بسم الله الرحمن الرحيم
شامی حکومت کے باقیات اور نسلی اقلیتوں کے مسائل کا حل صرف اسلامی شریعت کے نفاذ میں مضمر ہے
(ترجمہ)
6 مارچ 2025 کو، ایک اچانک اقدام کے تحت، سابق شامی حکومت کے باقیات کے بڑے گروہوں نے پولیس اور سیکیورٹی ہیڈکوارٹر پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک ہو گئے۔ اسی دوران، نئے شامی فوجی دستوں کو نشانہ بنانے کے لیے گھات لگا کر حملے کیے گئے، جن میں سینکڑوں افراد شہید اور زخمی ہوئے۔ یہ حملے دارالحکومت دمشق میں بھی کیے گئے، خاص طور پر مزہ کے علاقے میں، جہاں پہلے شامی فوج، نیشنل ڈیفنس فورسز، اور شبیحہ ملیشیا کے مراکز ہوا کرتے تھے۔ مزید برآں، شامی ڈیموکریٹک فورسز (SDF) کے عناصر نے شمالی حلب میں اپنی موجودگی کو وسعت دینے کی کوشش کی۔ اسی دوران، شامی ساحلی علاقے بھی نئی شامی انتظامیہ کے کنٹرول سے نکلنے کے قریب پہنچ چکے تھے۔ تاہم، انقلابی قوتوں کے ہزاروں مجاہدین، جو ادلب اور حلب کے دیہی علاقوں میں موجود تھے، اللاذقیہ، طرطوس، جبلة اور قرداحة کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے پہنچ گئے، دوبارہ کنٹرول حاصل کیا، اور سینکڑوں باقیات کو ہلاک یا گرفتار کر لیا۔
اس پیچیدہ صورتِ حال میں، شمال مشرقی شام اب بھی شامی ڈیموکریٹک فورسز (SDF) کے کنٹرول میں ہے، جبکہ صوبہ سویداء نئی انتظامیہ کے خلاف سیاسی بغاوت کی ایک شکل اختیار کیے ہوئے ہے اور ریاست کے سیاسی و عسکری ڈھانچے میں ضم ہونے سے انکاری ہے۔
اس کے علاوہ، یہودی افواج قنیطرہ صوبے میں مسلسل پیش قدمی کر رہی ہیں، یہاں تک کہ انہوں نے درعا کے دیہی علاقوں کے کچھ حصوں پر قبضہ کر لیا ہے اور جبل الشیخ (Hermon) پر فوجی اڈے قائم کر لیے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ ان کی موجودگی طویل المدت ہوگی، کیونکہ ان کی حکومت شام میں ہونے والی پیش رفت کو ایک "سنگین خطرہ" سمجھتی ہے اور اسے اس امکان کا خدشہ ہے کہ دمشق ایک دن اس پر حملہ کر سکتا ہے۔ انہوں نے کھل کر کہا کہ وہ حیات تحریر الشام (HTS) پر اعتماد نہیں کرتے، جس نے اسد حکومت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور جو 2016 میں القاعدہ سے تعلق ختم کرنے سے پہلے اس سے وابستہ تھی۔ یہودی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا کہ ان کا وجود حیات تحریر الشام یا نئی انتظامیہ سے منسلک کسی بھی قوت کو جنوبی شام میں برداشت نہیں کرے گا اور اس علاقے کو غیر مسلح کرنے کا مطالبہ کیا۔.
ان حالات کے پیش نظر، ان مسائل، خصوصاً باقیات (remnants) اور ان کے فوری خطرے سے نمٹنے کا بہترین طریقہ کیا ہو سکتا ہے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ آزادی (تحریر) کے فوراً بعد اس مسئلے سے کمزور حکمتِ عملی کے ساتھ نمٹنا—یعنی 'جاؤ، تم آزاد ہو' کی پالیسی اپنانا، انہیں نرمی برتنا، عام معافی دینا، اور ان کے معاملات کو طے کرنے کی کوشش کرنا—وہ بنیادی غلطی تھی جس نے انہیں منظم ہونے اور جوابی حملے کی جرأت دی۔ ساحلی علاقے پر اس حملے کا مقصد ایک آزاد خطہ قائم کرنا تھا، جو ان علاقوں سے مشابہت رکھتا ہے جو فی الوقت شامی ڈیموکریٹک فورسز (SDF ) اور دروز کے کنٹرول میں ہیں، جہاں علیحدگی پسند اقدامات جاری ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ بیرونی قوتیں ان کی پشت پناہی کر رہی ہوں تاکہ شام میں عدم استحکام پیدا کیا جا سکے اور فرقہ وارانہ نظام کو ازسرِنو تشکیل دینے کی کوشش کی جا سکے۔
درست طریقہ یہ ہے کہ باقیات کے مسئلے سے سختی سے نمٹا جائے۔ جرائم کے سرغنوں کو گرفتار کر کے فوری اور عبرتناک سزائیں دی جائیں، تاکہ دوسروں کے لیے نشانِ عبرت بنے۔ ساتھ ہی، ان سے زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کی جائیں، تاکہ باقی ماندہ عناصر کا بھی مکمل تعاقب کیا جا سکے۔
سابقہ سیکیورٹی، عسکری اور سیاسی ڈھانچے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور اس کے بدترین مجرموں کو کٹہرے میں لانے کی پالیسی ہی ان مجرموں کے خلاف واحد مؤثر حکمت عملی ہے، جنہوں نے چودہ سال تک مسلمانوں کا خون بہایا، ان کی عزتوں کو پامال کیا، اور نہتے شہریوں، بشمول خواتین اور بچوں، پر ہر قسم کے وحشیانہ اور سفاکانہ ہتھکنڈے آزمائے۔
ان باقیات کا خطرہ اب بھی برقرار ہے۔ اگرچہ نئی حکومت نے ساحلی شہروں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا ہے، مگر ساحلی دیہات اور پہاڑی علاقوں میں ہزاروں جنگجو اور مجرم رہنما اب بھی موجود ہیں، جو دشوار گزار علاقوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ نئی انتظامیہ کو اس خطرے کا فوری سدباب کرنا ہوگا اور انہیں کسی طور محفوظ رہنے کا موقع نہیں دینا چاہیے، کیونکہ وہ مستقبل میں یقیناً نئے حملوں کی منصوبہ بندی کریں گے۔
جہاں تک شامی جمہوری افواج (SDF) کے معاملے کا تعلق ہے، تو ان کے سربراہ، مظلوم عبدی، دمشق پہنچے اور صدر احمد الشراء کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے، جس کے تحت SDF کو نئی حکومت میں ضم کرنے کے لیے نو ماہ کی مدت مقرر کی گئی، جو 2025 کے آخر تک مکمل ہوگی۔ یہ معاہدہ درحقیقت علیحدگی پسندی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ نہیں، بلکہ صرف وقتی طور پر حالات کو ٹھنڈا کرنے اور انقلابی دھڑوں کی جانب سے SDF کے زیرِ کنٹرول علاقوں پر ممکنہ حملے کو روکنے کے لیے کیا گیا، جیسا کہ ساحلی علاقے میں ہوا تھا۔
سب سے سنگین سیاسی غلطی، جس کے مستقبل میں خطرناک نتائج برآمد ہوں گے اور جو SDF اور دیگر علیحدگی پسند عناصر کے لیے فرقہ وارانہ خودمختار علاقے بنانے کی راہ ہموار کرے گی، وہ ان کے ساتھ نرمی برتنا اور انہیں برابر کا درجہ دینا ہے، جیسا کہ شام کے عوام کے خلاف سازشیں کرنے والی ریاستوں کی ہدایات کے مطابق کیا جا رہا ہے۔ انہیں ہرگز برابر کا درجہ نہیں دینا چاہیے، نہ ہی ایسے کمزور معاہدے کیے جائیں جو انہیں نئی حکومت کے خلاف بغاوت اور بقا کا موقع فراہم کریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ کا دباؤ اس مسئلے کے عسکری حل کی راہ میں رکاوٹ ہے، جسے نئی حکومت کو کسی بھی قیمت پر عبور کرنا ہوگا اور کسی بھی بیرونی دباؤ کے آگے جھکنے سے مکمل اجتناب کرنا ہوگا۔
جہاں تک سویڈاء کے مسئلے کا تعلق ہے، تو اسے بھی عسکری طور پر حل کرنا ناگزیر ہے، اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ہزاروں مجاہدین جنگی کارروائیوں میں حصہ لینے کے لیے تیار ہیں اور تمام باغی علاقوں کو ریاست کے دائرہ اختیار میں لایا جا سکتا ہے۔ مزید برآں، عوامی سطح پر بھی یہ حمایت موجود ہے کہ باقیات اور علیحدگی پسند عناصر کو ریاست کے کنٹرول میں لایا جائے۔
باقیات اور دیگر عناصر کے ساتھ معاملہ اسلامی بنیادوں پر مضبوطی اور استقامت کے ساتھ کیا جانا چاہیے، یعنی اسلامی عقیدہ ہی آئین اور قانون کا واحد ماخذ ہو، اور فرقوں اور اقلیتوں کے ساتھ شریعت کے احکام کے مطابق معاملہ کیا جائے، جو ان کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے اور ان پر عائد شرعی ذمہ داریوں کو واضح کرتا ہے۔
اسلامی شریعت کے احکام کو مضبوطی اور سختی سے نافذ کرنا، تاکہ لوگ اسلامی نظام کے عدل اور اس کی حکمرانی کی طاقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں، ہی وہ واحد راستہ ہے جو نسلی اور فرقہ وارانہ مسائل کا حقیقی اور دیرپا حل فراہم کرتا ہے۔ دوسری طرف، غیر اسلامی (کفریہ) نظاموں کا نفاذ اور سازشی قوتوں کے مطالبات کے آگے جھکنا، صرف بحرانوں کو مزید گہرا کرے گا اور اہلِ شام کے لیے ایک عظیم خطرہ بنے گا۔
ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ کی بہترین اور مثالی سنت موجود ہے، جنہوں نے قریش کے بعض مجرموں کے ساتھ سخت معاملہ کیا اور حکم دیا کہ اگر وہ کعبہ کے غلاف سے بھی لپٹے ہوں تب بھی انہیں قتل کیا جائے۔ اسی طرح، آپ ﷺ کا بنو قریظہ کے ساتھ معاملہ، اور ان کے بڑے پیمانے پر کی گئی غداری کے نتیجے میں ان کے مردوں کی سزاۓ موت کا حکم، ہمارے لیے ایک واضح دلیل ہے کہ اسلامی ریاست کی حفاظت اور اس کے استحکام کے لیے دشمن عناصر سے سختی سے نمٹنا لازم ہوتا ہے۔
شام کو ایک صالح اسلامی نظام اور ایک مضبوط قیادت کی ضرورت ہے، جو امت کو کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ کے مطابق حکمرانی فراہم کرے، جو کسی بھی بیرونی دباؤ کے سامنے نہ جھکے بلکہ تمام کافرانہ طاقتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرے، اللہ کی مدد کا طلبگار ہو، اور اللہ کی زمین پر صرف اس کے دین کو غالب کرنے کے لیے مخلصانہ جدوجہد کرے۔ اور شاید وہ وقت قریب ہی ہو!
تحریر: استاذ احمد السورانی