السبت، 25 ربيع الأول 1446| 2024/09/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

ایک آرٹیکل "حزب التحریر کے افکار میں تاریک، فکری جکڑ بندی اور تکفیر ی نقطہ نظر" کے جواب میں

پریس ریلیز

جناب محترم ایڈیٹر "العرب " ویب سائٹ
مزاج گرامی، اما بعد!
آپ نے 20 اکتوبر 2014 کواپنی ویب سائٹ پر سیف الدین العامری کا ایک مضمون شائع کیا، جس کا عنوان تھا "حزب التحریر کے افکار میں تاریک، فکری جکڑ بندی اور تکفیر ی نقطہ نظر"۔ آرٹیکل کے عنوان اور اس کے مندرجات سے ظاہر ہوتا ہے کہ لکھنے والا حزب التحریر کے ساتھ عداوت اور بدخواہی کی بیماری میں مبتلاء ہے جس کی بدولت حزب کے ساتھ انصاف کرنے کی توفیق نہ ملی بلکہ اس کی بدنیتی اور بدخواہی اس کو حزب پر بہتان تراشی کی حد تک ہانکتی چلی گئی۔
جہاں ہم جھوٹی خبروں، مغالطوں اور حقائق کو توڑمروڑ کر پیش کرنے پر مشتمل اس بے سروپا مضمون کی اشاعت پر افسوس کرتے ہیں، اورواقعی تعجب ہے کہ ایسے مضمون کو آپ نے شائع کیسے کیا جس کے بارے میں اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ مضمون میں راست بازی کا فقدان ہے اور سنجیدگی کے ساتھ حقیقت کی جستجو سے کوسوں دور ہے، وہی ہماری خواہش ہے کہ مضمون کا جواب بھی شائع کریں، اس پر ہم آپ کے شکر گزار ہوں گے۔
سب سے پہلے ایک مقدمہ کی ضرورت ہے تاکہ حزب التحریر کی حقیقت کو واضح کیا جائے۔
حزب التحریر ایک سیاسی جماعت ہے جس کی آئیڈیا لوجی (مبدا) اسلام ہے۔ یہ امت کے اندر اور امت کے ساتھ مل کر اس لئے کام کرتی ہے تاکہ امت اسلام کو ہی اپنا مسئلہ سمجھے اور زندگی میں اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکومت کے از سر نو قیام میں اُمت کی قیادت کرے۔ حزب کا کام سیاسی طریقے سے اسلامی دعوت کو لے کر جانا ہے اورحزب رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ کو مثال بناتے ہوئے دعوت کے لئے مادی اعمال انجام نہیں دیتی۔ آپ ﷺ نے اسلامی ریاست کے قیام کی دعوت میں سیاسی طریقہ اختیار کیا،نہ کہ مادی....یہ بات کہ حزب کی آئیڈیا لوجی اسلام ہے، اس کامطلب یہ ہے کہ حزب افکار و احکام اخذ کرنے میں صرف اسلامی عقیدہ اور شرعی نصوص کو اساس بناتی ہے۔ یہ بھی قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے اس قول کی تعمیل میں کہ: وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَأُوْلَـئكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ "اور تمہارے درمیان ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو (لوگوں کو) بھلائی کی طرف بلائیں، نیکی کی تلقین کریں اور برائی سے روکیں۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں" (آل عمران:104)۔
اب آتے ہیں آرٹیکل کی طرف.....تو یہ بہر حال حزب پر بہتان تراشیوں کا ایک پلندہ ہے۔ ان سب کے جواب کا یہ موقع نہیں، اس لئے ہماری بات فقط بعض امور تک محدود ہوگی تا کہ مضمون نگار کے بغض وحسد اور حزب اور اس کی افکار پر بحث میں اس کے اندر راست بازی کے فقدان ، اور کذب بیانی کو واضح کریں۔
اولاً :مضمون نگار نے اپنے مقالے کے لئے ایک عنوان قائم کیا ہے:
مضمون نگار حزب اور اس کے افکار کو "تاریک، فکری جکڑ بندی اور تکفیر ی نقطہ نظر" کا نام دیتا ہے۔ کیا مضمون نگار یہ نہیں جانتا کہ حزب کے افکاراور آراء صرف اور صرف اسلامی ہیں؟؟؟ تو ذرا سوچئے کہ ان کو "تاریک نقطہ نظر" سے منسلک کرنا کیسا ہے؟۔ جہاں تک بندش اور جکڑ بندی کی بات ہے تو مضمون نگار نے یہ واضح ہی نہیں کیا کہ اس سے اس کی مراد کیا ہے؟ .....جہاں تک تکفیر (کافر قرار دینے ) کا مسئلہ ہے تو بلا شبہ یہ اس کاافترا ہی ہے کہ حزب دیگر اسلامی تحریکوں کو کافر کہتی ہے !! مضمون نگار لکھتا ہے:"تحریریوں کےتکفیری فتووں سے شاذ ونادر ہی کوئی تنظیم، ایسویسی ایشن،یا اسلامی تحریک، یا کوئی اسلامی پارٹی بچی ہوئی ہو"۔ حقیقت ایسی نہیں جیسا کہ اس نے بیان کیا ہے، اور ہم مضمون نگار کو چیلنج دیتے ہیں کہ حزب کی کسی کتاب، لیفلٹ یا کسی ویب سائٹ سے کوئی ایسی عبارت لا کر دکھائے جس میں کسی اسلامی تحریک کو کافر قرار دینے کا ذکر تک موجود ہو، مگر چونکہ وہ ہرگز ایسی کوئی عبارت پیش نہیں کرسکتا، اور ہمیں یقین ہے کہ مضمون نگار بغیر دلیل کے تہمتیں لگاتا جاتا ہے، اس لئے ہم اس کو نصیحت کرتے ہیں کہ حزب پر جو کیچڑ اچھالا ہے، قیامت کے دن اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس پر اس کا حساب لے گا ..... جہاں تک حقیقت کی بات ہے تو حزب التحریر کا ان تحریکوں کے ساتھ تعلق دعوت کی بنیاد پر اور ان کو نصیحت کی حد تک ہے، اور حزب ان کو اسلامی احکامات کی خلاف ورزیوں پر بھی تنبیہ کرتی ہے،یہ کام حزب ایک آئیڈیالوجیکل پارٹی کے حیثیت سے انجام دیتی ہے جو اسلامی دعوت کی حامل ہے.....تو جب حزب اسلامی تحریکوں کو نہ ہی کافر ٹھہراتی ہےاورنہ ہی یہ تحریکیں مضمون نگار کے اس بے جا الزام سے متفق ہیں تو وہ بتائے کہ اسے کہاں سے یہ بات ملی ہے۔؟
جہاں تک اس کی اس بات کا تعلق ہے کہ حزب التحریر جمہوریت کو کفر سمجھتی ہے، تو یہ ایک اسلامی رائے ہے یہ صرف حزب کی پسندیدہ رائے نہیں۔ کیونکہ جمہوریت کی حقیقت صرف یہ نہیں،جیسا کہ مضمون نگار اور دیگر لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس کی منظرکشی اس طرح کریں کہ یہ عوام کا حکمرانوں کو چننے کا عمل ہے، جبکہ جمہوریت کا مطلب بنیادی طور پر یہ ہے کہ بالادستی عوام کی ہے، یعنی عوام اپنے نمائندوں کے ذریعے ان نظاموں کی قانون سازی کرواتے ہیں جن کی بنیاد پر وہ زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ جبکہ اسلام میں بالادستی شریعت کو حاصل ہوتی ہے اوریہ اسلام کے ان امور میں سے ہے جو کہ قطعی ہیں مگر مضمون نگار نے جان بوجھ کر اس کو نظر انداز کیا ہے۔ شرع کی بالادستی کا مطلب یہ ہے کہ شرع ہی تمام نظاموں اور قوانین کا سرچشمہ ہے، اور عوام کے ذمہ صرف اللہ تعالیٰ کے حکم کا نفاذ ہے جو ان نظاموں اور قوانین کے نفاذ کی صورت میں ہوتا ہے۔ لہذا جمہوری فکر ایک کفریہ فکر ہے کیونکہ اس میں بالادستی عوام کی ہوتی ہے نہ کہ شرع کی...اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ "حاکمیت اللہ کےسوا کسی کو حاصل نہیں، اسی نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی سیدھا دین ہے" (يوسف:40) اور ارشاد ہے، وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ "اور رسولﷺتمہیں جو کچھ دیں وہ لے لو، اور جس چیز سے منع کریں اُس سے رُک جاؤ۔ اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ سخت سزا دینے والا ہے"(الحشر:7)۔
ثانیاً : مضمون نگار نے حزب کے "بیانات" کے بارے میں بات کرتے ہوئے لکھا ہے کہ"یہ بیانات آزادی کی منطق اوراُن نظاموں سے متصادم ہیں جنہیں انسانوں نے عام انسانی ضابطوں کے مطابق زندگی کے لئے تخلیق کیا ہے"۔
مضمون نگار یہ بھول جاتا ہے یا جان بوجھ کر ایسا کرتا ہے کہ وہ ایک ایسی حزب کے بارے میں گفتگو کررہاہے جس کی آئیڈیالوجی اسلام ہے۔ اس لئے حزب نے جن احکام کی تبنی کی ہے یا جن افکار پراس کی بنیاد قائم ہے، ان کی بنیاد صرف اسلامی عقیدہ ہے۔ پس جو کوئی حزب کا محاسبہ کرنا چا ہے، اُسے چاہئے کہ صرف اسلام کی بنیاد پر اس کا محاسبہ کرے۔ اس لئے مضمون نگار کا انسانی نظاموں کی بنیاد پر حزب یا اس کے افکار کا محاسبہ کرنا کسی طرح موزوں نہیں؟؟؟ پھر یہ کہ مضمون نگار بھول گیا کہ وہ مسلمان ہے اور اس کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ اسلام کو ہی اپنی سوچ اور عمل کے لئے اساس بنائے، چنانچہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ پروردگار ِعالم کی بجائے انسانی قوانین کو اپنے لئے اساس یا افکار پر حکم لگانے کا پیمانہ بنائے، چہ جائیکہ وہ اُن اسلامی افکار پر جن پر حزب کھڑی ہے، لے دے کرے اور ا ن کو "تاریک خیالیوں" سے تعبیر کرے۔؟
ثالثاً : مضمون نگار حزب کے بارے میں کہتا ہےکہ "وہ بنیادی طور پر اس اُصول کو تسلیم نہیں کرتی کہ ایک مسلمان انسان آزادی اور حکمرانوں کے چناؤ، اپوزیشن میں شرکت اور احتجاج کرنے کی قابلیت رکھتا ہے"۔
کتنا واضح بہتان ہے؟!! حزب التحریر تو اپنے قیام کے پہلے دن سے لوگوں کو مغربی استعمار کی تمام شکلوں سے آزادی حاصل کرنے کی دعوت دیتی رہی ہے، اور اس استعمار کے تمام آلات واوزار کے خاتمے اور اسلامی زندگی کی واپسی کے لئے سرگرم عمل ہے...بلکہ حزب کثیر تعداد میں چھپنے والے اپنے لیفلیٹوں کے ذریعے مسلمانوں سے مطالبہ کرتی چلی آئی ہے کہ وہ حکمرانوں کا محاسبہ کریں اور ان کے ظلم کے سامنے سینہ سپر ہو جائیں، ان کو تبدیل کریں اور اس راستے میں قربانی دیں، بلکہ اس مقصد کے لئے مسلمانوں کو متعدد اسالیب اختیار کرنے کی دعوت دی، مثلاً زبردست عوامی مارچوں کاانعقاد، پبلک کانفرنسیں،فکری وسیاسی سیمینار اور اہل باطل کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے والے وفود کوبھیجنا وغیرہ ...اور چونکہ حکمرانوں کو حزب کی اہمیت کا احساس ہے اور وہ جانتے ہیں کہ حزب کی آراء لوگوں کو ان کے اور ان کے ظلم کے خلاف مشتعل کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ حزب کے ساتھ برسرِ پیکار ہیں اور حزب کا تعاقب کرتے ہوئے گرفتاری، ٹارچر حتیٰ کہ بعض حالات میں حزب کے شباب کو شہید کرنے اور ان کے خلاف ظالمانہ احکامات دینے جیسے ہتھکنڈے استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ...تو مضمون نگار صاحب کس طرح ان قطعی حقائق سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں اور حزب کوبد نام کرنے پر تلا ہوا ہے۔فیا للعجب!
رابعًا : مضمون نگار نے لکھا ہےکہ "سیکولر پارٹیاں جو قومی یا محب ِوطن کہلائی جاتی ہیں، تحریریوں کے دائرہ فکر سے خارج ہیں، یعنی یہ انفرادیت کے حامی "کفریہ" سیاست کی حامل پارٹیا ں ہیں جو الہٰی شریعت کی قائل نہیں، چنانچہ ان سے بحث وتکرار اورلڑائی جھگڑے نہ کئے جائیں"۔مضمون نگار کے بقول کہ "حزب کی سیکولر پارٹیوں کے بارے میں سوچ یہ ہے کہ یہ شریعت ِالہٰی کی قائل نہیں، اور یہ انفرادی "کفر یہ"سیاست کی حامل پارٹیاں ہیں"...یہاں ان سے یہ پوچھتے ہیں کہ کیا آپ یہ جانتے ہیں کہ کسی پارٹی کا سیکولر ہونے کا کیا معنی ہے؟ اس کا معنی ہے کہ یہ پارٹی دین کی زندگی سے جدائی کے فلسفے پر کھڑی ہوتی ہے، اور رب کے بنائے ہوئے قوانین کی جگہ انسانوں کے بنائے ہوئے نظاموں کو نافذ کرنے کی دعوت دیتی ہیں، بلکہ وہ زندگی میں اسلام کی واپسی کی مزاحمت کرتی ہیں ...تو ایک سیکولر پارٹی کیونکر اسلامی ہوسکتی ہے؟ پھر ایک سیکولر پارٹی سے منسوب شخص کے اسلام یا کفر کا جہاں تک تعلق ہے تو اس میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ ایک سیکولر پارٹی کا رکن ہے، بلکہ اس کا دارومدار اس کے عقیدے پر ہے۔ سو اگر وہ دین کے زندگی اور ریاست سے جدائی کا نظریہ رکھتا ہے اور وہ اس کی حقیقت سے پوری طرح واقف بھی ہے، تو وہ یقیناً کافر ہوگا،اگر وہ یہ عقیدہ نہیں رکھتا اور اس کا ایمان اسلامی عقیدہ پر ہے، مگر وہ اپنی لاعلمی، گمراہی اور مفاد ات وغیرہ کی وجہ سے سیکولر پارٹی کا رکن بن کر اس سے وابستہ ہوگیا ہے، تو ایسا شخص گناہ گار مسلمان ہے۔ پھر مضمون نگار نے اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ حزب ان پارٹیوں کے ساتھ مزاحمت کی دعوت دیتی ہے...جبکہ اس نے "مزاحمت " کا مطلب قاری پر چھوڑ دیا ہے، تاکہ ایک عام قاری خود ہی اس کا معنی ومطلب متعین کرکے یہ نتیجہ نکالے کہ حزب اسلحہ کے ساتھ ان پارٹیوں کا مقابلہ کرنے کی دعوت دیتی ہے!! حزب کا موقف ان سیکولر پارٹیوں کے بارے میں واضح ہے۔ حزب نے واضح کیا ہے کہ ان پارٹیوں نے جو افکار اپنا ئے ہوئے ہیں، یہ کفریہ ہیں، کیونکہ ان کی بنیاد دین کی زندگی سے جدائی کا نظریہ ہے نہ کہ اسلام۔ اور حزب ان پارٹیوں کے اراکین کو یہ پارٹیاں چھوڑنے کی دعوت دیتی ہےاورمسلمانوں کو دعوت دیتی ہے کہ وہ انہیں اتار پھینکیں۔ حزب بتاتی ہے کہ یہ پارٹیاں مسلم ممالک کو نو آبادیات بنانے والی مغربی ریاستوں کے فضلے ہیں، کیونکہ سیکولر پارٹیاں اپنی تمام شکلوں میں ایسے افکار پر قائم ہوتی ہیں جو استعماری کفار کی تہذیب سےاخذ شدہ ہوتے ہیں۔
خامساً : مضمون نگار نے مبہم بلکہ متناقض انداز میں اخوان المسلمین کےساتھ حزب کے تعلقات کی بات کی ہے، اوراپنی بات کے اختتام میں یہ نقطہ اٹھایا ہے کہ "پس اقتدار کے حصول کے لئے مختلف طریقوں سے حزب کا مدعا زیادہ تر 'جہاد' پر مرکوز ہے، اور حزب کے بارے میں یہ واضح ہے، بخلاف اخوان المسلمین کے جو پیچیدہ قسم کے اسالیب پر انحصار کرتی ہے، اور اکثر سیاست وتشدد کے پیچ وتاب سے دوچار رہتی ہے"۔
مضمون نگار نے ایک سے زیادہ مرتبہ یہ جملہ دہرایا ہے "پس اقتدار کے حصول کے لئے مختلف طریقوں سے حزب کا مدعا زیادہ تر 'جہاد' پر مرکوز ہے"۔ مختلف مقامات پر ذکر کیا ہے کہ حزب مسلح اعمال کی بنیاد پر قائم ہے ...تو اگر چہ ہم پہلے یہ بیان کر چکے ہیں کہ حزب التحریر ایک سیاسی پارٹی ہے جو سیاسی طریقے سے دعوت لے کرجاتی ہے، مگر اس پر ہم یہ بھی اضافہ کرتے ہیں کہ "اقتدار تک پہنچنے کا طریقہ حزب نے اپنی کتابوں اور لیفلیٹوں میں جا بجا ذکر کیا ہے اور حقیقت کے متلاشی شخص کے لئے یہ واضح ہے۔ بلکہ دور ونزدیک کے تمام لوگ یہ جانتے ہیں کہ حزب کا طریقہ یہ ہے کہ اسلام کے بارے میں عمومی بیداری پر مبنی اسلامی رائے عامہ ایجاد کیا جائے، نیز کار زارِحیات میں اسلام کے نفاذ کے لئے اہل قوت سے نصرۃ طلب کی جائے، حزب اپنے اس مقصد تک پہنچنے کے لئے اسلحہ کے استعمال پر یقین نہیں رکھتی، اس کی وجہ رسول اللہﷺ کی سیرت کی پیروی ہے"۔ عرف عام میں تو یہ ہوتا ہے کہ گواہ مدعی کے ذمہ ہیں، تو ہم اس افترا پرداز مضمون نگار سے پوچھتے ہیں کہ اپنے اس دعویٰ پر آپ کے پاس اگر کوئی دلیل ہے تو پیش کرے، اور دشمن بھی یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ حزب تبدیلی کے طریقہ کار میں صرف فکری کشمکش اور سیاسی مقابلے پر انحصار کرتی ہے۔
سادساً: مضمون نگار حزب کے اندر تضادات کی بات کرتا ہے : "ادھر حزب کہتی ہے کہ "جمہوری نظام کفریہ نظام ہے" اور ادھر یہ کہ "اس کی بعض شاخیں انتخابات میں شرکت بھی کرتی ہیں، اور اتھارٹی کی طرف سے اپنی سرگرمیوں اور بھرتیوں کے لئے ان سے لائسنس بھی حاصل کرتیں ہیں۔ یہی وہ جوہری تناقض ہے جو اسلام پسندو ں کے اس صنف کے اندر پایا جاتا ہے"۔
