بسم الله الرحمن الرحيم
تقریر - 6
ہم جو خلافت راشدہ چاہتے ہیں وہ نبوت کے نقش قدم پر قائم خلافت ہے جس میں کسی میراث کا عمل دخل نہیں ہوتا
انجینئر أسامة الثويني – ولاية كويت
موجودہ نسلیں ایک ایسی اسلامی ریاست جو اسلام نافذ کرے، میں پروان نہیں چڑھیں۔ یہ خلا تقریباً سو سال سے جاری ہے۔ لہٰذا اسلامی حکومت کے خدوخال کو واضح کرنا بہت مشکل ہے ، خاص کر وہ نسلیں جنھوں نے سوائے جمہوریت، بادشاہتوں اور قومیتوں کے علاوہ کچھ نہ دیکھا ہو، ان کیلئے اسلامی قوانین کی منظر کشی یقیناً ایک مشکل کام ہو گا، چاہے یہ سیاسی ، معاشی یا معاشرتی شکل میں ہو۔
سب سے پہلے میں بادشاہت اور میراثی حکمرانی کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر اور احکامات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔
بنیادی نقطہ نظر سے حکومت اور اختیار فطری طور پر امت کی ملکیت ہے۔ امت وہ ہے جس کو شریعت کے نفاذ کے ساتھ خطاب کیا گیا۔ اور قرآن پاک کی حکمرانی اور اختیارات کے بارے میں دسیوں آیات نازل ہوئیں۔ جو مسلمانوں کو اللہ کے نازل کردہ احکامات کے مطابق حکمرانی کرے کا حکم دیتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُواْ أَيْدِيَهُمَا﴾
"چور مرد و عورت کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں"(المائدہ۔38)۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِئَةَ جَلْدَةٍ﴾
"غیر شادی شدہ عورت یا غیر شادی شدہ مرد جنسی فعل کا مرتکب پایا جائے تو دونوں کو سو کوڑے ماریں"( النور-2)۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُواْ بِالْعَدْلِ﴾
"جب لوگوں کے مابین فیصلہ کرو تو انصاف سے کرو"(النساء -58)۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ قَاتِلُواْ الَّذِينَ يَلُونَكُم مِّنَ الْكُفَّارِ وَلِيَجِدُواْ فِيكُمْ غِلْظَةً﴾
"اے ایمان والو! جو کفار تم سے قریب قریب رہتے ہیں پہلے ان سے جہاد کرو اور چاہیے کہ وہ تم میں سختی پائیں"(التوبہ -123)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَاْ أُولِيْ الأَلْبَابِ﴾
"عقلمندو! قصاص میں تمھارے لیے زندگی ہے اس کے باعث تم (قتل ناحق) سے رکو گے"( البقرۃ-179)
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَوْفُواْ بِالْعُقُودِ﴾
"اے ایمان والو! تمام معاہدوں کو پورا کرو"(المائدہ-1)
اس کے علاوہ اور بہت ساری آیات ہیں۔
ان تمام احکامات کو نافذ کرنے کیلئے اسلام آیا اور امت کو ایک شرعی راستہ دکھایا۔ اور مسلمانوں کو حکم دیا کہ اسلام کی بنیاد پر ایک ریاست قائم کرو اور امت میں سے ایک حکمران (خلیفہ) منتخب کر کے شریعت کے نفاذ کی بیعت کرو۔
یعنی اسلامی نظام میں حکمران شریعت کے نفاذ میں امت کا نمائندہ ہوتا ہے، اور حکمران کا چناؤ امت کا حق ہے۔ یہ اسلام میں حکمرانی کے اصولوں میں سے ایک اصول ہے۔
اور یہ ایک اسلامی اصول ہے جس کے مطابق صرف امت یا اس کی اکثریت ہی ریاست کے سربراہ کا تقرر کرتی ہے۔ نصوص اس بات کی نشاندہی میں متفق ہیں کہ خلیفہ صرف بیعت کے ذریعے حکمرانی کے اختیارات لے سکتا ہے۔
ارشادِ نبوی ﷺ ہے:
«وَمَنْ بَايَعَ إِمَامًا فَأَعْطَاهُ صَفْقَةَ يَدِهِ وَثَمَرَةَ قَلْبِهِ»
"اگر کوئی شخص کسی قائد کی بیعت کرے تو اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھے اور اسے خلوصِ دل کے ساتھ کرے"
،عبادہ بن الصامت کہتے ہیں کہ: «بَايَعْنَا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِي الْمَنْشَطِ وَالْمَكْرَهِ وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ» "ہم نے رسول اللہ سے سننے اور اطاعت کرنے کی ، مشکل میں اور آسان حالات؛ جیسے بھی ہوں،کی بیعت کی۔ اور حکمران سے حکمرانی کے بارے میں تنازعہ نہ کرنے کی بیعت کی"۔
لہٰذا شریعت خلیفہ کا انتخاب بیعت کے ذریعے کرتی ہے۔ اور یہ بیعت مسلمان خلیفہ کو دیتے ہیں۔ اور یہ کسی مخصوص گروہ سے نہیں اور نہ ہی کسی مخصوص گروہ کے مخصوص افراد سے جیسے فوج، لیڈر، جماعتیں، سیاستدان یا اور اس طرح کے لوگ۔ یہ صرف مسلمانوں سے لی جاتی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کے بعد خلفاء راشدین کے دور میں بھی ایسا ہی ہوا۔ لوگوں کی بیعت کے ذریعے خلیفہ مقرر ہوا کرتا تھا۔ سو ابوبکر ؓ صرف بیعت کے ذریعے خلیفہ بنے۔ ابو بکرؓ نے صحابہ سے مشورہ کر کے عمرؓ کو نامزد کیا اور انہوں نے اسے قبول کیا۔ تو یہ وہ وقت ہے جب آپ ؓ نے فرمایا: کیا آپ اسے قبول کرتے ہو جس کو میں نے جانشین کے طور پر چنا، اللہ کی قسم میں نے بہت کوشش کی اور بہت سوں سے مشورہ کیا اور میں نے اپنے کسی رشتہ دار کو نہیں چنا۔
عمر ؓ اس نامزدگی سے خلیفہ نہیں بنے بلکہ ابو بکرؓ کی وفات کے بعد صحابہ کی بیعت کے بعد خلیفہ بنے، اور عثمانؓ اور علی ؓ بھی اسی طرح خلیفہ بنے۔
اللہ ان سب سے راضی ہو۔
شریعت کے حکم کے مطابق خلیفہ کے تقرری صرف اور صرف بیعت ہی کے ذریعے ممکن ہے۔
اگر امت اپنے بیعت کے حق پر عمل نہیں کر پاتی، جیسے طاقت اور جبر کے ذریعے غصب کیا جائے یا حکمرانی بیرونی قوتوں کے ذریعے غصب کی جائے یا اس حکم کو خاندان میں ہی وراثت کے طور پر منتقل کی اجائے تو امت سے اس کا حق چھین لیا گیا۔
تاہم ، خلافت (جانشینی) کا معاہدہ دوسرے تمام معاہدوں کی طرح باہمی رضامندی اور انتخاب کا معاہدہ ہے۔ یہ صرف دو معاہدہ کرنے والی جماعتوں کے مابین ہے ، ان میں سے ایک امت ، اور دوسری حکمران یا خلیفہ ہے ، لہذا یہ حکمرانی معاہدہ ہے۔ اگر دونوں فریقوں میں سے ایک غائب ہے تو ، معاہدہ بالکل باطل ہو جاتا ہے ، اور یہ کسی دوسرے باطل معاہدوں کی طرح ہے ، اور حکمران شرعی (جائز) حکمران نہیں رہتا۔ بلکہ ، حکمران کو اس وقت غاصبانہ حکمران سمجھا جاتا ہے ، اور اقتدار پر قبضہ کرنے والے احکامات کااطلاق اس پر ہو گا۔
اتھارٹی صرف امت کی ہے ، اور یہ ایک نازک اور اہم معاملہ ہے ، جس کی خلاف ورزی کرنے کا حکم قتل تک پہنچ جاتا ہے! عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا: "جو شخص مسلمانوں سے مشورہ کیے بغیر کسی شخص سے بیعت کرتا ہے تو اس کی پیروی نہیں کی جانی چاہئے ، اور نہ ہی اس کے ساتھ بیعت کرنے والے کا ساتھ دینا چاہئے ، ورنہ انہوں نے خود کو مارے جانے کے خطرہ کے میں ڈال دیا۔ اور ان کا چھ افراد سے خطاب : "جو شخص مسلمانوں کی مشاورت کے بغیر امیر کا منصب حاصل کرتا ہے ، اس کی گردن مار دو"
صحابہ کا موقف واضح اور صاف تھا جب انہیں بیعت کے غلط استعمال کی علامات محسوس ہوتیں ،انہوں نے اس پر سختی سے اعتراض کیا اور اسے بری کاروائی قرار دیا ، اوراس کو مسترد کردیااور اس کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔
عبد الرحمٰن بن ابی بکر نے یزید کی نامزدگی کے وقت معاویہ سے کہا ، "اللہ کی قسم ، آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کے بیٹے کے معاملے میں اللہ کے حضور آپ پر بھروسہ کریں ، اور خدا کی قسم ہم نہیں کریں گے ، اور خدا کی قسم۔ ، آپ کو اس معاملے کو مسلمانوں کے مشورے سے حل کرنا چاہئے ، یا اس کو اس کی اصل کی طرف واپس لے جائے گئے (مطلب جنگ ہو گی) اور پھر وہ وہاں سے چلے گئے۔
اور مروان بن الحکم نے یزید کی بیعت کے بارے میں جب کہا ، "ابوبکر کی سنت راشدہ ہے " ، تو عبد الرحمٰن بن ابی بکر نے اس کا جواب دیا ، "یہ سنت ابوبکر نہیں ہے۔ ابوبکر کنبہ اور قبیلہ چھوڑ دیں گے ، اور بنو عدی کے ایک آدمی کو نامزد کر دیں گے ، اگر وہ اہل ہے ، لیکن جو تم کر رہے ہو یہ ملوکیت ہے۔
عبد اللہ بن عمر نے معاویہ سے کہا: “تم سے پہلے جو حکمران تھے ان کے بھی بیٹے تھے۔ آپ کا بیٹا ان کے بیٹوں سے بہتر نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے بیٹوں میں وہ کچھ نہیں دیکھا جو آپ نے اپنے بیٹے میں دیکھا ، لیکن انہوں نے مسلمانوں کے لئے وہ انتخاب کیا جو بہترین تھا۔
ابن کثیر نے کہا: "جب یزید کی باپ کی زندگی میں بیعت لی جاریی تھی تو ، الحسین (رض) ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے اسے بیعت دینے سے انکار کیا ان کے ساتھ ابن الزبیر ، عبد الرحمٰن بن ابی بکر ،ابن عمر اور ابن عباس نے بیعت دینے سے انکار کیا۔
مسلمانوں کے لئے یہ واضح ہونا ضروری ہے کہ اسلام میں حکومت کا نظام بادشاہت نہیں ہے ، اور اسلام بادشاہت کو منظور نہیں کرتا ہے ، اور اسلام بادشاہت کی طرح نہیں ہے۔
بادشاہت ایک موروثی حکمرانی ہے۔ بیٹے اسے والدین سے وراثت میں حاصل کرتے ہیں جس طرح وہ اپنی جائداد کے وارث ہوتے ہیں۔ وراثت کسی شخص کی نجی جائیداد ہے جو اس کے بعد اس کے گھر والوں یا اس کے اولاد کو دی گئی ، اور یہی وہ اصول ہے جس پر بادشاہت مبنی ہیں۔ اس کا اختیار بادشاہ اور اس کے اہل خانہ کا ہے ، جو اسے معاہدات ، معاملات ، یا لڑائی اور فتح کے ذریعہ ایک دوسرے کو منتقل کرتا ہے۔ جبکہ اسلامی نظام حکومت میں کوئی وراثت نہیں ہے۔ بلکہ ، یہ اس کے قبضہ میں ہے جسے امت نے رضامندی اور انتخاب کے ذریعہ بیعت دی ہے۔ امام ابن حزم نے امامت کے بارے میں کہا: "اہل اسلام کے مابین کوئی تنازعہ نہیں ہے کہ اس کا وارث ہونا جائز نہیں ہے۔"
بادشاہت کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ بادشاہ کو خصوصی مراعات اور حقوق عطا کرتی ہے جو رعایا میں سے کسی کو حاصل نہیں ہوسکتی ۔ یہ قانون سے بالاتر ہوتا ہے اور اسے استثنیٰ حاصل ہوتا ہے ، اور یوں وہ قوم کی علامت بن جاتا ہے۔
اگرچہ نظام اسلام، خلیفہ یا امام کو کوئی مراعات یا خصوصی حقوق نہیں دیتا ہے۔ اسے صرف وہی چیز ملتی ہے جو امت کے کسی ممبر کو ملتی ہے۔ وہ اس امت کی علامت نہیں جو ملک کا مالک ہے اور حکمرانی کرتا ہے ، اور نہ ہی یہ علامت ہے جو ملک اور عوام کی ملکیت ، حکمرانی اور حکومتی معاملات کو اپنی خواہشات کے مطابق طے کرتا ہے ، بلکہ وہ طاقت اور اختیار میں امت کا نمائندہ ہے۔ امت نے اللہ کے قانون کو نافذ کرنے کے لئے اس کا انتخاب رضامندی سے کیا ، اور وہ اپنے تمام افعال ، احکام ، امت کے امور اور مفادات کی دیکھ بھال میں شرعیت کے احکام کا پابند ہے۔
اسلامی نظام حکومت میں وارث کے مینڈیٹ کی عدم موجودگی اس کے علاوہ ہے۔ بلکہ وہ وارث کے مینڈیٹ کی مذمت کرتا ہے ، اور حکومت وراثت کے ذریعہ لینے کی مذمت کرتا ہے ، خلیفہ کا انتخاب صرفامت کی رضامندی اور انتخاب کے ذریعہ بیعت کے طریقہ کار تک محدود کرتا ہے۔
تاہم ، خلافت راشدہ کے عہد کے فورا بعد ہی ، حکومت کو بادشاہی کی شکل میں امت پر مسلط کردیا گیا ، اور یہ انحراف اس وقت تک بڑھتا گیا جب تک کہ حقیقی حکمران خاندان وجود میں نہیں آئے ، اور وقت کے ساتھ ساتھ ، خلیفہ کا معمول بن گیا کہ وہ اپنے بھائی یا بیٹے کو ولی عہد شہزادہ مقرر کرے ، اپنے دوسرے بھائیو ں کو وزیر مقرر کرے ، اور اپنے دوسرے رشتہ داروں کو ریاستی عہدوں ، ملازمت ، کمانڈ آرمی ، انتظامی مفادات اور ریاست کے دیگر تمام عہدوں پر مقرر کرے۔
قوم کی زندگی میں ان تاریخی واقعات اور متعدد دیگر عوامل کی وجہ سے ، قوم کی سیاسی افہام و تفہیم میں خرابی پیدا ہوچکی ہے ، اور وہ شاہی طرز حکومت میں زندگی گزارنے کی عادی ہوچکی ہے ، اور اسے اقتدار میں استحکام حاصل کرنے کے لئے ایک حقیقت پسندانہ عصری تقاضا اور قابل قبول تاریخی حقیقت سمجھتی ہے ۔ بلکہ ، اس شکل نے سیاسی اور معاشرتی زندگی میں ریاست کو ایک نجی میراث کی سطح تک محدود کردیا ہے!
مثال کے طور پر ، کچھ لوگوں کے لئے ریاست کو فلاں ابن فلاں کے ملک کے طور پر وضاحت کرنا آسان ہے ۔ باپ سے اپنے بیٹے یا بھائی کی طرف اقتدار کی منتقلی ایک ناگزیر حقیقت بن چکی ہے ، اور خصوصی مراعات اور اقتدار میں شاہی خاندانوں کے تمام لوگ شامل ہے۔
ان سب کی وجہ سے ، اور اگلی خلافت نبوت کے طریقہ کار پر قائم کرنے کے لئے ، امت پر حکمران کی حکمرانیت واضح ہونی چاہئے ، اور اس کی کسی بھی ممکنہ ظاہری شکل کے بارے میں انتہائی حساس ہونے کی ضرورت ہے تاریخ میں جو ہوا سو ہوا۔ خاندانی حکمرانی کے ارتکاز کی کسی کوشش کی مخالفت اور اس کا راستہ روکنے کے لئے مضبوط اور فیصلہ کن طریقے اختیار کرنا ہونگے۔ مثال کے طور پر ، لوگوں کی یہ شرط کہ حکمران اپنی حکومت سے پہلے ، اپنے رشتہ داروں کو حکومت میں قائدانہ عہدوں پر مقرر نہ کریں ، اور یہ ایک ایسی جائز شرائط میں سے ہے جو شرعیہ کی خلاف ورزی نہیں کرتی اور لوگوں کا حق ہے کہ وہ اس کو مستحکم کرے۔
آخر میں اور مذکورہ بالا کا اختصار کرتے ہوئے ، میں یہ کہتا ہوں: خلافت جو ہم چاہتے ہیں اور جس کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں: اس میں خلیفہ شریعت کے نفاذ میں قوم کا نمائندہ ہے ، اور اسے امت نے رضاکارانہ طور پر منتخب کیا ہے۔ بیعت ایک حکمران کو مقرر کرنے کا طریقہ ہے. اور حکمرانوں سے مصافحہ کرنے کا سطحی عمل نہیں ہے. حکمران کے رشتہ داروں کو کوئی مراعات حاصل نہیں .آخر میں ، ریاست قومی ریاست ہے نہ کہ فلاں ابن فلاں کی ریاست۔