنا دیں گے۔ پانچ سال کی مدت مقرر ہوئی وہ مدت پوری ہوگئی اور رومی غالب نہ آئیں تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خدمت نبوی میں یہ خبر پہنچائی آپ نے فرمایا تم نے دس سال کی مدت مقرر کیوں نہ کی۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں قرآن میں مدت کے لئے لفظ بضع استعمال ہوا ہے اور یہ دس سے کم پر اطلاق کیا جاتا ہے چنانچہ یہی ہوا بھی کہ دس سال کے اندراندر رومی پھر غالب آگئے ۔

 

ان قرآنی آیات میں اللہ سبحان و تعالیٰ عالمی سیاست کو موضوع بنارہے ہیں اور یہ بحث  بھی ایسے موقع پر کی جارہی ہے جب  کفر کاغلبہ ہے۔  پھر بھی صحابہ عالمی سیاست پر کفار سے بحش و مباحثے میں مصروف ہیں اور آپ ﷺ اس معاملے میں بھی اپنے صحابہ رضی اللہ عنہ  کی اسلام سے رہنمائی کر رہے ہیں جو اس بات کی  عکاسی کرتا ہے کہ مسلمانوں کا نقطہ نظر ابتدا ہی سے  ایک علاقے تک محدود نہیں بلکہ عالمی رہا ہے۔  جس کے بعد یہ سوال اٹھایا ہی نہیں جاسکتا کہ سیاست یا عالمی سیاسی صورت حال وغیرہ جیسے موضوع تو محض دنیاوی معاملات ہیں  وغیرہ وغیرہ۔

یہاں یہ بات سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ مسلمان کفار کی سازشوں کو صرف اسی صورت میں ناکام  اور امت کو اس سے محفوظ رکھ سکتے ہیں ،جب وہ اس کا صحیح ادراک کرسکتے ہوں۔ حزب اپنی کتاب "سیاسی مفاہیم" میں  لکھتی ہے کہ، " دنیا میں ہر ریاست کی پالیسی سے باخبر رہنا انتہائی ضروری ہے اور ایک مسلم سیاست دان اس کے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ یہ بات ہر مسلمان کے لیے نہایت اہم ہے کہ عمومی انداز میں عالمی طاقتوں کی  نوعیت (nature)، رازوں (secret)،  منصوبوں (plan) اور طرز عمل (style)، سے باخبر رہنا اور ان امور کا تفصیلی اور حقیقت پر مبنی فہم، روزانہ کی بنیاد  پر بدلتے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی طاقتوں کی بنیادوں اور ستونوں کا مکمل ادراک ہر مسلمان مفکر کے لیے ضروری ہے۔ یوں امت کو ان سے محفوظ رکھنے کا مقصد واضح  ہوتا ہے جس کے ذریعے ریاست اور امت مسلمہ کی حفاظت اور اسلامی دعوت کو دنیا میں پھیلانے کا راستہ ہموار ہوتا ہے۔"

اس ضمن میں اہم ترین بات یہ ہے کہ  عالمی سیاست اوراس کی بنیادوں  کو کچھ بنیادی اصولوں کے ذریعے سمجھا جائے۔ اول تو یہ کہ عالمی منظر نامے پر موجود ممالک کی موجودہ حیثیت ، ان کے سیاسی منصوبوں اور سیاسی  طرز عمل کاگہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے۔

عالمی دنیا کا فہم اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہم یہ جان سکیں کہ آیا وہ کون سے ممالک ہیں جن کے ہاتھ میں دنیا کی باگ ڈور ہے  اور وہ دنیا کی سیاست پر متاثر ہوتے ہیں  اور وہ کن ممالک کو  براہ راست کنٹرول کرتے ہیں یا ان پر اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔

 

بنیادی طور پر آج دنیا میں چار اقسام کی ریاستیں پائی جاتی ہیں ۔ پہلی تو وہ جسے سپر پاور ریاست کہا جاتا ہے جو دنیا میں طاقتور ترین ریاست کا کردار ادا کرتی ہے اور دوسری ریاستوں کی حیثیت  کو متاثر کرنے کی اہلیت رکھتی ہے جیسا کہ امریکا ۔ دوسری وہ  ماتحت (sub-ordinate) ریاستیں ہیں جن کی داخلی اور خارجی پالیسیوں کا انحصار دوسری طاقتور ریاستوں پر ہوتا ہے۔ پاکستان، سعودی عرب، قطر  اور مالی وغیرہ  جیسے ملکوں کا شمار ان ہی ریاستوں میں ہوتا ہے۔  تیسری  وہ سیٹلائٹ ریاستیں ہیں جن کی داخلہ  پالیسیاں تو خود مختار ہوتی ہیں تاہم بیشتر خارجی پالیسیاں  دوسرے ممالک کے مرہون منت ہوتی ہیں۔ جیسا کہ آسٹریلیا ، کینیڈا وغیرہ۔ اور چوتھی قسم کی ریاستیں وہ ہیں جو اپنی داخلی اور خارجہ پالیسی کے اعتبار سے خودمختار ہوتی ہیں جیسا کہ برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس اور اسرائیل وغیرہ۔

ہمارے لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ طاقتور ممالک کی اپنے مقاصد  کی حفاظت کیلیے  مرتب کی گئی سیاسی حکمت عملی (politcial plan)اور  ان  سیاسی حکمت عملیوں کو عملی جامع پہنانے کیلیے سیاسی طور طریقوں(political style) کو سمجھا جائے ۔ جیسا کہ عراق پر قبضہ اور اس قبضے کو مقامی اور عالمی  دونوں سطح پر قانونی جواز فراہم کرنا امریکا کی حکمت عملی میں شامل تھا۔ جسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے  امریکا نے  مختلف  سیاسی طور طریقوں کا سہارا لیا ۔ جن میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی عراق میں موجودگی کا بہانہ،  جھوٹ پر مبنی  سی آئی اے رپورٹس کی تشہیر، اقوام متحدہ کے ذریعے  جارحیت کو قانونی جواز فراہم کرنا ، شیعہ سنی اختلاف کو ہوا دینا، اہل تشیعوں کو حکومت کا حصہ بنانے  اور ایرانی و شامی اثرو رسوخ کا استعمال شامل ہے۔

 

تاہم یہ بات سمجھنا بھی لازم ہے کہ  سیاسی  طور طریقے سیاسی حکمت عملی کے مطابق مسلسل تبدیل ہوتے رہتے ہیں جب کہ سیاسی حکمت عملی صرف اسی صورت تبدیل  کی جاتی ہے  جب تمام اختیار کردہ سیاسی طریقے ناکام ہوجائیں  اور سیاسی اہداف حاصل نہ ہوسکیں یا  یہ کہ سیاسی حکمت عملی کسی خاص صورت حال کی وجہ  سے سیاسی مقاصد کے ہی مخالف ہوجائے  مثال کے طور پر  پہلے چین کی امداد کرکے اسے روس کے خلاف کھڑا کیا گیا اور پھر چین ہی کا گھیرا تنگ کرکے اس کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کیلیے سیاسی طور طریقوں کا سہارا لیا گیا ۔

کچھ یہی حال امریکا کا مسلم دنیا پر اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے کیلیے ہے جس کے لیے وہ اپنے سیاسی طور طریقوں میں ضرورت کے مطابق تبدیلی  لاتا رہتا ہے جیسا کہ  پہلے عسکری بغاوتوں  اور دیگر سیاسی اقدامات کے ذریعے مسلم ممالک کو کنٹرول کیا  گیا  اور اب مسلم زمینوں پر عسکری حملوں  کے ذریعے  اس کنٹرول کو مستحکم کیا جارہا ہے ۔لہٰذا ہماری سیاسی جدوجہد کا ہدف استعمار کی سیاسی فکر ، سیاسی حکمت عملیوں اور اس کے طور طریقوں کو بے نقاب  کرنا ہونا چاہیے۔

 

آج انبیاء کی سرزمین شام کی صورت حال  کچھ ایسی ہے کہ اقوام عالم اس پر بھوکے بھیڑیے کی طرح ٹوٹ پڑے ہیں۔ امریکا  ہو ، سعودی عرب ہو، روس ہو یا ایران ۔۔ سب کے سب  یک زبان ہو کر شام کے بابرکت انقلاب اور اس کے مخلص انقلابیوں کے خلاف  کمربستہ ہیں۔ یہی وہ سرزمین ہے جہاں استعما ر نے اپنی سیاسی فکر  کے مطابق ہر سیاسی  حکمت عملی  کو پایہ تکمیل  تک پہنچانے کے لیے مختلف طور طریقوں کو آزمایا تاہم   شام کے عوام  نے بیدار امت کا ثبوت دیتے ہوئے  استعمار کی ہر حکمت عملی اور اس کے طور طریقوں کو خاک میں ملادیا ۔ جب کہ مصر ، تیونس ، لیبیا اور یمن وغیرہ سیاسی بصیرت اور پختگی نہ ہونے  کے باعث استعمار کی سازشوں کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہے ۔  شام میں لگ بھگ چار سال سے جاری  سیاسی بغاوت  اس بات کا ثبوت ہے کہ امت کو سیاسی پختگی اور سیاسی شعور اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب اسے اسلام کی جانب مسلسل دعوت  دی جاتی رہے۔

شام کی موجودہ صورت حال کو سمجھنے کے لیے  شام کی عالمی حیثیت  اور پس منظر کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔  شام  گزشتہ چالیس برسوں سے  حافظ الاسد اور پھر اس  کی اولاد بشار الاسد کی زیرسربراہی امریکا کے ماتحت رہا ہے۔ جب کہ کچھ لوگ  سیاسی قائدین   کی زبانی جمع  خرچ  اور کچھ سیاسی بیانات  اور اقدامات سے مرعوب ہو کر شام  اور اس کے حکمرانوں کو  امریکا مخالف سمجھ بیٹھتے ہیں جیسا کہ  مئی دو ہزار چار میں امریکا نے اس الزام پر  شام پر معاشی پابندیاں عائد کردیں کہ وہ  عراق میں عسکریت پسندوں کے داخلے کو  روکنے میں ناکام رہا۔ جب کہ حقیقت کا مفصل اورصحیح جائزہ لینےسے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ شام الاسد خاندان کی کمان میں ہمیشہ امریکی ایجنٹ ہی رہا ہے۔ شام کا خلیجی جنگ میں صدام حسین کے خلاف امریکا  کا ساتھ دینا اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے۔ شام  وہ واحد جمہوری عرب ریاست  تھی  جس نے پہلی خلیجی جنگ  میں عراق کے خلاف امریکا کا ساتھ دیا اورOperation  Desert Storm میں مدد کیلیے اپنے دستے روانہ کیے۔

 

شام نے اسلام پسندوں کے خلاف بھی امریکا کی بھرپور مدد کی۔ اور اس بات کا اعتراف خود امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے کیا کہ شام کی مدد سے امریکا کو وہ معلومات حاصل ہوسکیں جس کا اس نے کبھی گمان بھی نہیں کیا تھا۔ شام ہی نے اسرائیل کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا ۔ شامی صدر بشار الاسد کی دوستی و  امن کی آشا کی انتہا کا اندازہ اس بات سے لگایا جائے کہ  اسرائیل نے 2007 میں شام میں  جوہری ری ایکٹر کو فضائی حملے میں تباہ  کردیا اور صدر بشار الاسد نے خاطر خواہ   جواب تک دینے کی زحمت نہ کی ۔    امریکا اور شام کے درمیان اتحاد  کی اس سے بہتر اور کیا مثال  ہوگی کہ بشارالاسد ساڑھے تین برس تک  شام کے معصوم شہریوں پر مسلسل بم برساتا رہا اور امریکا  کے ماتھے پر بل تک نہ آیا مگر جیسے ہی باغی  بشار الاسد کو اکھاڑ پھینکنے کے اہل ہوئے امریکا نے ان پر ہی چڑھائی کردی۔ مگر آفرین ہو  شام کے عوام پر  جنہوں نے ہر موڑ پر باخبر  ہونے کا ثبوت دیا اور امریکا کے سیاسی عزائم کو مسلسل ناکام بناتے ہوئے اسے اپنےسیاسی منصوبے فوری تبدیل کرنے پر مجبور کردیا۔

غور طلب بات یہ ہے کہ یہ ثمر کوئی ایک ماہ یا ایک سال کی جدوجہد کا نہیں بلکہ برسوں کی محنت کا تھا۔ مارچ 2011میں ملک گیر احتجاج  کے آغاز کے بعد جب بات بشار کے دھڑن تختے تک جاپہنچی  تو شامی عوام میں موجود سیاسی قائدین   نے اس بات کو جانچ لیا کہ مصر، تیونس  اور لیبیا کی طرح شام میں بھی عوام کو  بشار کی حکومت کے  متبادل کی صورت میں دھوکہ دیا جائے گا۔ اور اسی منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے امریکا نے بشار کے مخالفین کو صفوں میں کھڑا کرنا شروع کیا۔ اکتوبر 2011 میں   Syrian National Council قائم کی گئی۔ نومبر میں  عرب لیگ نے شام کی رکنیت معطل  کرکے اس پر پابندیاں عائد کیں تاکہ  بشار پر دباؤ ڈال کر  اور اسے پس پشت ڈال کر اس کا متبادل  تیار کیا جاسکے۔

حزب التحریر  شامی انقلاب کے آغاز سے عوام میں مضبوط جڑیں بناکر انقلابیوں کی رہنمائی میں پیش پیش  رہی ۔ حزب نے کفار کی اس سازش کو  دو نومبر 2011 کو  اپنے پمفلٹ کے ذریعے بے نقاب کیا ، " امریکا اپنے آلہ کار عرب لیگ کے ذریعے  شامی حکومت کو مزید وقت فراہم کر رہا ہے  تاکہ وہ مزید معصوم شہریوں کا خون بہا سکے اور اس دوران بشار کا متبادل تیار کیا جاسکے۔"

مخلص قائدین انقلابیوں کو  اللہ سبحان و تعالیٰ کے اس فرمان کو بار بار یاد دلا رہے تھے کہ ،

"ان لوگوں کی جانب ہرگز راغب نہ ہونا جو ظلم کرتے ہیں، ایسا نہ ہو کہ تمہیں آگ پکڑ لے اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی مددگار نہیں ہوگا اور تمہاری مدد نہیں کی جائے گی۔" {سورۃ ہود 11:113}

 

ادھر مارچ 2012 میں  اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے کوفی عنان کے غیرمشروط امن معاہدے کی توثیق کردی جس کی حمایت کا اعلان روس اور چین  نے بھی کردیا  تاہم  پھر بھی  خون کی ہولی جاری رہی۔ کوفی عنان کے مستعفی ہونے پر اقوام متحدہ نے الجزائر کے سفارتکار لخدار  براہمی  کو  اقوام متحدہ اور عرب لیگ کا شام کیلیے ایلچی مقرر کردیا۔

جون 2012 میں پہلی جنیوا کنونشن کے انعقاد تک پچاس ہزار شہری  لقمہ اجل بن چکے تھے۔ 30جون 2012 کو حزب التحریر نے امت سے خطاب میں جنیوا  معاہدے  کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے   یہ واضح کیا کہ جنیوا معاہدے کی منظوری  ایسا داغ ہوگی جس کو کبھی مٹایا نہ جاسکے گا ، یہ امت سے بغاوت ہوگی۔۔۔ روس اپنے مالک کے لیے تنخواہ دار ملازم سے زیادہ کچھ نہیں۔ ۔۔۔"

امریکا شام  کی چاروں  سرحدوں  یعنی لبنان، اسرائیل، ترکی اور عراق  پر بیٹھا تھا  جب کہ روس کی موجودگی تو نہ ہونے کے برابر تھی۔ مگر وہ صرف  مادی فوائد  ، مسلمان ملکوں  میں بڑھتی  تبدیلی کی لہر  اور وسطی ایشیا کے ممالک  تک ان کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطرامریکا کی ہر چال میں اس کا اتحادی بنا رہا۔ جب کہ امریکا کا مقصد واضح تھا کہ جب تک متبادل تیار نہیں ہوجاتا شامی عوام کو خون میں نہاتے رہنے دیا جائے۔ یہاں تک کہ امریکا نے لیبیا کی طرح  شام میں نو فلائی زون کا قیام بھی درست نہ سمجھا کہ کسی طرح فضائی بمباری سے ہونے والے جانی نقصانات کو ہی روکا جاسکے۔

 

نومبر 2012 میں  قطر میں منعقدہ اجلاس میں  نام نہاد اپوزیشن جماعتیں  National Coalition for Syrian Revolutionary & Opposition Forces  کی چھتری تلے یکجا ہوگئیں  جن کا نعرہ جمہوریت کا قیام تھا۔ دسمبر 2012 میں  امریکا، برطانیہ، فرانس، ترکی اور خلیجی ریاستوں نے معاذ الخطیب کی زیرسربراہی  Syrian National Coalition کو  شامی عوام کا نمائندہ قرار دینے کی کوشش کی تو  اس موقع پر حزب التحریر نے  امت پر یہ بات واضح کی کہ ،

" یہ ایک شرانگیز منصوبہ ہے، جسے امریکا اور اس کے حواریوں نے تشکیل دیا ہے۔ شام میں بے پناہ قتل و غارت گری  کرکے دشمن  ہمیں مجبور کرنا چاہتے ہیں کہ ہم اس کٹھ پتلی اتحاد کو تسلیم کرلیں ۔۔۔ ۔"

اور الحمداللہ  شام کے غیور عوام نے حزب التحریر کی مخلص پکار کا مثبت جواب دیتے ہوئے شامی اپوزیشن اتحاد کو مکمل طور پر مسترد کردیا۔  میدان عمل میں بشار الاسد سے برسرپیکار اہم ترین گروہ جبہۃ النصرہ اور  التوحید نے اتحاد کو رد کرتے ہوئے واضح کیا کہ  وہ جمہوری نہیں بلکہ اسلامی ریاست کا قیام چاہتے ہیں۔ انہوں نے  شام کے قوم پرست جھنڈوں کو  پس پشت ڈالا اور رایہ اور لواء کو ہاتھوں میں تھامنا شروع کردیا۔ منصوبوں کی مسلسل ناکامی کو دیکھتے ہوئے  اپوزیشن  اتحاد کے سربراہ معاذ الخطیب نے استعفیٰ دیا اور خود یہ انکشاف کیا کہ  کچھ بیرونی عناصر اپوزیشن اتحاد  سے اپنے کام نکلوانا چاہتے ہیں۔

جس کے بعد 13مارچ 2013 کو حزب التحریر نے امت کو اللہ کے اس قول سے خبردار کیا،

"اس عورت کی طرح نہ ہو جس نے اپنا سُوت مضبوطی کے  بعد ریزہ ریزہ کرکے توڑ ڈالا۔۔"{ سورۃ النحل:92}

شامی قومی اتحاد کی ناکامی کے بعد امریکا نے  شامی سیکولر بریگیڈز پر پیسہ لگانا شروع کیا ۔ واشنگٹن پوسٹ نے مئی 2013 کو خبر شائع کی کہ "امریکی حکومت اب سلیم ادریس  پر جوا لگا رہی ہے ۔" اخبار نے مزید لکھا کہ ،"سلیم ادریس کے اعتدال پسند  اور ذمہ دارانہ رویے پر بھروسہ کرتے ہوئے امریکی حکومت اس  پر پیشہ لگانا چاہتی ہے۔" جس کے بدلے میں سلیم ادریس  نے براک اوباما کو خط لکھ کر اس بات کا اظہار کیا کہ "اسے شام میں مداخلت  کے حوالے سے امریکی پوزیشن کا اندازہ  ہے ۔ سلیم ادریس نے امریکا سے مالی امداد اور ٹریننگ میں مدد کی درخواست کی اور یقین دہانی کروائی کہ وہ جہادی گروپوں سے نمٹنے کیلیے تیار ہے۔"

تمام منصوبے ایک طرف اور ایران اور حزب ایران کا استعمال کرکے شامی انقلاب کو فرقہ ورانہ رنگ دینے کی کوشش  کا امریکی منصوبہ ایک طرف  تھا۔ ایران کو بشار الاسد کی امداد میں اپنے عوام کو یہ بہانہ پیش  کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئی کہ ایران تو شام میں مقدس مقامات کی حفاظت کیلیے مداخلت کر رہا ہے۔ ادھر حمص اور لبنانی سرحد کے درمیان  میں واقع اہم ترین شامی علاقے قصیر میں حزب ایران اور عسکری گروہوں میں لڑائی کا آغاز ہوچکا تھا اور یوں امریکا اپنی اس کوشش میں کافی حد تک کامیاب رہا کہ ظلم کے خلاف بغاوت  کو فرقہ ورانہ رنگ دے کر بشار کی حکومت کو محفوظ بنایا جائے۔

دوسری جانب اب اسرائیل بھی شامی عوام کے خلاف کھل کر میدان میں آچکا تھا۔ حزب التحریر نے 7مئی 2013 کو امت سے خطاب  میں ان علاقوں پر اسرائیلی بمباری کی تصدیق کی جہاں باغیوں کا پلڑا بھاری تھا " 5مئی 2013 کو اسرائیلی طیاروں نے شام پر بمباری کی ۔۔۔ یقیناً بشار حکومت  یہود، امریکا  اور اس کے حواریوں کو دشمن کے طور پر نہیں دیکھتی  بلکہ اس کے دشمن تو بس شام کے عوام ہیں۔۔ اور یہی کھیل ہے جو امریکا اور اس کے حواری کھیلتے ہیں کہ ایک ایجنٹ کو دوسرے ایجنٹ سے تبدیل کردیا جائے۔"

 

ایک طرف شامی افواج کا بدترین ظلم جاری تھا تو دوسری جانب امریکا بھی مسلسل اپنی سیاسی چالیں چلنے میں مصروف تھا ۔ جارج صابرہ کی جگہ سعودی حمایت یافتہ احمد جربا شامی قومی اتحاد کے  قائم مقام سربراہ  کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھال چکے تھے۔ جب کہ عبوری وزیراعظم یہ کہہ کرعہدے سے مستعفی ہوگئے  کہ وہ باغیوں کے زیرتسلط علاقوں میں حکومت قائم نہیں کرسکتے۔

اسی اثنا ء میں  امریکا کے کئی زبانی دعووں اور دھمکیوں کے باوجود بشار نے اگست 2013میں  دارالحکومت دمشق کے علاقے غوطہ پر کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کردیا جس میں تقریباً 300شہری جان سے گئے۔ امریکا  کے مطابق تو یہ اس کی اپنی بنائی ہوئی  سرخ لکیر تھی  جس کو عبور کرنے پر امریکی صدر براک اوباما بار بار بشار کو دھمکیاں دیتا آیا تھا مگر حملہ ہوئے ڈیڑھ برس گزر چکے، آج تک بشار کے سر سے ایک امریکی طیارہ نہ گزرا۔  کیمیائی ہتھیاروں کا سارا ڈرامہ صرف اس لیے رچایا گیا کہ شام میں موجود کیمیائی ہتھیاروں کو تلف کیا جاسکے تاکہ مستقبل قریب میں قائم ہونے والی خلافت کے پاس وہ صلاحیت ہی نہ ہو کہ وہ کفار کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکے، مگر وہ شائد بھول گئے کہ جنگ صرف عسکری قوت کےبل بوتے پرنہیں بلکہ ایمان کی طاقت سے لڑی جاتی ہے۔

شام کے بیدار عوام مسلسل دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بناتے آرہے تھے چاہے وہ بشار کے خلاف مزاحمت ہو یا سفارتی محاذ۔  2014 کے اوائل میں دوسری جنیوا  کانفرنس کی ناکامی اس بات کا واضح ثبوت ہے  جب شامی اتھارٹی نے عبوری حکومت پر بحث کرنے سے انکار کردیا۔ حزب التحریر نے  امت کی رہنمائی کا سلسلہ جاری رکھا" شامی عوام کو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنا ہوگا اور اس بات کا یقین رکھنا  ہوگا  کہ فتح صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ آپ کو اپنے انقلاب  کو شفاف انداز اور انتہائی وضاحت کے ساتھ برقرار رکھنا ہوگا ، وہ انقلاب  جس کا آغاز یہ کہہ کر کیا گیا  کہ 'یہ صرف اللہ کے لیے ہے، یہ صرف اللہ کے لیے ہے' اور اس بابرکت انقلاب کو جنیوا کانفرنس کی مذاکراتی میزوں پر فروخت کرنے سے ہر صورت باز رہا جائے، اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان یاد رکھنا جائے، " اے ایمان والو! اپنی جماعت کے لوگوں کے سوا دوسروں کو اپنا راز دار نہ بناؤ وہ تمہاری خرابی کے کسی موقع سے فائدہ اٹھانے میں نہیں چوکتے تمہیں جس چیز سے نقصان پہنچے وہی ان کو محبوب ہے ان کے دل کا بغض ان کے منہ سے نکلا پڑتا ہے اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں وہ اس سے شدید تر ہے ہم نے تمہیں صاف صاف ہدایات دے دی ہیں، اگر تم عقل رکھتے ہو (تو ان سے تعلق رکھنے میں احتیاط برتو گے) {سورۃ آل عمران: 118}

 

اور یقیناً امت کا نعرہ یہی تھا، "شعب یرید - الخلافۃ بالجدید"

ادھر امریکی حمایت یافتہ  FSA بھی  شدید ناکامی سے دوچار تھی۔ اسلام پسندوں نے اس کے قدم اکھاڑ کر رکھ دیے تھے ۔ پے درپے ناکامیوں کے پیش نظرFSA کی کمان  سلیم ادریس  سے  بریگیڈیئر عبداللہ البشیر کو سونپی گئی۔ مگر شکست کے بادل   مسلسل منڈلاتے رہے۔ ساری سیاسی چالیں   شکست کھاچکی تھیں اس لیے ضروری تھا کہ حکمت عملی میں بنیادی تبدیلی لائی جائے ۔ اور پھر ہم نے دیکھا کہ عسکری تنظیم دولۃ اسلامیہ عراق و شام کو نشانہ بنانے کی آڑ میں امریکا  بالآخر شام پر براہ راست حملہ آور ہوگیا ۔۔مگر یہ امت کے لیے کوئی  انوکھی بات نہ تھی کیوں کہ اس کے متعلق امیر حزب التحریر شٰخ عطابن خلیل ابو الرشتہ   مئی 2013 میں ہی آگاہ کرچکے تھے ۔ امیر حزب التحریر نے یہ  واضح کیا تھا کہ ، "میڈیا   کی سیکولر عناصر کو بے پناہ کوریج دینے کے باوجود سیکولر آوازیں  بالکل دب کر رہ چکی تھیں اور  امریکا  خلافت کے قیام کیلیے اٹھنے والی آوازوں سے  بوکھلاکر رہ گیا تھا۔"

امریکا اور اس کے حواریوں کے لیے صورتحال مسلسل بگڑتی جارہی تھی ۔ امیر حزب التحریر نے ڈیڑھ برس قبل  ہی اس حقیقت سے پردہ اٹھادیا تھا کہ معاملات مکمل ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر  امریکا نے تین نکات  پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔ اول یہ کہ بشار کو قتل و غارت گری کی چھوٹ دی جائے  تاکہ عوام کو اپنے منصوبوں کے سامنے گٹھنے ٹیکنے پر مجبور کیا جائے تاکہ  شام میں سیکولر سول ریاست کا قیام ممکن بنایاجاسکے  اور پھر مکمل ریاستی ڈھانچہ اور جمہوری نظام برقرار رکھتے ہوئے  چہروں  کو تبدیل کردیا جائے۔ تاہم  کفار اور اسکے ایجنٹوں کو  بیدار امت کے مقابلے میں ہمیشہ منہ کی کھانا پڑی ۔ شام کے عوام نے  معاذ الخطیب، جارج سابرا، احمد جابرا ، عبوری وزیراعظم  غسان ہیتو ، سلیم ادریس،  عبداللہ البشیر،  کوفی عنان ، لخدر براہمی ، جنیوا ون  اور جنیو ٹو  سمیت کفار کے تمام منصوبوں کو دھول چٹائی ۔

