بسم الله الرحمن الرحيم
سترہ ہزار ننھے شہید
خبر:
حزبُ اللہ کے خلاف جارحانہ کاروائی میں ہونے والی پیشرفت سے اسرائیلی راہنماوں نے انتہائی خوشی کا اظہار کیا۔ اس کاروائی کا آغاز اس وقت ہوا جب پیجرز اور ریڈیوز کو ہتھیار کی طرح استعمال کیا گیا اور ان کے پھٹنے سے ہونے والے دھماکوں کا سلسلہ شدید مہلک فضائی حملوں تک پہنچ گیا۔ 'اسرائیل' کے وزیر دفاع یوو گیلینٹ نے کہا: "آج، یہ ایک شاہکار تھا۔۔۔۔۔ "آج کا دن بے مثال تھا... یہ حزب اللہ کے قیام کے بعد سے ان کے لیے بدترین ہفتہ تھا، اور نتائج سب کچھ واضح کر رہے ہیں۔" (بی بی سی)۔
تبصرہ:
ہتھیاروں کی طرح دھماکے سے آلات کے پھٹنے اور اس کے بعد بڑے پیمانے پر ہونے والے حملوں کے نتیجے میں لبنان میں پیر، 23 ستمبر سے اب تک 500 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ لبنان کی وزارت صحت کے مطابق ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں خواتین، بچے اور طبی عملے کے ارکان شامل ہیں۔ حزب اللہ ایک مزاحمتی گروپ ہے جو ۱۹۸۰ کی دہائی میں 'اسرائیل' کی مخالفت میں نمایاں ہو کر سامنے آیا، اور اس کی افواج نے ۱۹۷۵سے۱۹۹۰ کے دوران ملک میں ہونے والی خانہ جنگی میں جنوبی لبنان پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس سے قبل ہم نے فلسطین میں حماس کی شیطانی طاقتوں سے متعلق شہ سرخیاں دیکھیں اور جذبات میں آگ بگولہ ہوتے ٹاک شوز دیکھے، اور اگر ہم ذرا پیچھے جا کر ماضی کے دریچوں میں جھانکیں تو ہمیں افغانستان سے تعلق رکھنے والے طالبان کے بارے میں بھی ایسی ہی رائے نظر آئے گی۔
حزب اللہ، دیگر گروہوں کی طرح ایک ردِ عمل کی تحریک ہے، جو قومی ریاستوں کے قیام کے کافی عرصے بعد، مروجہ ناانصافیوں کے جواب میں وجود میں آئی۔ ان گروہوں کی بنیاد قوم پرستی پر ہے، لیکن ان پر اسلامی عقیدے اور مسلم ناموں کا نشان واضح طور پر نظر آتا ہے، جو ایک روشن شعلے کی طرح چمکتا ہے۔ یہ شعلہ اسلام کے دشمنوں کے دلوں میں فنا کا خوف پیدا کرتا ہے، کیونکہ یہ وہ آگ ہے جو کفر کو جلا کر ختم کر سکتی ہے۔ مسلمانوں کے لیے، یہ روشنی انہیں ان کی آخری منزل، یعنی ایک اسلامی ریاست کے قیام، تک پہنچنے کا راستہ دکھاتی ہے۔
بحیثیت مسلمان، سیرتِ رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارا طرز زندگی ہے۔ آپؐ کی سیرت ہمیں مسلمان بچوں اور عورتوں کے لیے ڈھال بننے کا درس دیتی ہے۔ ہمیں ہر صورت، آپؐ کے غزوات سے، مقاصد، وجوہات، حکمت عملی اور تدبیر کا سبق سیکھنا چاہیے۔ گزشتہ ۱۰ مہینوں میں ۱۷۰۰۰ چھوٹے بچے مارے جا چکے ہیں۔ یہ ہلاکتوں کا ایک تخمینہ ہے، جبکہ ملبے تلے لاپتہ افراد اس کے علاوہ ہیں۔
ارشاد باری تعالی ہے:
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۚ-وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِ فَقَاتِلُوْۤا اَوْلِیَآءَ الشَّیْطٰنِۚ-اِنَّ كَیْدَ الشَّیْطٰنِ كَانَ ضَعِیْفًا
"ایمان والے اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور کفار شیطان کی راہ میں لڑتے ہیں تو تم شیطان کے دوستوں سے جہاد کرو بیشک شیطان کا مکرو فریب کمزور ہے" (سورۃ النساء-76)۔
خلافت، اپنے انہدام سے بالکل پہلے، جب یہ اپنی کمزور ترین سطح پر تھی تو دنیا بھر کے مسلمانوں نے خلافت کو بچانے کے لیے مختلف تحریکیں شروع کی تھیں۔ ان تحریکوں کا مقصد اس امت کی ڈھال کو تباہ ہونے سے بچانا تھا۔ چیچنیا سے امام شمیر، محمد بن علی السنوسی، لیبیا سے عمر مختار، برصغیر سے سید احمد شہید بریلوی، ایسے علماء کی چند مثالیں ہیں جنہوں نے اسلامی ریاست کو بچانے کے لیے جہاد کا راستہ اپنایا، اس لیے کہ وہ اس حقیقت کو پہچانتے تھے کہ اس وقت امت کو ایسے لوگوں سے بہادری اور پخته قدمی کی مثالوں کی ضرورت ہے جن پر وہ اعتماد کرتے ہوں۔ آج تک استعمار کسی بھی طریقہ سے ان لوگوں کے ناموں کو داغدار نہیں کر سکا، کیونکہ وہ خلافت کو بچانے کے لیے ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر کھڑے تھے۔ مسلمانوں کے علاقوں کی تقسیم در تقسیم کی گئی، اور پھر شجر ممنوعہ سے انہیں قوم پرستی کا پھل کھلایا گیا، اور یوں یہ سلطنت پارہ پارہ ہو گئی۔
جو بھی کسی ایک مقصد کے لیے کھڑا ہوا، وہ پوری امت کا دعویٰ نہیں کر سکا۔ خلافت کے خاتمے کے بعد لاکھوں مسلمان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، ملک آزادی کے نام پر دیے گئے اور پھر بے حس استعماری طاقتوں نے انہیں تباہ کر دیا۔ انقلابی خیالات ادھار لیے گئے اور اسلامی عقیدے کے ساتھ ملا دیے گئے۔ مزاحمتی گروہ اُبھرے اور جان کی بازی لگا کر لڑے، جبکہ دوسرے صرف دیکھتے رہے، خبریں بناتے رہے اور سمجھتے رہے کہ یہ مصیبت ان تک نہیں پہنچے گی۔ انہوں نے دشمن سے دوستی کرنے کی کوشش کی اور اب بھی کر رہے ہیں، بھول گئے ہیں کہ ایمان وہ دیوار ہے جو دشمن اور ان کے درمیان حائل ہے۔
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّـٰهِ جَـمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ۚ وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّـٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُـمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُـمْ بِنِعْمَتِهٓ ٖ اِخْوَانًاۚ وَكُنْتُـمْ عَلٰى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْـهَا ۗ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّـٰهُ لَكُمْ اٰيَاتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ
"اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑو اور پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب کہ تم آپس میں دشمن تھے پھر تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پحر تم اس کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر تم کو اس سے نجات دی، اس طرح تم پر اللہ اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاو" (سورۃ آل عمران-103)۔
اس وقت کے مسلمان کو اپنی آواز بلند کرنی ہوگی اور ان سپاہیوں کو پکارنا ہوگا جو مسلمان ماؤں کے بیٹے ہیں۔ اگر صوفی علما گھوڑوں پر سوار ہو کر وقت کی ضرورت کے مطابق جنگ لڑ سکتے ہیں تو پھر اس امت کے وردی پہنے اور تربیت یافتہ جوان بیٹوں میں کیا کمی ہے؟ جو شخص اللہ کے لئے کھڑا ہوتا ہے، اس کے قدم زمین میں مضبوطی سے جمے ہوتے ہیں۔ جو شخص اپنی زندگی کے مقصد کو پہچانتا ہے، وہ عمل کا راستہ بھی پا لیتا ہے۔ تم وہ شخص ہو، تم وہ بیٹے ہو، تم اللہ کے بندے ہو، جن کی طرف امت کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ اپنا موقف اختیار کرو، ثابت قدم رہو، اور نبوت کے نقش قدم پر خلافت کا مطالبہ کرو۔ مسلمانوں کی افواج سے مطالبہ کرو کہ وہ دشمنوں کے خلاف جنگ کریں اور سسکتی ہوئی ماؤں کی مدد کریں۔
اخلاق جہاں کی طرف سے حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھی گئی تحریر