بسم الله الرحمن الرحيم
"نص" کی موجودگی کی صورت میں اجتہاد نہیں ہوتا"
(ترجمہ)
الوعي شمارہ نمبر 114
دسواں سال، 1417 ہجری - دسمبر 1996 عیسوی
«لا اجتہاد عند ورود النص»
"جب نص موجود ہو تو کوئی اجتہاد نہیں"
یہ فقہی قاعدہ مختلف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، جیسا کہ، «لا اجتہاد في مورد النص» "وہاں اجتہاد نہیں جہاں نص وارد ہوئی ہو"، «الاجتہاد عند عدم النص» "اجتہاد صرف نص کی عدم موجودگی میں ہوتا ہے"، اور «لا مساغ للاجتہاد في مورد النص» "نص کے معاملے میں اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی"۔
اجتہاد کو 'استخراج' شرعی قانونی احکام کو تفصیلی شواہد سے اخذ کرنے (اور اصول فقہ کی اصطلاح میں، استنباط) سے جانا جاتا ہے۔ امام بیضاوی نے اس کی تعریف یہ کی ہے کہ شرعی قانونی احکام کو سمجھنے (ان تک پہنچنے) میں پوری کوشش صرف کرنا۔
"نص" وہ لفظ ہوتا ہے جو ایک ہی معنی پر دلالت کرتا ہے، اور یہ اس کے مترادف ہے جسے ہم «قطعی الدلالہ» "معنی کے لحاظ سے قطعی" کہتے ہیں۔ ابن رشد نے اپنی کتاب "بداية المجتہد" کی مقدمہ میں بیان کیا: «والأعيان التي يتعلق بها الحكم إما أن يدل عليها بلفظ يدل على معنى واحد فقط وهو الذي يعرف في صناعة أصول الفقه بالنص ولا خلاف في وجوب العمل به وإما أن يدل عليها بلفظ يدل على أكثر من معنى واحد...» "جن اشیاء سے حکم متعلق ہوتا ہے وہ یا تو ایسے لفظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو صرف ایک معنی کی طرف دلالت کرتا ہے، جسے اصول فقہ کی اصطلاح میں "نص" کہا جاتا ہے، اور اس پر عمل کرنے کی لازمیت میں کوئی اختلاف نہیں ہے، یا وہ ایسے لفظ سے ظاہر ہوتا ہے جو ایک سے زیادہ معنی کی طرف دلالت کرتا ہے۔"
امام رازی نے اپنی کتاب 'المحصول' میں "نص" کی تعریف اس طرح کی ہے کہ وہ لفظ جو کسی ابہام کے لیے کھلا نہ ہو۔ شیخ محمد الخضری بک نے اس اصطلاح کو شافعیوں سے منسوب کرتے ہوئے کہا: «قسم الشافعية الحكم إلى ظاهر ونص فالظاهر عندهم الذي له دلالة ظنية راجحة... فإن صرف عن هذا المعنى الظاهر فأريد به المعنى المرجوح لقرينة فهو المؤول. والنص ما دل على معنى بدون أن يحتمل معنى آخر...» "شافعیوں نے حکم کو ظاہر اور نص میں تقسیم کیا ہے۔ ان کے نزدیک ظاہر وہ ہے جس کی راجح دلالت ظنی (غیر قطعی) ہو... اگر اسے ظاہر معنی سے ہٹا کر کسی قرینے کی بنیاد پر دوسرے مرجوع معنی کی طرف اشارہ کیا جائے تو یہ تاویل کہلاتا ہے۔ اور نص وہ ہے جو ایک ہی معنی پر دلالت کرے، اور وہ دوسرے معنی کے لیے کھلی نہ ہو"
لہذا، اس قاعدے کا مطلب یہ ہے کہ اگر قرآن مجید کے الفاظ یا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث میں صرف ایک معنی ہو یعنی ان کی دلالت قطعی ہو، تو ان میں اجتہاد کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس کی ایک مثال قرآن کی یہ آیت ہے، ﴿وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ﴾ "اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے" یہ ایک صریح نص ہے جو تمام سود کو حرام قرار دیتی ہے۔ اس کے بعد سود کے حکم کے بارے میں کسی اجتہاد کی گنجائش نہیں۔ اسی طرح پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول
«البينة على المدعي واليمين على من أنكر»
"دعویٰ کرنے والے (مدعی) پر شہادت دینا ہے اور انکار کرنے والے پر قسم (اٹھانا) ہے۔"
تاہم یہ کہنا درست نہیں کہ نص قرآن کی آیات اور احادیث ہیں، تو اگر ہم ان میں شرعی قانونی حکم نہ پائیں تو ہم اپنی کوشش کریں گے۔ یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ یہ موضوع ایک اصطلاحاتی مسئلہ ہے، اور لفظ کو اہل علم کی اصطلاح کے مطابق سمجھا جاتا ہے۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ لفظ «جرار» لغت میں ایک معنی رکھتا ہے جبکہ زراعت کا کام کرنے والوں کے لیے اس کے معنی مختلف ہوتے؟ اور فقہی کتابوں میں آنے والے لفظ «عبادة» "عبادت" سے مراد نماز، زکوة، حج، جہاد وغیرہ جیسے اعمال ہیں، جبکہ اس کا معنی قرآن اور سنت میں کچھ مختلف ہے، جہاں اس کا لغوی معنی مراد ہے یعنی تسلیم، اتباع، اور انکساری۔ اسی طرح فقہاء کی اصطلاح میں "نص" آیاتِ قرآن اور احادیث ہیں، لیکن اصول فقہ کے علماء کی اصطلاح میں "نص" وہ ہے جو ہم نے اوپر ذکر کیا۔ ابن رشد نے اپنی پچھلے بیان میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے جب انہوں نے کہا: «... وهو الذي يعرف في صناعة أصول الفقه بالنص» "... اور یہ وہ ہے جو اصول فقہ کی زبان میں نص کے طور پر جانا جاتا ہے۔" جہاں تک لغت میں نص کے معنی کا تعلق ہے، تو اس کا مطلب ہے بلند ہونا۔ کسی چیز کا نص ہونا اس کی بلندی کو ظاہر کرتا ہے، اور اسی سے 'منصة العروس' دلہن کا چبوترہ کی ترکیب ہے کیونکہ یہ بلند شکل میں ہوتا ہے۔ جہاں تک 'قطعی دلالة' الفاظ کا تعلق ہے، تو انہیں نص اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ باقی تمام الفاظ پر غالب ہوتے ہیں۔
اس قاعدے کو سمجھنے میں غلطی سے غلط بیانات نے جنم دیا جیسے یہ کہنا کہ قرآن اور سنت کی نصوص کے علاوہ میں اجتہاد کیا جاتا ہے، یا یہ کہنا کہ اسلام میں تشریع کے مصدر تین ہیں: قرآن، سنت، اور اجتہاد، جو اس وقت کیا جاتا ہے جب ہم قرآن اور سنت میں جو حکم ڈھونڈ رہے ہیں وہ ان میں نہ ملے۔ ان لوگوں نے اپنی بات کی سند کے طور پر اس واقعے کا سہارا لیا کہ جب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاذ سے پوچھا: «بم تقضي» "آپ کیسے فیصلہ کریں گے؟" اس پر معاذ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: «بكتاب الله» "اللہ کی کتاب سے۔" اس پر آپ صلی علیہ والہ وسلم نے فرمایا: «فإن لم تجد؟» "اور اگر تم اس میں نہ پاؤ؟" معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: «بسنة رسوله» "اس کے پیغمبر کی سنت سے۔" فرمایا: «فإن لم تجد؟» "اور اگر اس میں بھی نہ پاؤ؟" معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: «أجتهد رأيي لا آلو جهداً» "میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا، کوئی کسر نہ چھوڑوں گا۔" یہ حدیث حسن ہے۔ تاہم، اس حدیث کے متعلق مذکورہ بالا غلط فہم قرآن کی آیات کے خلاف ہے جو یہ بتاتی ہیں کہ شریعت مکمل ہے اور ہر عمل کے متعلق شریعت میں رہنمائی موجود ہے، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَنـزلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ﴾
"اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے، جو ہر چیز کی وضاحت کرتی ہے۔" [سورة الأعراف: 13]۔
اس حدیث کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ مجتہد کو کسی معاملے کے متعلق قرآن اور سنت میں جب کوئی واضح اور صریح نص نہ ملے تو اسے قرآن و سنت میں اس معاملے کے متعلق حکم کو ڈھونڈنا چاہیے ۔ یہ وضاحت معاذ اور ابو موسی والی حدیث سے ہوتی ہے جب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں یمن بھیجا اور ان سے پوچھا: «بم تقضيان» "آپ دونوں کیسے فیصلہ کریں گے؟" تو انہوں نے کہا: «إذا لم نجد الحكم في الكتاب ولا السنة قسنا الأمر بالأمر فما كان أقرب إلى الحق عملنا به» "اگر ہمیں کتاب اور سنت میں حکم نہ ملے تو ہم ایک معاملے کا موازنہ دوسرے معاملے سے کریں گے، اور جو بھی حق کے قریب تر ہو اسی پر عمل کریں گے" ان کا اشارہ اللہ تعالی کے اس فرمان کی طرف ہے
﴿وَ قُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ﴾
"اور کہو، حق تمہارے رب کی طرف سے ہی ہے۔" (سورة الكهف - آیت 29)
اور تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جو تمام جہانوں کا رب ہے۔