پہلا منصوبہ ناکام ہونے کی صورت میں ان کا دوسرا منصوبہ یہ تھا کہ  اگر وہ  اپنے حمایت یافتہ باغیوں  یا حزب اختلاف کے ذریعے بشار الاسد کو عہدے سے ہٹانے میں ناکام رہے تو  عالمی مداخلت کے ذریعے  اپنی مرضی کی حکومت منتخب کی جائے  گی ۔یہ دونوں منصوبے ناکام ہونے کی صورت میں کفار کی یہ سوچ تھی کہ معاملات اس حد تک بگڑ چکے ہیں ، ہر طرف اتنی تباہی  پھیل چکی ہوگی کہ اگر اسلام کو اقتدار حاصل ہوبھی جاتا ہے تو امت  مایوسی کے سبب نشاۃ ثانیہ حاصل کرنے کی خواہش رکھنے کے باوجود اپنے احیا ء کی جانب  قدم نہ بڑھا سکے گی۔

مگر کفار  اور ان کے پیروکار یہ سمجھنے میں قاصر رہے کہ  یہ ایک بہترین امت ہے جسے دنیا  کی امامت کے لیے چنا گیا ہے  اور اس امت میں ایسے لوگ اب بھی موجود ہیں جو  امت کو نشاۃ ثانیہ کی جانب لے جانا جانتے ہیں اور کفار و منافقین کے سارے  منصوبوں  کو ناکام بنادیں گے۔ یہ جانتے نہیں کہ یہ وہی امت ہے جس نے روم و فارس جیسے عظیم سلطنتوں کو ناکون چنے چبوانے پر مجبور کیا ، صلیبیوں  کو ان کی اوقات یاد دلائی اور یہود و ہنود پر اپنا رعب و دبدبا طاری کیا۔ رب کائنات کا  یہ فرمان کسی صورت جھٹایانہیں جاسکتا کہ ،

" تم وہ بہترین امت ہو  جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو یہ اہل کتاب ایمان لاتے تو انہی کے حق میں بہتر تھا اگرچہ ان میں کچھ لوگ ایمان دار بھی پائے جاتے ہیں مگر اِن کے بیشتر افراد نافرمان ہیں۔"{ آل عمران:110}

 

امت مسلمہ کو اللہ نے وہ سب کچھ عطا کیا ہے جو اسے  دنیا کی دیگر اقوام سے ممتاز کرتی ہے  بس ضرورت  ہے تو صرف اس بات کی کہ امت میں بیدار سیاسی شخصیات اور گروہ موجود رہیں  جو امت کو کفار کے منصوبوں سے باخبر رکھیں ۔ اور اس باخبر اور باشعور حزب پر بھی  یہ لازم ہے کہ وہ  امت میں اپنی جڑیں مضبوط کرے اور امت کے ہر طبقے سے مستحکم روابط رکھے  تاکہ امت حزب کے ساتھ آگے بڑھے اور  کفار کے گھناؤنے منصوبوں  کو ملیامیٹ کرنے کا سلسلہ جاری رکھے۔ امت کے فرزندوں کی حیثیت سے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم    امت میں بہترین انداز میں دعوت رکھیں ، بہترین سیاست دان بنیں اور اس امت کو اس منزل تک پہنچائیں جس کی  یہ مستحق ہے۔ یہ عمل ہمیں اس دنیا میں  بھی عزت دلائے گا اور آخرت میں بھی ہمارا حساب شہدا ، صدیقین اور صالحین کے ساتھ کیا جائے گا، انشاء اللہ۔ بے شک عزت اور ذلت دونوں اللہ ہی کی طرف سے ہے۔

عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا، " واللہ تم کسریٰ کے خزانے فتح کرو گے۔ میں نے کہا کسریٰ بن ہرمز کے؟ آپ ﷺنے فرمایا، ہاں کسریٰ بن ہرمز کے ۔تم میں مال کی اس قدر کثرت ہو پڑے گی کہ کوئی لینے والا نہ ملے گا۔ اس حدیث کو بیان کرتے وقت حضرت عدی نے فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا فرمان پورا ہوا ۔ یہ دیکھو آج حیرہ سے سواریاں چلتی ہیں بےخوف خطر بغیر کسی کی پناہ کے بیت اللہ پہنچ کر طواف کرتی ہیں ۔ صادق و مصدوق کی دوسری پیشنگوئی بھی پوری ہوئی۔ کسریٰ کے خزانے فتح ہوئے میں خود اس فوج میں تھا جس نے ایران کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور کسریٰ کے مخفی خزانے اپنے قبضے میں لئے۔ واللہ مجھے یقین ہے کہ صادق و مصدوق (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تیسری پیشین گوئی بھی قطعاً پوری ہو کر ہی رہے گی۔"

واللہ ہمیں بھی یقین ہے کہ رسول ﷺ  کی  "نبوت  کے نقش قدم پر خلافت  کے دوبارہ قیام " کی بشارت بھی ضرور پوری ہو کر رہے گی۔

 

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا

انجینئرعمیر ، پاکستان

 

Read more...

خبر اور تبصرہ یقیناً خلافت کا سورج طلوع ہونے کے قریب ہے

خبر: 4 مارچ 2015 کو پاکستان کے صف اول کے اردو اخبار میں ایک مضمون "خلافت" شائع ہوا۔ پھر 11 مارچ کو اسی میڈیا گروپ کے انگریزی  اخبار نے بھی  اِس مضمون کو شائع کیا۔ مضمون نگار  نے یہ دعویٰ کیا کہ "اِس میں شبہ نہیں کہ خلافت کا لفظ اب کئی صدیوں سے اصطلاح کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن یہ ہر گز کوئی دینی اصطلاح نہیں ہے۔۔۔رہی یہ بات کہ دنیا میں مسلمانوں کی ایک ہی حکومت ہونی چاہیے اور یہ اسلام کا حکم ہے تو قرآن سے واقف ہر صاحب علم جانتا ہے کہ وہ اِس طرح کے کسی حکم سے خالی ہے۔۔۔۔اُن کی ایک ریاست ہائے متحدہ کا قیام ہم میں سے ہر شخص کی خواہش ہوسکتی ہے اور ہم اِس کو پورا کرنے کی جدوجہد بھی کرسکتے ہیں لیکن اِس خیال کی کوئی بنیاد نہیں ہے کہ اسلامی شریعت کا کوئی حکم ہے جس کی خلاف ورزی سے مسلمان گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں"۔

 

تبصرہ:خلافت کے موضوع پر ملک کے صف اول کے اخبار میں ایک مضمون شائع ہونا جو کہ سیکولر سوچ کا حامل بھی ہو، ایک ایسا امر ہے جو شازو نادر ہی ہوتا ہے۔ لیکن جو بات سب سے زیادہ خوشگوار حیرت کا باعث ہے  وہ یہ کہ کوئی ایک درجن سے زائد مضمون نگار وں اور علماء نے اس مضمون کے خلاف جواب تحریر کیا اور یہ جوابات صرف اُس اخبار میں ہی شائع نہیں ہورہے جس نے اصل مضمون شائع کیا تھا بلکہ دوسرے اخبارات بھی اس  کے خلاف جوابات شائع کررہے ہیں۔ ان درجن بھر سے زائد مضمون نگاروں  اور علماء  نے اس رائے کی شدید نفی کی کہ خلافت کے نام کا نہ تو کوئی ادارہ ہے اور نہ ہی یہ کوئی اسلامی اصطلاح ہے۔ اب تک اصل مضمون کے خلاف مختلف لوگوں کی جانب سے جوابات لکھنے کا سلسلہ جاری ہے۔ حد تو یہ ہے کہ جس اخبار نے اصل مضمون شائع کیا تھا اس کے ایک سیکولر مضمون نگار نے نہ صرف  خلافت کو غیر اسلامی اصطلاح قرار  دینے والے مضمون نگار کو  شدید تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ یہ کہا کہ پاکستان کے لوگ کبھی بھی اِن کی بات کو تسلیم نہیں کریں گے۔ اب تک کوئی ایک مضمون نگار یا عالم سامنے نہیں آیا جس نے خلافت کے تصور کے خلاف لکھا ہو۔

 

کچھ سالوں پہلے تک ہم آپس میں یہ سوال کیا کرتے تھے کہ وہ وقت کب آئے گا جب خلافت کا موضوع پاکستان میں زبان زدِ عام ہوگا۔ لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ واقعی خلافت کا سورج طلوع ہوا ہی چاہتا ہے۔ ایک بات جو بہت حوصلہ افزا ہے وہ یہ  کہ  اِس مضمون پر جواب لکھنے  اور اسلام کو جدیدیت کی عینک سے دیکھنے کے خلاف حزب التحریر  نے کوئی مہم نہیں چلائی بلکہ یہ تمام مضمون نگار اور علماء خود آگے آئے ہیں۔   اِ ن لوگوں نے  نہ صرف مضمون نگار کو سیاسی لحاظ سے غلط ثابت کیا بلکہ شرعی حوالوں سے یہ بھی ثابت کیا کہ اسلامی ریاست کا قیام محض مسلمانوں کی خواہش ہی نہیں ہے بلکہ یہ اللہ سبحانہ و تعالٰی کا حکم  ہے جس کو پورا کرنا فرض ہے۔ ان دانشوروں نے مضمون نگار کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا کہ وہ سیکولر افکار کو اسلام کا لبادہ پہنا کر پیش کررہے ہیں۔

 

ایسا معلوم ہوتا ہے  کہ راحیل-نواز حکومت نے پشاور میں اسکول پر حملے کے بعد، جس میں ایک سو چالیس سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں اکثریت بچوں کی تھی، نیشنل ایکشن پلان کے تحت معاشرے کو اسلامی افکار سے پاک کردینے کو اپنا ہدف بنالیا ہے،  خصوصاً وہ افکار جو شریعت کے نفاذ  اورخلافت کے قیام کے ذریعے امت کو متحد کرنے سے متعلق ہیں۔  یہی وجہ ہے کہ حکومت کے چمچے اکثر یہ کہتے ہیں کہ یہ جنگ طویل ہے جو پندرہ سے بیس سال تک چل سکتی ہے۔ لیکن معاشرے کے دانشوروں نے جس طرح خلافت کے موضوع کا دفاع کیا ہے، اس کے نتیجے میں سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہوں گے کہ انہیں واشنگٹن میں بیٹھے اپنے آقا کے خواب اور خواہش کو پورا کرنے کے لئے شاید اس بھی زیادہ طویل عرصے تک جنگ کرنی پڑے گی۔ لیکن حقیقت یہ ہے اللہ سبحانہ و تعالٰی وعدہ فرما چکے ہیں کہ وہ اپنے نور کو لازمی پورا کریں گے اور جو بھی اس نور کو تکمیل تک پہنچنے سے روکنے کی کوشش کرے گا وہ ناکام و نامراد رہے گا۔

 

إِنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّواْ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ فَسَيُنفِقُونَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُونَ

"بے شک جن لوگوں نے کفر کیا وہ اپنے اموال اس لیے خرچ کرتے ہیں تا کہ اللہ کے راستے سے روکیں سو یہ تو مال خرچ کریں گے پھر وہی مال ان کے خسارے کا سبب بنے گا اور پھر یہ مغلوب ہو کر رہیں گے"(الانفال:36)

 

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا

شہزاد شیخ

ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

حزب التحریر کے امیر، ممتاز عالم :عطاء بن خلیل ابو رَشتہ حفظہ اللہ کا منگل 3 مارچ 2015 ءکو استنبول میں  منعقد ہو نے والی خلافت کانفرنس سے افتتاحی خطاب موضوع: صدارتی جمہوری ماڈل یا خلافتِ راشدہ  

سب تعریفیں  اللہ ہی کے لیے ہیں ،درود  و سلام ہو  اللہ کے رسول ﷺپر اور آپ کی آل اور صحابہ رضی اللہ عنھم اور آپ ﷺکے نقش قدم پر چلنے والوں پر؛

محترم حاضرین! اللہ آپ کو اپنی اطاعت کا شرف بخشے،  اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

 

﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ﴾

"اللہ تم میں سے ان لوگوں سے وعدہ فرما چکا ہے  جو ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک اعمال کیے کہ اللہ ان کو  موجودہ حکمرانوں کی جگہ حکمرانی عطا کرے  گا جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو خلافت سے نواز چکا ہے" (النور:55)،

 

اور آپﷺ نے فرمایا :

 

«... ثُمَّ تَكُونُ جَبْرِيَّةً، فَتَكُونُ مَاُ شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ»

"پھر جابرانہ حکمرانی کا دور ہو گا جب تک اللہ چاہے گا  پھراللہ اسے اٹھا لے گا جب اس کو اٹھا نا چاہے گا، اس کے بعد پھر نبوت کے نقشِ قدم  پر خلافت ہو گی"( اس حدیث کو امام احمدبن حنبل  اور طیالسی نے روایت کیا ہے )۔

 

میں چاہتا ہوں کہ اپنی بات کی ابتدا حکمرانی واقتدار کے متعلق اللہ کے وعدے اور رسول اللہ ﷺ کی بشارت سے کروں کہ یہ جابرانہ دور کہ جس میں ہم رہ رہے ہیں اس کے بعد اللہ کے اذن سے دوبارہ خلافت قائم ہوگی۔ میں ابتدا امید سے کر تا ہوں،   اس المناک صورت حال کا ذکر کرنے سے قبل جس سے امت مسلمہ نوے سال سے زیادہ عرصے سے دوچار ہے۔ 28رجب 1342 ہجری بمطابق مارچ 1924 ء کو  استعماری کفار، برطانیہ کی قیادت میں،  اپنے عرب اور ترک ایجنٹوں کے ذریعے  خلافت کو ختم کر نے میں کامیاب ہوگئے۔  یہ فیصلہ پیر تین مارچ 1924 ء کو انقرہ کی پارلیمنٹ کے دوسر ےاجلاس میں صادر کیا گیا۔   یہ اجلاس  دو پہر3:25 pm سے 6:45 pm  تک جاری رہا  اور خلافت کو ختم کرنے کے ہلاکت خیزفیصلے پر ختم ہوا...حیران کن بات یہ تھی کہ اس فیصلے کے لیے ووٹنگ  خفیہ بیلٹ پیپر کے ذریعے نہیں بلکہ ہاتھ اٹھانے کے ذریعے ہوئی ! ممبرانِ  پارلیمنٹ کوخوف و ہراس کی فضاء میں  ہاتھ اٹھا نے پر مجبور کیا گیا تاکہ اس خطرناک کام میں  ہاتھ اٹھانے والے اور نہ اٹھانے والے واضح ہو جائیں!  اس سیاہ دن سے لے کرآج تک امت مسلمہ  اپنی زندگی اور اقوامِ عالم کے درمیان  اپنے مقام کے حوالے سے بحرانوں سے دوچار ہے۔

 

مسلمان  جو ایک امت اور ایک ریاستِ خلافت تھے  اب ٹکڑے ٹکڑے ہو کر  پچاس سے زیادہ ریاستوں میں تقسیم ہو گئے...پہلے ہمارا دستور  وہ احکامات تھے جو انسانوں کے رب  نے نازل کیا تھا  اب ہم انسانوں ہی کے بنائے ہوئے دستورکے غلام بن گئے۔  پہلے مسلمان  فتوحات پر فتوحات کر کے دنیا کے طول وعرض میں  خیر کو پھیلاتے تھے  اور دنیا کی قیادت ان کے ہاتھ میں تھی  ،اب  مسلمانوں کے علاقوں کو ہر کونے سے بلکہ  درمیان سے بھی کاٹا گیا !  وہ یہود  جن پر ذلت اور  بربادی  لکھ دی گئی تھی انہوں نے اسراء اور معراج کی سرزمین، فلسطین پر قبضہ کر لیا ۔  صرف یہی نہیں  بلکہ مسلم دنیا کے حکمرانوں نے  یہودی ریاست کو تسلیم کر لیا   اور اس  کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی قائم کر لیے ۔  جب  ایک مظلوم عورت  نے  فریاد کی اور' ہائے معتصم' کی دُہائی بلند کی تو خلیفہ معتصم خود فوج کی قیادت کر تا ہوا اس کی مدد کو پہنچا !  اس عورت کے انتقام میں  عموریہ کو فتح کیا گیا جو کہ آج  انقرہ کے قریب واقع ہے ۔   لیکن خلافت کے خاتمے کے بعد آج روئے زمین  پر مسلم عورت  پر ظلم و ستم اور اس کی عزت کی پامالی  معمول بن گئی ہے اور  اسلامی سرزمین کا کوئی حکمران اُن کی مدد کے لیے نہیں اٹھتا۔  ماضی میں  دنیا کی ریاستیں ہمارے سامنے جھولی پھیلاتی تھیں جیسا کہ  فرانس نے اپنے قیدی بادشاہ کو چھڑانے کے لیے  خلیفہ سلیمان القانونی  سے مدد طلب کی ، جبکہ خلافت کے خاتمے کے بعد ہم اپنے مسائل کو حل کرانے کے لیے استعماری کفار کے سامنے ہاتھ جوڑنے لگےہیں...

 

محترم بھائیو اور بہنو! اس طرح مسلمان  مصائب اور فتنوں کے نرغے میں آگئے۔مسلمانوں  کے آگے اور پیچھے ہر طرف قتل و غارت  ہی دکھائی دیتی ہے اور وہ حیران و پریشان ہیں !یہ صورتِ حال مسلمانوں کی تعداد یا وسائل کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے کہ اُن کی ڈھال ان سے چِھن گئی ہے۔   خلیفہ ڈھال کی مانند ہو تا ہے جس کے ذریعے حفاظت ہو تی ہے اور خلیفہ کی قیادت میں ہی لڑا جاتا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

 

«...َإِنَّمَا الإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ...»

"بے شک خلیفہ ڈھال ہے جس کی قیادت میں لڑا جاتا ہے اور اور جس کے ذریعے بچاؤ ہو تا ہے"(بخاری)۔

 

اس ڈھال اور آڑ کے زائل ہو نے کے بعد  مسلمان بے یار ومدد گار ہو گئےہیں بلکہ  اُن پر ایسے حکمران مسلط ہوگئے جو اللہ سے نہیں ڈرتےاور اُن  کا کام اپنے استعماری آقاؤں کے مفادات کا تحفظ کرنا  ہے اور لوگوں پر ظلم و جبر کرنا ہے۔

 

﴿وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ﴾

"ظلم کر نے والے عنقریب  جان لیں گے کہ وہ کس  کروٹ  الٹتے  ہیں"(الشعراء:227)۔

 

معززبھائیواور بہنو! خلافت مسلمانوں کی عزت کا سرچشمہ اور  قوت کی علامت ہے  اور  یہ بات استعماری کفار  کے سرغنہ بھی جانتے ہیں ۔   لارڈ کرزن نے خلافت کے انہدام کے بعد برطانوی House of Commons سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا  کہ "معاملہ یہ ہے کہ  ترکی کا خاتمہ  کر دیا گیا ہے   اوروہ اب کبھی دوبارہ اُٹھ نہیں سکے  گا  کیونکہ ہم نے اس کی معنوی قوت  تباہ کر دی ہے : یعنی خلافت اور اسلام "۔ کفارخلافت کی حقیقت سے واقف  ہیں اس لیے انہوں نے خلافت کو ختم کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا  بلکہ وہ اس  کی دوبارہ واپسی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں اورانہوں نے اس کے لیے کام کرنے والوں کے خلاف وحشیانہ جنگ برپا کر رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب  ساٹھ سال پہلے حزب التحریر قائم ہوئی اور اس نے  خلافت کے مسئلے کو اس انداز سے اختیار کیا کہ یہ امت کے لیے  زندگی   اورموت کا مسئلہ ہے تو یہ غضب ناک ہو گئے ۔   پس استعماری کفار  اور اس کے ایجنٹوں نے   شرانگیزی کا ہر دستیاب اسلوب اختیار کیا ، انہوں نے حزب پر  بہتان باندھے ،حزب کے شباب کو گرفتارکیا،انہیں تشدد کا نشانہ بنایا،حتی کہ انہیں شہیدکیا گیا اور طویل مدت تک قید وبند میں ڈالا گیا...لیکن یہ حربے  ہر لحاظ سے ناکام ثابت ہوئے  اور حزب  اسی طرح میدان میں موجود  رہی  اور اس نے اللہ  کے سوا کسی کے سامنے سر نہ جھکایا۔   بالآخر  استعماری کفار نے  بعض   ایسی اسلامی تحریکوں کے جرائم  سے فائدہ اٹھایا  جنہوں نے غیر شرعی طریقے سے  خلافت کا اعلان کیا ہے اور وہ  ذبح کرنے، جلانے، تخریب کاری اور تباہی و بربادی جیسے غیر اسلامی اعمال سرانجام دے رہے ہیں ...استعماری کفار نے  ان تحریکوں کے جرائم سے فائدہ اٹھا یا،ان پر توجہ مرکوز کی اور ان کے جرائم کو میڈیا پر  خوب اچھالا ۔  تاکہ  مسلمانوں کے دلوں میں خوف پیدا کریں  کہ  جو لوگ خلافت چاہتے ہیں  وہ در اصل  قتل و غارت گری  چاہتے ہیں، اور یوں لوگ حقیقی خلافت سے بھی بیزار ہوجائیں۔  لیکن اللہ کے اذن سے استعماری کفار اپنے سابقہ ہتھکنڈوں میں بھی  ناکام ہوئے تھے اور  اس بار بھی نامراد ہو ں گے ۔  لوگوں کو شرعی خلافت کے بارے میں معلوم ہے  اوروہ حقیقی اورمصنوعی  خلافت میں فرق کر سکتے ہیں۔  خلافت حق ہے کوئی غیر معلوم  اجنبی چیز نہیں...یہ وہ منفرد نظام ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے نافذ کر کے مسلمانوں کے لیے بیان کیا اور  جس پر آپﷺ کے بعد خلفائے راشدین چلے۔ خلافت بادشاہت یا استعماری نظام نہیں،نہ ہی یہ صدارتی یاپارلیمانی جمہوریت کی مانند ہے،اور نہ ہی یہ آمریت یا جمہوریت ہے،کہ جن میں اللہ کی جگہ انسان قوانین بناتے ہیں اورنہ ہی خلافت  خودساختہ نظاموں کی کوئی اور قسم ہے۔  یہ عدل کی خلافت ہے، اس کے حکمران خلفاء امام ہوتے ہیں جن کے ذریعے حفاظت ہو تی ہے  اور جن کی قیادت میں جہاد کیا جاتا ہے۔ خلافت اپنے شہریوں کے خون  کی حفاظت کرتی ہے  اور ان کی عزتوں کی رکھوالی کرتی ہے،وہ اموال کا تحفظ کر تی ہے، غیر مسلم شہریوں (اہلِ ذمہ) کے ساتھ امن و تحفظ کے معاہدے کو پورا کرتی ہے۔  وہ رضامندی اور اختیار سے بیعت لیتی ہے زبردستی اور جبر سے نہیں، لوگ ہجرت کر کے اس کے سائے میں تحفظ حاصل کرتے ہیں، اس سے متنفر ہو کر بھاگتے نہیں ہیں۔

 

اے حاضرین،  اے بصارت اور بصیرت والو، اے عقل کے حامل بھائیو اور بہنو! اے مسلمانوں کی ڈھال اور پناہ گاہ  ،خلافت ،کے نہ ہونے کی وجہ سے درد محسوس کرنے والے لوگو! اس گناہِ عظیم کو اپنی گردنوں سے اتار دو، خلافتِ راشدہ کے قیام کے ذریعے  دنیا پر اسلامی زندگی  کی واپسی کے لیے کام کرو ۔  اس فرض کی ادائیگی  کے لیے   کام نہ کرنا  گناہِ عظیم ہے ،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

 

«... وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ، مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً»

"جو کوئی بھی اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں خلیفہ کی بیعت نہیں تو وہ جاہلیت کی موت مرا" (مسلم)؛

 

یعنی  شرعی طریقے  سے مقرر ہونے والے خلیفہ کی بیعت۔  اس لیے  مرد  و عورت، عوام اور خواص سب اخلاص اور سچائی سے  خلافت کے قیام کے لیے کام کریں، بے شک یہ عظیم کامیابی کا موجب ہے۔

 

آخر میں میں  آپ کو یاد دہانی کرواتا ہوں اور  اطمینان دلاتا ہوں : یاد دہانی اس بات کی کروا تا ہوں کہ یہ شہر  جہاں آپ کی  یہ کانفرنس منعقد ہو رہی ہے  یہی شہر  قسطنطنیہ میں سے سب سے پہلے فتح ہوا تھا،پھر یہیں سے  افواج قسطنطنیہ کو فتح کرنے کے لیے نکلتی تھیں جنہیں خلیفہ ایشیاء سے روانہ کرتا تھا۔ اس شہر میں ان افواج کے فوجی کیمپ ہوتے تھے اور وہ اس کی بندر گاہ  سے قسطنطنیہ پر حملہ کرنے کے لیے یورپ کی سمت نکلتی تھیں اور اس کا محاصرہ کرتی تھیں۔  ایسا کئی بار ہوا یہاں تک کہ اللہ نے سلطان محمد الفاتح کو  یہ شرف ِعظیم بخشا اور رسول اللہ ﷺ کا فرمان سلطان محمدالفاتح کے حق میں پور ا ہوا،جب آپ ﷺ نے فرمایا تھا  :

 

«لَتُفْتَحَنَّ الْقُسْطَنْطِينِيَّةُ، فَلَنِعْمَ الْأَمِيرُ أَمِيرُهَا، وَلَنِعْمَ الْجَيْشُ ذَلِكَ الْجَيْشُ»

"قسطنطنیہ کو ضرور فتح کیا جائے گا ، کیا ہی اچھا امیر اُس فوج کا امیر ہو گا اور کیا ہی اچھی وہ فوج ہو گی"

 

اس کو احمد نے روایت کیا ہے ۔  اورمیں آپ کو اس بات کا اطمینان دلاتا ہوں کہ حزب التحریر  میں موجود آپ کے بھائی  حق پر ثابت قدم ہیں،اور خلافتِ راشدہ کی واپسی کے بارے میں اللہ کے وعدے اور اس کے رسول ﷺ کی بشارت کو پانے کے لیے تن من دھن کی بازی لگارہے ہیں ۔  وہ اللہ کے معاملے میں کسی کی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے، اور رسول اللہ ﷺ کے نقش قدم کی پیروی کر رہے ہیں ۔  اللہ  سبحانہ و تعالی کے اذن سے آپ کے  بھائی اس راستے پر منزل مقصود کے قریب پہنچ چکے  ہیں ، عنقریب  آپ سب عقاب  (رسول اللہ ﷺ کا جھنڈا) کے سائے میں اکھٹے ہو جائیں گے،زمین خلافت سے چمک اٹھے گی، دار  الاسلام  امن و امان  کا گہوارہ ہو گا اور عدل سے بھر جائے گا

 

﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾

"اس دن مؤمن خوش ہوں گے اللہ کی مدد سے ، وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتاہے ،  وہی غالب اور مہربان ہے"(الروم:4،5)

 

بات ختم کرنے سے پہلے میں آپ کی کانفرنس کی کامیابی کے لیے دعاگو ہوں ، اللہ اس میں   بر کت ڈالے  ، اللہ کا نام لے کر شروع کریں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے میری دعا ہے کہ وہ اس کانفرنس کو بار آو ربنا ئے ،جس سے مسلمانوں اور اسلام کو عزت اور استعماری کفار کو ذلت ملے۔

﴿وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾

"اور  اللہ ہی اپنے فیصلے میں غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے"(یوسف: 21)۔

 

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ

امیر حزب التحریر  -شیخ عطاء بن خلیل ابورَشتہ

12 جمادی الاولی 1436ہجری، بمطابق 3 مارچ 2015ء

 

Read more...

‫‏لاہور‬ میں گرجا گھروں پر حملے صرف ‫‏خلافت‬ ہی غیر مسلموں کی جان ،مال اور عزت و آبروکی حفاظت کرسکتی ہے


15 مارچ 2015 بروز اتوار لاہور میں دو گرجا گھروں پر حملہ کیا گیا جس میں 15افراد جاں بحق ہو گئے۔ حزب التحریر ان حملوں کی پرزور مذمت کرتی ہے اور ہلاک شدگان کے لواحقین سے اظہار ہمدردی کرتی ہے۔
پاکستان میں رہنے غیر مسلموں خصوصاً عیسائیوں اور ان کی عبادت گاہوں پر پچھلے چند سالوں میں کئی حملے ہو چکے ہیں۔ لیکن ہر حملے کے بعد حکومت صرف ایک مذمتی بیان اور لواحقین کے لئے امدادی رقوم کا اعلان کر کے چین کی نیند سو جاتی ہے۔ پاکستان میں رہنے والی اقلیتوں پر یہ بڑھتے حملے صرف مقامی مسئلہ نہیں رہا بلکہ دنیا بھر میں اقلیتوں اور ان کی عبادت گاہوں پر حملے روز کا معمول بنتے جارہے ہیں جس میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت اور دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ بھی شامل ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں، عیسائیوں اور ان کی عبادت گاہوں پر حملے معمول بن چکے ہیں جبکہ حالیہ دنوں میں یورپ و امریکہ میں بھی مسلمانوں اور ان کی عبادت گاہوں پر حملے ہونے شروع ہو گئے ہیں۔
درحقیقت جمہوری نظام اپنے زیرِ سایہ رہنے والی اقلیتوں کا تحفظ کرہی نہیں سکتا کیونکہ یہ نظام تو اکثریتی اور طاقتور طبقے کے مفادات کے تحفظ کے لیے بنا ہے۔ پاکستان میں تو یہ معاملہ نام نہاد دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں شمولیت کی وجہ سے زیادہ گھمبیر ہو چکا ہے۔ اسلام کے خلاف امریکی جنگ کو دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ ثابت کرنے کے لئے پچھلے چند سالوں سے مسلمانوں اور غیر مسلوں دونوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور ہربار اس کی ذمہ داری کوئی ایسی تنظیم قبول کرلیتی ہے جس کا نام تو اسلامی لیکن کام قطعاً غیر اسلامی، حرام ہوتا ہے۔ ان حملوں(False Flag) سے صرف امریکہ اور مسلم دنیا پر مسلط اس کی ایجنٹ حکمرانوں کا مفاد ہی پورا ہوتا ہے جنہیں اِن سانحات کی بنا پر اُن لوگوں کی خلاف ظلم و جبر کرنے کا موقع مل جاتا ہے جو مسلم علاقوں پر امریکہ و کفار کے قبضے کے خلاف عسکری جدوجہد یا مسلم دنیا میں اسلام کے مکمل نفاذ کی سیاسی و فکری جدوجہد کررہے ہوتے ہیں۔

غیر مسلموں کی جان، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کا جتنا سخت حکم اسلام دیتا ہے دنیا کا کوئی دین اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ،


أَلا مَنْ قَتَلَ نَفْسًا مُعَاهِدًا لَهُ ذِمَّةُ اللَّهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ فَقَدْ أَخْفَرَ بِذِمَّةِ اللَّهِ، فَلا يُرَحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ سَبْعِينَ خَرِيفًا،

"جس کسی نے معاہد شخص کو قتل کیا جس کو اللہ اور اس کے رسول نےعہد دیا تو اس نے اللہ کے عہد کو توڑا ۔ ایسا شخص جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھ سکتا حالانکہ جنت کی خوشبو ستر سال کے فاصلے پر بھی سونگھی جاسکتی ہے"(الترمزی)۔
اسی لیے حزب التحریر نے آنے والی ریاست خلافت کے مجوزہ آئین کی شق 6 میں یہ لکھا ہے کہ "ریاست کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے شہریوں کے مابین حکومتی معاملات، عدلاتی فیصلوں، لوگوں کے معاملات کی دیکھ بحال اور دیگر امور میں امتیازی سلوک کرے بلکہ اس پر فرض ہے کہ وہ تمام افراد کو رنگ، نسل اور دین سے قطع نظر ایک ہی نظر سے دیکھے"۔ لہٰذا صرف خلافت میں ہی غیر مسلم اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کرنے کی آزادی اور اپنے جان، مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کے یقین کے ساتھ زندگی گزار سکیں گے جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا کہ جب دنیا بھر سے غیر مسلم اپنی ظالم حکومتوں کے جبر سے فرار حاصل کرکے اسلامی خلافت میں پناہ لیا کرتے تھے۔
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

حزب التحریر کے خلاف جبر ‫‏خلافت‬ کے قیام کو روک نہیں سکتا نیشنل (‫‏امریکی‬) ایکشن پلان کا مقصد اسلام اور خلافت کی پکار کو دبانا ہے

راحیل-نواز حکومت نیشنل (امریکی )ایکشن پلان کے تحت پاکستان میں اٹھنے والی ہر اس آواز کا گلا گھوٹ دینا چاہتی ہے جو اسلام اور خلافت کے قیام کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ حکومت اپنے آقا امریکہ کی خوشنودی کے لئے ہر حد کو پار کرتی جارہی ہے۔ لاہور کے ایک انتہائی باعزت جگرانوی خاندان کے فرزند حکیم احسان کو کل ان کے رائے ونڈ میں واقع مطب خانے سے پولیس نے گرفتار کرلیا۔ حکیم احسان جگرانوی اور جگرانوی خاندان کے مرد و خواتین پر حکومت نے ایک جھوٹا اور بے بنیاد مقدمہ قائم کررکھا ہے اور اس مقدمے کو لے کر اس خاندان کو مسلسل ہراساں کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس خاندان کا قصور یہ ہے کہ وہ حکومت کے جبر کے باوجود اسلام اور خلافت کے قیام کی جدوجہد سے دست بردار نہیں ہورہا۔
حکیم احسان جگرانوی لاہور کے ایک معروف طبیب ہیں اور انہوں نے اپنی زندگی اسلام اور خلافت کے قیام کی جدوجہد کے لئے وقف کررکھی ہے۔ حکومت کی جانب سے مسلسل ہراساں کرنے اور اس اندیشے کے باوجود کہ پالیس ان کو گرفتار کرسکتی ہے وہ اپنےمعمول کے مطابق اپنے مطب جارہے تھے کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا بلکہ حکمرانوں کا احتساب کر کے رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث کی پیروی کررہے ہیں جس کے مطابق ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا جہاد اکبر ہے۔ یقیناً جگرانوی خاندان نے کوئی جرم نہیں کیا لیکن اس کے باجود ان کے مرد و خواتین کو جیل کی سلاخوں کی پیچھے ڈالا جارہا ہے جبکہ ملک بھر میں امریکی دہشت گرد نہ صرف دندناتے پھرتے ہیں بلکہ اگر رنگے ہاتھوں گرفتار بھی کرلیے جائیں تو براہ راست امریکی سفارت خانہ مداخلت کر کے انہیں بازیاب کروا لیتا ہے۔ آج ہی اسلام آباد ائر پورٹ سے ایک امریکی کو پستول اور گولیوں سمیت گرفتار کیا گیا لیکن جیسے ہی امریکہ سفارت خانے نے اس کو اپنا آدمی تسلیم کیا تو اس کو آزاد کردیا گیا۔

حزب التحریر راحیل-نواز حکومت کو یہ بتا دینا چاہتی ہے کہ تمہاری گھٹیا حرکات اور ظلم و ستم خلافت کے قیام کو کسی صورت نہیں روک سکتا۔ یہ امت اپنے منزل کو جان چکی ہے اور اب اس کو پانے کے لئے تیزی سے اس کی جانب گامزن ہے اور اس کا ادراک خود تمہارے آقا امریکہ کو بھی اچھی طرح ہے اسی لئے وہ سیاسی و فکری جدوجہد کرنے والوں کے خلاف بھی تمہیں ہر حد کو توڑنے کا حکم دے رہا ہے۔ راحیل-نواز حکومت ! تم اس جنگ میں ہارنے والے فریق کے ساتھ کھڑے ہو کیونکہ یہ امت اسلام کے حق میں اپنا فیصلہ دے چکی ہےجس کا ایک ثبوت امریکی ادارے "پیو" کا مسلم دنیا کے حوالے سے حالیہ سروے ہے جس کے مطابق مسلم دنیا کی عظیم اکثریت اسلام کو سرکاری قانون کی حیثیت سے دیکھنا چاہتی ہے۔ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ تمہاری یہ کوشش دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی تمہیں فائدہ تو دور کی بات صریحاً خسارے کا باعث بنے گی کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالٰی تو یہ اعلان واضح طور پر کرچکے ہیں کہ وہ اپنے نور کو پورا کیے بغیر ماننے والے نہیں۔ تو بہتر کہ تم اپنی روش سے توبہ کرو اور خلافت کے قیام کی جدوجہد کرنے والوں کی راہ سے ہٹ جاؤ کہ شاید اللہ تمہارے پچھلے گناہوں کو معاف فرما دیں۔


وَمَن يُشَاقِقِ ٱلرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ ٱلْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ ٱلْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَآءَتْ مَصِيراً
"اور جو شخص رسول (ﷺ) کی مخالفت پر کمر بستہ ہو اور راہ راست واضح ہو جانے کے بعد بھی اہل ایمان کی روش کے سوا کسی اور کی روش پر چلے تو اسے ہم اسی کی طرف چلتا کردیں گے جدھر وہ خود پھر گیا ۔ اور ہم اسے جہنم میں جھونک دیں گے جو بدترین جائے قرار ہے" (النساء:115)

شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

عورت کا عالمی دن 2015 نسوانیت کے نام پر خواتین کو حقوق فراہم کرنے میں ناکامی کے سو سال

اقوام متحدہ اس سال  8 مارچ کے خواتین کے عالمی دن کو زیادہ اجاگر کرے گا تاکہ بیجنگ اعلامیہ اور  اس کے ایکشن پلان  پر روشنی ڈالی جا سکے جس پر 189 حکومتوں نے 20 سال پہلے خواتین کے حقوق ،ان کی زندگی بہتر بنانے  اور اقوام عالم میں دونوں جنسوں کے درمیان مساوات  کے حصول کے لیے ان کی جدوجہد کی حمایت  میں  دستخط کیے تھے ۔ اس معاہدے میں خواتین سے متعلق 12 باتوں پر زور دیا گیا تھا  جس میں غربت، تشدد،تعلیم کے حقوق، عسکری تنازعے،اختیار اور فیصلہ سازی شامل ہیں۔اقوام متحدہ نے اس کو تاریخی اعلان قرار دیا تھا  جس میں "خواتین کو  با اختیار بنانے کا   ایک واضح لائحہ عمل موجود ہے"  اور یہ  " سب سے جامع  عالمی پالیسی ڈھانچہ اور اس پر عمل کے لئے واضح  لائحہ عمل۔۔۔۔تا کہ دونوں جنسوں کے مابین مساوات اور خواتین  اور لڑکیوں کےلئے ہر جگہ  انسانی حقوق کو حقیقت بنادیا جائے "۔ لیکن  اس معاہدے کے بعد  دو دہائیاں گزرنے کے باوجود ،   خواتین کا پہلا عالمی دن منانے کے 104 سال بعد  اور  عورت اور مرد کے درمیان مساوات  کی نسوانی جدوجہد کے سو سال گزرنے جانے باوجود   دنیا کے  طول و عرض میں  کروڑوں عورتوں کی زندگی انتہائی المناک ہے۔ برطانوی اخبار انڈیپنڈنٹ میں شائع ہونے والی  رپورٹ کے مطابق  دنیا میں ہر تین میں سے ایک عورت کو زندگی میں  مار پیٹ یا زنا بالجبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے،1.2ارب غریبوں میں  70فیصد عورتیں اور بچے ہیں، 700 ملین عورتیں  ایسی زندگی گزار رہی ہیں کہ ان کو خوراک ،پینے کے صاف پانی، طبی سہولیات   کی کمی یا تعلیم کی عدم دستیابی کا سامنا ہے، 85 ملین لڑکیاں ا سکول  جانے سے قاصر ہیں اور ایک اندازے کے مطابق 1.2 ملین بچوں کی  بطور غلام سالانہ خرید وفروخت ہو تی ہےجن میں سے 80 فیصدلڑکیا ں ہیں۔ یہ سب کچھ حقوق نسواں کی بدترین ناکامی کا ظاہر کرتا ہے اور اس کی بنیادی فکر یعنی جنسوں کے درمیان مساوات کی بنیاد پر خواتین سے کیے جانے والے وعدوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

یہ بات بالکل واضح ہے کہ  حقوق اور اختیارات کے بارے میں "مساوات" کے خالی خولی دعوے ،عائلی زندگی  اور معاشرے  میں مرد اور عورت کے کردار  ، دونوں جنسوں کے درمیان مساوات   ہر گز خواتین کے احترام اور ان کی بہتر زندگی کا ضامن نہیں  بلکہ  نسوانیت  کا یہ جھوٹا نعرہ   عورت  کی اس درد ناک صورت حال سے توجہ ہٹا نے کے لیے استعمال کیا گیاجس  کا سبب ہی سکیولر سرمایہ دارانہ نظام ہے   جو گزشتہ صدی سے دنیا کی سیاست اور معیشت پر حاوی ہے۔ یہی نظام ہے جو   دولت مند اور غریب کے مابین زبردست تفاوت  اور معیشت کو تباہ کرنے کا سبب ہے؛ جس سے کروڑوں خواتین غربت کا شکار ہو گئیں اور تعلیم تباہ ہو گئی ،طبی سہولیات کا فقدان پیدا ہوا ، ان کے ملکوں میں دوسری خدمات بھی ناپائدار ہوگئیں۔  اس کے ساتھ ساتھ  سرمایہ دارنہ مادی نقطہ نظر نے  ایسی سوچ کو پروان چڑھا یا کہ   منافع کے لیے عورت  کے جسم کو استعمال کرنے میں کوئی برائی نہیں ، جس نے انسانی تجارت  کے لیے ماحول فراہم کیا ۔ اس کے علاوہ سکیولر سرمایہ داریت جو  ذاتی خواہشات کے حصول کو مقدس گردانتا ہے اور  عورت کو جنسیت کی نظر سے دیکھتا ہے، جس کے نتیجے میں میں عورت کی حالت ابتر ہو گئی  ،جنسی جرائم  کی وبا پھیل گئی، اسی وجہ سے آج وہ پامالی کا شکار ہے۔یہی وجہ ہے کہ نسوانیت  کا نقطہ نظر جو مساوات کی تنگ نظری پر مبنی ہے  جس کے ذریعے  سرمایہ دارانہ نظام کے اندر ہی  تبدیلی کی کوشش کے ذریعے اس کے عیوب کو چھپایا جارہا ہے ، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ  بنیادی تبدیلی کی بات کی جاتی ، یہ نظام ہمیشہ عورتوں کو ان کے حقوق دینے میں ناکام ثابت ہوا۔ لہذا بیجنگ اعلامیہ  اور خواتین کے بارے میں بین الاقوامی معاہدات جیسے  Cedaw  اور مساوات  کے  لیے مشرق سے مغرب تک لگائے جانے والے نعرے اور بینر سب ناکام ہو ئے  اور دنیا کی خواتین کو  عزت کی زندگی گزارنے کی ضمانت نہیں دے سکے۔ یہ اس بات کی واضح دالیل ہے کہ نسوانی تنظیمیں ،حکومتیں اور وہ ادارے  جو ان افکار کی ترویج کرتے ہیں  ان میں سے کسی کے پاس خواتین کے مسائل کا قابل اعتماد حل ،لائحہ عمل یا وژن نہیں ۔

اس کے مقابلے میں اسلام جس پر سکیولر حضرات  اس کے معاشرتی قوانین  کے سبب خواتین پر ظلم کرنے کا الزام لگاتے ہیں  کیونکہ یہ قوانین مغرب کے مساوات کے نظرئیے کے بر عکس ہیں، اس کے پاس  خواتین کے احترام کو بحا ل کرنے  کا ایک جامع ، قابل اعتماد اور مجرب   پروگرام ہے ،جوان کے مسائل کو حل اور ان کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔وہ پروگرام جس نے صدیوں تک  خلافت کے نظامِ حکومت کے سائے میں خواتین کو باعزت زندگی گزارنے کی ضمانت دی ۔ اسلام کے معاشرتی نظام کو حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس   کا شعبہ خواتین بڑے پیمانے پر جاری عالمی مہم میں واضح کر رہا ہے  جس کا عنوان ہے : "عورت اور شریعت  :حقیقت اور افسانے میں تمیز کے لیے" ۔ اس مہم کا اختتام  28 مارچ 2015 کو  ایک عالمی خواتین کانفرنس پر ہو گا۔ہم ہر اس شخص کو دعوت دیتے ہیں جو خواتین کی زندگی کو بہتر بنانے کے   ناکام معاہدات، فضول تجاویز اور جھوٹے وعدوں سے تھک چکا ہے کہ وہ اس اہم مہم اور کانفرنس کی پیروی کے لئے درج ذیل فیس بک صفحےسے رجوع کریں:

https://www.facebook.com/womenandshariahA

 

ڈاکٹر نسرین نواز

مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر شعبہ خواتین

Read more...

16-15 فروری 2015  کو ٹائمز آف انڈیا(Times of India)،ناو بھارت ٹائمز(Navbharat Times)،صحارا سمے(Sahara Samay) اور ون انڈیا (One India )  میں شائع ہونے والے مضمون  "حزب التحریر الدولۃ الاسلامیۃ  العراق و شام  سے زیادہ خطرناک ثا بت ہو سکتی ہے" کا جواب

15 ،16 فروری 2015 کو ٹائمز آف انڈیا(Times of India)،ناو بھارت ٹائمز(Navbharat Times)،صحارا سمے(Sahara Samay) اور ون انڈیا (India India)میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ حزب التحریر  ایک دہشت گرد جماعت ہے۔  اس مضمون میں کئی سنگین غلطیاں اور گمراہ کن  دعوے کیے گئے۔

حزب التحریر ایک  عالمی اسلامی سیاسی جماعت ہے  جو نبوت کے طرز پر خلافت کے قیام کے ذریعے اسلامی زندگی کے احیاء کے لیے اسلامی سرزمین میں  پُر امن فکری اور سیاسی جدوجہد کرتی ہے۔  حزب التحریر ایک مشہور و معروف اسلامی پارٹی ہے  اوراس کی بنیا 1953 میں  بیت المقدس میں رکھی گئی ۔ آج شرق اوسط، افریقا اور ایشیاء  سمیت مشرق سے لے مغرب تک کام کر رہی ہے ۔  حزب کے خلاف تمام تر   سوچے سمجھے اشتعال انگیز  اقدامات،نگرانی،گرفتاریوں،تشدد اور  انصاف کا خون کرنے کے باوجود  یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ  حزب   نے اپنے پرامن سیاسی طریقے سے کبھی بھی بال برابر بھی انحراف نہیں کیا اور نہ ہی اسے کبھی ایسے کسی  واقع میں ملوث ثابت کیا جاسکا ہے۔

مذکورہ مضمون میں حزب کو " کالعدم" جماعت کہا گیا ہے ؛جس کا مقصد  قاری کو گمراہ کرنا اور اس کے ذہن میں یہ تشویش پیدا کرنا ہے کہ حزب  شاید کوئی "مسلح"  اقدامات بھی کرتی ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے   کہ جن ممالک نے  بھی حزب پر پابندی لگائی تو اس کے  سیاسی مقاصد تھے اور اس کا مقصد حزب کو اپنی صاف شفاف فکر کو امت تک پہنچانے کی راہ میں روکاوٹ ڈالنا  ہے تاکہ امت اس فکر کا علمبردار نہ بنے اور حزب کے ساتھ مل کر کار زار حیات میں اس فکر کو  وجود بخشنے کے لیے جدو جہد نہ کرے۔ ان ممالک کی حکومتیں اس غلط فہمی میں رہیں کہ  وہ پابندی لگا کر امت کو حزب کی جدوجہد میں شامل ہونے سے روکنے میں کامیاب ہو جائیں گی لیکن  یہ ناکام اور نامراد ہوئے۔  یہ حقیقت اب سب کے سامنے ہے کہ امت مشرق سے لے کر مغرب تک  اللہ کی شریعت کے نفاذ اور نبوت کے نقش قدم پر اسلام کی ریاست،  خلافت کے قیام کا مطالبہ کر رہی ہے۔

رہی  حزب التحریر اور ہندوستان میں  انڈین مجاہدین کے درمیان تعلقات  کی بات  تو حزب کے تمام اسلامی تحریکوں کے ساتھ تعلقات  نصیحت اور راہنمائی کی حد تک ہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

«الدين النصيحة»

" دین نصیحت ہے" ،اس کو مسلم نے روایت کیا ہے ۔

ہم اخبار  ٹائمز آف انڈیا(Times of India)،ناو بھارت ٹائمز(Navbharat Times)،صحارا سمے(Sahara Samay) اور ون انڈیا (India India)کے ادارتی  انتظامیہ کو ان کے پیشہ ورانہ  اور آزادانہ  صحافت کے بارے میں یاد دہانی کر نا چاہتے ہیں ۔  صحافت ایک محنت طلب کام ہے اور  یہ تقاضا کر تا ہے کہ تمام رپورٹیں  باریک بینی اور ذمہ داری  سے تیار کی جائیں۔   ہمیں امید ہے کہ یہ اخبارات آئندہ اس امر کا خیال رکھیں گےتا کہ  مستقبل میں ہمیں عدالتی چارہ جوئی  پر مجبور نہ ہونا پڑے۔

حزب التحریرکا مرکزی میڈیا آفس

 

Read more...

پریس ریلیز حکومت کی جانب سے میڈیا کو حزب التحریر کے خلاف مہم شروع کر نے کے احکامات حکومت کی ناکامی اور دیوالیہ پن کی عکاسی کرتا ہے

بنگلہ دیشی حکومت نے ہفتہ 22 فروری 2015  کو  حزب التحریر اور اس کے سرگرمیوں کے خلاف  پرو پیگنڈہ مہم   شروع کرنے  سے متعلق ذرائع ابلاغ کے لیے ایک بیان جاری کیا ۔

ہم حزب التحریر ولایہ بنگلہ دیش  حکومت کے بیان پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہو ئے کہتے ہیں کہ : حکومت نے 2009 میں حزب التحریر پر پابندی لگانے کا حکم نامہ جاری کیا  اور پھر اس کے بعد ایسے کئی حکم نامے جاری کیے گئے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارے خلاف جابرانہ اور ظالمانہ اقدامات اٹھائےلیکن  اس سب کے باوجود  وہ حزب کا راستہ  روکنے میں کامیاب نہ ہو سکی ۔ اب  حکومت ہمارا راستہ روکنے کے لئے  میڈیا کی مدد لینے کی کوشش کر رہی ہے جس میں وہ خود ناکام ہو چکی ہے۔  یہ بھی حکومت اور اس کے آقاوں کی ایک بزدلانہ کوشش ہے  کیونکہ وہ حزب التحریر اور اس کی دعوت سے لرزہ بر اندام ہیں۔  حزب نے   آج کل جو مہم شروع کر رکھی ہے  اور جس کو زندگی کے ہر طبقے میں سراہا گیا ہے  ، حکومت اور اس کے مغربی آقاوں  کے لئے ایک بڑا درد سر بن گئی ہے جس کی وجہ سے وہ ایسے احمقانہ قدم اٹھا رہی ہے۔ اس مہم کا موضوع ہے: "اے لوگو ! شیخ حسینہ اور موجودہ حکومت کو فوراً برطرف کر نے  اور نبوت کے طرز پر ریاستِ خلافت کو قائم کرنے کے لیے  فوج کے مخلص افسران سے رابطہ کر و  کہ وہ اس کام میں شریک ہوں اور  حزب التحریر کو نصرہ فراہم کریں"۔

ہم  میڈیا  میں موجود مخلص لوگوں  سے مطالبہ کرتے ہیں  کہ حزب التحریر کی کامیابیوں کو دیکھ کر پاگل پن  میں مبتلا   ہونے والی حکومت  کے جھوٹے  پرو پیگنڈے کا شکار نہ ہوں ۔  اس حکومت کی ہاں میں ہاں ملا کر اپنے آپ کو بھی مایوسی کے دلدل میں نہ گھسیٹیں جو   عوام مقبولیت کھو چکی ہے۔  اس حکومت کی طرف اپنا ہاتھ مت بڑھائیں   جس کو اب لوگ  زمین بوس ہو تا دیکھنا   چاہتے  ہیں اور ان شاء اللہ عنقریب ایسا ہو نے والا ہے ۔ لہٰذا تاریخ کے اہم موڑ پر غلط کشتی کے سوار مت بنو۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ بحیثیت مسلمان نبوت کے طرز پر خلا فت کی ریاست کی جدو جہد آپ  پر فرض ہے  نہ کہ اس اسلام دشمن حکومت کی طرفداری کرنا۔ اگر آپ  اسلام اور مسلمانوں کے بنیادی مسئلے  کی خاطر  جدو جہد کرنے کے لیے حزب التحریر میں شامل ہونے کی ہمت نہیں رکھتے  تو کم از کم  حکومت کے ہاں میں ہاں ملا کر جھوٹ بولنے سے اجتناب کریں۔

اور بہادر اور مخلص فوجی افسران سے ہم کہتے ہیں : حکومت یہ بات جانتی ہے کہ تم اسلام  کی فوج ہو اور اسلام ہی  تمہارے خون میں دوڑ تا ہے  اور تمام مسلمانوں کی طرح خلافت تمہارے بھی دل کی آواز ہے  جس کی وجہ سے  حزب التحریر آپ  میں بھی پھیل رہی ہے اور اللہ کے حکم سے جلد اپنی منزل پر پہنچ جائے گی  یعنی موجودہ حکومت کا خاتمہ اور خلافت کا قیام انشاء اللہ ۔  اس لیے حزب التحریر کو اسلام کی حکمرانی کے لیے نصرہ فراہم کر نے میں جلدی کرو  ، دنیا کا خیر حاصل کرنے کے لئے جلدی کرو، خلافت کو قائم کرنے والے انصار  کا مننصب  پانے کی جلدی کرو  اور آخرت کا اجر حاصل کرنے کی جلدی کرو کہ خلافت کو قائم کرنے والے انصار کا اجر جنت ہے،  انشاء اللہ۔۔

 

ولایہ بنگلادیش میں حزب التحریر کامیڈیا آفس

https://www.facebook.com/PeoplesDemandBD2

Read more...

سوال کا جواب مینسک معاہدہ اور یو کرائن میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال

سوال :

مارکل اور ہولاندی  کی پوٹین کے ساتھ ٹیلی فونک رابطے اور پھر مینسک کا دورہ اور  اس  دوران یوکرائن کے صدر  کی ملاقات میں موجودگی ، یہ  سب کچھ قابل دید تیزی ہوتا نظر آتا ہے ۔۔۔ملاقات کے بعد  وہ مینسک میں ایک معاہدے پر بھی پہنچ گئے  جس کی رو سے  مشرقی یوکرائن میں15 فروری 2015 سے  فائر بندی کی جائے گی  اور  غیر مسلح زون قائم کیا جائے گا۔۔۔ مینسک معاہدے  میں کہا گیا کہ یوکرائنی قوتوں اور مشرقی علاقوں کے    انقلابیوں کو فائر بندی  کے بعد  دو دن کے اندر اگلے مورچوں   سے بھاری اسلحہ ہٹانا پڑے گا، تاکہ بفر زون قائم کیا جاسکے گا  جس کو  لائن کے دونوں جانب 70 کلو میٹر تک  وسعت دی جائے گی ۔۔۔آخر کس چیز نے یورپ "فرانس اور جرمنی " کو  اس جلد بازی بلکہ بھاگ دوڑ کر  روس سے  سیاسی معاہدہ کرنے کے لیے رابطہ کرنے پر مجبور کیا  جبکہ  اس میں یو کرائن کے علاقے  کریمیا  کا کوئی تذکرہ کیا ہی نہیں گیا، حالانکہ یہی   مملک حتمی معاہدہ کرنے کے لیے ٹال مٹول کر رہے  تھے تا کہ کریمیا کا موضوع بھی اس میں شامل ہو جائے؟پھر برطانوی وزیر اعظم  ان کے ساتھ کیوں نہیں تھے؟امریکہ نے ایسا کیوں ظاہر کیا کہ  وہ اس  کا حامی نہیں ہے؟ اس معاہدےکو نافذ کرنے کے بارے میں کیا توقعات ہیں ؟ سوال کی طوالت پر معذرت چاہتا ہوں اللہ آپ کو بہترین بدلہ دے ۔

 

جواب :

صحیح جواب تک پہنچنے  کے لیے صورت حال کو واضح کرنے کی خاطر   ہم مندجہ ذیل امور کی وضاحت کریں گے:

 

1 ۔ امریکہ  کی عمومی پالیسی یہ ہے کہ  یوکرائن اسی طرح سلگتا   اور گرم رہے تاکہ یہ روس کے لیے گلے کی ہڈی بنے  اور امریکہ اس کو روس  پر دباو ڈالنے اور کئی بین الاقوامی مسائل  جیسے شام  اور ایرانی ایٹمی پروگرام  وغیرہ میں روس کو اپنے فرنٹ لائن کے  طور پر استعمال کر سکے۔ یورپ بھی اس عمومی پالیسی کی مخالفت نہیں کر تا تھا  کیونکہ وہ اس کو  یورپ اور روس کو جنگ کے دہانے پر پہنچانے والا یا جنگی صورت  حال تک پہنچانے والا نہیں سمجھتا تھا ۔۔۔یوکرائن کے واقعات اسی نہج پر آگے بڑھتے رہے : علیحدگی  پسندوں اور یوکرائنی فوج  کے مابین  نوک جھونک  اور کریمیا کے باری میں خاموشی جاری رہی ۔۔۔معاملات میں اتار چڑھاؤ  جاری رہا  جس کو یورپ  اس نظر سے دیکھتا ہے کہ اس کے نتیجے میں  جلد یا بدیر   کوئی بڑا سانحہ واقع پزیر نہیں ہوگا ۔۔

 

2 ۔ لیکن حال ہی میں معاملات  نے ہنگامی صورت حال اختیار کی  کیونکہ  یوکرائن میں معمولی جھڑپوں  کے ساتھ  کسی حد تک حالات کا پر سکون ہونا   امریکہ کو ایک آنکھ نہ بھایا،خاص کر  جبکہ کچھ عالمی مسائل  میں شدت پیدا ہو گئی ۔  روس پر دباؤ  ڈالنااور اس کو مشتعل کرنا ممکن نہ ہوتا اگر اس کے گلے سے ہڈی اتر جائے،   اس لیے امریکہ نے  یو کرائن میں  معاملہ گرم کرنے کا ارادہ کیا۔۔۔اسی مقصد سے یہ بیان دیا  کہ وہ  یوکرائن کو جدید اسلحہ فراہم کر ے گا  اور یہ بھی کہ یوکرائن نیٹو میں شامل ہو سکتا ہے ۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ اس نے روس کے لیے کچھ اہم علاقوں کے قریب جنگی مشقیں  کیں ۔  اس امر نے روس کے اندر اشتعال پیدا کیا اور اس نے  یوکرائن  کے قریب اپنی جنگی  حرکات میں اضافہ کر دیا  بلکہ غیر اعلانیہ طور پر  علیحدگی پسندوں   میں مداخلت کرنے لگا  اور اس کے ساتھ  ساتھ گرما گرم بیان بھی داغ دیا ۔۔۔

بعض ذرائع ابلاغ نے یہ خبر بھی نشر کی کہ   امریکی سیکریٹری خارجہ جان کیری نے  اس وقت کیف کا دورہ کیا جب  پوٹین  مارکل اور ہولاندی  سے سیاسی معاہدے کے موضوع پر  بات چیت کرنے کے لیے  ملاقات کر رہا تھا۔ کیری  اپنے دورے میں  واشنگٹن کی جانب سے کیف کو جدید ترین اسلحہ سے لیس کر نے پر تبادلہ خیال کیاکیونکہ وہ یہ جانتا تھا مینسک میں  اکھٹے ہو نے والے اس کی مخالفت کریں گے۔ "الحیاۃ " اخبار نے  اپنے ویب سائٹ پر  جمعہ 6 فروری 2015 کو  یہ خبر نقل کی کہ  واشنگٹن نے اعلان کیا ہے کہ وہ 118 ملین ڈالر کے  امداد بھی فورا کیف کو دے گا ،جو یوکرائنی فورسز کی تربیت کے لیے ہیں اورآلات  وغیرہ بھی فراہم کرے گا جن میں حفاظتی وردیاں،فوجی گاڑیاں،رات کو دیکھنے کے آلات بھی شامل ہیں ۔۔۔"  روس کی وزارت خارجہ کے ترجمان ایلکزنڈر یوکا شاویچ نے  اس  پر رد عمل کا  اظہار کیا اور کہا کہ "امریکہ کی جانب سے کیف کو جدید اسلحے کی فراہمی  سے نہ صرف تنازعے کو ہوا ملے گی  بلکہ  یہ روس کی سلامتی کے لیے بھی  خطرنا ک ہے  کیونکہ یوکرائنی فوج پہلے ہی کئی بار اس کے علاقوں پر بمباری کر چکی ہے"۔ اس نے تنبیہ کی کہ "اس قسم کے فیصلوں سے روس امریکہ تعلقات  کو ناقبل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے" ۔۔۔

اس سے بڑھ کر  امریکی عہدیداروں نے بھی  کریمیا کے موضوع پر بیانات دیے کہ روس نے اس کا اپنے ساتھ الحاق  کروا کر جارحیت کی ہے۔۔۔ امریکی صدر باراک اوباما نے  پیر 9 فروری 2015 کو اپنے بیان  میں  یوکرائن کے تنازعے کے بارے میں روس کو تنبیہ کی ۔ اس نے کہا کہ ماسکو کو یہ حق حاصل نہیں  کہ"وہ قوت کے زور پر یورپی سرحدوں کی حد بندی کرے"۔   یہ  مینسک میں ہو نے والے معاہدے میں نظر انداز کیے جانے والے  جزیرہ نما کریمیا کے موضوع کی طرٖ ف واضح اشارہ تھا اور صورت حال کو دیکھتے ہوئے  اس بیان نے روس  کے اندر آگ لگا دی کیونکہ وہ کریمیا  کو اپنا حصہ سمجھتا ہے۔  اگرزیادہ نہیں تو کم ازکم  اس   بیان نے یہ واضح کردیا کہ امریکہ  یوکرائنی فوج کو مسلح کررہا ہے ۔۔۔

 

3 ۔ یورپ اور خاص کر فرانس اور جرمنی نے  امریکی بیانات کو سنجیدہ لیا  اور دونوں ملکوں نے  یہ بیان دینے میں جلد بازی کی کہ دونوں  یوکرائن کو مسلح کر نے کے حق میں نہیں  کیونکہ  یہ یورپ کو جنگ میں دھکیل سکتا ہے۔۔۔

6 فروری 2015سے 9 فروری 2015 تک میو نخ میں منعقد ہونے والی بین الاقوامی امن  کانفرنس  سے خطاب کرتے ہو ئے  انجیلا مارکل نے امریکہ کی جانب سے کیف کو اسلحہ فراہم کرنے  سے تنازعے کے حل ہونے  کی رائے کو مسترد کیا اور کہا  کہ "یوکرائنی فوج کو  بہترین اسلحہ سے لیس کرنے سے  صدر پوٹین  کو یہ یقین نہیں دلایا جاسکتا کہ  وہ عسکری طور پر  شکست کھاجائے گا ، جبکہ یورپ چاہتا ہے کہ  روس کے ساتھ تعاون کے ذریعے اپنی سلامتی کو  یقینی بنا ئے نہ کہ روس کے مکالفت  مول لے کر "۔  اسی طرح جرمن وزیر خارجہ  اُرسولا  نے   میونخ میں سالانہ بین الاقوامی امن کانفرنس  کے افتتاح کے موقعے پر اپنے بیان میں تنبیہ کرتے ہوئے کہا   کہ  مغرب کی جانب سے یو کرائن کو اسلحہ کی فراہمی  "یوکرائن کے تنازعے ہوا  دے سکتا ہے  کیونکہ یہ آگ میں تیل چھڑکنے جیسا  ہو گا  اور مطلوبہ حل سے ہمیں دور کردے گا "۔

فرانس نے بھی یہی کیا ، چنانچہ القدس العربی اخبار  نے7 فروری 2015کو   ذکر کیا کہ "فرانس کے صدر فرانسو ہولاند  نے  اظہار خیال کر تے ہوئے کہا کہ   یہ قدم اٹھانا ہی آخری موقع ہے "۔  ہولاند نے مزید کہا کہ مصالحت  یا امن  کے قیام کے لیے کسی پائیدار  معاہدے کے بغیر جو صورتحال ہے "اس کا نام تو جنگ ہے "۔  ہولاند نے  کہا کہ یہ بات ان کو اچھی طرح  معلوم تھی کہ  جرمن چانسلر  انجیلا مارکل کے ساتھ کیف اور ماسکو  کا دورہ  مشکل اور مہم جوئی تھی "لیکن یہ ضروری تھا"۔  ہولاند نے  واضح کیا کہ وہ اور مارکل سمجھتے ہیں کہ " جنگ کا بھوت  یورپ  کے دروازے پر دستک دے رہا ہے " ۔اسی طرح فرانسیسی وزیر خارجہ لوران فابیوس نے    جس  کا ملک  مذاکرات میں کردار ادا کررہا ہے، کہا کہ " کوئی  بھی  بڑی جنگ کے جال میں پھنسنا نہیں چاہتا ہے اور نہ ہی یہ کسی کے مفاد میں ہے اور یہ کہ یہی وقت ہے کہ تمام ممکنات کو اختیار کیا جائے"۔ اس نے  اس بات کی بھی تاکید کی کہ فرانس اور جرمنی یو کرائن میں جو چاہتے ہیں وہ "صرف کاغذی امن نہیں بلکہ حقیقی امن ہے " ۔

 

4 ۔  یورپ ( فرانس اور جرمنی )ڈر گئے  کہ کہیں امریکی موقف میں  اس بڑھتی ہوئی گرمی سے  یوکرائن  کے خلاف روسی جارحیت  میں  اضا فہ نہ ہو جائے  اور اس سے  یورپ  پر بھی  برا اثر پڑے گا ، اور اگر  یورپ یوکرائن  کے شانہ بشانہ کھڑا نہ ہوا تو یہ اس کے لئے انتہائی شرمندگی کا باعث ہو گا اور  اس سے یورپ میں جنگی صورت  پیدا ہوجائے گی  مگر اس جنگ سے امریکہ کو کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ یہی  اہم سبب  ہے کہ جس کی وجہ سے یورپ  نے  یوکرائن میں  امریکی پالیسی  کی حمایت کی پالیسی میں تبدیلی کی  اوراسی لیے روسی صدر  سے سیاسی حل نکالنے کے لیے  رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا  تا کہ یورپ اور روس کے درمیان کسی تناؤ کو پیدا ہونے سے روک دیا جائےاورپھر یہی ہوا ۔  یورپی" فرانسیسی اور جرمن " راہنماوں نے6 فروری 2015 کو اس بات پر اتفاق کیا۔  اس کے بعد مارکل 8 فروری 2015 کو واشنگٹن گئی  تاکہ اوباما کو  یورپ کی پالیسی کے بارے میں بتا دے  نہ کہ اس سے اجازت لینے ۔۔۔یہ واضح ہے کہ یورپ نے  پہلی بار امریکہ کی طرف سے گرین سگنل  ملنے سے  پہلے کوئی فیصلہ کیا۔  اس کے ساتھ    تینوں قائدین ولادی میر پوٹین، انجیلا مارکل اور فرانس کے صدر  فرانسوا ہولاند کے مابین جمعہ 6 فوری 2015 کو  اس لائحہ عمل پر اتفاق ہو گیا تھا اور کاغذی کاروائی مکمل ہو گئی تھی  اور جو چیز باقی رہ گئی تھی وہ اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ یوکرائنی فریقوں " صدر اور انقلابیوں" کو  اس پر دستخط کی عوت دینے کے  لئے بلایا جائے  اور پھر  اس کے بعد مارکل اوباما کو بتا نے کے لیے  واشنگٹن  گئی !

 

5 ۔ فرانس اور جرمنی کے موقف نے  اوباما اور  اس کے انتظامیہ  پر بڑا اثر ڈالا  اور اس کے نتیجے میں   میونخ کانفرنس میں بھی  کیری اور مارکل کے درمیان سخت الفاظ کے تبادلہ ہواخاص کر امریکہ کی جانب سے یوکرائن   کو اسلحہ سپلائی کرنے کے بیان پر جس کو یورپ  نے مسترد کردیا۔  الحیاۃ اخبار نے  8 فروری 2015 کو  اپنے ویب سائٹ پر یہ خبر نشر کی کہ "میونخ میں بین الاقوامی  امن کانفرنس میں امریکیوں اور جرمنز کے درمیان   امریکہ کی جانب سے مشرقی یو کرائن میں روس نواز علیحدگی پسندوں کے خلاف لڑنے کے لیے کیف کو اسلحہ فراہم کرنے کے ارادے پر "سخت کلامی " دیکھنے کو ملی ۔ اس کی عکاسی اس سے ہو تی ہے کہ  اٹلانٹک کے دونوں جانب کے فریقین  میں  پوٹین  کا سامنا کر نے کے حوالے سے  اتفاق رائے نا پاید تھا۔ میونخ کانفرنس  کی ایک اور تقریر میں  امریکی سینیٹر لینزی گراہم نے مارکل کی جانب سے  یو کرائن کے بحران کو اہمیت دینے کی تعریف کی  لیکن اس نے کہا کہ "اب وقت آگیا ہے کہ  چانسلر  روسی جارحیت کی حقیقت کے بارے میں  آنکھیں کھول لیں"۔اس نے مزید کہا کہ "ہمارے یورپی دوست بڑی خوشی سے ماسکو جائیں  اور دلبرداشتہ ہونے تک جائیں مگر اس میں کوئی کامیابی ملنے والی نہیں ،جھوٹ اور خطرے  کا مقابلہ کیا جانا چاہیے"۔

 

6 ۔  اس سب کے باوجود یورپ اب بھی امریکہ کا اہم اتحادی ہے لیکن جب اس دوست نے  دیکھا کہ آگ  اس کے قریب آرہی ہے تو  اس کو بجھا نے کے لیے اپنے دوست سے پوچھے بغیر ہی اس کی طرف دوڑا کیونکہ  وہ سمجھتا ہے کہ اس کے عذر کو قبول کیا جائے گا !ایسا لگتا ہے کہ اس کا اظہار بھی کیا گیا ہے  کیونکہ اوباما نے 9 فروری 2015 کو  مارکل کے ساتھ  دوگھنٹے کی ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں  کہا کہ "یوکرائن میں روسی جارحیت نے  ہمارے اتحاد کو مضبوط کیا اور ہم ہر گز  غیر جانبدار نہیں رہیں گے"۔  اوباما نے  کہا کہ "اس ہفتے  سفارت کاری کے نا کام ہونے کی صورت میں نے اپنی ٹیم کو دوسرے آپشنز اختیار کرنے کا کہا ہے   جس میں اسلحہ کی فراہمی بھی ہے  "۔ اوباما نے مزید کہا " کوئی عسکری حل نہیں مگر  ہدف روس کے  منصوبوں کی تبدیلی ہے ، یاد رہے کہ ابھی تک میں نے فیصلہ نہیں کیا "۔ مارکل نے  سفارتکاری کو   دوسرے آپشنز سے پہلے "ایک اور کوشش" قرارد یا۔  انہوں نے امریکی یورپی اتحاد کے بارے میں کہا کہ "یہ  مضبوط ہی رہے گا ، یہ برقرار رہے گا خواہ ہمارا اگلا فیصلہ  جو بھی ہو "۔ یہ بات ظاہر کرتا ہے کہ ان کے درمیان رسّی  ابھی کٹی نہیں ہے  مگر مضبوطی سے  باندھی ہوئی بھی نہیں بلکہ بعض امریکی عہدیداروں  کے بیانات میں بے رخی  کا اظہار ہے ! جیسا کہ پہلے امریکی سینیٹر کا ذکر ہو گیا ہے ۔

 

7 ۔ سابقہ تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ  یورپ کی جانب سے روس کے حوالے سے  یوکرائن  کے مسئلےپر پالیسی میں اچانک تبدیلی  مذکورہ بالا   وجوہات کی بنا  سے ہے اگر چہ یورپ نے  خطرے  کو  بڑھا چڑھاکر پیش کیا اور معاہدے کے لیے  دوڑ کر گیا حالانکہ  معاہدے کی شرائط  روس کے حق میں تھیں  کیونکہ اس میں کریمیا کے موضوع کا ذکر بھی نہیں تھا۔ اور یہ بات  مارکل سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں بھی واضح تھا کیونکہ اس نے  جواب دیا کہ کریمیا کا موضوع اس کے لیے اہم نہیں  بلکہ معاہدے تک پہنچنا اس کے لیے اہم ہے! اُس کا پورا جواب یہ تھا کہ "میں  زمین سے متعلق  مسائل میں الجھنا  نہیں چاہتی۔  ہر ریاست کو  ایسے مذاکرات خود کرنا چاہیے ، میں  فرانس کے صدر کے ساتھ ماسکو  غیر جانبدار ثالث بن کر نہیں گئی تھی، مسئلے کا تعلق فرانس اور جرمنی سے ہے  اور یورپی یونین کا  مفاد ہی ہر چیز پر مقدم ہے " ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکہ  کریمیا کا ذکر کرے یا نہ کرے  جرمنی اور فرانس اس کا ذکر کریں یا نہ کریں  مگر ان میں سے کسی کو  بھی کریمیا سے کوئی ہمدردی نہیں سوائے اس کے کہ اس   کو  سرمایہ دارانہ تصور کے تحت استعماری مفاد میں استعمال کیا جائے۔۔۔

 

8 ۔  رہی یہ بات کہ برطانوی وزیر اعظم کیوں فرانس اور جرمنی کے  سربراہان کے ساتھ نہیں تھا ، تو  اس کی وجہ برطانیہ کا وہی پرانا طریقہ کار ہے یعنی  ایک قدم یہاں اور دوسرا قدم وہاں ! ایک طرف برطانوی وزیر خارجہ  فیلیپ ہا مونڈ نے  روس کے صدر کو یوکرائن کے بارے میں  "سرکشی کرنے والا" کہا  جو اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ کیف  میدان جنگ میں   روسی فوج کو شکست  نہیں دے سکتی  اس لیے  خون خرابہ سے بچنے کے لیے سیاسی حل ہی واحد آپشن ہے۔  اسی طرح ہامونڈ نے یہ بھی کہا کہ "ان کا ملک کیف کی قوتوں کو مسلح کر نے کی منصوبہ بندی نہیں کر رہا۔۔۔"اس بیان سے وہ یورپ کو خوش رکھنا چاہتا تھا۔۔۔

بار حال ایک اور بیان میں  اس نے کہا کہ  برطانیہ  اپنے سابقہ فیصلے کو واپس لے سکتا ہے جس میں یہ اعلان کیا گیا تھا  کہ برطانیہ یوکرائنی فوج کو علیحدگی پسندوں سے لڑنے کے لیے مسلح نہیں کر رہا ، اور ایسا اس لئے کہا کیونکہ  امریکہ یہ چاہتا ہے ۔  الحیاۃ اخبار نے 11 فروری 2015 کو برطانوی وزیر خارجہ فیلیپ ہامونڈ کا  پارلیمنٹ کے سامنے یہ بیان  نشر کیا کہ "یوکرائنی فوج کو   اس طرح گرنے نہیں دیا جائے گا" مزید کہا کہ " یوکرائن کو جدید اسلحہ دینے  کا فیصلہ نیٹو میں موجود ہر ملک کا اپنا قومی  فیصلہ ہو گا، ہم ایسا کرنا نہیں چاہتے  لیکن  ہم اپنے موقف سے رجوع کا حق محفوظ رکھتے ہیں"۔  یوں برطانیہ  ہر دروازہ کھلا چھوڑ تا ہے  اور اس طرح وہ  امریکہ سے ٹکر لیے بغیر  اس  کو  خوش رکھتا ہے۔  حالیہ برسوں میں برطانیہ کا یہی موقف رہا ہے  اوراسی موقف کی وجہ سے اس کا وزیر اعظم  مارکل اور ہولاند کا ہم رکاب نہیں بنا۔

 

9 ۔ جہاں تک  توقعات کا تعلق ہے  تو زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ   امریکہ اس معاہدےپر عمل دارآمد کی راہ میں روکاوٹ بنے گا  کیونکہ اس کے کارندے یو کرائن میں موجود ہیں ، اگر چہ جمہوریہ کا صدر پوریشنکو  یورپ سے  زیادہ قریب ہے مگر امریکہ کا بھی ساجھے دار ہے۔۔۔اس لیے امریکہ  مندرجہ ذیل تین میں سے کسی ایک امر یا سب کے ذریعے  حالات کو بگاڑ سکتا ہے :

۔ یو کرائن کو جدید اسلحہ فراہم کر کے

۔ یا نیٹو میں شامل کر نےکے لیے اس کے ساتھ مذاکرات کر کے

۔ یا  یو کرائن میں اپنے بعض کارندوں کو متحرک کر کے

یوں یہ معاہدہ ناکام ہو سکتا ہے ، کیونکہ ان تین امور میں سے کوئی بھی امر   روس کو مشتعل کر کے صورت حال کو بگاڑ سکتا ہے جس سے یہ معاہدہ ناکام ہوسکتا  ہے۔۔۔

روس  بھی  اس مسئلے میں امریکہ کے ساتھ مذاکر ات کی کوشش کر سکتا ہے ، کیونکہ اس کو اس موضوع میں امریکہ کے وزن کا علم ہے۔  اسی لیے پہلے یہ خبریں تھیں کہ روس   یورپ کے مقابلے میں امریکہ کے ساتھ بات چیت کو ترجیح دیتا ہے ،لیکن روس کے ساتھ رابطہ کرنے میں جلد بازی یورپ نے کی  یہ روس کی طرف سے نہیں تھا۔

 

10 ۔ یہ تو توقعات ہیں ۔۔۔ مگر ہمارے لیے اس موضوع کی اہمیت کریمیا کے سوا کچھ نہیں،کیونکہ یہ اسلامی علاقہ ہے۔   صدیوں تک یہ ہمارے ساتھ اور ہم اس کے ساتھ تھے۔ اگر کریمیا کا مسئلہ یوکرین کے مسئلے کی بنیاد نہ ہوتا  تو ہم  امریکہ اور روس کے درمیان اس تنازعے کو زیادہ  اہمیت نہ دیتے۔۔۔ کریمیا صدیوں تک خلافت کا حصہ رہا   یہاں تک کہ روس نے اس پر حملہ کر دیا  اور مغربی ممالک کے ساتھ مل کر سازش کر کے  اٹھارویں صدی کے اواخر میں اس پر قبضہ کر لیا ۔ 1430 عیسوی تک کریمیا اسلامی امارت تھا ،پھر 1521 عیسوی میں خلافت کے عروج کے زمانے میں خلافت عثمانیہ  کا ایک ولایہ(صوبہ) بن گیا ۔  اس کے بعد 1783 میں روس اور مغربی ممالک نے سازشیں کر کے اس کو عثمانی خلافت سے الگ کرنے میں کامیاب ہو گئے اور اس ساتھ ہی یہاں وحشیانہ خون خرابہ کیا ۔  پھر اس کو روس میں ضم کر دیا  جس نے اس کے دار الحکومت "اق مسجد"  یعنی سفید مسجد  کا نام بدل کر موجودہ نام " سیمفرو پول" رکھ دیا ۔   یاد رہے کہ قرم (کریمیا)  کا معنی  تاتاری مسلمانوں کی زبان میں قلعہ ہے،  یوں روس کی جانب سے قبضے سے ساڑھے تین سو سال پہلے سے ہی کریمیا  اسلامی سرزمین ہے   !اس لیے اس میں  حقیقی امن صرف اسی صورت میں ہی آسکتا ہے جب اس کو  اس کی اصل کی طرف لوٹا دیا جا ئے اور اللہ کے اذن سے عنقریب قائم ہونے والی خلافت کا صوبہ بنا یا جائےگا ۔

 

چاہے  جس قدر بھی وقت گزر  جائے ہم کریمیا یا استعماری کفار کی جانب سے  قبضہ کیے گئے کسی بھی اسلامی سرزمین کو نہیں بھولیں گے۔

﴿وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ﴾

"یہ ایام تو ہم لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں" (آل عمران:140)

﴿وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَأَهُ بَعْدَ حِينٍ﴾

"عنقریب تمہیں اس کی خبر ملے"(ص:88)

Read more...

پریس ریلیز حزب التحریر کا با ضابطہ (آفیشل)رسالہ "الرایہ" کی دوبارہ  اشاعت

حزب التحریر کا مر کزی میڈیا   آفس مسرت کے ساتھ    الرایہ رسالے  کی دوبارہ اشاعت  کا اعلان کر تا  ہے ۔  یہ ایک سیاسی رسالہ ہے  جس کو حزب التحریر ہر ہفتے شائع کر تی ہے۔  اس میں امت مسلمہ کے مسائل اور ان کے حل پیش کیے جاتے ہیں۔  اس رسالے کا پہلا شمارہ ذی القعدۃ 1373 ہجری بمطابق جولائی 1954 عیسوی میں شائع ہوا تھا۔ یہ رسالہ ہفتہ وار بدھ کی صبح  شائع ہو تا رہا  ۔ اس کے چودہ (14) شمارے ہی شائع ہو ئے تھے  جن میں  حق و سچائی کی آواز بلند ،سیاسی موضوعات پر بحث  اور اسلامی نقطہ نظر سے ان کا حل دیا اور حق بات ہی اس کا ہتھیار تھی مگر پھر بھی  ظالم اس کے وار برداشت نہ کر سکے  اور یہ اُن کے لیے راکٹ اور میزائل ثابت ہوا ۔  اردن کی حکومت  کلمہ حق کا   زخم  برداشت نہ کر سکی،خاص کر جب  حزب اور اس کے میگزین نے  اردنی وزیر داخلہ کی  جانب سے اس وقت کے اردنی آرمی چیف گلوب پاشا کے حکم سے  وعظ و ارشاد کے قانون کے اجرا کو چیلنج کیا ۔ اُس قانون کا ہدف  حزب کے شباب اور مخلص لوگوں کو  مساجد میں   درس دینےسے روکناتھا، اس لیے ظالموں نے چودہ شمارے نکلنے کے بعد ہی اس  رسالے کی اشاعت پر  پابندی لگا دی۔

اب الرایہ ایک نئی صبح کے ساتھ  دوبارہ آگیا ہے ۔ اس کا پندہرواں شمارہ بدھ 13 جمادی الاول 1436 ہجری  بمطابق4 مارچ 2015 عیسوی کو  اللہ کے اذن سے کامیابی کے ساتھ نور بن  کر  روشن کرنے لیے اور نار (آگ) بن  کر فساد کو جلا کر راکھ کر نے کے لیے حاضر ہے۔ اللہ  کی مشیت  سے یہ خلافت کے قیام  کے قریب ہونے اور رایۃ العقاب   کے بلند ہو نے کی خوشخبری بھی   لیے طلوع ہو رہا ہے، جو کہ حق اور عدل کا جھنڈا ہے  اور نبوت کے طرز پر ریاست خلافت راشدہ  مسلمانوں پر سایہ فگن ہو نے والا ہے اور ممکن ہے یہ دن قریب ہے۔

جلیل القدر عالم دین اور حزب التحریر کے امیر  عطاء بن خلیل ابو الرشتہ  حفظہ اللہ  نے  اس کی دوبارہ اشاعت کی مناسبت سے  : "الر ایہ   کو خوش آمدید ۔۔۔ یاد دہانی اور بشارت" کے عنوان سے  گفتگو کی  جس میں رسالے  کی پہلی اشاعت  کے واقعات کا ذکر کیا اور اس کے گزشتہ بعض  شماروں  کا حوالہ دیا ۔ آپ نے اللہ سبحانہ  و تعالٰی سے دعا کی  کہ  رسالے کی دوبارہ اشاعت  ایک یاد گار اور پر مسرت لمحہ ہو  اور یہ خلافت کے قیام کے قریب ہونے کی وجہ سے مسحور کن  بشارت  ہو  یقیناً  ایسا لگ رہا ہے کہ خلافت تو عملاً قائم ہو چکی ہے"۔

رسالے نے اپنے اس نئے شمارے میں  حزب کے امیر حفظہ اللہ  کا 3 مارچ کو استنبول  منعقد ہو نے والی  " جمہوری صدارتی ماڈل یا خلافت راشدہ ماڈل" کے موضوع پر کانفرنس سے افتتاحی خطاب  کو بھی من و عن شائع کیا ہے۔

اسی طرح  "عورت اور شریعت  : حق اور باطل کے درمیان"  کے موضوع  پر ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس  کے حوالے سے بیان جس کا انعقاد حزب التحریر کے میڈیا آفس کا شعبہ خواتین 28 مارچ کو   کر رہا ہے ،جس سے  پہلے عورت سے متعلق  حق اور باطل کی تمیز  کے بارے  ایک مہم بھی جاری ہے۔

اس کے علاوہ بھی اہم تر ین خبریں  اور سیاسی موضوعات اس شمارے میں شا مل ہیں، مندرجہ ذیل الیکٹرانک  صفحات کے ذریعے آپ الرایہ کو پڑھ سکتے ہیں:

الرایہ میگزین www.alraiah.net

فیس بک https://www.facebook.com/rayahnewspaper

گوگل پلس http://goo.gl/KaiT8r

ٹویٹر https://twitter.com/ht_alrayah

ای میل This e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

عثمان بخاش

ڈائریکٹرمرکزی میڈیا آفس حزب التحریر

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک