بسم الله الرحمن الرحيم
قومیت پر مبنی سرحدیں مِٹتی جا رہی ہیں
کئی برسوں کے غور و خوض کے بعد، ہم فکری طور پر آخرکار یہ سمجھ چکے ہیں کہ خلافت کی واپسی ان قوم پرستانہ سرحدوں کو مٹا دے گی جو امت مسلمہ پر زبردستی مسلط کی گئی ہیں۔ ہم سمجھ چکے ہیں کہ بحیثیت اُمّتِ واحدہ، ایک نظام کے تحت زندگی گزارنا فرض ہے اور یہ فرض خلافتِ اولیٰ ( یعنی خلافت راشدہ ) کے دوران ادا ہوتا رہا تھا۔
لیکن کیا ہم نے سوچا ہے کہ آج یہ کیسے ممکن ہو گا؟ آج ہمیں سرمایہ دارانہ نظامِ حکمرانی کے تحت زندگی گزارتے ہوئے ایک صدی سے زیادہ عرصہ بیت گیا ہے۔ جس میں ہمیں یہ یقین دلایا جاتا رہا ہے کہ قومیت پر مبنی سرحدیں ہماری بہتری کے لیے ہیں۔ چنانچہ ہم حیران ہیں کہ اس میں کوئی تبدیلی آخر کیسے ممکن ہو گی؟ ہمیں مغرب اور مغرب کے ایجنٹوں نے سکھایا ہے کہ ’آزاد‘ ہونے کا واحد راستہ قومی ریاستوں کا قیام ہے جہاں عوام کی حکمرانی، عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے ہو۔ اور اس طرح، یہی ہمارا حتمی مقصد اور ہدف بن گیا۔ اسی مقصد کے لیے نوآبادیاتی نظام کے تحت زندگی گزارنے والے لوگوں نے بیسویں صدی کے وسط میں کوشش کرنا شروع کی تھی۔ ہمیں یہ بھی بتایا جاتا رہا ہے کہ جس نے بھی اس سوچ کے خلاف جدو جہد کی، وہ انتہا پسند، دہشت گرد اور دنیا اور اس کی اقدار کے لیے خطرہ ہے۔
پس، ہم نے اسی پر یقین کر لیا اور اس کی خاطر ہم لڑتے رہے. انگریزوں اور دیگر مغربی سلطنتوں کے مقبوضہ علاقوں میں آزادی کی تحریکیں پھیلتی چلی گئیں۔ لاکھوں جانیں ضائع ہوئیں۔ اور یہ سب اس لیے ہوا تاکہ ہم نوآبادیاتی نظامِ حکومت، غیر ملکی مداخلت، استحصال اور بدحالی سے آزاد ہو سکیں۔ مسلم سرزمینوں پر ہمارے حکمرانوں نے قوم پرستی کے نظریات کو اسلام سے ساتھ منسلک کر دیا اور ہمیں یہ بتایا گیا کہ قومیت پرستی اور اسلام ایک ہی ہیں۔
ہم نے اس سب پر آنکھیں بند کر کے یقین کیا۔ یہاں تک کہ ہم نے اپنے حکمرانوں کے ان متنازعہ فیصلوں کو بھی عالمی نظام کی عینک سے دیکھا اور پرکھا۔ ایسے فیصلے جن کا مقصد ہمیں آزاد کرنا نہیں تھا بلکہ ان کا مقصد ہمارا استحصال کرنا اور ہمیں امریکہ اور اس کے ایجنٹوں کے پیروں تلے روندنا تھا۔ مثلاً عراق اور افغانستان پر غیر قانونی حملوں کے فیصلے ہوں یا پھر آئی ایم ایف اور دیگر عالمی اداروں کی طرف سے فراہم کردہ سود پر مبنی استحصالی قرضے یا پھر یمن، میانمار اور سوڈان میں جنگوں کا سلسلہ ہو۔ ہم نے ان سب کو مغربی نظام کے ترازو میں تولا۔
لیکن غزہ نے یہ سب بدل کے رکھ دیا۔ غزہ نے ہماری آنکھیں کھول دیں۔ اللہ کے اذن سے فلسطینی عوام کی قربانیوں نے جھوٹ کا پردہ چاک کر دیا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح قوم پرستی کے نظریات اور اسلامی سرزمینوں کی تقسیم نے ’اسرائیل‘ کے قیام کی راہ ہموار کی، جو لاکھوں فلسطینیوں کی ہولناک تباہی کا باعث بنا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح ان نظریات نے مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کیا، کفار کو کھلی چھوٹ دی۔ ہمیں ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر دیا۔ چنانچہ انہوں نے ہم پر ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی نافذ کی۔
ہمیں بار بار یہ بتایا جاتا رہا ہے کہ ’’امت مسلمہ‘‘ محض ایک خیال ہے جس کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہے – کیونکہ دنیا بھر کے مسلمان ممکنہ طور پر ایک فکر اور نظریے پر جمع نہیں ہو سکتے۔ ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ ہمارے درمیان بہت سی تقسیمیں ہیں - شیعہ، سنی اور ان سب سے بڑھ کر 'قومیت' پر مبنی تقسیم اور ہم کبھی ایک نظام کے تحت متحد نہیں ہو سکتے۔
لیکن 7 اکتوبر کے بعد ہونے والے واقعات نے ہمیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور یاد دلایا کہ یہ ہرگز درست نہیں– کیونکہ پوری امتِ مسلمہ فلسطین کے مسئلہ پر یکجا اور متحد کھڑی ہے۔ ہم نے دھڑوں کی پرواہ نہیں کی۔ ہم نے چھوٹے چھوٹے اختلافات کی پرواہ نہیں کی، جنہیں مغرب ہمارے درمیان بڑھاوا دیتا ہے۔ ہمیں جس چیز کی پرواہ تھی، وہ یہ تھی کہ ان ہولناکیوں کا حل تلاش کیا جائے جس کا سامنا غزہ کے مظلوم مسلمان کر رہے تھے۔ نیز ہم بہت پہلے ہی یہ سمجھ چکے تھے کہ دو ریاستی حل فلسطین کے عوام کی حالت زار کو ہرگز نہیں سنوارے گا۔ پس ہم جہاد کی دعوت دے رہے تھے۔
اب شام کے بہادر مجاہدین اس پکار کو ایک قدم اور آگے لے کر بڑھے ہیں۔ انہوں نے بشار الاسد کا تختہ الٹ دیا، وہ بدترین خوفناک آمر جس نے شام اور غزہ کے عوام پر ظلم و ستم برپا کرنے میں مغرب کی مدد کی۔ اور جونہی انہوں نے اس کا تختہ الٹا، انہوں نے اسلام کے لیے آواز بلند کرنا شروع کی- چنانچہ انہوں نےغزہ کے لیے ایک متحد ردعمل اور اسلامی ریاست کے دوبارہ قیام کے لیے آواز بلند کرنا شروع کر دی ہے۔
پس کیا اب یہ ہماری ذمہ داری نہیں کہ ہم بحیثیت ان کے مسلمان بہن بھائیوں کے، اس پکار پر لبیک کہیں ؟ اور یہ مطالبہ کریں کہ ہمارے ممالک کی افواج بھی اس پکار پر لبیک کہیں! اور قومیت اور وطنیت کے جھوٹ سے انکار کریں؟
ابوداؤد کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
« لَيْسَ مِنَّا مَنْ دَعَا إِلَى عَصَبِيَّةٍ وَلَيْسَ مِنَّا مَنْ قَاتَلَ عَلَى عَصَبِيَّةٍ وَلَيْسَ مِنَّا مَنْ مَاتَ عَلَى عَصَبِيَّةٍ »
”وہ شخص ہم میں سے نہیں جو عصبیت ( قوم پرستی/ قبائلیت) کی طرف دعوت دے، وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی بنیاد پر لڑائی لڑے، اور وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی خاطر جان دے“۔
اور ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قوم پرستی، نسل پرستی اور وطن پرستی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: «دَعُوهَا فَإِنَّهَا مُنْتِنَةٌ» ”اسے چھوڑ دو، یہ بدبو دار ہے“۔ [مسلم اور بخاری]
یہ امر تو واضح ہے کہ اسلام کی واپسی کے آثار دیکھ کر، مغرب اور اس کے ایجنٹ ہماری کمزوری کا فائدہ اٹھانے، ہمیں الجھانے اور تقسیم کرنے کے لیے دگنی محنت کریں گے۔ وہ ان عوامل پر اسی طرح نظر رکھیں گے جیسے وہ آج تک کسی بھی ایسی علامت کی نگرانی کرتے آئے ہیں۔ کیونکہ وہ اسلام کی واپسی کی صورت میں اپنے اقتدار کو لاحق ہونے والے خطرے کو بھانپ رہے ہیں۔
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ شام میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر امریکہ نے فوری طور پر کیا ردعمل ظاہر کیا۔ اردن اور دیگر مشرق وسطیٰ کے حکمرانوں کے ساتھ امریکی ملاقاتیں اور بیانات، یہ واضح کرتے ہیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں کہ وہ شام میں مجاہدین کی ممکنہ حمایت کو روکیں اور جہاد اور خلافت کے دوبارہ قیام کی پکار کو روکنے میں ان ایجنٹ حکمرانوں کی مدد حاصل کریں۔
اس صورتحال کے تناظر میں کوئی بھی یہ سوال اٹھا سکتا ہے کہ بالفرض خلافت کو دوبارہ قائم کرنے اور مسلم فوجوں کو غزہ بھیجنے کی کوشش کامیاب نہ ہوئی تو کیا ہو گا؟ ہمیں یقین نہیں کہ ہم کامیاب ہو سکیں گے؟!
لیکن کیا ہماری ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ ہم کم از کم اس عظیم مقصد کے حصول کی کوشش تو کریں؟ اور یہ یاد رکھیں کہ نتائج اللہ کی طرف سے ہیں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے،
﴿وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ ۚ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ﴾
"اور (اے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یاد کیجیے ) جب کافر آپ کے ساتھ مکر کرتے تھے کہ آپ کو بند (قید) کرلیں یا شہید کر دیں یا نکال (جلا وطن کر) دیں اور وہ اپنا سا مکر کرتے تھے اور اللہ اپنی تدبیر فرما رہا تھا اور اللہ کی خفیہ تدبیر سب سے بہترین ہے"۔ (سورۃ الانفال؛ 8:30)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر چلنا، اسلامی حکمرانی کے تحت زندگی گزارنے کے فرض کو پورا کرنے کے لیے جہدوجہد کرنا اور دیگر تمام آپشنز/ منصوبوں کو رد کرنا- کیا یہ سب ہم پر فرض نہیں؟ جیسا کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مشہور واقعہ میں دیکھتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریش کی پیشکشوں کو ٹھکرا دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
«لَوْ وَضَعُوا الشَّمْسَ فِي يَمِينِي، وَالْقَمَرَ فِي يَسَارِي عَلَى أَنْ أَتْرُكَ هَذَا الْأَمْرَ حَتَّى يُظْهِرَهُ اللَّهُ، أَوْ أَهْلِكَ فِيهِ، مَا تَرَكْتُهُ »
" اگر وہ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں پر چاند بھی لا کر رکھ دیں پھر بھی میں اس کام سے باز نہیں آؤں گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس دین کو غالب کر دے یا میں اس دین کی دعوت دیتے ہوئے جان دے دوں"۔
پس ہمیں یہی فرض پورا کرنا ہے، تاکہ قیامت کے دن جب غزہ کے لوگ انصاف مانگیں تو ہمارا سربلند ہو اور ہم کہہ سکیں کہ ہاں ہم آپ کو نہیں بھولے تھے۔ ہم آپ کے لیے لڑے اور آپ کی لازوال قربانیوں کے بعد جو جھوٹ ہم سے بولے گئے، ہم نے ان پر یقین نہیں کیا!
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لئے تحریر کیا گیا
فاطمہ مصعب -
رکن مرکزی میڈیا آفس، حزب التحریر
Latest from
- پاکستان اور افغانستان کے مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی عصبیت کی نفرت انگیز پکار امریکی ڈکٹیشن کا نتیجہ ہے۔
- کیا تم لوگ "قومی مذاکرات" چاہتے ہو جب کہ اللہ کی کتاب تمہارے درمیان موجود ہے؟
- نیو اورلینز کے جرائم ہوں یا غزہ میں صیہونی وجود کے برپا کردہ مظالم، ان کے درمیان کوئی فرق نہیں
- ایک امت، ایک خلافت
- بھارت کے حکمران اپنی واضح ناکامیوں کو چھپانے کے لیے اسلام کے خلاف جنگ چھیڑے ہوئے ہیں