بسم الله الرحمن الرحيم
امریکہ کا لڑکھڑاتا ہوا قواعد پر مبنی نظام (Rule-based Order) :
ایک منصفانہ نئے عالمی نظام کا مطالبہ کر رہا ہے
)alraiah)
تحریر: عبدالمجید بھٹی، ولایہ پاکستان
جیسے جیسے عالمی جغرافیائی سیاست میں تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، امریکی حمایت سے ایک وقت تک غالب رہنے والےقواعد پر مبنی نظام (Rule-based Order) کی ایک عالمی نظام کی حیثیت کو پرکھا جارہا ہے اور یہ نظام زوال پذیر ہے۔ حالیہ پیشرفت اس بات پر زور دیتی ہے کہ ایک نئے فریم ورک کی اشد ضرورت ہے جو مغربی بالادستی اور آمرانہ متبادل کی ناکامیوں سے بالاتر ہو۔ اکتوبر میں، روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) اور برکس (BRICS) کے کامیاب اجلاسوں کے بعد ایک بار پھر کثیر جہتی عالمی نظام کے قیام کا مطالبہ دہرایا۔ سوچی میں ایک کانفرنس کے دوران، پیوٹن نے کہا کہ ”امریکہ نئے عالمی نظام کے مرکز میں نہیں ہوگا“۔ یہ بیان ان ممالک میں بڑھتی ہوئی مایوسی کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے جو امریکی قیادت والے نظام کو استحصالی اور انصاف کے اطلاق میں متعصبانہ سمجھتے ہیں۔ برکس (BRICS) اور دیگر متبادل اتحاد امریکی غلبے کو کمزور کرنے کے لیے ایک فریم ورک فراہم کرتے ہیں۔ تاہم، جیسے جیسے یہ فورمز ترقی کر رہے ہیں، ان کا روس اور چین جیسی آمرانہ طاقتوں کے ساتھ ہم آہنگ ہونا یہ خدشات پیدا کرتا ہے کہ آیا یہ واقعی انصاف اور انسانی وقار جیسے اصولوں جو کسی بھی عالمی نظام کی بنیاد ہونے چاہییں، ان کا دفاع کر سکتے ہیں۔
غزہ کے بحران نے امریکی زیر قیادت نظام کی کمزوری کو مزید بےنقاب کر دیا ہے۔ غزہ میں بڑھتی ہوئی شہری ہلاکتوں کے باوجود واشنگٹن کی طرف سے اسرائیل کی غیر متزلزل حمایت نے وسیع پیمانے پر تنقید کو جنم دیا ہے۔ بہت سے لوگ امریکہ پر یہ کہتے ہوئے منافقت کا الزام لگاتے ہیں کہ امریکہ انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کے ان اصولوں کو، جن کا وہ دعویٰ کرتا رہتا ہے، نظر انداز کرتے ہوئے اپنے اسٹریٹجک اتحادیوں کو ترجیح دیتا ہے۔ اس غیر منصفانہ صورتحال کی حقیقت غزہ (فلسطین) سے بھی آگے تک پھیلی ہوئی ہے۔ دنیا کے جنوبی خطوں میں انصاف کے حوالے سے امریکہ کے متعصبانہ رویے نے ان ممالک کو بدظن کر دیا ہے جو ایک زیادہ منصفانہ عالمی نظام کی تلاش میں ہیں۔ امریکی اثر و رسوخ کے زوال سے پیدا ہونے والا خلا ایسی قیادت کا متقاضی ہے جو جغرافیائی یا سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر انصاف کو اولین ترجیح دے اور تمام انسانی جانوں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
سینیٹر لنڈسے گراہم کی جانب سے امریکی اتحادیوں اور دیگر ممالک کو دی جانے والی حالیہ تنبیہات، امریکی سفارت کاری کی جابرانہ فطرت کو نمایاں کرتی ہیں۔ ان ممالک کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دینا جو اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے خلاف عالمی فوجداری عدالت (ICC) کی تحقیقات کے حمایت کرتے ہیں امریکی خارجہ پالیسی میں موجود دوہرے معیار کو واضح کرتا ہے۔ ایسا رویہ ان تنقیدوں کو تقویت دیتا ہے جو یہ کہتی ہیں کہ امریکہ کا عالمی کردار اب متاثر کن ہونے کے بجائے جبر پر مبنی ہو چکا ہے۔ یہ اقدامات ان رہنماؤں کے دعوؤں کی تائید کرتے ہیں، جیسے ولادیمیر پیوٹن جو یہ استدلال پیش کرتے ہیں کہ امریکہ اب عالمی حکمرانی کی قیادت کا مستحق نہیں ہے۔ تاہم، روس اور چین جیسے ممالک کی طرف سے پیش کیا جانے والا متبادل، جو جبر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مبنی ہے، بھی یکساں ناقص ہے۔
ان ناکامیوں کے درمیان، اسلام ایک ایسا انقلابی فریم ورک فراہم کرتا ہے جو عالمی حکمرانی کو انصاف ،مساوات اور رحم کی بنیادوں پر استوار کرتا ہے۔ طاقت یا دولت کے حصول پر مبنی نظاموں کے برعکس، اسلامی اصول احتساب، باہمی احترام اور انسانی وقار کے تحفظ پر زور دیتے ہیں۔ قرآنی احکامات اس کی تصدیق کرتے ہیں۔
الله سبحانہ وتعالىٰ نے فرمایا،
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَآءَ لِلّٰهِ وَ لَوْ عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَۚ-اِنْ یَّكُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰهُ اَوْلٰى بِهِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوٰۤى اَنْ تَعْدِلُوْاۚ وَاِنْ تَلْوٗۤا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا﴾
’’اے ایمان والو ! اللہ کے لیے گواہی دیتے ہوئے انصاف پر مضبوطی سے قائم ہو جاؤ چاہے تمہارے اپنے یا والدین یا رشتہ داروں کے خلاف ہی (گواہی) ہو۔ جس پر گواہی دو وہ غنی ہو یا فقیر بہرحال اللہ ان کے زیادہ قریب ہے تو (نفس کی) خواہش کے پیچھے نہ چلو کہ عدل نہ کرو۔ اگر تم ہیر پھیر کرو یا منہ پھیرو تو اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے ‘‘ (سورة النساء؛ 4:135)
یہ آیت عالمگیر اخلاقیات کو اجاگر کرتی ہے جو سرحدوں اور تعصبات سے بالاتر ہے۔
اسلامی حکمرانی نے جیسا کہ خلافت راشدہ، امویہ، عباسیہ اور عثمانیہ نے تاریخی طور پر یہ ظاہر کیا کہ مذہب و نسل کی تفریق کیے بغیر تمام رعایا کی فلاح و بہبود کو ترجیح دی۔ اسلامی حکمرانی کا مشاورت (شوری)، وسائل کی منصفانہ تقسیم اور استحصال کے ممانعت پر زور کئی اقوام کی امنگوں سے ہم آہنگ ہے جو ایک بہتر احساس شمولیت اور رحمدل عالمی نظام کی خواہاں ہیں۔
امریکہ کے زیر قیادت عالمی نظام کے زوال اور متبادل طاقت کے مراکز کی ناکامیوں نے عالمی حکمرانی کو نئے سرے سے تصور کرنے کا ایک موقع فراہم کیا ہے۔ لہٰذا مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ خلافت راشدہ علی منہاج النبوة کے قیام کی ذمہ داری اٹھائیں اور امن و خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز کریں۔
اللہ سبحانہ و تعالی نے فرمایا،
﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ﴾
’’اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا‘‘ (سورة الانبياء 21:107)