جیسا کہ ہم نے پہلے اشارہ کیا، اگر مضمون نگار جمہوریت کی حقیقت جانتا، جیسا کہ حزب نے بتایا ہے کہ یہ کفریہ نظام ہے، تو اس کو کوئی تناقض نظر نہ آتا ...تو حزب جمہوری نظام کو مسترد کرتی ہے، کیونکہ یہ اسلام کے ساتھ مکمل متناقض ہے، جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا.. جہاں تک انتخابات کی بات ہے، یعنی لوگوں کا نمائندوں کو اپنی رائے کے اظہار میں وکیل بنانا، تو اس میں حزب اس اعتبار سے شرکت کرتی ہے کہ وہ اس کو ایک مباح امر سمجھتی ہے، مگر اس میں شرط یہ ہے کہ رائے کے اظہار میں اسلامی احکامات کی پابندی کرے، حزب نے ایک دن کے لئے بھی انتخابات میں مغربی قانون سازی کی اساس پر شرکت قبول نہیں کی۔سابعًاٍ: مضمون نگار کہتا ہے: "....کیونکہ ان کی نظر میں اسلامی خلافت کا کوئی متبادل نہیں، اور خلافت بھی ایسی جو ان کی مطبوعات میں بالکل ہی غیر واضح ہے،اور ان میں سے ایک بھی یہ واضح کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا کہ اس پُر اسرار خلافت کی طرف دُنیا کیسے منتقل ہوگی؟"۔
یہ مضمون نگار بھی ایک انوکھی شخصیت ہے!! اسلامی خلافت حزب کی مطبوعا ت میں واضح نہیں؟، اور خلافت کے دور کو پُراسراریت سے تعبیر کرتا ہے؟؟ کیا اس نے حزب کی کتابوں میں یہ تفصیلات نہیں پڑھیں،جیسے نظام الحکم فی الاسلام (اسلامی نظام حکومت) اور اجھزۃ دولۃ الخلافۃ (ریاست خلافت کے حکومتی اور انتظامی ادارے)؟؟ پھر اس نے حزب پر "پُراسرار خلافت کےدور کی طرف دنیا کی منتقلی کی کیفیت کی عدم وضاحت " کی بھی تہمت لگائی ہے، باجودیکہ حزب نے اپنی کئی کتابوں اور لیفلیٹوں میں اقتدار تک پہنچنے کی کیفیت کو بہت زیادہ واضح کیا ہے، مگر مضمون نگار نے اپنے کسی خاص مقصد کی خاطر اتنی بھی زحمت گوارانہیں کی کہ تحقیق کرتا اور حزب کی کتابوں کوپڑھ کر حقیقت کاکھوج لگالیتا۔!!
ثامناً: مضمون نگار کہتا ہے کہ"پس تحقیق کار (یعنی سعید حمودہ) نے یہ ثابت کیا ہے کہ حزب فلسطینی مسئلےکے حل میں کتابوں، آرٹیکل، تھیوری اور اصول وقواعد ڈھونڈنے کے نظریاتی حل سے آگے نہیں جاتی، نہ ہی عوامی مزاحمتی تحریک یا آزادی کی قومی تحریکات میں قابل ذکر شرکت کرتی ہے، نہ ہی اس نے اب تک کوئی مسلح ونگ کی تشکیل کی ہے، بلکہ اس سے بھی بدتر یہ کہ اس پارٹی کا کام بس یہ رہ گیا ہے کہ وہ اس کی سرزمین (فلسطین) پر قبضہ کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو کافر ٹھہرائے۔ جبکہ انہی اوقات میں حزب کے کچھ افراد عرب دنیا کی دیگر جگہوں میں خودمسلمانوں کے خلاف اسلحہ اٹھائے پھرتے ہیں"۔
ایسے شخص کی باتوں پر تعجب نہیں ہوگا تو کیا ہوگا جو مسئلہ فلسطین کے اس بنیادی حل کو جو حزب نے نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے، اس کو محض ایک تھیوری سمجھ رہا ہے ...موضوع کی بنیاد یہ حقیقت ہے کہ فلسطین پر قبضہ ہوچکا ہے، قابض قوت نے اس میں اپنا ریاستی وجود قائم کیا ہے، تو اب اس کی آزادی کے لئے شرعاً جہاد واجب ہے ...اور عملی طور پرجو امر آزادی کے حصول کو ممکن بناتا ہے وہ فوج کشی ہے، پارٹیوں یا تحریکوں کا قیام نہیں جو انہی ریاستوں سے مدد لیتی ہیں جو یہودی موجودگی کی محافظ ہیں، جیسےارد گرد کی ریاستیں وغیرہ....فلسطین کی آزادی کے لئے مسلم افواج کے حرکت میں نہ آنے پر کئی عشرے گزرنے کے بعدفلسطینی قضیہ کی حقیقت پر طائرانہ نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آج وہ لوگ جو نہر سے دریا تک فلسطین کی آزادی کی بات کرتے تھے، ان کی اکثریت یہ اعتراف کرتی نظر آتی ہے کہ فلسطین کے اکثر حصے پر قبضہ قانونی ہے، اور کچھ اس کی تیاری کرر ہے ہیں، لیکن یہ ہوگا اس وقت جب معاون ریاستیں ان مزاحمتی تحریکوں کی پرورش سے اپنا ہاتھ کھینچ لیں گی اور وہ بند گلی میں پہنچ جائیں گے۔
لہذا اب کس کی تعریف کرنی چاہئے اور اس درست حل کے نفاذ کے لئے کس کے پیچھے چلا جائے، حزب التحریر کے پیچھے؟ جس نے لوگوں کو دھوکہ نہیں دیا، بلکہ ان پر آزادی کا راستہ واضح کیا کہ یہود ی وجود کا مکمل خاتمہ کرنے کے لئے مسلم افواج کو حرکت میں لانا ضروری ہے،اور یہ کہ امت پر واجب ہے کہ وہ ان حکمرانوں کےخلاف کھڑے ہوجائیں جنہوں نے افواج کو روکا ہوا ہے، یا ان دیگر تحریکوں کے پیچھے چلا جائے جو غلام اور زیر دست ریاستوں اور ایجنٹ حکمرانوں کے آگے جھک گئیں جنہوں نے فلسطین، اس کے لوگوں اور خود ان کا بھی سودا کیا، جبکہ آزادی کا علم بھی تھامے رکھا،اور اب لوگوں کے ساتھ کئے گئے وعدوں سے اچانک مکر گئے بہانہ یہ کیا کہ "جتنا کچھ ہوا اس سے زیادہ ممکن نہ تھا؟؟؟
جہاں تک مضمون نگا ر کے بقول بد تر ہونے کی بات کی ہے وہ کہتا ہے "اس سے زیادہ بدتر یہ ہے کہ اب حزب کا کام یہ رہ گیا ہے کہ وہ اس کی سرزمین پر قبضے کے خلاف لڑنے والوں کو کافر قرار دے رہی ہے"!! تو وہ بتائے کہ یہ بات کہاں سے لایا؟؟ کیا حزب التحریر نے حماس، الجہاد یا حزب اللہ اور الفتح کو کافر کہاہے؟؟!! بلاشبہ حزب التحریر نے جنوبی لبنان میں، غزہ میں، عراق میں امریکی جارحیت کے مقابلے میں اور افغانستان میں مزاحمت کاروں کی ان کاروائیوں پر شاباش دی ہے، اور کہا کہ یہ بہادرانہ کارنامے ہیں، ایسی کاروائیوں کو انجام دینے والے ان شاء اللہ اجر کے مستحق ہوں گے، نہ صرف یہ کہ ان کی کاروائیوں کی اچھے انداز میں تعریف کی بلکہ مسلمانوں پر واضح کیا کہ ان کی مدد کرنا واجب ہے اور مسلم علاقوں اور انسانوں کو آزادی دلانےکے لئے فوج کی روانگی کو فرض قرار دیا ہے۔ مضمون نگار نے اپنی الزام تراشیوں کی تکمیل کرتے ہوئے حزب کے افراد پر یہ تہمت لگائی کہ یہ لوگ خود مسلمانوں کے خلاف اسلحہ اٹھاتے ہیں!! تو اس واضح بہتان کے بارے میں صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ"اے مضمون نگار خدا کا خوف کر"۔
تاسعاً: مضمون نگار کہتا ہے: صالح زہر الدین سعید حمودہ کی باتوں کو دلیل بناتے ہوئے یہ ثابت کرچکا ہے کہ حزب التحریر کی نسبت سے جہاد فقط اقتدار حاصل کرنے کا ذریعہ ہے خواہ اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے،نہ کہ آزادی، ترقی، اور خوشحالی کے اہداف کا حصول۔
ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہئے! حزب التحریر پر اعتراض کے لئے ایک ایسے شخص کے مضمون کو بنیاد بنایا ہے جو مخالف ذہن رکھتا ہے، بلکہ اگر مضمون نگار صالح زہر الدین کی باتوں پر غور کرتا تو وہ جان لیتا کہ اس کی باتیں حزب کی حقیقت اور تاسیس کے دن سے لے کر آج تک اس کی روِش کے ساتھ مکمل ٹکراتی ہیں۔ حزب التحریر جس نے اپنی فکر اور طریقے سے بال برابر انحراف نہیں کیا، باوجودیکہ جن ممالک میں حزب کام کرتی ہے، ریاستی اداروں کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا کیا ہے، تو ہر قیمت پر حصول اقتدار کی کوشش کیسے ؟ ؟ تعجب ہے مضمون نگار نے ان تحریکوں کونہیں دیکھا جن کا اولین مقصد اقتدار کا حصول تھا کہ کس طرح انہوں نے سمجھوتوں پر سمجھوتے کئے اور اپنے افکار سے دستبردار ہوگئیں۔
مذکورہ تفصیل کی بنا پر یہ واضح ہوا کہ مضمون نگار نے کوئی ایک بھی مسئلہ ایسا نہیں ذکرکیا ، جس کی اس نے کوئی دلیل یا ثبوت بھی دیا ہو بلکہ جھوٹ اور بہتان تراشیوں کا ایک پلندہ بیان کیا ہے، یقین کریں کہ ایک دفعہ تو ہم نے سوچا کہ ان گھٹیا باتوں کا جواب ہی نہ دیا جائے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ویب سائٹ کا ادارہ یہ قبول کرنے کے لئے تیار ہے کہ ہر ایرے غیرے کا وکیل بن کر اپنی ساکھ کھو بیٹھے؟ کیا ادارہ ادنیٰ درجہ کا کوئی کاروباری اور موضوعی اخلاق بھی نہیں رکھتا جس کی بدولت ادارہ ایسی بے ہودہ باتوں کے لئے میدان کھولنے سے پہلے سوچے؟ بالخصوص جبکہ حزب کے میڈیا آفس ہر سو پھیلے ہوئے ہیں اور اس کے آدمی امت کے اندر موجود ہیں، ان سے ملنے اور ملاقات کرنے میں کوئی دشوار ی بھی نہیں۔

Read more...

تاجکستان کے مسلمانو! تمہارا دستور کتاب و سنت ہے، نہ کہ انسانوں کا وضع کردہ دستور جو انسانیت کو غلام بناتا ہے

پریس ریلیز

چھ نومبر تاجکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جسے یوم دستور کہا جاتا ہے۔ تاجک قوم پر 1994 میں یہ تاریخ اس وقت تھوپ دی گئی جب مادہ پرست لادین سوویت اتحاد ٹوٹ چکا تھا۔ اس دستور کی رو سے جمہوری نظامِ حکومت جو دین کی زندگی سے جدائی کی فکر پر مبنی ہے کو آئینی بنادیا گیا، جہاں ایک صدر انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کی بنیاد پر عوام پر حکومت کا حق استعمال کرتا ہے۔
چھ نومبر 1994 کے اس دن کو امام علی رحمٰن کو دائمی طور پر صدر مقرر کیا گیا، جو 20 سال سے حکمرانی کررہا ہے۔ امام علی رحمٰن نے سوویت یونین کے زمانے میں کیمونسٹ پارٹی کے اعلیٰ سطحی تعلیمی اداروں میں کیمونسٹ آئیڈیالوجی کو پڑھا، یہ تعلیمی ادارے مارکس اور لینن کے مادی فلسفے کی تعلیم کی بنیاد پر پارٹی قیادتوں کو تیار کیا کرتے تھے۔
اس ملک کے لوگ قدیم زمانے میں حلقہ بگوش ِ اسلام ہوئے تھے۔ جب کیمونسٹ آئے تو یہاں کے مسلمانوں نے بہت زیادہ سختیوں اور مشکلات کا سامنا کیا مگرظلم وبربریت کے ان ایام میں بھی ان کا رشتہ اپنے دین سے نہیں ٹوٹا۔ جب سوویت یونین کا زوال ہوا تو لوگوں نے سکھ کا سانس لیا اورسنجیدگی کے ساتھ اسلام کا مطالعہ کرنے لگے، نئی مساجد کھول دی گئیں، مدارس کا افتتا ح ہوا اور عام تعلیمی اداروں تک میں نوجوان قرآن سیکھنے لگے۔ حتی کہ شرعی لباس زیب تن کرنے والی خواتین کی کثرت سے شہروں کی سڑکوں پر ایک نئی چھاپ نظر آنے لگی۔ مگر یہ حالات زیادہ عرصہ قائم نہیں رہ سکے۔
امام علی رحمٰن کے آتے ہی مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنا دی گئی، ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا اور ایک دفعہ پھر داعیانِ اسلام کا تعاقب کرنے، انہیں پابندِ سلاسل کرنے، ایذا و قتل جیسی بدترین کاروائیوں کا طریقہ کار دُہرایا جانے لگا، اس حد تک کہ اس نظام کے زیر سایہ اس نوع کی کاروائیاں ایک معمول کی شکل اختیار کرگئیں۔ لوگوں کا معیار زندگی غربت کی لکیر پار کرگیا تو دسیوں لاکھ افراد روٹی کی تلاش میں ترکِ وطن پر مجبور ہوئے، دور دراز کے ممالک میں جانے والے ان خانماں برباد انسانوں میں سے ہزاروں لوگ قتل ہوکر تاجکستان واپس آتے ہیں۔ جبکہ پیچھے رہ جانے والے عورتیں، بچے اور بزرگ بھوک اور پھاڑ کھانے والی سردی کا عذاب جھیلتے رہ جاتے ہیں۔
تاجکستان کے مسلمانو! طاغوتی دستور کا یہ دن منانا ایک غلطی اور گناہ عظیم ہے۔ ہماری تمام تر مصیتوں کی وجہ اپنے عظیم دین اسلام کے احکام کے مطابق زندگیاں نہ گزارنا ہے۔ اسلام کا نظام حکومت اسلامی عقیدے پر قائم ہوتا ہے۔ اس نظام میں قانون سازی کا حق اللہ عزوجل کے پاس ہوتا ہے اور حکمران صرف اللہ کےاحکامات کو نافذ کرنے میں مسلمانوں کے نائب کی حیثیت سے ان پر حکمرانی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
﴿وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَآ أَنزَلَ اللَّهُ وَلاَ تَتَّبِعْ أَهْوَاءهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ فَإِن تَوَلَّوْاْ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ أَن يُصِيبَهُم بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ لَفَاسِقُونَ﴾
"اور (ہم حکم دیتے ہیں) کہ تم ان لوگوں کے درمیان اُسی حکم کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو، اوران کی اس بات سے بچ کر رہو کہ وہ تمہیں فتنے میں ڈال کر کسی ایسے حکم سے ہٹادیں جو اللہ نے تم پر نازل کیا ہو۔" (المائدة:49)
تاجکستان کے مسلمانو! ہم دنیا کی اس ذلت اور مصائب اور آخرت میں درد ناک عذاب سے تب ہی چھٹکارا پاسکتے ہیں جب ہم خلافت کو قائم کریں۔اس لئے ہم حزب التحریر کے پلیٹ فارم سے تمہیں دعوت دیتے ہیں کہ آپ ہمارے ساتھ جڑ جائیں اور اسلامی زندگی کے از سرنو آغاز کے لئے اپنے محبوب رسولﷺ کے طریقےپر ہمارے ساتھ ہوکر کام کریں۔ ایسا صرف رسول اللہ ﷺ کے نقش قدم پر خلافت اسلامی کے قیام سے ہوگا جو ہمارے درمیان کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کے ذریعے حکومت کرے گی،اللہ ہی ہمار ا حامی وناصر ہو۔

Read more...

تفسیر سورۃ البقرۃ 111 تا 113

مشہور فقیہ اور رہنما، امیر حزب التحریر، شیخ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ کی کتاب "التیسیرفی اصول التفسیر" سے اقتباس

(ترجمہ)

 

وَقَالُوا لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلاَّ مَنْ كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَى تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنتُمْ صَادِقِين - بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ - وَقَالَتْ الْيَهُودُ لَيْسَتْ النَّصَارَى عَلَى شَيْءٍ وَقَالَتْ النَّصَارَى لَيْسَتْ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُون -

"اور یہ (یعنی یہود اور عیسائی) کہتے ہیں کہ جنت میں سوائے یہودیوں یا عیسائیوں کے کوئی بھی ہرگز داخل نہیں ہوگا۔ یہ محض ان کی آرزوئیں ہیں۔ آپ ان سے کہیں کہ اگر تم (اپنے اس دعوے میں) سچے ہو تو اپنی کوئی دلیل لے کر آؤ۔ کیوں نہیں؟ (قاعدہ یہ ہے کہ) جو شخص بھی اپنا رُخ اللہ کے آگے جھکا دے اور وہ نیک عمل کرنے والا ہو،اُسے اپنا اجر اپنے پروردگار کے پاس ملے گا۔ اور ایسے لوگوں کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ غمگین ہوں گے۔ اور یہودی کہتے ہیں کہ عیسائیوں (کے مذہب) کی کوئی بنیاد نہیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ یہودیوں (کے مذہب) کی کوئی بنیاد نہیں، حالانکہ یہ سب (آسمانی) کتاب پڑھتے ہیں۔اسی طرح وہ (مشرکین) جن کے پاس کوئی (آسمانی) علم سرے سےہی نہیں ہے، اُنہوں نے بھی اِن (اہلِ کتاب) کی جیسی باتیں کہنی شروع کردی ہیں۔ چنانچہ اللہ ہی قیامت کے دن ان کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں یہ اختلاف کرتے رہےہیں۔ (البقرۃ:111-113)

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان آیات کے اندر مندرجہ ذیل امور بیان فرمائے ہیں:
1- بے شک یہودیوں نے کہا تھا کہ ان کے سوا کوئی بھی جنت میں داخل نہیں ہوگا، نصاریٰ (عیسائیوں) نے بھی یہی کہا تھا کہ صرف ہم جنت میں داخل ہوں گے، تو اللہ تعالیٰ ہمیں آگاہ کرتے ہیں کہ ان کی یہ باتیں محض باطل اور بے سروپا ارمان ہیں جیساکہ ان کی یہ تمنا کہ آنے والا رسول ان ہی میں سے ہوگا، یا جیسا کہ انہوں نے مسلمانوں کو اپنے حسد اور ہٹ دھرمی وانکار کی وجہ سے کفار بنانے کی تمنا کی، پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ انہیں بتاتے ہیں کہ ان کی یہ آرزوئیں جھوٹی ہیں ورنہ اگر وہ سچے ہی ہیں تو لائیں کوئی دلیل۔
اگرچہ انداز مطالبے کا اپنا یا گیا ہے یعنی (قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنتُمْ صَادِقِين) "کہیں کہ اگر تم ( اپنے اس دعوے میں) سچے ہو تو اپنی کوئی دلیل لے کر آؤ" مگر حقیقت میں اللہ نے ان کا جھوٹ کھول دیا ہے کیونکہ یہ لوگ کبھی بھی برہان اور دلیل پیش کرنے کی طاقت نہیں رکھتے، سو یہ جھوٹی بات کرتے ہیں، جیساکہ دوسری آیت (بَلَى مَنْ أَسْلَمَ ) کی تفسیر میں یہ بات واضح ہوجائے گی انشاء اللہ۔
2- اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان آیات مبارکہ کے اندر واضح کیا ہے کہ ان کا قول باطل ہے اور ان کے جواب میں فرماتے ہیں کہ جنت نہ تو یہود کی ہے اور نہ نصاریٰ کی، بلکہ یہ ہر اُس شخص کے لئے ہے جو مخلصانہ ایمان لائے اور رسول اللہﷺ کے لائے ہوئے احکامات کی تصدیق کرتے ہوئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے آگے سرتسلیم خم کردے اور اسی کا مطیع بن کے رہے، تو ایسے لوگ جنت کے مستحق ہیں اور انہیں کسی قسم کا خوف اور پریشانی نہیں ہوگی۔
(اَسلَمَ) لُغت میں اسلام کا اصل معنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے آگے جھکنا اور اس کی فرمانبرداری واطاعت ہے۔ شرع کی رو سے اسلام کا معنی ہے وہ دین جو محمدﷺ پر نازل کیا گیا جیسا کہ ان آیات سے واضح ہے إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الإِسْلاَمُ (آل عمران:19)، وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلاَمِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنْ الْخَاسِرِينَ (آل عمران:85)۔
(أَسْلَمَ وَجْهَهُ) "اپنا چہرہ جھکا دے" مرُاد اس سے یہ ہے کہ پورا کاپورا جھک جائے، یہاں "وجہ" کا استعمال مجازی معنیٰ میں کیا گیا ہے اور اس کو اِطلاقُ الجزء للدلالۃِ علی الکلِّ سے تعبیر کرتے ہیں یعنی کسی شے کا ایک جز و ذکر کے اُس سے پوری شے مراد لیا جائے،تو یہاں بھی وجہ (چہرہ) کو ذکر کے پورا جسم مراد لیا گیا ہے۔
(بَلیٰ) حرف ِایجاب ہے اور اس کو صرف ایسی بات کو ثابت کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جس کی ماقبل میں نفی کی گئی ہو، چونکہ یہود اپنے علاوہ دوسروں کے لئے جنت کا داخلہ ممنوع قرار دیتے تھے اور اس بات کی نفی کرتے تھے کہ ان کے علاوہ کوئی اور بھی جنت میں داخل ہوسکتا ہے، چنانچہ بلیٰ کا کلمہ لا کر جو بات وہ نہیں مانتے تھے اُس کو ثابت کیا گیا ہے یعنی ان کے علاوہ دیگر لوگ بھی جنت میں داخل ہوں گے۔
یہاں (فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ) میں مفرد کی ضمیریں لائی گئی ہیں جبکہ (وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ) میں جمع کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے پہلے مَن اَسلَمَ کے اندر مَن کا لفظ آیا ہے یہ ایسا لفظ ہے جولفظی طور پرتو مفرد ہے جبکہ معنوی اعتبار سے اس کے اندر کثرت یعنی جمع کا معنیٰ پایا جاتا ہے، تو کبھی اس کی لفظی حیثیت کو دیکھتے ہوئے مفرد لیا جاتا ہے اور کبھی اس کی معنوی حیثیت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے اس کو جمع کا صیغہ مانا جاتا ہے، آیت کریمہ میں اسی نہج پر استعمال ہوا ہے۔
3- آخری آیت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ بیان کرتے ہیں کہ یہودی عیسائیوں کے بارے میں کیونکر یہ کہتے ہیں کہ وہ کچھ بھی نہیں یعنی ان کا سرے سے کوئی دین ہی نہیں یہی بات عیسائی ان کے بارے میں کرتے ہیں کہ یہود کا کوئی دین نہیں، اور یہ تب ہوا تھا جب رسول اللہﷺ کے پاس مدینہ میں نجران کے نصاریٰ آئے اور یہودیوں کے ساتھ ان کی ملاقات ہوئی، تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ کس طرح یہ بات کرتے ہیں، حالانکہ فریقین اہل کتاب ہیں اور ان کی کتابیں اس کی گواہ ہیں کہ یہود کے پاس اللہ کے پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام تشریف لائے تھے۔ اسی طرح عیسائیوں کے پاس حضرت عیسی ٰ علیہ السلام تشریف لائے تھے۔ اس کے باوجود ہر ایک فریق دوسرے کے بارے میں طعنہ زنی کرتا ہے، جس کی بدولت دونوں فریقین نے اپنی حیثیت گھٹا کر اپنے آپ کو اُن جہلاء میں شامل کردیا ہے جن کے پاس علم ہے نہ کوئی کتاب، جیسے بتوں کے پجاری مشرکین جن کا تمام ادیان والوں کے بارے میں یہ کہنا تھا کہ وہ کچھ بھی نہیں۔ یوں اللہ تعالیٰ نے ان کی سرزنش کی ہے۔
اب اللہ تعالیٰ اس آیت کا اختتام اس بات سے کر رہے ہیں کہ قیامت کے دن ان باتوں پر ان کا محاسبہ کیا جائے گا، جس دن صرف اللہ کی حکمرانی ہوگی اور وہ سب کو ان کے کئے کا بدلہ چکا دے گا،اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ "چنانچہ اللہ ہی قیامت کے دن ان کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں یہ اختلاف کرتے رہےہیں"۔

Read more...

جنرل راحیل کا دورہ امریکہ امریکہ کو خطے کے معاملات میں ملوث کرنا بھیڑیے کو مدد کے لیے پکارنا ہے

جنرل راحیل شریف نے دورہ امریکہ کے دوران افغانستان، شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن اور بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر جاری جارحیت کے حوالے سے امریکی انتظامیہ، اراکین کانگریس و سینٹ اور فوجی قیادت کو معاملات سے باخبر کیا۔ یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کی فوج کا سربراہ اسلام، امت مسلمہ اور پاکستان کے دشمن امریکہ کو پاکستان اور خطے کی صورتحال سے باخبر کرنے کے لئے ایک طویل دورہ کررہا ہے۔ کیا پاکستان امریکہ تعلقات کی تاریخ یہ نہیں بتاتی ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کو خطے میں اپنے مفادات کے حصول کے لئے استعمال کرنے کے بعد اکیلا چھوڑ دیا؟ 1965 اور 1971 میں بھارت کے خلاف جنگوں میں امریکہ کی پاکستان کی کوئی مدد نہ کرنا اور افغانستان سے سوویت یونین کی واپسی کے بعد کے حالات کا سامنا کرنے کے لئے پاکستان کو اکیلا چھوڑ دینا اس بات کا ثبوت ہیں۔ ان حقائق کے باوجود امریکہ کو خطے میں اس کے مفادات کے حصول کے لئے تعاون فراہم کرنا اور بھارتی جارحیت پر اس کی شکائت امریکہ سے کرنا جہاں پاکستان کی حیثیت دنیا کے سامنے امریکہ کے ایک زرخرید غلام کی طرح نظر آتی ہے وہی امریکہ کو خطے کے معاملات میں مداخلت کی دعوت دینا مدد کے لئے بھیڑیے کو پکارنے کے مترادف ہے۔
لائن آف کنٹرول پر جاری بھارتی جارحیت کو مکمل امریکی آشیر باد حاصل ہے۔ امریکہ خطے میں اپنے مفادات کی نگہبانی کے لئے بھارت کو کھڑا کرنا چاہتا ہے تا کہ خطے میں چین کی ابھرتی طاقت و اثرو رسوخ کو محدود کرنے اور 50 کروڑ مسلمانوں کے خلاف بھارت کو استعمال کر سکے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے امریکہ اپنے وفادار ایجنٹ مودی کی بھر پور فوجی، معاشی اور سیاسی مدد ومعاونت کررہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کا پاکستان کے متعلق یہ منصوبہ ہے کہ وہ کسی صورت بھارت کے علاقائی طاقت بننے کی راہ میں روکاٹ نہ بن سکے اور اس مقصد کے حصول کے لیے پاکستان کی عظیم مسلم افواج کو سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کی مدد سے قبائلی علاقے میں طویل اور نہ ختم ہونے والے تنازعات میں الجھا دیا ہے۔ جنرل راحیل کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے بھائی کو بھارتی جارحیت کے خلاف بہادری سے لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کرنے پر پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز "نشان حیدر" ملا تھا جبکہ امریکہ نے انہیں فوجی تمغہ بھارت کو مضبوط و طاقتور کرنے کے امریکی منصوبے پر آنکھیں بند رکھنے کے صلے میں دیا گیا ہے۔ پاکستان کے مسلمانوں اور افواج پاکستان کو یاد رکھنا چاہیے کہ امریکہ سے دوستی اور اس کی ہدایت پر چلنے میں پاکستان کے مسلمانوں اور افواج کا نقصان ہی نقصان ہے۔

يَا أَيُّهَا ٱلَّذِينَ آمَنُوۤاْ إِنْ تُطِيعُواْ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ يَرُدُّوكُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ فَتَنْقَلِبُواْ خَاسِرِينَ
"اے ایمان والو! اگر تم کافروں کی باتیں مانو گے تو وہ تمھیں ایڑیوں کے بل پلٹا دیں گے، پھر تم نامراد ہوجاؤ گے" (آل عمران:149)

Read more...

  حکمران اور عوام کی زمہ داری   یہ کتابچہ حزب التحریر ولایہ پاکستان کی خواتین ممبران کی جانب سے جاری کیا گیا

 

اِس کتابچے میں حکمران اور عوام کے درمیان تعلق کوواضح کرنے کے ساتھ ساتھ،اس بات کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ ایک مضبوط اسلامی معاشرے کے لیے اس تعلق کی کتنی اہمیت ہے۔یہ کتابچہ ایک انتہائی اہم موضوع کاتعارف ہے۔اِس میں اس بنیادی نکتے کوبیان کیاگیاہے کہ ایک مسلمان کی کیاذمہ داری ہے اور خاص کرعوام کے حوالے سے حکمران کی اورحکمران کے حوالے سے عوام کی کیا ذمہ داریاںہیں۔جب اللہ گکے حکم سے خلافت کی واپسی ہوگی، تواُمت پرلازم ہوگاکہ اسے اپنے دانتوں کی گرفت سے پکڑلے، تاکہ وہ تباہ کن حالات دوبارہ ہم پر مسلط نہ ہوسکیں جو اسلامی خلافت کی غیرموجودگی میں ہم آج بھگت رہے ہیں۔

 

PDF فائل داؤن لوڈ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں

 

Read more...

نوید بٹ کو رہا کرو پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان نوید بٹ کی رہائی کے لیے انڈونیشیا سے لے کر تیونس تک جاری بین الاقوامی مہم  

نوید بٹ ،اس امت کا معزز اور قابل احترام بیٹا، اسلام اور خلافت کا بے خوف داعی،جسے 11مئی2012کو پاکستان میں چیف امریکی ایجنٹ جنرل کیانی کے غنڈوں نے اغوا کرلیا تھا۔ کیانی کا یہ جرم اس امریکی پالیسی کا نتیجہ ہے جس کے تحت اسلام اور خلافت کی واپسی کی بڑھتی ہوئی خواہش کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔نوید آج بھی ظالموں کی قید میں اور لاپتہ ہے۔

Read more...

نوید بٹ کو رہا کرو! خلافت کی فرضیت پرنوید بٹ کا تحریر کردہ کتابچہ جاری کردیا گیا (یہ کتابچہ اغوا سے قبل لکھا گیا تھا)

آج 11 نومبر 2014 کو پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان نوید بٹ کو حکومتی ایجنسیوں کے غنڈوں کے ہاتھوں اغوا ہوئے ڈھائی سال مکمل ہو گئے ہیں۔ نوید بٹ کا جرم محض یہ تھا کہ اسلام کے نام پر قائم پاکستان میں انہوں نے اپنی زندگی اسلام کے لئے وقف کر رکھی تھی تا کہ یہ پیاری امت اسلام کو سمجھ سکے اور خلافت کے قیام کے ذریعےاسلام کے مکمل نفاذ کے لئے حزب التحریر کی جدوجہد کا حصہ بن جائے۔
1924 میں خلافت کے خاتمے کے بعد امت مسلمہ کئی بحرانوں میں ڈوب گئی اور وہ ایک حقیقی آزادی کی تلاش میں سرکردہ رہی ہے۔ پاکستان کے مسلمان یہ بات تو جانتے تھے کہ ہمارا شاندار ماضی خلافت ہی کے مرہون منت تھا لیکن ان کے لیے یہ بھی جاننا ضروری تھا کہ خلافت کا قیام اسلام نے فرض قرار دیا ہے جس کی بنا پر ماضی میں مسلمانوں نے نسل در نسل اس فرض کی حفاظت کی ہے۔ خلافت کے قیام کی فرضیت کے اس بھولے ہوئے سبق کی یاد دہانی کے لئے پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان نوید بٹ نے اس موضوع پر ایک کتابچہ "خلافت کا قیام اُمّ الفرائض ہے" 11 مئی 2012 کو اپنے اغوا سے قبل لکھا تھا۔ اس کتابچہ میں نوید بٹ نے خلافت کے قیام کی فرضیت پر قرآن، سنت اور اجماع اصحابہ سے واضح اور کھلے دلائل پیش کیے ہیں تا کہ کسی مسلمان کے ذہن میں خلافت کے قیام کی فرضیت کے حوالے سے کوئی شک و شبہ باقی نہ رہ جائے۔
نوید بٹ کے اغوا کے ڈھائی سال مکمل ہونے پر حزب التحریر ولایہ پاکستان نے اس کتاب کو اس کی اصل زبان اردو اور انگریزی ترجمے میں جاری کردیا ہے۔ یہ کتاب اس لئے جاری کی گئی ہے کہ مسلمان اس کتاب سے فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ اس امت کے قابل قدر بیٹے نوید بٹ کو بھی یاد رکھیں جو اس وقت بھی ظالم و جابر حکمرانوں کی قید میں ہیں۔ نوید بٹ کا تحریر کردہ یہ کتابچہ "خلافت کا قیام اُمّ الفرائض ہے" درج ذیل پتے سے ڈاون لوڈ کیا جاسکتا ہے:
http://pk.tl/1hLx
اب یہ ذمہ داری ہر مسلمان پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اس "اُمّ الفرائض" کے لئے منہج نبوی کے مطابق سعی اور کوشش حزب التحریر کے ساتھ مل کر کرے تاکہ وہ دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو سکے۔
وَمَا عَلَيْنَا إِلاَّ الْبَلاَغُ الْمُبِينُ
"اور ہمارے ذمہ تو صرف واضح طور پر پہنچا دینا ہے" (یٰس:17)

Read more...

حزب التحریر واہگہ بارڈر پر بم دھماکے کی شدید مزمت کرتی ہے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اس کے ماسٹر مائنڈ امریکہ کو خطے سےنکالا جانا ضروری ہے

کل لاہور واہگہ بارڈر پر پرچم اتارنے کی تقریب سے واپس آنے والے لوگوں کو بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا جس میں ساٹھ افراد لقمہ اجل بن گئے۔ حزب التحریر ولایہ پاکستان دہشت گردی کی اس واردات کی شدید مذمت کرتی ہے اور دعا گو ہے کہ مرنے والوں کو اللہ اپنی جوار رحمت میں جگہ اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے (آمین)۔
جب سے امریکہ افغانستان اور اس خطے میں داخل ہوا ہے پاکستان خوفناک دھماکوں کی آماجگاہ بن گیا ہے۔ اس قسم کی طویل اور خوفناک دہشت گردی کا سامنا تو پاکستان کو اس وقت بھی نہیں کرنا پڑا تھا جب سوویت یونین افغانستان پر قابض ہوا تھا اور نہ ہی بھارت سوویت یونین کا اتحادی ہونے کے باوجوداس صورتحال سے فائدہ اٹھا سکا تھا ۔ لیکن جب سےسیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں نے افغانستان پر امریکی قبضے کو مستحکم کرنے اور اس قبضے کے خلاف مزاحمت کرنے والے قبائلی مسلمانوں کے خلاف امریکہ کو مددو معاونت فراہم کرنے کے لئے پاکستان کی سرزمین کو امریکی دہشت گرد تنظیموں سی.آئی.اے، ایف.بی.آئی، بلیک واٹر اور ریمنڈ ڈیوس جیسی تنظیموں کے لئے کھول دیا ہے پاکستان کی فوجی و شہری تنصیبات مسلسل خوفناک حملوں کی زد میں ہیں۔ اگر پاکستان تنہا سوویت یونین جیسی خوفناک سپر پاور سمیت بھارت کو بھی پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیاں کرنے سے روکنے میں کامیاب رہا تو اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ان کی ایجنسیوں کو پاکستان بھر میں آزادانہ گھومنے، رہائش اختیار کرنے ، منصوبے بنانے اور ان پر عملدرآمد کروانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ حکمران یہ کہتے ہیں ہمیں امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مدد و معاونت حاصل ہے اور مد مقابل دنیا کی کوئی سپر پاور نہیں بلکہ چھوٹی چھوٹی عسکری تنظیمیں ہیں تو پھر کس طرح یہ چھوٹی تنظیمیں اس قدر خوفناک دہشت گردی کی کاروائیاں کر سکتی ہیں جو ماضی میں ایک سپر پاور نہیں کرسکی؟ دراصل پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار کبھی بھی امریکہ کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شمولیت کا کوئی جواز پیش نہیں کرسکے۔ اگر سوویت یونین کے قبضے کےخلاف لڑنا جہاد تھا تو امریکی قبضے کے خلاف لڑنا دہشت گردی کیسے ہوگیا؟ تو امریکی صلیبی جنگ میں شرکت کے جواز کو پیدا کرنے کے لئے ہی ان امریکی دہشت گرد تنظیموں کو پاکستان میں کھلا چھوڑ دیا گیا ہے تا کہ وہ واہگہ بارڈر جیسے خوفناک حملوں کی منصوبہ بندی کریں اور ان پر عمل درآمد کروا کر ان حملوں کی ذمہ داری قبائلی مسلمانوں پر ڈال دیں اور یہ کہیں کہ ان قبائلیوں کوافغانستان میں موجود ہمارے دشمن بھارت کی حمائت حاصل ہے جبکہ بھارت کو بھی افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف کاروائیاں کرنے کی اجازت امریکہ ہی نے دی ہے۔ اس طرح امریکی جنگ کی خلاف افواج پاکستان اور پاکستان کی عوام میں موجود طاقتور رائے عامہ کو تبدیل کیا جائے اور وہ اس جنگ کو اپنی جنگ سمجھنے پر مجبور ہو جائیں۔ اسی لئے 2009 میں اوبامہ نے یہ کہا تھا کہ "ماضی میں پاکستان میں ایسے لوگ رہے ہیں جو یہ کہتے تھے کہ انتہا پسندوں کے خلاف جدوجہد ان کی جنگ نہیں ہے.....لیکن جب معصوم لوگ کراچی سے اسلام آباد تک قتل ہوئے تو رائے عامہ تبدیل ہوگئی"۔
لہذا پاکستان اور خطے میں حقیقی امن صرف امریکہ کو بے دخل کر کے اور بھارت کو اس کی اوقات یاد دلا کر ہی حاصل ہوسکتا ہے۔ امریکہ کو مزید خطے میں رہنے کی اجازت دینے سے اور بھارت کو اقتصادی و سیاسی مراعات فراہم کرنے امن حاصل نہیں ہوگا ۔ افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران پر لازم ہے کہ وہ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار امریکی ایجنٹوں سے قوم کو نجات دلائیں اور خلافت کے قیام کے لئے حزب التحریر کو نصرۃ دیں کہ یہ کام ان کے سوا اور کوئی نہیں کرسکتا۔ صرف خلافت کا قیام ہی خطے کے تمام مسلمانوں کو امریکی دہشت گردی کے خلاف یکجا کردے گا اورخلافت خطے کو امریکی دہشت گردی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نجات دلائے گی۔
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

فلسطین میں ڈایٹون کے نقش قدم پر .....امریکی "اعتدال پسند اپوزیشن" کو ٹریننگ دے رہے ہیں یہ غدار انقلابیوں کے خلاف اپنے امریکی آقاؤں کی ایجنٹی اور فرمانبرداری میں غرق ہیں لیکن انقلابیوں کو اپنے مقاصد حاصل کرنے سے اب دنیا کی کوئی سازش روک نہیں سکتی۔

"اعتدال پسند شامی اپوزیشن" کی تربیت کے بارے میں امریکی اور مغربی سیاستدانوں کی بہت ساری باتوں کے ساتھ ساتھ غدار اورخائن اتحاد کی طرف سے اپنے آقاؤں سے اسلحہ دینےاور باہمی تعاون کے مطالبات باربار سامنے آرہے ہیں۔ ہم یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ: آیا یہ اسلحہ استعمال کرنے کی تربیت ہے یا ایجنٹ بننے اور اہل شام کی قربانیوں اور ان کے شہداء کے خون سے غداری کرنے کی تربیت حاصل کی جارہی ہے؟ اور ہم پوچھتے ہیں کہ امریکہ کو کیسے ہمارے خون، ہماری عزتوں اور مفادات کا اچانک خیال آیا جو خود اپنے ہی ملک میں جرائم کی جڑ ہے؟ اور یہ معاملہ کیسے سدھر ے گا جب کہ شامی انقلابیوں کا یہ اعلان گونج رہا ہے: "امریکہ ! ہمارا خون کیا تمھاری نفرت کی پیا س کو بجھا نہیں سکا؟"۔ جو لوگ اس تربیت کی دعوت دیتے ہیں یا اس پر خاموش ہیں ان سے ہم کہتے ہیں : کیا تم "لارنس آف عربیہ" کو بھول گئے ؟ ایسا دِکھائی دیتا ہے کہ تم "ڈایٹون" کے جرائم بھول گئے ۔ یہ وہی ڈایٹون ہے جس نے ایسے مجرموں کو تربیت دی اور تیار کیا جو فلسطین کے مسلمانوں پرمظالم اور تشدد کے مختلف النوع طریقے آزماتے ہیں جو اسرائیل کے جرائم سے بھی بڑھ کر ہیں کہ کچھ لوگ اسرائیل کے ہاتھوں گرفتار ہونا پسند کرتے ہیں بجائے اس کے کہ وہ نہایت گندے ہاتھوں سے تربیت پانے والے گندے ہاتھوں میں قید ہوجائیں؟ تو کیا آپ یہ پسند کریں گے کہ ہماری حالت اس شخص کی طرح ہو جو دلدل سے نکلے اورنہلا کر اپنے آپ کو پاک صاف کرکے خوشبو لگائے، پھر کسی اور دلدل میں اپنے آپ کو پھینک دے!!! آپ ہمیں کوئی ایسی جگہ بتادیں جہاں امریکہ تباہی و بربادی اور وہاں کے لوگوں کو خون میں نہلائے بغیر داخل ہوا ہو؟ اور آپ بتائیں کیا افغانستان، عراق، یمن، پاکستان اور صومالیہ پرُسکون جنت بن گئے ہیں یا وہاں کے سکون کو تہہ و بالا کرکے ان کو چیخ وپکار، زبردست تباہی اور کشت و خون کی آماجگاہ بنادئے گئے۔ آخر تمہیں کیا ہوا اور یہ کس قسم کے فیصلے تم لوگ کرتے ہو؟۔
"فرینڈلی فائر" سے عین العرب (کوبانی ) میں کرد باشندوں کو بھون ڈالا جاتا ہے۔ اب کس سے حساب لیا جائے، کس کو مورد ِ الزام ٹھہرایا جائے ۔ اور اس سے پہلے مخلص انقلابیوں کو نشانہ بنایا گیا، جس کی زد میں کئی دھڑے آگئے یہ سب کچھ "دہشت گردی" اور "داعش" کے خلاف جنگ کے نام پر کیا گیا !! ارض شام میں تنظیم خراسان کی موجودگی کا ایک اور امریکی ترانہ تیار ہے جسے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مزید جرائم سرانجام دینے کے لئے استعمال میں لایا جائے گا، امت مسلمہ کے خلاف امریکی ہاتھوں سے سرزد ہونے والےجرائم پر اس کا محاسبہ کون کرے گا ؟ اور کیا امریکہ اس "اعتدال پسند اپوزیشن" کو "ملائکہ رحمت" بنارہا ہے یا امریکی آقا کے حکم کے تابع بازوؤں کو تیار کیا جا رہاہے اور یہ خود امریکی سیاستدانوں کی بات ہے کسی اور کی نہیں؟
معزز شام کے مسلمان بھائیو: اللہ رب العرش نے اپنی کتاب عزیز میں مغرب اور ہمارے درمیان کشمکش کی حقیقت بیان کرتے ہوئے اس امر کا حتمی فیصلہ کیا ہے کہ یہ کفر و ایمان کے درمیان کشمکش ہے۔ کون ہے جو نصیحت اورعبرت حاصل کرے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، وَلَن تَرْضَى عَنكَ الْيَهُودُ وَلاَ النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ "اوریہود ونصاریٰ تم سے اس وقت تک ہر گز راضی نہیں ہوں گے جب تک تم اُن کے مذہب کی پیروی نہیں کروگے" (البقرۃ:120) اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاء بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ "اے ایمان والو! یہودیوں اور نصرانیوں کو دوست و مددگار نہ بناؤ ۔ یہ خود ہی ایک دوسرے کے دوست و مددگار ہیں ۔ اور تم میں جو شخص ان کی دوستی کا دم بھرے گا تو پھر وہ انہی میں سے ہوگا۔یقیناً اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا " (المائدہ:51)۔
اور ہم حزب التحریر ولایہ شام ان لوگوں کو متنبہ کرتے ہیں جو امریکیوں اور ان کے مجرم اتحادیوں (عرب حکمرانوں ) کے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ دے رہے ہیں، ہم ان کو المنتقم الجبار کے غیظ وغضب سے اور پھر شام کے انقلابی لوگوں کے غیظ وغضب سے متنبہ کرتے ہیں، جنہوں نے بڑی قربانیاں دیں تاکہ ان جابروں کا تختہ الٹ کر ہمارے اوپر عدل کی حکمرانی ہو، نہ کہ ان لوگوں کی ظالمانہ حکومت کے لئے قربانیاں دیں جن کی تیاری پر امریکہ کام کر رہا ہے تاکہ وہ امریکہ کے مطیع بن کے رہے اور اس نظام کی قیادت کو ہٹانے کے بعد اس کے لئے ایک سستے آلہ کار کا کام دے، نیز اپنی بدبودار جڑوں کو کئی سکیورٹی اور مجرم عسکری شاخوں کے ذریعے باقی رکھ سکے۔
بلا شبہ شام پرہیزگار مؤمنوں کا گھر ہے جنہوں نے اس مبارک سرزمین کو اپنے پاکیزہ خون سے سیراب کیا۔ یہ لوگ کبھی بھی نا مکمل حل یا پیوندکاری پر راضی نہیں ہوتے بلکہ یہ اس سے کم پر بھی راضی نہیں کہ اس نظام کو اپنی تمام نشانیوں، ستونوں اور اس کے جرائم سمیت فنا کردیا جائے تاکہ ہم اس کے ملبے پر اسلا م کے عدل ورحمت سے معمور اس ریاست کی تعمیر کرسکیں جس کا حکم رسول اللہﷺ دے چکے ہیں یعنی جہاں خلافت ہی نظام حکومت ہو۔ تو یہ اللہ کا وعدہ اور اس کے رسولﷺ کی بشارت ہے، اللہ اور اس کے رسولﷺ سے زیادہ کس کی بات سچ ہوسکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ كَمَــا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِـــن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّـــن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْــناً يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئاً وَمَـــن كَفَرَ بَـــعْدَ ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ "اللہ تم میں سے ان لوگوں سے وعدہ فرماچکا ہے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو بنایا جو ان سے پہلے تھے، اور یقیناً ان کے لئے ان کے دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جمادے گا، جسے وہ ان کے لئے پسند فرماچکا ہے ، اوران کے اس خوف وخطر کو امن سے بدل دے گا، وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک بھی نہیں ٹھہرائیں گے، اس کے بعد بھی جو لوگ کفر کریں وہ یقیناًفاسق ہیں" (النور:55)۔

احمد عبدالوہاب
ولایہ شام میں حزب التحریر کے میڈیا آفس کے سربراہ

Read more...

روس میں احادیث کی کتاب کی ممانعت

جمہوریہ تاتارستان کے اپاسٹو فیسک ریجن کی عدالت نے 9 اکتوبر کو یہ کہہ کر احادیث کی کتاب صحیح البخاری جس کی ایک حدیث ایک سائٹ پر پوسٹ کی گئی تھی پر پابندی لگا دی ہے کہ اس میں انتہا پسندانہ مواد ہے۔
جمہوریہ تاتارستان کے اپاسٹوفیسک ریجن کے اٹارنی جنرل کے مطابق کتاب کا مواد "دنیا کے کسی ایک دین کی انفرادیت" کو اجاگر کرتا ہے یا "متشدد اسلام" کو جس سے "مذہبی اور نسلی تعصب" پھیل جا تا ہے، جیسا کہ جمہوریہ تاتارستان اٹارنی جنرل کے بڑے معاون رسلان جا لییف نے کہا ہے۔
قرآن کریم کے ایک ترجمے پر پابندی کی کوشش کے سامنے مسلمانوں کے ڈٹ جانے کے بعد حکمرانوں کی جانب سے بنیادی اسلامی کتابوں پر دست درازی کی یہ ایک اور کوشش ہے اوراس بار نشانہ حدیث کی کتاب "صحیح البخاری" ہے۔ ان اقدامات کے ذریعے روسی اتھارٹی نے ایک بار پھر روسی مسلمانوں کے جذبات کو کھلے عام ٹھیس پہنچانے کی کوشش کی ہے گویا وہ مسلمانوں کی قوت برداشت اور صبر کا امتحان لینا چاہتے ہیں۔
ظاہری بات ہے کہ نام نہاد "انتہاپسندانہ مواد کی فہرست" مسلمانوں کو اسلامی ثقافت سے محروم رکھنے کے لیے تیار کی گئی ہے چنانچہ ہر سال ان کے قانون کے مطابق ممنوعہ مواد کی فہرست طویل ہوتی جارہی ہےجس میں کئی تحریر شدہ اور ریکارڈ شدہ مواد کو بھی شامل کرلیا گیا ہے۔ پھر اس عرصے میں حکمران مسلمانوں کے رد عمل کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ درحقیقت مسلمانوں کی جانب سے ناکافی رد عمل ہی نے جون 2012 کو اورنبرگ کے "لنینسک ریجن کی عدالت " کو 60 سے زائد کتابوں کتابچوں اور اسلامی مقالات کو انتہاپسندانہ مواد کی فہرست میں شامل کرنے کا موقع دیا۔ممنوعہ کتابوں میں حدیث کی کتاب "ریاض الصالحین"، "امام نووی کی الاربعین" اور مسلم علماء کی کئی اور کتابیں تھیں۔ اس سے مسلمان سخت ناراض ہو گئے تھے مگر عدالت کے فیصلے کو کالعدم نہیں کیا گیا اور بالآخر یہ پابندی لازم کردی گئی ۔ستمبر 2013 میں یہ مشاہدہ کیا گیا کہ حکمران مزید پیش رفت کرنا چاہتے ہیں چنانچہ حکومت نے قرآن کے روسی زبان میں موجود مشہور ترجمے پر پابندی لگانے کی کوشش کی لیکن مسلمانوں کی جانب سے متحدہ احتجاج پر اپنے منصوبے سے پسپائی اختیار کر لی جس کا جواب امت مسلمہ کے ان فرزندوں کو قید کرنے کی صورت میں دیا گیا جو اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن کریم کے دفاع کے لیے ڈٹ گئے تھے۔
آج پھر روس میں اسلام کی بنیادی کتابوں پر پابندی لگائی جارہی ہےجس سے یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ وہ کس سوچی سمجھی سازش کے تحت اسلام کو نشانہ بناتے ہیں ورنہ روس میں موجود 20 ملین مسلمانوں کے سامنے اسلام کی بنیادی کتابوں پر پابندی لگانے کا جواز پیش نہیں کر سکے۔ ایسا لگتا ہے کہ داخلی اور خارجی مشکلات کی وجہ سے حکمران مکمل بوکھلاہٹ کا شکار ہیں اور وہ کسی بھی طرح مسلمانوں کو دینی احکامات سیکھنے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
"صحیح البخاری" حدیث کی صحیح ترین کتابوں میں سے ہے جس کو قابل اعتماد راویوں کے تسلسل کے ذریعے اما م بخاری نے آٹھویں صدی میں نبیﷺ سے روایت کی ہے اور تب سے ہی یہ اسلامی احکامات کے لیے مرجع ہے۔
آج امت مسلمہ کی یہ انمول میراث پابندی کے خطرے سے دوچار ہے ۔ ان کا ہدف واضح ہے کہ وہ امت کو اس کی طاقت سے محروم کرنا چاہتے ہیں، وہ اس چیز کو روکنا چاہتے ہیں جو امت کی فکر کی آبیاری کرتی ہے جو قرآن کریم کے بعد اسلامی ثقافت کا دوسرا منبع ہے۔
اس حوالے سے حزب التحریر روس کے مسلمانوں کو اپنی ثقافت کے مصدر سے محروم کرنے کی ان بار بار کی جانے والی کو ششوں پر شدید احتجاج کرتی ہے اور سب کو خصوصاً دینی اور معاشرے کی بااثر شخصیات کو دعوت دیتی ہے "صحیح بخاری" کے دفاع کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ یہ مسلمانوں کا صرف اس بات پر امتحان نہیں کہ وہ حدیث کی کتاب کا دفاع کر سکتے ہیں یا نہیں بلکہ یہ مسلمانوں کی وحدت اور اپنے دین کے دفاع کا امتحان ہے۔

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک