الخميس، 06 رمضان 1446| 2025/03/06
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

یورپ تقسیم کا شکار ہو کر زوال کی گہرائیوں میں گر رہا ہے

 

)ترجمہ (

 

تحریر: حسان ہمدان

 


یورپی یونین اس وقت اپنے قیام سے لے کر اب تک کے بدترین ادوار سے گزر  رہا ہے۔ یہ اپنے ماضی کی عالمی قیادت کی یادوں اور مستقبل میں قیادت کے سراب کے درمیان پھنسا ہوا ہے۔ یورپ بیرونی اور اندرونی دباؤ کے بوجھ تلے دبتا جا رہا ہے اور ایک گہرے گڑھے میں گر رہا ہے جس کا ثبوت خود فرانس کی جانب سے دیا گیا ہے، جو یورپی اتحاد کے بڑے حامیوں میں سے ایک ہے۔ 20 جنوری 2025 کو فرانس کے وزیر اعظم، فرانسوا بیرو، نے اعتراف کیا کہ فرانس اور یورپ کو "کچلے جانے" کا خطرہ لاحق ہے، خاص طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس واپسی کے بعد، انہوں نے کہا: "اور اگر ہم نے کچھ نہ کیا تو ہمارا مقدر بہت واضح ہے - ہم مغلوب ہو جائیں گے، ہمیں کچل دیا جائے گا، اور ہمیں بے وقعت کر دیا جائے گا۔" یورپی-امریکی تعلقات پہلے ہی ٹرمپ کی سابقہ مدت میں دو بڑے مسائل کی وجہ سے کشیدہ ہو چکے تھے:

 

1.    نیٹو کے رکن ممالک پر اپنی جی ڈی پی کا %2 فیصد دفاعی بجٹ کے لیے مختص کرنے کا دباؤ۔

 

2.    مفادات کا توازن، ادائیگیوں کے توازن میں تجارتی خسارہ، اور محصولات کی پالیسیاں۔

 

اب، ٹرمپ کی دوسری مدت ایسے وقت میں آ رہی ہے جب یورپ کو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں درجہ زیل معاملات شامل ہیں:

 

1.    روس-یوکرین جنگ اور اس کے یورپ پر پڑنے والے اثرات۔

 

2.    نیٹو اور یورپی سیکیورٹی، خاص طور پر یورپ کے دفاع اور استحکام کے لیے درکار شراکت، بیرونی خطرات—خصوصاً روس—اور ٹرمپ کی نیٹو سے ممکنہ انخلا کی دھمکیاں۔

 

3.    امریکہ کے ساتھ تجارتی تعلقات پر نئی بحث، تجارتی جنگیں، محصولات، اور بریگزٹ کے بعد یورپی یونین کی کمزوری۔

 

4.    ٹرمپ کی گرین لینڈ خریدنے کی تجویز، جس کے یورپ کے جوگرافیا، قومی سلامتی اور آرکٹک خطے میں پڑنے والے اثرات۔

 

5.    اقتصادی کمزوری، یورپی ممالک میں خسارہ اور قرضے، یورپی کمپنیوں کا امریکہ منتقل ہونا، روسی گیس کے خاتمے کے بعد ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، مارکیٹ اور امریکی پابندیوں کا خوف۔

 

6.    اسی طرح، یورپ میں انتہائی دائیں بازو کا عروج، جہاں کچھ پارٹیاں اقتدار میں آ رہی ہیں اور بعض معاملات میں ٹرمپ کے نظریے سے ہم آہنگ نظر آتی ہیں، جس کے نتیجے میں اندرونی سطح پر بحران جنم لے رہا ہے۔

 

7.    جیسا کہ پولیٹیکو نے 24 اپریل 2024 کو ذکر کیا: "ریئلٹی ٹی وی کے سابقہ اسٹار کی دوبارہ اقتدار میں واپسی نہ صرف جنگ عظیم کے بعد یورپی-امریکی تعلقات کے لیے سب سے بڑا امتحان ہوگی، بلکہ یہ یورپی اتحاد کے لیے بھی وجودی خطرہ بن سکتی ہے، کیونکہ دنیا کی سب سے طاقتور ریاست کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر پیدا ہونے والی کشیدگی یورپ کو تجارتی پالیسی، ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف جنگ، اور یورپی سرزمین کے دفاع جیسے معاملات پر تقسیم کر سکتی ہے"۔

 

یہ نکات انتہائی اہم اور قابل غور ہیں جس کی بنیاد پر یورپی یونین کے مستقبل اور اس کے سب سے نمایاں اور خطرناک مسائل کو سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، یورپی بلاک کے ممالک کے درمیان کئی دیگر پیچیدہ معاملات، بڑے مسائل اور خطرناک تقسیمات بھی موجود ہیں، جن میں چین اور روس کے ساتھ تعلقات، دو طرفہ دفاعی معاہدے، کچھ یورپی ممالک، جماعتوں اور اداروں پر امریکی اثر و رسوخ، اور سیاسی و عسکری رائے میں یکجہتی کی کمی شامل ہیں۔

 

یہ سچ ہے کہ ان میں سے ہر معاملہ اپنی اہمیت، خطرے اور اثرات کے پیش نظر ایک مستقل اور تفصیلی مطالعہ کا متقاضی ہے، لیکن ہم ان میں سے کچھ پر عمومی نظر ڈالیں گے، جن میں سب سے اہم اس وقت ٹرمپ کے اقتدار میں ہونے اور داخلی چیلنج سے متعلق ہے۔

 

یورپی وحدت کا تصور ایک خوبصورت خواب تھا، لیکن یہ کمزور بنیادوں پر استوار کیا گیا، جہاں اسے مستحکم کرنے والے عوامل سے زیادہ اس کے زوال کا سبب بننے والے عناصر موجود تھے۔ قوم پرستی اور وحدت کے انکار نے اس منصوبے کو مزید کمزور کر دیا۔

 

یورپ نے ترقی نہیں کی؛ بلکہ حقیقت میں یہ دیگر خطوں کے مقابلے میں پیچھے رہ گیا ہے، اور کچھ ممالک نے اسے مختلف شعبوں میں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ جیسے جیسے بحران میں شدت بڑھ رہی ہے، یورپی وحدت اور طاقت کے دعوے محض بےاثر آواز بنتے جا رہے ہیں، جو عملی طور پر کوئی ٹھوس بنیاد فراہم نہیں کرتے۔

 

یورپ کو درپیش سنگین خطرات کو دو بنیادی نکات میں سمیٹا جا سکتا ہے:

 

پہلا نکتہ: ٹرمپ کی زیر قیادت موجودہ امریکی انتظامیہ کی سوچ اور پالیسیوں کا اثر۔
دوسرا نکتہ: داخلی خطرات جو یورپی وحدت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

 

جہاں تک پہلے نکتے کا تعلق ہے، یہ ٹرمپ اور اس کی انتظامیہ کی موجودگی اور یورپ کے ساتھ بطور ایک متحدہ اکائی کی سطح پر برتاؤ کرنے کا مسئلہ ہے۔ "ہم ہمیشہ یہ فرض کرتے رہے کہ امریکہ ہر حال میں ہمارے ساتھ ہوگا، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ایسا نہیں ہے"۔ یہ الفاظ گائے ورہوفستاد (Guy Verhofstadt) کے ہیں، جو اس وقت یورپی پارلیمنٹ میں بریگزٹ کے چیف مذاکرات کار تھے۔ انہوں نے 26 جنوری 2017 کو نیوانٹلانٹسٹ (New Atlanticist) کو دیے گئے ایک ای میل انٹرویو میں کہا کہ "یہ تاریخ میں پہلی بار ہے کہ ایک امریکی صدر یورپی یونین کے انہدام کی حمایت کر رہا ہے"۔

 

اسی طرح، ٹرمپ کی پہلی مدت میں ہی ڈونلڈ ٹسک، جو اس وقت یورپی کونسل کے صدر اور اب پولینڈ کے وزیر اعظم ہیں، نے بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ 31 جنوری 2017 کو ایک پریس ریلیز میں انہوں نے کہا: "متحد رہیں گے تو قائم رہیں گے، بٹ گئے تو بکھر جائیں گے"۔ انہوں نے یہ بھی بیان دیا کہ "ٹرمپ کا امریکہ اب یورپی یونین کے خلاف دشمنی کے لحاظ سے روس، چین اور نام نہاد 'بنیاد پرست اسلام' کے برابر آ چکا ہے" اور مزید کہا: "چین کی بڑھتی ہوئی جارحیت، خاص طور پر سمندری حدود میں، روس کی یوکرین اور اس کے پڑوسی ممالک کے خلاف سخت رویہ، مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں جاری جنگیں، دہشت گردی اور بدامنی، جن میں انتہا پسند اسلام کو اہم عنصر سمجھا جا رہا ہے، اور نئی امریکی حکومت کے غیر واضح بیانات، ہمارے مستقبل کو غیر یقینی بنا رہے ہیں"۔

 

ٹرمپ یورپی یونین کو اپنی ریاست کے لیے کوئی شراکت دار نہیں سمجھتا بلکہ وہ ہر ملک سے الگ الگ نمٹنا چاہتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یورپی یونین ایک ایسی اقتصادی قوت ہے جسے کمزور نہیں سمجھا جا سکتا، چاہے وہ پہلے جتنی مضبوط نہ بھی رہی ہو۔ ایک بڑی اقتصادی قوت کے ساتھ مذاکرات کرنا یورپ کو تجارتی اور معاشی معاملات میں مزید مضبوط بنا دیتا ہے، جبکہ انفرادی ممالک سے علیحدہ مذاکرات کرنا امریکہ کے حق میں زیادہ فائدہ مند ہوگا۔

 

یہی فلسفہ ٹرمپ کی حکمت عملی کا بنیادی نکتہ ہے، اور حقیقت میں یہ ایک درست حکمت عملی ہے، خاص طور پر جب وہ یورپی اتحاد کی کمزوریوں اور اندرونی خطرات کا فائدہ اٹھا رہا ہے، جن میں سب سے پہلا اور بڑا دھچکا بریگزٹ تھا۔ ٹرمپ نے برطانیہ کو یورپی یونین سے نکلنے کی ترغیب دی اور بعد میں اسے مختلف وعدے بھی کیے۔

 

برطانیہ کا یورپی یونین سے اخراج ہر لحاظ سے ایک تباہ کن قدم تھا، جو یورپی یونین کی بین الاقوامی حیثیت کے لیے ایک شدید دھچکا ثابت ہوا۔ اس نے یورپی معاشی فیصلے کی طاقت اور عالمی سطح پر دیگر طاقتوں کے ساتھ مسابقت کی صلاحیت کو کمزور کر دیا۔

 

ٹرمپ نے یہ عزم کیا ہے کہ وہ تجارتی خسارے کو کم کرنے اور امریکی صنعتوں کو غیر ملکی مصنوعات سے ہونے والے مقابلے سے بچانے کے لیے محصولات اور ٹیکس عائد کرے گا۔ توقع ہے کہ یورپی برآمدات پر یہ محصولات %10 فیصد تک پہنچ جائیں گی۔

 

جہاں تک یورپی سلامتی کا تعلق ہے، ٹرمپ کی دھمکیوں نے ایک بہت سنجیدہ منفی رخ اختیار کر لیا ہے، کیونکہ یورپ کے پاس کوئی مشترکہ دفاعی یونٹ نہیں ہے، جس کی وجہ سے اجتماعی سیکیورٹی کے بجائے انفرادی اور دوطرفہ دفاعی منصوبوں کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے، جو پورے براعظم کی مجموعی سلامتی کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

 

گرین لینڈ کے معاملے پر، 8 جنوری 2025 کو فرانس کے وزیر خارجہ جین-نوئل باروٹ نے کہا کہ انہیں یقین نہیں کہ امریکہ اس وسیع و عریض آرکٹک جزیرے پر حملہ کرے گا، جو 600 سال سے ڈنمارک کا حصہ ہے۔ انہوں نے فرانس انٹر ریڈیو کو بتایا: "یہ ناقابل تصور ہے کہ یورپی یونین دنیا کی کسی بھی قوم کو اپنی خودمختار سرحدوں پر حملہ کرنے دے، خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ ہم ایک طاقتور براعظم ہیں"۔

 

جہاں تک دوسرے نکتے کا تعلق ہے، تو یہ دائیں بازو کی مقبول عوامی تحریکوں کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ ہے، جن کی مقبولیت جرمنی، فرانس، اٹلی، پولینڈ اور نیدرلینڈز میں بڑھ رہی ہے۔ درحقیقت، اس دائیں بازو کے کئی رہنما اقتدار میں آ چکے ہیں اور ٹرمپ کے یورپی یونین سے علیحدگی کے نظریے کی حمایت کر رہے ہیں، اس کے علاوہ ان کا داخلی اور خارجی معاملات پر سیاسی نقطہ نظر بھی یورپی یونین کے روایتی رجحانات سے بالکل مختلف ہے۔

 

جرمنی کا سرحدی کنٹرول دوبارہ نافذ کرنے کا فیصلہ یورپی یونین کی وحدت اور باہمی تعاون کو نقصان پہنچا سکتا ہے، جیسا کہ ایک سینئر مہاجرین کے امور کے ماہر نے خبردار کیا ہے۔ برلن میں قائم تھنک ٹینک "European Stability Initiative" (ESI) کے شریک بانی جیرالڈ کناؤس نے 16 ستمبر 2024 کو اناطولیہ نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا، "موجودہ حکمت عملی یکجہتی کی طرف نہیں لے جا رہی، نہ ہی اس سے کنٹرول میں بہتری آ رہی ہے"۔ انہوں نے مزید کہا، "یہ ان کامیابیوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے جو حاصل کی گئی ہیں، خاص طور پر دنیا کے سب سے بڑے سرحدی آزادی کے علاقے، یعنی یورپی یونین کے شینگن زون، کے حوالے سے"۔

 

اسی حوالے سے، برلن کے سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر فرانز ہرمن نے اسکائی نیوز عربیہ سے بات کرتے ہوئے کہا، "یہ اقدامات بڑھتے ہوئے مہاجرین کے بہاؤ اور سلامتی پر کمزور کنٹرول کے خوف کی عکاسی کرتے ہیں، جو کہ یورپی خواب کے خاتمے کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ سرحدی کنٹرول دوبارہ نافذ کرنا یورپی یونین کے اندر وسیع پیمانے پر ٹوٹ پھوٹ کا آغاز ثابت ہو سکتا ہے، جو دہائیوں میں حاصل کی گئی کامیابیوں کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ مختلف بحرانوں نے عوامی بےچینی میں اضافہ کیا ہے اور قوم پرستی کو تقویت دی ہے، جس سے یورپی یونین کی اجتماعی طور پر چیلنجوں کا سامنا کرنے کی صلاحیت کمزور ہو رہی ہے"۔

 

یہ پالیسیاں واضح کرتی ہیں کہ یورپی اتحاد کے منصوبے کے لیے دائیں بازو کے انتہا پسندوں کا عروج کس قدر خطرناک ہے۔ 25 ستمبر 2024 کو اپنے مضمون "باربی لینڈ میں خوش آمدید: جنگوں اور انتخابات کے سال میں یورپی جذبات" میں، یورپی کونسل برائے خارجہ تعلقات کے عوامی رائے کے ماہر پاول زیرکا نے وضاحت کی کہ دائیں بازو کی طرف جھکاؤ یورپی یونین کی سالمیت سے متعلق پالیسیوں پر کیسے اثر ڈال سکتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں، "غیر ملکیوں کے خلاف نفرت انگیز زبان اور پالیسی اب صرف یورپی یونین مخالف سیاستدانوں تک محدود نہیں رہی، بلکہ یہ مرکزی دھارے کی سیاست میں بھی سرایت کر چکی ہے۔... یورپی یونین کے 27 رکن ممالک میں سے 10 میں صرف ایک اقلیت یہ سمجھتی ہے کہ ان کے ملک کے مفادات کو یورپی یونین میں مناسب اہمیت دی جاتی ہے۔... مشرقی اور وسطی یورپ میں دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتیں اور غیر جمہوری عوامی تحریکیں خلا میں کام نہیں کر رہیں، بلکہ ان کا بڑھتا ہوا اعتماد عوامی مطالبے کا اظہار ہے؛ اور اب مرکزی دھارے کی سیاست بھی انہی جذبات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے... یہ بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ یورپی یونین میں غیرملکیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تعصب کی وجہ سے کچھ نوجوان یورپی منصوبے سے بالکل ہی دور ہو سکتے ہیں، جبکہ دوسرے نوجوان 'نسلی' بنیادوں پر یورپی شناخت کو معمول سمجھنے لگیں گے، اور اس طرح وہ دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتوں کو ووٹ دینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے"۔

 

اختتامیہ: یہ معاملات دو طاقتوں کے درمیان شدید کشمکش کو ظاہر کرتے ہیں۔ ایک طرف امریکہ ہے، جو انتہائی متکبر ہے اور صرف اپنے مفادات کو ترجیح دیتا ہے، چاہے اس کی قیمت اس کے قریبی اتحادیوں کو ہی کیوں نہ چکانی پڑے۔ دوسری طرف اس کا حریف، یورپ، ہے جو زخموں، اندرونی کمزوریوں اور سیاسی بصیرت کے فقدان کا شکار ہے، جس کی بنیادی وجہ کرپٹ اور کمزور حکمرانوں اور سیاسی طبقے کی موجودگی ہے۔ اسی رائے کی تصدیق میں، برنڈ ریگرٹ نے 23 مارچ 2022 کو ڈوئچے ویلے میں اپنے مضمون "یورپی یونین کی دفاع کو مضبوط بنانے کی کوشش" میں لکھا، "یہ ایک بار پھر یورپی یونین کے سیاستدانوں اور پالیسی سازوں پر واضح ہو گیا ہے کہ یورپ کا دفاع صرف نیٹو کی مدد سے ممکن ہے، یعنی امریکہ کے اتحادیوں کے ساتھ۔ یہی وجہ ہے کہ یورپی یونین کا "اسٹریٹجک کمپاس" کسی طور پر نیٹو اتحاد کا متبادل نہیں ہے، جیسا کہ یورپی پارلیمنٹ میں کرسچن ڈیموکریٹک یونین گروپ کے رکن اور خارجہ پالیسی کے ماہر، مائیکل گاہلر نے کہا، 'اجتماعی دفاع مستقبل قریب میں نیٹو کے ساتھ ہی جاری رہے گا'

 

شاید یہ امریکہ کے بانی رہنماؤں کی سب سے بڑی چالاکیوں میں سے ایک ہے کہ انہوں نے یورپ کو دوسری جنگ عظیم کے بعد دو فولادی زنجیروں میں جکڑ دیا: نیٹو کا سایہ اور مارشل پلان، تاکہ یورپ ہمیشہ امریکی مرضی کے تابع رہے، اور وہ ذلت، دباؤ اور غلامی کا وہی کڑوا گھونٹ پیئے، جو اس نے باقی دنیا کے عوام کو چکھایا تھا۔

 

Last modified onمنگل, 04 مارچ 2025 23:59

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک