الأحد، 20 جمادى الثانية 1446| 2024/12/22
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 وَلَا تَنَازَعُوۡا فَتَفۡشَلُوۡا وَتَذۡهَبَ

"آپس میں جھگڑا نہ کرنا کہ (ایسا کرو گے تو) تم بزدل ہو جاؤ گے اور تمہارا اقبال جاتا رہے گا" [سورۃ انفال:46]

)ترجمہ)

 

فلسطین اور لبنان میں ہونے والے واقعات، اور مسلمانوں کے بیٹوں پر یہودیوں کے ہاتھوں امریکہ اور مغرب کی حمایت کے ساتھ ڈھائی جانے والی تباہی اور وحشیانہ قتلِ عام کے دوران، ہمیں کچھ بے ربط آوازیں سننے کو ملتی ہیں جو لبنان میں ہونے والے قتل و غارت پر خوشی کا اظہار کرتی ہیں۔

 

یہاں تک کہ کچھ لوگ حزبِ ایران کے رہنماؤں کے قتل پر مٹھائیاں بانٹ رہے ہیں، جو مجرم یہودیوں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ قتل و غارت اور نسل کشی جو فلسطین اور لبنان میں ہو رہی ہے، دراصل پوری مسلم امت پر حملہ ہے۔ یہ کسی ایک گروہ، فرقے یا مسلمانوں کے کسی خاص طبقے پر جنگ نہیں ہے۔ وہ میزائل جو لبنان کے لوگوں پر گر رہا ہے، وہ شیعہ اور سنی میں فرق نہیں کرتا۔ وہ لبنانی اور فلسطینی میں فرق نہیں کرتا۔ بلکہ اس کا نشانہ پوری مسلم امت ہے۔ یہودیوں کو اس بات کی پرواہ نہیں کہ وہ کس فرقے کا صفایا کر رہے ہیں یا کس گروہ کو قتل کر رہے ہیں، کیونکہ تمام مسلمان ان کے لیے دشمن ہیں۔

 

یہ حقیقت ہے کہ ایران، اس کے لبنانی حلیف، بشار اور اس کے حامیوں نے شام کے عوام کے خلاف قتل و غارت، ظلم اور وحشیانہ نسل کشی کی ہے۔ یہ ایک ناقابل معافی جرم ہے جو لوگوں کی یادداشت سے کبھی نہیں مٹ سکے گا، اور نہ ہی ماتم کرنے والی مائیں اور غمزدہ افراد اسے بھولیں گے۔

 

یہ بھی سچ ہے کہ ایران کا اپنا ایک ایجنڈا اور شام، یمن اور عراق میں سازشی منصوبے ہیں، اور کوئی عقل مند شخص اسے نظر انداز نہیں کر سکتا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ایران مسلمانوں کے مسائل کی حمایت نہیں کرتا، بلکہ صرف اس مزاحمت کی حمایت کرتا ہے جو اس کے مفادات اور ایجنڈے کو پورا کرتی ہو۔ لیکن لوگوں کا مسلمانوں کے قتل پر خوشی منانا، ڈھول پیٹنا اور جشن منانا، جبکہ ان کا قتل امت کے سب سے بڑے دشمنوں کے ہاتھوں ہو رہا ہو، جو اس کی زمین کے غاصب اور اس کے لوگوں کو بے دخل کرنے والے ہیں، یہ شریعت اسلامی کے مطابق الجھن اور جہالت کی نمایاں ترین مثال ہے۔ یہ وہ عمل ہے جو کسی بھی صورت میں اللہ ﷻ کو پسند نہیں، اور نہ ہی یہ مسلمانوں کی اپنے دشمن کے خلاف جنگ میں ان کے مقصد کو پورا کرتا ہے۔ بلکہ، یہی وہ چیز ہے جو اسلام کے دشمن چاہتے ہیں۔

اللہ ﷻ نے فرمایا:

﴿وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ﴾

"اور آپس میں جھگڑا نہ کرو، ورنہ تم کمزور ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔"

 

ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت کردہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے:

...وَمَنْ خَرَجَ عَلَى أُمَّتِي؛ يَضْرِبُ بَرَّهَا وَفَاجِرَهَا، وَلَا يَتَحَاشَى مِنْ مُؤْمِنِهَا، وَلَا يَفِي لِذِي عَهْدٍ عَهْدَهُ، فَلَيْسَ مِنِّي وَلَسْتُ مِنْهُ

"اور جو میری امت کے خلاف بغاوت کرے، اس کے نیک و بد پر وار کرے، اس کے مومنوں سے کسی قسم کی احتیاط نہ کرے، اور جس سے عہد کیا ہو، اس کا عہد پورا نہ کرے، وہ مجھ سے نہیں ہے اور نہ ہی میں اس سے ہوں۔" (مسلم نے روایت کیا)

 

بلاشبہ، اسلام پر یہ وحشیانہ حملہ امت کو اپنے دشمن کے خلاف متحد کرنے کا سبب ہونا چاہیے، جس طرح مغرب نے امت پر حملہ کرنے کے لیے اتحاد کیا اور اس کے گرد اس طرح اکٹھے ہوئے جیسے کھانے والے اپنے کھانے کے گرد جمع ہوتے ہیں۔ امت کے لیے زیادہ مناسب یہ ہے کہ وہ اپنے "رایہ" کے جھنڈے کے نیچے متحد ہو، اپنے موقف کو یکجا کرے، مجاہدین کا دشمن کے خلاف ساتھ دے، اور غدار اور ایجنٹ حکمرانوں کی گندگی کو دور کرے، جنہوں نے امت کے خلاف سازش کی اور اس کے دشمن کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ امت کے خلاف یہ اقدام ایک قیمتی موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنی مادی اور اخلاقی طاقتوں کو اکٹھا کرے، صفوں کو متحد کرے، تقسیم کو مسترد کرے اور مغربی دشمنی کے مقابلے میں ایک مضبوط ڈھانچے کی مانند کھڑی ہو۔

 

یہ ہمارے سردار رسول اللہ ﷺ کا موقف تھا جب انہوں نے منافقین کے سردار عبداللہ بن اُبی کے اس بیان کو سنا کہ: "اللہ کی قسم، اگر ہم مدینہ واپس گئے تو عزت والے ذلیلوں کو وہاں سے نکال دیں گے۔" حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کھڑے ہوئے اور کہا: 

يَا رَسُولَ اللَّهِ دَعْنِي أَضْرِبْ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ

"یا رسول اللہ، مجھے اجازت دیں کہ اس منافق کی گردن مار دوں۔" رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

  دَعْهُ، لَا يَتَحَدَّثُ النَّاسُ أَنَّ مُحَمَّداً يَقْتُلُ أَصْحَابَهُ

"اسے چھوڑ دو، کہیں لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے۔" (بخاری نے روایت کیا)

 

رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کے دلوں کو متحد کرنے، فتنوں کو بجھانے اور لوگوں کو اسلام سے دور نہ کرنے کے لیے منافقوں کو سزا دینا ترک کر دیا۔ پوری جزیرہ نما عرب مدینہ کی اس ریاست کو احتیاط، چھپ کر اور گہرائی سے دیکھ رہی تھی، اور موقع کی تلاش میں تھی کہ اس پر حملہ کرے۔ تاہم، نبی ﷺ کی حکمت اور اتحاد کی اہمیت کا شعور اس چیز کو روکنے کا سبب بنا۔

 

امام نووی (رحمۃ اللہ علیہ) نے فرمایا: 

قَوْلُهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ فِيهِ مِنَ الْحِلْمِ، وَتَرْكِ بَعْضِ الْأُمُورِ الْمُخْتَارَةِ وَالصَّبْرِ عَلَى بَعْضِ الْمَفَاسِدِ خَوْفًا مِنْ أَنْ تَتَرَتَّبَ عَلَى ذَلِكَ مَفْسَدَةٌ أَعْظَمُ مِنْهُ، وَكَانَ ﷺ يَتَأَلَّفُ النَّاسَ وَيَصْبِرُ عَلَى جَفَاءِ الْأَعْرَابِ وَالْمُنَافِقِينَ وَغَيْرِهِمْ، لِتَقْوَى شَوْكَةُ الْمُسْلِمِينَ، وَتَتِمُّ دَعْوَةُ الْإِسْلَامِ

"ان (ﷺ) کے قول میں حلم ہے، بعض اختیاری امور کو چھوڑ دینا، اور بعض مفاسد پر صبر کرنا، اس خوف سے کہ کہیں اس سے بڑی مفسدت نہ پیدا ہو۔ نبی ﷺ لوگوں کو اکٹھا کرتے تھے اور اعراب، منافقین اور دیگر کی سختیوں پر صبر کرتے تھے، تاکہ مسلمانوں کی قوت مضبوط ہو اور اسلام کی دعوت مکمل ہو جائے۔"

 

مدینہ کا چارٹر، جو رسول اللہ ﷺ نے پہلی ریاست قائم کرتے وقت لکھا تھا، اس میں بیان ہوتا ہے:

إِنَّهُمْ أُمَّةٌ وَاحِدَةٌ مِنْ دُونِ النَّاسِ... وَإِنَّ سِلْمَ الْمُؤْمِنِينَ وَاحِدَةٌ

"وہ لوگوں سے الگ ایک امت ہیں... اور مؤمنین کا معاہدہ ایک ہے۔"

اور ایک حدیث میں جو احمد نے روایت کی، اس میں بیان کیا گیا ہے: 

الْمُؤْمِنُونَ تَتَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ، وَيَسْعَى بِذِمَّتِهِمْ أَدْنَاهُمْ، وَهُمْ يَدٌ عَلَى مَنْ سِوَاهُمْ

"مؤمنین کا خون برابر ہے، اور ان میں سے سب سے کمزور بھی ان سب کی حفاظت کا ذمہ دار ہے۔ وہ دوسروں کے خلاف ایک ہاتھ ہیں۔"

 

ابن کثیر نے "البدایہ و النہایہ" (جلد 8/ صفحہ 127) میں ذکر کیا:  فلما رأى ملك الروم اشتغال معاوية بحرب علي تدانى إلى بعض البلاد في جنود عظيمة وطمع فيه، فكتب معاوية إليه: "والله لئن لم تنته وترجع إلى بلادك يا لعين، لاصطلحنّ أنا وابن عمي عليك ولأخرجنّك من جميع بلادك، ولأضيّقنّ عليك الأرضَ بما رحُبت "جب رومی بادشاہ نے دیکھا کہ معاویہ علی کے ساتھ جنگ میں مشغول ہیں، تو وہ بڑی فوج کے ساتھ کچھ ممالک میں آ گیا اور ان پر قابض ہو گیا۔ معاویہ نے اسے لکھا: "اللہ کی قسم، اگر تو باز نہ آیا اور اپنے ملک واپس نہ گیا، اے ملعون، تو میں اور میرے چچا کا بیٹا (علی) تیرے خلاف متحد ہو جائیں گے، اور تجھے تمام ممالک سے نکال دیں گے، اور تیرے لیے زمین کو تنگ کر دیں گے چاہے وہ کتنی ہی وسیع ہو۔"

 

یہ رسول اللہ ﷺ اور ان کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی صف بندی اور اتحاد کی مثال ہے۔ یہ ایک شرعی قانونی تقاضا اور شرعی سیاسی موقف ہے۔ مسلمان مغربی استعمار اور ان کے خلاف ہونے والے شدید حملوں سے آزاد نہیں ہو سکتے جب تک کہ ان کے معاملات یکجا نہ ہوں اور ان کے ہاتھ قوم پرستی کی سرحدوں کو مٹا کر، صفوں کو متحد کر کے اور ایک مخلص، پاک مؤمن کی قیادت میں ایک ہاتھ کی طرح نہ اٹھیں، جو امت کے عوام کو عزت اور فتح کی طرف لے جائے۔ یہ آج امت کا موقع ہے کہ وہ اس کو حاصل کرے۔

 

جہالت کی پکاریں صرف اسلام کے دشمنوں کی خدمت کرتی ہیں اور مسلمانوں کی تقسیم کو مزید بڑھاتی ہیں۔ یہ امت کو آگے نہیں بڑھاتیں بلکہ اسے بہت سے قدم پیچھے دھکیل دیتی ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ایمان والوں کے دلوں کو متحد فرمائے اور ہمیں ایسی مخلص اور باوفا قیادت کے ساتھ فتح اور غلبہ عطا فرمائے جو اس امت کے منتشر حصوں کو رسول اللہ ﷺ کے "رایہ" کے جھنڈے تلے یکجا کرے۔

 

ارشاد باری تعالی ہے:

﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعاً وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَاناً وَكُنتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ﴾ 

"اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو۔ اور اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو تم پر ہوئی، جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا، اور تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے۔ اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے تو اس نے تمہیں اس سے بچا لیا۔ اسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنی آیات کو واضح کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ" [آل عمران:103]۔ 

 

حزب التحریر ریڈیو کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے خالد علی - امریکہ سے لکھی گئی تحریر

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک