الأحد، 05 رجب 1446| 2025/01/05
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

غزہ میں جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کی قرارداد کی کوئی حیثیت نہیں

 

ابو حمزہ الخطوانی

 

https://www.alraiah.net/index.php/political-analysis/item/9091-word-of-the-issue-un-resolution-for-a-ceasefire-in-gaza-has-no-weight

 

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 11 دسمبر 2024 کو ایک قرارداد منظور کی جس میں غزہ کی پٹی میں فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا۔ یہ قرارداد 158 اراکین کی اکثریت سے منظور ہوئی، جن میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی جیسی اہم یورپی طاقتیں شامل تھیں، جبکہ 9 ممالک، جن میں سب سے نمایاں امریکہ اور یہودی وجود، نے اس کی مخالفت کی، اور 13 اراکین نے ووٹنگ سے اجتناب کیا۔

 

اس قرارداد میں جنرل اسمبلی نے دونوں فریقین پر زور دیا کہ وہ بین الاقوامی قوانین کی مکمل پاسداری کریں، خاص طور پر ان افراد کے حوالے سے جنہیں انہوں نے حراست میں لیا ہوا ہے، اور ان تمام افراد کو رہا کریں جنہیں بلاجواز قید کیا گیا ہے، اور مرنے والوں کی باقیات واپس کریں۔

 

اس کے علاوہ، قرارداد میں غزہ کی پٹی کے شہریوں کو فوری طور پر بنیادی خدمات اور ضروری انسانی امداد کی فراہمی یقینی بنانے کا مطالبہ کیا گیا اور فلسطینیوں کو بھوکا رکھنے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کیا گیا۔ قرارداد میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں غزہ میں امداد کی فراہمی کو آسان بنانے کا مطالبہ کیا گیا اور یہودی وجود سے کہا گیا کہ وہ یو این آر ڈبلیو اے (UNRWA) کے مینڈیٹ کا احترام کرے اور اس کی کارروائیوں کو بغیر کسی رکاوٹ یا پابندی کے جاری رکھنے کی اجازت دے۔

 

جنرل اسمبلی نے احتساب کی ضرورت پر زور دیا اور دو ریاستی حل کے نظریے سے اپنی مضبوط وابستگی کا اعادہ کیا، جس کے تحت غزہ کی پٹی فلسطینی ریاست کا حصہ ہو گی اور دو جمہوری ریاستیں، ایک یہودی ریاست اور ایک فلسطینی ریاست، بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق، پرامن طریقے سے محفوظ اور تسلیم شدہ سرحدوں کے اندر رہیں گی۔ اس سلسلے میں، جنرل اسمبلی نے غزہ کی پٹی میں کسی بھی قسم کی آبادیاتی یا جغرافیائی تبدیلی کی کوشش کو مسترد کر دیا۔

 

یہ قرارداد پہلی نہیں، اور نہ ہی آخری ہو گی، جو جنرل اسمبلی نے یہودی وجود کی مذمت کرتے ہوئے اور فلسطینیوں کو ان کے حقوق دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے منظور کی ہے۔ لیکن یہ قرارداد بھی دیگر بہت سی بین الاقوامی قراردادوں کی طرح ہے جن پر یہودی وجود نے نہ تو کوئی عمل کیا اور نہ ہی انہیں کوئی اہمیت دی۔ اس کے برعکس، یہودی وجود ان قراردادوں کے خلاف اقدامات کرتا رہا ہے۔ وہ فلسطینی عوام کو بھوکا رکھتا ہے، قتل و غارت اور بے دخلی جاری رکھتا ہے، اور ان پر محاصرہ مسلط کرتا ہے۔ وہ امداد کو پہنچنے سے روکتا ہے، اور ان قراردادوں کی شقوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ یہودی وجود انہیں نظرانداز کرتا ہے، اور  انہیں جاری کرنے والی جنرل اسمبلی کا مذاق اڑاتا ہے، اور ان اراکین ریاستوں کو نشانہ بناتا ہے جنہوں نے یہودی وجود کی مذمت میں قراردادوں کے حق میں ووٹ دیا۔

 

اقوام متحدہ نے فلسطین کے مسئلے کی طویل تاریخ میں 200 سے زائد قراردادیں جاری کیں، لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی عملی طور پر نافذ نہیں کی گئی۔ ان میں سب سے پہلی قرارداد 181 تھی، جس میں فلسطین کو دو ریاستوں، ایک عرب اور ایک یہودی ریاست میں تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ان قراردادوں میں قرارداد 194 بھی شامل تھی، جس میں یروشلم اور دیگر مقدس مقامات تک رسائی کے تحفظ اور آزادی، پناہ گزینوں کو اپنے گھروں کو واپسی کی اجازت دینے، اور ان افراد کو معاوضہ دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا جو واپس نہیں جانا چاہتے۔ اس قرارداد میں یہ شرط بھی شامل تھی کہ جو لوگ واپس نہ جانے کا انتخاب کریں یا جن کی املاک کو نقصان پہنچے، انہیں اس کا معاوضہ دیا جائے۔ ان قراردادوں میں 242 اور 338 جیسی قراردادیں شامل تھیں، جن میں یہودی وجود سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ 1967ء میں قبضہ کی گئی زمینوں سے دستبردار ہو، اور دیگر کئی قراردادیں جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ نے مجموعی طور پر جاری کیں۔

 

جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں ہی نافذ نہیں ہوئیں تو جنرل اسمبلی کی قراردادوں کا کیا کہنا، جو کہ پابند نہیں کرتیں اور جن پر عمل درآمد کی بجائے اخلاقی ذمہ داری کا پہلو غالب رہتا ہے! اس لیے یہ قراردادیں محض کاغذی کارروائی ہیں، جن کی نہ کوئی حیثیت ہے اور نہ کوئی وقعت۔

 

تاہم، جنرل اسمبلی کی قراردادوں کی علامتی اہمیت ہوتی ہے۔ ان کے ذریعے ممالک کے یہودی وجود کے بارے میں مؤقف کو واضح کیا جاتا ہے۔ ان کے ذریعے یہودی وجود کے خلاف بین الاقوامی مذمت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ یہ قراردادیں یہودی وجود پر سیاسی دباؤ ڈالنے کا ایک ذریعہ بنتی ہیں، جبکہ امریکہ ان کو اس بات کے لیے استعمال کرتا ہے کہ یہودی وجود ہمیشہ امریکہ کا محتاج رہے۔

 

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو کمزور اور مظلوم قوموں کے لیے بنایا گیا تھا تاکہ انہیں بہلایا اور بے عمل کیا جا سکے۔ یہ شیطان کی مانند ہے، جو لوگوں کو جھوٹے خواب اور جھوٹی امیدیں دیتا ہے، جو محض دھوکہ اور فریب کے سوا کچھ نہیں ہوتیں۔

 

لہذا، ان قراردادوں پر ہرگز انحصار نہیں کرنا چاہیے، نہ ہی ان پر کوئی امید باندھنی چاہیے، اور نہ ہی ان پر عمل درآمد کی توقع رکھنی چاہیے۔ اس سلسلے میں ایک مسلمہ حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کوئی وقعت نہیں۔ یہ ادارہ کسی کام کا نہیں۔ طاقتور اقوام اس کی طرف رجوع نہیں کرتیں، جبکہ بڑی طاقتیں نہ تو اس کی پروا کرتی ہیں اور نہ ہی اس کے وجود کو اہمیت دیتی ہیں۔

 

جنرل اسمبلی اور اس کے ذیلی ادارے صرف استعماری عالمی نظام کا ایک ستون ہیں، جو دوسری جنگ عظیم میں فتح یاب ہونے والے مغربی ممالک نے مسلط کیا۔ ییہ ان کی سازش کی زہریلی پیداوار اور ان کے دھوکوں میں سے ایک فریب ہے۔ یہ امریکہ اور اس کے استعماری مغربی شراکت داروں کی ہدایات سے تجاوز نہیں کرتیں۔

 

ہم، امت مسلمہ، اقوام متحدہ کو تسلیم نہیں کرتے کیونکہ، اولاً، یہ انسان کے بنائے ہوئے قوانین پر مبنی ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے دی گئی اسلامی شریعت کے احکام سے متصادم ہیں۔ دوسرا، اس کے ادارے اس انداز میں بنائے گئے ہیں کہ وہ صرف طاقتور اقوام کی خدمت کریں، جبکہ کمزور ممالک کے لیے محض اطاعت اور فرماں برداری کی جگہ رہ جائے۔ سوم، یہ نسل پرستانہ اور استعماری بنیادوں پر قائم ہے، جسے چند مالیاتی اور تجارتی کمپنیوں، سودی بینکوں، اور دولت مندوں اور اجارہ داروں کی حفاظت کرنے والی حکومتوں کے لابیوں کے ذریعے استعمال کیا جاتا ہے، تاکہ غریب اقوام کی دولت لوٹی جائے، ان کے مقدر سے کھیلا جائے، اور ان کی صلاحیتوں کا استحصال کیا جائے۔ اقوام متحدہ نہ صرف مظلوموں سے ناانصافی کرتی بلکہ بین الاقوامی قانون کے نام پر ظالموں کے ساتھ ساز باز کرتی ہے۔

 

امت مسلمہ پر لازم ہے کہ وہ ان بین الاقوامی تنظیموں کو ختم کرنے کے لیے اپنی تمام تر قوت استعمال کرے۔ ان میں اقوام متحدہ، عالمی مالیاتی فنڈ، عالمی بینک، عالمی تجارتی تنظیم، یونیسکو، اور دیگر ظالمانہ عالمی ادارے شامل ہیں، جو انسانوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑتے ہیں، ظلم و جبر کا نظام قائم رکھتے ہیں، اور سرمایہ دارانہ عالمی طاقتوں کے مفاد کے لیے دولت اور اقتدار کو ان کی اجارہ داری میں دیتے ہیں۔ یہ ہدف صرف اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب نبوت کے نقش قدم پر خلافت راشدہ کی دوسری ریاست قائم کی جائے۔

 

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک