الأحد، 26 ربيع الأول 1446| 2024/09/29
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

مسلم دنیا میں اردو بولنے والوں کے لیے حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کی اردو ویب سائٹ

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کی ایک اردو ویب سائٹ ہے جس کو www.hizb-ut-tahrir.info کے ذریعے دیکھا جاسکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی امت میں اردو بولنے ، لکھنے اور سمجھنے والےکروڑوں مسلمانوں کے لئے یہ اردو ویب سائٹ معلومات حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس ویب سائٹ پر پوری مسلم دنیا میں خلافت کے قیام کے لیے کام کرنے والی جماعت حزب التحریر کی انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک مختلف ولایات کی جانب سے جاری کی گئیں پریس ریلیزز اور لیفلٹ دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس ویب سائٹ پر مسلم دنیا میں حزب التحریر کی خلافت کے قیام کی زبردست جدوجہد کے حوالے سے تحریریں ،تصاویر، آڈیوز اور ویڈیوز بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ اس ویب سائٹ کے ذریعے حزب التحریر کے امیر،مشہور رہنما اور فقیہ، شیخ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ سے سوالات بھی پوچھے جاسکتے ہیں۔
یقیناً اردو زبان کی موجودگی خلافت کا تحفہ ہے کیونکہ یہ زبان ریاستِ خلافت کی مسلم افواج کی فوجی چھاؤنیوں میں وجود میں آئی تھی جن میں ترکی، فارس، عرب اور برِصغیر پاک و ہند سے تعلق رکھنے والے مسلمان موجود ہوتے تھے۔درحقیقت لفظ اردو ترک زبان کا لفظ ہے جس کے معنی "لشکر" کے ہیں۔ آج کے دن تک اردو کا رسمُ الخط، اس کےالفاظ اور طرزِ تحریر قرآن اور خلافت کی سرکاری زبان عربی پر بے حد انحصار کرتی ہے۔
حزب التحریر ولایہ پاکستان اردو زبان استعمال کرنے والے صحافیوں، میڈیا اور سوشل میڈیا کو اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ وہ حزب التحریر کی جدوجہد اور کام سے مسلسل آگاہی کے لیےاس بہترین ویب سائٹ کو استعمال کریں۔

 

 

 

ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

Read more...

امریکہ کا افغانستان سے انخلاء پاکستان کی مدد کے بغیر ممکن نہیں

تحریر: خالد صلاح الدین
امریکہ کے لیے پاکستان کی سٹریٹیجک اہمیت ایشیا کے حوالے سے سے بہت زیادہ ہے اور یہ حقیقت واضح بھی ہے۔ ایشیا اور ایشیا پیسیفک کے لیے امریکی منصوبوں کےلیے انتہائی اہمیت رکھنے والے دو ممالک بھارت اور افغانستان کی سرحدیں بھی پاکستان سے ملتی ہیں۔امریکہ کی پاکستان ، افغانستان اور پورے یوریشیا کے لیے حکمت عملی پوری امت کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے ۔
وسطی ایشیا کے ممالک کی اپنے محل و وقوع کے حوالے سے بہت اہمیت ہے کیونکہ یہ چین اور روس کے درمیان واقع ہیں۔ اس کے علاوہ ان ممالک میں موجود تیل و گیس کے وسیع ذخائر بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ روس کے لیے ان ممالک کی یہ اہمیت ہے کہ وہ ان وسائل تک رسائی اور کنٹرول حاصل کر کے ان کی رسد(سپلائی) پر اپنی گرفت کو مزید مضبوط بنا سکتا ہے۔ اگر یہ وسائل اس کے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ خطے میں مختلف معاملات پر اس کے حاوی ہونے کی صلاحیت متاثر ہوجائے گی۔ چین کے لیے بھی ان وسائل تک رسائی اپنی بہت بڑی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنےاور معاشی ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے ۔
یہ وہ جیو سٹریٹیجک معاملات ہیں جن کی بناء پر امریکہ اس خطے میں داخل ہونے کی شدید خواہش رکھتا ہے۔ ماضی میں امریکہ نے روسی جارحیت کو بنیاد بنا کر خطے میں اپنی مداخلت کے لیےپاکستان اور افغان مجاہدین کی حمائت کرنے کا جواز پیش کیا تھا۔ اس کے علاوہ یہ خیال بھی عام ہے کہ افغانستان سے روس کی واپسی کے بعد امریکہ بھی اچانک چلا گیا تھا اور پاکستان اور افغانستان کو تنہا چھوڑدیا گیا تھا۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ پاکستان ،آئی،ایس،آئی کے ذریعے امریکی خواہش کے مطابق اپنا کردار ادا کررہا تھا ۔ اس وقت خطے میں امریکہ کی اپنی موجودگی کی کوئی خاص ضرورت نہ تھی۔
لیکن خطے میں سیاسی اسلام کی مضبوط ہوتی پکار اور اس کے ساتھ ساتھ طالبان کا امریکی احکامات کو ماننے سے انکار کردینا اور 11/9کے واقع نے امریکہ کے لیے وہ بہانہ مہیا کردیا کہ وہ خطے میں بھر پور طریقے سے داخل ہوجائے۔
یقیناً امریکہ نے دس سال یہ جنگ اس لیے نہیں لڑی کہ وہ افغانستان کرپٹ جنگجو کمانڈروں یا آئی۔ایس۔آئی کے حوالے کردے کیونکہ وہ دونوں پر ہی بھروسہ نہیں کرتا۔ امریکہ خطے میں لمبے عرصے تک رہنا چاہتا ہے اور عراق اور دیگر مسلم ممالک میں اپنے اڈے بنانے کی پالیسی کو جاری و ساری رکھنا چاہتاہے۔ حالیہ عرصے میں افغانستان اور امریکہ کے درمیان جس سٹریٹیجک معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں اس کا بنیادی مقصد افغانستان میں امریکی اڈوں کا قیام اور عورتوں، بچوں اور بوڑھوں پر گولیاں چلانے والے امریکی فوجیوں کے لیےکسی بھی جرم سے متعلق سزا سے استثناء حاصل کرنا ہے۔ یہ دو مقاصد ابھی تک پورے نہیں ہوئے ہیں جبکہ ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے امریکہ خطے میں موجود اپنے ایجنٹوں کے ساتھ مسلسل کام کررہا ہے۔ 9 مئی 2013 کو حامد کرزئی نے اعلان کیا کہ " امریکہ افغانستان میں نو اڈے قائم کرنا چاہتا ہے"۔ اس نے یہ بھی کہا کہ " امریکہ کو یہ اڈے دینے پر ہم رضا مند ہیں" اور مزید کہا کہ " ان مسائل پر امریکہ کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات ہوئے ہیں"(اے۔ایف۔پی)۔
14ستمبر 2013 کو پاکستانی سینیٹر مشاہد حسین نے اپنے چار روزہ دورہ کابل سے واپسی پر ایک بیان دیا جسے Xinhuanetنے رپورٹ کیا ۔ اس نے کہا کہ امریکہ اور نیٹو کی تقریباً 20ہزار افواج افغانستان میں موجود رہیں گی۔ اس نے وضاحت کی کہ افغانستان اور پاکستان میں تقریباً ایک لاکھ سے زائد امریکی نجی اہلکار سیکیوریٹی اور دوسرے معاملات دیکھ رہے ہیں۔ اور ان کی تعداد میں نیٹو افواج کے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
12ستمبر2013 کو ملٹری ٹائمز میں شائع ہونے والے مضمون میں جنرل جوزف ایف ڈینفورڈ ، جو افغانستان میں ایساف اور امریکی افواج کے کماندڑ ہیں نے کہا کہ " 2015 کے شروع میں امریکہ اور اتحادی افواج ایک نیا ، مختصرلیکن اہم مشن شروع کریں گے جس کا نام ریزولیوٹ سپورٹResolute) Support)ہوگا۔ اس میں اس بات پر توجہ دی جائے گی کہ افغانستان کے سیکیوریٹی کے اداروں میں ترقی کے عمل کو مکمل کیا جائے۔ امریکی فوجی،مشیر کی حیثیت سے افغانیوں کو منصوبہ بندی، بجٹنگ، مواصلات اور انٹیلی جنس کی مہارت اور صلاحیت بڑھانےمیں مدد فراہم کریں گے۔ پہلے کی نسبت کم فوجیوں سے امریکہ اور ہمارے اتحادی ان فوائد کو برقرار رکھ سکیں گے جنھیں بہت محنت سے حاصل کیا گیا ہے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ جو کچھ ہم نے پچھلے بارہ سالوں میں حاصل کیا ہے اس کو برقرار رکھا جائے۔ اگرچہ افغانیوں کو اب بھی کئی مشکلات کا سامنا ہےلیکن امریکہ سمجھتا ہے کہ وہ ایک اہم مقصد کی تکمیل کے لیے صحیح سمت میں بڑھ رہے ہیں۔ ہم ایک ایسے نتیجے کے لیے بہترین مدد فراہم کرسکتے ہیں جوخطےمیں ہماری مسلسل موجودگی کے ذریعے،افغان عوام اورافغان نیشنل سیکیوریٹی فورس کی حمائت کر کے،اصلاحات کے نفاذکےلیےافغان حکومت کااحتساب کر کےاورمسئلہ کےسیاسی حل تک پہنچنےمیں مددفراہم کرکے، ہمارے قومی مفاد ات کا تحفظ کرے گا"۔
جس مشن کو بہت مختصر کہا جارہا ہے اس میں بھی ایک بڑی تعداد ملوث ہو گی یعنی ایک لاکھ بیس ہزار فوجی، اور ان کی موجودگی امریکی مفادات کوتحفظ فراہم کرنے کے نام پردرست قرار دی جائے گا ۔
امریکہ کی جانب سے ان اڈوں کی فراہمی کا مطالبہ قدرتی اور اس کے اہداف سے مکمل مطابقت رکھتا ہے۔ امریکی اڈوں کی موجودگی امریکہ کو اس قابل بنائے گا کہ اگر اس کے کسی بھی فیصلے کو نافذ کرنے میں افغان حکومت ناکام ہوجائے یا وہ اس کے نفاذ میں دلچسپی نہ لے تو امریکہ اپنے فیصلوں کے نفاذ کے لیے اس پردباؤ ڈال سکے ۔لہذا امریکی انخلاء کا منصوبہ نہ صرف محض ایک نعرہ ہے بلکہ وہ عقلی منطق سے بھی متصادم ہے۔
امریکہ افغانستان میں اڈے قائم کرنا چاہتاہے لیکن امریکہ یہ بھی جانتا ہے کہ سیاسی لحاظ سے غیر مستحکم افغانستان اس کے سٹریٹیجک اہداف کی تکمیل میں روکاٹ کا باعث بن جائےگا۔ افغانستان میں استحکام وسطی ایشیا ئی ممالک میں داخل ہونے اوران کے قدرتی وسائل کو اپنے قابو میں کرنے کے لیے ضروری ہے۔ وسطی ایشیائی ممالک سمندر وں سے دور ہیں اور اس وجہ سے وہ تجارت کے لیے دوسرے ممالک پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔ مندرجہ ذیل تصویر ان سمتوں کا تعین کرتی ہے جن کی جانب ان ممالک سے نکلنے والی تجارتی شاہراہیں ہو سکتی ہیں ۔
امریکہ چاہتا کہ کہ ان وسائل کو دنیا تک پہنچانے کے لیے افغانستان اور پاکستان کا راستہ اختیار کیا جائے۔ یہاں سے سمندر تک پہنچنے کا سب سے مختصر رستہ افغانستان اور پاکستان سے ہی ممکن ہے۔ اس کے علاوہ عالمی معاشی بحران کے دوران اس قسم کا مختصر ترین راستہ ان وسائل کو دنیا تک پہنچانے پر آنے والے خرچے کو بھی مختصر ترین کردیتا ہے۔ روس کا راستہ اختیار کرنا مشکلات سے بھرپور ہے۔ مثال کے طور پر جنوری 2009 میں یوکرین کے ساتھ ایک تنازعہ میں روس نے گیس کی سپلائی مکمل طور پر بند کردی جس کے نتیجے میں یورپ کو دی جانے والی گیس میں 60فیصد کی کمی واقع ہو گئی تھی۔
اگر افغانستان میں استحکام قائم ہو جاتا ہے تو امریکہ وسطی ایشیائی ممالک کو آسانی سے افغانستان اور پاکستان کا راستہ اختیار کرنے پر راضی کرسکتا ہے۔ وسطی ایشیائی ممالک کے لیے اس میں یہ فائدہ ہے کہ اس طرح انھیں دو عالمی پاورز ، امریکہ اور چین کے ساتھ معاملات کرنے کا موقع حاصل ہوجائے گا جو کہ ایک منفرد سیاسی فائدہ ہے۔
امریکہ نے ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، بھارت(TAPI) پائپ لائن کے لیے بہت کام کیا ہے جبکہ اس منصوبے کے ساتھ ساتھ وہ ایران،پاکستان، بھارت(IPI) پائپ لائن کی مخالفت کررہا ہے۔ یہ دونوں پائپ لائنز بھارت کو توانائی فراہم کریں گی جیسا کہ درج ذیل تصویر میں بھی دیکھا یا گیا ہے لیکن TAPIزیادہ بہتر طریقے سے امریکی اہداف کو پورا کرسکے گی۔
اس کے علاوہ TAPIپائپ لائن کا منصوبہ ، اس کی تعمیر اور اس کو محفوظ رکھنا خطے میں امریکی افواج کی موجودگی کا ایک اچھا جواز بھی فراہم کرتی ہے۔
ان باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے جبکہ امریکہ اپنے ایجنٹ کرزئی کے ذریعے افغانستان میں اڈے بھی حاصل کر لے گا ، امریکہ یہ بات جانتا ہے کہ طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے بغیر افغانستان میں استحکام قائم نہیں کیا جاسکتا۔ امریکہ طالبان کو امن مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے پاکستان کو ایک اہم مہرے کے طور پر دیکھتا ہے اور اس نے اپنے ایجنٹ کرزئی کو اسی سمت میں ہدایت دی ہے ۔ اپنے حالیہ دورہ پاکستان میں افغان صدر حامد کرزئی نے کہا کہ " ہم نے اس سلسلے میں بات کی ہے۔۔۔۔۔۔اس انفرادیت کے ساتھ کہ پاکستان کی حکومت جس طرح سے بھی اس کے لیے ممکن ہو ، افغانستان میں امن اور اس کے قیام کے لیے مواقعوں کی فراہمی یا طالبان اور افغان امن کونسل کے درمیان بات چیت کے لیے پلیٹ فارم کی فراہمی کے لیے مدد اور سہولت فراہم کرے گی"۔
یقینا امریکہ کا پاکستان پر انحصار بہت زیادہ ہے جیسا کہ امریکی چیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف مارٹن ڈیمسی نے 19جولائی2013کواکنامک ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہا کہ"ہمارے سٹریٹیجک اور قومی سلامتی کے اہداف اب بھی یہ ہیں کہ القائدہ کو شکست دی جائے اور اسے ختم کردیا جائے اور افغانستان اور پاکستان میں محفوظ پناہ گاہوں کو دوبارہ قائم ہونے سے روکا جائے۔ پاکستان کی مدد کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے"۔
امریکہ پاکستان کی مدد کے بغیر نہ تو القائدہ کو شکست دے سکتا ہے اور نہ ہی طالبان کو امن مذاکرات کی میز پر لاسکتا ہے۔ لہذااٖفغانستان میں فوجی و سیاسی حل کی کامیابی پاکستان کی مدد کے بغیر ممکن ہی نہیں۔
اٖفغانستان میں سیاسی استحکام کے ساتھ ہی وسطی ایشیائی ممالک کے توانائی کے وسائل افغانستان اور پاکستان کے ذریعے نکلنا شروع ہوجائیں گے۔ یہ توانائی بحیرہ عرب کراچی یا گوادر کے ذریعے اور بھارت ملتان کے راستے پہنچے گی۔ توانائی کے وسائل کی فراہمی کے ذریعے بھارت کو مضبوط کرنے کی کوشش چین کو گھیرنے کے امریکی منصوبے کا حصہ ہے اور یہ بھی پاکستان کے بغیر ممکن نہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے تا کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لایا جائے۔ لہذا مستحکم افغانستان کے لیے پاکستان کا کردار ایک کنجی کی حیثیت رکھتا ہے۔ وسطی ایشیائی ممالک سے توانائی کے وسائل کو افغانستان اور پاکستان کے راستے دنیا تک پہنچانے کے لیے ایک مستحکم افغانستان ضروری ہے۔ توانائی کے ان وسائل تک بھارت کو رسائی فراہم کر کے بھارت میں موجود توانائی کے شدید بحران کو ختم کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ یہ امریکہ کے اس منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت چین کے خلاف بھارت کو کھڑا کرنا مقصود ہے۔ لہذا یہ تمام صورتحال خطے میں پاکستان کو اہم ترین ریاست بنا دیتی ہے۔

Read more...

امریکہ افغانستان سے کیوں نکلنا چاہتا ہے

عابد مصطفیٰ

حالیہ دنوں میں افغانستان سے امریکی انخلاء کے متعلق بہت کچھ شائع ہوا ہے ۔ اس انخلاء کے منصوبے پر 2014 میں عمل درآمد کرنے کا ارادہ ہے۔ لہذا یہ ایک اچھا موقع ہے کہ اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ آیا امریکہ نے افغانستان کے حوالے سے اپنے تضویراتی (سٹریٹیجک)منصوبےمیں کوئی تبدیلی کی ہے یا یہ انخلاء محض ایک آپریشنل منصوبے کا ایک حصہ ہے۔ اگر یہ آپریشنل منصوبے کا ہی حصہ ہے تو پھر وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پر واشنگٹن افغانستان سے نکلنے پر مجبور ہو رہا ہے۔ اس مضمون میں اسی سوال کا جواب دینے کی کوشش کی جائے گی۔
سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ امریکہ کے لیے افغانستان کی کیا اہمیت ہے۔ اگر آپ 20اکتوبر 2010کو جاری کیے گئے سوال و جواب کو یاد کریں تو ہم نے یہ کہا تھا کہ افغانستان پر امریکی حملے کے تضویراتی(سٹریٹیجک) اہداف یہ تھے:
1۔ یوریشیا میں روس اور چین کی پیش رفت اور بالادستی کو روکنا
2۔ریاست خلافت کے قیام کو روکنا
3۔ کیسپین کے سمندر اور مشرق وسطی میں موجود تیل وگیس کے ذخائر کو اپنے قبضے میں لانا
4۔ کیسپین کے سمندر اور مشرق وسطی سے نکلنے والے تیل و گیس کی سپلائی کے راستوں اور ان کی حفاظت کے معاملات کو اپنے قبضے میں رکھنا

اس تجزیے کے شواہد یہ تھے:
"یوریشیا میں دنیا کی سب سے زیادہ سیاسی لحاظ سے مضبوط اور متحرک ریاستیں موجود ہیں۔ تاریخی طور پر عالمی قیادت کے دعوے دار یوریشیا سے ہی اٹھتے رہے ہیں۔ علاقائی سطح پر بالادستی کی شدید خواہش رکھنے والے دنیا کے سب سے بڑی آبادی والے ممالک چین اور بھارت اسی خطے یوریشیا سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی امریکہ کی سیاسی و معاشی بالادستی کو چیلنج کرنے والےممالک بھی اسی خطے میں واقع ہیں۔ امریکہ کے بعد دنیا کی چھ سب سے بڑی معیشتیں اور اپنے دفاع پر خرچ کرنے والے ممالک بھی اسی خطے میں واقع ہیں اور اس کے ساتھ ہی ساتھ دنیا کے تمام اعلانیہ اور غیر اعلانیہ ایٹمی ریاستیں بھی اسی خطے میں موجود ہیں۔ دنیا کی کُل آبادی کا 75فیصد یوریشیا میں آباد ہےجبکہ دنیا کی 60فیصد کُل قومی پیداوار اور 75 فیصد توانائی کے وسائل بھی اسی خطے میں موجود ہیں۔ یوریشیا کی مجموعی طاقت امریکہ کی طاقت سے آگے نکل جاتی ہے۔ جو طاقت یوریشیا میں بالادستی حاصل کرے گی وہ لازماً دنیا کے تین میں سے دو انتہائی اہم معاشی طاقت کے حامل خطوں ، مغربی یورپ اور مشرقی ایشیا میں بھی فیصلہ کن اثرو رسوخ اورطاقت کی حامل بھی ہوگی۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی مشرق وسطیٰ اور افریقہ کو بھی اپنے اثرو رسوخ کے طابع کردے گی۔ یوریشیا کے اتنے وسیع خطے میں جس طرح سے بھی طاقت کی تقسیم ہو گی تو اس کا فیصلہ کُن اثر امریکہ کی عالمی بالادستی اور اس کی تاریخی روایت پر بھی پڑے گا"۔(زےبیگنیو بریسینسکی، "یوریشیا کے لیے سٹریٹیجی"،فارن افئیرز، ستمبر/اکتوبر1997)
"امریکہ کا یہ لازمی ہدف ہے کہ یوریشیا کے خطے میں کسی بھی اہم اور بڑی طاقت کو قائم ہونے سے روکا جائے۔ اس مقصد کو وہ اس طرح سے حاصل کرے گا- ان مداخلتوں کا مقصد کبھی بھی یہ نہیں تھا کہ کچھ حاصل کرنا ہے ۔چاہے سیاسی طور پر کچھ بھی کہا جاتا رہےلیکن ان مداخلتوں کا مقصد کسی ہونے والی چیز کو روکنا ہے۔ امریکہ ان خطوں میں استحکام نہیں چاہتا جہاں ایک اور طاقت پیدا ہونے کا امکان موجود ہو۔ اس کا مقصد استحکام کا قیام نہیں بلکہ عدم استحکام کا قیام ہے اور اس سے اس بات کی وضاحت ہوجاتی ہے کہ امریکہ نے اسلامی زلزلے کا سامنا کس طرح سے کیا ہے۔ وہ ایک بڑی اور طاقتور اسلامی ریاست کے قیام کو روکنا چاہتا ہے۔ اگر نعرے بازی کو ایک طرف رکھ دیا جائے تو یوریشیا میں امن کا قیام امریکہ کا کوئی اہم ہدف یا مفاد نہیں ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کو اس بات سے بھی کوئی سروکار نہیں کہ وہ جنگ جیت جائے۔۔۔۔ان تنازعات کا مقصد صرف ایک طاقت کو ابھرنے سے روکنا یا خطے کو عدم استحکام کا شکار کرنا ہے ناکہ وہاں پر نظم و ضبط کو قائم کرنا"۔(جارج فرائڈمین،"اگلے سو سال-اکیسوی صدی کے لیے پیش گوئی"،2009)
ان اہداف کے حوالے سے ریپبلیکن اور ڈیموکریٹ میں کوئی اختلاف موجود نہیں ہے۔ لہذا دنیا کے اس خطے کے حوالے سے خارجہ پالیسی کے معاملات میں بش اور اوبامہ کے درمیان کوئی مقابلے بازی نہیں ہے۔ان دونوں جماعتوں کے درمیان جو بھی اختلاف ہوتے ہیں وہ آپریشنل سطح کے ہوتے ہیں ،مثلاً کیسے افغانستان پر امریکی قبضے کو قانونی بنایا جائے اور وہاں پر کسی حد تک استحکام کو قائم کیا جائے تا کہ اس کے بعد کے تضویراتی (سٹریٹیجک )اہداف کوحاصل کیا جاسکے۔آپریشنل سطح کے اختلافات ہی ہمیشہ بش اور اوبامہ کی حکومتوں کے درمیان رہے اور اب خود اوبامہ انتظامیہ میں بھی ہیں۔ لہذا آپریشنل حکمت عملی کئی بار تبدیل کی جاچکی ہے لیکن اوبامہ انتظامیہ کے دور میں کئی بار کی تبدیلیوں کے باوجود ،امریکہ کی حکمت عملی چار اہداف کو حاصل کرنے پر ٹہر گئی ہے اور وہ یہ ہیں:
1۔ افغان حکومت کی استعداد میں اضافہ کرنا تا کہ وہ ملک میں اپنی رِٹ قائم کرسکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ افغان سیکیوریٹی فورسز، پولیس اور فوج کو تیار کیا جائے، وفادار اور قابل گورنر لگائے جائیں اور افغان حکومت میں بدعنوانی کو ممکن حد تک کم کیا جائے۔
2۔ القائدہ اورپشتونوں میں موجود ان جہادیوں کو جو امریکی قبضے کے خلاف ہیں ،تباہ و برباد کردیا جائے۔
3۔ اعتدال پسند طالبان کو میدان جنگ چھوڑنے اور مرکزی افغان حکومت میں شمولیت کے لیے رضا مند کیا جائے۔
4۔ افغانستان کے مسئلے کے امریکہ کے تجویز کردہ حل میں نیٹو، پاکستان،ایران،بھارت،روس،چین اور دوسرے ممالک کو بھی شامل کیا جائے یعنی کہ ایک طرح کے بین الاقوامی طرز کے طریقہ کار کو افغانستان کو درپیش چیلینجز کا سامنا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔
اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ امریکہ کو اپنے آپریشنل اہداف کو حاصل کرنے میں بہت مشکلات درپیش ہیں اور اسی وجہ سے اوبامہ اور اس کے اتحادی اس بات کا بہت شدید ادراک رکھتے ہے کہ افغانستان کی جنگ کو جیتنا اب ممکن نہیں یعنی استحکام پیدا نہیں کیا جاسکتا جو کہ آپریشنل اہداف میں سے ایک ہدف تھا۔
وہ وجوہات جن کی بنا پر امریکہ کو افغانستان میں اپنی صورتحال کا جائزہ لینا پڑا
ایسی کئی وجوہات ہیں جن کی بنا پر امریکہ کو اپنی صورتحال کا دوبارہ جائزہ لینا پڑا:
اندرونی وجوہات
٭ 2008میں لی مین برادرز کے ڈوبنے کے بعد عالمی مالیاتی نظام شدید دباؤ میں آگیا اور تقریباً تباہ ہی ہوگیا تھا۔ اس بحران نے امریکہ اور یورپ کی معیشتوں کو اس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ وہ مزید جنگوں اور دوسرے ممالک میں مداخلت کے اخراجات کو برداشت کرسکیں۔
٭ افغانستان اور عراق میں ہونے والی جنگوں نے امریکہ کی فوجی طاقت میں موجود تھکاوٹ کو واضع کردیا۔ اگر آسان لفظوں میں اس کو بیان کیا جائے تو وہ یہ ہے کہ امریکہ کے افواج اس قدر وسیع علاقے میں پھیل چکی ہیں کہ اب وہ مزید بیرون ملک فوجی میشنز کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ واشنگٹن اس وقت شدید دباؤ کا شکار ہے کہ وہ بیرون ملک موجود افواج کی تعداد میں مناسب حد تک کمی کرے۔
٭2003 میں عراق میں مداخلت کے وقت سے امریکہ وہ سپر پاور نہیں رہا جو وہ کبھی ہوا کرتا تھا ۔ دنیا کے کئی خطوں میں مسلسل دنیا کی اہم طاقتیں جیسے روس، برطانیہ اور فرانس اس کے خلاف دباؤ بڑھا رہی ہیں ۔ایشیا پیسیفک میں امریکہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت سے شدید پریشان ہےاور واشنگٹن یہ سمجھتا ہے کہ اگر اس نے بیجنگ کو کھلا چھوڑ دیا تو وہ اس خطے میں اس کی بالادستی کو چیلنج کرے گا۔ 2006 میں نیشنل انٹیلی جنس کونسل کے سابق نائب چیرمین گراہم فولر نے امریکہ کے دشمنوں کی جانب سے اسے درپیش چیلنجز کو یوں بیان کیا کہ:
"پچھلے چند سالوں میں کئی ممالک نے مختلف طریقوں سے بش کے ایجنڈے کو کمزور، تبدیل، محدود، تاخیر یا روکنے کے لیے ہزاروں زخم لگائیں ہیں۔ یہ مخالفین مختلف وجوہات اور بعض دفعہ محدود فائدوں کے حصول کے لیےاکٹھے ہوئے لیکن ان کے اتحاد کی وجہ جس کی متعلق عموماً خاموشی اختیار کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ کسی بھی طرح طاقت کے ایک مرکز کی حامل دنیا کا خاتمہ کیا جائے"۔("سٹریٹیجک تھکاوٹ"، نیشنل انٹرسٹ،2006)
اس کے ساتھ ہی پچھلے ایک سال یا اس سے زائد عرصے کے دوران بین الاقوامی وجوہات نے بھی دو معاملات میں امریکی خارجہ پالیسی پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں:
ا۔امریکہ 2001 سے افغانستان کی جنگ میں 550بلین ڈالر خرچ کرچکا ہے۔ اس کے علاوہ مسلسل دفاعی بجٹ میں کی جانے والی کمی نےامریکہ کے لیے مختلف محاذوں پر ایک ساتھ جنگ لڑنے کی صلاحیت میں شدید کمی پیدا کردی ہے۔ جنوری 2012 میں نیو یارک ٹائمز نے ایک مضمون اس وقت کے امریکی وزیر دفاع پنیٹا کے لیے لکھا جس میں فوجی بجٹ میں کمی کے طریقہ کار پر مشورے دیے گئے تھے۔ اس مضمون میں لکھا تھا کہ :
"مالیاتی مشکلات کی وجہ سے اہداف میں آنے والی تبدیلی اور پچھلی گرمیوں میں امریکہ کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے ہونے والے معاہدے کی وجہ سے ،اس بات کی توقع کی جاری ہے کہ جناب پنیٹا یہ بات واضع کردیں گے کہ پینٹاگون اب ایک ساتھ دو جنگیں نہیں لڑسکتا۔ بلکہ اس کی جگہ وہ یہ کہیں گے کہ فوج اس قدر ہی بڑی ہے کہ ایک وقت میں ایک اہم اور بڑی جنگ لڑ سکتی اور جیت سکتی ہےجبکہ اسی دوران دنیا کے کسی دوسرے حصے میں ایک اور دشمن کے عزائم کو کئی چھوٹے چھوٹے آپریشنز کر کے ناکام کرسکتی ہے جیسا کہ نو فلائی زون کو قائم کرنا یا تباہ حال لوگوں کو مدد پہچاناوغیرہ"۔
لہذا امریکہ نے، جو کبھی ایک ساتھ دو جنگیں لڑنے کی صلاحیت رکھتا تھا، بل آخر اِس بات کا اعتراف کرلیا کہ وہ اب ایک وقت میں صرف ایک ہی جنگ لڑسکتا ہے۔
ب۔ تو اب امریکہ اس بات پر مجبور ہو چکا ہے کہ وہ اس بات کا تعین کرے کہ دو میں سے کون سی ایک جنگ اسے لڑنی ہے۔ امریکہ کو اس وقت کئی چیلینجز کا سامنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسے عراق اور افغانستان کی جنگوں کے معاملات بھی دیکھنے ہیں اور ایشیا پیسیفک میں چین کے خلاف جنگ لڑنے کےساتھ ساتھ مشرق وسطی میں بھی لڑنے کے لیے خود کو تیار کرنا ہے۔ بار حال یہ چین کی ڈرامائی طاقت کا کمال ہے جو امریکہ کے پالیسی سازوں کے لیے اس وقت سب سے زیادہ پریشانی کا باعث ہے۔ مارچ 2012میں کانگریس کے تحقیقاتی ادارے نے ایک رپورٹ امریکی کانگریس کے لیے تیار کی جس کا عنوان تھا "پیسیفک کی جانب توجہ؟ اوبامہ انتظامیہ کی ایشیا میں ترتیب کو درست کرنا"۔ اس رپورٹ میں واضع طور پر کہا گیا ہے کہ:
"اس 'توجہ' کے پیچھے یہ یقین ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی ، قومی سلامتی اور معاشی مفادات کا ہدف تبدیل اور ایشیا کی جانب منتقل ہورہا ہے لہذا امریکہ کی ترجیحات اور مفادات کا اسر نو تعین کیا جاناضروری ہو گیا ہے۔ کئی ماہرین کے مطابق یہ لازمی ہے کہ امریکہ ایشیا پیسیفک کو زیادہ اہمیت دے۔ یقیناً کئی سالوں سے خطے میں موجود کئی ممالک نے امریکہ کو اس بات پر مجبور کیا ہے کہ وہ چین کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو محدود کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے"۔
افغانستان اور عراق میں امریکی افواج میں کمی اور اس کی بحری اور زمینی افواج کی ایشیاپیسیفک میں پیشقدمی یہ ظاہر کرتی ہے کہ امریکہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھ رہا ہے اور اگر ضروری ہوا تو واشنگٹن فوجی محاذ آرائی کے لیے بھی تیار ہے۔ اسی کو اوبامہ کی ایشیا کی جانب توجہ کہا جاتا ہے جس کے تحت یورپ اور مشرق وسطی سے امریکی اثاثوں کو مشرقی ایشیا میں منتقل کیا جارہا ہے۔
علاقائی وجوہات
افغانستان میں دیر پا استحکام کے قیام میں تین علاقائی چیزوں نے امریکہ کے لیے اس معاملے کو پیچیدہ بنادیاہے۔
٭افغانستان میں امریکی قبضے کوبرقرار رکھنے کے لیے نیٹو نے ایک حد سے آگے جانے سے انکار کیا ہے جس کی قیادت یورپ کررہا ہے۔ 2003 میں جب افغانستان میں نیٹو نے بین الاقوامی سیکیوریٹی فورس کے پردے میں اپنا آپریشن شروع کیا تو اس وقت سے ہی کچھ یورپی ممالک نے اپنے افواج کو افغانستان بھیجنے میں زیادہ دلچسپی نہیں دیکھائی ہے۔ بیلجیم، اٹلی،فرانس اور جرمنی نے ہمیشہ ایسے بہانوں کو اختیار کیا ہے جن کی بنا پر ان کی افواج افغانستان کے نسبتاً پر امن علاقوں میں تعینات رہی ہیں۔ اسی طرح کئی نیٹو کیاجلاس اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں اور امریکہ کے لیے اب یہ مشکل ہو چکا ہے کہ وہ اپنی تبدیل شدہ ترجیحات کے ساتھ افغانستان کے بوجھ کو بھی تنے تنہا ہی اٹھائے۔ 2012 میں شکاگو میں ہونے والی نیٹو سربراہی کانفرنس میں نیٹو ممالک نے بل آخر یہ تسلیم کرلیا کہ وہ افغانستان میں اپنے مشن کو ختم کردیں۔ کانفرنس کے اعلامیے میں کہا گیا کہ :
"دس سال کی جنگ کے بعد اور عالمی معیشت کے کمزور ہونے کی وجہ سے ، مغربی ممالک اب اس جنگ پر مزید خرچ نہیں کرنا چاہتے چاہے اس کا تعلق پیسے سے ہو یا جانوں سے۔ ان کی کوششوں کی قیمت ایک ایسے ملک میں لاحاصل ہے جس نے صدیوں تک بیرونی طاقتوں کے خلاف شدید مزاحمت کی ہے"۔
٭امریکہ مزید پاکستانی افواج کو قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشنز کرنے کے لیے حرکت میں لانے سے قاصر رہا ہے خصوصاً شمالی وزیرستان میں۔ اور یہ اس صورتحال میں ہوا ہے جبکہ اس کے ایجنٹ زرداری اور کیانی اور وہ لوگ جو سیاسی میدان میں موجود ہیں، نے اپنے آقاؤں کے احکامات کو پورا کرنے کی سر توڑ کوشش کی۔
٭افغانستان میں امریکہ کی کامیابی کو مشکل بنانے میں بھارت نے بھی ایک کردار ادا کیا جو برطانیہ کے زیر اثر ہے۔ بھارت نے یہ ہدف اس طرح حاصل کیا کہ امریکہ کی مسلسل گزارشات کے باوجود،اس نے پاکستان اور بھارت کے سرحد پر کشیدگی میں خاطر خوا کمی نہیں ہونے دی۔ لہذا پاکستان پھر اس قابل ہی نہیں ہو سکا کہ وہ مزید افواج کو افغانستان کی سرحد پر منتقل کرے اور مزاحمت کے خاتمے میں امریکہ کو مزید مدد فراہم کرسکے۔
اندرونی وجوہات
امریکی صدر اوبامہ اور امریکی فوجی قیادت کے درمیان افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد اور ان کے انخلاء کے حوالے سے منصوبہ بندی میں اختلافات جنرل میک کرسٹل کی برطرفی اور امریکی و نیٹو افواج کے حوصلوں میں پستی کا باعث بنی۔ اس کے علاوہ پشتون مزاحمت نے امریکہ کے مسائل میں مزید اضافہ کردیا۔ امریکی جنرل جیمز کونوے ،جو کہ امریکی میرینز کے سربراہ بھی ہیں، نے انخلاء کی تاریخ کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ اس نے کہا کہ :
"ہم سمجھتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں (یعنی انخلاء کی تاریخ کا اعلان)دشمن کو فائدہ پہنچے گا۔ ہم نے ایک پیغام پکڑا تھا جس میں کہا گیا تھا 'ہمیں صرف کچھ عرصے کے لیے انتظار کرنا ہے'،۔۔۔۔میں ایمانداری سے یہ سمجھتا ہوں کہ ابھی ہمیں مزید کچھ عرصہ وہاں رہنے کی ضرورت ہے کہ جس کے بعد صورتحال اس قدر بہتر ہوجائے گی کہ ہم وہاں سے انخلاء کرسکیں"۔(امریکی جنرل:افغانستان میں انخلاء کی تاریخ دینا' دشمن کو فائدہ پہنچانے کے مترادف ہے'،بی۔بی۔سی نیوز لائن، 24اگست2010)
امریکی فوجیوں کے طرز عمل نے بہت جلد انھیں افغان معاشرے میں نا صرف انتہائی غیر مقبول بنادیابلکہ قابض فوجوں کے خلاف مزاحمت میں بھی زبردست شدت پیدا ہوگی۔ ان فوجیوں کے ذلیل طرز عمل میں قرآن کی بے حرمتی، مردہ مجاہدین کی لاشوں پر پیشاب کرنا، عورتوں اور بچوں کا قتل عام ، پشتون علاقوں میں آپریشنز کے لیے تاجک لوگوں کو استعمال کرنا اور بدعنوان اہلکاروں کی پشت پناہی کرنا شامل ہیں۔
لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں بین الاقوامی، علاقائی اور اندرونی وجوہات نے امریکہ کو اپنی آپریشنل ترجیحات کو چھوڑنے اور طالبان سے براہ راست مزاکرات کرنے پر مجبور کردیا تا کہ ایک باعزت انخلاء کو ممکن بنایا جاسکے۔ لیکن اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ امریکہ یوریشیا سے متعلق اپنے تضویراتی(سٹریٹیجک) اہداف سے دست بردار بھی ہوگیا ہے۔ وہ مستقبل میں بھی افغانستان کو اڈہ بنا کر خطے میں کاروائیاں جارے رکھے گا۔
لیکن انشاء اللہ خلافت کا قیام جلد ہی امریکہ کی خواہشات پر پانی پھیر دے گا اور افغانستان اور مسلم علاقے امریکہ کے لیے ایک بھولی بسری کہانی ہی رہ جائے گی۔

 

Read more...

لبرل ازم ( آزاد خیالی)ایک جھوٹ اور دھوکہ ہے جو ایک انسان کو دوسرے انسان کا غلام بنادیتا ہے

تحریر: ابن نصرۃ
لبرل ازم کے بنیادی تصورات سترویں صدی سے لے کر انیسویں صدی کے درمیان برطانیہ میں نمودار ہوئے اور نشونما پائے۔ ان صدیوں میں لبرل ازم کے تصورات اپنے مخالفوں کے خلاف اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ لوکی نے لبرل تصورات کو بادشاہت کے خلاف برطانوی تاجروں کی اشرافیہ کی حمائت میں استعمال کیا؛ اور افادیت(Utilitarian) کے نظریات کے حامل فلاسفروں نے لبرل ازم کو برطانوی سرمایہ داروں کی حمائت میں جاگیر داروں کے خلاف استعمال کیا۔اسی دوران انتہاء پسند فرانسیسی انقلابیوں نے خفیہ برطانوی حمائت سے لبرل ازم کو اپنی ریاست اور یورپ کی دوسری ریاستوں کو غیر مستحکم کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اس کے علاوہ امریکی سرمایہ داروں کے ایک گروہ نے اس تصور کو برطانیہ میں ایک گروہ کے خلاف استعمال کیا ۔ لبرل ازم کو بین الاقوامی سطح پر عثمانی خلافت کے خلاف استعمال کیا گیا اور اس کے خاتمے کے بعد اس تصور کو نئی دشمن آئیڈیالوجیز (نظریہ حیات) فاشزم اور کمیونزم کے خلاف استعمال کیا گیا۔ بل آخر اکیسویں صدی میں ایک بار پھر لبرل ازم کو اسلامی آئیڈیا لوجی کو اُبھرنے سے روکنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے ۔ لہذا مخلص مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ لبرل ازم کے فلسفے کو جانیں اور مغرب کے ایک نظریاتی ہتھیار کے طور پر اس کا فہم حاصل کریں ۔
لبرل ازم آزادی کے تصور کی ترجمانی کرتا ہے(یہ لاطینی لفظ لیبر جس کا مطلب آزاد ہے سے نکلا ہے)، جو کہ ایک بہت ہی پُرکشش نعرہ ہے خصوصاً ان لوگوں کے لیے جن کا استحصال کیا جارہا ہو لیکن اس کا اصل مطلب عام زبان میں استعمال ہونے والے معنی سے مختلف ہے۔ لبرل کے عام معنی آزادی کے ہی ہیں یعنی کسی مخصوص روکاوٹ سے نجات حاصل کرنا جیسا کہ غلامی سے آزادی یا فوجی قبضے سے آزادی وغیرہ۔ لیکن سیاسی لحاظ سے آزادی کے معنی جیسا کہ لبرل ازم نے واضع کیا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کو اس بات کی آزادی حاصل ہو کہ وہ جو چاہے عمل اختیار کرسکے۔ لہذا سیاسی معنوں میں آزادی کا مطلب یہ تصور بن گیا کہ انسان خودمختار(اقتدار اعلیٰ) ہے۔
یہ ضروری ہے کہ آزادی کے عام معنوں سے ہٹ کر انسان کے خودمختار بننے کے تصور اور اس کے نتائج کو سمجھا جائے۔ انسان کی خودمختاری کا مطلب یہ ہے کہ انسان دنیا کی زندگی میں اپنے لیے راہ کا تعین خود کرے، اسے اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ کسی اور طاقت اور اقتدار اعلیٰ کے سامنے جھک جائے چاہے وہ ایسا اپنی مرضی سے ہی کیوں نہ کرے۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص آزادنہ طور پر بادشاہت کے زیر سایہ رہنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس نے اپنے اقتدار اعلیٰ(خود مختاری) سے دست برداری اختیار کرلی اور اس طرح اُس نے لبرل ازم کے تحت آزادی کے معنی کے الٹ راہ اختیار کی۔ انسان کا خودمختار (مقتدر) ہونا ہی وہ آزادی کا مقبول عام تصور ہے جو کہ مغربی تہذیب اور زندگی کے پیشتر نظاموں کی بنیاد ہے خصوصاً اس کے لبرل جمہوری حکومتی نظام اور اس سے نکلنے والے سرمایہ دارانہ معاشی نظام کی۔
آزادی کا مطلب طاقتور کے ہاتھوں انسان کی غلامی ہے
لبرل ازم آزادی کا مسحورکُن لیکن دھوکے پر مبنی تصور ہے ،جو طاقتوروں کے ہاتھ میں ایک انتہائی مہلک ہتھیار ہے۔ حقیقت میں ایک واحد انسان یا فرد روزمرہ زندگی میں پیش آنے والے تمام مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا؛ لہذا بل آخر یہی ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کے تجویز کردہ حل کو ہی اختیار کرتا ہے۔ لبرل معاشروں میں طاقتور لوگ مسائل کے اُن جوابات کی ترویج کرتے ہیں جو ان کے مفادات کو پورا کرنے کا باعث بنتے ہوں چاہے اس سے ایک عام شہری کا حق ہی کیوں نہ مارا جارہا ہو۔ سرمایہ دارانہ معیشت کاروباری اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے اور "نمائندہ " جمہوریت سیاسی اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ لبرل ازم کے تحت حاصل آزادی دراصل ایک عام آدمی کی طاقتوروں کے ہاتھوں غلامی ہے۔
حقیقت میں انسان اس بات کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا کہ وہ اپنی ذات میں خود اپنے آپ پر مقتدرہو۔ اقتدار اعلیٰ صرف اُسی کے لیے ہے جس نے انسان کو پیدا کیا اور صرف وہی ہے جو یہ جانتا کہ اُس نے انسان کو کیوں پیدا کیا اور صرف اُسی کے پاس انسان کی فطرت کے متعلق مکمل علم ہے۔ اپنے لیے غلط طریقے سے اقتدار اعلیٰ کا منصب حاصل کر کےاپنیخدائیکااعلانکردیاہے اور اس حق کو چھین لیا جو صرف اور صرف اُس ذات کے لیے مخصوص ہے جس نے اُسے پیدا کیا ہے ۔
انسان نے خود کو پیدا نہیں کیا بلکہ اسے پیدا کیا گیا ، انسان خود سے اپنی زندگی کا مقصد نہیں جانتا اورنہ ہی انسان کے پاس اپنی فطرت سے متعلق مکمل اور صحیح علم موجود ہے۔ انسان اس قابل ہی نہیں کے خود اپنے آپ پر مقتدر ہو بالکل ویسے ہی جیسے کوئی بھی دوسری پیدا کی گئی یا بنائی گئی چیز خود پر مقتدر نہیں ہوتی یعنی وہ یہ نہیں جان سکتیں کہ انھیں کیوں بنایا گیا ہے۔ یہاں تک کہ خدا کا انکار کرنے والے بھی یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ انھوں نے خود اپنے آپ کو تخلیق کیا ہے، لہذا انسان کے لیے مقتدر ہونے کا دعویٰ کرنا ایک بہت بڑی غلطی ہے۔ جس طرح انسان نے یہ دیکھا کہ اسے پیدا کیا گیا ویسے ہی اُسے اِس بات کی جستجو کرنی چاہیے کہ کس نے اُسے پیدا کیا ہے تا کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے کی عظمت کا معترف ہوسکے کیونکہ وہی اصل مقتدر ہے۔
لبرل ازم مذہب کا دشمن ہے
عیسائیت کے زیر سایہ ہزار برس سے بھی زائد عرصے تک رہنے کے بعد مغرب نے مذہب کو زندگی سے جدا کردیا اور لبرل ازم کو نئی تہذیب کی بنیاد کے طور پر اختیار کرلیا۔ لبرل ازم نے عیسائی دنیا کو یہ سوچ دے کر دھوکہ دیا کہ مذہبی آزادی کے تصور کے تحت وہ اپنے مذہب پر جس طرح چاہیں عمل کرسکتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں لبرل ازم مذہب کا مخالف تصور ہے جو تمام مذاہب کا دشمن ہے۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ مذہب اپنی فطرت میں انسان کو اپنے سامنے جھکنے کا حکم دیتا ہے۔ کوئی بھی مذہب انسان کو مقتدر قرار نہیں دیتا اور اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق عمل اختیار کرے۔ مذہب انسان کو ایک مخصوص نظم و ضبط کا پابند کرتا ہے چاہے وہ نظم و ضبط اس کی پوری زندگی کا احاطہ کرتا ہو یا صرف اخلاقی اور روحانی مسائل تک محدود ہو۔
لبرل ازم براہ راست مذہب سے ٹکراتا ہے کیونکہ لبرل ازم انسان سے اس بات کا تقاضع کرتا ہے کو وہ خود کو صرف اور صرف لبرل تصور کا پابند بنائے ۔ لبرل ازم اللہ سبحانہ و تعالی کی جگہ انسان کو رب بنا دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس کا نقاب کو مسترد کرنا لبرل ازم کے عین مطابق ہے۔ نقاب اس بات کا مظہر ہوتا ہے کہ انسان نے خود کو اپنے رب کی خواہش کا پابند کردیا ہے اور یہ چیز پورے لبرل مغربی دنیا میں نفرت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے چاہے ان تمام ممالک نے اس کو غیر قانونی قرار نہیں دیا ہے۔ ایک حقیقی لبرل انسان مذہب کا پابند نہیں ہوسکتا ۔ ایک لبرل انسان مذہب کی کچھ باتوں پر عمل یا اجتناب اختیارکرسکتا ہے لیکن ایسا وہ اپنی مرضی اور خواہش کے تحت ہی کرتا ہے۔
لبرل انسان اپنے رب کی نہیں بلکہ خود اپنی پرستش کرتا ہے۔ یہ اس مقتدر کی پرستش ہے جسے اُس نے خود اپنے لیے چُنا ہے کہ اُس نے کس طرح سے سوچنا ہے اور اپنی خوشی کے مطابق عمل کرنا ہے۔ اگر وہ اپنے رب کی عبادت بھی کرتا ہے تو اس لیے نہیں کہ وہ خود کو اس بات کا پابند سمجھتا ہے بلکہ وہ ایسا اس لیے کرتا ہے کہ وہ اس کی خواہش رکھتا ہے۔ لبرل انسان اس بات میں خوشی محسوس کرتا ہے جب وہ کسیمسلمان کو نماز پڑھنے کے ساتھ ساتھ شراب پیتا ہوا بھی دیکھتا ہے۔ لبرل اس طرح کے مسلمان کو "اعتدال پسند" سمجھتا ہے، جس سے اُس کی مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ مذہب میں اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے۔ ایک حقیقی لبرل انسان اس شخص سے شدید نفرت کرتا ہے جو خود کو اپنے رب کے سامنے مکمل طور جھکا دیتا ہے۔
آزادی نہیں ذمہ داری
آزادی کے اس تصور نے جس چیزکو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے وہ انسان کا ذاتی احساس ذمہ داری کا تصور ہے۔ انسان کو تخلیق کرنے والے رب نے اُس کو اپنی تمام تر تخلیقات سے برتر قرار دیا ہے کیونکہ رب نے اُسے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے نوازا ہے جس کے ذریعے وہ صراط مستقیم اور بدی کی راہ کے درمیان تفریق اور کسی ایک کا چُناؤ کرسکتا ہے۔ اسلام میں ہر بالغ، عاقل فرد ہر اس معاملے میں ذمہ دار اور قابل احتساب تصور کیا جاتا ہےجس کو اس کے لیے لازمی قرار دیا گیا ہو(فقہ کی اصطلاح میں انسان "مکلف"ہے)۔ لہذا اس پر لازم ہے کہ وہ اس ذمہ داری کو اٹھائے جو اس پر ڈالی گئی ہے نہ کہ وہ یہ کہے کہ میں آزاد ہوں چاہوں تو اپنی ذمہ داری ادا کروں چاہوں تو نہ کروں۔ انسان پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان دو راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے اور وہ اپنے اس فیصلے پر قیامت کے دن جوابدہ ہوگا۔
ذمہ داری اور احتساب ، آزادی سے ایک بالکل مختلف شے ہے۔ آزادی تباہ کُن، باغیانہ اور مفاد پرستی کا تصور ہے جو انسان کو اپنی خواہشات اور مفاد کے تحت چلنے کی تعلیم دیتا ہے چاہے یہ اس کے لیے یا کسی دوسرے کے لیے کتنا ہی نقصان کا باعث ہی کیوں نہ ہو۔ ذمہ داری اس بات کا تقاضع کرتی ہے کہ انسان اس بات سے باخبر ہو کہ اس کے اٹھائے جانے والے قدم کا اس کے لیے اور دوسروں کے لیے کیا نتیجہ نکلے گا۔ ہر عاقل و بالغ شخص اس قابل ہوتا ہے کہ وہ روز مرہ کی زندگی میں اپنے اعمال پر ذمہ دار ہو سکے کیونکہ وہ اس قابل ہوتا ہے کہ یہ جان سکے کہ اس کے اٹھائے ہوئے قدم کا اس کے لیے اور دوسروں کے لیے کیا نتیجہ برآمد ہوگا۔ یقیناً تمام مذاہب انسان کو اس دنیا کی زندگی میں اپنے اعمال کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ کوئی بھی مذہب انسان کو آزادی فراہم نہیں کرتا ۔
لبرل ازام ایک جھوٹا فلسفہ ہے جس نے کئی نسلوں کو دھوکہ دیا اورعملاً طاقتور کو اقتدار اعلیٰ دے کر دنیا میں جبر اور استحصال کا ماحول پیدا اور عام کیا۔ یہ تصور پہلے ہی عیسائی اور اسلامی تہذیبوں کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاچکا ہے جنھوں نے دنیا پر ہزار سال سے بھی زائد عرصے تک اپنی بالادستی برقرار رکھی تھی۔ اب اس تصور کو اسلام کو دوبارہ ایک بالادست قوت بننے سے روکنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ لبرل ازم اپنی بنیاد سے ہی غلط ہے۔ لبرل ازم کے فلسفے میں کی جانے والی تبدیلیاں اس کی غلطی اور جھوٹ کو تبدیل نہیں کرسکتیں۔ لبرل ازم کو مکمل طور پر مسترد کرنا ضروری ہے جس میں مسائل پر سوچنے اور ان کے حل تک پہنچنے کا طریقہ کار بھی شامل ہے جو کہ اس غلط تصور پر قائم ہے۔ مغربی تہذیب کو لازماً ختم کردینا چاہیے اور اس کی جگہ مذہب کی بنیاد پر ایک نئی تہذیب کو کھڑا کرنا چاہیے تا کہ انسان دوسرے انسانوں کی غلامی اور پرستش سے آزادی حاصل کرکے صرف اور صرف اپنے رب کی ہی عبادت کرسکے۔

Read more...

کل جماعتی کانفرنس افغانستان میں امریکی قبضے کو جاری رکھنے اور امریکی جنگ کو ہماری جنگ قرار دینے کے لیے منعقد کی گئی

تحریر: شہزاد شیخ
(پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان)
تاریخ:20ستمبر2013

خبر:

9 ستمبر 2013 کو حکومت پاکستان نے اسلام آباد میں کل جماعتی کانفرنس منعقد کی۔ اس کانفرنس میں صرف سیاسی جماعتوں ہی نے شرکت نہیں کی بلکہ افواج پاکستان کی سینئر ترین قیادت، آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی اور ڈائریکٹر جنرل آئی۔ایس۔آئی ظہیر الاسلام نے بھی شرکت کی۔ اس کانفرنس کا مقصد پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ سے باہر نکالنے کے لیے کسی مشترکہ لائحہ عمل پر متفق ہونا تھا ۔ کانفرنس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ملک میں امن کی خاطر حکومت قبائلی عوام کے ساتھ فوجی آپریشنز کی جگہ مذاکرات کا سلسلہ شروع کرے۔

تبصرہ:

جیسے جیسے 2014 قریب تر آتا جارہا ہے ویسے ویسے امریکہ افغانستان سے انخلاء کے نام پر اپنے قبضے کو مستقل رکھنے کے لیے طالبان کے ساتھ کسی دیر پا معاہدے کے لیے کی جانے والی کوششوں میں تیزی لاتا جارہا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے امریکہ نے طالبان کو قطر میں اپنا دفتر قائم کرنے کی اجازت دی اور پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کو حکم دیا کہ وہ طالبان قیدیوں کو رہا کریں۔ 9 ستمبر کو ہونے والی کل جماعتی کانفرنس بھی اسی امریکی ہدف کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے منعقد کی گئی۔اس کانفرنس میں حکومت کو یہ کہا گیا کہ وہ قبائلی لوگوں کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کرے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس کانفرنس نے اس امریکی جنگ کو یہ کہہ کر اپنا قرار دے دیا کہ "دہشگردی کےخلاف جنگ کےطریقہ کاراوروسائل کافیصلہ خودکرینگے"۔ تو اب اگر طالبان امریکی شرائط کے مطابق افغانستان سے محدود انخلاء کے منصوبے کو قبول نہیں کریں گے تو پاکستان فوری طور پر طالبان کے خلاف "ڈنڈا " اٹھا سکتے ہیں۔
یہ بات انتہائی قابل افسوس ہے کہ وہ جماعتیں جو دن رات اس امریکی جنگ سے پاکستان کو نکالنے کا مطالبہ کرتی رہتی ہیں انھوں نے بھی اس کانفرنس کے اعلامیہ پر دستخط کردیے۔ انھوں نے سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کی جانب سے اختیار کیے جانے والے اس موقف کی بھی تائید کردی ہے کہ یہ انخلاء پاکستان کی کامیابی ہے۔ حقیقت یہ ہے امریکی صدر اوبامہ سمیت کئی امریکی عہدیدار اس بات کا اظہار ایک سے زائد بار کرچکے ہیں کہ 2014 کے بعد بھی افغانستان میں امریکی افواج درجنوں کی تعداد میں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں موجود رہیں گی ۔ ان ہزاروں امریکی افواج کے مستقل قیام کے لیے امریکہ افغانستان میں 9 فوجی اڈے قائم کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ یہ بات بھی کئی موقعوں پر واضع کرچکا ہے کہ مذاکرات کی کامیابی کے لیے یہ ضروری ہے کہ امریکہ کی نگرانی میں بنائے گئے افغانستان کے آئین کو لازماً قبول کیا جائے۔ ان تمام باتوں سے بڑھ کر اوبامہ اورکرزئی 2مئی2012 کو ایک سٹریٹیجک معاہدے پر دستخط کرچکے ہیں جس کے تحت 2014 کے بعد بھی امریکہ کو افغانستان میں سیکیورٹی کے امور کے علاوہ بھی کام کرنے کی اجازت ہو گی۔
یہ صورتحال کس طرح پاکستان کی کامیابی ہوسکتی ہے؟ وہ ملک جو اپنے "کالے بجٹ" کا بڑا حصہ اپنے اعلانیہ دشمنوں ایران اور شمالی کوریا کے خلاف خرچ نہیں کررہا بلکہ پاکستان اور اس کے ایٹمی اثاثوں کی جاسوسی پر خرچ کررہا ہے ،اسے پاکستان کی دہلیز،افغانستان میں مستقل قیام کی اجازت دے دی جائے گی۔ اس کے علاوہ پاکستان کا ازلی دشمن بھارت افغانستان میں امریکی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے خلاف سازشوں کے سلسلے کوجاری رکھ سکے گا۔ یقیناً ہندو ریاست نے پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے کے لیے افغان سرحد کے ساتھ قونصلیٹس کے پردے میں سینکڑوں اڈے قائم کررکھے ہیں ۔ تو پھر کس طرح پاکستان کی دہلیز پر ہزاروں امریکی افواج کی موجودگی پاکستان کی کامیابی ہوسکتی ہے؟
یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ آمریت اور جمہوریت دونوں ہی امریکی مفادات کا تحفظ کرتی ہیں اور جو بھی جماعتیں ان دونوں میں سے کسی میں بھی شرکت کرتی ہیں کبھی بھی امریکی مطالبات اور احکامات سے روگردانی کرنے کی جراءت نہیں کرسکتیں۔ پاکستان میں صرف خلافت کا قیام ہی خطے سے امریکی راج کا خاتمہ کرسکتا ہے۔ خلافت امریکی سفارت خانہ، قونصلیٹس، اڈوں اور نیٹو سپلائی لائن کو بند اور اس کے سفارتی و فوجی اہلکاروں کو ملک بدر کردے گی۔ اور اگر اس کے بعد بھی امریکہ نے اس خطے میں رہنے کی کوشش کی تو خلافت افواج اور مخلص مجاہدین کی مشترکہ طاقت کے ساتھ اس کے خلاف جہاد کا اعلان کردے گی۔

Read more...

آل پارٹیز کانفرنس :امریکی راج کو برقرار رکھنے کی کوشش امریکہ کےہاتھوں ہماری خودمختاری کی دھجیاں اڑانے کے لیےکیانی و شریف حکومت نے مزید وقت حاصل کرلیا

9ستمبر2013 کو ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس اور اس میں منظور کی جانے والی قرارداد پاکستان میں امریکی راج کو مزید دوام بخشنے کی ایک اور کوشش ہی ثابت ہوئی۔ ایک طرف تو قرارداد یہ اعلان کرتی ہے کہ پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کا تحفظ کیا جائے گا لیکن اس کے ساتھ ہی اس بات کو بھی یقینی بنایا گیا کہ امریکہ پاکستان کی خودمختاری سے ماضی کی طرح کھیلتا بھی رہے۔ اس قرارداد میں ڈرون حملوں کی مذمت کی گئ جس کے نتیجے میں ہزاروں مسلمان مرد، عورتیں اور بچے شہید ہوچکے ہیں جبکہ پاکستان تن تنہا امریکہ کے ڈرون پروگرام کو تباہ و برباد کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے ۔اس کے علاوہ اس بات کے باوجود کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے مسلمانوں کو اپنے معاملات کو کفار کے پاس لے جانے سے منع فرمایا ہے اور یہ کہ اقوام متحدہ استعماری طاقتوں کی آلہ کار ہے جس کو امریکہ اپنے مفادات کے حصول کے لیے جب چاہتا ہے استعمال کرتا ہے اور جب چاہتا ہے نظر انداز کردیتا ہے ،اس کانفرنس نے ڈرون حملوں کے خاتمے کے لیے سلامتی کونسل سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔ اِسی طرح اس قرارداد میں اُن لوگوں سے مذاکرات کرنے کی بات کی گئی ہے جو امریکیوں سے لڑ رہے ہیں جس کا مقصد صرف انخلاء کے دھوکے میں افغانستان میں امریکیوں کے لیے مستقل فوجی اڈوں کے قیام کو یقینی بنانا ہے۔
یہ کانفرنس درحقیقت پاکستان کو اِس امریکی جنگ سے نکالنے کے لیےنہیں بلکہ اِس جنگ کو مزید دوام بخشنے کا باعث ثابت ہوئی کیونکہ کانفرنس میں یہ کہا گیا کہ "دہشگردی کے خلاف جنگ کے طریقہ کار اور وسائل کا فیصلہ خود کرینگے"۔افسوس کہ وہ جماعتیں جو عوام کے سامنےدن رات اِس امریکی جنگ سے پاکستان کو نکالنے کا مطالبہ کرتی رہتی ہیں انھوں نے بھی اس قرارداد پر دستخط کر کے یہ ثابت کیا کہ وہ امریکہ مخالف عوام کے جذبات کو محض اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ لہذا ایک بار پھر یہ ثابت ہواہے کہ جمہوری نظام میں کوئی بھی حکمران بن جائے وہ ہمیشہ امریکہ اور استعماری طاقتوں کے مفادات کا ہی تحفظ کرتا ہے۔
اس کانفرنس میں افغانستان میں صلیبیوں کی زندگی کو برقرا رکھنے والی نیٹو سپلائی لائن کی بندش کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا جووحشی مغربی افواج کے لیے ہتھیار، شراب اور سور کے گوشت کی فراہمی کا باعث ہے۔ نہ اس کانفرنس میں ملک سے امریکہ کے فوجی، انٹیلی جنس اور نجی فوجی اہلکاروں کی ملک بدری کا مطالبہ کیا گیا جو پاکستان میں امریکی جنگ کو جاری رکھنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ اور نہ ہی اس کانفرنس میں امریکی سفارت خانے اور قونصل خانوں کی بندش کا ٖفیصلہ کیا گیا جہاں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف منصوبے بنائے جاتے ہیں اور ان پر عمل درآمد کے لیے کیانی و شریف حکومت کو احکامات جاری کیے جاتے ہیں۔
حزب التحریر ولایہ پاکستان تمام جماعتوں سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ اگر اُن کی عوام میں کوئی نیک نامی رہ گئی ہے تو اُسےپاکستان کو تباہ کرنے پر تلے، امریکہ اور اس کے ایجنٹوں ،کو مزید وقت فراہم کر کے مت ضائع کریں۔ اب وقت آچکا ہے کہ آپ بھی کھل کر ملک میں امریکی راج کی نگہبان جمہوریت کے خاتمے کا مطالبہ کریں اور خلافت کے قیام کے لیے جدوجہد کریں۔ ایک ایسے وقت میں جب امت اسلام اور اس کی حکمرانی کا مطالبہ کررہی ہے اور خلافت کی واپسی کے آثار بھی واضع ہیں ، اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو وہ وقت دور نہیں جب امت آپ کو بھی غدار حکمرانوں کے ساتھیوں کے حوالے سے ہی یاد کرے گی۔ اور اگر آپ میں کوئی شرم و حیا نہیں تو پھر آپ کا جو جی میں آئے کریئے!

 

Read more...

شام کےجابر اور امریکی ایجنٹ بشار الاسد کی جانب سے شام کے مسلمانوں کے خلاف کیے جانے والے کیمیائی حملے کے خلاف حزب التحریر کے مظاہرے

آج حزب التحریر نے ڈھاکہ، چٹاگانگ اور سلہٹ کی مساجد کے سامنے مظاہرے کیے ۔ یہ مظاہرے شام کے جابر اور امریکی ایجنٹ بشار الاسد کی جانب سے شام کے مسلمانوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کے خلاف کیے گئے۔ مظاہروں میں مقررین نے ظالم بشار حکومت کی مسلمانوں کے خلاف گھناؤنے جرائم کی شدید مذمت کی۔ انھوں نے نام نہاد بین الاقوامی برادری خصوصاً امریکہ اور روس کی بشار حکومت کو فراہم کی جانے والی مددو وحمائت پر روشنی ڈالی اور اس کی مذمت کی۔ یہی وہ حکومتیں ہیں جنھوں نے بشار کو مسلمانوں کے خلاف اس قدر ظالمانہ اقدامات اٹھانے کی اجازت دی تا کہ شام کے مسلمانوں کی اس اسلامی مزاحمت کو ختم کیا جاسکے جس کے ذریعے وہ خلافت کا قیام چاہتے ہیں۔
مقررین نے اسلامی افواج سے مطالبہ کیا کہ وہ بشار کے خلاف حرکت میں آئیں۔ انھوں نے بنگلادیش کی فوج سے بھی یہ مطالبہ کیا کہ وہ اس عظیم سعادت کے حصول کے لیے سب سے پہلے حرکت میں آئیں تا کہ دنیا اور آخرت کی عزت حاصل کرسکیں ،جبکہ اقوام متحدہ کے لیے فوجی خدمات انجام دینے کے عوض انھیں"امریکہ اور مغرب کے کرائے کے فوجی" کے ذلت آمیز خطاب سے نوازا جاتا ہے۔ آخر میں مقررین نے اللہ سبحانہ و تعالی سے یہ دعا کی کہ وہ شام میں مسلمانوں کو کامیابی عطا فرمائے اور بشار اور اس کے آقاؤں کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کرے۔
مظاہروں کے اختتام پر حزب التحریر کے اراکین اورحامیوں نے حزب التحریر ولایہ شام میں حزب التحریر کے میڈیا آفس کے سربراہ ہشام البابا کی مندرجہ ذیل پریس ریلز بھی تقسیم کی جس کا عنوان یہ ہے:
دمشق کے مضافات میں کیمیائی ہتھیاروں کے ذریعے قتل عام کے بارے میں پریس ریلیز
کیا امت کے شرفا کے لیے اب بھی وقت نہیں آیا کہ وہ اہل شام کی مدد کے لیے حرکت میں آئیں!!

ولایہ بنگلادیش میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

 

Read more...

شام کا نکمابشارالاسدبھی کیا عجوبہ ہے: ڈولتی ہوئی کرسی پر کچھ دیر اور بیٹھے رہنے کے بدلے میں اپنے دین، اپنے لوگوں، اپنے اسلحے اورمتاع کوبیچ رہا ہے!

شام کے کیمیائی ہتھیاروں کو تباہ کرنے کی غرض سے ان ہتھیاروں کوبین الاقوامی نگرانی میں دینے کا مطالبہ ڈرامے کی قسطوں کی طرح منظر عام پر آرہا ہے۔ اس کی ابتدا 9ستمبر2013کو جان کیری کی اپنے برطانوی ہم منصب کے ساتھ لندن میں پریس کانفرنس کے دوران اس بیان سے ہوئی کہ بشار کیمیائی ہتھیاروں کا ذخیرہ بین الاقوامی برادری کے حوالے کر کے عسکری حملے سے بچ سکتا ہے۔ اسی کے تھوڑی دیر کے بعد روس کے لاروف نے کہا کہ اس نے جان کیری کی تجویز سن لی ہے اور عنقریب روس شام کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس کے تقریبا ایک گھنٹے کےبعدشام کے وزیر خارجہ ولید المعلم نےماسکو میں صحافیوں کے سامنے کھڑے ہو کر شام کے سرکش کی حکومت کی طرف سے اس تجویز کو قبول کرنے کا اعلان کیا۔ اوراس کے چند گھنٹے بعد10ستمبر 2013 کوفرانسیسی وزیر خارجہ یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ اس موضوع کے حوالے سے ایک منصوبہ سلامتی کونسل میں پیش کرے گا۔ ساتھ ہی برطانیہ سے لے کر جرمنی اور چین تک، کئی ممالک شام کے کیمیائی اسلحے کو تباہ کرنے کی حمایت کرنے لگے۔ حتی کہ ایران نے بھی اسے خوش آئند قرار دیا۔ یہ سب ان ممالک پر امریکہ کی بالادستی کو بے نقاب کر تا ہے!
اس تمام کے بعد سرکش بشار نےاس اسلحے کو تباہ کرکےراکھ کا ڈھیر بنا نے کی حامی بھری، جس کی قیمت امت نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے ادا کی تھی۔ رہی بات اس بہانے کی کہ جس کا ذکر شامی وزیر خارجہ معلم نے ماسکو میں کیا کہ شام اپنے لوگوں کا خون بہانے سے بچنے اور امریکی عسکری حملے کو روکنے کے لیے یہ تجویز قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ تو یہ سب جھوٹ ہے،کیونکہ اس کا آقا اور اس کے غنڈے تو پہلے ہی بے حساب خون بہا چکے ہیں،لوگوں کی عزتوں کو پامال کر چکے ہیں،ہزاروں کو گرفتار اور لاکھوں کو جلاوطن کر چکے ہیں،لوگوں پر ہوائی جہازوں اور میزائلوں کے ذریعے جلاکر راکھ کردینے والے مواد کے ڈرم گراچکے ہیں۔ اور اس تمام کے بعدوہ اُن کیمیائی ہتھیاروں کے ذریعے بھی شام کے لوگوں کو بے دریغ قتل کر چکے ہیں،کہ جن ہتھیاروںکی قیمت انہی لوگوں نے اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر اس لیے ادا کی تھا کہ دشمن سے ان کی حفاظت ہو سکے ۔ لیکن یہ ہتھیاردشمن کے لیے توامن اور سلامتی بنے رہے اور ان کے اپنے لیے ایسی آگ ثابت ہوئے کہ جس نے ان کو جلاکر راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ اوریہ کہنا بھی محض جھوٹ ہے کہ عسکری حملے سے بچنے کے لیے ایسا کیا جارہا ہے کیونکہ ان ہتھیاروں کو ضائع کرنے کے بعد عسکر ی مداخلت تو زیادہ آسان ہو گی کیونکہ طاقتور پر حملہ نہیں کیا جاتا۔ یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ اگر امریکہ نے شام پر حملہ کر نے کا فیصلہ کر لیا تو اس کا پالتو بشارالاسدمخالفت کی جرات نہیں کر سکتا،بلکہ وہ امریکہ کی مرضی کے بغیرروتے ہوئے آواز کو بھی بلند نہیں کر سکتا! سرکش بشارکیمیائی اسلحے کے ذخائر کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی نگرانی میں دینے کی حامی بھر کر شام کی سر زمین کی پامالی کی راہ ہموار کر رہا ہے،کیونکہ اس کے بعد ان ذخائر کے مقامات کے تعین کے لیے تفتیش کار وں کی اۤمد کا سلسلہ شروع ہو گا اور اس کے لیے امریکی اور مغربی افواج کی ضرورت پڑے گی،یوں سرکش بشارکی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کو حوالے کر نا امریکی مداخلت کو نہیں روکے گا۔
اے مسلمانو: حافظ الاسداور بشار کا خاندان تقریبا نصف صدی سےامریکہ کی خدمت کر رہے ہیں،انہوں نے خطے میں امریکہ کے مفادات کی حفاظت کی اور یہودی ریاست کے سیکیورٹی گارڈ بنے رہے۔ اورجب لوگ اِس سرکش کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ہی سرکش بشارکو لوگوں کےقتل اور پکڑ دھکڑ کے وسائل مہیا کیے تاکہ وہ ان کو کچل سکے، لیکن بشارایسا نہ کر سکا۔ تب بشارکے آقاؤں نے سوچا کہ اس کا متبادل اسی جیسا خائن ایجنٹ لایا جائے جس کے لیے انہوں نے شامی قومی اتحاد اور قومی کونسل تیار کی۔ پھر اندرونی طور پر لوگوں کے سامنے ان کی مارکیٹنگ میں سردھڑ کی بازی لگادی لیکن وہ اپنے منصوبے میں کامیاب نہیں ہو سکے،کیونکہ لوگ چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ ''یہ (انقلاب)صرف اللہ کے لیے ہے،یہ(انقلاب)صرف اللہ کے لیے ہے"، ''ہمارے ابدی قائد اللہ کے رسول محمد ﷺ ہیں" ان نعروں اور فلک شگاف تکبیروں نے ان کی نیندیں حرام کردیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے شام کے سرکش حکمران بشار اور اس کے کارندوں کو قتل اور پکڑ دھکڑ کے لیے مہلت پہ مہلت دی۔ جبکہ شام سے باہر ان طاقتوں کے پالے ہوؤں نےلوگوں کو جمہوریت اورسِول عوامی حکومت کے لیے قائل کرنے کے لیے سرتوڑ کوشش کی،لیکن نامراد ہو کر الٹے پاؤں لوٹ گئے۔
اس کے بعد امریکہ عسکری کاروائی کرنے کے لیے طبل بجانے لگا، جس کا مقصد جنیوا 2 مذاکرات میں متبادل ایجنٹ حکومت کے لیے راہ ہموار کرنا تھا۔ لیکن امریکہ عسکری کاروائی کے لیے مہلت پہ مہلت دیتا رہا تاکہ اس بات کا اطمنالن کیا جاسکے کہ حملے کے نتیجے میں سب کو عسکری دباؤ کے زیر سایہ جنیوا جانے کے لیے مجبور کیا جائے۔ اسی لیے اوباما کبھی بندوق ہاتھ میں اٹھاتا ہے اور کبھی اس کو زمین پر پھینکتانظر آرہا ہے۔ کبھی کہتا کہ میں نے فیصلہ کر لیا، کبھی کہتا کہ مجھے کانگریس کا انتظار ہے۔ اس دوران وہ اس حملے کے ممکنہ نتائج کابھی جائزہ لیتا رہا کہ کیا یہ حملہ جنیوا مذکرات اور متبادل ایجنٹ مسلط کر نے پر مجبور کر سکتا ہے یا نہیں، اوراگر نہیں کرسکتا تو کیااس کو نافذ کرنے کے لیے مزید مہلت دی جائے؟
لیکن شام کی سرزمین پر مسلمانوں کی تکبیروں نے سرکش بشارکے ساتھ مذکرات کے لیے جنیوا جانے کے امکان کو ختم کر دیا، کیونکہ جو بھی سرکش یا اس کے ہر کاروں کے ساتھ بیٹھے گا وہ بدنامِ زمانہ غدارابورغال کے نقشِ قدم پر چلے گا۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے دیکھ لیا کہ اس حملے کے نتیجے میں جنیوا مذاکرات تک پہنچنا مشکوک ہے،لہٰذا مزید وقت اور مزید دباؤ کی ضرورت ہے۔ امریکی مشکل وقت میں مہلت سے کام لینے کے عادی ہیں،چنانچہ وہ یہاں بھی اسی پر مجبور ہیں،کانگریس اور پارلیمنٹ میں بحث کو طول دے رہے ہیں اور ووٹنگ کو اس انتظار میں موخر کر رہے ہیں کہ لوگ قتل و غارت،پکڑ دھکڑ اور عسکری مداخلت کے خوف سے سرکش کے ساتھ مذکرات کے لیے جنیوا جانے پر راضی ہو جائیں۔ کیونکہ حملہ بذات خود مقصود نہیں،بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ اس کے بعد جنیوا مذکرات میں متبادل ایجنٹ کی حکومت کو مسلط کیا جاسکے۔ کیونکہ ان کو ڈر ہے کہ امریکہ کی جانب سے اپنے ایجنٹ تیار کر نے سے قبل شام میں وہ مخلص مسلمان اقتدار حاصل کرلیں گے ، جوکفار کے آلہ کار اور مددگار بننے کے لیے تیار نہیں،اورجو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو خطے سے مار بھگانے کی کوشش کر رہے ہیں،جس کی وجہ سے ان کی لے پالک یہودی ریاست کی سیکیورٹی کو خطرات لاحق ہوجائیں گے، بلکہ اس کے وجود کو ہی صفحہ ہستی سے مٹانا ان مخلص مسلمانوں کا ہدف ہو گا۔ اس وجہ سے ان کفارکے شیطانی ذہن نے یہ منصوبہ بنایا کہ اس طاقت ور اسلحے کو ہی تباہ کردیا جائے جو یہودی وجود کی سیکیورٹی کو متاثر کر سکتا ہے،خاص طور پر جب ان کو معلوم ہے کہ ان کا پالتوبشار ان کے حکم سے سرتابی نہیں کر سکتا،بلکہ ان کے کسی اشارے کو بھی رد نہیں کر سکتا۔ اسی لیے یہ ڈرامہ قسط در قسط منظر عام پر آرہا ہے جس کا پروڈیوسر امریکہ ،اور"کامیڈین"روس ہے جبکہ "قربانی کا بکرا" امت کا خائن شام کا سرکش بشارہے۔
اے مسلمانو! کانٹوں کی سیج جواں مردوں کے لیے ہی ہوتی ہے،کیا ان مصائب سے بڑھ کر بھی کوئی مصیبت ہو سکتی ہےکہ جنہیں تم برداشت کر چکے ہو؟! تم تواُس امت سےتعلق رکھتے ہو جو غفلت میں نہیں پڑی رہتی،وہ امت جس نے صلیبیوں کو شکست سے دوچار کیا اور تاتاریوں کا صفایا کیا۔ یہ اس وقت ہوا کہ جب دشمنوں نے یہ گمان کر لیا تھا کہ یہ ختم ہو چکی ہے،لیکن یہ امت اپنے سرچشمے کی طرف لوٹ اۤئی،اپنے دین اور اپنی خلافت کی طرف اور اس کے بعد پھر دنیا کی قیادت سنبھال لی،تب دشمن کو یہ پتہ چل گیا کہ اس کا گمان محض ایک پراگندہ خواب تھا۔ اس لیے آج بھی تم اپنی قوت کے اسباب کی طرف لوٹ آؤ،اپنے دین اور اپنی خلافت کی طرف۔ کمر کس لو! اے بصیرت رکھنے والو! عبرت حاصل کرو،جان لو کہ مصیبت آتی ہے تو اکیلے سرکش ظالموں پر نہیں آتی بلکہ ظلم پر خاموش رہنے والے بھی اس کی زد میں آتے ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے﴿وَاتَّقُوا فتنَةً لَاتُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾"اس مصیبت سے ڈرو جو تم میں سے صرف ظالموں کو ہی اپنے لپیٹ میں نہیں لے گی،اور جان لو کہ اللہ سخت سزادینے والاہے"۔ اورامام احمد نے اپنے مسند میں مجاہد سے نقل کیا ہے کہ:ہمارے مولیٰ(آزاد کردہ غلام )نے روایت کیا کہ اس نے میرے دادا سے سنا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:(ان اللہ لا یعذب العامۃ بعمل الخاصۃ، حَتَّى یرَوْا الْمُنْكَرَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ،وَهُمْ قَادِرُونَ عَلَى أَنْ ينُكِرُوهُ فَلَا يُنْكِرُوهُ فاذا فعلوا ذلک عذب اللہ الخاصۃ والعامۃ)"بے شک اللہ تعالیٰ خواص کے عمل کی وجہ سے عوام کو عذاب نہیں دیتا،یہاں تک کہ وہ اپنے سامنے منکر کو ہوتادیکھیں ،اور وہ اس کا انکار کرنے پر قادر بھی ہوں لیکن انکار نہ کریں ،جب وہ ایسا کریں تو اللہ عوام وخواص دونوں کو عذاب دیتا ہے"۔ اسے ابن ابی شیبہ نے بھی اسی طرح اپنی مسند میں نقل کیا ہے۔
اے مسلمانو! یہ یقینا ایک المیہ ہے کہ ہمارے اسلحے کو طاغوتی حکمرانوں کی رضامندی سے تباہ کیا جارہا ہے۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ امت زمین میں فساد برپا کرنے والے اور ہر سیاہ وسفید کو تباہ کرنے والے ان طاغوتی حکمرانوں کو ہٹا نے کے لیے اپنی افواج پر دباؤ نہیں ڈالتی۔ یہ بھی انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ہم اپنا خون بہتا ہوا دیکھ رہے ہیں اور اسے روکتے نہیں،اپنے اسلحے کو تباہ ہوتا ہوا دیکھتے ہیں اوراس کی حفاظت نہیں کرتے،اپنی دولت کو لٹتا ہوا دیکھتے ہیں لیکن اس کی طرف بڑھنے والے ہاتھ کو کاٹتے نہیں،ہم اپنے علاقوں کو گھٹتا ہوا دیکھتے ہیں لیکن اس کوروکتے نہیں،عزتوں کو پامال ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں اور ہماری رگوں میں موجود خون نہیں کھولتا۔
اپنے دین کے بارے میں اللہ سے ڈرو،اپنی امت کے بارے میں اللہ سے ڈرو،اپنی خلافت کے بارے میں اللہ سے ڈرو،اپنے اسلحے کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ ان سب کو دانتوں سے پکڑو۔ خلیفہ جو کہ ڈھال ہو تا ہے، کی قیادت میں اپنے دین کی مدد اور اپنے دشمن کو شکست دینے کے لیے تیار ہو جاؤ،اسی کی قیادت میں لڑو،تم اسی کے ذریعے محفوظ ہو گے۔ اگر تم نے ایسا کیا تو اپنی شان وشوکت کو بحال کرو گے اور دنیا وآخرت کی کامیابی تمہارے قدم چومے گی۔ اوراگر تم نے ایسا نہ کیا تو دشمن نہ صرف تمہارے اسلحے کوتمہارے ہی ہاتھوں تباہ کرے گا بلکہ تم اس کو اپنے گھروں میں گھسنے کی دعوت خو ددو گے۔ اوراس وقت تمہاری نجات کا کوئی ذریعہ نہیں ہوگا!
﴿إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ ﴾"بے شک اس میں اس شخص کے لیے نصیحت ہے جو دل رکھتا ہے یاسنتا ہے اور وہ گواہی دیتا ہے"

Read more...

شام اور مصر میں امریکی جرائم پر مذمتی جلسہ اللہ کے فضل سے اختتام کو پہنچا "ہمارا اسلام نہ کہ ان کی جمہوریت"  

اللہ کے فضل و کرم سے حزب التحریر ولایہ اردن کی جانب سے شام میں امریکی مداخلت اور اپنے ایجنٹ بشار اور مصر میں اپنے ایجنٹوں کے جرائم کی پردہ پوشی کی مذمت کے سلسلے میں منعقد کیا جانے والا جلسہ کامیابی سے اختتام کو پہنچا۔اس جلسے میں شرکت کے لیے شام کی سرزمین اردن کے باشندوں کی ایک بڑی تعداد نے حزب کی دعوت پر لبیک کہا اورانتہائی گرم موسم کےباوجود جلسے میں بہت بڑہ تعداد میں شرکت کی۔

جلسے کا افتتاح قرآن حکیم کی تلاوت سے کیا گیا۔پھر حزب التحریر ولایہ اردن کے میڈیا آفس کے انچارج محمود قطیشات نے ابتدائی کلمات کہے،جس میں انہوں نے کفار کی طرف جھکاؤ اور ان پر اعتماد کرنے کے بارے میں محتاط رہنے پر گفتگوں کرتے ہوئے کہاکہ " یہی امریکہ اور کافر ممالک پسے پردہ خود اور اپنے ایجنٹوں اور کارندوں کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف وحشیانہ صلیبی جنگ میں مصروف ہیں۔وہ افغانستان،پاکستان اور یمن میں اپنے اسلحے اور ڈرونز کے ذریعے مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں اور شام کی سرزمین پر اپنے ایجنٹ سرکش بشار کے ذریعے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں اوراس کو جینے کے اسباب مہیا کر رہا ہے۔ یہی مصر میں اپنے ایجنٹ سرکش السیسی کے ذریعے رابعہ ، النہضہ میں،سڑکوں اور مساجد میں مسلمانوں کا قتل عام کروارہےہیں "۔انہوں نے اپنے خطاب میں مسلمانوں کو خبردار کیا کہ مشرقی یا مغربی کافروں کو کسی بھی بہانے اپنے اندرونی معاملات میں سیاسی یا عسکری مداخلت کی اجازت نہ دیں کیونکہ یہ کام اللہ،اس کے رسول اور مؤمنوں سے خیانت ہے۔انہوں نے مسلمانوں پر بھی زور دیا کہ وہ اس پر آشوب دور سے نکلنے کے لیے موجودہ حکمرانوں کو اتار پھینکنے ، اسلام کے اقتدار کو واپس لانے اوراس ریاست خلافت کو قائم کرنے کے لیے جدوجہد کر یں جو امریکہ اور ان ممالک کے ہاتھ کاٹ دے گی جو اسلامی سرزمین میں دراندازی کی جسارت کریں گے۔

استاد بلال القصراوی نے بھی خطاب کیا اور شام میں میں سفاک بشار کی پشت پناہی اور شام کے انقلابی تحریک کے خلاف سازشیں کرنے کے بارے میں امریکہ کے کردار کو بے نقاب کیا۔انہوں نے شام کے مخلص انقلابیوں کو داد دی اور یہ کہا کہ شام کے مخلص انقلابی کبھی بھی اپنے انقلاب کا رخ موڑنے کی امریکی کوششوں کو کامیاب ہو نے نہیں دیں گے اوروہ ایک ایجنٹ کی جگہ دوسرے ایجنٹ کو قبول نہیں کریں گے۔اس کے بعد استاد ابو بکرالفقہاء نے بھی خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کو کفار پر انحصار کرنے سے خبردار کیا اورشام اور مصر کے اسلامی تحریکوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اپنے دین کے کسی بھی جزء سے پیچھے ہٹھنے کو قبول نہ کریں اورآپ کا مقصد کسی صدر کو برطرف کر کے کسی اور کو اس کی کرسی پر برجمان کرنا نہیں،بلکہ آپ کا نصب العین ریاست خلافت کے قیام کے ذریعے اللہ سبحانہ وتعالی کے دین کو نافذ کرنا ہونا چاہیے۔

جلسے میں زبردست نعرے بھی لگائے گئے جن میں سے کچھ یہ ہیں،"شام کے انقلابی کہتے ہیں کہ ہم اپنے دین کو تمہاری جمہوریت سے نہیں بدلیں گے"،"کب تک شام اور مصر میں ہمارا خون مغرب کے لیے قربان ہوتا رہے گا"،"انہوں نے یہ کہہ کر جھوٹ بولا کہ :جمہوریت حل ہے جس کا شاخسانہ رابعہ العدویہ تھا!" اور"تماری مداخلت دشمنی ہےاور تمہارے مددگاروں کو بچانے کے لیے ہے"۔ علاقائی اور بین الاقوامی میڈیا نے اس جلسے کو انتہائی درجے کے سیکیوریٹی کے باوجود کیوریج دی اوربہت سے ذرائع ابلاغ کے اداروں نے میڈیا آفس کے سربراہ اور دوسرے شرکا کا انٹر ویو بھی کیا۔

 

 

میڈیا آفس حزب التحریر
ولایہ اردن

 

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک