الأحد، 22 محرّم 1446| 2024/07/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

سوال کا جواب: مصر میں صلح صفائی کیسے ہوسکتی ہے؟

بسم الله الرحمن الرحيم

 

سوال: کئی مہینوں سے مصر کے شاہراہوں اور میدانوں میں تشدد، قتل، گرفتاری، تخریب کاری اور تباہی کے واقعات کا سلسلہ جاری ہے۔ معمول کی زندگی معطل ہے اور لوگ دو گروہوں میں منقسم ہو چکے ہیں۔ ۔ ۔ اس ماحول میں کئی ایک صلح صفائی کرنے کے لیے سامنے آچکے ہیں جن میں امریکہ، یورپ حتٰی کہ روس نے بھی مصر کے ساتھ رابطے کیے ہیں۔ یہ بھی بعید نہیں کہ چین بھی مداخلت کرے! اسی طرح بعض مقامی ثالث بھی درمیان میں آگئے ہیں جن میں جماعتی اور غیر جماعتی افراد شامل ہیں اور انھوں نے بھی ثالثی اور اصلاحات کی کوشش کی ۔ ۔ ۔ لیکن وہ بھی کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکے۔ ہم نے یہ دیکھا کہ حزب التحریر نے اس معاملے میں فریقین کے درمیان ثالثی یا صلح صفائی یا اصلاحات کی کوشش نہیں کی جبکہ جو کوئی بھی حزب التحریر کو جانتا ہے اس پر اعتماد اور اس کی عزت کرتا ہے۔ حزب التحریر یقیناً رسول اللہﷺ کے اس قول سے آگاہ ہوگی کہ ((أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَفْضَلَ مِنْ دَرَجَةِ الصِّيَامِ وَالصَّلَاةِ وَالصَّدَقَةِ؟)) "کیا میں تم کو درجے کے لحاظ سے روزہ، نماز اور صدقہ سے بھی افضل عمل نہ بتادو؟" انھوں نے کہا کیوں نہیں اے اللہ کے رسول ﷺ فرمایا: ((إِصْلَاحُ ذَاتِ الْبَيْنِ، وَفَسَادُ ذَاتِ الْبَيْنِ الْحَالِقَةُ)) "لوگوں کے درمیان اس وقت صلح کروانا جب لوگوں میں موجود بدعنوان رسی کاٹ رہے ہوں"۔ تو کیا حزب کی جانب سے ثالثی اور صلح صفائی کی خاطرمداخلت نہ کرنے کا کوئی سبب ہے؟ اللہ آپ کوئی بہترین جزا دے۔

جواب: پہلا: سب سے پہلے حزب پر اعتماد کرنے اور اس کے بارے میں حسن ظن پر آپ کا شکریہ ۔ ہم اللہ سے دعاگو ہیں کہ وہ ہم سب کی رہنمائی کرے اللہ ہی دعائیں سننے اور قبول فرمانے والا ہے۔
جی ہاں رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث مبارکہ ہماری نظروں سے اوجھل نہیں جس کو ابو داؤد نے ام الدردا سے ابو الدرداکے حوالے سے روایت کی ہے کہ:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَفْضَلَ مِنْ دَرَجَةِ الصِّيَامِ وَالصَّلَاةِ وَالصَّدَقَةِ؟» قَالُوا: بَلَى، يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: «إِصْلَاحُ ذَاتِ الْبَيْنِ، وَفَسَادُ ذَاتِ الْبَيْنِ الْحَالِقَةُ » "کیا میں تمہیں درجے میں روزہ، نماز اورصدقہ سے بھی افضل چیز کے بارے میں نہ بتادوں" انہوں نے کہا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسول، فرمایا: "لوگوں کےدرمیان اس وقت صلح کروانا جب لوگوں میں موجود بدعنوان رسی کاٹ رہے ہوں"۔ لیکن صلح اور اصلاح اسلامی احکامات کے خلاف نہیں بلکہ اسلام کے مطابق ہو نی چاہیے۔ کسی حلال کو حرام کرتے ہوئے اور کسی حرام کو حلال کرتے ہوئے کوئی صلح صفائی نہیں ہو سکتی۔ رسول اللہ ﷺ نے مندرجہ ذیل احادیث میں اسی کی وصیت فرمائی ہے:
ابوداؤد نے اپنی سنن میں ابوہریرہ سے روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((الصُّلْحُ جَائِزٌ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ )) "دو مسلمانوں کے درمیان صلح جائز ہے" احمد نے اس میں یہ اضافہ کیا ہے کہ ((إِلَّا صُلْحًا أَحَلَّ حَرَامًا، أَوْ حَرَّمَ حلالا)) "مگر وہ صلح جوکسی حرام کو حلال یا حلال کو حرام کرے" اور سلیمان بن داؤدنے اس میں یہ اضافہ کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ((الْمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ)) "مسلمان اپنی شرائط کے پابند ہیں"۔ اور ترمذی نے اپنے سنن میں کثیر بن عبد اللہ بن عمرو بن عوف المزنی سے اور انہوں نے اپنے باپ پھر دادا سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((الصُّلْحُ جَائِزٌ بَيْنَ المُسْلِمِينَ، إِلَّا صُلْحًا حَرَّمَ حَلَالًا، أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا، وَالمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ، إِلَّا شَرْطًا حَرَّمَ حَلَالًا، أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا)) "مسلمانوں کے درمیان صلح جائز ہے سوائے اس صلح کے جو حلال کو حرام یا حرام کو حلال کرے، مسلمان اپنی شرائط کے پابند ہیں مگر وہ شرط جو حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرے" اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
اسی طرح ابن حبان نے اپنی صحیح میں ابو ہریرہ سے ان الفاظ سے ہی روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((الصُّلْحُ جَائِزٌ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَّا صُلْحًا أَحَلَّ حَرَامًا أَوْ حَرَّمَ حَلَالًا)) " مسلمانوں کے درمیان صلح جائز ہے مگر ایسی صلح نہیں جو حرام کو حلال یا حلال کو حرام کرے"۔
دوسرا: ہم نے فریقین کے معاملے پر غور کیا تو جو کچھ ہم نے دیکھا اس سے ہمیں سخت تعجب ہوا:
ہم نے دیکھ لیا کہ دونوں اللہ کی شریعت کے مطابق حکمرانی کرنے کے بارے میں نہیں لڑ رہے ہیں، کہ ایک فریق اس کے مطابق حکومت کر تا ہو اور دوسرا فریق اس کے مطابق حکومت نہیں کرتا ہو، بلکہ ان میں سے کسی نے بھی پہلے یا بعد میں اس کے مطابق حکومت نہیں کی !
ہم نے دیکھ لیا کہ وہ ایسے دستور کے لیے نہیں لڑ رہے ہیں جو احکام شرعیہ کے مطابق ہو، بلکہ ایک ایسے خود ساختہ دستور کے لیے دست وگریبان ہیں جو سابقہ حکومت میں بھی باطل تھا اور موجودہ حکومت میں بھی باطل تر ہے؟
اسی طرح دونوں کے درمیان یہودی وجود اور کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں جس پر سابقہ حکومت بھی کاربند تھی اور موجودہ حکومت بھی کاربند ہے؟ نہ ہی دونوں کے درمیان یہود کو گیس سپلائی کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں کوئی اختلاف رائے ہے بلکہ یہ کل بھی جاری تھی اور آج بھی جاری وساری ہے؟
دونوں ہی نہر سویز سے گزرنے والے دشمن ممالک کے بحری جہازوں کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کے لیے تیار نہیں وہ کل بھی گزرتے تھے اور آج بھی گزرتے ہیں؟
دونوں فریق اس بات پر نہیں لڑ رہے ہیں کہ پیٹرول گیس یا معدانیات جیسی اشیاء عوامی ملکیت کی چیزیں ہیں جو کہ مسلمانوں کا حق ہیں کہ ان سے حاصل ہونے والی دولت ان پر خرچ کی جانی چاہیے۔ ۔ ۔ ۔ بلکہ پہلے بھی اور آج بھی ان سے کنانہ (مصر)کی بڑی مچھلیوں کی جیبیں ہی بھرتی ہیں؟
پھر دونوں امریکہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے نہیں لڑ رہے ہیں بلکہ وہ بحال ہیں اور دونوں نے کل بھی اور آج بھی امریکہ کی رسی کو مضبوطی سے تھاما ہو ا ہے؟
تیسرا: ہم جانتے ہیں کہ روئے زمین پر اللہ کے تیرکش ، مصر کے باشندے اس وقت تک کسی قسم کے خیر، امن اور سلامتی کو نہیں پاسکیں گے جب تک ایک فریق فوج کو دشمن کے آنگن کو میدان کارزار بنانے کی بجائے مصر کو ہی میدان جنگ بنانے کے لیے اس کو تھپکی دیتا رہے گا۔ ۔ ۔ جبکہ دوسرا فریق خلافت کے عادلانہ نظام کا داعی بننے کی بجائےباطل اور خود ساختہ نظام کو بحال کرنے کے لیےمصر کی شاہراہوں کو اپنی جدوجہد کا مرکز بنا نے کے لیے لوگوں کو اکساتا رہے گا۔ ۔ ۔
مصر کے باشندوں کو دونوں فریقین سے کوئی خیر امن اور سلامتی نصیب نہیں ہو گی کیونکہ دونوں ہی اس سیکولر جمہوریت اور عوامی ریاست کے داعی ہیں جو اسلام کو ایک طرف کردیتی ہیں۔ وہ اس جمہوریت کی بات کرتے ہیں جس میں اللہ نہیں بلکہ انسان قانون سازی کرتا ہے، جس میں حاکمیت اعلی رب کا نہیں بلکہ عوام کا ہے۔
اسی طرح دونوں فریقوں سے کسی خیر، امن اور سلامتی کی توقع نہیں کیونکہ دونوں ہی اپنا خود ساختہ دستور رکھتے ہیں جس کے بارے میں اللہ نے کوئی برہان نازل نہیں فرمائی۔ دونوں ہی اللہ رب العالمین کے اس دستور کو پس پشت ڈالتے ہیں جس کو اللہ نے امت کی فلاح اور بھلائی کے لیے نازل فرما یا ہے ﴿أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ﴾ "کیا یہ نہیں جانتے کہ کس نے پیدا کیا، وہ ہی تو تدبیر والا اور جاننے والا ہے"۔
مصر کے باشندے اس وقت تک کسی قسم کے خیر، امن اور سلامتی کو نہیں دیکھ سکتے جب تک فلسطین کو غصب کرنے والے یہودی وجود اور سابقہ اورموجودہ حکومتوں کے درمیان کیمپ ڈیوڈ کا معاہدہ موجود ہو اور جب تک کہ اس کو ختم کر کے ردی کی ٹوری میں نہیں پھینک دیا جاتا۔
یہ اس وقت تک کسی قسم کی بھلائی کا منہ نہیں دیکھ سکتے جب تک فلسطین کو غصب کرنے والے یہودی وجود کو گیس کی سپلائی جاری رہے گی کیونکہ جس کو غصب کیا گیا ہے اس کے خون سے غصب کرنے والے کو جینے کا سامان مہیا نہیں کیا جاسکتا۔ ۔ ۔ !
وہ اس وقت تک خیر کو ترستے رہیں گے جب تک عوامی ملکیت حقداروں ، جو کہ مصر کےباشندے ہیں، کو ملنے کی بجائےباطل طریقے سے حکمرانوں کے جیبوں میں جاتی رہے گی۔ ۔ ۔
وہ اس وقت تک کسی خیر سے بہرہ مند نہیں ہو سکتے جب تک امریکہ کے ساتھ تعلقات قائم ہیں اور جب تک امریکی رسی واشنگٹن سے قاہرہ تک بچھی ہوئی ہے اور اس کو کاٹا نہیں جاتا۔ ۔ ۔
آخر میں یہ کہ اہل مصر اس وقت تک بھلائی کا منہ نہیں دیکھ سکتے جب تک اللہ کی زمین پر اللہ کی تیر کش مصر میں خلافت کے ستونوں میں سے ایک ستون بن کر اپنی پہلی صورت پر نہ آجائیں:جب رومیوں سے اس کو فتح کیا گیا۔ ۔ ۔ پھر اس نے فلسطین اور اس کے آس پاس سے صلیبیوں کو ماربھگا یا۔ ۔ ۔ ۔ پھر اس کا سفر اللہ کے اذن سے فلسطین کو آزاد کر کے اور یہودی وجود کو صفحہ ہستی سے مٹا کر ہی مکمل ہو گا۔ ۔ ۔ ۔
چوتھا: ہم نے فریقین پر نظر دوڑائی تو دیکھا کہ دونوں مشرق اور مغرب سے حل ڈھونڈ رہے ہیں۔ ادھر اُدھر کے ثالثوں کے ذریعے اندر اور باہر حل تلاش کر رہے ہیں لیکن ہدایت کی طرف نہیں آتے، اس لیے یہ حل تلاش کرنے کے اہل ہی نہیں۔ جو حل وہ لانے کی کوشش کر رہے ہیں اس کے نتیجے میں کوئی خیر نہیں۔
جہاں تک بیرونی ثالثوں کا تعلق ہے ان کو مصر سے کوئی دلچسپی نہیں۔ کیا کوئی عقلمند شخص امریکہ سےیہ توقع کر سکتا ہے کہ اس کے لائے ہوئے حل میں کوئی خیر ہو۔ وہی سابقہ ، اس سے پہلی اور موجودہ حکومت کا پشت بان ہے۔ سابقہ ، اس سے پہلے یا موجود ہ حکومت کی جانب سے قتل و غارت کے پیچھے امریکہ ہی ہے۔ مقتولین کی تعداد یا تباہی کی مقدار کی امریکہ کو کوئی پرواہ نہیں۔ ۔ ۔ بلکہ اس کو اس بات سے دلچسپی ہے کہ مصر پر اس کی بالادستی قائم دائم رہے۔ ۔ ۔ اس کا ماضی بلکہ عراق اور افغانستان میں اس کا حال اس کا شاہد ہے، جس کا یہ حال ہو وہ مصر اور اہل مصر کے لیے کیا صحیح حل لائے گا؟ کیا او بامہ یا اس کا فرستادہ کیری مصر اور اہل مصر کا خیر خواہ ہے؟ یہ تو اسلام اور مسلمانوں کے کھلے دشمن ہیں۔ ۔ ۔
کیا کوئی باشعور بصیرت اور بصارت والا شخص یورپ سے ایسے حل کی توقع کر سکتا ہے جس میں خیر ہو؟ برطانیہ اور اس کے ایجنٹوں نے 1342 ھ بمطابق 1924ء میں خلافت کا خاتمہ کیا ۔ یہی خلافت اور اس کے لیے جدوجہد کرنے والوں کا بدترین دشمن ہے، یہی بلفور کے منحوس معاہدے کے پیچھے ہیں۔ یہ امریکہ، فرانس اور روس ہی فلسطین کو غصب کرنے والے اور اس کے باشندوں کو جلاوطن کرنے والے یہو د کے پشت پناہ ہیں۔ انہوں نے ہی اسراء اور معراج کی سرزمین اور اسلام کی سرحد فلسطین میں اس یہودی وجود کو تخلیق کیا۔ ۔ ۔ جہاں تک فرانس کا تعلق ہے تو وہ یہودی وجود کے ابتدائی پشت بانوں میں سے ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو قتل کرنے کے حوالے سے بھی انتہائی سیاہ تاریخ کا حامل ہے جس نے پہلے الجزائر اور اب مالی میں مسلمانو ں کا خون بہایا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ رہی بات روس کی جس کی تمام حرکات وسکنات سوویت یونین کے زوال کے بعد خطے میں امریکہ کے اشارے ہی پر ہوتی ہیں، شام کے سرکش کی حمایت اس پر مستزاد ہے۔ اسی طرح قفقاز کے مسلمانوں خاص کر چیچنیا میں اس کی قتل و غارت گری ، قازان میں مساجد کو منہدم کرنا، تاتارستان میں آئمہ کی گرفتاریاں اور بعض کو قتل کرنا اور اسلام کے داعیوں کی گرفتاریاں سب اس کے جرائم ہیں۔ ۔ ۔ کیا اس سے کسی خیر کی توقع ہے؟یہی حال چین کا ہے جس نے مشرقی تر کستان پرقبضہ کر رکھا ہے اور وہاں کے مسلمانوں کو نشانہ بناتا ہے، اگر وہ بھی مداخلت کرے یا ثالث بن جائے توکیا اس سے خیر کی توقع ہے؟
ان سارے بیرونی ثالثوں کے ساتھ صرف زہر قاتل ہی ہو گا۔ ان کے لیے اہل کنانہ کے خون کی کوئی قیمت نہیں بلکہ وہ خون چوستے ہیں اور اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں۔ ان سب کا سرغنہ امریکہ ہے جو کنانہ (مصر)کو خطے میں اپنا مضبوط ٹھکانہ سمجھتا ہے۔ ۔ ۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی زندہ اور عقلمند انسان جھاڑیوں میں انگور کی توقع نہیں کرتا! کیا یورپ کا آشتون یا امریکہ کا کیری یا کسی بھی اجنبی ملک سے کسی بھلائی کی امید کی جاسکتی ہے؟ ﴿كَيْفَ وَإِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوا فِيكُمْ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً يُرْضُونَكُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ﴾ "کس طرح یہ جب بھی تم پر غالب آتے ہیں تو تمہارے بارے میں کسی رشتہ داری کا پاس رکھتے ہیں نہ ہی کسی قرابت کا لحاظ۔ اپنی زبانوں سے تو تمہیں خوش کرتے ہیں جبکہ ان کے دل یہ نہیں چاہتے اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں" (التوبہ:8)۔
رہی بات اندرونی ثالثوں کی تو وہ بھی کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی دائرے میں چکر کاٹ رہے ہیں، یہ بھی وہی حل دے رہے ہیں جو فریقین پیش کر رہے ہیں، جس کی رو سے جمہوری نظام ، سیکولر عوامی حکومت اور اس جمہوریت کی حفاظت جس کی رو سے انسانوں کے خالق کی جگہ خود انسان کو قانون سازی کا اختیار حاصل ہے اور حاکمیت اعلی عوام کے رب کی بجائے خود عوام کے پاس ہے، جس میں شخصی آزادیاں ہیں، جس میں دین، ملکیت اور رائے کی آزادی ہے ، وہ سب کچھ جو اس افراتفری اور تباہی کے ذمہ دار ہیں۔۔۔! یہ ثالث یہی کر رہے ہیں، کبھی ایک فریق سے کچھ چیزوں سے دستبردار ہو نے کا مطالبہ کرتے ہیں اور کبھی دوسرے سے کچھ اور چیزوں سے پیچھے ہٹنے کا کہتے ہیں جبکہ اس بات پر سب متفق ہیں کہ اس مصیبت اور بدبختی کے اصل سبب اس نظام کو برقرار رکھا جائے! تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ان ثالثوں میں سے بعض مسلمان ہیں جو اللہ کی کتاب میں ﴿وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ﴾ "اور نماز قائم کرو" پڑھتے ہیں تو نماز ادا کرتے ہیں اور نماز سے دستبردار نہیں ہوتے، جبکہ اسی کتاب اللہ میں ایک اور آیت ﴿وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ﴾ "اور ان کے درمیان اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکومت کرو" پڑھتے ہیں تو اس سے دستبردار ہو جاتے ہیں، یہ لوگ حدود اللہ کو نافذ کر نے کی بات کرتے ہوئے "شرمندگی" محسوس کرتے ہیں، فریقین سے نظام خلافت کا مطالبہ کرتے ہوئے وہ کانپتے ہیں اور اس بات سے ڈرتے ہیں کہ کہیں امریکہ، یورپ، روس اور چین ناراض نہ ہو! بے شک یہ بڑی ہی عجیب بات ہے!
پانچواں: یوں موجودہ اندرونی یا بیرونی ثالثین کنانہ اور اہل کنانہ کے مسائل کوپائیداراور پر امن طور پر حل کر نے کی اہلیت ہر گز نہیں رکھتے ہیں ۔ حل صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ سب لوگ اپنے دل ، دماغ اور تمام تر توانائی سے اس نظام خلافت کے ذریعے جس کو اللہ رب العالمین نے فرض قرار دیا ہے اللہ کی شریعت کو نافذ کر نے کی طرف متوجہ ہوں، جس کے واضح اورصحیح دلائل کتاب اللہ ، سنت رسو ل ﷺ اور اجماع صحابہ رضوان اللہ علیھم میں موجود ہیں:
جہاں تک کتاب اللہ کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے رسولﷺکو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ ط ۔۔۔ وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْك﴾ "ان کے درمیان اللہ کے نازل کردہ کے ذریعے حکومت کرو اور جو حق تمہارے پاس آیا ہے اس کے بارے ان کی خوہشات کی پیروی مت کرو ۔۔۔ اور اور ان کے درمیان اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکومت کرو ان کی خوہشات کی پیروی مت کرو اور ہوشیار رہو کہ کہیں یہ تمہیں اللہ کے نازل کردہ بعض احکامات کے بارے میں فتنے میں مبتلا نہ کر دیں" (المائدہ:48-49)۔
اس کے علاوہ بھی کئی آیات ہیں۔ رسول اللہ ﷺ سے ان کے درمیان اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکومت کرنے کا خطاب امت کے لیے بھی خطاب ہے ۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد بھی ایسے حکمران ہونے چاہیے جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکومت کریں ۔ اس خطاب میں امر بھی جزم کا فائدہ دیتا ہے، کیونکہ خطاب کا موضوع فرض ہے۔ یہ جزم کا قرینہ ہے جیسا کہ اصول میں ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے بعد جو حکمران اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکومت کر تا ہے اس کو خلیفہ کہا جاتا ہے اور اس نظام حکمرانی کو خلافت کا نظام کہا جاتا ہے۔
جہاں تک سنت کا تعلق ہے تو نافع سے روایت ہے کہ: عبد اللہ بن عمر نے مجھے بتایا کہ : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ : «من خلع يداً من طاعة لقي الله يوم القيامة لا حجة له، ومن مات وليس في عنقه بيعة مات ميتة جاهلية»"جو شخص اطاعت سے ہاتھ کھینچ لے تو قیامت کے دن اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کے پاس کوئی حجت نہیں ہو گی اور جو اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں خلیفہ کی بیعت نہیں تو جاہلیت کی موت مرا" اس کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ ہر مسلمان پر فرض قرار دیا کہ اس کی گردن میں بیعت ہو اور جو اس کے بغیر مرا اس کو جاہلیت کی موت قرار دیا جو کہ اس گناہ کے عظیم تر ہو نے کی دلیل ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے بعد بیعت خلیفہ کے علاوہ کسی اور کی ہو ہی نہیں سکتی۔ مسلم نے الاعرج سے اور اس نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: «إنما الإمام جُنة يُقاتَل من ورائه ويُتقى به» "صرف خلیفہ ہی ڈھال ہے جس کی قیادت میں لڑا جاتا ہے اور جس کے ذریعے حفاظت ہو تی ہے" اور مسلم نے ابو حازم سے روایت کی ہے کہ: میں پچاس سال تک ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں بیٹھتا رہا اور میں نے ان کو یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا کہ نبی ﷺ نے فرمایا:«كانت بنو إسرائيل تسوسهم الأنبياء، كلما هلك نبي خلفه نبي، وإنه لا نبي بعدي، وستكون خلفاء فتكثر، قالوا فما تأمرنا؟ قال: فُوا ببيعة الأول فالأول، وأعطوهم حقهم، فإن الله سائلهم عما استرعاهم» "بنی اسرائیل کی سیاست ان کے انبیاء کیا کرتے تھے ، جب ایک نبی کا انتقال ہو جاتا تو ایک اور اس کی جگہ آجاتا ، چونکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور کثرت سے خلفاء ہوں گے، لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟فرمایا: ایک کے بعد ایک کی بیعت کی وفا کرو، ان کو ان کا حق دو کیونکہ اللہ ان سے ان کی رعایا کے بارے میں پوچھے گا" ان احادیث میں خلیفہ کو ڈھال قرار دیا گیا ہے، یعنی بچاؤ ، اس میں یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ جو لوگ مسلمانوں کی سیاست کریں گے وہ خلفاء ہونے چاہیے ، یعنی ان کو وجود میں لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
رہی بات اجماع صحابہ کی تو صحابہ رضوان اللہ علیھم نے رسول اللہ ﷺ کے رحلت فرما جانےکے بعد ان کا خلیفہ مقرر کرنے پر اجماع کیا ۔ ان کے اس اجماع کی تاکید رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد آپ ﷺ کی تدفین میں تاخیر اور خلیفہ کے تقرر میں مشغولیت سے ہوتی ہے، حالانکہ وفات کے بعد میت کی تدفین فرض ہے۔ جن صحابہ پر رسول اللہﷺ کی تجہیز و تدفین فرض تھی ان میں سے بیشتر نے رسول اللہ ﷺ کی تدفین پر خلیفہ کے تقرر کو ترجیح دی اور باقی اس پر خاموش رہے اور تدفین کی تاخیر میں شریک رہے قدرت کے باوجود کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی ، اور قدرت کے باوجود انہوں نے خلیفہ کے تقرر سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی تدفین بھی نہیں کی۔ رسول اللہ ﷺ پیر کے دن پہلے پہر کو انتقال فرماگئے اور منگل کی رات پھر منگل کے دن بھی نہیں دفنائے گئے۔ جس دن ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بعیت کی گئی اس بدھ کی رات کو آدھی رات کے وقت رسول اللہ ﷺ کی تدفین کی گئی، یعنی تدفین میں دوراتوں کی تاخیر کی گئی۔ اس دوران رسول اللہ ﷺ کی تدفین سے پہلے ہی ابوبکر کی بیعت کی گئی، یوں یہ خلیفہ کے تقرر کو میت کی تدفین پر ترجیح دینے پر اجماع ہے، جو خلیفہ کے تقرر کے فریضہ کے عظیم ترین ہو نے کی دلیل ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ایسے حکمران کی غیر موجود گی میں جو مسلمانوں پر اسلام کے ذریعے حکومت کرے جو کہ "خلیفہ"ہے، مسلمانوں پر اس کو وجود میں لانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا نا فرض ہے۔ وہی اللہ رب العالمین کی طرف سے فرض کیے گئے حدود کو نافذ کرے گا جو کہ ایک بڑا فریضہ ہے اور جس میں امت کی بھلائی اور کامیابی ہے۔ ابن ماجہ نے اپنے سنن میں ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «حَدٌّ يُعْمَلُ بِهِ فِي الْأَرْضِ، خَيْرٌ لِأَهْلِ الْأَرْضِ مِنْ أَنْ يُمْطَرُوا أَرْبَعِينَ صَبَاحًا» "زمین پر ایک حد کو نافذ کرنا اہل زمین کے لیے چالیس دن کی صبح کے وقت کی بارش سے بہتر ہے"۔
یہ ہے مصر اور تمام مسلم علاقوں کے مسائل کا حل جس سے وہ خیر سے بھر جائیں گے اور یہ خیر چاردنگ عالم میں پھیل جائے گا۔
چھٹا: ہم واقعات پر نگاہ رکھے ہوئے تھے اور خون خرابہ اور تباہی کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ المناک بات تو یہ ہے کہ تمام فریق ہر جگہ حل تلاش کررہے ہیں اس اسلام کے علاوہ جو ان کا عقیدہ ہے اور جس کے مطابق نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں!
چونکہ ہمیں اس کے علاوہ کوئی حل نظر نہیں آتا کہ تمام فریق خلافت کے نظام کو قبول کریں جبکہ تمام فریق خلافت کے نظام اور اس کے لیے کام کرنے والوں کے راستے میں روڑے اٹکا رہے ہیں اس لیے ہمیں تردد ہوا کہ ہم فریقین کے درمیان صلح صفائی کے لیے خلافت کانظام ان کے سامنے پیش کریں۔ ۔ ۔ ۔ ہمیں ڈرہے کہ ہماری یہ پکار صدا بصحرا ثابت ہو گی اس لیے اس سے باز رہنے اور اس پر نظر رکھنے کو ہی ترجیح دی شاید اس کے بعد اللہ سبحانہ وتعالیٰ کوئی بہتری لائے۔
اسی چیز نے ہمیں مداخلت سے روکا ، ہماری طرف سے کئی بار رابطہ کرنے کے باوجود فریقین کی قیادتیں خلافت اور اہل خلافت کی طرف رجوع کرنے کے لیے تیار نہیں۔ خلافت کا تو ذکر کرتے ہوئے بھی اس خوف سے ان کے دل ڈر جاتے ہیں کہ کہیں مغرب بقول ان کے مشتعل نہ ہو۔ جن کا یہ حال ہو ہم کیسے ان کے درمیان ثالث بننے کے لیے مداخلت کریں؟
ہم ان کے درمیان صلح کر انے کے لیے بھرپور کوشش کرنے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ دونوں نظام خلافت پر اکٹھا ہو جائیں۔ اگر ہمیں معلوم ہو جائے کہ فریقین اللہ کی شریعت کی حکمرانی چاہتے ہیں خلافت کے اعلان اور اس کے جھنڈے کو بلند کرنےکے لیے تیار ہیں جو کہ العقاب ہے اور لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا جھنڈا ہے تب ہم ان کے درمیان صلح کرا نے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے اور تب ہی ہم فریقین کو ایک ہی نظام کے سائے میں یکجا کرنے کے قابل ہوں گے جو کہ خلافت راشدہ کا نظام ہے۔ اللہ کے فضل وکرم سے ہم معاملات کو پھر درست طریقے سے سنبھالنے کے اہل ہیں ، خلافت کے قیام اس کے امن اور استحکام کو برقرار رکھنے کے قابل ہیں جس سے روئے زمین پر اللہ کا تیر کش مصر ایک بار پھر اپنے رب کی مدد سے طاقتور اور اپنے دین کی وجہ سے باوقار ہو گا، اللہ کے دشمنوں کی کمر توڑدے گا، اسلام ، مسلمانوں اور ان کے اہل ذمہ کے ہر بد خواہ کولرزادے گا۔
ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں۔ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کا مطلب بھی سمجھتے ہیں۔ جو بھی حزب التحریر، اس کے ماضی اور حال کو جانتا ہے وہ اس کی گواہی دے گا، اس کے بعد اللہ ہی مدد گار ہے۔ ۔ ۔
صلح اور اصلاح اس طرح ہوتی ہے ، اس منہج پر ہم گامزن ہیں، ممکن ہے فریقین اس مصیبت اور سختی کا سامنا کرنے کے بعد صحیح حل جو کہ خلافت کا نظام ہے کی طرف آئیں گےجو اس رب العالمین کا نظام ہے جو اپنے بندوں کی دنیا اور آخرت کی بھلائی کو سب سے بہتر جانتا اور اور سب سے اچھا فیصلہ کرتا ہے۔ ممکن ہے فریقین کی اس پر موافقت اس امت کی شاندار تاریخ کو دہرانے کا سبب بن جائے جس کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے: ﴿كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللهِ﴾ "تم ہی بہترین امت ہوجو لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لیے پیدا کیے گئے ہو ، تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہو اور تم اللہ پر (صحیح معنوں میں) ایمان رکھتے ہو" (آل عمران:110)۔ یوں خلافت ایک بار پھر لوٹ آئے گی، اسلام اور اہل اسلام کو عزت بخشے گی، کفر اور اہل کفر کو ذلیل کر دے گی، دنیا کے ہر گوشے میں خیر کا چرچا ہو گا، یہ اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں۔
آخر میں ہم یہ کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ کوئی ہمارے بارے میں کہے کہ "یہ خوابوں کی دنیا میں رہنے والے لوگ ہیں" یا کوئی کہے کہ ان کو "ان کے دین نے مغرور کردیا ہے"یا کوئی شخص یہ کہے کہ "یہ لوگ اس دنیا میں ہی نہیں رہتے جس پر امریکہ اور مغرب کا راج ہے"کوئی چوتھا شخص ممکن ہے یہ کہے کہ "خلافت تھی ختم ہو گئی مگر پھر کبھی نہیں آئے گی"۔ ۔ ۔
لیکن ہم عین اسی وقت میں اس بات کو سمجھتے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالی فرماتا ہے:: ﴿وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾ "اللہ نے تم میں سے ان لوگوں سے وعدہ فرمالیا ہے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے کہ ان کو زمین میں خلافت عطا فرمائے گا جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو خلافت سے نواز چکا ہے اور یقینا ان کے لیے ان کےاس دین کو (اقتدار کے ذریعے)مضبوط کردے گا جس کو ان کےلیے پسند فرما چکا ہے، پھر یقینا ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا جس کے بعد وہ میری عبادت کرتے رہیں گے اور کسی کو میرے ساتھ شریک نہیں بنا ئیں گے اس کے بعد بھی کوئی ناشکری کرے تو وہی لوگ ہی فاسق ہیں" (النور:55)
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے جس کو احمد ابو داؤد اور الطیالسی نے حذیفہ بن الیمان سے روایت کیا ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «إِنَّكُمْ فِي النُّبُوَّةِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَاضًّا، فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ جَبْرِيَّةً، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ» "تمہارے درمیان نبوت اس وقت تک ہو گی جب تک اللہ چاہے گا پھر جب اللہ چاہے گا تو اس کو اٹھا لے گا، اس کے بعد نبوت ہی کے طرز پر خلافت ہو گی اور وہ بھی اس وقت تک ہو گی جب تک اللہ چاہے گا ، پھر جب اللہ چاہے گا اس کو بھی اٹھا لے گا، اس کے بعد خاندانی حکومت ہو گی اور وہ بھی اس وقت تک ہو گی جب تک اللہ چاہے گا پھر اللہ جب اللہ چاہے گا اس کو بھی اٹھا لے گا، اس کے بعد جابرانہ حکومت ہو گی اور اس وقت تک ہو گی جب تک اللہ چاہے گا پھر جب اللہ چاہے گا اس کو بھی اٹھا لے گا، اس کے بعد پھر نبوت کے طرز پر خلافت ہو گی"۔
کوئی بھی عقلمند صاحب بصارت اور بصیرت شخص سمجھے گا کہ ان کا یہ کہنا غلط اور باطل ہے۔ عقل والوں کے ہاں اس کی کوئی قیمت نہیں جبکہ اللہ سبحانہ اور اس کے رسول ﷺ کا فرمان حق ہے
﴿فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ فَأَنَّى تُصْرَفُون) "حق کے بعد گمراہی کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے پھر یہ کہاں بھٹکے جارہے ہیں" (یونس:32)۔
ہم صورت حال کو بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں اور ممکن حد تک فریقین سے رابطہ کر رہے ہیں ممکن ہے اللہ اس کے بعد کوئی بہتری لائے ﴿إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ﴾ "بے شک اللہ متقیوں اور احسان کرنے والوں کےساتھ ہے" (النحل:128) ﴿وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ﴾ "اور ہم چاہتے ہیں کہ زمین میں ستائے گئے لوگوں پر احسان کریں اور ان کو دنیا کا امام اور وارث بنائیں" (القصاص:5)
﴿وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾ "اللہ ہی اپنے فیصلے میں غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے" (یوسف:21)

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک