السبت، 01 رمضان 1446| 2025/03/01
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

اداریہ: نیتن یاہو کا واشنگٹن کا دورہ اور ٹرمپ کے جبری نقل مکانی کے بارے میں بیانات

 

باهر صالح

 

یہودی وزیر اعظم نیتن یاہو کے امریکہ کے دورے اور وہاں کے صدر ٹرمپ سے 4 فروری 2025 بروز منگل اس کی ملاقات کو میڈیا اور سیاسی حلقوں میں زبردست توجہ حاصل ہوئی، خاص طور پر غزہ کے موضوع اور وہاں کے لوگوں کے انخلاء کے بارے میں ان کے بیانات کی وجہ سے، جو بہت سے لوگوں کے لیے حیران کن تھے۔ وائٹ ہاؤس میں نیتن یاہو کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں ٹرمپ نے کہا: "امریکہ غزہ کی پٹی پر کنٹرول حاصل کرے گا، اور ہم توقع کرتے ہیں کہ وہاں ہماری طویل مدتی ملکیت ہوگی"۔ اس نے مزید کہا کہ فلسطینیوں کے غزہ میں رہنے کی واحد وجہ متبادل کا نہ ہونا ہے، ان کا ماننا تھا کہ دوبارہ تعمیر کے بعد یہ علاقہ "مشرق وسطی کا رویرا بن سکتا ہے"۔ پھر انہوں نے انخلاء کے منصوبے میں اردن اور مصر کی شرکت کے امکان کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ "شاہ عبداللہ دوم اور صدر عبدالفتاح السیسی غزہ کے باشندوں کو امن سے رہنے کے لیے زمین فراہم کریں گے"

 

غزہ پر امریکہ کے قبضے اور وہاں کے لوگوں کے انخلاء کے کی تجویز نے بین الاقوامی اور عالمی سطح پر تنقید اور اعتراضات کی لہر کو جنم دیا جس نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے، دو ریاستی حل کے منصوبے کو زندہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ تب وائٹ ہاؤس نے فوری طور پر وضاحت کی کہ ٹرمپ کے منصوبے کا مطلب غزہ پر امریکہ کا قبضہ یا اس کی تعمیر نو نہیں ہے۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولین لیویٹ نے بدھ کے روز ایک پریس بریفنگ میں کہا: "صدر نے غزہ میں زمینی فوج بھیجنے کا وعدہ نہیں کیا... امریکہ غزہ کی تعمیر نو کے اخراجات برداشت نہیں کرے گا"۔ جبکہ اس سے پہلے ٹرمپ نے منگل کے روز اپنے بیانات میں غزہ کو محفوظ بنانے میں مدد کے لیے امریکی فوج بھیجنے کے امکان کو مسترد نہیں کیا تھا۔ ٹرمپ نے کہا تھا: "ہم وہ کریں گے جو ضروری ہے۔ اگر ضرورت پڑی تو ہم ایسا کریں گے"

 

بلکہ امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو، بدھ، 5 فروری 2025 کو ٹرمپ کے موقف کی شدت کو کم کرنے اور اس کا جواز پیش کرنے کے لیے نکلا اور کہا کہ ٹرمپ نے غزہ کی پٹی کے بارے میں جو پیشکش کی ہے اس کا مقصد جارحانہ اقدام نہیں ہے، اور اس کی پیشکش اس علاقے سے ملبہ ہٹانے اور تباہی سے جگہ کو صاف کرنے میں مداخلت کرنے کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ "غزہ کی تعمیر نو کے دوران لوگوں کو کہیں تو رہنا پڑے گا"۔ پھر جمعرات کے روز خود ٹرمپ نے کہا کہ یہودی وجود لڑائی کے خاتمے کے بعد غزہ کی پٹی امریکہ کے حوالے کر دے گی۔

 

جمعہ 7 فروری 2025 کو، وائٹ ہاؤس میں جاپانی وزیر اعظم سے ملاقات کے دوران ٹرمپ نے کہا: "بنیادی طور پر، امریکہ اس معاملے کو ایک جائیداد کی سرمایہ کاری کے طور پر دیکھے گا، غزہ ہمارے لیے ایک جائیداد کی ڈیل ہے، جہاں ہم اس علاقے میں سرمایہ کار ہوں گے، اور ہم کسی بھی قدم کو جلد بازی میں نہیں اٹھائیں گے۔"

 

اس طرح دنوں بلکہ گھنٹوں میں ٹرمپ انتظامیہ اور خود ٹرمپ کی جانب سے بیانات تبدیل ہوتے رہے، جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے اسے فیصلوں میں ہچکچاہٹ یا اندرون ملک بڑی تبدیلیوں اور برطرفیوں کو ان شورش زدہ خبروں اور مواقف کے ذریعے میڈیا اور عوام کی نظروں سے اوجھل رکھنے کی پالیسی سمجھا۔

 

لیکن توجہ منتشر کرنے یا دیگر خبروں میں دھیان لگانے کا معاملہ محض ایک مفروضہ ہے جس کے بارے میں حقائق کو مضبوط کیے بغیر بات کی جا رہی ہے، امریکہ میں معاشرہ ایک ایسا معاشرہ ہے جس پر آئین، قانون، اداروں اور عدلیہ کی حکمرانی ہے، ٹرمپ آئین یا عدلیہ سے تجاوز نہیں کر سکتا، مثال کے طور پر، عدلیہ اکثر امریکی صدور کے فیصلوں کو معطل یا منسوخ کرنے میں کامیاب رہی ہے، جن میں خود ٹرمپ بھی شامل ہیں، اور ایسا پچھلے دنوں میں ہوا ہے، اسی طرح سینیٹ اور ایوان نمائندگان اور پینٹاگون اور نگران ادارے محض ابھرتے ہوئے ادارے نہیں ہیں کہ ٹرمپ ان کو اس سادگی سے بہلا سکے جس کے بارے میں مفروضے کے مالک بات کرتے ہیں۔

 

جہاں تک ہچکچاہٹ کا تعلق ہے، تو یہ درست ہے کہ کسی شخص کے فیصلوں میں شش و پنج اور ان میں سے بعض سے دستبرداری کو ہچکچاہٹ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ اس صورت میں ہو گا جب اس کی پہلے سے منصوبہ بندی نہ کی گئی ہو، اور یہ امکانات اور توقعات سے باہر ہو، اور یہ بات امریکہ جیسی ریاست سے بعید از امکان ہے جو اپنے منصوبے اور پروگرام، ملازمین، مفکرین اور پالیسی سازوں کی فوج کے ذریعے تیار کرتی ہے۔

 

راجح یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اس جبری انخلاء کے لیے ماحول کو سازگار بنانا چاہتی ہے جسے حکمرانوں نے پہلے ہی مسترد کر دیا ہے، خاص طور پر مصر اور اردن میں، دوسرے لفظوں میں، یہ ایک (نبض کی جانچ) کا عمل ہے کہ کیا یہ حکمران لوگوں پر، ٹرمپ کے بیان پر عمل کرنے اور انہیں ان کے ملکوں سے بے دخل کرنے اور انہیں خالی کرنے اور یہودیوں کو ضم کرنے یا اسے ٹرمپ کی مرضی کے مطابق ل کسی اور وقت تک ملتوی کرنے کے لیے، دباؤ ڈال سکتے ہیں ایک ایسے وقت میں کہ اگر لوگ ان دونوں حکومتوں کے سامنے کھڑے ہو جائیں اور انہیں اس غداری سے روکیں۔

 

اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹرمپ انخلاء کے منصوبے پر عمل درآمد اس وقت عمل کرے گا جب وہ اس پر عملدرآمد کم سے کم ضمنی نقصان کے ساتھ ممکن سمجھے گا۔ اور اس بات میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے کہ وہ فی الحال تیاری کرنے پر اکتفا کرتے ہوئے تحمل کا مظاہرہ کرے، جیسا کہ اس نے اپنے اس قول سے اظہار کیا کہ: "غزہ ہمارے لیے ایک جائیداد کا سودا ہے، جہاں ہم اس علاقے میں سرمایہ کار ہوں گے، اور ہم کوئی بھی قدم اٹھانے میں جلدی نہیں کریں گے"

 

اور یہ چیز یہودیوں کو خوش کر گئی اور ان کے منہ میں پانی بھر آیا، اور نیتن یاہو اس منصوبے سے سب سے زیادہ خوش ہے کیونکہ اس کے علاوہ یہ ان کے توراتی خوابوں اور فلسطین کے لوگوں کو بے دخل کرنے اور فلسطین کو یہودیوں کے لیے رکھنے کے منصوبوں سے ہم آہنگ ہے۔ اس چیز نے نتن یاہو کے اور اس کی حکومت کے لیے بھی ایک نجات دہندہ کا کردار ادا کیا۔ نیتن یاہو نے دوسرے مرحلے کے مذاکرات کو ٹرمپ سے ملاقات کے بعد تک ملتوی کر دیا تھا جو امریکہ جانے سے پہلے شروع ہونے والے تھے، اور اس نے واشنگٹن جانے سے پہلے اعلان کیا تھا کہ مذاکرات کی بحالی کے لیے ان کی ایک شرط ہے کہ حماس اپنے رہنماؤں کو غزہ کی پٹی سے نکالنے پر راضی ہو جائے۔ تو جب ٹرمپ سے اس کی ملاقات میں جو کچھ ہوا اس کے بعد اس نے فوری طور پر وفد کو دوسرے مرحلے کے مذاکرات کے لیے بھیج دیا اور اپنی شرط کو بھول گیا، کیونکہ انخلاء کا مسئلہ جس کے بارے میں ٹرمپ نے بات کی تھی سموٹریچ کو حکومت میں رہنے پر قائل کر سکتا ہے کیونکہ بصورت دیگر دھمکی دی گئی ہے کہ اگر نیتن یاہو دوسرے مرحلے کے بعد جنگ دوبارہ شروع نہیں کرتا تو وہ حکومت سے دستبردار ہو جائیں گے۔ لہذا غزہ کے لوگوں کو بے دخل کرنے، حماس کو ختم کرنے اور تمام یرغمالیوں کو بازیاب کرانے کے ٹرمپ کا منصوبہ، نیتن یاہو اور سموٹریچ کے منصوبوں کو جنگ میں واپس جانے اور نیتن یاہو کی حکومت کو گرنے اور مقدمات میں جانے سے بچانے کے لیے ایک تحفہ اور راستہ ہے۔

 

اسی لیے ہم نے دیکھا کہ کس طرح یہودی فوج معاہدوں کی پابندی پر واپس آئی، جیسے کہ محور نتساریم سے انخلاء، چنانچہ جنگ بندی کے معاہدے پر عمل درآمد کرتے ہوئے اس علاقے سے اتوار 9 فروری 2025 کی صبح انخلاء کر لیا گیا۔

 

تو جیسا کہ ظاہر ہے نیتن یاہو کو، جنگ میں واپس جائے بغیر، جس میں ٹرمپ بھی نہیں جانا چاہتا، تینوں اہداف کے حصول کے لیے ٹرمپ کے منصوبے پسند آئے، اور اس کا اظہار نیتن یاہو نے فاکس نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کیا جہاں اس نے ٹرمپ کے خیال کو ایک عظیم خیال قرار دیا جو شروع میں کچھ لوگوں کو عجیب لگا، لیکن بعد میں ممکن نظر آئے گا اور غزہ کے مسئلے کا بنیادی حل تشکیل دے گا۔ اب وہ دوسرے اور تیسرے مرحلے میں یرغمالیوں کو بازیاب کرانے اور جنگ کے خاتمے کے لیے ماحول کو سازگار بنانے اور حماس کو منظر سے ہٹانے کے لیے انتظامات کرنا چاہتے ہیں، لیکن یہ انخلاء کے منصوبے پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ ہو۔ غزہ کے لوگوں پر پہلے ہی سے سختی شروع کر دی گئی ہے، چنانچہ یہود نے جنگ بندی کے آغاز کے بعد سے انسانی امداد، خیموں اور موبائل گھروں کی ترسیل کی اجازت دینے میں تاخیر کی ہے، اس کے علاوہ پانی، خوراک اور صحت کے حالات کی کمی بھی ہے، تاکہ غزہ میں رہنے اور زندگی گزارنے کا آپشن اگر ناممکن نہیں تو، مشکل ضرور ہو جائے اور اس کے مقابلے میں ایسی جگہوں پر ہجرت کا موقع فراہم کیا جائے جہاں زندگی کے قابل قبول حالات فراہم کیے جائیں۔ اس طرح ٹرمپ نے انخلاء کے منصوبے کا اعلان کر کے اور معاہدہ ابراہیم میں واپسی اور اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے اور اگلے چار ہفتوں کے دوران مغربی کنارے میں توسیع کے بارے میں سوچنے کا وعدہ کر کے یہودیوں کی وفاداری کو یقینی بنا لیا ہے اور نیتن یاہو اس کے منصوبوں کے مطابق چلے گا۔

 

یہ ان کے منصوبے اور ان کے خواب ہیں لیکن مسلمان ان کو تسلیم نہیں کریں گے، بلکہ یہ سب خواب امتِ مسلمہ کی ثابت قدمی کی چٹان سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جائیں گے، اور فلسطین کے لوگوں کا 77 سال تک یہودیوں اور ان کے حامی تمام نوآبادیاتی قوتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی سرزمین سے چمٹے رہنا اور اس پر ثابت قدم رہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ امت اپنے ذلیل حکمرانوں کی طرح نہیں ہے، اور جو تعاون اور رضامندی ٹرمپ کو ایجنٹ حکمرانوں کی طرف سے نظر آ رہی ہے وہ اسے امت اور فلسطین کے لوگوں کی طرف سے نظر نہیں آئے گی۔

 

ٹرمپ اور نیتن یاہو یہ سمجھتے ہیں کہ غزہ اور فلسطین کے لوگ کسی متبادل آپشن کے نہ ہونے کی وجہ سے اپنی سرزمین سے چمٹے ہوئے ہیں، تو یہ ان کی خام خیالی ہے اور مسلمانوں کو ان کی بوسیدہ قوموں پر قیاس کرنے کا نتیجہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اپنے سچے اور مخلص مردوں کے ساتھ ٹرمپ اور ان کے پیروکاروں کے بیانات کو ہوا میں اڑا کر رکھ دے گی، اور پھر بابرکت سرزمین اپنے اہلیان کی طرف دار اسلام بن کر لوٹ آئے گی۔ خلافت راشدہ عنقریب ان شاء اللہ واپس آئے گی، اور یہودیوں سے جنگ کرے گی اور ان کی ریاست کا خاتمہ ان شاء اللہ ہو کر رہے گا، اور پھر زمین اپنے القوی اور العزیز اللہ کی مدد سے منور ہو جائے گی۔

 

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے رکن

 

Last modified onپیر, 17 فروری 2025 20:37

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک