بسم الله الرحمن الرحيم
ٹرمپ کا امریکہ بھی وہ سب کرنے کے قابل نہیں جو کہ عمررسیدہ بائیڈن نہ کر پایا
*خبر:*
”نو منتخب- امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی ایسے متنازعہ بیانات دیے ہیں جو امریکی داخلی اور خارجی پالیسیوں میں رخصت ہو جانے والے ڈیموکریٹک صدر جو بائیڈن سے ان کے اختلافات کی شدت کو واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے ٹرمپ نے کہا کہ، وہ مشرق وسطیٰ میں اس امر کو روک دیں گے جسے انہوں نے ‘انتشار’ کا نام دیا تھا، وہ یوکرین میں جنگ کو روک دیں گے، اور وہ تیسری عالمی جنگ چھڑنے کے امکان کو روکیں گے، مگر یہ سب بغیر کسی وضاحت کے بیانات تھے کہ آخر وہ یہ سب کیسے کریں گے ...
... 7 اکتوبر سے، ”اسرائیل‘‘ مکمل امریکی حمایت کے ساتھ، غزہ کی پٹی پر ایک خونریز نسل کشی کی جنگ برپا کئے ہوئے ہے، اور اس جنگ میں 153,000 سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں اور زخمی ہوئے ہیں، جن میں اکثریت بچے اور خواتین ہیں، اور 11,000 سے زیادہ افراد لاپتہ ہو گئے ہیں، اس دوران بڑے پیمانے پر تباہی اور قحط نے بچوں اور بزرگوں کی زندگیوں کو بھی نگل لیا ہے۔ اس ماہ کے آغاز میں، ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ اگر غزہ کی پٹی میں قید افراد کو 20 جنوری کو ان کی حلف برداری سے پہلے آزاد نہ کیا گیا، تو مشرق وسطیٰ میں ”ہر طرف عذاب مسلط‘‘ کر دیا جائے گا، اور مزید یہ کہا کہ ”جو لوگ اس کے ذمہ دار ہوں گے، انہیں امریکہ کی طویل اور تاریخ بھر کی سب سے سخت ترین سزا دی جائے گی‘‘۔
... داخلی سطح پر، ٹرمپ نے کہا کہ وہ واشنگٹن میں اہم تبدیلیاں لائیں گے، اور کانگریس میں ریپبلکنز کی اکثریت نے ان کی طرف سے عہدے کے لیے نامزد اہلکاروں کی حمایت کی ہے۔ گزشتہ ماہ، ٹرمپ نے صدراتی انتخابات ہونے کے بعد 3 ہفتے سے بھی کم وقت میں، سینئر عہدوں کے لیے روایتی اور غیر روایتی افسران کا ایک گروہ منتخب کرتے ہوئے اپنی حکومت میں کلیدی 20 عہدوں کے لیے اپنے منتخب افراد کا اعلان کیا۔ ٹرمپ کی منتخب کردہ شخصیات میں کئی ایسے افراد سامنے آئے جو متنازعہ نظریاتی پس منظر رکھتے ہیں، لیکن وہ سب اس بات پر متحد ہیں کہ وہ ٹرمپ کی پاپولسٹ تحریک ”دوبارہ امریکہ کو عظیم بناؤ- Make America Great Again - (MAGA) ‘‘ کے فریم ورک کی حمایت کرتے ہیں، اس تحریک کو “MAGA” کے نام سے جانا جاتا ہے‘‘۔ (الجزیرہ عربی)
*تبصرہ:*
ریپبلکن پارٹی کا لوگو ہاتھی ہے، اور مسلمانوں کی تاریخ میں ہاتھی کی ایک خوبصورت داستاں وابستہ ہے۔ ہاتھی ایک ایسی قوی الجثہ حملہ آور قوت ہوا کرتے تھے جسے فارسی اپنی جنگوں میں استعمال کرتے تھے۔ فارسیوں کے ساتھ طاقتور ہاتھیوں کا یہی کردار جاری رہا یہاں تک کہ جنگِ قادسیہ میں فارسیوں کا سامنا مسلمانوں سے ہوا۔ جنگ میں مسلمانوں نے ہاتھیوں کی سونڈ کاٹ کر اور ان کی آنکھیں داغ کر اس دیوہیکل طاقت کو بے اثر کر کے رکھ دیا۔ اور ان شاء اللہ عنقریب قائم ہونے والی خلافت کے ہاتھوں یہی سب کچھ جلد ہی امریکی ہاتھی کے ساتھ بھی ہونے والا ہے۔ ہاتھی کے حوالے سے ایک قصہ اور بھی ہے جو ہم تک قرآن مجید کے ذریعے پہنچا ہے، جب ابرہہ الاشرم خانہ کعبہ کو تباہ کرنے کے لیے ہاتھی لے کر آ گیا تھا۔ لیکن اس کا مقدر کچھ اور ہی تھا، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان پر پکی مٹی کے کنکر برسا دئیے اور پلک جھپکتے ہی وہ محض ایک راکھ کا ڈھیر ہو کر رہ گئے۔ ٹرمپ خواہ ابرہہ الاشرم بن جائے یا رستم فرخزاد، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو ہی بہتر معلوم ہے، جبکہ مؤمنین اس نظارہ کے منتظر ہیں۔
یہی ٹرمپ، جو انتشار کو روک دینے کے وعدے کر رہا ہے، بذاتِ خود خود انتشار کا سبب ہے۔ اسی کا ملک ہی وہ سبب ہے جس نے انتشار کی آگ کو بھڑکایا ہوا ہے۔ یہ امریکہ ہی ہے جس نے یہود کو ہر قسم کے اسلحہ سے حمایت مہیا کی۔ یہ امریکہ ہی ہے جس نے کئی مسلم ممالک میں جابروں کو مسلط کیا، جیسے بشار الاسد (جو کہ چوہا ہے) اور بن سلمان۔ امریکہ اب بھی جابروں کی حمایت کر رہا ہے، جیسے سیسی، اردگان اور دیگر۔ سیسی کے بارے میں ٹرمپ کے اس بیان کو ہمیں ہرگز نہیں بھولنا چاہئے جسے اس نے ”میرا پسندیدہ آمر‘‘ کہہ کر بیان کیا۔ لہٰذا کوئی بھی شخص ہرگز بھی یہ خیال نہ کرے کہ ٹرمپ ایک امن پسند شخص ہے جو مشرق وسطیٰ میں امن لے کر آئے گا۔ بلکہ، ٹرمپ تو یہ کہتا ہے کہ وہ انتشار کو مزید قتل و غارت اور خونریزی کے ذریعے ختم کرے گا، جو کہ امریکہ کی موجودہ پالیسی کے عین مطابق ہے، وہ پالیسی جو اسلامی دنیا کے ان عوام کے خلاف قتل و جبر پر مبنی ہے، جو اپنے جابروں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ ٹرمپ نے دھمکی دی کہ اگر غزہ میں یہودی قیدیوں کو رِہا نہ کیا گیا تو مشرق وسطیٰ میں ”ہر طرف عذاب‘‘ مسلط کر دے گا۔ تو ٹرمپ کی پالیسی میں ایسا کیا نیا ہے جو بائیڈن کی موجودہ پالیسی سے مختلف ہے ؟!
جہاں تک یوکرینی معاملے کا تعلق ہے، ٹرمپ ایک گینگ کے سرغنہ کی طرح کا کام کرے گا جو اپنے آدمیوں میں سے ایک، زیلنسکی کو اور اس کے ملک کو چھوڑ دے گا اور کچھ فائدہ کے بدلے میں اسے روس کے حوالے کر دے گا، اس بدلے میں سے کچھ تو اس نے شام میں حاصل کر لئے ہیں، اور ایک اور ڈیل ابھی باقی ہے جو روسی مافیا کے سرغنہ، پیوٹن کے ساتھ وہ کرنے والا ہے۔
جہاں تک تیسری عالمی جنگ کی کہانی اور اس کے چھِڑنے سے روکنے کا تعلق ہے، یہ صرف طاقت کا مظاہرہ ہے، اور مقامی سطح پر اور میڈیا پر دھاک بٹھانے کے لئے ہے۔ اگر امریکہ ہی تیسری جنگِ عظیم میں پیشرفت کرنے والا نہ ہو تو پھر وہ کون سے فریق ہوں گے ؟! اگر آئندہ جنگیں ہوں گی، تو یہ امریکہ ہی ہے جو انہیں بھڑکائے گا، اور جیسا کہ کہاوت ہے، 'سلم العالم من أمريكا وهو بخير' یعنی ”جو دنیا بھی امریکہ سے محفوظ ہے، وہی ہر طرح سے خوب ہے‘‘۔
یکے بعد دیگرے اپنی ریپبلکن اور ڈیموکریٹک حکومتوں کے تحت، امریکہ نے دنیا کے ممالک پر اپنی بالادستی اور پالیسیوں کو مسلط کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ امریکہ دنیا میں اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے ہمیشہ اپنے ایجنٹوں اور ہرکاروں کو استعمال کرتا ہے، جب کہ یہ خود اپنے بل بُوتے پر کوئی بھی کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس لیے ٹرمپ دنیا میں امریکہ کے ایجنٹوں کی باہمی سازباز اور ناکامی کے علاوہ مشرق وسطیٰ اور اس کے ارد گرد مزید کامیابیاں حاصل کرنے میں زیادہ قابل نہیں ہو پائے گا۔ اگر یہ ایجنٹ نہ ہوتے، ان کی بزدلی اور شروفساد نہ ہوتا، تو ٹرمپ دنیا کو دھمکانے کے لیے ایک موٹی چھڑی کو ہرگز نہ گُھما سکتا تھا۔ مزید برآں، یہ ایجنٹ یہ ادراک ہی نہیں کر پاتے کہ وہ خود ہی وہ چھڑی ہیں۔ امریکہ ان ایجنٹوں کو اسلامی دنیا کے ممالک میں آگ لگانے کے لیے گندے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ اگر یہ ایجنٹ دانا ہوتے، تو وہ امریکہ کی خود غرض خواہشات کے خلاف محض بغاوت کر کے ہی امریکہ کی بالادستی کا خاتمہ کر سکتے تھے۔
داخلی سطح پر دیکھا جائے تو ٹرمپ کے پاس کوئی جادوئی چھڑی تو ہے نہیں کہ جس سے وہ ان معاشی، سماجی اور صحت کے مسائل کو حل کر سکے جو اس کے ملک کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام نے ملک کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے، جہاں دولت کا استحصال ایک چھوٹی سی اس اشرافیہ کے ہاتھوں میں مرکوز ہے، جو کہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے امریکہ کو بھی دنیا کی ان ناکام ریاستوں سے کوئی مختلف نہیں چھوڑا، جہاں کرپٹ حکمران اور ایک منتخب اشرافیہ ملک کی دولت پر قابض ہوتے ہیں، جب کہ باقی عوام انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ یہی کچھ اب امریکہ میں ہو رہا ہے، جہاں بڑی بڑی کارپوریشنز کے مالکان نے امریکہ کی دولت پر قبضہ کر لیا ہے، جس میں سے زیادہ تر دولت دنیا بھر کی دولت ہے، جبکہ باقی عوام ان بچے کُھچے ٹکڑوں پر گزارا کر رہی ہے جو یہ سرمایہ دار ان کی طرف پھینک دیتے ہیں۔ یہ صورت حال صرف سرمایہ داروں کی کرپشن کا ہی نتیجہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ خود سرمایہ دارانہ نظام کے نفاذ کا نتیجہ ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام معاشی نظریات جیسے اجارہ داری، دولت کا ارتکاز، سُود اور سُودی اندازوں پر مبنی ہے۔ تو کیا کوئی ذی شعور یہ سوچ سکتا ہے کہ ٹرمپ سرمایہ داریت کے دائرے سے باہر سوچ رہا ہو گا، جبکہ اس کا وہ خود حصہ ہے اور جس نظام کی کرپشن اور سڑاند سے وہ خود فائدہ اٹھا رہا ہے ؟!
اس بدبخت غلام سے یہی توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے ملک کے موجودہ عالمی جرائم اور داخلی کرپشن کی صورتحال کو جاری رکھے گا۔ وہ اس سے زیادہ کچھ بھی نہ کرے گا جو کہ اس کا ملک مذکورہ بالا تمام خبیث ترین توانائیاں استعمال کرتے ہوئے جرائم کے حوالے سے کرتا چلا جا رہا ہے۔ وہ اپنے پیش رو حکمرانوں کے ذریعے اختیار کیے گئے وہی وسائل اور ہتھکنڈے استعمال کرتا رہے گا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا،
﴿ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا أَبْكَمُ لَا يَقْدِرُ عَلَى شَيْءٍ وَهُوَ كَلٌّ عَلَى مَوْلَاهُ أَيْنَمَا يُوَجِّهْهُ لَا يَأْتِ بِخَيْرٍ هَلْ يَسْتَوِي هُوَ وَمَنْ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَهُوَ عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ﴾
”اور اللہ نے دو مردوں کی مثال بیان فرمائی، ان میں سے ایک گونگا ہے جو کسی شے پر قدرت نہیں رکھتا اور وہ اپنے آقا پر صرف بوجھ ہے، (اس کا آقا) اسے جدھر بھیجتا ہے وہ کوئی خیر لے کر نہیں آتا تو کیا وہ اور دوسرا وہ جو عدل کا حکم کرتا ہے اور وہ سیدھے راستے پر بھی ہے، کیا دونوں برابر ہیں ؟‘‘۔ (النحل؛ 16:76)
دنیا، مشرق وسطیٰ، اور دنیا کے لوگ اپنے فیصلوں سے اس وقت تک راحت نہ پائیں گے جب تک کہ معرکۂ قادسیہ کے سردار، سعد بن ابی وقاصؓ کے جانشیوں میں سے ایک شخص آئے اور ایک اور جنگِ قادسیہ میں ٹرمپ کی سونڈ کاٹ ڈالے اور اس کی آنکھیں داغ دے، وہ جنگ کہ جس کے ایک طرف نبوت کے طریقے پر دوسری خلافتِ راشدہ ہو گی اور دوسری طرف امریکہ اور اس کے حواری ہوں گے، اور یہاں تک کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ مدد کے لئے اپنی افواج، پرندوں کے جھنڈ بھیجے گا، اور وہ (کفار) شیطان کے وسوسوں کو ہی بھلا دیں گے۔
*حزب التحریر کے سینٹرل میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا۔
بلال المہاجر – ولایہ پاکستان *