بسم الله الرحمن الرحيم
سوال کا جواب
غزہ میں نسل کشی کے حوالے سے جاری مذاکرات سے کیا توقع کی جا سکتی ہے؟
)ترجمہ)
سوال:
”اسرائیل کی جانب سے غزہ پر حملے کو دس ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، اور ان کے قتل عام کی دستاویزی طور پر نسل کشی بھی جاری ہے۔ اس دوران مذاکرات اور معاہدے کیے جا رہے ہیں تاکہ تشدد کو روکا جا سکے، جسے وہ مسترد کرتے رہے ہیں، یہاں تک کہ صلاح الدین محور (Philadelphi Corridor) سے دستبرداری سے بھی انکار کر دیا ہے، جسے مصر نے ریڈلائن قرار دیا ہے، جیسا کہ 3 ستمبر 2024ء کو العربیہ اخبار نے رپورٹ کیا۔ بائیڈن انتظامیہ ان قتل عام اور مذاکرات کی نگرانی کر رہی ہے اور یہ تاثر دے رہی ہے کہ مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل ممکن ہے، جبکہ خونریزی جاری وساری ہے۔ اس نسل کشی کے حوالے سے ہونے والے ان مذاکرات سے کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ اس جارحیت کی حمایت کرنے میں امریکہ کا کیا کردار ہے؟ کیا امریکہ واقعی اپنے اعلان کردہ دو ریاستی حل میں سنجیدہ ہے؟ اس جارحیت کو کیسے روکا جا سکتا ہے اور فلسطین کو مکمل طور پر اس کے عوام کو کیسے واپس کیا جا سکتا ہے؟ سوال کی طوالت پر معذرت خواہ ہوں...“۔
جواب:
درج بالا سوالات کے جوابات کو واضح کرنے کے لیے، ہم درج ذیل نکات کا جائزہ لیں گے :
اول : نسل کشی اور ان کے نتائج سے متعلق مذاکرات اور ان میں امریکہ کا کردار:
1- 22 مارچ 2024ء کو جاری کردہ ہمارے سوال و جواب میں ہم نے ذکر کیا تھا کہ، "یہ جنگ ہر لحاظ سے نسل کشی تھی۔ مغربی حمایت، خاص طور پر امریکہ اور یورپ، دونوں نے اس کی حوصلہ افزائی کی۔ مغربی رہنما بار بار یہودی وجود کا دورہ کرتے رہے تاکہ یہودی وجود کی جانب سے برپا کی جانے والی اس نسل کشی پر اپنی مکمل حمایت ظاہر کریں جو اس نے غزہ پر ڈھا رکھی ہے۔ مزید یہ کہ عرب اور اسلامی ممالک کی حکومتوں کی خاموشی نے بھی اس رویے کو فروغ دیا ہے۔ اپنی افواج کو غزہ کے لوگوں کی مدد کے لیے متحرک کرنے کے بجائے، بعض نے مجاہدین کے حملوں کی مذمت کی اور یہودی وجود کے ساتھ تعلقات اسی طرح جاری رکھے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ یہود کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے والے پرانے اور نئےممالک نے دشمن کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کئے بغیر یا نارملائزیشن کی اپنی غداری کو ترک کئے بغیر نارملائزیشن کو جاری رکھا۔ یہودی وجود کے ساتھ کیے گئے معاہدات، جیسے مصر کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ معاہدہ اور اردن کے ساتھ وادی عربہ معاہدہ، کو منسوخ نہیں کیا گیا۔ درحقیقت، جنگ کی حالت میں جو کم سے کم قدم اٹھانا ضروری تھا، وہ بھی نہیں اٹھایا گیا“۔ نتیجے کے طور پر، نیتن یاہو نے مزید مظالم کا ارتکاب کرنے کی جرأت محسوس کی۔ 1 اپریل 2024ءکو، اس نے دمشق میں ایرانی سفارت خانے کے کمپلیکس میں قونصلیٹ کی عمارت پر فضائی حملہ کر دیا۔ یہودی وجود نے اس پر ہی اکتفا نہ کیا اور یہاں تک کہ اس نے ایران اور اس کے اتحادیوں کو مزید ذلیل کرنے کی کوشش کی۔ 30 جولائی کی شام کو، اس نے بیروت میں فضائی حملہ کر دیا، جس میں حزب اللہ کے سینئر رہنما فؤاد شکر کو نشانہ بنایا گیا۔ اگلے ہی دن، 31 جولائی کو، یہودی وجود نے تہران کے قلب میں ایک قاتلانہ کارروائی کی، جس میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کو نشانہ بنایا گیا۔ اور یہ سب کچھ کسی قسم کی شدید جوابی کاروائی کے بغیر ہوتا رہا جو یہودی وجود کو اپنے جارحانہ اقدامات پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کرتا۔
