الإثنين، 07 جمادى الثانية 1446| 2024/12/09
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

سوال و جواب

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی جھڑپیں

(ترجمہ)

 

 

سوال :

 

"العربية نیٹ" نے 13 اگست، 2024ء کو شائع کیا: "طالبان حکومت نے آج منگل کو پاکستانی فوج پر الزام لگایا کہ انہوں نے دونوں ممالک کے مابین سرحدی جھڑپوں کے دوران تین شہریوں کو قتل کر دیا، جن میں ایک عورت اور دو بچے شامل ہیں۔ طورخم میں ایک پاکستانی سرحدی اہلکار نے کہا کہ جھڑپ میں تین پاکستانی فوجی زخمی ہوئے...۔ ان واقعات سے قبل، آئی ایم ایف نے جمعہ کو پاکستان حکومت کے ساتھ سات ارب ڈالر کے تین سالہ امدادی پروگرام پر دستخط کیے (اسکائی نیوز عربیہ، 13 جولائی، 2024)۔ تو ان جھڑپوں کے پیچھے کیا وجوہات ہیں، خاص طور پر جب کہ پہلے بھی اس طرح کی جھڑپیں ہو چکی ہیں؟ کیا امریکہ کے زیر کنٹرول آئی ایم ایف کی جانب سے ملنے والی امداد اور بھارت سے ہٹ کر افغانستان کے ساتھ جنگ ​​میں پاکستان کے الجھنے کے درمیان کوئی تعلق ہے تاکہ چین پر دباؤ ڈالنے کے لئے بھارت چین سے مقابلہ کرنے کی امریکی خواہشات کی تکمیل کے لیے اپنی توجہ ادھر مرکوز کر سکے؟ یا ان سب کے پیچھے کوئی اور وجوہات ہیں؟

 

 

جواب:

مندرجہ بالا سوالات کے جوابات کے لیے ہم درج ذیل امور کا جائزہ لیں گے:

 

28 جنوری، 2023ء کو ایک سوال کے جواب میں ہم نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان برطانوی استعمار کی قائم کردہ سرحد کے بارے میں یہ کہا تھا:

 

(1893عیسوی میں، اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ سر مورٹیمر ڈیورنڈ اور افغانستان کے حکمران امیر عبدالرحمٰن خان کے درمیان ایک معاہدہ پر دستخط ہوئے جس میں ایک 2640 کلومیٹر طویل زمینی سرحد کا تعین کیا گیا جسے "ڈیورنڈ لائن" کہا جاتا ہے اور جو شمال مشرق سے جنوب مغرب تک افغانستان اور پاکستان کے درمیان پھیلی ہوئی ہے۔ اس سرحد کو پاکستان اور افغانستان کی سرکاری سرحد کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا اور اس نے پشتون قبائل کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اس لکیر کے دونوں طرف کا علاقہ مسلمانوں سے آباد ہے جو اکثریت میں پشتون ہیں اور افغانستان کی سب سے بڑی قوم ہیں اور آبادی کا تقریباً 40% پر مشتمل ہیں۔ افغانستان کے تمام حکمران گزشتہ دو صدیوں سے انہی میں سے رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی پشتون، پنجابیوں کے بعد سب سے بڑی اکثریت ہیں ...

 

...تاہم، افغانستان نے اس لائن کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، خاص طور پر اس لیے کہ انگلستان نے اس وقت اس خطے کی شماریاتی، نسلی اور قبائلی نوعیت کو مدنظر نہیں رکھا تھا اور ڈیورنڈ لائن کو صرف برطانوی استعماری مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے 12 نومبر 1893 کو مصنوعی طور پر کھینچ دیا گیا تھا۔ برطانویوں کو اپنے سے قبل دیگر بہت سی قوموں کی طرح، اس سرحدی علاقے پر قبضہ کرنے کے لیے سخت جدوجہد کرنا پڑی تھی۔ 1839ء سے 1842ء تک افغانستان پر حملے کے دوران برطانیہ کو افغانستان میں ایک بڑی فوجی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ پھر اس نے 1878ء میں دوبارہ افغانستان پر حملہ کیا لیکن دو سال بعد اسے واپس جانا پڑا، تاہم افغانستان کے حکمرانوں کے ذریعے 1879ء میں گندمک معاہدے پر دستخط کے ذریعے اسے سیاسی اثر و رسوخ حاصل ہو گیا اور اس کے تحت افغانستان نے برطانوی استعمار، جو اس وقت برصغیر میں ہندوستان پر حکومت کر رہا تھا، کے سامنے اپنا وسیع علاقہ کھو دیا......)) جواب کا اقتباس ختم ہوا۔

 

یہ سرحدی لکیر (ڈیورنڈ لائن) دونوں ممالک کے مابین تنازعات کو ٹھنڈا رکھتی تھی، خاص طور پر افغانستان کے ان مشکل اوقات کے دوران جب بڑے ممالک نے اس پر حملہ کیا تھا، جیسے سوویت یونین کا 1979ء میں حملہ اور امریکیوں کا 2001ء میں حملہ۔ لیکن 2021ء میں امریکہ کے افغانستان سے شرمناک انخلا کے بعد، امریکی پالیسی کی ضروریات کے مطابق، آج یہ سرحدی لکیر دوبارہ باعثِ اختلاف بن گئی ہے۔

 

یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ سرحد افغانستان پر سوویت قبضے کے دوران خاصی نرم رہی تھی، جس سے پاکستان میں تربیت حاصل کرنے والے جنگجو مجاہدین کو سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں لڑنے کے لیے آسانی سے نقل و حرکت کرنے میں مدد ملی۔ اور اس سرحد کی یہ نرمی ایک طرف تو آبادیاتی حقائق سے مطابقت رکھتی تھی جو سرحد کے دونوں طرف پشتون خاندانوں کے درمیان باہمی تعلقات کی وجہ سے تھی، اور دوسری طرف یہ امریکہ کی سوویت یونین کے افغانستان میں موجودگی کے خلاف پالیسی کے مطابق بھی تھی۔

 

لیکن امریکہ کے افغانستان پر قبضے کے بعد امریکی پالیسی بدل گئی اور اس نے پاکستان سے اس سرحد پر کنٹرول کو سخت کرنے اور افغانستان پر امریکی قبضے کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کو سرحد پار کرنے سے روکنے کا مطالبہ کیا۔ جس کے بعدسے پاکستانی فوج ، پاکستان کے اندر سرحدی علاقوں میں شدید لڑائیوں میں الجھ کر رہ گئی۔

 

مئی 2018ء میں، پاکستان نے افغانستان کے ساتھ متصل قبائلی سرحدی علاقوں کو خیبر پختونخوا میں ضم کر لیا۔ اس طرح ان علاقوں کی غیر واضح صورتحال اور پاکستانی قوانین، پولیس اور عدالت سے ان کی عدم وابستگی کا دور ختم ہو گیا۔ پاکستان کا خیال ہے کہ افغانستان کے ساتھ اس کا سرحدی مسئلہ حل ہو چکا ہے جیسا کہ (پاکستان کے عبوری وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ  نے حال ہی میں افغان نیوز چینل "طلوع نیوز" کے ایک انٹرویو میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ "ڈیورنڈ لائن پاکستان اور افغانستان کے درمیان بین الاقوامی سرحد ہے۔ اقوام متحدہ نے اور 206 ممالک نے اس سرحد کو بین الاقوامی سرحد کے طور پر منظور کیا ہے، افغانستان کے لوگ اس کے بارے میں جو کچھ بھی کہیں وہ ان کا اپنا معاملہ ہے، مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں"۔ (طلوع نیوز، 06 فروری، 2024)۔

 

تاہم، تاریخ میں تمام ترافغان حکومتوں نے، چاہے ان کی سیاسی اور فکری وابستگی کچھ بھی ہو، ڈیورنڈ لائن کو دونوں ممالک کے درمیان سرکاری بین الاقوامی سرحد کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ اس سلسلے میں حالیہ بیان، ذرائع کے مطابق، طالبان حکومت کے وزیر برائے سرحدی امور اور قبائل، ملا نورالدین ترابی کا ہے جنہوں نے کہا ہے کہ "افغانستان اور پاکستان کے درمیان کوئی سرکاری سرحد موجودنہیں ہے"۔

 

بہرحال دونوں ممالک کے درمیان اس 2600 کلومیٹر سے زائد طویل سرحد پر تنازعہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ ہم نے 28 جنوری، 2023ء کو اپنے پچھلے جواب  میں کہا تھا: (پھر پاکستان نے مزید پابندیاں لگائیں اور تاریخ میں پہلی بار افغانیوں پر ویزا کی پابندی عائد کر دی۔ پاکستان کی جانب سے 3 میٹر اونچی سرحدی باڑ لگانے اور اس کے سینکڑوں کلومیٹر کی تعمیر پر کروڑوں ڈالر خرچ کرنے سے یہ تناؤ مزید بڑھ گیا۔ یہ سب کچھ سامان کی رسد اور لوگوں کی نقل و حرکت کو کنٹرول کرنے اور "دہشت گردوں" سے بچاؤ کے بہانے کیا جا رہا تھا۔ اس طرح دونوں ممالک کے درمیان سرحدی علاقے میں کشیدہ صورتحال اور جھڑپوں کی ایک وجہ یہ باڑ بھی تھی۔ پھر طالبان حکومت نے پاکستانی فوج کو تقریباً 2700 کلومیٹر طویل سرحد پر باڑ لگانے سے روک دیا، حالانکہ اس کا تقریباً 90% حصہ مکمل ہو چکا تھا۔ اشرف غنی کی حکومت اپنی حکومت کے زوال سے قبل اس باڑ کی تعمیر پر اپنی رضامندی دی تھی۔ لیکن جب بھی پاکستانی افواج نے اس باڑ کو مکمل کرنے کی کوشش کی تو طالبان حکومت نے پاکستانی افواج کو اس کی تنصیب مکمل کرنے کی کوششوں کی ہر بار مخالفت کی جس کے نتیجے میں دونوں فریقین کے درمیان مختلف سرحدی علاقوں میں جھڑپیں ہوئیں جن میں دونوں طرف سے ہلاکتوں اور زخمیوں کا واقعہ پیش آیا... اس طرح دونوں ممالک کے درمیان حالات کشیدہ ہو گئے، خاص طور پر جب پاکستان نے طالبان حکومت پر الزام لگایا کہ وہ تحریک طالبان پاکستان(TTP) کو پاکستانی فوج پر حملہ کرنے سے نہیں روک رہی ہے۔ پھر پاکستان نے افغانستان کے اندر یہ دعویٰ کرتے ہوئے بمباری کی کہ وہاں پر تحریک طالبان پاکستان کے جنگجو موجود ہیں۔۔۔۔) ختم شد

یوں اس طرح سے پاکستان کی فوج اور طالبان کے درمیان جھڑپیں اور لڑائیاں دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں ایک نئی حقیقت بن چکی ہیں۔ یہ جھڑپیں اور لڑائیاں سرحدی مسئلے اور پاکستانی طالبان اور پاکستانی فوج کے درمیان ہونے والے حملوں کی وجہ سے شدت اختیار کر رہی ہیں۔ گزشتہ سال ہلاکتوں کی تعداد گزشتہ 6 سالوں میں سب سے زیادہ رہی۔ ریسرچ اینڈ سیکورٹی اسٹڈیز سینٹر کے مطابق، شہریوں، سیکورٹی فورسز اور مسلح افراد سمیت 1500 سے زائد افراد مارے گئے (الجزیرہ نیٹ، 17 جولائی، 2024)۔

 

پاکستانی فوج کی جانب سے افغانستان پر پاکستانی طالبان کو پناہ دینے کے الزامات کے ساتھ ساتھ، اسلام آباد افغانستان پر دباؤ میں اضافہ کر رہا ہے۔ طالبان کی واپسی اور مقامی علاقوں میں دوبارہ آباد کاری کمیٹی کے ترجمان، قاری یوسف احمدی نے کہا: 'پڑوسی ممالک پاکستان اور ایران  نے 2024ء کے آغاز سے 400,000 سے زیادہ پناہ گزینوں کو زبردستی بے دخل کر دیا ہے، اور ان بے دخلی کی کاروائیوں میں سے 75 فیصد کے لئے پاکستان ذمہ دار ہے' (الحرہ نیوز، 11جون، 2024)۔

 

اس سب سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امریکہ کی وفادار پاکستانی حکومت، افغانستان میں طالبان کو پریشان اور مشتعل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ افغانیوں کو آزادانہ طور پر سرحد پار جانے سے روک رہی ہے اور ان سے اپنے رشتہ داروں سے ملنے کے لیے ویزا لینے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ وہ سرحد پر باڑ لگا کر اسے ایک حقیقت بنا رہی ہے اور یہاں تک کہ سرحد کی حدود کو افغانستان کے اندر تک منتقل کر رہی ہے، اور وہ دو ملین سے زائد ان افغان مہاجرین پر سختی کر رہی ہے جن میں سے چھ لاکھ لوگ،2021ء میں امریکی انخلاء کے وقت بھاگ کر پاکستان آگئے تھے (الحرہ، 01 نومبر، 2023) اور انہیں بڑی تعداد میں پاکستان سے نکالا جا رہا ہے۔ 2022ء میں پاکستان نے امریکی طیاروں کو گزرنے کی سہولت فراہم کی تاکہ وہ افغانستان کے اندر بمباری کر سکیں جس میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواهری مارے گئے تھے۔ نیز یہ کہ پاکستانی خفیہ ادارے افغان سرحدی شہروں میں تحریک طالبان پاکستان (TTP)کے اہم رہنماؤں کو نشانہ بنا کر قتل کر رہے ہیں۔

 

پاکستان کی جانب سے کی جانے والی تمام یہ کارروائیاں امریکی پالیسی کے تحت ہیں، جو طالبان کی افغانستان میں سرگرمیوں کو دبانے کے مقصد سے ہیں تاکہ طالبان کو مکمل طور پر قابو میں لایا جا سکے۔ ان اقدامات کا تعلق واشنگٹن کی اس خواہش سے بھی ہے کہ پاکستانی فوج کو خانہ جنگی اور افغانستان کے ساتھ جنگ میں ملوث کیا جا سکے، جس سے بھارت کو چین کے خلاف امریکہ کے ساتھ مل کر کام کرنے میں سہولت ہو۔ مزید برآں، یہ امریکہ کی اس کوشش کا بھی حصہ ہیں کہ چین کو افغانستان میں معدنی وسائل سے فائدہ حاصل کرنے سے روکا جائے، کیونکہ افغانستان میں امریکہ اور طالبان کے درمیان دو دہائیوں سے زائد عرصے تک جاری واضح دشمنی نے چین کی امیدوں کو بڑھا دیا تھا کہ وہ 2021ء میں امریکی انخلاء کے بعد اپنی صنعتوں کے لئے افغانستان کے وسائل کو استعمال کر سکےگا۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی تنازعہ چین کی امیدوں کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے، جبکہ چین نے پاکستان میں سی پیک کی اقتصادی راہداری پر اربوں ڈالر خرچ کر دئیے ہیں۔

 

یہ ہے پاکستان کی افغانستان کے حوالے سے پالیسی کا عمومی فریم ورک، جس سے واضح ہوتا ہے کہ امریکہ ہی دونوں ممالک کے درمیان تنازعے کا بنیادی محرک ہے۔ اس عمومی فریم ورک میں دشمنی کو ہوا دینے، مسلح سرحدی تنازعات کروانے، ہر شعبے میں کشیدگی بڑھانے اور پاکستان کی جانب سے افغانستان کے اندر فضائی حملے شامل ہیں۔ جیسا کہ افغان وزیر دفاع نے اعلان کیا کہ پاکستانی فضائیہ کے طیاروں نے پاکستان کی سرحد سے جڑے ہوئے خوست اور پکتیکا صوبوں کے آبادی کے علاقوں پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں، معصوم بچوں اور خواتین کی ہلاکت ہوئی ہے۔ پاکستانی فوج یا حکومت نے اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ یہ حملے پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر واقع ایک فوجی چوکی پر دو خودکش حملوں میں 6 پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد کیے گئے تھے۔ اس سے قبل ہفتے کے روز شمال مغربی پاکستان کے شمالی وزیرستان میں افغانستان کی سرحد کے قریب ایک حملے میں 7 فوجی مارے گئے تھے جس کے بعد یہ فضائی حملے کیے گئے تھے (الشرق الاوسط، 18 مارچ، 2024)۔

 

اور 2021ء کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات مزید بگڑ رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ امریکہ کی پالیسی ہے جو بدستور ان تنارعات کو ہوا دے رہی ہے۔ یہاں تک کہ اگر پاکستان آئی ایم ایف سے قرض لے یا نہ بھی لے، تب بھی یہ صورتحال یونہی برقرار رہے گی۔ اگرچہ آئی ایم ایف کے قرضوں کی شرائط میں مقامی کرنسی، تبادلہ کی شرح، تجارت، توانائی اور ٹیکس جیسے معاملات شامل ہیں اور پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو "باضابطہ طور پر" شامل نہیں کیا گیا ہے، تاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ امریکہ کی شرارت آمیز پالیسی پاکستان کی حکومت میں اپنے ایجنٹوں کو ان وعدہ شدہ قرضوں کے ذریعےلالچ دے رہی ہے تاکہ وہ امریکہ کے مفادات کو پورا کرنے کے لیے افغانستان کے ساتھ تنازعات کو مزید بڑھا سکیں۔

 

2023ء کے موسم گرما میں پاکستان کو امریکہ کے زیر اثر عالمی مالیاتی فنڈ سے 3 ارب ڈالر کا قرض ملا تھا اور اب اسے مزید قرض دینے کا وعدہ کیا جا رہا ہے۔ "عالمی مالیاتی فنڈ نے جمعہ کو پاکستانی حکومت کے ساتھ تین سالہ 7 ارب ڈالر کے امدادی پروگرام پر ایک معاہدہ کیا" (اسکائی نیوز عربیہ، 13 جولائی، 2024)۔ آئی ایم ایف کی طرف سے اس مزید فنڈ ملنے سے پاکستان امریکہ کی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے مزید پرعزم ہو گیا ہے جن میں افغانستان کے ساتھ کشیدگی کو مزید بڑھانا بھی شامل ہے۔

 

اور اس تمام صورتحال میں، امریکی وفادار موجودہ پاکستانی حکومت کے بیانات میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھانے کی کوشش واضح طور پر نظر آتی ہے۔ یہ بات جولائی 2024ء کے وسط میں پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے واقعے سے واضح ہو گئی ہے:

 

‌أ)      "پاکستانی وزیر دفاع نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف ایک نئی فوجی مہم کے تحت افغانستان پر حملے جاری رکھے گا..." ( بی بی سی انگریزی، 02 جولائی، 2024)۔ اسی ذرائع کے مطابق، "طالبان نے اس بیان کو "غیر ذمہ دارانہ" قرار دیتے ہوئے پاکستان کو خبردار کیا کہ سرحد پار حملوں کے "نتائج" خطرناک ہوں گے"۔

 

‌ب)  سفارتی کشیدگی : پاکستانی وزارت خارجہ نے آج بدھ کو طالبان حکومت کے سفارت خانے کے نائب سربراہ کو طلب کیا اور طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ افغانستان میں موجود مسلح گروہوں کے خلاف کارروائی کریں جن کے بارے میں اسلام آباد کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس ہفتے ایک فوجی اڈے پر حملہ کیا ہے (الجزیرہ نیٹ ورک، 17 جولائی، 2024)

 

‌ج)   شمال مغربی خیبر پختونخواہ کے ضلع بنوں میں بھاری اسلحے سے لیس جنگجوؤں کے ایک گروپ نےسوموار کے روز علی الصبح کینٹ کے علاقے پر دھاوا بول دیا اور ایک خودکش بمبار نے دھماکہ خیز مواد سے لدی ایک گاڑی کو کینٹ علاقے کی سرحدی دیوار سے ٹکرا دیا جن سے آٹھ فوجی جاں بحق ہو گئے۔ پاکستان مسلسل عبوری افغان حکومت سے اپنی تشویش ظاہر کر رہا ہے کہ افغان سرزمین دہشت گردانہ کاروائیوں کے لئے استعمال ہو رہی ہے اور یہ کہ وہ ان حملوں میں ملوث عناصرکے خلاف "فوری اور مؤثر" کارروائی کرے ... بیان میں کہا گیا ہے کہ فوج نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ایک گروہ "حافظ گل بہادر" کی طرف اشارہ کیا جو افغانستان میں مقیم ہے اور پہلے بھی پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیوں کے لئے افغان سرزمین کو استعمال کرتا رہاہے (اناطولو ایجنسی، 17 جولائی، 2024)

 

‌د)      سرحد کے اطراف جھڑپیں : العربیہ نیٹ نے 13 اگست 2024 کو رپورٹ کیا: "طالبان حکومت نے آج منگل کو پاکستانی فوج پر الزام لگایا ہے کہ اس نے دونوں ممالک کی سرحد پر ہونے والی جھڑپوں کے دوران ایک عورت اور دو بچوں سمیت تین شہریوں کو قتل کر دیا ہے۔ طورخم میں پاکستانی سرحدی علاقے کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ اس جھڑپ میں تین پاکستانی فوجی زخمی ہوئے ہیں"۔

 

9- خلاصہ: پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے معاملے پر سرحدی تنازعات اور تناؤ، اور افغانستان کی حکومت پر پاکستان کی جانب سے مسلسل تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے جنگجوؤں کو پناہ دینے کے الزامات، اور یہ دعویٰ کہ حملے افغانستان سے ہوتے ہیں، یہ سب باتوں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کر رہی ہیں۔ اس صورتحال سے جھڑپوں، سرحدی تصادم، اور پاکستانی فضائی حملوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، جو افغان سرحدی قصبوں اور دیہی علاقوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ یہ رجحان غالباً 2021ء کے بعدسے مسلسل بڑھ رہا ہے، جب بائیڈن انتظامیہ نے افغانستان سے انخلاء کیا تھا۔ اس تناؤ کا بنیادی محرک امریکی مفادات ہیں، جیسا کہ ہم نے وضاحت کی ہے۔ امریکہ اس خطے میں اپنے مقاصد کے حصول اور چین کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے کشیدگی میں اضافہ کرنے پر دباؤ ڈال رہا ہے۔

 

اگرچہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کی شرائط ان مسائل کو واضح طور پر بیان نہیں کرتیں، لیکن امریکہ ان قرضوں کو پاکستان میں اپنے اتحادیوں کے لیے افغانستان کے ساتھ کشیدگی اور تنازعات کو بڑھانے کی ترغیب کے طور پر دیکھتا ہے۔ امریکی صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز کے درمیان سخت ترین مقابلے کے دوران، اور ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے بائیڈن انتظامیہ پر 2021ء میں افغانستان سے ذلت آمیز انخلاء پر تنقید کرنے کے ساتھ، بائیڈن انتظامیہ پاکستان کو طالبان کے ساتھ زیادہ شدید تصادم میں دھکیل سکتی ہے تاکہ امریکی عوام کو دکھایا جا سکے کہ پاکستان طالبان کے مسئلے کو امریکہ کی جانب سے سنبھال رہا ہے۔

 

اس تناظر میں، پاکستان میں موجود امریکی ایجنٹوں کے بیانات واضح طور پر کشیدگی بڑھانے اور دھمکیاں دینے کے ارادے کو ظاہر کرتے ہیں، جو اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ وقفے وقفے سے ہونے والی جھڑپیں زیادہ سنگین سرحدی لڑائیوں میں تبدیل ہو سکتی ہیں۔ تاہم، مکمل جنگ کا امکان کم ہے، خاص طور پر کیونکہ مضبوط فریق، پاکستان کے،افغانستان پر کوئی علاقائی مطالبات نہیں ہیں۔

 

10- اسلامی شریعت کی حکمرانی کی عدم موجودگی میں مسلمانوں کی یہ صورتحال ہو گئی ہے جو کہ تقاضا کرتی ہے کہ مسلمانوں کے مابین ان سرحدوں کو ختم کر دیا جائے اور مسلمانوں کے علاقوں کو ایک خلیفہ کی حکمرانی میں متحد کر دیا جائے۔ یہ صورتحال اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ امت میں، خصوصاً اس کے اہلِ قوت افراد، اپنے رب کے لئے اور اپنی امت کے لیے غصے میں نہیں اٹھتے اور ان غدار حکمرانوں کو نہیں  اکھاڑ پھینکتے، جو ہر ڈھلتے سورج کے ساتھ اپنی قوم کے خلاف سازشیں کرتے ہیں اور ہر نئے دن کے ساتھ ان سازشوں کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے دشمنوں، جیسے کہ امریکہ وغیرہ کی خوشنودی کے لیے انجام دیتے ہیں۔

 

مسلمانوں کے معاملات پہلے کی طرح صرف اسی صورت میں درست ہو سکتے ہیں جب تک کہ وہ اپنے تمام معاملات میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے مطابق نبوت کے نقش قدم پر خلافت کے تحت حکمرانی کریں اور کفار کو اپنے پیچھے دھکیل دیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

 

﴿فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِهِمْ مَنْ خَلْفَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ﴾

"اگر تم ان کو لڑائی میں پاؤ تو انہیں ایسی سزا دو کہ جو لوگ ان کے پس پشت ہیں وہ ان کو دیکھ کر بھاگ جائیں عجب نہیں کہ ان کو (اس سے) عبرت ہو" (سورۃ انفال؛ 8:57)۔

 

خلافت کا آئین لازمی اسلام پر مبنی ہونا چاہیے، جو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی کتاب، اس کے رسول ﷺ کی سنت، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع اور شرعی قیاس سے اخذ کیا گیا ہو، نہ کہ انسانوں کے بنائے ہوئے آئین پر، چاہے وہ افغانستان کے محمد ظاہر شاہ کے دور کا 1964 کا آئین ہو، جو 1973ء میں ختم ہوا تھا اور جسے طالبان نے 28 ستمبر 2021 کو وزیر انصاف کے اعلان کے مطابق اپنایا تھا (الجزیرہ اور انادولو ایجنسی، 28 ستمبر 2021)، یا مسلمانوں کے دیگر ممالک کے انسانوں کے بنائے ہوئے آئین ہوں۔ یہ سب کچھ اس کے خلاف ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حکم دیا ہے:

 

﴿وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللهُ إِلَيْكَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ أَنَّمَا يُرِيدُ اللهُ أَنْ يُصِيبَهُمْ بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ﴾

"اور (ہم پھر تاکید کرتے ہیں کہ) جو (حکم) اللہ نے نازل فرمایا ہے اسی کے مطابق ان میں فیصلہ کرنا اور ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرنا اور ان سے بچتے رہنا کہ کسی حکم سے جو اللہ نے تم پر نازل فرمایا ہے یہ کہیں تم کو بہکانہ دیں اگر یہ نہ مانیں تو جان لو کہ اللہ چاہتا ہے کہ ان کے بعض گناہوں کے سبب ان پر مصیبت نازل کرے" (سورة المائدة؛ 5:49)۔

 

افغانستان اور پاکستان کو لازمی یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ وہ مسلمان ممالک ہیں، اور ان کے درمیان لڑائی حرام ہے۔ انہیں اپنے درمیان اسلامی بھائی چارے کے رشتے کو مضبوط کرنا چاہیے، استعماری کافروں، خاص طور پر امریکہ کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات کو ختم کرنا چاہیے، اور خلافت کے قیام کے لیے کام کرنے والی حزب التحریر کو نصرۃ دینی چاہیے۔ صرف ایسا کرنے سے ہی مسلمان عزت پائیں گے اور کافر ذلیل وخوار ہوں گے۔

 

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:

 

﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾

"اُس روز مومن خوش ہوجائیں گے * (یعنی) اللہ کی مدد سے۔ وہ جسے چاہتا ہے مدد دیتا ہے اور وہ غالب (اور) مہربان ہے" (سورة الروم؛ 30:4،5)۔

 

 

22صفر، 1446ھ

بمطابق 27 اگست، 2024ء

Last modified onاتوار, 10 نومبر 2024 20:30

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک