بسم الله الرحمن الرحيم
’’دوراندیشی سے محروم روس اور ’فتح‘ کا سراب‘‘
تحریر : فضل امزائیف، یوکرین میں حزب التحریر کے میڈیا آفس کے سربراہ
گزشتہ چند مہینوں میں کئی ایسے واقعات پیش آئے ہیں جو اس خیال کو تقویت دیتے ہیں کہ امریکہ یوکرین بحران کے حوالے سے تنازعہ کو طول دینے کی حکمت عملی جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ اس تنازعہ کا تسلسل یوریشیا کے تھیٹر میں موجود تمام بڑی طاقتوں، یعنی یورپ، روس، اور چین کو کمزور کر رہا ہے۔ یورپی ممالک اور روس کی کمزوری کا مظاہرہ بھاری فوجی اخراجات اور روس و یورپ کے مابین اقتصادی تعلقات کے خاتمے سے واضح ہے۔ جہاں تک چین کا تعلق ہے، روس کا غیر یقینی مؤقف چین کو مؤثر اقتصادی تعاون کے قیام سے روک رہا ہے، جس کے نتیجے میں چینی معیشت روسی وسائل کی کمی کے باعث مشکلات کا شکار ہے۔
یہاں یوکرین کی موسم گرما 2023 میں ہونے والی ناکام جوابی کارروائی کو یاد رکھنا بھی ضروری ہے۔ اس ناکامی کی بنیادی وجہ مغربی شراکت داروں، خاص طور پر امریکہ کی جانب سے یوکرینی فوج کو مناسب ہتھیاروں کی ناکافی فراہمی تھی۔
یکم نومبر 2023ء کو "دی اکانومسٹ" کے ساتھ ایک انٹرویو میں، یوکرینی افواج کے اُس وقت کے کمانڈر انچیف ویلری زالوزنی (Valeriy Zaluzhny) نے سفارتی لہجہ میں امریکہ سے ہتھیاروں کی ناکافی سپلائی کی طرف اشارہ کیا اور کہا، ’’اس جمود سے نکلنے کے لیے ہمیں کچھ ایسا نیا ہتھیار درکار ہے، جیسے چینیوں کے لیے بارود کی ایجاد تھا، جسے آج بھی ہم ایک دوسرے کو مارنے کے لیے استعمال کرتے ہیں‘‘۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر اہم برتری حاصل نہ ہوئی تو یوکرین ایک طویل مدتی محاذ آرائی کا سامنا کرے گا، جو اسے تھکا دے گی۔
بظاہر، یہ زالوزنی کی طرف سے’’بارود کی ایجاد تک‘‘ روس سے نہ لڑنے کی خواہش ہی تھی جو اس کے کمانڈر انچیف کے عہدے سے برطرفی کی وجہ بنی۔ یکم دسمبر 2023ء کو ایسوسی ایٹڈ پریس (Associated Press) کے ساتھ اپنے انٹرویو میں، یوکرینی صدر زیلنسکی نے بھی کہا، ’’ہمیں وہ تمام ہتھیار نہیں ملے جن کی ہمیں ضرورت تھی، اس پر خوشی کا اظہار ممکن نہیں، لیکن اس بارے میں زیادہ گلہ بھی نہیں کر سکتا‘‘۔
گزشتہ سال 17 نومبر 2024ء کو، برطانیہ میں یوکرین کے سفیر کے طور پر، زالوزنی نے یوکرینی جوابی حملے کی ناکامی کے اسباب کے بارے میں ایک زیادہ تفصیلی بیان دیا۔ انہوں نے کہا کہ 2023ء کا جوابی حملہ، جس کی قیادت ان کے پاس تھی، اس لیے ناکام ہوا کیونکہ مغرب کی جانب سے ہتھیاروں کی فراہمی ناکافی تھی۔ انہوں نے کہا، ’’نتیجتاً ہم ایک طویل جنگ کی حالت میں ہیں۔ میری ذاتی رائے میں، اس طویل جنگ سے نکلنے کی کوئی امید نہیں‘‘۔ ان سب عوامل سے واضح طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ 2023ء کے موسم گرما سے روس کے یوکرین پر حملے کے سلسلے میں تنازعہ کو طول دینے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔
دسمبر 2023ء سے اپریل 2024ء کے آخر تک، امریکی سینیٹ اور کانگریس میں یوکرین کو 60 بلین ڈالر فراہم کرنے پر دو پارٹیوں کے درمیان تنازعہ شروع ہوا۔ اگرچہ دونوں جماعتوں کے درمیان حقیقی اختلافات موجود ہیں، لیکن یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ یہ تمام تنازعات امریکہ کی طرف سے یوکرین میں تنازعہ کو طول دینے کی منصوبہ بندی کے عین مطابق ہیں۔
عمومی طور پر، یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ امریکہ روس کے لیے اس جنگ میں فتح یاب ہو جانے کا دھوکہ پیدا کرتا رہا ہے، جس کا مشاہدہ فروری 2022ء میں روس کے یوکرین پر حملے کے ابتدائی دنوں میں کیا جا سکتا ہے۔ ہم سب کو یاد ہے کہ جنگ کے ابتدائی دنوں میں امریکی اور برطانوی تجزیہ نگاروں نے کہا تھا کہ دارالحکومت کیف (Kyiv) 48 گھنٹوں میں ہی گر جائے گا۔ اس کے بعد میڈیا ذرائع، جن میں یوکرینی ذرائع بھی شامل ہیں، انہوں نے اطلاع دی کہ روس یوکرینی شہروں کو بجلی کی فراہمی منقطع کر کے اندھیرے میں دھکیلنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اسی عرصے کے دوران روسی افواج نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 2022-2023 کی سردیوں میں اپنے تمام ذخیرہ شدہ میزائلوں کو یوکرین کے خلاف جنگ میں استعمال کر دیا۔
2023ء کے موسم گرما میں یوکرینی جوابی حملے کی ناکامی کے بعد، روس کو یہ خواب دکھائے گئے کہ یوکرین کمزور ہے اور جلد ہی گر جائے گا، مغربی حمایت اورخاص طور پر امریکی حمایت غیر مستحکم ہے، اور کسی بھی دن یوکرین امریکہ کے دباؤ میں آ کر روس کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے لیے بیٹھنے پر مجبور ہوگا۔ یہ بیانیہ 2024ء کے موسم گرما میں دنیا اور یوکرینی میڈیا میں عام ہو گیا تھا۔
یوکرین نے بھی اس امریکی حکمت عملی کے مطابق عمل کیا۔ مثال کے طور پر، اس کے صدر زیلنسکی نے 2024ء کے اواخر بہار سے موسم گرما کے آخر تک اس بات کے بارے میں مبہم بیانات دیے کہ تنازعہ کے فعال مرحلے کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، جسے روس نے بلاشبہ یوکرین کی طرف سے مذاکرات شروع کرنے کی خواہش کے طور پر سمجھا۔ بظاہر 2024ء کے موسم گرما کے شروع سے وسط تک، یوکرین اور روس کے درمیان متحارب فریقوں کی جانب سے بنیادی سہولیات پر حملے روکنے کے حوالے سے کچھ خفیہ رابطے ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ جب 08 جون 2024ء کو یوکرینی افواج نے کورسک ریجن میں روس کے بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا، تو روسی صدر پیوٹن نے شکایت کی کہ یوکرین کے ان اقدامات کے بعد مذاکرات کی بات ممکن نہیں رہی۔
امریکہ کی یہ حکمت عملی روس کو یوکرین کے ساتھ جنگ میں "فتح کا سراب" دکھانے جیسی ہے، جس کے ذریعے روسی قیادت مذاکرات کی توقع میں رہے، اور اس کے نتیجے میں روس کو اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ شدت کے ساتھ فوجی کارروائیوں پر مجبور کیا جائے گا۔ روس جانتا ہے کہ جتنا زیادہ یوکرینی علاقہ وہ مذاکرات سے پہلے اپنے قبضے میں لے سکتا ہے، اتنا ہی علاقہ اس کے کنٹرول میں رہ جائے گا، کیونکہ مذاکرات کا مطلب ہوگا کہ محاذ پر موجود فرنٹ لائن کو منجمد کر دیا جائے۔
یہ حکمت عملی روس کو اس یقین کے ساتھ اپنے تمام وسائل جنگ میں جھونکنے پر مجبور کر رہی ہے کہ وہ جنگ جیت جائے گا اور اسی لئے وہ میدان جنگ میں مسلسل جارحیت میں رہتا ہے۔ امریکہ کے نکتۂ نظر کے مطابق، یہ امر بالآخر روس کو اس قدر کمزور کر دے گا کہ وہ نہ صرف یوکرینی بحران بلکہ دیگر عالمی امور میں بھی امریکہ کے حکم کے آگے جھک جائے گا، خاص طور پر چین کے ساتھ مشترکہ محاذ آرائی کے معاملے میں، جس کی بڑھتی ہوئی طاقت پچھلی دہائی میں امریکہ کے لیے خصوصی طور پر تشویش کا باعث رہی ہے۔ یوکرین کے پاس وسیع علاقے ہیں، جو دشمن کو کمزور کرنے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ یہ معلوم حقیقت ہے کہ حملے کے دوران فوجی اور وسائل کے نقصانات دفاعی کارروائیوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہوتے ہیں۔
اور یہی وہ امریکی منصوبہ ہے جو اس تنازعہ کے لئے عمومی طور پر ترتیب دیا گیا ہے۔ روس جو کہ سیاسی طور پر ناتجربہ کار، دور اندیشی سے محروم اور کسی نظریاتی یکجہتی کے بغیر ہے، جو اپنے تمام خارجی مسائل صرف ہتھیاروں کی طاقت سے حل کرنے کا عادی ہے، اس امریکی حکمت عملی کا مؤثر جواب دینے سے قاصر ہے۔ اسی لیے روس کے لیے یوکرین میں اس جال سے نکلنا مشکل لگتا ہے جس میں وہ پھنس چکا ہے۔
لہٰذا، اس وقت، کسی بڑی کشیدگی کے خاتمے کی توقع نہیں ہے۔ ہاں، ممکن ہے کہ مختصر مدت کے لیے جنگ بندی کا اعلان ہو، جس کے بعد کشیدگی مزید بڑھ جائے گی۔ لیکن اس کا امکان بھی کم ہے۔