2- امریکہ نے پھر اقدامات شروع کیے اور ان کے اہلکاروں نے دوبارہ دورے کیے تاکہ مسلم ممالک کے حکمرانوں، خاص طور پر فلسطین کے ہمسایہ ممالک، کو غزہ کی مدد کے لیے اپنی افواج کو متحرک کرنے سے روکا جا سکے۔ یہ اقدامات یہودی وجود کی طرف سے فلسطین کے لوگوں کے خلاف کیے جانے والے قتل عام کو جاری رکھنے کے لیے تھے۔ مثال کے طور پر، صدر بائیڈن کا 31 مئی 2024ء کو ہونے والا بے نتیجہ سا اقدام اور 10 جون 2024ء کو امریکی سرپرستی میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی فضول سی قرارداد۔ امریکہ نے جنگ کی وسعت کو روکنے کے بہانے مذاکرات، تبدیلیوں، اور ایڈجسٹمنٹ کے لیے فریقین کو جمع کر لیا، تاکہ مسلم ممالک کے حکمرانوں کو غزہ کی حمایت کرنے سے دور رکھا جا سکے، جبکہ قتل عام ان کی آنکھوں کے سامنے جاری رہا۔ اسی دوران، امریکہ نے یہودی وجود کی جارحیت کی بھرپور حمایت جاری رکھی، اس کے قتل عام کو جواز فراہم کیا، اور پہلے کی طرح اب بھی دونوں صورتحال میں ہر قسم کے ہتھیار فراہم کیے۔ 13 اگست 2024ء کو، امریکہ نے تقریباً 20 ارب ڈالر کی مہلک ہتھیاروں کی ڈیل کی منظوری دی۔ یہودی وجود کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے اسے ایک جیت کے طور پر دیکھا، اس اقدام کو اپنے ڈھٹائی پر مبنی مؤقف کی مکمل توثیق سمجھا اور یقین رکھا کہ امریکہ ہرگز اپنی حمایت یا ہتھیاروں کی ترسیل کو بند نہ کرے گا۔
3- اور یقیناً ایسا ہی ہوا : صدر بائیڈن نے اپنے وزیر خارجہ، انتھونی بلنکن، کو یہودی وجود کی طرف سے غزہ پر کیے جانے والے حملے کے آغاز کے بعد سے نویں بار دورے پر روانہ کیا۔ بلنکن نے مصر کا دورہ کیا اور اگلے ہی دن، 19 اگست 2024ء کو، اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے ملاقات کی۔ 20 اگست 2024 کو قطر کے دارالحکومت، دوحہ میں پریس سے خطاب کرتے ہوئے بلنکن نے مکاری سے دعوٰی کیا، "ایک فریق پر یہ بات بہت واضح ہے کہ امریکہ غزہ پر اسرائیل کے کسی طویل مدتی قبضے کو قبول نہیں کرے گا"۔ جبکہ یہ ایک مبہم سا بیان ہے جس میں "طویل مدتی" کی کوئی واضح تعریف موجود نہیں ہے۔ بلنکن نے اپنی دھوکہ دہی جاری رکھتے ہوئے کہا، "میں نے کل براہ راست وزیراعظم نیتن یاہو سے یہ بات سنی ہے کہ اسرائیل نے اس تجویز کو قبول کر لیا ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ حماس بھی ایسا ہی کرے گی۔ تو، مذاکرات کا یہ عمل ابھی جاری ہے۔ ہم ہر روز اسرائیل کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ہمارے قطری اور مصری پارٹنر حماس کے ساتھ رابطے میں ہیں، اور آنے والے دنوں میں ہم ہر ممکن کوشش کریں گے کہ حماس کو اس مفاہمت کی تجویز کے ساتھ شامل کر لیں"۔ نیو یارک ٹائمز نے 20 اگست 2024 کو، مذاکرات سے واقف ذرائع کے حوالے سے رپورٹ دیتے ہوئے کہاکہ نئی امریکی تجویز میں یہودی وجود کی افواج کو غزہ-مصر سرحد پر واقع فلاڈلفی کوریڈور کے حصے پر گشت جاری رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔
4- وائٹ ہاؤس نے رپورٹ کیا کہ صدر بائیڈن نے 21 اگست 2024ء کی شام کو نیتن یاہو کے ساتھ فون پر بات چیت کی۔ فون کال کے دوران، " صدر اور وزیراعظم نے ایران کی طرف سے تمام خطرات، بشمول حماس، حزب اللہ اور حوثیوں جیساکہ پراکسی دہشت گرد گروپوں سے 'اسرائیل' کی دفاعی مدد کے لیے جاری امریکی کوششوں پر گفتگو کی، تاکہ پہلے سے جاری دفاعی امریکی فوجی تعیناتیوں کو بھی اس میں شامل کیا جائے۔ صدر نے جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کو مکمل کرنے کی فوری ضرورت پر زور دیا اور قاہرہ میں آئندہ ہونے والے مذاکرات کے حوالے سےبات چیت کی تاکہ باقی ماندہ رکاوٹوں کو ختم کیا جا سکے" (whitehouse.gov)۔ ایک امریکی اہلکار نے فون کال سے قبل اشارہ دیا تھا کہ بائیڈن سے توقع تھی کہ نیتن یاہو پر دباؤ ڈالیں گے تاکہ مصر-غزہ سرحد پر فلادلفی کوریڈور میں یہودی فورسز کو برقرار رکھنے کے نئے مطالبے میں نرمی لائی جا سکے۔ نیتن یاہو اس کوریڈور، جسے صلاح الدین کوریڈور بھی کہا جاتا ہے اور جو تقریباً 14 کلومیٹر لمبا اور بعض مقامات پر تقریباً 100 میٹر چوڑا ہے، سے انخلاء کرنے سے انکار کر رہا ہے۔ یہ کوریڈور غزہ کی مصر کے ساتھ سرحد پر پھیلا ہوا ہے، جس پر اسرائیلی کنٹرول ہونے کو1979ء میں امریکہ کی دلالی میں منعقد ہونے والے دونوں ممالک کے مابین بدنام زمانہ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے۔ مصر نے اس کوریڈور سے یہودی وجود کو انخلاء کرنے کا مطالبہ کیا ہے، جس پر اس نے مئی میں قبضہ کیا تھا۔ امریکہ کے اس مؤقف سے نیتن یاہو، جو کہ اس کا پسندیدہ لیڈرہے، نے یہ جان لیا کہ امریکہ فقط الفاظ سے کھیل رہا ہے لیکن کوئی عملی اقدامات نہیں کر رہا۔ امریکہ کا یہودی وجود پر بہت زیادہ اثر و رسوخ ہے، یہودی وجود کا انحصار ہی امریکی اقتصادی اور فوجی امداد پر ہے۔ اگر امریکہ یہودی وجود پر دباؤ ڈالنے میں سنجیدہ ہوتا، تو یہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اسےتسلیم کر چکا ہوتا۔
5- مذاکرات 24 اگست 2024 کو قاہرہ میں شروع ہوئے، جن میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنس، قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی، قطری وزیر خارجہ، اور یہودی وجود اور مصر کے وفود شامل تھے، جبکہ حماس موجود تھی لیکن اس نے براہ راست شرکت نہ کی تھی۔ سرکاری وفود 25 اگست 2024 کو نیتن یاہو کی ضد اور صلاح الدین کوریڈور سے انخلاء کرنے سے انکار کی وجہ سے بغیر کسی معاہدے کے قاہرہ چھوڑ کر چلے گئے۔ 25 اگست 2024 کو انادولو ایجنسی کی رپورٹ نے حماس کے ایک اعلیٰ عہدے دار کے حوالے سے بیان دیا، جو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تھا، کہ "حماس صدر بائیڈن کی طرف سے اعلان کردہ اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے منظور شدہ جنگ بندی کے منصوبے پر عمل پیرا ہے"، اور اس بات کی تصدیق کی کہ "حماس 2 جولائی کو طے پانے والے امور کو نافذ کرنے کے لیے تیار ہے"۔ تاہم، نیتن یاہو کسی معاہدے کو اس وقت تک ملتوی کر رہا ہے جب تک کہ وہ آنے والے امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج نہیں دیکھ لیتا۔ وہ ریپبلکن اپوزیشن کے ساتھ رابطے میں ہے، جو بائیڈن انتظامیہ اور ڈیموکریٹس سے بڑھ کر نیتن یاہو اور یہودی وجود کی غیر متزلزل حمایت کر رہے ہیں۔ نیتن یاہو نے 26 جولائی 2024 کو واشنگٹن میں ٹرمپ سے ملاقات کی، جہاں اسےٹرمپ کی طرف سے اور کانگریس میں ریپبلکنز کی جانب سے مکمل حمایت ملی۔ ٹرمپ اور ان کے حامیوں نے نیتن یاہو کے 53 منٹ کے خطاب کو سراہا، نیتن یاہو نے ٹرمپ کے دوبارہ صدارت حاصل کرنے پر شرط لگائی، جس نے یہودی وجود کی مکمل حمایت کا وعدہ کیا تھا اور دو ریاستی حل کو ترک کر دیا تھا۔ توقع ہے کہ ٹرمپ سعودی حکومت کو یہودی وجود کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی ہدایات جاری کریں گے، اور دوسری حکومتوں کو بھی اس کی پیروی کرنے کا اشارہ ملے گا۔ نتیجتاً، نیتن یاہو ممکنہ طور پر امریکی انتخابات کے نتائج آنے تک مذاکرات کو التوا کا شکار رکھے گا۔
6- نیتن یاہو کی جانب سے تاخیر اور اس کے مطالبات میں ڈھٹائی امریکی انتخابات کے نتائج آنے تک جاری رہے گی۔ اس کے بیانات کا خلاصہ 3 ستمبر 2024ء کو العربیہ اخبارکی نشر کردہ ٹیلیویژن پریس کانفرنس میں بیان کیا گیا ہے۔ نیتن یاہو نے چار مقاصد کا اعلان کیا: "حماس کو تباہ کرنا، اپنےتمام یرغمالیوں کو واپس لانا، یہ یقینی بنانا کہ غزہ اب اسرائیل کے لیے کوئی خطرہ نہیں بنے گا، اور شمالی سرحد کے رہائشیوں کو محفوظ طریقے سے واپس لانا"۔ اس نے مزید کہا کہ، "ان جنگی مقاصد میں سے تین، ایک ہی جگہ سے گزرتے ہیں: صلاح الدین کوریڈور (فلاڈیلفی کوریڈور)"۔ اس نے اشارہ دیا کہ یہ کوریڈور "حماس کے لئے زندگی اور اسلحے کی فراہمی کا ذریعہ ہے"، اور مزید کہا کہ اسی لیے (اسرائیلیوں) "کو اسے کنٹرول کرنا ہی ہوگا"۔
دوسرا : کیا امریکہ واقعی دو ریاستی حل کے لئے سنجیدہ ہے ؟
1۔ امریکہ کی طرف سے پیش کردہ دوریاستی حل، جس کی امریکہ نے مسلمانوں کے حکمرانوں میں موجود اپنے حواریوں کے ذریعے تشہیر کر رکھی ہے، یہ حل مکاری سے ان شرائط کےگھماؤ پھیراؤ کے سوا کچھ نہیں۔ یہ حل فلسطینی لوگوں کو ایک حقیقی ریاست قطعی پیش نہیں کرتا۔ اس کے بجائے یہ ایک خودمختار انتظامیہ یا اس سے بھی کچھ کم کے مشابہہ ہے۔ 04 جنوری، 2024ء کو صدر بائیڈن نے صحافیوں کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ، دو ریاستی حل کے بھی کئی ماڈل ہیں، اور نشاندہی کی کہ ان میں سے چند ماڈل ایسی ریاست کے ہیں جس کی اپنی کوئی مسلح افواج نہ ہوں (الجزیرہ، 04 جنوری، 2024ء)۔ اس کا مطلب ہے کہ بائیڈن ایسی ریاست کے ماڈل کا حوالہ دے رہا ہے جس کی کوئی فوجی خودمختاری نہ ہو۔ جہاں تک ایک حقیقی خودمختار ریاست کی بات ہے جسے دوسرے ممالک تسلیم کرتے ہوں تو یہودی وجود اس ماڈل کو مسترد کرتا ہے۔ 18جولائی، 2024ء کو الجزیرہ نے رپورٹ کیا کہ 'اسرائیلی' کابینہ (Knesset) نے اسمبلی کی تاریخ میں پہلی بار فلسطینی ریاست کے تشکیل دینے کو مسترد کرنے کاایک فیصلہ اپنا لیا ہے۔وہ اس بات سے آگاہ ہیں کہ امریکہ انہیں اس لئے تنہا نہیں چھوڑے گا کیونکہ یہودی وجود امریکہ کا ہی تشکیل کردہ ہے اور اسلام اور مسلمانوں سے جنگ لڑنے کے لئے اسلامی دنیا کے عین قلب میں امریکہ کے ہراول دستہ کے طور پر کام کر رہا ہے۔ صدر بائیڈن مذہبی عقائد کی بنا پر ذاتی طور پر خود کو صیہونی سمجھتے ہوئے یہود کے خیرخواہ ہیں اور یہودی وجود کا دفاع کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ ان کا سیکرٹری خارجہ، انتونی بلنکن، جو کہ امریکی انتظامیہ میں ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے، اس نے تو برملا یہ بیان دیا کہ وہ یہودی وجود کا اس لئے دفاع کرتا ہے کیونکہ وہ سیکرٹری خارجہ ہونے سے پہلے خود ایک یہودی شناخت رکھتا ہے۔ حتیٰ کہ نائب صدر کمیلا ہارس، جوکہ ایک صدارتی امیدوار بھی ہیں، انہوں نے یہودی رہنماؤں کے ساتھ ایک میٹنگ میں اپنے شوہر کا تعارف ایک یہودی کے طور پر کرایا، تاکہ یہودی وجود اور یہودی کمیونٹی کے لئے انتظامی حمایت کا اظہار کیا جا سکے۔ کمیلا ہارس سے یہی توقع کی جارہی ہے کہ اگر وہ صدارتی کرسی پر براجمان ہو گئی تو وہ یہودی وجود کی حمایت کرنے کی پالیسی کو جاری رکھے گی۔ اور اگر ٹرمپ جیت جاتا ہے تو وہ ڈیموکریٹس سے مقابلے بازی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کے لئے یہودی وجود اور یہودی کمیونٹی کے لئے اپنی حمایت پیش کرے گا۔ یوں نتیجتاً یہودی وجود اس حد تک خاطرخواہ حمایت حاصل ہونے پر انحصار کرتا ہے اور اپنے جارحانہ اقدامات اور جرائم کو جاری رکھے ہوئے ہے۔
2۔ دو ریاستی حل کے حوالے سے دوسرا اہم پہلو جس کی وضاحت کرنا ضروری ہے، وہ یہ ہے :
ا۔ یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ فلسطین ایک اسلامی زمین اور بابرکت سرزمین ہے، جوکہ مسجدالاقصیٰ کی سرزمین ہے جس پر اللہ نے برکتیں نازل کی ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا،
﴿سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ﴾
” پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ لے کر گیا، جس کے اطراف میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں“ (الاسراء؛ 17:1)۔
دو ریاستی حل، جسے یہ حکمران پیش کر رہے ہیں، یہ حل اللہ سبحانہ وتعالیٰ، اس کے رسول ﷺ اور مؤمنین کے ساتھ غداری ہے۔ اسلام کی سرزمین کو اس کے لوگوں اور دشمنوں میں تقسیم کردینا ہرگز جائز نہیں ہے۔ یہود کا قطعی کوئی حق نہیں کہ وہ اس علاقہ پر کوئی بھی اختیار رکھیں، اور دوریاستی حل کی تو کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ اس کے بجائے، جیساکہ عمرالفاروقؓ نے اس سرزمین کو اسلام کے لئے کھولا تھا، خلفائے راشدینؓ نے اس کی حفاظت کی، صلاح الدینؒ نے اسے آزاد کرایا اور عبدالحمید دوئمؒ نے اسے یہودیوں سے محفوظ رکھا تھا، بالکل ویسے ہی یہ زمین اللہ کے مخلص مجاہدوں کی جدوجہد سے دوبارہ مسلمانوں کو واپس ملے گی۔
ب۔ دو ریاستی حل کے حوالے سے اسلام کا حکم یہی ہے۔ لہٰذا، اگر اس حل کا یہ مطلب بھی ہو کہ فلسطینیوں کو 1967ء کی سرحدوں پر مشتمل فلسطین میں سے ایک آزاد ریاست کا حصہ دے دیا جائے، جوکہ فلسطین کا تقریباً 20 فیصد حصہ ہے، اور 80 فیصد علاقے سے دستبردار ہوا جائے، تو جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ ایسا کرنا ایک گناہِ کبیرہ ہے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ، اس کے رسولﷺ اور مؤمنین کے ساتھ غداری ہے۔ تو اس کے بارے میں پھر کیا کہیں جو کہ محض ایک خودساختہ حکمرانی یا اس سے بھی کم کی صورت میں پیش کیا جارہاہے ؟! یہ تو غداری سے بھی چارقدم آگے بڑھ کر ایک سنگین ترین غداری ہے۔ یہ ایک قبیح جرم ہے، جس کا ارتکاب کرنے والے نہ صرف اس دنیا میں ذلت، نامرادی اور رسوائی کا سامنا کریں گے بلکہ آخرت میں ان کے لئے شدید ترین عذاب تیار رکھا ہے... اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا،
﴿سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُوا صَغَارٌ عِنْدَ اللهِ وَعَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا كَانُوا يَمْكُرُونَ﴾
”جولوگ جرم کیا کرتے تھے، عنقریب ان کو اللہ کے پاس سے ذلت اور سخت عذاب پہنچے گا، اس لئے کہ وہ مکر کیا کرتے تھے“ (الانعام؛ 6:124)
تیسرا : یہ جارحیت کیسے ختم ہو سکتی ہے اورفلسطین کو اس کے لوگوں کو واپس کیسے لوٹایا جا سکتا ہے ؟
1۔ اسلام میں یہ بات توبالکل واضح ہے۔ کہ اگر کسی اسلامی علاقے پر کفار کا حملہ ہو جائے، اس پر قبضہ ہو، اور اس علاقے کے لوگوں کو اس زمین سے نکال دیا جائے تو دشمن سے لڑنا فرض ہو جاتا ہے اور اس سے ایسے زبردست طریقے سے جنگ لڑنا کہ اسےپسپا کر کے پیچھے دھکیل دیا جائے اور اس علاقے کو ایک مکمل اسلامی سرزمین کے طور پر اس کے لوگوں کو واپس لوٹا دیا جائے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے،
﴿وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُمْ مِنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ﴾
”انہیں جہاں پاؤ، ان سے قتال کرو، اور انہیں اس جگہ سے نکال دو جہاں سے انہوں نے تمہیں باہر نکالا تھا (البقرۃ؛ 2:191)۔
اور اللہ تعالیٰ نے مزید ارشاد فرمایا،
﴿فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِهِمْ مَنْ خَلْفَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُون﴾
”پس جب آپ لڑائی میں ان پر غالب آجائیں توانہیں ایسی مارماریں کہ ان کے پچھلے بھی بھاگ کھڑے ہوں،تاکہ وہ عبرت حاصل کریں“
(الانفال؛ 8:57)۔
بلکہ حتیٰ کہ اگر کسی مسلم علاقے پر قبضہ ہوئے بغیر بھی کوئی حملہ ہو جائے تو اس جارحیت کا جواب دینا لازم ہے، ارشاد ہے،
﴿فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ﴾
”پس اگر کوئی تم پرزیادتی کرے ، تو تم بھی اس کو اسی طور پر جواب دو۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اللہ متقیوں کے ساتھ ہے“
(البقرۃ؛ 2:194)۔
لہٰذا، قابض اسلامی علاقوں کو واپس دلانا اور جارحیت کا جواب دینا، اس میں کسی بھی دو عاقل افراد میں اختلاف رائے نہیں ہے، کیونکہ یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی کتاب، رسول اللہ ﷺ کی سنت اور اجماعِ صحابہؓ سے واضح طور پر ثابت ہے۔ پھر یہ یہودی وجود خود سے ٹھہر بھی نہ پائے گا۔ یہودی وجود خود لڑنے کی اہلیت بھی نہیں رکھتا، سوائے اس کے کہ اسے لوگوں میں سے کسی کا سہارا میسر نہ ہو، جیسا کہ اللہ القوی العزیز نے ارشاد فرمایا،
﴿ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْل مِنَ اللهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاس﴾
”یہ جہاں نظر آئیں گے ذلت (کو دیکھو گے کہ) ان سے چمٹ رہی ہے بجز اس کے کہ یہ اللہ اور (مسلمان) لوگوں کی پناہ میں آ جائیں“
(آل عمران؛ 3:112)۔
یہود نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے ناطہ توڑ دیا ہے، اور ان کے پاس جو باقی رہ گیا ہے وہ امریکہ اور یورپ کے لوگوں کاہی سہارا ہے، اور مسلمانوں کے علاقوں میں موجود ان کے ایجنٹ غدار حکمرانوں سے جُڑا تعلق ہے، جو یہود کے وحشیانہ مظالم کے سامنے انگلی تک نہیں ہلاتے۔ بلاشبہ، ان میں اپنے آپ کو بہترین وہ سمجھتا ہے جو شہداء اور زخمیوں کا شمار کرنا چھوڑ دیتا ہے!
2- یہودی وجود لڑنے اور کچھ کر جانے والی قوم نہیں ہے۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
﴿ لَنْ يَضُرُّوكُمْ إِلَّا أَذًى وَإِنْ يُقَاتِلُوكُمْ يُوَلُّوكُمُ الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا يُنْصَرُونَ﴾
”وہ تمہیں معمولی سی تکلیف کے علاوہ کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اور اگر وہ تم سے لڑیں گے تو تمہارے سامنے سے پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے اور پھر ان کی کوئی مدد نہیں ہوگی“ (آل عمران؛3:111)۔
جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ مؤمن نوجوان یہود سے کم تعداد اور وسائل کے باوجود ان سے لڑ رہے ہیں، پھر بھی یہودی وجود آج تک فتح حاصل نہیں کر سکا۔ تو اس وقت کیا عالم ہو گا اگر مسلم افواج حرکت میں آ جائیں، اور وہ بھی تمام افواج نہیں بلکہ صرف فلسطین کے آس پاس کی افواج یا ان کا صرف ایک جزو ہی، تب یہودی وجود قصۂ پارینہ بن کر رہ جائے گا۔ لیکن اصل مسئلہ ان ممالک میں ہے جو آج کل مسلمانوں کی سرزمینوں پر موجود ہیں، کیونکہ ان کے حکمران کفار استعمار کے وفادار ہیں، جو اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ وہ فلسطین پر یہودی قبضے اور ان کے وحشیانہ جرائم اور دیگر مختلف خونریزی کے واقعات دیکھتے اور سنتے تو ہیں، مگر وہ ایسے بنے بیٹھے ہیں جیسے کچھ دیکھتے اور سنتے ہی نہ ہوں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
﴿صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ ﴾
”وہ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں، اس لیے وہ کبھی سیدھے راستے پر نہیں آئیں گے“ (البقرۃ؛ 2:18)۔
مسلمانوں کی اصل مصیبت ان کے حکمران ہیں۔ مسلمانوں کے حکمرانوں نے آج تک اپنی افواج کو اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے غزہ بھیجنے سے روک رکھا ہے۔ شہداء کی تعداد تقریباً 41,000 تک پہنچ چکی ہے اور زخمیوں کی تعداد تقریباً 95,000 ہے۔ لیکن حکمران یہ سب دیکھ کر بھی خاموش ہیں، اور ان میں سے اپنے آپ کو بہترین وہ سمجھتے ہیں جو شہداء کی گنتی کر لیتے ہیں اور زخمیوں کو اس طرح شمار کرتے ہیں جیسے وہ کوئی غیر جانبدار فریق ہوں یا حتیٰ کہ یہودیوں کے قریبی ہوں!
چوتھا : میں دو نکات کے ساتھ اپنی بات کا اختتام کروں گا، ان لوگوں کے لئے ایک یاد دہانی کے طور پر جو دھڑکتا ہوا دل رکھتے ہیں یا جو غور سے سنتے ہیں:
1- ہم نے 22 مارچ 2024ءکے سوال کے جواب میں کہا تھا: ”یہ بات تو معلوم ہے کہ برطانوی وزیر خارجہ کے بالفور اعلامیہ میں، جو 2 نومبر 1917ء کو لارڈ روتھ شیلڈ کے نام خط میں شامل تھا، برطانوی حکومت کی جانب سے فلسطین میں یہودیوں کے قومی وطن کے قیام کی حمایت کا وعدہ کیا گیا تھا۔ یہ وعدہ پہلی جنگ عظیم میں خلافت عثمانیہ کی شکست کے آخری دنوں میں کیا گیا تھا، جو کہ چند عرب اور ترک افراد کی غداری کی وجہ سے ہوئی تھی۔ اور اس سے سالوں قبل، 18 مئی 1901ء کو برطانیہ کی حمایت یافتہ صیہونی تنظیموں کے نمائندے ہرڈزل نے خلافت عثمانیہ کو ایک درخواست پیش کی تھی، جبکہ اُس وقت خلافت عثمانیہ کو مالی بحران کا سامنا تھا، اور ہرڈزل نے فلسطین میں زمین دینےکے بدلے خلافت کا خسارہ پورا کرنے کے لیے خطیر رقم دینے کی پیشکش کی تھی۔ تاہم، خلیفہ عبد الحمیدؒ کا ہرڈزل کودیا گیا جواب نہایت مضبوط اور دانشمندانہ تھا، ”میں فلسطین کی زمین کا ایک انچ بھی نہیں دے سکتا، کیونکہ یہ میری ذاتی ملکیت نہیں ہے، بلکہ یہ زمین اسلامی امت کی ملکیت ہے۔ میرے لوگوں نے اس زمین کے لیے جنگیں لڑی ہیں اور اسے اپنے خون سے سیراب کیا ہے۔ یہودی اپنے لاکھوں کو اپنے پاس ہی رکھیں، کیونکہ اگر کسی دن خلافت کی ریاست ٹوٹ گئی، تو وہ فلسطین کو بلا کسی قیمت کے لے سکتے ہیں۔ لیکن جب تک میں زندہ ہوں، ایسا ہرگزنہیں ہوگا.... “ خلیفہ نے واقعی بصیرت اور دانائی کا مظاہرہ کیا تھا۔ 1342 ہجری بمطابق 1924ء میں عرب اور ترک غداروں کی برطانیہ کے ساتھ سازش کے باعث ہونے والے خلافت کے انہدام سے یہودیوں کو بنا کسی قیمت کے ہی فلسطین کی زمین دے دی گئی! اور یوں پھر عبد الحمیدؒ کا کہا سچ ثابت ہو گیا۔ چنانچہ خلافت کا خاتمہ ہی فلسطین میں یہودیوں کے بدنما وجود کے قیام کا حقیقی آغاز تھا...
2- آج، جب مسلم ممالک کے ایجنٹ حکمران کفار کی پیروی کر رہے ہیں اوراسلام اور مسجد اقصیٰ کی سر زمین، فلسطین، جس کے ارد گرد اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے برکتیں رکھی ہیں، کے ساتھ غداری کر رہے ہیں... یہ روَیبضہ ناپاک اور ذلیل لوگ جلد ہی ختم ہو جائیں گے، اور اسلامی ریاست یعنی نبوت کے نقش قدم پر خلافت راشدہ اللہ کے حکم سے واپس آئے گی، اور یہودیوں کے ساتھ جنگ ہوگی اور ان کا قبضہ ختم کیا جائے گا، ان شاء اللہ !جیسا کہ الصادق الامین رسول محمد ﷺ نے مسند احمد میں حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا:
«ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّة»
”...پھر نبوت کے طریقے پر خلافت ہوگی“۔
بخاری نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
«تُقَاتِلُكُمُ الْيَهُودُ فَتُسَلَّطُونَ عَلَيْهِمْ»
”یہودی تم سے لڑیں گے، اور تم ان پر غالب آ جاؤ گے“۔
مسلم نے بھی اس روایت کو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے، جو رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا:
«تُقَاتِلُنَّ الْيَهُودَ فَلَتَقْتُلُنَّهُم»
”تم یہودیوں سے ضرور لڑو گے اور انہیں قتل کرو گے“۔ پھر زمین اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی فتح سے روشن ہوگی۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾
”اور اس دن مومن خوش ہوں گے * اللہ کی مدد کے ساتھ۔ وہ جسے چاہتا ہے فتح دیتا ہے، اور وہ غالب اور رحم کرنے والا ہے“
(سورہ الروم؛ 30:4،5)
یکم ربیع الاول، 1446 ہجری
بمطابق 04 ستمبر، 2024ء