الثلاثاء، 07 رجب 1446| 2025/01/07
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

اسلامی جدیدیت (الحداثة الإسلامية):

سنتِ رسول پر حملہ

 

اسلامی جدیدیت (الحداثة الإسلامية) ایک ایسا نظریہ ہے جو اسلام کی تشریح کو مغربی لبرل ورلڈ آرڈر کی اقدار اور ڈھانچہ کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ انیسویں صدی میں ابھرنے والی اس جدیدیت کی تحریک کہ جس کی قیادت جمال الدین افغانی، محمد عبدہ، رشید رضا اور سید احمد خان جیسی شخصیات نے کی تھی۔ ان کی کوششوں کا مقصد اسلام کو جدید سیاسی، سماجی، اور معاشی نظاموں کے ساتھ ہم آہنگ کرنا تھا۔ تاہم، اسلام کو جدید دور کے تقاضوں سےہم آہنگ کرنے کی اس کوشش میں اسلامی اصولوں کا بگاڑ ایک لازمی امر تھا،تاکہ جدید دنیا کے نظریات جیسے قوم پرستی، سرمایہ داریت، انسانی قانون سازی، انسانی حقوق، جنسی مساوات، اور بین المذاہب ہم آہنگی جیسے مغربی تصورات کے ساتھ اسلام کی مطابقت پیدا کی جا سکے۔

 

جدیدیت کے اہم چیلنجز میں سے ایک یہ ہے کہ جدیدیت پسند  مغربی افکار کو اسلام  سے توجیح دینے کی کوشش کرتے ہیں، جیسے مسلم سرزمینوں پر قبضہ، عوامی وسائل کی نجکاری، رِبا پر مبنی معیشت، اور قومی ریاستوں کا قیام وغیرہ، جبکہ یہ افکار اسلامی فکر کے لئے اجنبی ہیں۔ جدیدیت کا ایجنڈا ،اسلام کی ایسی توجیحات پر مشتمل ہے کہ وہ مغربی نظریات اور نظاموں کے ساتھ مطابقت پذیر نظر آئیں۔

 

جدیدیت کا مقصد قرآنِ مجید اور سنتِ نبوی میں مغربی ورلڈ آرڈر کی اقدارکے لئے جگہ بنانا ہے۔ اس عمل میں اسلامی نصوص کی تشریح کو اس طرح سے موڑنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ قبضے، اقتصادی استحصال اور انفرادی آزادیوں کو فروغ دینے جیسے خیالات کو اسلام سے ہم آہنگ ثابت کریں، جو کہ دراصل اسلامی اصولوں کے منافی ہیں۔ جدیدیت کے حامی استدلال کرتے ہیں کہ اسلام کو جدید دنیا کے ساتھ ہم آہنگ ہونا چاہئے، تاہم وہ اکثر اس حقیقت کو نظرانداز کر دیتے ہیں کہ بنیادی انسانی ضروریات کبھی تبدیل نہیں ہوتیں۔ نوعِ انسان کو اب بھی تجارت کرنے، ملکیت رکھنے، حکمران مقرر کرنے اور سماجی تعلقات وغیرہ کو منظم کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر کچھ بدلا ہے تو وہ یہ ہے کہ ان ضروریات کو پورا کرنے کے ذرائع اور انداز ٹیکنالوجیکل ترقی کی بدولت تبدیل ہو گئے ہیں۔

 

جدیدیت پسندوں کے پیش کردہ دلائل میں ایک چیدہ دلیل یہ ہےکہ اسلام مختلف نظاموں جیسے حکومت، معیشت، یا سماجی قانونی فریم ورک کے لئے تفصیلی رہنمائی فراہم نہیں کرتا۔ تاہم ان کا یہ استدلال اس حقیقت کو نظرانداز کر دیتا ہے کہ اسلام میں گراں قدر وسیع علمی روایات موجود ہیں، جو ان موضوعات پر تفصیلی وضاحت پیش کرتی ہے۔

 

مثال کے طور پر، کلاسیکل اسلامی فقہاء جیسے کہ الماوردیؒ، ابن تیمیہؒ اور ابو یوسفؒ نے حکمرانی، معیشت اور سماجی تنظیم کے موضوعات پر جامع کتب تحریر کی ہیں۔ الماوردیؒ کی تصنیف احکام السلطانیہ‘‘ حکمرانی کی تفصیلات، حکمران ہونے کی اہلیت اور اسلامی ریاست میں قیادت کے اصولوں کو بیان کرتی ہے۔ ابن تیمیہؒ کی تصنیف السياسة الشرعية‘‘ ریاست کے کردار اور عوام کے ساتھ ریاست کے تعلقات پر روشنی ڈالتی ہے۔ ابو یوسفؒ، جو معروف عالم ابو حنیفہؒ کے شاگرد تھے، ان کی تصنیف کتابُ الخراج‘‘ اقتصادی عمل داریوں، خاص طور پر زمین کے خراج اور عوامی مالیات کے بارے میں تفصیلی حل پیش کرتی ہے۔

 

حدیث کی کتابیں، جو ہمارے محبوب نبی محمد ﷺ کے قول، فعل، اور کسی عمل پر آپ ﷺ کی خاموشی کا ریکارڈ ہیں، ان میں بھی حکومت، معیشت، سماجی تعلقات، حتیٰ کہ انفرادی رویوں کے بارے میں تفصیلی رہنمائی فراہم کی گئی ہے۔ کچھ احادیث میں حکمرانی کے بارے میں خاص ہدایات دی گئی ہیں، جیسے کہ حکمران کے لئے مرد ہونے کی شرط قرار دینے کی حدیث

 

«لن يُفْلِحَ قومٌ ولَّوْا أمرَهَمُ امرأَةً» ’’وہ قوم کبھی فلاح نہیں پائے گی جو اپنے معاملات کی نگہبانی (حکمرانی) کے لئے کسی عورت کو مقرر کرے‘‘

 

یا خلافت کی وحدانیت کی حدیث

 

«إذا بُويِعَ لِخَلِيفَتَيْنِ، فاقْتُلُوا الآخِرَ منهما» ’’اگر دو خلفاء کی بیعت ہو جائے، تو بعد والے کو قتل کر دو‘‘

 

یاریاستی امور سے متعلق اختیارات کے لیے ذمہ داروں کے تقرر کی حدیث

 

«بَعَث رسول اللہ ﷺ عمر علی الصدقۃ» ’’رسول اللہ ﷺنے عمرؓ کو صدقہ (اکٹھا کرنے) پر مقرر کیا‘‘۔

 

اسی طرح ہم احادیث میں معیشت کے امورسے متعلق بھی تفصیلات پاتے ہیں جیسا کہ زمین کی ملکیت اس کی تقسیم ، یا بازار اور تجارت کے امورکیسے منظم کیے جائیں وغیرہ،جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث میں ارشاد ہے،

 

«الناس شرکاء فی الثلاث: الماء والکلا والنار» ’’لوگ تین چیزوں میں شریک ہیں: پانی، چراگاہ، اور آگ‘‘۔

 

یہ حدیث عوامی ملکیت  (یعنی عوامی اثاثوں میں عوام کے اشتراک )کے تصور کو واضح کرتی ہے، جو کہ اسلام میں حکومت اور معاشی پالیسی کا ایک اہم پہلو ہے۔

 

سنت ان معاملات پر بھی بات کرتی ہے جیسے کہ (مارکیٹ میں) اجارہ داریکی ممانعت، جیسے حدیث میں ا ٓتا ہے «مَنِ احْتَكَرَ فَهو خاطِئٌ » ’’جس نے بھی اجارہ داری کی، وہ خطا پر ہے‘‘۔ جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اسلام میں اجارہ داری کے حربے ممنوع ہیں۔ قیمتوں کے تعین کے معاملے میں، جیسا کہ حدیث میں ہے

 

«بل اللہ یخفِض ویرفع» ’’.. بلکہ اللہ (قیمتیں) کم کرتا اور بڑھاتا ہے‘‘۔

 

کرنسی کے حوالے سے حدیث پاک میں ارشاد ہے

 

«الوزنُ وزنُ أَهْلِ مَكَّةَ والمِكْيالُ مِكْيالُ أَهْلِ المدينة» ’’وزن (میں معیار)مکہ والوں کا وزن ہے اور پیمانہ(مقدار میں معیار) مدینہ والوں کا ہے‘‘۔

 

اسی حدیث کے ذریعےسونے اور چاندی پر مبنی اسلامی کرنسی کا معیار مقرر کیا گیا جس میں چاندی کا درہم  2.975 گرام اور سونے کا دینار 4.25 گرام مقرر کیا گیا۔ اسی طرح رسول پاک ﷺنے معاشرے کو زمین کی ملکیت کے مسائل پر بھی ہدایت دیں، جیسے کہ حدیث میں آتاہے

 

«من أحيا أرضًا مَيتةً فهي له»’’جس کسی نے مردہ زمین کو زندہ کیا، وہ اسی کی ہے‘‘

 

اور غیر منصفانہ ٹیکسیشن کے حوالے سے حدیث میں آتاہے «لا یدخل الجنۃ صاحب المکس» ’’جو (غیر قانونی) ٹیکس لیتا ہے وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا‘‘۔ یہ احادیث اسلام کے سیاسی نظام زندگی کے بارے میں جامع رہنمائی میسرکرتی ہیں۔

 

جدیدیت کی اسلامی تشریح میں ایک اہم چیلنج، حدیث کے حوالے سے جدیدیت کاکردار ہے۔ کچھ جدیدیت پسند کہتے ہیں کہٖ قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے لی ہےجبکہ حدیث کو اسی زمرے میں نہیں رکھا جا سکتا،  یہ صرف انسانی بیانات کا مجموعہ ہے۔ تاہم یہ نظریہ حدیث کے اُس مرکزی کردار کو نظرانداز کرتا ہے جو قرآن کے متن کی وضاحت اور تفصیلات کے بیان پر مبنی ہے۔

 

قرآن مجید خود سنت کی تصدیق کرتا ہے۔ یہ بات حتمی طور پر ثابت ہے کہ ’سنتِ مبارکہ‘ وحی ہی ہے، متن میں بھی قطعی (قطعی الثبوت) ہے اور دلالت میں قطعی(قطعی الدلالۃ) ہے ۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا،

 

﴿وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى﴾ ’’اور وہ نہیں بات کرتے اپنی خواہشات کی بنیاد پر‘‘ (سورہ النجم؛ 53:3)۔

 

ابن کثیرؒ نے اس آیت کے بارے میں بیان کیا، ما يقول قولا عن هوى وغرض ’’نبیﷺ جو کچھ بھی کہتے ہیں وہ اُن کی اپنی خواہش یا غرض سے نہیں ہے‘‘۔ امام قرطبیؒ نے اپنی تفسیر میں کہا، ما يخرج نطقه عن رأيه، إنما هو یوحي من الله عز وجل جو کچھ بھی آپ ﷺبولتے ہیں وہ ان کی اپنی رائے  نہیں ہے۔ یہ صرف وحیٔ الٰہی ہے جو اللہ عزوجل کی طرف سے ان پر اتاری گئی ہے‘‘۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا،

 

﴿إِنْ هُوَ إِلاَّ وَحْىٌ يُوحَى﴾یہ توصرف وحی ہے جو ان پر اتاری گئی‘‘ (سورہ النجم؛ 53:4)۔

 

ابن کثیرؒ نے بیان کیا، ]إنما يقول ما أمر به ، يبلغه إلى الناس كاملا موفرا من غير زيادة ولا نقصان[آپ ﷺ لوگوں کو صرف وہی کچھ پہنچاتے ہیں جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے، مکمل طور پر، بغیر کسی اضافے یا کمی کے‘‘۔ سنت کے بغیر، اسلامی قوانین کی عملی تفصیلات جیسے کہ عبادات (جن میں نماز اور روزہ کا طریقہ) اور دیگر قوانین کا تفصیلی طریقہ کار واضح نہ ہو سکتا تھا۔

 

علاوہ ازیں، احادیث کی حفاظت کا طریقہ کار قرآن مجید کی آیات کی حفاظت کے طریقہ کار کے مشابہ تھا۔ دونوں کو زبانی منتقل کیا گیا اور بعد میں دستاویزی شکل میں لکھا گیا۔ احادیث کے مجموعے کی تصدیق کے لئے کڑی جانچ کا طریقہ کار اختیار کیا گیا تاکہ ان کی مستندحیثیت کو یقینی بنایا جا سکے۔ محدثین، علمائے احادیث، جیسے  کہ امام بخاریؒ، امام مسلمؒ اور دیگر نے راویوں کی اسناد اور متن کی درستگی کی تصدیق کے لئے جامع طریقہ کار وضع کیا۔ تصدیق کے اس طریقہ کار نے یہ یقینی بنایا کہ صرف سب سے قابل اعتماد احادیث  ہی محفوظ کی جائیں۔

 

جدیدیت پسندوں کے اس دعوے کے باوجود کہ احادیث قرآن مجید کی طرح منظم طریقے سے محفوظ نہیں کی گئیں، تاریخی ثبوت خود یہ ظاہر کرتے ہیں کہ احادیث کے جمع کرنے اور حفاظت کے عمل میں انتہائی احتیاط برتی گئی۔ اس عمل میں نہ صرف روایات کا ایک دوسرے تک منتقل ہونا شامل تھا بلکہ راویوں کے کردار، حافظہ اور معتبر ہونے کا تفصیلی جائزہ بھی شامل تھا۔ مثال کے طور پر ابوموسیٰ کے حوالے سے حدیث  پر عمر بن الخطابؓ کا سوال کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ خلفاء راشدین کے دور میں بھی احادیث کی چھان بین میں کس قدر احتیاط برتی جاتی تھی۔

 

الجريري نے ابو ندرا سے روایت کیا جنہوں نے ابو سعیدؓ سے روایت کیا کہ ابو موسیٰ نے عمر رضی اللہ عنہ کو دروازے کے باہر سے تین مرتبہ سلام کیا لیکن انہیں داخل ہونے کی اجازت نہیں ملی۔ لہٰذا وہ واپس چلے گئے۔ عمر ؓ نے ان پیچھے کسی کو بھیجا اور ان سے پوچھا کہ آپ واپس کیوں چلے گئے؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺکو یہ فرماتے سنا تھا،

 

»إذا سلم أحدكم ثلاثاً فلم يُجب فليرجع»”جب آپ میں سے کسی نے تین مرتبہ سلام کیا (اجازت چاہی) اور جواب نہ ملا، تو اسے چاہئے کہ واپس پلٹ جائے“(مسند احمد)۔

 

عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا، ’لتأتيني على ذلك ببينة أو لأفعلن بك‘، ”آپ کو اس معاملے میں میرے پاس ثبوت لانا ہوگا ورنہ میں آپ کو سزا دوں گا‘۔ابو موسیٰ ہمارے پاس آئے جب ہم بیٹھے ہوئے تھے اور ان کا چہرہ پسینے میں بھیگا ہوا تھا۔ ہم نے کہا: ”آپ کو کیا ہوا؟‘‘۔ لہٰذا انہوں نے ہمیں معاملہ بتایااور پوچھا ”کیا آپ میں سے کسی نے یہ حدیث سنی ہے؟‘ ہم نے جواب دیا ’ہاں، ہم سب نے یہ حدیث سنی ہے‘۔ پس ہم نے اپنے میں سے ایک آدمی کو گواہی کے لیے بھیجا حتیٰ کہ وہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور انہیں سب معاملہ بتایا‘‘۔

 

اسی طرح، علی ؓ سےمروی ہے،

 

’كنت إذا سمعت من رسول الله حديثاً نفعني الله بما شاء منه، وإذا حدثني عنه محدث استحلفته فإن حلف لي صدقته‘، ’’جب میں رسول اللہ ﷺسے خود کوئی حدیث سن لیتا تو جتنا اللہ سبحانہ وتعالیٰ چاہتے تواس سے مجھے نفع حاصل ہوتا، اور اگر کوئی اور میرے سامنےحدیث بیان کرتا تو میں اس سے قسم اُٹھواتا، اور اگر وہ قسم اُٹھا لیتا تو میں اس کی تصدیق کرتا ‘‘۔

 

مزید برآں، احادیث کی حفاظت کی اہمیت رسول اللہ ﷺ کے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اعمال میں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ   جو کہ کثرت روایات کی وجہ سے معروف ہیں، ان کا مشہور بیان ہے کہ ’ما من أحد من أصحاب النبي أكثر حديثاً منّي إلا ما كان من عبد الله بن عمر فإنه كان يكتب ولا أكتب‘،رسول اللہ ﷺکے صحابہ میں سے کسی نے بھی مجھ سے زیادہ احادیث روایت نہیں کیں ،سوائے عبداللہ بن عمر ؓکے، کیونکہ وہ انہیں تحریر کر لیتے تھے، جبکہ میں نہیں لکھتا تھا‘‘۔ان واقعات سے نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کو آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ کرنے کی محتاط دستاویزی کوششیں  نمایاں نظر آتی ہیں۔

 

جدیدیت پسندوں کی طرف سے احادیث کو بطور سند کمزور کرنے کی کوشش اس حقیقت کو بھی نظرانداز کرتی ہے کہ حدیث بھی اسلام میں قرآن مجید  ہی کی طرح ایک حقیقی شرعی مصدر ہے۔ قرآن پاک کی متعدد آیات نبی کریم ﷺکی اتباع اور پیروی کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں ۔ مثال کے طور پر،

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے،

 

﴿وَمَا آَتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا﴾ ’’جو کچھ بھی رسول ﷺآپ کو دیں، اسے لے لو، اور جس سے آپ کو منع کریں، اس سے رک جاؤ‘‘(الحشر؛ 59:7)۔

 

اسی طرح، اللہ (سبحانہ وتعالی) نے ایک اور آیت میں فرمایا،

 

﴿وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى ۔ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى﴾ ’’اور وہ نہیں بات کرتے اپنی خواہشات کی بنیاد پر، بلکہ یہ توصرف وحی ہے جو ان پر اتاری گئی‘‘( النجم 3-4)۔

 

یہ آیات تصدیق کرتی ہیں کہ نبی کے اعمال اور اقوال صرف ہدایت نہیں ہیں، بلکہ وحیٔ الٰہی بھی ہیں۔

 

سنت بھی  قران ہی کی طرح قانونی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ضروری احکام بتاتی ہے،جن کی اتباع لازم ہے۔ مثال کے طور پر، مردوزن کے آزاد اختلاط کی ممانعت، اقتصادی لین دین کے نظم و ضبط، اور نکاح کے معاہدوں وغیرہ  کا صحیح طریقہ سنت سے ہی اخذ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح، سنت حکمرانوں کی تقرری، جنگ کے طریقے، اور عوامی امور کے انتظام کے تفصیلی قواعد فراہم کرتی ہے۔ یہ سب امور ایک عادلانہ اور مؤثر اسلامی ریاست کے کردار کے لئے مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔

 

اسی طرح جدیدیت کی تحریک اکثر حدیث کی اتھارٹی کو کمزور کرنے کی کوشش میں یہ استدلال بھی پیش کرتے ہیں کہ روایتی اسلامی تعلیمات پرانی ہو چکی ہیں اورجدید دور کے طرز زندگی سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ اس دلیل کی مثال 2004ء میں RAND کارپوریشن کی طرف سے شائع کردہ ’’سول ڈیموکریٹک اسلام‘‘ کے نام سے شائع شدہ رپورٹ سے بھی دی جا سکتی ہے، جس کے اپنڈکس-A میں بعنوان ’’حدیث کی جنگ‘‘ میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ ’’جوابی حدیث‘‘ کے نام سے ایک کمیٹی تشکیل دینی چاہیے ،جو زیادہ لبرل، ہمہ گیر مساوات اور جمہوری تشریحات کی حمایت کرتا ہو۔ یہ کوشش مغرب کی اس خواہش کی عکاسی کرتی ہے جو اسلام کو مغربی اقدار اور مغربی نظاموں کے مطابق ڈھالنا چاہتی ہے، خاص طور پر مغرب کی جمہوری اور سیکولر اقدار کے ساتھ۔

تاہم، ایسی کوششیں اس حقیقت کو سمجھنے میں ناکام رہتی ہیں کہ اسلام ایک مکمل نظام ہدایت ہے، جو ماضی اور حال، ہر زمانے میں انسانیت کی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل ہے۔ نوعِ انسانی کی بنیادی ضروریات، جیسے انصاف، اقتصادی استحکام، حکمرانی، صحت، سکیورٹی، تعلیم اور سماجی ہم آہنگی جیسی ضروریات میں کبھی تبدیل رونما نہیں ہوتی۔ البتہ صرف وہ چیز جس میں در حقیقت تبدیلی آتا ہے ، وہ ان ضروریات کو پورا کرنے کے ذرائع اور اسلوب ہیں۔ چاہے وہ جدید بینکاری سہولیات ہوں، جدید مواصلاتی ٹیکنالوجیز، یا جدید جنگی ٹیکنیکس ہوں، اسلام ہر دور کے نئے اسالیب اور آلات کو اپنے مطابق ڈھالنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ قرآن اور حدیث پر مبنی روایتی اسلامی نظام جدید دور کے معاشرتی مسائل کے لئے آج بھی موزوں اور جامع حل فراہم کرتا ہے۔

 

’’اسلامی جدیدیت‘‘ کی یہ کاوش جو دراصل اسلام کو مغربی لبرل ازم کے مطابق دوبارہ تشریح کرنے کی کوشش ہے، حدیث کی اتھارٹی اور اہمیت کو براہ راست چیلنج کرتی ہے۔ سنت کی اہمیت کو کمزور کرکے، جدیدیت پسند اسلام کو زندگی کے ہر شعبہ میں  جامع رہنمائی سے محروم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم، قرآن مجید اور سنت نبوی کی بنیاد پر مربوط اسلامی نظام، انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے مکمل اور قابل عمل فریم ورک مہیا کرتا ہے۔ اسلام کو جدید مغربی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش، نہ صرف غلط ہے بلکہ اسلامی تعلیمات کی دائمی اہمیت کو بھی نظرانداز کرتی ہے۔ حدیث کے علم میں ،جرح و تعدیل کے ایک سخت پیمانہ کی بدولت، حدیث آج بھی اتنی ہی معتبر، اہم اورشرعی نص کا درجہ رکھتی ہے جتنی کہ حضرت محمد ﷺکے زمانے میں تھی، اور یہ جدید دنیا کے چیلنجوں کے لئے دائمی حل پیش کرتی ہے۔

 

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے

ادریس پاشا۔ ولایہ پاکستان

 

Last modified onجمعرات, 02 جنوری 2025 12:48

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک