تبدیلی لانے کے لیۓ حزب التحریر کا منہج
- Published in حزب التحریر کی تعریف
- سب سے پہلے تبصرہ کرنے والے بنیں
- |
اقوامِ متحدہ کی قرارداد نمبر 1860 مسلم دنیا کے حکمرانوں کے منہ پر شرمناک طمانچہ ہے
امریکہ نے نئے صدر کی سربراہی میں اسلام کے خلاف صلیبی جنگ کے لیے دوبارہ عہد کر لیا
30 مارچ کی صبح جدید اسلحے سے لیس درجن کے قریب نامعلوم افراد نے لاہور کے علاقے مناواں میں پولیس ٹریننگ سکول پر حملہ کر دیا، جس کے نتیجے میں کئی پولیس اہلکار ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے ۔ اس واقعے کے بعد حکومت نے بلاتاخیر اس سانحے کو قبائلی علاقے سے منسلک کیا جہاں امریکہ جنگ کی آگ کو بھڑکائے رکھنا چاہتا ہے ۔
گزشتہ کچھ عرعے سے ہم کوپن ہیگن کے علاقوں میں مختلف گینگوں (gangs) کے مابین ایک بڑھتا ہوا تنازع دیکھ رہے ہیں ۔
17 رمضان کو غزوہءبدر ، جس میں رسول اللہ ﷺ نے کفار پر یقینی فتح حاصل کی تھی ،کے یادگار دن کے موقع پرحزب التحریر ولایہ پاکستان نے پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں "رمضان -غلبہ ء اسلام کا مہینہ" کے عنوان سے سمینارز منعقد کیے ۔ ان سمینارز میں یہ اعلامیہ جاری کیاجاتاہے:
سلام ان پر جس نے اللہ کی ہدایت کی پیروی کی !
جزب التحریر ایک فکری اور سیاسی جماعت ہے جو کہ تمام اسلامی ممالک میں خلافت کے دوبارہ قیام کے لیے جدوجہد کر رہی ہے ۔ ۔ ۔
7اپریل 2009کو اوباما نے ترکی کا دورہ مکمل کر لیا۔ امریکی صدر اوباما کا یہ دورہ ظاہری طور پر خوش نمابیانات سے پُر تھا، کہ جن کے ذریعے اس نے یہ ثابت کر نے کی کو شش کی کہ وہ اسلام یا مسلمانوں کے ساتھ حالتِ جنگ میں نہیں ہے ،نیز ترکی امریکہ اور پوری دنیا کے لیے اہم ملک ہے کیونکہ وہ اسلامی دنیا اور مغرب کے درمیان پُل کا کام دے سکتا ہے۔ اُس نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اسلامی دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات محض دہشت گردی کے خلاف لڑنے تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ کئی دیگر امور پر مشتمل ہیں۔ اور اوبامااسلامی دنیا اور مغرب کے مابین ڈائیلاگ بنانے کی کوشش کرے گا ۔ ترک پارلیمنٹ کے سامنے اپنے خطاب اور ترکی میں ہونے والی دیگر ملاقاتوں اور کانفرنسو ں میں اوباما نے انہی خطوط پربات کی۔
اوباما کے دورۂ استنبول اور لوگوں سے خطاب کودوماہ بھی نہیں گزرے کہ اب اس نے مصر اور جزیرہ نما عرب کا رخ کیا ہے ۔ مصرکی حکومت نے جمعرات،4 جون 2009 کو اوباما کا ایساشاندار استقبال کیا کہ جیسے کسی فاتح کا استقبال کیا جاتا ہے ۔ 9 بجے صبح جب اس کا جہاز اترا ، بلکہ اس سے بھی قبل ائرپورٹ اور اس کے گردو نواح میں سیکیورٹی اتنی سخت تھی کہ جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ سیکورٹی فورسز ہر طرف موجودتھیں اور کفر کے سردار ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر کو عالی شان پروٹوکو ل میسر تھا، جس کے ہاتھ ابھی بھی افغانستان، عراق اور پاکستان کے مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔
مصرکی حکومت نے صدر اوباما کے لیے لمبا چوڑا کانوائے (convoy)تیار کیا تھا ، جسے ایلیٹ کیولری گارڈز نے ہر طرف سے گھیرے میں لے رکھا تھا ، نیز آرام دہ لیموزین اور موسیقی والے بینڈ بھی اس کانوائے کے ہم سفرتھے۔ مصرکے صدر نے صدارتی محل القبہ کے دروازوں پر اوباما کااستقبال کیا اور پھر اسے قاہرہ یونیورسٹی لے جایا گیا تاکہ وہ اس کے منبر پر چڑھے اور مسلمانوں سے خطاب کرے۔
(رض)آس حقیقت کے باوجودکہ اس کی تقریر کا مضمون سابق امریکی صدر کی پالیسیوںسے مختلف نہیں تھا ، خواہ وہ مسلمان ممالک کے خلاف امریکہ کی جنگیں ہوں ، یا فلسطین کا مسئلہ ہو، یا امریکہ کا یہودی ریاست سے خاص تعلق ہو، یا ایٹمی ہتھیاروں کا معاملہ ہو یا کوئی بھی چھوٹا یا بڑا مسئلہ ہو؛ اس کی تمام تر تقریر امریکی مفادات کے گرد گھومتی رہی اور تقریر کے دوران اس نے مسلم رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی تاکہ مسلمان اسلامی علاقوں پرمسلط امریکہ کی جنگوں کو اپنے حلق سے نیچے اتار لیں ۔
تاہم اوباما کی تقریر کا خاکہ سابق امریکی صد ر کی نسبت بظاہراًنرم اورخوشمنا تھا ، یہ یقینی طور پر عوامی تعلقات کی مشق تھی۔ اس تقریر سے اوباما کے اپنے اعتقادات اور دھوکہ دینے کے فن کا اندازہ ہوتا ہے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا:﴿ وَإِذَا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ ۖ وَإِنْ يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ ۖ كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُسَنَّدَةٌ ۖ يَحْسَبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ ۚ هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ ﴾ ''اور جب تم ان کو دیکھتے ہو تو ان کے جسم تمہیں بھلے معلوم ہوتے ہیں،اور جب وہ گفتگو کرتے ہیں تو تم توجہ سے ان کی بات سنتے ہو۔ گویا یہ لکڑیاں ہیں، سہارے سے لگائی ہوئیں، ﴿بزدل اتنے کہ﴾ ہر آواز پر سمجھیں کہ گویا ان پر کوئی مصیبت آپہنچی، یہ تمہارے دشمن ہیں ان سے بے خوف نہ رہنا‘‘﴿المنفقون: 4﴾
البتہ جہاںتک حساس اور اہم معاملات کا تعلق ہے تو اوباما کی تقریر واضح طور پرنوک دار اور جارحانہ تھی اور اس سے مسلم معاملات کے بارے میں غیر معذرت خوانہ دشمنی عیاں تھی۔ ﴿وَ مَا تُخْفِیْ صُدُوْرُھُمْ اَکْبَرُ ﴾ '' اور جو کچھ ان کے دلوں میں پوشیدہ ہے وہ تو اس سے بھی بڑھ کر ہے‘‘﴿اٰل عمرن: 118﴾
اس نے اپنی بات کا آغاز ان لوگوں کو دھمکانے سے کیا جنہیں وہ افغانستان اور پاکستان میں موجود ''دہشت گرد ‘‘کہتا ہے اور اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ انہیں برداشت نہیں کرے گا اور اقوام سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کے خلاف جنگ کریں۔ اس نے فخریہ انداز میں کہا کہ امریکہ نے افغانستان میں اِن لوگوںکے خلاف لڑنے کے لیے 46ملکوں کا اتحاد جمع کیا ہے! وہ صرف اسی پر مطمئن نہیں بلکہ اس نے پاکستان میں براہِ راست اور بالواسطہ طور پر میزائل داغنے شروع کر دیے اور اسے اس اقدام کی ذرابھی پرواہ نہیں، بلکہ اس نے بچوں ، بوڑھوں اور عورتوں کے بے رحم قتل کی توجیح پیش کرنے کی کوشش کی۔ اس نے اس قتل کو غیرارادی غلطیاںقرار دیا،حالانکہ ایسے واقعات افغانستان میں کئی مرتبہ ہو چکے ہیں!! اور اگر بچوں اور عورتوں کا یہ قتل منظرِ عام پر نہ آئے توان کے قتل کو بھی دہشتگردوں کی ہلاکت کی فہرست میں شمار کر لیا جاتا ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اوباما کی نظر میں ہر وہ مسلمان انتہائ پسند اور دہشت گرد ہے جو دینِ اسلام پر عمل پیراہے اور اپنے ملک پر امریکہ کے قبضے کو قبول نہیں کرتا اور جو یہودیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی عزت کی پامالی کو برداشت نہیں کرتا۔
تاہم اپنے ان تمام شر انگیز اقدامات کے باوجود اور پاکستان، افغانستان اور عراق میں مسلسل قتلِ عام کے باوجود اوباما نے مصر میں بھی وہی الفاظ دہرائے جو اس نے ترکی میں کہے تھے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا۔ بلاشبہ رسول اللہ انے اپنی حدیث میں حق بات کہی ہے: ﴿﴿اذا لم تستح فاصنع ما شئت﴾﴾''اگر تمہیں شرم نہیں تو پھر جو مرضی کرو‘‘ ۔
امریکی افواج اسلامی علاقوں میں مسلمانوں کا قتلِ عام سرانجام دے چکی ہیں ، ان افواج نے مسلمانوں کے خلاف خوفناک جنگ شروع کر رکھی ہے، وہ دن رات مسلمانوں کا خون بہا رہی ہیں اور لوگوں کو ان کے گھروں سے بے گھر کر رہی ہیں ...پھر بھی اوباما بضد ہے کہ وہ مسلمانوں سے جنگ نہیں کر رہا!
اس کے بعد اوباما نے فلسطین کو اپنی بات کا موضوع بنایا اور زور دیتے ہوئے کہا کہ یہودی ریاست ، جس نے فلسطین کی سر زمین کو غصب کر رکھا ہے، کے ساتھ امریکہ کے تعلقات مستقل ہیں اور انہیں منقطع نہیں کیاجاسکتا، خواہ یہ تعلقات عسکری نوعیت کے ہوں یا دیگرتعلقات ۔ اس نے اعلان کیا کہ یہودی ریاست فلسطین کی سرزمین پر قائم رہے گی اور اوباما اس کے علاوہ کوئی آپشن قبول نہیں کرے گا۔ اس کے بعد اوباما نے دوریاستی حل کی بات کی ، جس کا مطلب ہے کہ فلسطین کے زیادہ تر علاقے پر یہودیوں کا حق ہے اور اس کے بدلے میں اوباما نے چھوٹے چھوٹے غیر اہم علاقے فلسطینیوں کو دینے کی ضمانت دی، جو فلسطینیوں کا وطن کہلائیں گے! پھر اس نے یہودی بستیوں کی بات کی اور اپنے اوپر اعتماد کرنے والے لوگوں کی بے بصیرت حساسیت کو چھیڑا اور اعلان کیا کہ وہ آبادکاریوں کا خاتمہ چاہتا ہے، جس سے مراد پہلے سے موجود یہودی آبادیوں کا خاتمہ نہیں بلکہ محض یہودیوں کی نئی آبادیوں کی تعمیر کو روکنا ہے۔ اور صورتِ حال یہ ہے کہ اب مزید کوئی ایسا علاقہ باقی ہی نہیں کہ جسے یہودی محفوظ تصور کرتے ہوںکہ جہاں وہ آبادیاں بنا سکیں، ماسوائے اگر وہ وہاں قلعے اور اونچے اونچے محل تعمیر کر لیں۔ علاوہ ازیں نئی آبادیوں کی تعمیر کا نام نہاد اختتام بھی اس بات سے مشروط ہے کہ امن روڈ میپ کے مہلک رستے کے تمام تر سفر کے دوران یہودی ریاست کے خلاف ہر طرح کی دشمنی کی روک تھام کی جائے۔
پھر اوباما نے اپنی بات کا رُخ ایٹمی ہتھیاروں کی طرف موڑا اور ایران پر توجہ مرکوز کی۔ اس نے واضح کیا کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں سے پاک مشرقِ وسطیٰ کا خواہاں ہے جہاں ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ موجود نہ ہو۔ اوریہ کہتے ہوئے اس نے یہودی ریاست کو باآسانی فراموش کر دیا جو ایٹمی ہتھیاروں کی مالک ہے۔
اس امرکے باوجود کہ اس کی تمام تقریر مسلمانوں کے معاملات کے بارے میں دھمکیوں سے بھری ہوئی تھی، مصرکی حکومت نے اس شخص کا استقبال کیا ، جو شر انگیزی اور میٹھی نرم زبان کے ساتھ آیا ہے، اور اس بات کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ اُن معصوم لوگوں کے خون کے دھبوںکو چھپا سکے جو اس نے اوراس کی فوج نے افغانستان، عراق اور پاکستان میں بہایا ہے۔ مصرکی حکومت نے اوباما کے لیے لوگوں کے مجمع اور تالیوںکا بندوبست کیا ، تاکہ یہ تأثر دیاجائے کہ مصری عوام نے اس کی زہریلی تقریر کو قبول کیا ہے ۔
یہ تیار شدہ اور مصنوعی تعریف ہر اس شخص کے لیے عیاں تھی جو اپنی آنکھیں کھلی رکھتا ہے ۔ ایک شخص مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی تعریف کس طرح کر سکتا ہے ؟ کیا کوئی مسلمان تعریف تو دور کی بات اس بات کوبرداشت بھی کر سکتا ہے کہ اسرائ ومعراج کی زمین کومسلمانوں اور غاصب قوت کے درمیان تقسیم کر دیاجائے ؟
ایک مسلمان کس طرح اوباما کی تعریف کر سکتا ہے اور اس کے لیے تالیاں بجا سکتا ہے ، جب اس نے قرآن کی اس آیت کو اس کے موضوع سے ہٹ کر استعمال کیا:﴿مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا ﴾''جو شخص کسی شخص کو قتل کر ڈالے علاوہ یہ کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچائے، تو گویا اس نے تمام انسانیت کو قتل کر ڈالا‘‘﴿المائدہ: 32﴾
اوباما نے ان مسلمانوں کو انتہائ پسند قرار دیا جو امریکہ سے لڑتے ہیں ، اگرچہ یہ آیت بنی اسرائیل کے بارے میں ہی نازل کی گئی تھی ،اور اوباما ان مسلمانوں کے بارے میں جو اپنے عقیدے اور لوگوں کی حفاظت کر رہے ہیں اور اپنے اوپر حملہ کرنے والوں کے خلاف لڑ رہے ہیں ، کے متعلق تصور کرتا ہے کہ انہوں نے پوری انسانیت کا قتل کیا ہے ۔ اور اوباما کی نظر سے وہ یہودی ریاست اوجھل ہے ، جو معصوم لوگوں کا بے دردی سے قتل کر رہی ہے، ان کی زمینوں کو غصب کر رہی ہے ، انہیں ان کے گھروں سے نکال رہی ہے ، ان کے عزتوں کے تقدس کو پامال کر رہی ہے ،اور فتنہ و تباہی پھیلا رہی ہے۔ تاہم اوباما ان اقدامات کو تمام انسانیت کا قتل نہیں سمجھتا! ا ور نہ ہی وہ اس قتلِ عام کو تمام انسانیت کا قتل سمجھتا ہے جو اس کی اپنی امریکی فوج کر رہی ہے ۔ ﴿كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ ۚ إِنْ يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا﴾''یہ بہت بڑی بات ہے جو یہ اپنے منہ سے نکالتے ہیں۔ ان کی بات جھوٹ کے سو ا کچھ نہیں‘‘﴿کہف: 5﴾
اوباما کی بات کا خیر مقدم کیسے کیا جا سکتا ہے اور اس کی تقریر پرتالیاں کیسے بجائی جا سکتی ہیں ، جبکہ وہ اعلان کر رہا ہے کہ یہودیوں کی پہلے سے موجود بستیاں کوئی مسئلہ نہیں بلکہ مسئلہ نئی آبادیاں بنانا ہے؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام یہودی بستیاں ہی ناجائز ہیں، خواہ وہ پرانی ہوں یا نئی تعمیر کردہ ہوں! صرف عقل و سمجھ سے عاری ، ایجنٹ حکمران ہی کھڑے ہو کر اس بات پر اوباما کو داد دے سکتے ہیں؟
القدس﴿بیت المقدس﴾ کو سب سے پہلے عمر(رض) نے فتح کیا تھا ، اور یہ طے کر دیا تھا کہ القدس میں کوئی یہودی نہیں رہے گا۔ اورالقدس کو دوبارہ صلاح الدین ایوبی(رض) نے آزاد کرایا تھا۔ لیکن اوباما اعلان کر رہا ہے کہ القدس یہودیوں ، عیسائیوں اور مسلمانوں کا مشترکہ وطن ہے۔ کوئی مسلمان اوباما کے اس بیان کا کس طرح خیر مقدم کر سکتا ہے۔ اور یہ بات اس کے علاوہ ہے کہ اوباما نے القدس کے مشرقی حصے میںشراکت کی بات کی اور مغربی حصے کا ذکرگول کر گیا!
بلاشبہ یہ تمام تر خیر مقدم محض ایک ڈھونگ تھا اور مصر کی حکومت اس واضح حقیقت کو چھپا نہ سکی، اگرچہ اس نے پورا سٹیج تیار کیاتھا کہ اوباما کے دوست ہونے کا تأثر دیا جائے اور اسے ایک عادل اور بُردبار شخص کے طور پر پیش کیا جائے ، علاوہ ازیں مصر کے متعلق پائے جانے والے اس تأثرپر پردہ ڈالا جائے کہ مصر امریکہ کا ایجنٹ ہے، جو فلسطین کے مسئلے میں غیر جانبدار ہے یعنی مصر فلسطین کی سرزمین کو غصب کرنے والے یہودیوں اور فلسطین کے حقدار مسلمانوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرتا ہے ، بلکہ اس کے غیر جانبدار موقف کا جھکائو یہودی ریاست کی جانب ہے!
اے مسلمانو!
بے شک اوباما آپ کے پاس ایک بے ضرر سادھو کی شکل میں آیا ہے تاکہ آپ اس کے اصل روپ کا مشاہدہ نہ کر سکیں۔ یہ اس شخص سے کہیں زیادہ خطرناک ہے جو آپ کے ساتھ اپنی دشمنی کو نہیں چھپاتا۔ وہ ایسا اس لیے کر رہا ہے تاکہ آپ اپنے مسائل کے لیے اسی کی طرف رجوع کریں۔ یاد رکھیں! بش کے زیر قیادت امریکہ کی ننگی حقیقت محض ماضی کا قصہ نہیں ہے۔ امریکہ نے آپ کے علاقوں پر چڑھائی کی راہ اختیار کی ، اس امر کے باوجود کہ ان علاقوں پر اسی کے ایجنٹوں اور ہم نوائوں کی حکمرانی ہے۔ بھاری اسلحہ اور جنگی ساز و سامان رکھنے اورآپ کے خلاف کھلی دشمنی کے باوجود امریکہ آپ سے خوفزدہ اور پریشان تھا۔ لیکن آپ کے علاقوں پر قبضہ کرنے اور آپ کے لوگوں کو قتل کرنے کے باوجود اوباما چاہتا ہے کہ آپ اس کے لیے تالیاں بجائیں اور اس کا خیر مقدم کریں۔ اوروہ اپنی روایتی مسکراہٹ کو استعمال کررہا ہے تاکہ آپ کو دھوکے سے اپنا غلام بنا سکے۔
اے مسلمانو!
اوباما نے آپ سے اپنے مکارانہ خطاب کے لیے ان تین جگہوں کا انتخاب بغیر سوچے سمجھے نہیں کیا۔ ان تینوں اہم مقامات کو غور و فکر کے ساتھ ایک محتاط انداز سے چنا گیا ہے ۔ اوباما نے اپنے دورے کا آغازترکی سے کیا اور وہ تمام جزیرہ نما عرب کو عبور کرتا ہوا مصرپہنچا۔ اوباما اچھی طرح آگاہ ہے کہ استنبول سلطان محمد فاتح کا شہر ہے اور خلافت کا مرکزاستنبول یہودیوں کے راستے کی دیوار بنا رہا اور ترکی کی خلافتِ عثمانیہ نے یہودیوںکو فلسطین کی سرزمین کو غصب کرنے سے باز رکھا۔ اوباما جانتا ہے کہ جزیرہ نما عرب پہلی اسلامی ریاست کا نقطۂ آغاز تھا ، عمر(رض) نے وہاں سے نکل کر القدس کو فتح کیاتھا۔ اور اوباما اس بات سے بھی آگاہ ہے کہ مصر صلاح الدین ایوبی(رح) کا صوبہ تھا ، جہاں سے اس نے جنگ کا آغاز کیا تھااور فلسطین کو صلیبیوں سے آزاد کرایاتھا۔
اوباما ان تمام باتوں سے آگاہ ہے ، پس وہ ان ممالک میں یہ پیغام لے کر آیا ہے کہ تم لوگوں کے فخر و وقار کا وقت ختم ہو چکا اور اب طاقت اور اتھارٹی اوباما اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھ میں ہے اوراب امریکہ ہی بالادست قوت ہے۔ استعماری کفار بہت سے مسلمانوں سے زیادہ اس بات سے آگاہ ہیں کہ مسلمانوں کی طاقت کے مراکز اور مضبوطی کے ذرائع کیا ہیں ۔ وہ ہماری تاریخ اور ہمارے عقیدے سے آگاہ ہیں جو ہماری طاقت کا منبع ہے، اور اس بات سے بھی کہ اس امت کی اعلیٰ صفات کیا ہیں۔ اور یہ محض اتفاق نہ تھا کہ اوباما نے قرآن کی یہ آیت پڑھی:﴿ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا﴾''اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہارے کنبے قبیلے بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو‘‘﴿الحجرات:13﴾ اور اس نے آیت کا یہ حصہ بیان نہیں کیا کہ جس کے بغیر آیت کا مفہوم مکمل نہیںہوتا:﴿ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللَّهِ اَتْقَاکُمْ ﴾''بے شک تم میں سب سے زیادہ عزت کے لائق وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہے‘‘ ۔ پس اوباما بڑے آرام سے یہ بات بیان کرنا بھول گیا کہ یہ تقویٰ ہی ہے جو امتِ مسلمہ کو معزز بناتا ہے اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ذلیل و رسوا کرتا ہے۔
اے مسلمانو!
اوباما نے اپنے آپ کو اس انداز سے پیش کرنے کی کوشش کی کہ گویا وہ پوری دنیا کا حکمران ہے اور اسلامی علاقوں میں قائم برائے نام ریاستیں اس کی غلام ہیں، جن کا کام اسے وہ سب مہیا کرنا ہے جس کی وہ خواہش کرے۔ ان ریاستوں نے اوباما کا اس قدر عالی شان استقبال کیا ، جتنا اوباما کااس کے اپنے ملک امریکہ میں بھی نہیں کیا جاتا! اوباما کی مثال فرعون اور اس کے لوگوں کی مانند ہے، کہ جن کے متعلق قرآن نے بیان کیا: ﴿فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطَاعُوهُ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ﴾ ''فرعون نے اپنے لوگوں کو بیوقوف بنایا اورانہوں نے اس کی اطاعت کی ۔ بے شک وہ فاسق لوگ تھے‘‘﴿زخرف: 54﴾
اگرچہ اوباما چالاک ، مکار اور ملمع کار ہے جیسا کہ اس نے اپنی تقریر میں اپنے آپ کو پیش کیا، تاہم اسے یہ جان لینا چاہئے کہ استنبول، جزیرہ نما عرب اور مصر نے اسے خوش آمدید نہیںکہا۔ اسے محض غدار حکمرانوں کے ٹولے نے ہی خوش آمدید کہا ہے جنہیں مسلمان مجموعی طور پر مسترد کر چکے ہیں اور اپنے آپ سے جداکر چکے ہیں۔ اسے یہ بھی جان لینا چائیے کہ اس کا نرم انداز میں چکنی چپڑی باتیں کرنا امت کی نظر سے مخفی نہیں ہے ، جو اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ اوباما کے تراشے ہوئے الفاظ میں پوشیدہ حقیقی معنی کیا ہیں ۔ اور اوباما کو جان لینا چاہئے کہ یہ حکومتیں اپنے ہر آقا کا استقبال ایسی ہی تالیوں اورجشن کے ذریعے کیاکرتی ہیں۔حزب التحریر اوباما اور تمام دنیا کے لیے اعلان کرتی ہے کہ اسلام کے لیے ایسے مخلص لوگ بدستورموجود ہیں جو اسلامی ریاست قائم کریں گے ، جو دنیا کی سپر پاور بنے گی اور وہ یہ مقام دنیا کا استحصال کرنے ، علاقوں کو کالونی بنانے اور ان کے وسائل کو لوٹنے کے ذریعے حاصل نہیں کرے گی۔ بلکہ وہ عدل کے قیام ،ظلم کے خاتمے اور تمام لوگوں کو ان کا حق دینے کے ذریعے ایسا کرے گی۔ اور اس وقت امریکہ کووہ مقام ملے گا جس کا وہ حق دار ہے یعنی ذلت و رسوائی اور اطاعت گزاری کا مقام۔ اس وقت یہودی ریاست کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جائے گا ،جس نے فلسطین کی سرزمین پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے اور تمام کا تمام فلسطین اسلامی ریاست کا حصہ بن جائے گا۔ اللہ کے اذن سے اس خلافت کا دوبارہ قیام ہو گا اور دنیا کا ہر گوشہ خیر و بھلائی سے معمور ہو جائے گا۔
﴿وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَىٰ أَمْرِهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾
''اور اللہ اپنے امر میں غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے‘‘﴿یوسف: 21﴾
جب گذشتہ صدی میں ساٹھ کی دہائی میں الفتح تنظیم کا قیام عمل میں آیاتھا تو اس نے اعلان کیا تھا کہ وہ نہر سے لے کر بحر تک ،تمام کے تمام فلسطین کو آزاد کرانے کے لیے مزاحمتی تحریک کھڑی کرے گی ۔ مگر جلد ہی "مِنَ النَّھَر اِلَی البَحَر" (مشرق میں دریائے اُردن سے لے کر مغرب میں بحیرہ روم تک) کا نعرہ دم توڑ گیا اور الفتح مشرق میں دریائے اردن سے ، مغرب میں بحیرہ روم سے اور ان دونوں کے درمیان موجود تمام فلسطینی علاقے سے دستبردار ہو گئی۔