السبت، 01 رمضان 1446| 2025/03/01
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

عرب رہنما صرف امت سے غداری اور اس کے مسائل کو نظر انداز کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں

تحریر: الاستاذ محمود اللیثی

فروری 2025 کے اوائل میں قاہرہ میں ایک اجلاس منعقد ہوا، جس میں اردن، امارات، سعودی عرب، قطر اور مصر کے وزرائے خارجہ کے علاوہ تنظیم آزادی فلسطین کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سیکرٹری جنرل اور عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں غزہ کی پٹی میں ہونے والی حالیہ پیش رفت اور مسئلہِ فلسطین پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ یہ اجلاس امریکہ کی حمایت اور مصری اور قطری ثالثی کے ذریعے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے اور  قیدیوں کے تبادلے کے بعد منعقد ہوا۔

اس طرح کے اجلاس، مسئلہِ فلسطین کے راستے میں کوئی حقیقی تبدیلی نہیں کا سکتے، بلکہ یہ غاصب وجود کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی پالیسیوں کو جاری رکھنے اور خطے میں اس کے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے منعقد کیے جاتے ہیں۔ جنگ بندی کے معاہدے کا خیر مقدم اور بین الاقوامی کوششوں کی تعریف درحقیقت قبضے کے تسلسل کو قبول کرنے اور اس حقیقت کو نظر انداز کرنے کی عکاسی کرتی ہے کہ حقیقی اور واحد حل مکمل فلسطین کی آزادی ہے۔ فلسطین کے ارد گرد کے ممالک کا کردار افواج کو حرکت میں لانا، مسخ شدہ یہودی وجود کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا، اور ہمارے اوپر حکومت کرنے والی ایجنٹ حکومتوں سے شروع کر کے اس راستے میں حائل ہر چیز کو اکھاڑ پھینکنا ہے۔

غزہ میں فلسطینی اتھارٹی کو بااختیار بنانے اور تعمیر نو کی اپیل درحقیقت فلسطین کے لوگوں اور امت کے ساتھ دھوکہ دہی اور اس کے مسائل کو نظر انداز کرنا ہے۔ یہ ایسے اقدامات ہیں جو قبضے کے تسلسل کو یقینی بناتے ہیں اور اسے مزید قتل و غارت گری کی دعوت دیتے ہیں، اور موجودہ صورتحال کو بغیر کسی تبدیلی کے برقرار رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ، دو ریاستی حل کی دعوت، جسے بین الاقوامی نظام اپناتا ہے، حقوق کو ان کے حقداروں کو واپس نہیں دلاتا، بلکہ یہودی وجود کے قبضے کو ایک اسلامی سرزمین پر برقرار رکھتا ہے، اور اسے ایجنٹ حکومتوں کی سرپرستی میں قانونی حیثیت دیتا ہے۔

یہ عرب اور بین الاقوامی اجلاس، چاہے کتنے ہی تعداد میں منعقد ہوں، لوگوں کے حقوق بحال نہیں کر سکتے اور نہ ہی مقدس سرزمین کو آزاد کروا سکتے ہیں، بلکہ یہ تعلقات کو معمول پر لانے کی پالیسیوں اور مسلمانوں کے حقوق سے دستبرداری کے لیے ایک پردہ ہیں۔ ان سے کسی بھلائی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ لہذا، امتِ مسلمہ کو ان منصوبوں کے خطرے سے آگاہ ہونا چاہیے، اور شریعت کی پاسداری، تعلقات کو معمول پر لانے اور دستبرداری کی تمام شکلوں کو مسترد کرنے، اور خلافت کے قیام کے ذریعے ان منصوبوں کو ناکام بنانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنی چاہئیں۔ وہ خلافت جو امت کی عزت و وقار کو بحال کرے گی، اور مغرب اور اس کے ایجنٹوں کی نجاست سے امت کے مقدس مقامات کو آزاد کرائے گی۔

یہ اجلاس محض سیاسی ڈرامے ہیں جن کا مقصد عوام کو پرسکون کرنا اور انہیں یہ باور کرانا ہے کہ مسئلہِ فلسطین کے حل کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ اجلاس موجودہ صورتحال کو برقرار رکھنے، بڑی طاقتوں کے مفادات کے تحفظ اور یہودی وجود کے استحکام اور خطے میں اس کے انضمام کے لیے منعقد کیے جاتے ہیں۔

غزہ میں تعمیر نو کی دعوت کو فلسطین کی آزادی کے لیے سنجیدہ کوششوں کا متبادل نہیں ہونا چاہیے۔ آزادی کے بغیر تعمیر نو محض ایک عارضی حل ہے جو زخم کو کھلا رکھتا ہے، اور قابض کو سانس لینے اور اپنی جارحانہ پالیسیوں کو جاری رکھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

ہم امتِ مسلمہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان اجلاسوں اور ان سے جاری ہونے والے فیصلوں کو مسترد کر دے، اور ایک حقیقی اسلامی منصوبے کو اپنانے کے لیے کام کرے جس کا مقصد مکمل فلسطین کو آزاد کرانا اور غاصب وجود کو صفحہِ ہستی سے مٹانا ہے۔ اور یہ صرف اسلامی خلافت کے قیام اور اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے مسلمانوں کی افواج کو حرکت دینے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔

فلسطین کا مسئلہ ایک اسلامی مسئلہ ہے، اور اس کی آزادی ہر مسلمان پر شرعی فریضہ ہے اور اسے قومیت کی بنیاد پر نہیں دیکھا جا سکتا اور نہ ہی سائیکس پیکو کی حدود کی بنیاد پر جسے استعمار نے تیار کیا تھا اور جس نے یہودی وجود کو اپنے لیے ایک فرنٹ لائن اڈے کے طور پر نصب کیا تھا تاکہ اس کا ہمارے ممالک پر تسلط برقرار رہے اور ہماری وحدت کو روکا جا سکے اور امت کی نظروں میں استعمار کی بجائے، یہ یہودی وجود امت کا دشمن ہو جائے۔ اس کے برعکس اس بابرکت سرزمین کو اسلام کے نقطہ نظر سے اور اس کے عقیدے کی بنیاد پر دیکھا جانا چاہیے، جو تمام اسلامی ممالک کو ایک ملک گردانتا ہے، اور اگر دشمن اس کی کسی بھی سرزمین پر حملہ کرتا ہے تو ایمان کے بعد اس دشمن کو پسپا کرنے سے زیادہ ضروری کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ واجب سب سے پہلے وہاں کے باشندوں پر عائد ہوتا ہے، اور اگر وہ اس کو پورا نہیں کر پاتے ہیں اور دشمن کو پسپا کرنے کے قابل نہیں ہوتے اور دشمن اس سرزمین پر قبضہ کر لیتا ہے تو یہ واجب ان کے بعد والوں پر منتقل ہو جاتا ہے جو قریب تر ہیں یہاں تک کہ کفایت حاصل ہو جائے یا یہ فریضہ پوری زمین پر عام ہو جائے۔ یہی مصر اور اس کی فوج پر واجب ہے، وہ سب سے قریب، مضبوط اور اس کے سب سے زیادہ مستحق ہیں، الکاسانی بدائع الصنائع میں کہتے ہیں: "اگر کسی سرحد کے باشندے کفار کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں، اور انہیں دشمن کا خوف ہے، تو ان کے پیچھے والے مسلمانوں پر قریب سے قریب تر کی بنیاد پر، ان کی طرف کوچ کرنا واجب ہے، اور انہیں ہتھیاروں، گھوڑوں اور مال سے مدد کرنی چاہیے؛ جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ یہ تمام لوگوں پر فرض ہے جو جہاد کے اہل ہیں، لیکن یہ فرض ان میں سے کچھ کے ذریعے کفایت حاصل ہونے پر ساقط ہو جاتا ہے، لیکن جب تک کہ یہ حاصل نہ ہو جائے، فرض ساقط نہیں ہوتا۔"

اے ارضِ کنانہ کی فوج میں موجود مخلصو: تمہارے حکمران درحقیقت یہودی وجود کو برقرار رکھنے میں عملی طور پر شریک ہیں، اور یہ بات حیران کن نہیں ہے کیونکہ انہوں نے ہی امت مسلمہ کے قلب میں اس مسخ شدہ وجود کو بنانے میں مدد کی تھی۔ جو بات واقعی حیران کر دینے والی ہے، تو اے فوج کے بیٹووہ آپ کا موقف ہے۔ آپ لوگ اب بھی ضبطِ نفس پر کیوں بضد ہیں جب کہ آپ کے بھائیوں کو بھیڑوں کی طرح ذبح کیا جا رہا ہے؟ آپ لوگ اب بھی سائیکس پیکو کی حدود سے کیوں چمٹے ہوئے ہیں جنہوں نے ایک امت کے بیٹوں کو منقسم اور منتشر کر دیا ہے؟ اسلام کے وہ تصورات کہاں ہیں جو کسی بھی مسلمان پر جنگ کو تمام مسلمانوں پر جنگ قرار دیتے ہیں؟ تو ایجنٹ حکمرانوں کا طوق اتار پھینکو اور اسلام کے نفاذ کے لیے کام کرنے والے مخلصین کے ساتھ ہو جاؤ تاکہ اسلام تمہاری بدولت حکومت تک پہنچ جائے جیسے کہ اللہ چاہتا ہے اور تمہارے لیے پسند کرتا ہے، اور اسے نبوت کے نقش قدم پر قائم خلافت راشدہ قرار دو، اور تم اس کے انصار بنو تاکہ تم اس کے ساتھ مل کر مکمل فلسطین اور اسلام کی تمام مقبوضہ سرزمینوں کو آزاد کرانے کے لیے حرکت کرو اور انصار کی فضیلت اور شرف حاصل کرو۔ اے اللہ، امت کے لیے، اس کی قائد جماعت کے لیے اور اس کی تہذیبی ریاست کے منصوبے کے لیے ایسے انصار تیار فرما جو ان نظاموں کو اکھاڑ پھینکنے اور امت کی حکومت کو دوبارہ قائم کرنے پر بیعت کریں۔

 

 

﴿انِفِرُوا خِفَافاً وَّثِقَالاً وَّجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ﴾

" ہلکے یا بوجھل (دونوں صورتوں میں) نکل آؤ۔ اور اللہ کے رستے میں مال اور جان سے جہاد کرو۔ یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم سمجھو" (سورۃ التوبة: آیت 41)

ولایہ مصر میں حزب التحریر کے میڈیا آفس کے رکن

Last modified onپیر, 17 فروری 2025 20:44

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک