الأحد، 22 جمادى الأولى 1446| 2024/11/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

عدالتی ترامیم کا بل اور بار بار گرتی حکومت
یہودی وجود کی اندرونی کمزوری کو ظاہر کرتی ہیں

 

خبر:

                     24 جولائی 2023 بروز پیر  فلسطین پر قابض   یہودی وجود نے اپنی پارلیمنٹ میں ایک ’’عدالتی ترامیم ‘‘کا بل پاس کیا۔ جس پر امریکہ سمیت کئی ممالک نے تشویش کا اظہار کیا، اور اسے ’اسرائیلی جمہوریت‘ کے لیے خطرہ قرار دیا۔ اس بل کے خلاف  مقبوضہ فلسطین میں یہودیوں نے پر تشدد مظاہرے کیے ۔ یہ بل قابض یہودی وجود کے وزیر اعظم نیتن یاہو کی عدالتی ترامیم کی کوششوں کی پہلی کڑی مانا جاتاہے۔اس بل میں پارلیمینٹ  (کنیسینٹ) میں پاس شدہ قوانین پر عدالت کی نظر ثانی اور  عدالت کی ان قوانین  کوغیر موزوں ’’       Unreasonable ‘‘قرار دینے کی اہلیت  میں تبدیلی کی گئی ہے۔  نئی ترامیم کے بعد اب اگر عدالت کسی قانون کو ’غیر موزوں ‘ قرار دے کر رد بھی کر دیتی ہے تو اسے دوبارہ پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا اور سادہ اکثریت کے ذریعے اسے دوبارہ قانون کی شکل دے دی جائے گی۔

 

تبصرہ:

 

         جنوری 2023 میں پیش کیے گئے ’عدالتی ترامیم ‘ کے مسودے میں عدالتی اختیارات کو محدود کرنے کے لیے کئی ترامیم پیش کی گئیں تھیں۔ جن  کے اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں۔

  • ججوں کی سلیکشن کمیٹی میں کنیسینٹ کے ممبرزوزراء کی تعداد اس حد تک بڑھانا، کہ حکومتی وزراء کا فیصلہ حتمی ہو سکے۔ یہ کمیٹی ریٹائرڈ ججز ، بار ایسوسی ایشن اور حکومتی وزراء پر مشتمل ہوتی ہے۔
  • کون سے قوانین ’ غیر موزوں ‘ نظریہ کے تحت عدالت میں نظر ثانی کے لیے جا سکتے ہیں ، ان کو مقید کرنا۔
  • ·’غیر موزوں‘ نظریہ کے تحت عدالت سے رد ہوئے قوانین کو دوبارہ پارلیمنٹ میں لانے کی اجازت اور سادہ اکثریت سے اسےقانون بنانے کا پارلیمانی حق۔
  • وزارتوں کے لیےلیگل ایڈوائزر کےمشوروں کی حیثیتایک ایسے مشورے کے طور پر رکھنا کہ جس کی پابندی لازمی نہیں۔
  • دوران اقتدار وزیر اعظم کے لیے عدالتی استثناءاورربی عدالتوں کے اختیارات کیحدود کو بڑھانا ( اگر دونوں فریق ان سے فیصلہ لینا چاہتے ہوں) وغیرہ۔

       اس قانون کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس قانون کے ذریعے عدالت کی حکومتی قانون سازی میں غیر ضروری مداخلت کو روکا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ’غیر موزوں ‘ کے نظریہ کے مطابق جج کسی بھی قانون کو اپنی سمجھ یا پسند سے ٹکرانے پر ’غیر موزوں ‘ قرار دے دیتا ہے۔ یاد رہے کہ اس یہودی وجود کی عدالتوں میں اکثریت  بائیں بازو کے ججز کی ہے۔ اس قانون کے مخالفین کا کہنا ہے کہ حکومت اس قانون کے ذریعے خود کو احتساب سے بری کرنا چاہ رہی ہے اور  ریاست میں اداروں کے درمیان  طاقت کے توازن کو بگاڑ رہی ہے۔جس سے ریاست کی جمہوری ساخت کو خطرہ ہے۔

 

       2018 سے لے کر 2022 تک یہ پے در پے  پانچویں یہودی حکومت  ہے جو اقتدار میں آئی ۔  ہر الیکشن کے ساتھ حکومت میں دائیں بازو کی شدت پسند جماعتیں مضبوط ہوتی جا رہی ہیں ۔ اور مرکزی جماعت کے لیے ان چھوٹی جماعتوں کی خوشنودی                           حکومت کے استحکام کے لیے لازمی امر ہے۔ جنین حملے ، ربی کورٹس سب اس کمزور حکومتی اتحاد کو قائم رکھنے کے حربے ہیں۔ تاکہ شدت پسند اتحادیوں کو خوش رکھا جا سکے۔ حال ہی میں    جب  نیتن یاہو نے شاس پارٹی کے رہنما آریہ دیری(Aryeh Deri) کو وزیر خزانہ مقرر کیا، تو سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا کہ ’غیر موزوں‘ نظریے کی بنیاد پروہ اس عہدے پر خدمات انجام دینے کا اہل نہیں ، کیونکہ وہ رشوت، دھوکہ دہی،  منی لانڈرنگ، اور ٹیکس کے مختلف جرائم میں پہلے ہی سزا یافتہ ہے۔  اب اس نئی ترمیم کے بعد  آریہ دیری  کا دوبارہ وزیر خزانہ بنناممکن ہوسکے گا۔

 

       اتحادی جماعتوں کےساتھ ساتھ  یہودی ریاست  اپنے بیرونی آقاوٗ ں کو بھی خوش رکھنے کی  کوشش کر رہی ہے یہی وجہ ہے کہ جب جنوری میں بل پیش کیا گیا تو اس میں کافی ساری عدالتی ترامیم شامل تھیں۔ لیکن  جب بیرونی دباوٗ بڑھا توجو بل کنیسینٹ سے پاس ہوا اس میں صرف چند ٹوکن شرائط کا ذکر ہے۔

 

         دوسری طرف امریکہ چاہتا ہے کہ اس خطے میں فلسطین کے مسئلے کو ’دو ریاستی‘ حل کے نام پر دفنا دے۔  یہود کی دائیں بازو کی شدت پسند جماعتیں اس حل کی مخالفت کرتی نظر آتی ہیں، جو کہ پورے فلسطین اوراس سے بڑھ کر خطے پر اپنا اثرورسوخ چاہتی ہیں۔ اسی لیے امریکہ کو ان جماعتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ’کچھ لو اور کچھ دو‘  (Carrot & Stick) کی پالیسی اپنانی پڑ رہی ہے۔ ایک طرف امریکہ یہودی وجود کو سعودی عرب اور مسلم ممالک جیسا کہ پاکستان اور انڈونیشیاء  سے بطور ’اسرائیلی ریاست‘ تسلیم کرانے کا  لالچ دے رہا ہے تو دوسری جانب ان دائیں بازو کی جماعتوں کو غزہ اور مغربی کنارے پر نام نہاد فلسطینی حکومت کو ماننےاور اسے قائم رکھنے کی یقین دہانی کرانے پر زور دے رہا ہے۔ جیسا کہ نیویارک ٹائمز نے بھی اپنے ایک آرٹیکل میں اسکا ذکر کیا ہے۔ امریکہ کے لیے یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ عرب بہار کے دوران عرب ریاستوں کی داخلی کمزوری اور اس خطے میں  کمزور ہوتا امریکی کنٹرول  تمام دنیا نے بھانپ لیا ہےلہٰذا امریکہ اس مسئلے کو ایک حد تک حل کرکے اپنی مکمل توجہ چین اور روس پر مبذول رکھنا چاہتا ہے۔

 

         نبی پاک ﷺ کی امت ہونے کی حیثیت  سے ہمیں اس چیز سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے کہ یہودی وجود کی اندرونی پالیسیاں کیا ہیں یا اس کے امریکہ کے ساتھ تعلقات کیسے ہیں۔ یہ ایک نجس وجود ہے جس کا خاتمہ ہی امت کا مقصد اور فکر کا محور ہونا چاہیے۔ اپنی فکرکو کسی اور حل میں مشغول کرنا اسراء اور معراج کی سرزمین  سے غداری ہو گی ۔

 

﴿وَاقۡتُلُوۡهُمۡ حَيۡثُ ثَقِفۡتُمُوۡهُمۡ وَاَخۡرِجُوۡهُمۡ مِّنۡ حَيۡثُ اَخۡرَجُوۡكُمۡ‌ وَالۡفِتۡنَةُ اَشَدُّ مِنَ الۡقَتۡلِ﴾

" اور ان کو جہاں پاؤ قتل کردو اور جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے وہاں سے تم بھی ان کو نکال دو۔ اور اِن کا فساد قتل وخونریزی سے کہیں بڑھ کر ہے۔۔۔)"البقرۃ:191(

      لیکن امت کے امور سے باخبر رہنا اور کفار کی چالوں پر نظر رکھنا اور ان کی کمزوریوں سے آگاہی بھی اس امت کے لیے لازم ہے۔ دوسرا !           وہ مسلم اذہان جن کی سوچ مغربی افکار کے غلبے کی وجہ سے پراگندہ ہو چکی ہے             ضروری ہے کہ مغربی فکر کی کمزوریوں کو ان کے سامنے آشکار کیا جائے، تاکہ وہ اس ذہنی غلامی سے باہر آسکیں۔

 

       ایک بات جو اس سب سے عیاں ہے ، وہ یہ  ہےکہ امریکہ کے لیے اس یہودی وجود کو کنٹرول کرنا بھی ممکن نہیں، جب تک کہ مسلم حکمران اس کا ساتھ نہ دیں۔ دوسری طرف یہ یہودی وجود  بیرونی مدد اور مسلم حکمرانوں کی طرف سے ملنے والی امان کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ اسی لیے امریکہ اس نجس وجود کو کنٹرول کرنے کے لیے مسلم حکمرانوں کے در پر جاتا ہے۔ دراصل یہ مسلم حکمرانوں کی امریکی چاکری ہی ہے جو امریکہ کو اس خطے میں مضبوطی اور اختیار دیتی ہے۔

 

       مزید برآں بحیثیت نظامِ حکمرانی                   اس طرح کی خبروں سے جمہوریت کی         کمزوری بھی پوری دنیا پر عیاں ہو رہی ہے ۔ جہاں قانون حکمران اشرافیہ کے ہاتھ کی لونڈی بن چکا ہے۔  حکمران قوانین کو اپنے اقتدار کو طول دینے یا اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے یا خود کو احتساب سے بچانے یا اپنی مراعات کو بڑھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ عوام کا مفاد یا عوام کی فلاح صرف الیکشن کے نعروں تک ہی استعمال میں آتے ہیں ۔ مغربی ممالک میںFar Right کے ووٹرز کو خوش کرنے کے لیے امیگریشن سے متعلق بننے والے قوانین ہوں ،            امریکہ میں قرضوں کی حدکا معاملہ ہو یا امریکی فوج کے سربراہ کی تعیناتی کو LGBTQ قوانین میں ترمیم کے ساتھ منسلک کرنا، ان سب میں  اپنے ووٹ بینک کی خوشنودی اور اقتدار کی کشمکش  واضح ہے۔  پاکستان میں چیرمین سینیٹ کی مراعات کا بل ہو یا انٹرم حکومت کے اختیارات کا بل, ان کا مقصد بھی حکومتی مفادات کا حصول ہی ہے ۔   یہودی ریاست کی عدالتی اصلاحات  کے بل سے بھی یہ بالکل واضح ہے کہ یہ بل اقتدار کو طول دینے کی ایک کوشش ہے۔

 

       یہ سب اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ  ’اداروں  میں طاقت کے توازن کا نظریہ‘  نہ تو ایک مستحکم حکومت کو تشکیل دے سکا اور نہ ہی اس سے اداروں کا ایک دوسرے کا احتساب بہتر ہو سکا۔ دعووں کے برعکس اس نظریہ نے حکمران اشرافیہ میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی دوڑ کو جنم دیا۔ ہر ادارہ خود کو برتر ثابت کرنے اور اپنے مفاد کے تحفظ  کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ خلافت کے تیرہ صدیوں سے زیادہ کے دور حکومت میں اچھے حکمران بھی آئے اور برے بھی۔ مگر قانون سازی کا اختیار کبھی ان کے پاس نہ رہا۔ اسی لیے کوئی حکمران  اپنے لیے عدالتی استثناء جیسےقوانین  منظور نہ کروا سکا اور   نہ ہی اس دوران عدلیہ ، مقننہ اور عسکری اداروں میں کوئی اقتدار کی جنگ ہوئی۔  اسلام نے معاشرے میں ایک ایسا مستحکم نظام مرتب  کیا جس میں ایک عام شخص خلیفہ کا احتساب کر سکتا تھا ۔ اسکے لیے کسی آئینی ترمیم یا ادارے کی ضرورت نہیں تھی۔ جہاں ایک عورت بھی جانتی تھی  کہ اگر اسکے بچے بھوکے ہیں تو اس کا ذمہ دار کون ہے۔اسے مرکزی حکومت، صوبائی حکومت، لوکل گورنمنٹ میں ذمہ دار کے تعین کے لیے خوار نہ ہونا پڑتا تھا۔ ایک ایسا نظام جس میں یہود بھی  یورپ سے بھاگ کرامن اور سکون تلاش کرنے آتے تھے۔  یہ جلد قائم ہونے والی خلافت ہی ہو گی  جو اس نجس یہودی وجود کو دنیا کے نقشہ سے مٹائے گی اور انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی حکمرانی میں لائے گی۔

 

﴿اِنِ الۡحُكۡمُ اِلَّا لِلّٰهِ‌ؕ يَقُصُّ الۡحَـقَّ‌ وَهُوَ خَيۡرُ الۡفٰصِلِيۡنَ‏﴾

"حکم الله ہی کے اختیار میں ہے وہ حق بات بیان فرماتا ہے اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ " )الانعام:57 (

انجینئرعباس، ولایہ پاکستان

Last modified onمنگل, 08 اگست 2023 19:34

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک