الجمعة، 24 ربيع الأول 1446| 2024/09/27
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے ملک بھر میں یمن میں افواج کو بھیجنے  کے خلاف مظاہرے کیے مسلم افواج کو یمن نہیں بلکہ بیت المقدس  آزاد کروانے بھیجو

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے  یمن میں افواج کو بھیجنےکے خلاف ملک بھر میں مظاہرے کیے۔مظاہرین نے بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا کہ :" مسلم افواج کو یمن نہیں بلکہ بیت المقدس  آزاد کروانے بھیجو " ، " مسلمانوں کا اتحاد -صرف بذریعہ خلافت "۔

پاکستان کے عوام  ہمیشہ یہ چاہتے ہیں کہ جب  کبھی اور جہاں بھی اسلام ، رسول اللہﷺ کی شان میں گستاخی ہو یا  مسلمان ظلم و ستم کا شکار ہوں تو پاکستان کی مسلم افواج کو اپنی اسلامی ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے حرکت میں آنا چاہیے۔ لیکن یہ غدار حکمران ہی ہیں جو ہمیشہ  ایسی صورتحال میں اپنے آقا امریکہ کی جانب دیکھتے ہیں اور اس کی جانب سے اجازت نہ ملنے کی صورت میں اسلامی ذمہ داری کی ادائیگی سے بچنے کے لئے بہانے تلاش کرتے ہیں اور پہلے پاکستان کا نعرہ لگاتے ہیں۔

حزب  یہ سوال کرتی ہے  کہ  جب یہودی وجود فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کرتا ہے تو اس وقت یہ حکمران حرکت میں کیوں نہیں آتے، مسلمانوں کا قبلہ اول پانچ دہائیوں سے یہودی وجود کے قبضے میں ہے لیکن یہ حکمران حرکت میں نہیں آتے، شام کے مسلمان چار سال سے مسلم افواج کو پکار رہے ہیں کہ ہمیں بشار کے ظلم و ستم سے بچاؤ لیکن دو لاکھ مسلمانوں کے قتل ہو جانے کے باوجود یہ حکمران حرکت میں نہیں آتے، کشمیر کے مسلمان تقریباً تین دہائیوں سے ہندوستان کے ظلم و ستم کے خلاف  جدوجہد کررہے ہیں اور لاکھوں جانوں اور ہزاروں عصمتوں کو لٹا چکے ہیں لیکن یہ حکمران حرکت میں نہیں آتے۔ لیکن جب امریکہ کا حکم آتا ہے تو یہ حکمران   یمن میں  فوجیں بھیجنے کے لئے فوراًتیارہوجاتے ہیں۔

مظاہرین  نے افواج پاکستان کے مخلص افسران سے  مطالبہ کیا کہ وہ  اللہ  سبحانہ و تعالٰی کے احکام کے مطابق نصرۃ فراہم کر کے خلافت کا قیام عمل میں لائیں تا کہ وہ ڈھال قائم ہوسکے جس کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کا دفاع ہوتا ہے اور صرف خلافت کے قیام کے ذریعے ہی سے مسلم علاقوں  میں خانہ جنگی اور فتنہ و فساد کا خاتمہ  اور قبلہ اول سمیت تمام مقبوضہ علاقوں کی آزادی ممکن ہے۔
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

Read more...

حوثیوں‬ نے ‫حزب التحر‬ کے رکن کو " فیصلہ کن طوفان" آپریشن کو بے نقاب اور اس کی مذمت کرنے والے پمفلٹ کو تقسیم کرنے پر گرفتار کر لیا ؟!!

حوثی ملیشیا نے صوبہ عمران کے ضلع ریدہ میں ہمارے بھائی مطہر احمد الراشدی کو گرفتار کرلیا ہے جن کی عمر 43 سال ہے اور جو کہ اسی ضلع کے ایک اسکول کے پرنسپل ہیں۔ مطہر احمد الراشدی کو ان کے گھر سے پیر30 مارچ2015 کو گرف ری تار کیا گیا پھر ان کو صوبے کے مرکز روانہ کردیاکیا گیا۔ ان کی گرفتاری حزب کے پمفلٹ تقسیم کرنے کے بعد ہوئی جس کا موضوع تھا ، "بالآخر ایجنٹ حکمرانوں کے طیارے حرکت میں آگئے..... مگر دشمنوں سے لڑنے کے لئے نہیں بلکہ مسلمانوں کو قتل کرنےکے لئے!" پمفلٹ میں لکھا ہے کہ " حکمرانوں کے طیارے اور جنگی بحری جہازیہود یوں سے لڑنےکے لیے حرکت میں آتے وہ یمن پر بم برسانے کے لئے حرکت میں آئےحالانکہ سبا(یمن )کی سرزمین کی بنسبت یہودی وجود ان کے زیادہ قریب واقع ہے!اس کاروائی کے لیے جو جواز پیش کیے گئے ہیں ان میں سے بد ترین جوازیہ ہے کہ یہ حملہ مسلمانوں کے قبلہ کےتحفظ کی خاطر ہے، حالانکہ حرم شریف پر تو حملہ ہوا بھی نہیں جبکہ مسلمانوں کا قبلہ اول جس پر یہودی حملہ کر کے قبضہ کر چکے ہیں اور وہ کئی دہائیوں سے یہودیوں کے قبضے میں ہے ، اورپکار پکار کر اِن حکمرانوں سے مدد کے لئے فریاد کرتا آرہا ہے،اس کی خاطریہ حکمران حرکت میں نہیں آتے!ان کے طیارے یمن کی طرف اس لئے پرواز کرتے ہیں تاکہ استعماری کفار کے منصوبوں کو مکمل کیا جائے، یہ طیارے فلسطین کی ارضِ مقدس کو چھڑوانے کے لئےکبھی نہیں اُڑتے جس پرمسلمانوں کے شدید ترین دشمن قابض بنے بیٹھے ہیں!"۔


حوثی اور بعض دوسری سیاسی قوتیں اس پمفلٹ سے بوکھلا اٹھے جو حزب نے شائع کیا تھا حالانکہ یہ صرف حق کی للکار تھی جس میں کسی حکمران،جماعت یا گروہ کی چاپلوسی نہیں کی گئی تھی۔ حزب نے اپنے طویل سیاسی سفر کے دوران ایک خیر اندیش اور تنبیہ کرنے والی جماعت کا کردار ادا کیا ہے جو مغرب کی سازشوں،اس کے آلہ کار حکمرانوں اور ان کے پہلو بہ پہلو چلنے والوں اور ان کے گود میں پلنے والوں کو بے نقاب کرتی رہتی ہے چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ حزب معاملات کو صرف شریعت کی نظر سے دیکھتی ہے اور وہ ہمیشہ اپنا موقف اسی کے مطابق اختیار کرتی ہے ۔ وہ چپقلش کے دونوں فریقوں کو بد بودار گروہی تعصب کے عینک سے نہیں دیکھتی جس کو مغرب مسلمانوں کے درمیان ہوا دینے کی کوشش کرتا ہے بلکہ حزب کے تجزئیے اور واقعات پر گہری نظر ہو تی ہے اور وہ صورت حال کا درست نقشہ پیش کرتی ہےلیکن یمن تنازعے کے دونوں فریق کڑوی حقیقت کا سامنا کرنے اور سچی نصیحت سنے کی طاقت نہیں رکھتے۔


حزب نے اپنے پمفلٹ میں یمن میں جاری تنازعے کی حقیقت اور اس کے ایجنٹ فریقین کی حقیقت کو واضح کیا اوریہ بتا یا کہ یہ بین الاقوامی انگلو امریکن(امریکہ اور برطانیہ کی) کشمکش ہے۔ پمفلٹ میں کہا گیا کہ "امریکہ نے ایران کے ذریعے حوثیوں کو انواع واقسام کا اسلحہ اور سامان ِجنگ فراہم کرکے ان کی مدد کی تاکہ وہ طاقت کے بل بوتے پر یمن پر تسلط حاصل کرلیں ۔ امریکہ یہ جانتا ہے کہ سیاسی میدان میں زیادہ تر برطانیہ کے پروردہ سیاست دان چھائے ہوئے ہیں۔ لہٰذا امریکہ نے حوثیوں کے ذریعے طاقت کے بل بوتے پریمن پر تسلط جمانے کی راہ اختیار کی ۔حوثیوں نے صدر کا محاصرہ کر لیااور اس پر زور ڈالا کے وہ ان کی مرضی کے قوانین منظور کرے۔ یمن کا صدر ہادی ان قوانین کے نفاذ پرحوثیوں کے ساتھ اتفاق کرلیتا اور پھر اِن معاہدوں اور قوانین کو عملی جامہ پہنانے میں ٹال مٹول کرنے لگتا تھا ، یہ کھیل جاری رہا اور پھر وہ وقت آگیا جب حوثیوں نے صدر کو اس کے گھر میں قید کردیا لیکن وہ کسی طرح فرار ہو کر عدن پہنچ گیا۔ حوثیوں نے عدن تک اس کا پیچھا کیا، مگر وہ دوبارہ ان کے ہاتھوں بچ نکلا۔۔۔۔یوں یہ کشمکش طویل ہوتی چلی گئی اور حوثیوں کی طاقت کسی ایک مرکز پر جمع نہ رہ سکی بلکہ پورے ملک کے اندر پھیل جانے سے کمزور ہوگئی اور حوثی وہ کچھ حاصل نہ کرسکے جو وہ چاہتے تھے سوائے اس کے کہ علی صالح اور اس کے حواریان کے ساتھ شامل ہوگئے تا کہ اگر حوثی ، صدر ہادی کے خلاف کامیاب ہو جاتے ہیں تو حاصل ہونے والے انعام میں سے وہ بھی اپنا حصہ وصول کرسکیں ۔ اور اگر حوثی ناکام ہو جاتے ہیں تو انہیں چھوڑ دیا جائے۔ برطانوی ایجنٹوں کی اس حکمتِ عملی کے ابتدائی آثار دکھائی دے رہے ہیں"۔ پھر حزب نے اپنے پمفلٹ میں " فیصلہ کن طوفان" کے نام سے حوثیوں پر حملے کی حقیقت کے بارے میں تجزیہ کرتے ہوئے یہ لکھا تھا کہ "جب امریکہ نے دیکھا کہ ان کے حوثی حواری مخمصے کا شکار ہیں ، انہوں نے اپنی قوت کو پورے یمن میں پھیلا دیا ہے جس کے باعث نہ تو وہ مکمل طور پر اپنی بالادستی کو قائم کر پارہے ہیں اور نہ ہی وہ شمال میں اپنے مرکزکی طرف واپس جاسکتے ہیں،تو امریکہ نے محدود فوجی آپریشن کے ذریعے انہیں اس صورتحال سے نکالنے کا فیصلہ کیاکہ ایک تیر سے دو شکار ہوجائیں۔ پہلا :لوگ حوثیوں کو ایک جابر کی نظر سے دیکھنا شروع ہو گئے ہیں یہ فوجی حملے ان کے مظلوم ہونے کا تاثر قائم کریں گے اور دوسرا یہ کہ بحران کے بڑھنے سے ہنگامی مذاکرات کے لئے ماحول بن سکے گا اور کوئی مصالحتی حل سامنے آئے گا۔ ہر اس معاملے میں جہاں امریکہ تنہا کوئی مفاد حاصل کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو وہ یہی روش اختیار کرتا ہے ۔۔۔ جو کچھ پہلے ہوچکا ہے اور جو کچھ اب ہورہا ہے اس نے صورتحال کو واضح کردیا ہے۔ سعودی عرب نے عسکری کاروائی سے قبل امریکہ سے مشاورت کی ، اورامریکہ کے ایجنٹ ہی اس آپریشن میں پیش پیش ہیں یعنی سعودی عرب کا شاہ سلمان اورمصر کا جنرل سیسی ۔ جہاں تک باقی خلیجی ریاستوں اور اُردن ومراکش کا تعلق ہے تو ان کا کردار زیادہ تر سیاسی ہے ، ان کا رویہ برطانیہ جیسا ہے، کہ برطانیہ امریکہ کا ساتھ دیتا ہے ، تا کہ یہ نظر آئے کہ وہ بھی متحرک ہے اور عنقریب ہونے والے مذاکرات میں اس کا بھی کچھ نہ کچھ کردار ہو اور اس طرح جو بھی حل سامنے آئے اس کے نتیجے میں طاقت کے مراکز میں اس کا بھی اثرو رسوخ موجود رہے۔اگر چہ فوجی کاروائی کو مسلط کرنا بسا اوقات مذاکرات کا سلسلہ شروع کرانے میں کا میاب رہتا ہے ، مگر کبھی یہ حربہ ناکام بھی ہو جاتا ہے ، جس کے نتیجے میں یمن کی صورتحال مزید غیر مستحکم ہو سکتی ہے اور اسے جنگ کی آگ میں دھکیل سکتی ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب یمن مستحکم اور خوشحال تھا جب اس کی پاک مٹی پر ایجنٹوں اور استعماری کفار کے ناپاک قدم نہیں پڑے تھے"۔


ہم یہ جانتے ہیں کہ تحریکوں میں مخلص کار کن بھی ہیں جو بس اسلام کا نام ہی استعمال کرتی ہیں اور حوثی بھی ایسے ہی ہیں، لیکن بین الاقوامی موقف اور ایجنٹ حکمرانوں کی حقیقت کے بارے میں جانے بغیر صرف اخلاص ہی کافی نہیں ہوتا۔ اگر حوثی اور یمن میں تنازے کے فریقین کو ایجنٹ کہنا برا لگتا ہے تو وہ اس لفظ کے اصطلاحی معنی کو دیکھیں تو ان کو معلوم ہو جائے گا کہ ایجنٹ وہ ہو تا ہے کہ جو دشمن کے منصوبوں کو کامیاب بنائے چاہے وہ اس حقیقت کو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔ ان سب کو یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ حزب التحریرکے جوان اللہ پر توکل کرتے ہوئے اپنے رب کے وعدے کو پانے کی طرف بڑھ رہے ہیں کہ یا تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ خلافت راشدہ کے قیام کے ذریعے اپنے دین کو غالب کردیں گے یا وہ اپنی گردنیں کٹوالیں گے ۔ان کو یہ بھی جان لینا چاہیے کہ حزب ہی اس امت کی امیدوں کی محور اور اللہ کے اذن سے اس کے قائدین اور اس کو یکجا کرنے والے اور اس کی صفوں کو سیدھی کرنے والی ہے۔ وہی اس امت کے اندر سے فرقہ واریت کو ختم کرے گی اور دشمنوں کو رسوا کرے گی، اسلام کے اقتدار کو بحال،کلمہ حق کو بلند اور ہر مسلمان کی خیر خواہی کرتی رہے گی۔ یہ اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں۔ لہٰذا تم فورا ً مطہر الراشدی اور ہر اس شخص کو آزاد کرو جس کو تم نے ظلم سے گرفتار کیا ہے۔


﴿وَاللّهُ لاَ يُحِبُّ الظَّالِمِينَ﴾
" اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کر تا "(آل عمران:57) ۔


ولایہ یمن میں حزب التحریرکا میڈیاآفس

Read more...

‏حزب‬ التحریرکے خلاف ‫‏راحیل_نواز‬ حکومت کا عدالتی جبر گرفتاریاں اور طویل قیدو بند ‫‏خلافت‬ کے قیام کو روک نہیں سکتیں

منگل 31 مارچ 2015 کو لاہور ہائیکورٹ کے بینچ نے تین ماہ تک تاریخوں پر تاریخیں دیتے رہنے کے بعد حزب التحریر کے 12 شباب کی درخواست ضمانت مسترد کردی۔ ان بارہ شباب کو 5 دسمبر 2014 کے دن لاہور گلبرگ سے ایک اسلامی درس کی محفل سے گرفتار کیا گیا تھا۔
راحیل-نواز حکومت حزب التحریر اور اس کے شباب کو خلافت کے قیام کی جدوجہد سے روکنے کے لئے برطانوی سامراجی عدالتی نظام کا سہارا لے رہی ہے۔ یہ نظام بنا ثبوت اور جرم کو ثابت کیے بغیر بے گناہ اور معصوم لوگوں کو سالوں قید میں بند رکھنے کا قانونی جواز فراہم کرتا ہے۔ چار ماہ سے گرفتار ان افراد کے خلاف نہ تو مقدمہ شروع کیا گیا ہے اور نا ہی انہیں ضمانت فراہم کی جارہی ہے۔ تین ماہ تک تاریخیں دیتے رہنے کے بعد جب عدالتی بینچ نے استغاثہ سے مبینہ جرم کے حوالے سے ثبوت دیکھانے کا مطالبہ کیا تو اُس درس میں رکھی ہوئی حزب التحریر کی کتابیں پیش کی گئی لیکن بینچ نے ان کتابوں کو ایک نظر دیکھے بغیر ہی ضمانت کی درخواست مسترد کردی۔ حزب کی تمام کتابیں اسلام کے عقائد سے لے کر نظام ہائے زندگی تک صرف اور صرف قرآن و سنت پر مبنی ہیں اور آج تک کوئی یہ ثابت نہیں کرسکا کہ ان کے پڑھنے اور پڑھانے سے اسلام کی نہیں بلکہ نفرت، فرقہ واریت یا دہشت گردی کی ترویج ہوتی ہے۔
یہ بارہ شباب معاشرے کے معزز خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ اعلٰی تعلیم یافتہ اور اس معاشرے کے نگینے ہیں جو ایک طرف اپنے تعلیمی و کاروباری صلاحیتوں سے معاشرے کو فائدہ پہنچاتے آرہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ خلافت کے قیام کے لئے رسول اللہ ﷺ کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے سیاسی و فکری جدوجہد کررہے ہیں جس کا قیام پوری امت پر فرض ہے اور جس کے ذریعے سے امت ذلت و رسوائی کی دلدل سے نکل کر ایک بار پھر عزت و مرتبے کے مقام پر فائص ہو گی۔


حزب التحریر راحیل-نواز حکومت کو بتا دینا چاہتی ہے کہ تمھاری کوئی کوشش خلافت کے قیام کو کسی صورت روک نہیں سکتی کیونکہ یہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کا وعدہ ہے اور ان کا وعدہ سچا ہے۔ لہٰذا جو کوئی اس وعدے اور بشارت کو روکنے کی کوشش اور ظالموں کی معاونت کرتا ہے درحقیقت وہ انتہائی بدقسمت ہے۔ حزب التحریر یہ یاد دہانی کروا کر صرف حجت تمام کر رہی ہے کہ وہ تمام لوگ جو اس وعدے کو روکنے اور اس وعدے کی تکمیل کے لئے کام کرنے والوں پر ظلم کرتے ہیں اور ظالموں کی معاونت کرتے ہیں وہ یہ جان لیں کہ جب خلافت قائم ہو جائے گی تو وہ خسارہ پانے والوں میں سے ہوں گے اور جب وہ روز قیامت اپنے رب کے سامنے حاضر ہوں گے تو ان کا خسارہ تو اس دنیا کے خسارے سے بھی شدید ہوگا۔
لہٰذا حزب التحریر اور اس کے شباب پوری قوت سے خلافت کے قیام کی جدوجہد کرتے رہیں گے اور اللہ کے حکم سے خلافت قائم ہو کر رہے گی۔ تو اے ظالموں اور ان کی معاونت کرنے والوں! تم اپنا زور لگا لو اور حزب التحریر اور اس کے شباب اللہ سبحانہ و تعالٰی ہی پر بھروسہ کرتے ہوئے اس جدوجہد سے کسی صورت تائب نہیں ہوں گے۔


إِنَّ ٱللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ
"اللہ اپنا کام پورا کر کے رہے گا" (طلاق:3)


شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

 

Read more...

بالآخر ایجنٹ حکمرانوں کے طیارے حرکت میں آگئے..... مگر  دشمنوں سے لڑنے کے لئے نہیں بلکہ مسلمانوں کو قتل کرنےکے لئے!  

اقوامِ متحدہ کے لئے سعودی سفیر عادل الجبیر نے جمعرات کی صبح 26 مارچ 2015 کو یمن کے حوثیوں کے خلاف عسکری آپریشن کا اعلان کردیا ۔ اس  آپریشن کے دوران فضائی کاروائیوں میں حصہ لینے والا اتحاد دس ممالک  پر مشتمل ہے،  جس میں عمان کے سواء  باقی تمام خلیجی ممالک  شامل ہیں ۔ سعودی سفیر نے واضح کیا کہ سعودی عرب نے حوثیوں کے خلاف آپریشن شروع کرنے سے قبل امریکہ سے مشاورت کی تھی۔ مصر کے وزیر خارجہ نے  اس آپریشن میں شرکت کا اعلان کیااور بتایا کہ چار  مصری بحری جہاز  خلیجِ عدن کی طرف روانہ ہوچکے ہیں۔ جبکہ سوڈانی مسلح افواج کے ترجمان نے   اعلان کیا  کہ"اپنی اسلامی ذمہ داری کی بنیاد پر سوڈان اس(حملے) میں شرکت کرے گا۔ہم  ایسی صورتحال میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھ سکتے جبکہ مسلمانوں کے قبلہ اور وحی کے نزول کی سر زمین پر خطرات  کے بادل منڈلا رہے ہوں"۔

 

یوں بجائے یہ کہ حکمرانوں کے طیارے اور جنگی بحری جہازیہود یوں سے لڑنےکے لیے حرکت میں آتے وہ یمن پر بم برسانے کے لئے حرکت میں آئےحالانکہ سبا(یمن )کی سرزمین کی بنسبت یہودی وجود ان کے زیادہ قریب  واقع ہے!اس کاروائی کے  لیے جو جواز پیش کیے گئے ہیں ان میں سے بد ترین جوازیہ ہے کہ یہ حملہ مسلمانوں کے قبلہ کےتحفظ کی خاطر ہے، حالانکہ   حرم شریف  پر تو حملہ ہوا بھی نہیں جبکہ مسلمانوں کا قبلہ اول جس پر یہودی حملہ کر کے قبضہ کر چکے ہیں اور وہ کئی  دہائیوں سے یہودیوں کے قبضے میں ہے ، اورپکار پکار کر اِن  حکمرانوں سے مدد کے لئے فریاد کرتا آرہا ہے،اس کی خاطریہ  حکمران حرکت میں نہیں آتے!ان کے طیارے یمن کی طرف اس لئے پرواز کرتے ہیں تاکہ استعماری کفار کے منصوبوں کو مکمل کیا جائے،  یہ طیارے فلسطین کی ارضِ مقدس کو چھڑوانے کے لئےکبھی نہیں  اُڑتے جس پرمسلمانوں کے شدید ترین دشمن  قابض  بنے بیٹھے ہیں!

 

ہر صاحب بصیرت شخص  جانتا ہے کہ یمن میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے ، یہ امریکہ اور  اس کے  حوثی حواریوں اور ان کے ہمنوا ؤں اوردوسری طرف برطانیہ اور اس کے حواریوں ہادی،عبد اللہ صالح اور  ان کے ہمنواؤں کی باہمی کشمکش ہے ،جیسا کہ ہم نے اس معاملے کے متعلق سابقہ دستاویزات میں لوگوں پر یہ  واضح کیا تھا کہ"حقیقت یہ ہے  کہ یمن میں جاری جنگ دوفریقوں کے درمیان ہورہی ہے: فریق اول امریکہ ،اس کے حواری اور ایجنٹ  اورفریقِ ثانی برطانیہ ، اس کے حواری اور ایجنٹ ۔ دونوں فریق  اپنے اپنے وسائل اور  اسالیب استعمال کررہے ہیں  .... امریکہ یمن میں حوثیوں  کی مادی قوت ، جنوبی علاقوں میں جاری  تحریک اور ایران کے ذریعے معاملات کو آگے بڑھارہا ہے اور مذاکرات کے میدان میں یمن کے لئے اقوام متحدہ کے خصوصی مشیرجمال بن عمرکو استعمال کر تا ہے۔جبکہ برطانیہ اپنی سیاسی مکاری کو بروئے کار لاتا ہے اورامریکی دباؤ کے خلاف مزاحمت کے طور پر ہادی  اور اس کی صدارت کو استعمال کررہا ہے اور اس بات کو یقینی بنارہاہے کہ کوئی امریکی حواری طاقت کے اہم مراکز میں سے کسی پربھی قابض نہ ہوسکے ۔ساتھ ہی ساتھ برطانیہ نے بذاتِ خود علی صالح  اور اس کے آدمیوں کو  حوثیوں کے ساتھ اتحاد میں شامل ہونے کی اجازت دی تا کہ اگر ہادی اپنے مقصد میں ناکام ہوجائے اور حوثی  اقتدار پر قابض ہو جائیں  تب بھی برطانیہ علی صالح کے ذریعے اقتدار کے کچھ حصے پر  قابض  رہ سکے ۔یہ ہے یمن کی صورتِ حال کی حقیقت ۔چونکہ برطانیہ اب پہلے کی طرح  یمن پر اپنی بالادستی قائم رکھنےکے قابل نہیں رہا ،جبکہ دوسری طرف  وہ امریکہ اور اس کے ایجنٹوں  کا عسکری طور پر مقابلہ نہیں کر سکتا اس لیے وہ اپنے ایجنٹ ہادی اور علی صالح کے ذریعے  سیاسی مکاری پر ہی بھروسہ کرتا ہے،جنہوں نے اپنا کردار بخوبی ادا کیاہے "(یکم اکتوبر 2014) ۔

 

امریکہ نے ایران کے ذریعے حوثیوں کو انواع واقسام کا اسلحہ اور سامان ِجنگ فراہم کرکے ان کی مدد کی تاکہ وہ طاقت کے بل بوتے پر یمن پر تسلط حاصل کرلیں ۔ امریکہ یہ جانتا ہے کہ سیاسی میدان میں زیادہ تر برطانیہ کے پروردہ سیاست دان چھائے ہوئے ہیں۔ لہٰذا امریکہ نے حوثیوں کے ذریعے  طاقت کے بل بوتے پریمن پر تسلط جمانے کی راہ اختیار کی ۔حوثیوں نے صدر کا محاصرہ کر لیااور اس پر زور ڈالا کے وہ ان کی مرضی کے قوانین منظور کرے۔ یمن کا صدر ہادی ان قوانین کے نفاذ پرحوثیوں کے ساتھ  اتفاق کرلیتا اور پھر اِن معاہدوں اور قوانین کو عملی جامہ پہنانے میں  ٹال مٹول کرنے لگتا تھا ، یہ کھیل جاری رہا اور پھر وہ وقت آگیا جب حوثیوں نے  صدر کو اس کے گھر میں قید کردیا لیکن وہ کسی طرح فرار ہو کر عدن پہنچ گیا۔ حوثیوں نے عدن  تک اس کا پیچھا کیا، مگر وہ دوبارہ ان کے ہاتھوں بچ نکلا۔ یوں یہ کشمکش طویل ہوتی چلی گئی اور حوثیوں کی طاقت کسی ایک مرکز پر جمع نہ رہ سکی بلکہ  پورے ملک کے اندر پھیل جانے سے کمزور ہوگئی اور حوثی وہ کچھ حاصل نہ کرسکے جو وہ چاہتے  تھے سوائے اس کے کہ  علی صالح اور اس  کے حواریان کے ساتھ شامل ہوگئے تا کہ اگر حوثی ، صدر ہادی کے خلاف کامیاب ہو جاتے ہیں  تو حاصل ہونے والے انعام میں سے وہ بھی اپنا حصہ وصول کرسکیں ۔ اور اگر حوثی ناکام ہو جاتے ہیں  تو انہیں چھوڑ دیا جائے۔ برطانوی ایجنٹوں کی اس حکمتِ عملی کے ابتدائی  آثار دکھائی دے  رہے ہیں ۔ پس عوامی نیشنل کانگریس ، جس کی سربراہی سابق یمنی صدر علی عبد اللہ صالح کررہا ہے،  نے اعلان کیا کہ "حوثی ملیشیا کی تحریک  ، حوثیوں  کی جانب سے جنوبی صوبوں پر قبضہ کرنے کی کوشش اور ملک کی قانونی اتھارٹی کے خلاف بغاوت کرنے کے عمل سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے "۔  عوامی  کانگریس پارٹی کے پولیٹیکل آفس  کی جنرل کمیٹی کی طرف سے بیان دیا گیا کہ "یمن میں جو کچھ ہورہا ہے، یہ بعض دھڑوں کے درمیان  اقتدار کی کشمکش  ہے، اور نیشنل کانگریس کا اس سے دور ونزدیک کا کوئی واسطہ نہیں"(العربیۃ26 مارچ 2015)۔ عوامی نیشنل کانگریس کی طرف سے یہ بیان سامنے آیا حالانکہ کل تک وہ اس صلح یاجنگ میں حوثیوں کی حلیف تھی! اور یہ  کوئی تعجب کی بات نہیں ہوگی  کہ اگرمستقبل میں حوثیوں کا پلڑا بھاری ہو جائے  تو عوامی کانگریس دوبارہ حوثیوں  کی اتحادی بن جائے۔ اِن  ایجنٹوں کا یہی وطیرہ ہوتا ہے کہ وہ ضرورت کے لحاظ سے اپنے آقا کے تیار کردہ کردار کے مطابق اپنےرنگ بدل لیتے ہیں!کیا ہی برا اُن کا یہ چلن ہے...!

 

جب امریکہ نے دیکھا کہ ان کے حوثی   حواری مخمصے کا شکار ہیں ، انہوں نے اپنی قوت کو پورے یمن میں پھیلا دیا ہے جس کے باعث نہ تو وہ مکمل طور پر اپنی بالادستی کو قائم  کر پارہے ہیں  اور نہ ہی وہ  شمال میں اپنے مرکزکی طرف  واپس جاسکتے ہیں،تو امریکہ نے محدود فوجی آپریشن کے ذریعے  انہیں اس صورتحال سے نکالنے کا فیصلہ کیاکہ ایک تیر سے دو شکار  ہوجائیں۔  پہلا :لوگ حوثیوں کو ایک جابر کی نظر سے دیکھنا شروع ہو گئے ہیں یہ فوجی حملے ان کے مظلوم ہونے کا تاثر قائم کریں گے اور  دوسرا یہ کہ بحران کے بڑھنے سے ہنگامی مذاکرات کے لئے ماحول بن سکے گا  اور کوئی مصالحتی حل سامنے آئے گا۔ ہر اس معاملے میں جہاں  امریکہ تنہا کوئی مفاد حاصل کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو وہ یہی روش اختیار کرتا ہے۔

 

جو کچھ پہلے ہوچکا ہے اور جو کچھ اب ہورہا ہے اس نے صورتحال کو واضح کردیا ہے۔  سعودی عرب  نے عسکری کاروائی سے قبل امریکہ   سے مشاورت کی ، اورامریکہ کے ایجنٹ ہی اس  آپریشن میں پیش پیش  ہیں یعنی سعودی عرب کا شاہ سلمان اورمصر کا جنرل سیسی ۔  جہاں تک باقی خلیجی ریاستوں اور اُردن ومراکش  کا تعلق ہے تو ان کا کردار زیادہ تر سیاسی ہے ، ان کا رویہ برطانیہ جیسا ہے، کہ برطانیہ امریکہ کا ساتھ دیتا ہے ، تا کہ یہ نظر آئے کہ وہ بھی متحرک ہے اور عنقریب ہونے والے مذاکرات میں اس کا بھی کچھ نہ کچھ کردار ہو  اور اس طرح جو بھی حل سامنے آئے اس کے نتیجے میں طاقت کے مراکز میں اس کا بھی اثرو رسوخ موجود رہے۔اگر چہ فوجی کاروائی کو مسلط کرنا بسا اوقات مذاکرات کا سلسلہ شروع کرانے میں کا میاب رہتا ہے ، مگر کبھی یہ حربہ ناکام بھی ہو جاتا ہے ،  جس کے نتیجے میں  یمن کی  صورتحال مزید غیر مستحکم  ہو سکتی ہے اور اسے  جنگ کی آگ  میں دھکیل سکتی ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب یمن    مستحکم اور خوشحال تھا جب اس  کی پاک مٹی پر   ایجنٹوں اور استعماری کفار کے ناپاک قدم نہیں  پڑے تھے۔

 

اے مسلمانو! یہ ہیں ہمارے حکمران ۔ یہ  حکمران ہی  وہ سب سے بڑی  مصیبت ہیں کہ جس سےآج  ہم دوچار ہیں۔ اگر ہم نے اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرنے اور ان کے ظلم وستم سے نجات کے لیے  کوشش نہیں کی تو یہ ہمارے لئے مزید تباہی و بربادی کا باعث بن جائیں گے۔ ہمارے ذخائر لوٹے گئے ،ہمارا خون بہایا گیا ،جبکہ ہم نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کےاس قول کواپنے سامنے نہیں رکھا کہ :

 

﴿وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾،

" ڈرو اس فتنے سے جس کا شکار صرف وہ لوگ نہیں ہوں گے جو تم میں سے ظالم ہیں ، اور جان لو کہ اللہ کا عذاب شدید ہے"

 

اور آپ ﷺ کے اس ارشاد کو بھی کہ

«إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا ظَالِمًا، فَلَمْ يَأْخُذُوا عَلَى يَدَيْهِ أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللَّهُ بِعِقَابٍ مِنْهُ»

"بے شک جب لوگ کسی کو ظلم کرتا دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ روکیں ، تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کو اپنے عذاب میں گھیر لے"(ترمذی)۔

 

یہ  ہیں ہمارے حکمران ۔  کہ  اسراء ومعراج کی سرزمینِ فلسطین اور قبلۂ اول  فریاد کررہےہیں ،مگر وہ اس کی فریاد پر کان نہیں دھرتے ،وہ ان سے مددطلب کررہے ہیں ، مگر وہ مدد کے لئے آگے نہیں بڑھتے گویا ان کے کانوں  اور آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں...لیکن جب بات ہوتی ہے کفر یہ  استعماری ریاستوں کے مفادات کی تکمیل اور نفاذ کی تو یہ    ذلیل بن کر دوڑتے ہوئے  آتے  ہیں اور اپنے آقاؤں کی خدمت گزاری کواپنے لیے فخر کا باعث سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ان کے طیارے ،ٹینک اور جنگی کشتیاں  اسلام کی ترویج اور دشمنانِ اسلام کے مقابلے کے لئے حرکت میں نہیں آتے بلکہ بیرکوں میں پڑے رہتے ہیں ۔  لیکن جب وہ   مغربی استعماری طاقتیں کہ جنہیں ایمان والوں سے نفرت ہے،صرف  اشارہ ہی کرتی ہیں تویہ حکمران اس وقت اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور شیر کی طرح دھاڑنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ حکمران اہل وطن کے سامنے توبڑے تکبر  سے  آتے ہیں ،مگر دشمنوں کے سامنے بھیگی بلی بن جاتے ہیں ، اللہ ان کو غارت کرے۔

 

اے مسلمانو! امریکہ یا  برطانیہ کی حمایت کر کے یا ان کے ایجنٹوں میں سے کسی ایک کی حمایت کر کےیمن کو  تباہ کن صورتحال سے نہیں نکالا جاسکتا  بلکہ یمن کو اس  کے عوام اس صورت  بچا سکتے ہیں اگر وہ  بھر پور قوت کے ساتھ صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالٰی  اور اس کے رسول ﷺ کے لئے متحرک ہوجائیں ، دونوں جانب کے جابروں کو ہٹا دیں،   ملک  کو  ان کی خیانتوں سے محفوظ بنائیں  اور یمن کو اس کی اصل کی طرف لوٹا دیں یعنی اسے دوبارا ایمان وحکمت کی سرزمین بنا دیں ، جو عقاب کے جھنڈے کو بلند کرے، جو اللہ کے رسول ﷺ کا جھنڈ ا  ہے ، اور نبوت کے نقشِ قدم پر قائم خلافت کی موجودگی میں اللہ کی شریعت کے ذریعے فیصلے کیے جائیں

 

﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾،

"اوراس روز مومن خوش  ہوجائیں گے ،اللہ کی مدد سے ،وہ جسے چاہتاہے مدد دیتاہے اوروہ غالب اورمہربان ہے " (الروم : 4-5)

 

اے مسلمانو! اے یمن والو!حزب التحریر اخلاص اور صدق کے ساتھ آپ سے مخاطب ہے کہ آپ کو امریکہ کے تکبراور ان کے حواریوں کے غرور سے  ہرگزخائف نہیں ہونا چاہئے  اور نہ ہی  برطانوی خباثت  اور اس کے حواریوں کی فریب کاریوں سے  دھوکہ کھانا ہے۔  یہی دشمن ہیں  لہٰذا  ان سے محتاط رہو!   اور تم اللہ کے دین کی  مدد کرو، اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جمادے گا۔

 

(إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ)

"یقیناً اس میں اس شخص کے لئے بڑی نصیحت کا سامان ہے جس کے پاس دل ہو یا جو حاضر دماغ بن کر کان دَھرے"(ق:37)

Read more...

خلافت: ایک قطعی فرض الٰہی

"چاروں امام (ابو حنیفہ، مالک، شافعي، احمد،رحمۃ اللہ عليھم) اس بات پر متفق ہیں کہ امامت (خلافت) ایک فرض ہے اور یہ کہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ایک امام (خلیفہ) کو مقرر کریں جو دین کے احکامات کو نافذ کرےاور مظلوموں کو ظالموں کے خلاف انصاف فراہم کرے ۔ چاروں امام اس بات پر بھی متفق ہیں کہ مسلمانوں کو اس بات کی اجازت نہیں کہ ایک وقت میں ان کے دو امام (خلیفہ) ہوں، خواہ متفقہ يا متفرقہ طور پر۔۔۔"۔(چار مذاہب کی فقہ: الفقہ علی المذاھب الاربعہ 5:416)۔

یہ قول امام الجزيری کا ہے جو کہ چودھویں صدی ہجری کے معروف عالم ہیں اور ان کی رائے تقابلی فقہ میں مستند مانی جاتی ہے۔ یہاں پر انہوں نے  مختلف فقہا کاخلافت کے موضوع پر نقطہ نظر  پیش کیا ہے جو کہ وہی موقف ہے جو صحابہ رضی اللہ عنھم کے وقت سے چلا آرہا ہے۔

تمام مکتبہ فکر کے چوٹی کے علماء نے ہمیشہ خلافت کے موضوع کو انتہائی اہم قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ

"شریعت کہ ضروريات میں سے ہے جسے کسی صورت چھوڑا نہیں جاسکتا"

(الغزالی، الاقتصاد فی الاعتقاد،199)،

"مسلمانوں کے اہم ترین مفادات میں سے ہے اور دین کے اہم ترین ستونوں میں سے"

(الآمدی، غايۃ المرام،366)،

"دین کے عظیم ترین ستونوں میں سے ایک عظیم  ستون ہے"

(القرطبی، الجامع لاحکام القرآن، 1:265)،

"دین کے اہم ترین فرائض میں سے ہے"

(ابن تیمیہ، السیاسیہ الشریعہ، 129)،

اور "اہم ترین فرائض میں سے ایک فرض"

(الحصکفي، رد المحتار، 1:548)۔

 

باالفاظ دیگر خلافت صرف ایک فرض نہیں بلکہ اہم ترین فرائض میں سے ہے۔ یہ اسلام کا ستون ہے جسے چھوڑا نہیں جاسکتا کیونکہ اس کے بغیر اسلام جامع اور مکمل  طور پر  نافذ ہی نہیں ہوسکتا۔

 

لیکن کچھ "جدیدیت"اور "اصلاح"پسند اس نقطہ نظر سے اختلاف کرتے ہیں۔ ان کے کہنے کہ مطابق ایک ہزار سال کا علم و فضل اس موضوع (اور اس کے ساتھ دیگر کئی موضوعات) کو صحیح نہیں سمجھ سکا اور اب وہ لوگ ہی قرآن اور سنت کی صحیح تعبیر کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ ایک انتہائی بلند بانگ دعویٰ ہے جس سے صرف نظر کیا جاسکتا تھا لیکن اس معاملے کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے ہم اس کو دلائل کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔

 

ڈاکٹر غامدی ،جو اسی سوچ کی نمائندگی کرتے ہیں، یہ کہتے ہیں کہ خلافت کا فرض ہونا تو دور کی بات یہ تو کوئی "دينی اصطلاح" بھی نہیں ہے۔

 

پہلے ایک اصولینقطہ۔کوئی بھی اصطلاح تین قسم کی معنوں ميں سے ایک کی حامل ہوسکتی ہے: لغوی، اصطلاحی يا شرعی۔ شرعی کا یہاں اسلامی شریعت کی طرف نسبۃ ہے۔ لھذا شاید غامدی صاحب کا "دينی اصطلاح" کہنے کا مطلب تیسری قسم کے معنی سے ہے۔صحيح طور پر اس کو شرعی اصطلاح کہہ جاتا ہے-اسے اسلامی اصطلاح بھی کہا جاسکتا ہے۔

 

لغوی معنی لوگوں کی جانب سے آتےہیں جو اصل میں ایک زبان کو پیدا کرتے ہیں جیسا کہ پرانے عرب یا یونانی۔ اصطلاحی معنی ان لوگوں کی جانب سے آتے ہیں جو کسی مخصوص شعبے سے وابستہ ہوتے ہیں جیسے فقہاء، محدثین یا طبیعات کے علماء وغیرہ مخصوص اصطلاحات روشناس کراتے ہیں۔ پھر یہ اصطلاحات انہیں شعبوں میں اپنے مخصوص معنوں میں ہی استعمال ہوتی ہیں جبکہ اسی وقت وہی اصطلاح کسی اور شعبے میں کسی اور معنوں میں استعمال ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر فقہ میں لفظ "سنت" کا مطلب مندوب اعمال ہے یعنی ایسے اعمال جن کا کرنا شارع کی طرف سے مطلوب ہے ليکن فرض نہیں جبکہ حدیث کے شعبے میں اس کا مطلب رسول اللہﷺ کا عمل، قولیااقرار ہوتا ہے۔

 

شرعی معنی صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالٰی اور رسول اللہﷺ کی جانب سے ہوتے ہیں کیونکہ یہ معنی شریعت بتاتی ہے جس کی بنیاد وحی ہے۔ غامدی صاحب اس بات سے اتفاق کرتے ہیں لیکن حیرانگیز طور پر اس بات کو قبول نہیں کرتے کہ قرآن اور سنت میں لفظ خلافہ کو لغوی معنی یعنی "جاں نشین" کے علاوہ کسی اور معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ درحقیقت یہ لفظ کئی احادیث میں  محض "جاں نشینی " کے معنی میں استعمال نہیں ہوا بلکہ ایک مخصوص معنی میں استعمال ہوا ہے جو کہ ایک خاص قسم کی جاں نشینی ہے جس سے عرب کے لوگ اسلام سے قبل آشنا نہ تھے۔ مثال کے طور پر رسول اللہﷺ نے فرمایا  کہ ,

«كانت بنو إسرائيل تسوسهم الأنبياء، كلما هلك نبي خلفه نبي، وإنه لا نبي بعدي، وستكون خلفاء فتكثر» ، قالوا: فما تأمرنا؟ قال: «فوا ببيعة الأول، فالأول، وأعطوهم حقهم، فإن الله سائلهم عما استرعاهم»

"بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کیا کرتے تھے۔ جب کوئی نبی وفات پاتا تو دوسرا نبی اس کی جگہ لے لیتا، جبکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے البتہ بڑی کثرت سے خلفاء ہوں گے۔ صحابہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا: آپﷺ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا:تم ایک کے بعد دوسرے کی بیعت کو پورا کرنا اور انہیں ان کا حق ادا کرنا کیونکہ اللہ تعالٰی ان سے ان کی رعایا کے بارے میں پوچھے گا جو اس نے انہیں دی"(مسلم، 1842)۔

 

یہاں رسول اللہﷺخصوصاً ان لوگوں کا ذکر فرما رہے ہیں جو مسلمانوں پر حکمرانی میں خلفاء (اس کی واحد خلیفہ ہے)کی حیثیت سے  ان کے جاں نشین ہوں گے۔  یہاں پر کسی عام جاں نشینی کا ذکر نہیں ہورہا بلکہ ان جاں نشینوں کا ذکر ہو رہا ہے جو ایک خاص طریقے یعنی بیعت کے ذریعے حکمران بنیں گے اور جو ایک خاص طریقے سے حکمرانی کریں گے یعنی اسلام کے مکمل اور جامع نفاذ کے زریعے۔ یقیناً حکمران ہونے کی حیثیت میں ان کا تمام تر کردار شریعت کے قوانین اور اصولوں  کے تابع ہوتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جس نے اُس وقت ایک نیا طرز حکمرانی دیا  اور جس نے اُس تمام وقتوں کے لئے ایکمنفردطرز حکمرانی مقرر کيا۔ اگر رسول اللہ ﷺ کو محض حکمرانوں کے متعلق ہی بات کرنا ہوتی تو وہ لفظ "حکام"،جس کا واحد حاکم ہے، استعمال کرتے جو کہ عربی زبان میں حکمرانوں کے لئے سیدھا سادہ لفظ ہے۔

 

اسی طرح رسول اللہﷺ نے مسلمانوں پر حکمرانی کے حوالے سے آنے والے ادوار کے ذکر میں خاص لفظ "خلافہ" استعمال کیا۔ آپﷺ نے فرمایاکہ،

 

«تكون النبوة فيكم ما شاء الله أن تكون، ثم يرفعها إذا شاء أن يرفعها، ثم تكون خلافة على منهاج النبوة، فتكون ما شاء الله أن تكون، ثم يرفعها إذا شاء الله أن يرفعها، ثم تكون ملكا عاضا، فيكون ما شاء الله أن يكون، ثم يرفعها إذا شاء أن يرفعها، ثم تكون ملكا جبرية، فتكون ما شاء الله أن تكون، ثم يرفعها إذا شاء أن يرفعها، ثم تكون خلافة على منهاج نبوة»

"تم میں نبوت موجود رہے گی جب تک اللہ چاہیں گے اور پھر اللہ اسے اٹھا لیں گے۔ پھر نبوت کے طریقے پر خلافت راشدہ ہوگی، اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہیں گے اور پھر اللہ اسے اٹھا لیں گے۔ پھر وراثتی حکمرانی ہو گی، اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہیں گے اور پھر اللہ اسے بھی اٹھا لیں گے۔ پھر جابرانہ حکمرانی کا دور ہو گااور اس وقت تک رہے گا جب تک اللہ چاہیں گے اور پھر اللہ اسے بھی اٹھا لیں گے۔ اور پھر نبوت کے طریقے پر خلافت راشدہ ہوگی"(احمد،18406)۔

 

یہاں پر یہ بات غور طلب ہے  کہ تمام ادوار حکمرانی ہی کے ادوار ہیں چاہے وہ کسی ایک قسم کے ہوں یا دوسری قسم کے لیکن ان میں کچھ ادوار کو خصوصاً خلافہ کہا گیا۔ لہٰذا خلافہ محض کسی بھی قسم کی حکمرانی کی وضاحت کے لئے نہیں ہے بلکہ یہ اسلام کے ایک اپنے مخصوص نظام حکمرانی کی وضاحت کرتا ہے اور یہی وہ واحد طرز حکمرانی ہے جس کی اسلام نے اجازت دی ہے کیونکہ رسول اللہﷺ نے صرف اس طرز حکمرانی کابيان کيا۔

لہٰذا لفظ "خلافہ" اسلامی طرز حکمرانی کو بیان کرتا ہے جس کو یہ معنی شارع نے خود دیا ہے نا کہ کسی عالم یا فقيہ نے، تاہم یہ ایک شرعی یا اسلامی اصطلاح ہے۔

 

لیکن اگر پھر بھی غامدی صاحب کی دلائل کو قبول کرلیا جائے کہ خلافہ محض مسلمانوں کی ایجاد کردہ ایک "پوليٹيکل سائنس اور سوشيالوجی کی اصطلاح ہے جیسے فقہ، کلام اور حدیث"، تو یہ سوال اھٹتا ہے  کہ اس اصطلاح کو اسلامی حکومت کے لئے کیوں نہیں قبول اور استعمال کرليتے بالکل ویسے ہی جیسے آپ نے فقہ یا حدیث کی اصطلاح کو قبول بھی کیا اور اسے استعمال بھی کرتے ہیں؟ اس خلافہ کی اصطلاح کے لئے ایک دوسرا طرز عمل کیوں اختیار کیا جائے؟ اور اس بات کی کیا ضرورت ہے کہ  اس اصطلاح  کو غیر دينی ثابت کیا جائے؟

 

جہاں تک اس شرعی حکم کا بات ہے کے صرف ایک ہی خلیفہ  ہوسکتا ہے تو اس حوالے سے احادیث بالکل واضح ہيں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

«إذا بويع لخليفتين، فاقتلوا الآخر منهما»

"جب دو خلفاء کے لئے بیعت لے لی جائے تو ان میں سے دوسرے کو قتل کردو"(مسلم،1853)۔

رسول اللہﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ،

«من أتاكم وأمركم جميع على رجل واحد، يريد أن يشق عصاكم، أو يفرق جماعتكم، فاقتلوه»

"اگر تم متحد ہو ايک بندے کے تحت اور کوئی تمہاری صفوں میں رخنہ ڈالنا چاہے یا تمہاری جماعت میں تفرقہ ڈالے تو اسے قتل کردو"(مسلم، 1852)۔

 

غامدی صاحب اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ پہلی حدیث سند کے لحاذ سے صحيح نہیں ہے جبکہ یہ صحیح مسلم کی حدیث ہے جس کی ہر حدیث کو محدثين نے متفقہ طور پر "صحیح" قرار دیا ہے۔

 

اس سے بھی بڑھ کر وہ ان احادیث کی یہ تشریح کرتے ہیں کہ اتفاق یا وحدت برقرار رکھنے کا یہ حکم کسی ایک مسلم ریاست میں رہنے والے مسلمانوں سے متعلق ہےیعنی کہ مسلمانوں کی ایک سے زیادہ ریاستیں ہوسکتی ہیں اور لازماً پھر ایک سے زیادہ حکمران  بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ یہ  احادیث عام ہیں اور ان میں غامدی صاحب کی بیان کی گئی تشریح کی کوئی تخصیص بیان نہیں کی گئی ۔ اس کے علاوہ اُس وقت جب یہ احادیث بیان کی گئیں تو مسلمانوں کی ایک سے زیادہ ریاستیں موجود ہی نہ تھیں کہ غامدی صاحب کی بیان کی گئی تشریح ممکن بھی ہوسکے۔ رسول اللہ ﷺ صحابہ رضی اللہ عنھم کے ذریعے  آنے والے تمام وقتوں کے مسلمانوں سے خطاب فرما رہے تھے ۔

 

اپنی تشریح کو صحیح ثابت کرنے کے لئے ڈاکٹر غامدی  اس حد تک چلے گئے کہ انہوں نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ایک قول میں تبدیلی تک کردی۔  فرمایا کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ، "ریاست کا صرف ایک ہی حکمران ہوسکتا ہے"، جبکہ انہوں نے جس روایت کو بیہقی کی سنن الکبری (نمبر16550) سے نقل کیا ہے اس میں "ریاست" کا لفظ استعمال ہی نہیں کیا گیا بلکہ اس میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ یہ کہتے ہیں کہ، "اس بات کی اجازت نہیں کہ مسلمانوں کے دو حکمران ہوں"، اور بالکل یہی ہمارا موقف ہے۔

 

اصولِ فقہ میں یہ بات ثابت شدہ ہے کہ "لام الجنس" عمومیت کی علامت ہے، اسی لئے مسلمانوں سے مراد تمام مسلمان ہیں ناکہ چند مسلمان۔ مسلمان بحیثیت مجموعی صرف ایک ہی حکمران تعینات کرنے کی مجاز ہیں جو ان کی رہنمائی کرے اور وہ حکمران خلیفہ ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو پھر تفرقہ، تقسیم اور اختلاف لازم ہے جس کو بیان کرنے کےلئے الفاظ کی کوئی ضروت نہیں بلکہ مسلمانوں کی موجودہ صورتحال ہی اس کا بیان کرنے کے لئے  کافی ہے۔

 

غامدی صاحب اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ایک سے زیادہ حکمران بہت زیادہ نا اتفاقی اور تفرقے کا باعث ہوگی۔ لیکن حیرت ہے کہ انہیں مسلمانوں کے پچاس سے زائد غیر مؤثر ممالک میں تقسیم ہونے سے کوئی انکار نہیں ہے۔

 

حقیقت یہ ہے کہ "جدیدیت" اور "اصلاح" پسندی کے پردے کے پیچھے سے پیش کیے جانے والے یہ انتہائ کمزور فکری دلائل موجودہ وقت کی سیکولر لبرل طاقت کی مرہون منت ہے۔ یہ جدیدیت اور اصلاح پسندی اسلامی شریعت کو سیکولر لبرل فکر اور موجودہ عالمی آرڈرکےچشمے سےدیکھنے کا نام ہے۔ اس فکر کے حامل افراد اسلام کو موجودہ دور کی حقیقت کو  سامنے رکھ کر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ اسلام کو حقیقت سے جدا گانہ طریقے سے سمجھ کر پھر اس کا اطلاق موجودہ حقیقت پر کیا جاتا ہے۔ اس طرز فکر کا نتیجہ ہے کہ یہ حضرات اُن نتائج پر پہنچتے ہیں کہ جن کو اختیار کرنے سے مقامی یا بین الاقوامی صورتحال میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی بلکہ سٹیٹس کو برقرار رہتا ہے۔

 

خلافت کا تصور عالمی صورتحال اور اس کے جابرانہ ڈھانچے کو مکمل طور پر چیلنج کرتا ہے۔ یہ دنیا کے مسلمانوں کو یکجا کرنے اور ایک بار پھر اسلام کو دنیا کی امامت کے مقام پر فائز کرنے کی بات کرتا ہے جبکہ غامدی اور ان جیسے دیگر افراد اس کی مخالف سوچ رکھتے ہیں یعنی وہ اسلام کو استعمال کرتے ہوئے سٹیٹس کو کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن وہ اپنے اس عمل میں پوری طرح سے مسلسل ناکام ہیں کیونکہ امت جدید سیکولر ماڈل کی حقیقت کو جان چکی ہے جو کہ ایک ایسا نظام ہے جہاں اقلیتی اشرافیہجمھور عوام کا استحصال کرتی ہے اور امت جانتی ہے کہ خلافت اس کے بالکل الٹ چیز ہے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ یہ ایک فرض الٰہی ہے اور ظلم سے نجات حاصل کرنے کا طریقہ ناصرف اس کے لئے بلکہ پوری انسانیت کے لئے ہے۔

 

عمر علی

مسلم سیاسی کارکن، لکھاری اور عربی اور اسلام کا طالب علم

Read more...

مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر کا شعبہ خواتین ایک بے مثال بین الاقوامی خواتین کانفرنس بعنوان "عورت اور شریعت :حقیقت اور افسانے میں تمیز کے لیے" منعقد کررہا ہے

ہفتہ 28 مارچ 2015 کو مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر کا شعبہ خواتین ایک شاندار اور بے مثال بین الاقوامی خواتین کانفرنس "عورت اور شریعت :حقیقت اور افسانے میں تمیز کے لیے"کے عنوان سے منعقد کررہا ہے۔ یہ شاندار کانفرنس مختلف براعظموں کے پانچ ممالک : فلسطین، ترکی، تیونس، اینڈونیشیا اور برطانیہ میں منعقد کی جارہی ہے جس میں دانشور خواتین شریک ہوں گی۔ یہ کانفرنس الیکٹرانک ہالز میں منعقد کی جائیں گی جنہیں ایک دوسرے سے منسلک کر دیا جائے گا جس کے نتیجے میں کسی بھی ایک مقام پر ہونے والی تقریر دیگر تمام مقامات پر براہ راست دیکھی اور سنی جاسکے گی۔ ان پانچ مقامات کے علاوہ اردن سے بھی ایک تقریر براہ راست نشر کی جائے گی۔ یہ کانفرنس دنیا بھر کے عوام کے لئے بھی براہ راست نشر کی جائے گی۔ شرکاء میں خواتین صحافی، سیاست دان، وکیل، دانشور اور مختلف تنظیموں کی نمائندگان شامل ہیں۔ یہ کانفرنس چھ ہفتے پر مشتمل ایک عالمی مہم کا اختتام ہو گی جس کے دوران ایک زبردست سوشل میڈیا مہم چلائی گئی، بین الاقوامی میڈیا سے رابطہ کیا گیا اور دنیا بھر میں خواتین سے بات چیت کی گئی۔

کانفرنس میں جن موضوعات پر بات چیت کی جائے گی وہ یہ ہیں: بین الاقوامی یا شرعی قوانین کو مسلم دنیا میں خواتین کے حقوق کا تعین کرنا چاہیے؟؛ کیا اسلامی نسوانی تحریک خواتین کے مقام کو بہتر بنانے کا راستہ ہے؛ میڈیا کی جانب سے خواتین اور شریعت کے متعلق بنائے گئے تصوارت کو ختم کرنا؛ اسلام کے معاشرتی نظام کی فطرت؛ خلافت میں اسلامی قوانین کے تحت خواتین کا مقام؛ اور حقیقی سیاسی تبدیلی میں خواتین کا کردار۔ اس کانفرنس میں عالمی سطح پر مسلم خواتین میں اسلامی قوانین کے نفاذ کی بڑھتی حمایت اور حزب التحریر کی خواتین کا خلافت کے قیام میں کردار پر بھی روشنی ڈالی جائے گی۔

یہ کانفرنس ایک ایسے وقت پر منعقد کی جارہی ہے جب کئی مسلم ممالک میں یہ بحث شدید ہوتی جارہی ہے کہ کیا خواتین کے حقوق کا بہترین تحفظ سیکولر نظام کے تحت ممکن ہے یا سلامی نظام کے تحت۔ اس کے علاوہ حالیہ سالوں میں سیکولر سیاست دانوں، نسوانی حقوق کے لئے کام کرنے والی خواتین اور لبرل میڈیا کے کچھ حصوں نے خواتین کے اسلامی لباس، مردوں کی ایک سے زائد شادیوں، وارثت کے قوانین، مرد و خواتین کے درمیان اختلاط کی ممانعت، شادی شدہ عورت کے حقوق و فرائض پر شدید حملے کیے ہیں اور انہیں جابرانہ ، ظالمانہ اور خواتین کے خلاف امتیازی بنا کر پیش کیا ہے۔ اس صورتحال نے مشرق و مغرب کے مختلف معاشروں میں بحث کے دروازے کھول دیے ہیں کہ کیا خواتین سے متعلق شرعی قوانین کو تبدیل کیا جانا چاہیے؟ سیکولر حضرات کی کئی نسلوں نے شریعت کے خلاف اس قسم کے حملے کیے ہیں جس میں جھوٹ کی زبردست آمیزش شامل ہے۔ وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ شریعت عورت کے لیے غلامی، اس کے مقام کو گرانے اور جبر کا باعث ہے۔ ان تمام باتوں نے ایک خوف پیدا کردیا ہے کہ آنے والی ریاست خلافت میں خواتین کا کیا مقام ہوگا؟ اس کانفرنس کا یہ ہدف ہے کہ ان غلط تصورات کو مسترد اور ریاست خلافت میں اسلامی قوانین کے تحت عورت کے اصل اور صحیح مقام ، حقوق اور کردار کو واضح کیا جائے۔ یہ کانفرنس خواتین سے متعلق خاص احکامات پر لگائے جانے والے الزامات کو غلط ثابت کرے گی اور اُن بنیادوں، اقدار کو بھی بیان کرے گی جو اسلام کے معاشرتی نظام کی انفرادیت ہے اور کس طرح یہ منفرد قوانین خواتین، بچوں، خاندانی زندگی اور معاشرے پر مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے خواتین کا مقام کے زیر انتظام اس ماہ ہونے والے عالمی سیشن میں عالمی رہنماوں نے 1995 کے بیجنگ علامیہ کی بیسویں سالگرہ منائی گئی جس میں انہوں نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ وہ مرد و عورت کے درمیان برابری کے قیام کے لئے اپنی کوششوں میں اضافہ کریں گے۔ ہماری کانفرنس نسوانیت اور مرد و عورت کے مابین برابری کے مغربی تصورات کو چیلنج کرے گی اور کیا یہ تصورات واقعی خواتین کو ظلم سے نجات اور ایک اچھی زندگی فراہم کرسکتے ہیں۔ یہ کانفرنس اس بات پر روشی ڈالی گی کہ کس طرح رسول اللہ ﷺ کے طریقے پر قائم ہونے والی ریاست خلافت راشدہ کے قوانین، نظام اور ادارے آج مسلم دنیا کی خواتین کو درپیش سیکڑوں مسائل کو کس طرح حل کرتے ہیں۔ ہم میڈیا میں موجود اُن تمام لوگوں کو دعوت دیتے ہیں جو اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ عورت کے لئے ایک محفوظ، مثبت اور باعزت مستقبل پیدا کیا جائے کہ وہ اس کانفرنس میں شریک ہوں اور اس اہم کانفرنس کو رپورٹ کریں۔

ایڈیٹر حضرات کے لئے نوٹ: یہ کانفرنس ہفتہ 28 مارچ 2015 کو گرینچ مین ٹائم کے مطابق صبح 9:30 پر شروع ہو گی۔ مرد و خواتین صحافیوں کے لئے ایک پریس کانفرنس اُسی دن جکارتہ کے وقت کے مطابق شام 3:30 پر آئی پی بی انٹرنیشنل کنونشن سینٹر، ای ایف میٹنگ روم، بوٹانی اسکوائر بلڈنگ دوسری منزل، جے آئی، پاجاجارن، بوگور-جاوا بارت16127، انڈونیشیا میں ہو گی۔ کانفرنس میں صرف خواتین کو ہی شرکت کی اجازت ہوگی۔ پریس معلومات کے لئے اس ویب سائٹ سے رابطہ کرے: This e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.. ۔ یہ کانفرنس www.htmedia.info پر براہ راست دیکھی جاسکتی ہے۔ مہم فیس بک صفح: https://www.facebook.com/womenandshariahA

ڈاکٹر نسرین نواز
مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر شعبہ خواتین

Read more...

سوال کا جواب شام کے حوالے سے تازہ ترین سیاسی پیش رفت

سوال :

یہ خبر شائع ہو چکی ہے کہ امریکہ اور ترکی نے نام نہاد معتدل اپوزیشن  کے عناصر کو تربیت دینے کے معاہدے پر دستخط کر دئیے۔۔۔کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ امریکہ بشار کا متبادل  تلاش کر لینے کے قریب پہنچ گیاہے اور اسی لیے  وہ اس کی مدد کے لئے فضائی قوت کے ساتھ ساتھ مناسب زمینی قوت بھی تیار کر رہا ہے؟یا یہ کہ وہ معتدل عناصر کی صرف تربیت کے ذریعے  ایک دوسال تک وقت کو ٹالنا چاہتا ہے ،یہاں تک کہ  امریکہ متبادل تلاش کرلے ؟دوسرے الفاظ میں  کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ متباد ل قریب ہی ہے اور اس لیے اُس کی مدد کی تیاری کر رہا ہے، یا متبادل دور ہے  اس لیے معتدل عناصر کی تربیت کے ذریعے  متبادل کی فراہمی تک وقت کو ٹال رہے ہیں ؟اللہ آپ کو بہترین جزا دے ۔

 

جواب :

جواب کو واضح کرنے کے لیے ہم امریکی موقف  اور خطے کے ممالک کے ساتھ  اس کی سرگرمیوں کی وضاحت کریں گے:

1 - اسٹیٹ آف دی یونین سے خطاب کرتے ہوئے اوباما نے کہا تھا کہ "ہم شام میں معتدل اپوزیشن کی حمایت اس لئے کر رہے ہیں تا کہ شام کے ساتھ ساتھ ہر جگہ انتہا پسندانہ آئیڈیالوجی کے خلاف جدوجہد اور لوگوں کو اس کے خلاف کھڑا کرنے کی کوششوں کو تقویت حاصل ہو۔ان کوششوں کے لیے وقت اور توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے"۔  مزید کہا کہ "سمندر پار   بڑی تعداد میں زمینی فوج  بھیجنے کی بجائے امریکہ  جنوبی ایشیاء سے شمالی افریقہ  تک پھیلے ہوئے ممالک  کے ساتھ مل کر دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہوں سے محروم کرنے پر کام کررہا ہے  جو امریکہ کے لیے خطرہ  ہیں"۔ ((https://www.whitehouse.gov/the-press-office/2015/01/20/president-obamas-state-union-address-prepared-delivery 20/01/2015)

 

اس بیان سے  واضح ہو جاتا ہے کہ امریکہ خطے میں بڑی قوت بھیج کر سابقہ تجربہ دہرانا نہیں چاہتا، بلکہ خطے کے ممالک  کو استعمال کرتے ہوئے  خطے کے لوگوں کے ذریعے ہی  ایک نام نہاد معتدل  قوت تشکیل دینا چاہتا ہے جس کی وہ پشت پناہی کرے گا اور امریکی اہداف کے حصول کے لیے اس کو استعمال کرتا  رہے گا۔امریکی صدر نے  اس کو ایک سیاسی لکیر کے طور پر واضح کیا  ہے جس پر اس کے ملک کی خارجہ پالیسی گامزن  ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ خطے میں اسلام کی حکمرانی کی واپسی،اپنی بالادستی کو برقرار رکھنے اور وسائل کو لوٹنے کے لیے کوئی بڑی زمینی فوج بھیجنے کا ارادہ نہیں رکھتا،لیکن وہ  اسلام کے خلاف اپنی  اس جنگ میں خود مسلمانوں کو استعمال کرنا چاہتا ہے،اس لیے وہ  مخصوص امدادی کاموں یا تربیت کے لیے  یا پھر خاص آپریشنز کے لئے محدود بری فوج بھیجتا   اور  فضائیہ کے ذریعے شریک ہو تا ہے۔

 

2 - امریکہ نے نام نہاد معتدل اپوزیشن  یعنی اپنے ماتحت لوگوں کی تربیت کا فیصلہ گزشتہ سال کی گرمیوں میں ہی کر لیا تھا ، جس کا اعلان گزشتہ سال موسم خزاں میں  کیا گیا تھا۔امریکی صدر اوباما نے 13 جون 2013 کو  اس اپوزیشن کو مسلح کرنے کے لیے  خفیہ کاروائیوں  کی منظوری  دی تھی اور اس عمل  کو سی۔آئی۔اے  کے ذریعے  کروایا جانے گااور اس  کا اعلان 20 ستمبر 2014 کو یہ کہہ کر کیا کہ ،"واشنگٹن   امداد دینے کے لیے  براہ راست عملی   اقدامات شروع کر چکا ہے جس میں شام کی اپوزیشن  کی عسکری امداد بھی شامل ہے  تاہم یہ نئی کوششیں  شام  کی اپوزیشن  کے جنگجوں کی تربیت اور ان کو جنگی آلات کی فراہمی  کی گارانٹی ہیں تا کہ وہ طاقتور ہوں  اور شام کے اندر  دہشت گردوں  کا راستہ  روکیں" (اے اے پی 20 ستمبر 2014 )۔ اور " کانگریس  نے بھی 18 ستمبر 2014کو صدر اوباما کے منصوبے کی منظوری دی" ۔ امریکی فوج کے چیف آف اسٹاف  جنرل مارٹن ڈیمپسی نے وضاحت کرتے ہو ئے کہا کہ "اگر  میدان جنگ کے قائدین نے  مجھ سے یا وزیر دفاع سے  عراقیوں یا شام کی نئی افواج  کی مدد کے لیے اسپیشل فورس بھیجنے کا مطالبہ کیا  اور ہمیں لگا کہ یہ ہمارے اہداف کے حصول کے لیے ضروری ہے  تو ہم صدر باراک اوباما سے اس کا مطالبہ کریں گے " (سکائی نیوز 5 مارچ 2014 )۔

 

امریکہ نے پہلے شام کی  صورت حال کو قابو کر نے کے لیے مذاکرات کے رستے کو اختیار کیا تھا جیسے جنیوا 1 اور 2 اور وہ اس قسم کی قوت تشکیل دینے پر مجبور نہیں ہواتھا، اسی لیے اُس نے  انقلابیوں کی نمائندگی کرنے کے لیے  اتحادی کونسل تشکیل دی  لیکن یہ  کونسل شامی عوام  میں مقبولیت حاصل نہیں کرسکی اور نہ ہی  شام میں   اس کی کوئی قوت موجود تھی،اس لیے یہ طریقہ کار ناکام  ہو گیا ۔اس ناکامی کے بعد  امریکہ نے اپنے ماتحت ایک قوت تیار کرنے کا فیصلہ کیا جس کے ذریعے  وہ ان مذاکرات کاروں کے موقف کو تقویت پہنچائےگا  جیسے یہ اصل انقلابیوں کے نمائندے ہیں۔  اسی لیے امریکہ نے ایک ایسی  معتدل شامی قوت کو تیار کرنے کے منصوبے کو قبول کیا  جس کو وہ خود تربیت دے گا تا کہ اس کے ذریعے  وہ اپنے مقصد کو حاصل کرسکے  اور اس کے ذریعے ہی اُس کے منصوبوں کو مسترد کرنے والے انقلابیوں  کے خلاف جنگ کرسکے ناکہ اس کا مقصد حکومت سے لڑنا ہوگا۔شام  کی حکومت ،  اس کے آس پاس موجود لوگ اور اس کی ہاں میں ہاں ملانے والے لوگ تمام امریکہ کے ایجنٹ ہیں،لیکن اہل شام اور وہ انقلابی جو اس حکومت کے خلاف  اٹھ کھڑے ہوئے  وہ امریکہ کے ساتھ نہیں، بلکہ وہ اس کے خلاف ہیں، اسی لیے امریکہ   ایسی فورس اور ایجنٹ تیار کرنا چاہتا ہے جو حکومت میں تو نہ ہوں  لیکن  انہیں زمین پر ایک قوت بنا کر نئے مذاکرات   میں انقلابیوں کا نمائندہ بنا کر بٹھانا چاہتا ہے۔ وہ  شامی حکومت میں موجود اپنے موجودہ ایجنٹوں کو اس وقت تک ہٹا نا نہیں چاہتا جب تک اس کو اس بات کا یقین نہ ہو جائے کہ اب  کوئی اور ایسا متبادل تیار ہے جو معاملات کو قابو کرنے اور تحریک کو دبانے پر قادر ہو۔

 

3 - امریکہ  ترکی میں اپنے وفادار حکومت کے ساتھ  اس حوالے سے اتفاق رائے تک پہنچ چکا ہے ۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان جین ساکی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ  "میں اس بات کی یقین دہانی کرا سکتی ہوں کہ ہم نظریاتی طور پر ترکی کے ساتھ اس اتفاق رائے تک پہنچ چکے ہیں کہ شامی اپوزیشن جماعتوں کو تربیت دی جائے اور ان کو مسلح کیا جائے"۔مزید کہا کہ "جیسا کہ  پہلے بھی ہم یہاں اعلان کر چکے ہیں کہ  ترکی نے اس کی حامی بھری ہے کہ وہ خطے میں  شام کی معتدل اپوزیشن  قوتوں کو تربیت دینے اور مسلح کرنے والے ممالک کے میزبانوں میں سے ایک ہو گا۔ہم  عنقریب ترکی کے ساتھ معاہدے کے انجام پانے اور اس پر دستخط کرنے کی توقع کرتے ہیں"(سکائی نیوز17 فروری 2015)۔ یہ اتفاق رائے  30 امریکی فوجی افسران پر مشتمل وفد کے  انقرہ کے دورے اور مذاکرات  کے بعد سامنے آیا  اور امریکی وزارت دفاع نے اعلان کر دیا کہ وہ  400 فوجی اپوزیشن کو تربیت دینے کے لیے سعودیہ،ترکی اور قطر بھیجے گا۔ سیکریٹری خارجہ جان کیری نے وضاحت کرتے ہوئے کہا  کہ "ہماری ٹیم  سعودیوں کے ساتھ  مل کر تربیت اور مسلح کرنے کے اس پروگرام کی  تیاری کر رہی ہےاور یہ  اندازہ لگا رہی ہے کہ  ہمیں تربیت کاروں کی تیاری اور اس سے متعلقہ کن چیزوں کی ضرورت ہے "۔  چیف آف سٹاف مارٹن ڈیمپسی نے کہا تھا کہ "اس پروگرام  کی تیاری کا مرحلہ 3 سے 5 مہینے لے گا  اور شام کی معتدل اپوزیشن کے  5000 جنگجوں کی تربیت میں 8 سے 12 مہینے لگیں گے تا کہ وہ الدولۃ تنظیم سے لڑیں اور اس کے بعد بشار حکومت سے "(اناتولیہ 16 اکتوبر 2014 )۔ دفتر  خارجہ کی ترجمان ماری ہاروی نے 10 اکتوبر 2014 کو کہا  کہ، " ترکی نے معتدل شامی اپوزیشن کو تربیت دینے اور تیار کرنے کی کوششوں کی حمایت کا اعادہ کیا ہے" (رائٹرز10 مارچ 2014 )۔  یوں خطے کے ممالک خواہ سعودیہ ہو یا ترکی یا کوئی اور  شام  کی صورت حال سے  بڑی تشویش میں مبتلا ہیں۔  خطے کے ممالک چاہتے ہیں کہ شام  کی یہ صورت حال ختم ہو کیونکہ وہ اس سے متاثر ہو رہے ہیں، اسی لیے وہ امریکہ سے تعاون کررہے ہیں،معتدل اپوزیشن  قوت تیار کرنے کی سوچ کی حمایت کررہے ہیں، ساتھ ہی مختلف شکل میں انقلابیوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی بھی کوشش کررہے ہیں اور یہ سب کچھ اس تحریک کے تمام مخلص لوگوں پر ضرب لگانے اور کسی بھی اسلامی  منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے ہے۔

 

4 - اسی بنیاد پر گزشتہ مہینے ترکی اور امریکہ  نے اس پر رسمی طور پر دستخط کر دئیے۔  امریکی وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے 19 فروری 2015 کو دستخط کے دن کہا  کہ "میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ آج شام انقرہ میں اس معاہدے پر دستخط ہو گئے"اور دستخط کرنے والے ترکی کے معاون وزیرخارجہ فریدون سینیر لی اوغلو اور انقرہ میں امریکی سفیر  جون باس تھے۔ اناتولیہ نیوز ایجنسی نے 19 فروری 2015 کو ترک وزیر خارجہ جاویش اوغلو کا یہ بیان نقل کیا کہ "دونوں ممالک پہلے ہی اس معاہدے پر دستخط کرچکے ہیں جس کے تحت شامی اپوزیشن کی تربیت کی جائے گی اور یہ اپوزیشن  داعش  اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ ساتھ شام کی حکومت  سے لڑیں گی"۔ اس نے مزید کہا "ہم فائر بندی کو خوش آمدید کہیں گے چاہے یہ صرف چھ ہفتوں کے لیے ہی کیوں نہ ہو"۔ اخبار ترکی نے 20 فروری 2015کو ترک وزیر خارجہ جاویش اوغلوا کا یہ بیان نقل کیا  کہ"اس معاہدے کا مقصد  شام  میں جنیوا اعلامیے کی بنیاد پر حقیقی سیاسی تبدیلی  کو لانا ہے اور اپوزیشن کو ان کی جنگ میں مضبوط کرنا ہے جیسا کہ انتہا پسندی، دہشت گردی اور ان تمام عناصر  کے خلاف جو اپوزیشن کے لئے خطرہ ہیں "۔  ترک وزیر خارجہ نے قطر اور سعودیہ کی جانب سے شام کی اپوزیشن  کی اپنی سرزمین پر تربیت اور تیاری کی میزبانی  کرنے  کا بھی تذکرہ کیا۔ رائٹرز نے 19 فوری 2015 کوتین امریکی عہدیداروں  کا حوالہ دیتے ہوئے کہا جنہوں نے اپنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط رکھی تھی کہ " ممکن ہے کہ تربیت مارچ کے وسط میں شروع ہو  اور یہ کہ و ہ تین سال تک   ہر سال 5000 شامی جنگجوؤں کی تربیت کریں گے جو کہ شام  کی معتدل اپوزیشن  کی حمایت کے منصوبے کے مطابق ہے"۔  یوں ترک وزیر خارجہ کھل کر اعلان کرتا ہے کہ ان قوتوں کو تربیت دینے کا مقصد  جن کو وہ معتدل اپوزیشن کہتے ہیں  جنیوا کی بنیاد پر سیاسی تبدیلی  اور ان عناصر پر ضرب لگانا ہے  جو اس سیاسی تبدیل کو مسترد کرتے ہیں اور کچھ اور چاہتے ہیں۔

 

5 - پس  امریکی منصوبوں کو بے نقاب اور ان  کی مخالفت کرنے والی قوتوں  پر ضرب لگانے کے بعد ہی متبادل آئے گا جن کا زمین پر وزن موجود ہوگا اور  پھر ایجنٹ قوت کو معتدل اپوزیشن کے نام پر اُن کی جگہ لایا جائے گا۔  اس پروگرام کی تکمیل کے لیے تین سال درکار ہیں ، تب ہی متبادل تیار ہو گا۔ اس سے معلوم ہو تا ہے کہ متبادل فی الحال تیار نہیں اور اس وقت عملی مذاکرات نہیں ہورہے ہیں۔  زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ  پہلے ان قوتوں پرضرب لگائی جائے گی جن کو وہ انتہا پسند قرار دے رہے ہیں  یا کم ازکم ان کو غیر فعال کیا جائے گا  جس سے  اُن کا اثر زائل ہو گا اوراس کے لیے انہوں نے اپنے اندازوں کے مطابق تین سال مقرر کیے ہیں،ہر سال 5000 ۔۔۔اس مہینے کےشروع میں اردوگان کا سعودیہ کا دورہ اسی سلسلے میں تھا۔  خبروں کے مطابق شام  ہی ان کے درمیان بحث کا موضوع تھا اورظاہری بات ہے کہ  بات چیت معتدل اپوزیشن  کو مضبوط  کرنے  اور آنے والے متبادل  کی حمایت کے حوالے سے تھا جو کو امریکہ نامزد کرے گا۔اخبار ترکی نے 2 مارچ 2015  کو ترک صدر کے ذرائع کے حوالے سے کہا کہ "سعودی فرمانروا سلمان بن عبد العزیز نے پیر2 مارچ 2015 کو دارالحکومت کے شاہی محل میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوگان سے ملاقات کی۔ دونوں نے شام  کی اپوزیشن کو  دی جانے والی مدد میں اضافے  کی ضرورت پر زور دیا تا کہ  اس کا اچھا نتیجہ  بر آمد ہو"۔ یعنی یہ دو نوں ممالک  سعودیہ اور ترکی جو کہ امریکہ کے وفادار ہیں معتدل اپوزیشن کی سوچ کو کامیاب کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ یہ دونوں     اچھے  نتائج کے لیے مل کر  ایڑھی چوٹی کا زور لگائیں گےاورایسا نہیں ہو گا جو کونسل کے ساتھ ہوا  کہ جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اورجس کی ناکامی کی وجہ سے اب اس قوت کو وجود میں لانے کی ضرورت پڑی۔ کیونکہ یہ دونوں  امریکہ کے ساتھ مل کر  یہ سمجھتے ہیں کہ ایک ایسی قوت تیار کیے بغیر جس کا زمین پر کنٹرول ہو  اور وہ یہ دعوی کرتی ہو کہ وہ انقلابیوں کی نمائندگی کر تی ہے  یہ کسی قابل ذکر حل تک نہیں پہنچ سکتے  بلکہ ناکام  ہو جائیں گے، لہٰذا اس کے بعد ہی متبادل کے موضوع پر مذاکرات ہو سکتے ہیں اور جنیوا کی طرح کانفرنسوں کا انعقاد کیا جا سکتا ہے۔

 

6 - امریکہ کے طریقہ کار  میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ  جن انقلابیوں کا  کنٹرول ہے، جنگ بندی کے ذریعے   ان  کے کنٹرول کا خاتمہ کیا جائے اور  اپنی منتخب قوتوں  کو مشقوں کا موقع دیا جائے تاکہ وہ  غیر معتدل "انتہا پسندوں " کو شکست دینے کے قابل ہوسکیں اور ان کی جگہ لیں۔  ساتھ ہی حکومت کے خلاف جنگ بندی سے  مختلف گروپ آپس میں  لڑیں گے جو ان کی کمزوری  اور پھر شکست کا سبب بنے گا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی منصوبے کے مطابق  لڑائی کو منجمد کرنے کے نام پر جنگ کو روکنا  ضروری ہے تا کہ   اُن کی جگہ معتدل قوتوں کو  لاکر  حکومت اور معتدل اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کا آغاز کیا جاسکے۔  امریکہ نے اقوام متحدہ کے نمائندے ڈی میسٹورا  کے زبانی یہ بات کی ہے جو بنیادی طور پر اسی کا نمائندہ  اور اس کے منصوبے کا عالمبردار ہے۔ڈی میسٹورا نے دمشق کے دو روزہ دورے  کے بعد کہا  کہ"صدر اسد حل کا حصہ ہے ،میں اس کے ساتھ گفت وشنید کروں گا۔ وہ اب بھی شام  کا صدر ہے۔۔۔ اور اب بھی شام کے بڑے حصے پر شامی حکومت کا کنٹرول  ہے"۔  اس  نے کہا کہ "واحد حل سیاسی حل ہی ہے  معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں صورت حال  کا فائدہ  الدولۃ الاسلامیۃ تنظیم  کو ہو گا" (اے ایف پی 13 فروری 2015 )۔  یوں امریکہ نے ڈی میسٹورا کی زبانی بشار کے صدر ہو نے کا اعتراف کیا   اوریہ کہ اس  کے ساتھ  مذاکرات اور سیاسی حل چاہتا ہے اور اسی لیے اپنے ایجنٹ بشار کے خلاف لڑائی روکنا چاہتا ہے۔ یہ اس بات پر دلالت کر تا ہے کہ  جب امریکہ ان قوتوں کو لانے کے بعد جو مذاکرات کرے گا اُن میں بشار  کے انجام کا فیصلہ ہو گا لیکن ابھی اس کی قسمت کا فیصلہ  نہیں ہوگا۔  اس لیے امریکہ جنگ رکوانے  اور اپنے ماتحت معتدل قوتوں کو  حاوی کرنے سے پہلے بشار کو گرانا نہیں چاہتا ،اس کے بعد ہی متبادل  کو پیش کیا جائے گا  اور معتدل اپوزیشن اور حکومت کے درمیان نئے سرے سے مذاکرات ہوں گے۔

 

7 - خلاصہ یہ ہے کہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ متبادل تیار ہے اور بشار کے دن گنے جا چکے ہیں بلکہ وہ اس مرحلے میں اقتدار میں رہے گا  یہاں تک کہ مذاکرات نئے سرے سے شروع نہ ہو جائیں  اور صورت حال  کے لیے کوئی فارمولا طے  نہ کیا جائے۔ جن معتدل قوتوں کو لانے کے لیے یہ کام کر رہے ہیں  وہ  مختصر مدت میں تیار نہیں ہو سکتی  بلکہ اس میں کم ازکم ایک سال لگے گا، یعنی 5000 کو تربیت دینے کے پہلے مرحلے کے بعد ۔۔۔پھر لڑائی روک کر  ان تیار کی ہوئی قوتوں کو  اندر قدم جمانے کے قابل نہ بنا دیا جائے جس کی ابتدا  انتہاپسند تحریکوں سے مڈبیر سے ہو گی  اس کے بعد ہی  حکومت میں اپنے ایجنٹوں  اور معتدل اپوزیشن نامی اپنے ایجنٹوں کے درمیان مذاکرات دوبارہ شروع کر ے گا ، یہاں پہنچ کر متبادل کی تجویز اور حکومت کی تشکیل  کے بارے میں فریقین  کے درمیان ساز باز کرائی جائے گی۔

 

یہ تو امریکہ ، اس کے پیرو کاروں کے  اور اس کے اتحادیوں  کے منصوبوں کے مطابق ہے ، یہ ان کی سازشیں اور چالیں ہیں۔۔۔ لیکن اللہ کے دین کے بھی ایسے جوان مرد ہیں جنہوں نے اپنا دن رات ایک کیا ہوا ہے، جو اللہ سبحانہ وتعالٰی کے ساتھ مخلص ہیں، رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سچے ہیں ، اللہ  سبحانہ وتعالٰی کے  وعدے اور اس کے رسول ﷺ کی خلافت راشدہ کے قیام کے بارے میں بشارت کو عملی جامہ پہنانے کے لیے  تن من دھن کی بازی لگا رہے ہیں جو اس ملک جبری کے بعد ہی ہو گی جس میں آج ہم زندگی گزار رہے ہیں ۔۔۔ اس وقت ان لوگوں کی سازشیں اور مکر  غبار بن کر ہوا کی نظر ہو جائیں گی

 

﴿وَقَدْ مَكَرُوا مَكْرَهُمْ وَعِنْدَ اللَّهِ مَكْرُهُمْ وَإِنْ كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبَالُ﴾

" یہ تو اپنے مکر کر چکے  اور اللہ بھی ان کے مکر کو دیکھ رہا ہے اگرچہ ان کا مکر ایسا ہے کہ اس سے پہاڑ  اپنی جگہ سے ہٹ جائیں"(ابراھیم:46)۔

 

Read more...

رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ "اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں"

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:«بدأ الإسلام غريباً وسيعود غريباً كما بدأ فطوبى للغرباء قالوا يا رسول الله ومن الغرباء؟ قال الذين يصلحون عند فساد الناس» "اسلام کی ابتداء اجنبی تھی اور یہ دوبارہ اجنبی ہو جائے گا جیسا کہ یہ اپنی شروعات میں تھا۔  انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ، یہ اجنبی کون ہیں؟  آپ ﷺ نے جواب دیا: جو اس وقت لوگوں کی اصلاح کریں گے جب ان میں خرابی پھیل جائے گی''(طبرانی )۔   اور فرمایا: ((إن الدين بدأ غريباً ويرجع غريباً، فطوبى للغرباء الذين يصلحون ما أفسد الناس من بعدي من سنتي))"بے شک دین ایک اجنبی کی طرح شروع ہوا اور یہ پھر اجنبی ہو جائے گا، پس ان اجنبیوں پر رحمت ہو جو میرے بعد میری سنت کی اصلاح کریں گے جسے لوگوں نے بگاڑ دیاہو گا''۔    بے شک  آج اگر ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو یہ دور وہی دور ہے جس کا تذکرہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی اِن احادیث میں کیا ہے۔   دین اجنبی ہو چکا ہے،فساد اور خرابی ہر طرف پھیلی ہوئی ہے،نبی کریم ﷺ کی سنت کو بگاڑاجا چکا  ہےاوراسلام کو مساجد تک محدود کر دیا گیا ہے،بلکہ کئی جگہ مساجد کے منبروں سے بھی  اسلام کی صحیح تصویر پیش نہیں کی جا رہی  ہے۔    دوسری طرف مسلم دنیا کے حکمرانوں نے استعماری کفار کے ساتھ مل کر اسلام کے خلاف ایک جنگ برپا کر رکھی ہے۔  پچھلی کئی دہائی سے جاری اس جنگ کی تازہ کڑی یہ ہے کہ  پہلے جہاد کے تصور کو بدنام کیا گیا اور اب خلافت کے تصور کو داغ دار کیا جا رہا ہے۔

 

لیکن الحمد اللہ مسلم معاشروں سے اسلام کو مٹائے جانے کے احساس نے آج امت کو دوبارہ متحرک کردیا ہے۔ مسلمان اس کوشش میں ہیں کہ آج پھر سے اسلام کو زندہ کیا جائے،اسلام کے افکار پر صدیوں سے جمی ہوئی گرد کو صاف کیا جائے،اسلام کا درخت دوبارا ہرا بھرا ہو،یہ امت دوبارا بہترین امت بن کر ابھرےاور اس دین کو باقی تمام ادیان پر غالب کرے۔

تاہم یہ کام آسان نہیں ہے۔   اس رستے میں مشکلات ہیں، آزمائشیں ہیں۔اسلام کی وہ ریاست کہ جس کو تباہ کرنے کے لیے کفار نے  جنگیں لڑیں ، صدیوں تک سر جوڑ کر سازشیں کیں،وہ اس ریاست کے دوبارا ابھرنے کو ٹھنڈے پیٹ کیسے برداشت کر سکتے ہیں۔  آج جو بھی اس کام کو کرنے کے لیے اٹھ رہا ہے کفار مسلم دنیا میں موجود اپنے  ایجنٹ حکمرانوں کے ذریعےانہیں مسلم معاشروں سے کاٹنے کی کوشش کر رہے ہیں اور مجرم بنا کر پیش کر رہے ہیں۔     پس آج جو بھی اسلام کو دوبارا نظام اور ریاست کے طور پر واپس لانے کے لیے  کام کرے گا اسے اجنبی بننا پڑے گا۔

آج ایک حامل دعوت کو اس صورتِ حال کے لیے بھی تیار ہونا ہو گا کہ اسے ماحول کے دھارے کے خلاف چلنا ہے۔  کیونکہ وہ چیزیں جو اللہ کی نظر میں اہم نہیں انہیں اہم بلکہ زندگی کا مرکز و محور بنا دیا گیا ہے، اور وہ امور جو کہ مسلمانوں کے زندگی اور موت کا مسئلہ ہیں ، بے وقعت کیے جا چکے ہیں۔   یہ اس سرمایہ دارانہ نظام کا اثرہے جو پچھلی کئی دہائیوں سے مسلم دنیا پر نافذ ہے ۔  یہی وجہ ہے کہ ایک حامل دعوت کی حالت یہ ہوتی ہے کہ جب اس کے تمام دوست  اپنے مستقبل کو سنوارنے (کیرئر ) کی لگن میں جتے ہوتے ہیں ،تو وہ ان لوگوں پر اپنا وقت خرچ کر رہا ہوتا ہے، جن سے اس کی کوئی رشتے داری نہیں،کوئی دنیاوی غرض نہیں، کوئی دوستی نہیں ۔اس کے گھر والے، رشتے دار، عزیز و عقارب اسے دوسروں کی مثالیں دیتے ہیں کہ کامیاب زندگی اسے کہتے ہیں، دیکھو فلاں شخص نے کتنی تیزی سے دنیا میں ترقی کی ہے، اپنی زندگی کو مستحکم  ( settle)کیا ہے ،اب اس کا اپنا گھر ہے، نئی گاڑی ہے، اس نے  اپنے والدین کے لیے کتنی آسائشوں اور ان کےحج و عمرے کا بندوبست کیا  ہے ۔   اس کے دوست اس سے کہتے ہیں کہ تم کن کاموں میں پڑ گئے ہو، اپنی اور اپنے بال بچوں کی فکر کرو،اپنے مستقبل کی فکر کرو۔   جب ایک حاملِ دعوت یہ باتیں سنتا ہے تو اسےمحسوس ہوتا ہے کہ اسلام کے احکام، اسلام کے تقاضے، رسول اللہ ﷺ کی سنت، صحابہ کے طریقے، سیرتِ نبوی، یہ سب اجنبی ہو چکے ہے۔  ایک حاملِ دعوت کو یہ اجنبیت دعوت کے کسی نہ کسی موڑ پر ضرور محسوس ہوتی ہے۔

 

ایک حاملِ دعوت اس اجنبی ماحول میں استقامت کی راہ سے ڈگمگانے سے  اسی صورت محفوظ رہ سکتا ہے جب وہ انبیاء اورصحابہ کے واقعات پر غور و فکر کرتا رہے اور اپنے آپ کو یاددہانی کراتا رہے کہ کس طرح ان ہستیوں نے دین کے مقابلے میں دنیاوی آسائشوں کو بے وقعت سمجھا، دین و دنیا کی تجارت میں دین کا انتخاب کیا،کس طرح مجاہدینِ اسلام  نے اسلام کی سربلندی کو اپنی زندگیوں کا نصب العین بنایا۔

اور یہی وہ اجنبیت ہے کہ جس کے بدلے میں اجر ہے، وہ اجر نہیں جو کہ اصحاب الیمین کو ملے گا  بلکہ ویسا اجر جو کہ سابقون الاولون کو ملے گا، ان لوگوں کو ملے گا جو قیامت کے دن اللہ کے مقرب ہوں گے،   نور کے منبروں پر بیٹھے گے، انہیں رحمٰن کے قدموں میں جگہ دی جائے گی۔  یہ اجر ان لوگوں کو ملے گا کہ جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ" لا خوف علیھم ولاھم یخزنون"انہیں نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمزدہ ہوں گے"(یونس:62)۔

بے شک جو لوگ اپنی دنیا میں مگن ہیں یا پھر اس انتظار میں ہیں کہ جب دین کو فتح حاصل ہو جائے گی  اور خلافت قائم ہو جائے گی تو وہ بھی ساتھ شامل ہو جائیں گے، وہ ان لوگوں کے برابر نہیں ہیں جو آج کفر کی موجوں کے تھپیڑے برداشت کر رہے ہیں، ایجنٹ حکمرانوں کے قید خانوں کا سامنا کر رہے ہیں، ان کے غنڈوں کے شر سے نبٹ رہے  ہیں، ان کے بنائے ہوئے کالے قوانین سے ٹکڑا رہے ہیں ،اورخلافت کے قیام کی جدوجہد میں اپنے بیوی بچوں کی قربانی دے رہے ہیں۔رسول اللہ ﷺ کے دور میں بھی یہی صورتِ حال تھی ،جب باقی عالمِ عرب رسول اللہ ﷺ اور ان کے مختصر گروہ اور مشرکین مکہ کی کشمکش کو دیکھ رہا تھا۔امام بخاری نے روایت کیا ہے : " تمام عرب اپنے اسلام کے لیے فتحِ مکہ کا منتظر تھا ۔  وہ کہتے تھے کہ محمد کو اپنی قوم سے نبٹ لینے دو۔  اگر وہ غالب آ گئے تو وہ سچے پیغمبر ہیں ۔  پس جب مکہ فتح ہو گیا تو ہر قبیلے کے لوگ تیزی سے اسلام کی طرف لپکے"۔  لیکن جب مکہ فتح ہو گیا تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نےاعلان فرمادیا:

لَا یسْتَوِیْ مِنْکُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قَاتَلَ ط اُولٰئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِینَ اَنْفَقُوْا مِنْم بَعْدُ وَ قَاتَلُوْا

''تم میں سےجن لوگوں نےفتح سےپہلےخرچ کیااورقتال کیاوہ (بعد والوں کے) برابرنہیں۔  ان کادرجہ ان لوگوں سےکہیں بڑھ کرہےجنہوں نےبعد میں اموال خرچ کیےاورقتال کیا''(الحدید:10)۔

انشاء اللہ ایسے ہی درجات  ان لوگوں کے منتظر ہیں جنہوں نے آج اجنیبیت کی زندگی کو دنیادی آسائشوں پر ترجیح دی ہے۔

لیکن ان درجات کے کچھ لوازمات ہیں جن کے بغیر وہ اجر حاصل نہیں ہو سکتا کہ جو اس دعوت کے ساتھ منسلک ہے۔ان درجات کو حاصل کرنے کے لیے اس دعوت کے لیے ویسی ہی سرگرمی دکھانا ہو گی جو کہ ان لوگوں نے دکھائی جنہوں نے پہلی مرتبہ اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا تھا، اتنا ہی سنجیدہ اور یکسو ہونا ہو گا جیسا کہ صحابہ کرامؓ تھے، ویسی ہی عادات اپنانا ہوں گی جیسا کہ صحابہؓ کی تھیں۔  کیونکہ یہی وہ گروہ ہے کہ جن کے ایمان ، ایثار اور صبر و استقامت کی اللہ تعالیٰ نے قرآن میں تصدیق کی ہےاور ان کے متعلق کہا ہے کہ اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں،اور ان کے متعلق گواہی دی ہے:

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوا وَنَصَرُوا أُوْلَئِكَ هُمْ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ

"اورجو لوگ ایمان لائے ، ہجرت کی ، اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جنہوں(نے مہاجرین کو) جگہ دی اور ان کی مدد کی ، یہی لوگ سچے مومن ہیں ۔ ان کے لیے بخشش ہے اور عزت کا رزق ہے" (سورۃ الانفال:75) ۔

 

ایک حاملِ دعوت جب اس حدیث کو پڑھتا ہے :ثم تکون خلافةعلی منهاج النبوۃ"پھر نبوت کے تقشِ قدم پر خلافت قائم ہو گی" تواسے   رسول اللہ ﷺ کی طرف سے دی گئی بشارت پر خوشی ہوتی ہے اور دل میں ایک اطمینان پیدا ہوتا ہے۔   تاہم اسے  اس حدیث پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔یہ حدیث جس طرح ہمیں بتاتی ہے کہ خلافت نے دوبارہ قائم ہونا ہے اس کے ساتھ ساتھ اس چیز کی طرف بھی اشارہ کر رہی ہے کہ یہ خلافت نبوت کے نقشِ قدم پر ہوگی۔ یعنی اس گروہ میں وہ خصوصیات ہوں گی جو اس پہلے گروہ میں تھیں کہ جس نے پہلی اسلامی ریاست کو قائم کیا تھا۔   تو پھر  ہم پر لازم ہے کہ ہم ان لوگوں کی زندگیوں کا مطالعہ کریں کی جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مل کر اس اسلامی ریاست کو پہلی مرتبہ قائم کیا تھا، کہ نئی قائم ہونے والی خلافت اسی کا عکس اور اس کے نقشِ قدم پر قائم ہوگی۔  ہم ان صحابہ کی زندگی کا جائزہ لیں کہ انہوں نے دین کی دعوت کو کیا اہمیت دی تھی، ان کی صفات کیا تھیں۔   یاددہانی کے طور پرکچھ واقعات کا ذکرکرتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے کہ

فَإِنَّ الذِّكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ

"یاد دہانی مومنین کو فائدہ دیتی ہے"(الذریت:55)۔

عمرو بن جموحؓ انصاری صحابی تھے، رسول اللہ ﷺ نے انہیں جد بن قیس کی جگہ پربنو سلمہ قبیلے کا سردار بنایا تھا۔  وہ ایک پاؤ ں سے معذور تھے جس کی وجہ سے وہ لنگڑا کر چلتے تھے۔  بدر کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور جہاد میں شرکت کی اجازت طلب کی ۔  آپ ﷺ نے فرمایا کہ آپ معذور ہیں لہٰذا آپ کے لیے اللہ کی طرف سے رخصت ہے ۔ چنانچہ وہ بدر کی جنگ میں شرکت نہ کر سکے۔  ان کے چار بیٹے تھے جو کہ بدر میں شریک ہوئے۔  معاذؓ جنہوں نے بدر کی جنگ میں ابوجہل کو اپنا ہدف بنایا تھا اور ابوجہل کی ٹانگ کاٹی تھی عمرو بن جموحؓ ہی کے بیٹے تھے۔ جب  احد کا موقع آیا تو عمرو بن جموح  نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ میں بھی تمہارے ساتھ جہاد میں شرکت کروں گا۔  بیٹوں نے کہا کہ آپ معذور ہیں ، اللہ کی طرف سے آپ کےلیےرخصت ہے ۔  لیکن وہ نہ مانے اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرے بیٹے مجھے آپ کے ساتھ جانے سے روکتے ہیں۔  اور کہا: اللہ کی قسم میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ اسی معذور ٹانگ کے ساتھ میں جنت کی زمین پر سیر کروںگا۔  آپ کے  اصرار پر آپ ﷺ نے بیٹوں سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا: کیا حرج ہے اگر تم انہیں نہ روکو، شائد اللہ تعالیٰ ان کو شہادت نصیب فرمائے ،چنانچہ وہ جہاد کے لئے نکلے۔  چونکہ ٹانگ سے معذور تھے ،جو کہ لڑائی ، حملےاور بچاؤ میں رکاوٹ تھی، چنانچہ جلد ہی شہید ہو گئے۔   اسی غزوہ میں ان کے بیٹے خلاد بن عمرو بن جموح بھی شہید ہوئے ۔  جنگ کے بعد عمرو بن جموح کی بیوی ہندہ بنت عمرو بن حرام نے اپنے بیٹے اور شوہر کو ایک اونٹ پر ڈال کر مدینہ واپس لے جانے کا ارادہ کیا، تاکہ انہیں وہاں دفن کریں۔  مگر جب وہ مدینہ کا ارادہ کرتیں تو اونٹ بیٹھ جاتا اور جب احد کا رخ کرتی ہیں تو تیز چلنے لگتا ہے۔   انہوں نے آ کر رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا ۔ آپ ﷺنے فرمایا: عمرو بن جموح نے مدینہ سے چلتے وقت کچھ کہا تھا۔ ہندہ  نے کہا ہاں انہوں نے دعا مانگی تھی:اللّٰھم لا تعد نی الی اھلی"اے اللہ مجھے  گھر والوں کی طرف واپس نہ بھیجنا"۔   آپ ﷺ نے فرمایا : اسی وجہ سے اونٹ نہیں چلتا۔ اور فرمایا: قسم ہے اس کی ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ،تم میں بعض ایسے بھی ہیں اگر اللہ پر قسم کھا بیٹھیں تو اللہ ان کی قسم کو ضرور پورا کرے ان میں سے عمرو بن جموح بھی ہیں۔

 

سبحان اللہ یہ تھے رسول اللہ ﷺ کے صحابی کہ جن کی معذوری انہیں جہاد پر جانے سے نہیں روک سکی،انہوں نے اس معذوری کو بہانہ نہیں بنایا،  چاہتے تو ایسا کر سکتے تھے۔  رسول اللہ ﷺنے عمرو بن جموح کو عبد اللہ بن عمرو بن حرام کے ساتھ ایک ہی قبر میں دفن کیا اور فرمایا:عمرو بن جموح اور عبد اللہ بن عمرو کو ایک ہی قبر میں دفن کر دو،یہ دونوں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محض اللہ تعالٰی کی رضا کے لئے محبت کیا کرتے تھے۔  اُس وقت صورتِ حال یہ تھی  کہ شہداء کو دفن کرنے کیلئے کفن میّسر نہ تھے،اس لئے عبداللہ بن عمروؓ ایک چادر میں کفن دیا گیاجس میں چہرہ تو چھپ گیا لیکن پاؤں کھلے رہے جن پر گھاس ڈالی گئی ۔یہ قبر نشیب میں واقع تھی ۔اتفاق سے چالیس سال بعد معاویہؓ کے زمانے میں یہاں سیلاب آگیا اور وہاں سے ایک نہر نکالنی پڑی۔اُس موقع پر قبر کو عبداللہ بن عمروؓ کے بیٹے جابربن عبد اللہؓ کی موجودگی میں کھولا گیا تو دونوں کے اجسام بالکل صحیح و سالم اور تر و تازہ تھے۔بلکہ ایک روایت یہ ہے کہ اُن کہ چہرے پر جو زخم تھا اُن کا ہاتھ اُ س زخم پر رکھا ہوا تھا۔لوگوں نے ہاتھ وہاں سے ہٹایا توتازہ خون بہنے لگاپھر ہاتھ دوبارہ وہاں رکھاتو خون بند ہو گیا (طبقات ابن سعد، موطا امام مالک، کتاب الجہاد، باب الدفن من قبر واحد من ضرورۃ)۔

صحابہ کی خوبی یہ تھی کہ وہ دین کی راہ میں آگے بڑھتے تھے،اپنے آپ کو پیچھے نہیں رکھتے تھےاور اس کوشش میں مشکلات اور آزمائشوں کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ ان کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ ان کا ہر آنے والا دن اجر و ثواب کے لحاظ سے پچھلے دن سے بہتر ہو۔  بےشک آج بھی خلافت کے  قیام کے ذریعے دین کے نفاذ کی جدوجہدمحض معمول کا کام نہیں ہوگا، یہ صحابہ کی طرح دن اور رات کو ایک کرنےسے ہی ہو سکتا ہے،اس کے لیے حاملِ دعوت کو وہی تڑپ ،لگن ، اورشوق کو اپنے اندر اُجاگر کرنا ہو گا، جیسا ذوق اور شوق صحابہؓ کے اندر تھا۔غزوہ تبوک میں ہمیں اس شوق اور جنون کی ایک اور مثال ملتی ہے۔   غزوہ تبوک غزوہ عسرت بھی کہلاتا ہے، کیونکہ اس میں جنگی سامان اور سواریوں کی کمی تھی۔   رسول اللہ ﷺ نے غزوہ کے لیے تیاری کی ترغیب دی اور اس سلسلے میں صحابہ کرام ؓسے کہا کہ وہ اس کے لیے اپنا مال خرچ کریں۔  صحابہ کرام ؓنے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔  تبوک مدینہ منورہ سے بہت دور تھا۔  پیدل سفر دشوار تھا اس لئے سواریوں کا انتظام کیا گیا۔  چند تنگ دست صحابہؓ جن کی تعداد سات تھی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ ہم جہاد میں شریک ہونا چاہتے ہیں مگر ہمارے پاس سواری نہیں ۔  آپ ہمارے لیے سواری کا بندوبست فرما دیں۔  ان کی درخواست سن کر رسول للہ ﷺ نے فرمایا:  لا اجد ما احملکم عليه"میرے پاس سواری نہیں کہ جس پر تم کو سوار کروں"۔  یہ سن کر ساتوں افراد رونے لگے  اور غزوہ میں شرکت سے محرومی پر افسوس کرتے ہوئے چلے گئے۔  ان سات لوگوں میں سالم بن عمیر بھی تھے جو کہ اصحابِ صفہ میں سے تھے۔     اللہ تعالیٰ نے سورۃ توبۃ میں ان کے اخلاص اور رغبت کی گواہی ان الفاظ میں دی ہے:

 

وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّوا وَّأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّا يَجِدُوا مَا يُنفِقُونَ
'' اور ان لوگو ں پر بھی کوئی گناہ نہیں کہ جب وہ آپ کے پاس آئے کہ آپ انہیں سواری دیں تو آپ نے کہا کہ میں تمہیں سوار کرنے کے لیے کچھ نہیں پاتا تو وہ اس حالت میں واپس ہوئے کہ ان آنکھوں سے آنسو رواں تھے کہ وہ خرچ کرنے کے لیے کچھ نہیں پارہے ہیں"(التوبۃ:92)۔

 

اسی طرح کا واقعہ حضرت ابوذر غفاری کا بھی ہے۔  تبوک کے موقع پر سخت گرمی کا موسم تھا اور اس وقت کی سپر پاور روم سے لڑائی تھی۔  منافقین کی کوشش تھی کہ کسی طرح اس جنگ میں شریک نہ ہونے کا بہانہ تلاش کیا جائے۔  اللہ نے قرآن میں منافقین کی صورتِ حال کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:وَقَالُوا لاَ تَنفِرُوا فِي الْحَرِّ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا لَوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ oفَلْيَضْحَكُوا قَلِيلاً وَلْيَبْكُوا كَثِيرًا جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ''اوراُنہوں نےکہاکہ اس گرمی میں مت نکلو۔  کہہ دیجئےکہ دوزخ کی آگ بہت ہی سخت گرم ہے کاش کہ وہ سمجھ سکتے۔ پس انہیں چاہیے کہ بہت کم ہنسیں اور بہت زیادہ روئیں بدلے میں اس کے جو یہ کرتے ہیں''(التوبہ: 81-82 )۔  اِنہی بہانہ بنانےوالوںمیں سےایک بنی سلمہ قبیلےکےجدبن قیس سےاللہ کےرسول ﷺنےپوچھاکہ'' اےجد!کیاتم بنیاصفرلڑناچاہوگے؟''  تواُسنےجوابدیا، ''اےاللہ کےرسولﷺ،آپ مجھےرہنےدیجئے،امتحان میں نہ ڈالئےمیرےسارےلوگ جانتےہیں کہ میں عورتوں کےمعاملےمیں کچاہوں،وہاںبنیاصفرکی رومی عورتیں دیکھوں گاتوخودکوروک نہ پاؤں گا''۔  آپﷺنےاُس سےمنہ پھیرلیا۔  اسی سلسلہ میں یہ آیت نازل ہوئی:

وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ ائْذَنْ لِي وَلاَ تَفْتِنِّي أَلاَ فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ

''ان میں سےکوئی توکہتاہےمجھےاجازت دیجئے،مجھےفتنےمیں نہ ڈالئے،آگاہ رہووہ توفتنےمیں پڑچکےہیں اوریقیناًدوزخ کافروں کوگھیرلینےوالی ہے''(التوبہ: 49 )۔

لیکن دوسری طرف ابوذرغفاری جیسے صحابہ کرام تھے ۔  ان کا اونٹ کمزور تھا اورسفر کے دوران سست ہو گیا۔  حضرت ابوذر غفاریؓ نے اس کو چلانے کی کافی کوشش کی مگر وہ نہ چلا۔  چنانچہ آپؓ نے اس پر سے ساز و سامان اتار کر اپنی پیٹھ پر لاد لیااور سخت گرمی کے موسم میں پیدل لشکر کے پیچھے روانہ ہو گئے یہاں تک کہ رسول اللہﷺ سے جا ملے۔

صحابہ کی دوسری نمایاں صفت دنیا سے بےرغبتی تھی۔ایک حاملِ دعوت جب لوگوں کے سامنے اس دعوت کو پیش کرتا ہے تو اسے کتنے ہی ایسے لوگ ملتے ہیں، جو کہ اس دین سے محبت کرتے ہیں، لیکن جو چیز ان کے لیے اسلامی ریاست کے قیام کے عظیم کام کا بیڑا اٹھانے میں رکاوٹ بن جاتی ہے وہ دنیا کی نعمتوں کے چھن جانے کا خوف اور مال کی محبت ہے، طرز زندگی کی فکر ہے، کاروبار میں کمی کا ڈر ہے۔بے شک آج سرمایہ دارانہ نظام سے پھوٹنے والا مادہ پرستی کا عظیم فتنہ دنیا کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے۔

ابو بکرؓنے اپنے دورِ خلافت میں ایک مرتبہ پینے کے لیے پانی مانگا تو لوگ شہد کا شربت لائے،  آپؓ نے پیالے کو منہ لگایا اور پھر ہٹا کر رونے لگے۔  جو لوگ پاس بیٹھے ہوئے تھے وہ بھی رو پڑے۔  لوگوں نے پوچھا کہ کس چیز نے آپ کو رُلا دیا ۔  آپ نے فرمایا: ایک دن میں رسول اللہ کے ساتھ  تھا ۔ میں سے دیکھا کہ آپﷺ کسی آدمی کو دھکیل رہے ہیں،  حالانکہ کوئی شخص آپ کے پاس نہ تھا۔  میں نے پوچھا کہ آپﷺ کس کو دھکیل رہے ہیں ۔  آپ ﷺنے فرمایا: دنیا میرے سامنے مجسم ہو کر آئی تھی میں نے اس سے کہا کہ میرے پاس سے ہٹ جاؤ وہ ہٹ گئی، پھر دوبارا آئی اور کہا آپ مجھ سے بچ کر نکل جائیں تو نکل جائیں لیکن آپ کے بعد کے لوگ مجھ سے نہیں بچ سکتے ۔  ابوبکرؓ فرماتے ہیں مجھے یہی واقعہ یاد آ گیا اور میرے دل میں خوف پیدا ہوا کہ کہیں یہ دنیا مجھے چمٹ نہ جائے۔ابوبکر کس قدر فکر مند اور خبردار تھے۔  کہ ایک نعمت کی فراوانی نے انہیں فکر مند کر دیا کہ کہیں دنیا ان سے چمٹ نہ جائے۔  اور آج ہم کتنی نعمتیں کھاتے ہیں، پہنتے ہیں، استعمال کرتے ہیں، لیکن کیا ہمیں یہ فکر دامن گیر ہوتی ہے؟!

 

یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ بے شک ایسا نہیں تھا کہ صحابہؓ اللہ کی نعمتوں کو استعمال نہیں کرتے تھے، اور اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے تھے۔  عشرہ مبشرۃ میں سے دو صحابی عثمان ؓ اور عبد الرحمن بن عوف ؓ کے پاس مال و دولت کی فراوانی تھی۔     ابو بکرؓ اور عمرؓکے پاس قطع اراضی تھے جن پر وہ کاشت کاری کیا کرتے تھے۔  اوربے شک یہ تصور درست نہیں کہ  ہر کسی کے لیے اتنا ہی ہونا چاہئے کہ جتنا کہ بس اس کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہو، اور اسے آسائشوں کو حاصل نہیں کرنا چاہئے۔ اگر اسلام میں ایسا ہوتا تو پھر اسلام میں وراثت کے احکامات موجود نہ ہوتے۔  اور رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو شخص اللہ سے ڈرے دولت مندی کا اسے کوئی مضائقہ نہیں (احمد)۔     مگر جس چیز سےایک حاملِ دعوت کو خبردار رہنا ہے وہ یہ ہے کہ آج جب ایک ایمان دار شخص کے لیےجائز طریقوں سے زندگی گزارنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے، جبکہ دوسری طرف اس نظام نے حرام ذرائع سے دولت کے حصول کے دروازے کھول رکھے ہیں،اورحکمرانوں نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی پالیسیوں کو نافذ کر کے لوگوں کی  زندگی کو اجیرن کر رکھا ہے، تو یہ صورتِ حال کہیں اسےگرفت میں نہ لے لے کہ اس کے بڑھتے ہوئے قدم سست پڑ جائیں، اور شیطان اس کی ترجیحات کو تبدیل کردےاوروہ دنیا کی طرف نہ جھک جائے۔   کیونکہ  رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:((يهرمابنادموی شبمنهاثنانالحرصعلی المالوالحرصعلی العمر))"آدمی بوڑھا ہوتا جاتا ہے مگر دو چیزیں اس میں جوان ہی رہتی ہیں مال اور عمر کے لمبا ہونے کی حرص"(متفق علیہ)۔    پس اسے رسول اللہ ﷺ کے ان فرمودات کو اپنے سامنے رکھنا ہے: ان لکل امة فتنة وفتنة امتی المال "بے شک ہر امت کا ایک مخصوص فتنہ ہوتا ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے"(ترمذی)۔   اور فرمایا:  لا الفقر اخشی علیکم و لکن اخشی ان تبسط علیکم الدنی افتنافسوهاکماتنافسوهافتهلک کمکمااھلکتهم"میں تم پر فقر کا خوف نہیں لیکن اس بات کا خوف رکھتاہوں کہ دنیا تم پر کشادہ کر دی جائے گی اور تم اس میں ایسے ہی رغبت کرو گے جیسے پہلوں نے کی اور وہ تمہیں ایسے ہی ہلاک کرے گی جیسے پہلوں کو کیا"(بخاری)۔   اور فرمایا:

 

(( ان اخوف ما اتخوف علی امتی الهوی وطولالاملفاماالهویٰ فی صدعن الحقواماطولا لاملفی نسیا لآخرۃ))

"بے شک میں اپنی امت پر جن چیزوں کا خوف رکھتا ہوں ان میں سب سے زیادہ خوف خواہشاتِ نفس اور لمبی امیدوں کا ہے۔ خواہشات حق سے روک دیتی ہیں اور لمبی امیدیں آخرت سے غافل کر دیتی ہیں"(بیھقی)۔

اورامام احمد نے اپنی مسند میں روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا

((اثنان یکرھھماابنادمیکرہالموتوالموتخیرللمومنینمنالفتنةویکرہقلةالمالوقلةالمالاقلللحساب))

"انسان دوچیزوں کو اچھا نہیں سمجھتا حالانکہ وہ دونوں اس کے لیے بہتر ہیں۔  وہ موت سے کراہت کرتا ہے حالانکہ موت مومن کے لیے بہتر ہے جس کی وجہ سے وہ فتنے سے بچ جائے گا اور وہ مال کی کمی کو اچھا نہیں سمجھتا حالانکہ مال کی کمی حساب کی کمی کا سبب ہے"۔

 

صحابہ کرام ؓ لوگوں کو بھی دنیا کی بے وقعتی کی یاددہانی کراتے رہتے تھے۔ ایک دن ابو ہریرۃ ؓ نے بازار میں جا کر لوگوں کو پکارا کہ تمہیں کس چیز نے مجبور کر رکھا ہے؟ لوگوں نے پوچھا کس چیز سے؟  آپؓ نے کہا وہاں رسول اللہﷺ کی میراث تقسیم ہو رہی ہے اور تم لوگ یہاں بیٹھے ہو۔  لوگوں نے پوچھا  : کہاں تقسیم ہو رہی ہے۔  آپؓ نے کہا : مسجد میں۔  لوگ لپک کر مسجد پہنچے۔  لیکن وہاں مال کی تقسیم کا کوئی معاملہ نہ تھا۔  انہوں نے واپس آ کر صحابی رسول سے کہا کہ وہاں تک کچھ بھی تقسیم نہیں ہو رہا، البتہ کچھ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں ، کچھ تلاوتِ قرآن پاک میں مشغول ہیں ، کچھ حلال و حرام پر گفتگو کر رہے ہیں۔ ہیں۔  ابوہریرۃ ؓ نے فرمایا: تم لوگوں پر افسوس ہے ، یہی تو تمہارے نبی کی میراث ہے۔

دارمی نے عبد اللہ بن عمر و بن العاصؓ سے روایت کیا کہ ایک دفعہ میں مسجد میں بیٹھا ہوا تھا اور فقراء مہاجرین کا ایک گروہ بھی مسجد میں بیٹھا ہوا تھا   کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے  اور ان میں آ کر بیٹھ گئے۔  میں ان کے پاس آیا۔  اور رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔  فقرا مہاجرین اس چیز کے ساتھ خوش ہو جائیں جو انہیں خوش کرے گی۔  وہ جنت میں مالداروں سے چالیس سال پہلے داخل ہو ں گے۔  عبد اللہ بن عمر وؓفرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ان کے چہرے روشن ہو گئے یہاں تک کہ میں نے آروز کی کہ میں بھی انہی میں سے ہوتا۔

بیت المقدس کی فتح کے بعد جب عمرؓ نے بلاد الشام کا رخ کیا تو وہاں ان کی ملاقات حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ سے ہوئی۔  ایک دن عمرؓ نے ابو عبیدہؓ سے فرمایا کہ مجھے اپنے گھر لے چلئے۔  ابو عبیدہ نے جواب دیا  آپ میرے گھر میں کیا کریں گے  اور عمرؓ کو ٹالنے کی کوشش کی۔ لیکن عمرؓ کے اصرار پر انہیں ساتھ گھر لے آئے۔  ان کی گھر میں ڈھال ، تلوار اور اونٹ کے کجائے کے علاوہ کوئی خاص سامان نہ تھا۔    عمرؓ نے فرمایا: اے ابو عبیدہ کاش تم ضروری سامان تو فراہم کر لیتے۔  اس پر ابو عبیدہ بن جراح نے جواب دیا : ہمیں قبر تک پہنچانے کے لیے اتنا سامان ہی کافی ہے۔

یہ تھے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام اور ان کا طرزِ عمل۔   آج حاملینِ دعوت کو صحابہ کرامؓ کے طرزِ عمل کو مشعلِ راہ بنانا ہے۔تبھی وہ کفر کے اژدھام کے باوجود آگے سے آگے بڑھ سکے گا۔  اورلوگوں کے لیے اس کی حیثیت  وہی  گی کہ جیسے اندھیری رات میں چراغ کی ہوتی ہے۔  اور اسلام کی سربلندی کا ہدف ان کے ہاتھوں اسی طرح پورا ہوگا جیسا کہ ماضی میں صحابہ ؓ کے ہاتھوں ہو ا۔

 

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا

تحریر: افتخار احمد

 

 

Read more...

‫‏یمن‬ میں بحران افواج ‏پاکستان‬ ‫امریکی‬ سیاسی مفادات اور اُس کی کٹھ پتلیوں کے تحفظ کے لئے نہیں بلکہ اسلام اور خلافت کے لئے مسلم دنیامیں مداخلت کرے

سعودی عرب کی سربراہی میں مشرق وسطیٰ کے ممالک پر مشتمل اتحاد نے 26 مارچ 2015 سے ثناء، عدن اور یمن کے دیگر شہروں میں بمباری کا سلسلہ شروع کردیا ہے جس میں حوثی تحریک کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس اتحاد کو امریکہ اور یورپ کی حمایت حاصل ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ سعودیہ نے پاکستان سے بھی اس فوجی آپریشن میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ سعودیہ کی جانب سے اس خواہش کے اظہار پر راحیل-نواز حکومت نے فوراً ایک اعلٰی سطحی اجلاس طلب کیا جس میں اس درخواست کا جائزہ لیا گیا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایک اعلٰی سطحی وفد سعودیہ عرب بھیجا جائے جو صورتحال کا تجزیہ کرے۔ حکومت نے کہا کہ اگر سعودی عرب کی جغرافیائی سرحدوں کو خطرہ لاحق ہوا تو پاکستان کا ردعمل سخت ترین ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ بحران بھی مغربی استعماری طاقتوں اور ان کے اتحادیوں کی جانب سے اپنے سیاسی و اقتصادی مفادات کے حصول کی کوششوں کا ہی حصہ ہے۔ یہ بحران سعودی عرب اور ایران یا سنی و شیعہ کے درمیان مسابقت کی وجہ سے نہیں ہے جیسا کہ کچھ لوگوں کو کہنا ہے بلکہ یہ بحران امریکہ اور یورپ کے درمیان مسابقت کا نتیجہ ہے جو اپنے اپنے مفادات کے حصول کے لئے دور بیٹھ کر اپنی کٹھ پتلیوں کی ڈورے ہلا رہے ہیں۔


سعودی عرب، خلیجی ریاستیں ، اردن اور مصر یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ یمن کے لوگوں اور اس کی قانونی حکومت کے تحفظ کے لئے مدد کو آئے ہیں۔ یہ وہی حکومتیں ہیں کہ جو پچھلے چار سالوں سےبشار کے ہاتھوں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام خاموشی سے دیکھ رہی ہیں، یہ وہی حکومتیں ہیں کہ جب یہودی وجود غزہ میں خوفناک بمباری کر کے اسکولوں اور مساجد میں پناہ لیے ہوئے مسلمانوں کو قتل کررہا تھا تو یہ مُردوں کی طرح چِت پڑے رہے اور یہ وہی حکومتیں ہیں کہ جنہوں نے امریکی آشیر باد سے ہونے والی سیسی کی فوجی بغاوت کی حمایت کی۔ اِن حکومتوں کے اس طرز عمل کے بعد کوئی احمق ہی ہوگا جو یمن کے حوالے سے ان کی فکر مندی سے متاثر ہوگا۔

اس صورتحال میں اگر راحیل-نواز حکومت اس اتحاد کا حصہ بنتی ہے تو یہ انتہائی شرمناک بات ہو گی کہ پاکستان کی افواج کو امریکی مفاد کے لئے استعمال کیا جائے ۔ وہ تمام لوگ جو اس منکر کو روک سکتے ہیں وہ اس کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور جو یہ نہیں کرسکتے انہیں اس خیانت کے خلاف آواز کو بلند کرنا چاہیے۔


یہ کہنا بھی درست نہیں کہ پاکستان آرمی کو دوسرے ممالک میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ مسلم دنیا درحقیت ایک ہی ہے۔ مسلم دنیا میں موجود سرحدیں کافر استعماری طاقتوں کی قائم کردہ ہیں جس کا مقصد مسلمانوں کو تقسیم اور انہیں کمزور کرنا ہے۔افواج پاکستان کو مسلم دنیا میں مداخلت کرنی چاہیے لیکن امریکہ کے کہنے پر نہیں بلکہ یہ فیصلہ آزادانہ اور اسلام کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کی جانب پہلا قدم تو یہ ہے کہ افواج پاکستان حزب التحریرکو خلافت کے قیام کے لئے نصرۃ دیں۔ پھر خلافت مسلمانوں کے وسائل اور افواج کو کافر استعماری طاقتوں کے مفاد میں استعمال ہونے سے روک دے گی اور مسلم دنیا کو ان جنگوں سے نجات مل جائے گی جو ان طاقتوں کے مفادات کے حصول کےلئے ہی بھڑکائی جاتی ہیں۔ خلافت مسلم دنیا کو ایک وحدت بخشے گی جو اللہ سبحانہ و تعالٰی اور رسول اللہﷺ کا حکم ہے اور مسلمانوں کی خواہش بھی ہے۔


ولایہ پاکستان میں حزب التحریرکا میڈیا آفس

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک