بسم الله الرحمن الرحيم
ٹرمپ اور خلیجی ممالک: مشتبہ سودے اور منظم سازشیں
(ترجمہ)
ٹرمپ نے جب وائٹ ہاؤس کا چارج سنبھالا، تو وہ ایک بہت بڑے قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا تھا — ایسا قرض جس کے کچھ حصہ کی ادائیگی کی استطاعت بھی کسی انتظامیہ کے پاس نہ تھی، یہاں تک کہ ان پر لگنے والے سود کی ادائیگی بھی ممکن نہ تھی۔ یہ قرض ہمالیہ اور ایورسٹ جیسی چوٹیوں کی بلندیوں کو چھو رہا ہے، اور اس کے حل کے لئے کوئی مؤثر عملی منصوبہ موجود نہیں ہے۔ ٹرمپ نے آتے ہی اقتصادی زوال کو روکنے اور اُس کساد بازاری سے بچنے کی کوشش کی جس کی پیش گوئی کئی ماہرین کر چکے تھے۔ اس مقصد کے لئے اس نے اپنے اتحادیوں اور حریف ممالک سب پر تجارتی محصولات (ٹیکس) عائد کرنے جیسے سخت اقدامات کئے۔
اور جب ٹرمپ کو درپیش اس چیلنج میں چین کی ٹیکنالوجی کی برتری کو بھی شامل کر دیا جائے — خاص طور پر ایسے وقت میں جب ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت عالمی قیادت کا تعین کر رہے ہیں — اور اس کے ساتھ ہی تجارتی و صنعتی میدان میں چین کی امریکہ پر سبقت، تو یہ سب چیزیں اس امر کی علامت ہیں کہ مغربی تہذیب کا ستارہ ماند پڑ چکا ہے۔ نام نہاد ”آزاد دنیا“ اور امریکی زیرِ قیادت آزاد منڈی (فری مارکیٹ) کا سورج غروب ہونے والا ہے۔ یہی وہ چیلنجز ہیں جس نے ٹرمپ اور امریکی پالیسی سازوں کو مجبور کیا کہ وہ جارحانہ ٹیرف عائد کرنے کی حکمت عملی اپنائیں۔
تاہم، اس پالیسی کے عالمی جھٹکے اتنے شدید تھے کہ اس کا الٹا اثر خود امریکی معیشت پر پڑا۔ اس سے امریکی منڈیاں اور اسٹاک ایکسچینج متاثر ہوئیں، قیمتیں بڑھ گئیں، مہنگائی میں اضافہ ہوا، اور دیگر کئی منفی اثرات سامنے آئے۔ چنانچہ ٹرمپ نے پرانے ’کاؤ بوائے‘ انداز کو اپنا لیا — جیسے ٹرینوں، بینکوں اور دکانوں کو لوٹنا — اور خلیجی ریاستوں کا رخ کیا تاکہ ان کے خزانے لوٹے جا سکیں۔ اور وہ ان ریاستوں کا سونا اپنے کاندھوں پر لاد کر واپس آیا، جہاں سرمایہ دارانہ نظام کے چالیس چور وال اسٹریٹ اور مختلف امریکی جوا خانوں جیسے اسٹاک ایکسچینج اور قیاسی منڈیوں میں اُس کا انتظار کر رہے تھے، جنہیں وہ ’کارپوریشنز‘ کہتے ہیں۔ یہ وہی کارپوریشنز ہیں جن کے دیوالیہ ہونے کا اعلان محض ملتوی کر دیا گیا ہے۔
ٹرمپ، جو مغربی طرزِ سیاست میں 'کاؤبوائے' کی حیثیت رکھتا ہے، اس نے یہودی وجود کا دورہ کرنے سے گریز کیا اور اسے غزہ کے مظلوم عوام پر ظلم ڈھانے کی کھلی چھوٹ دے دی، اس سے ٹرمپ کا منافقانہ رویہ ظاہر ہوتاہے۔ اس کا یہ رویہ مسلم دنیا اور اس کے جائز موقف سے متعلق اُس کی نیت پر گہرے شکوک و شبہات ڈال دیتا ہے، چاہے وہ بظاہر ”اسرائیلی“ وزیرِاعظم نیتن یاہو پر تنقید ہی کیوں نہ کرے۔ بعض مبصرین کا ماننا ہے کہ ٹرمپ دوہری حکمت عملی پر عمل کر رہا ہے: ایک طرف خلیجی ممالک کا استحصال، اور دوسری طرف امریکہ کے اندر اُن ووٹرز کی حمایت حاصل کرنا جو ”اسرائیلی“ پالیسیوں کے لئے اہم ہیں۔
یہ حکمتِ عملی ٹرمپ کو ایک ”غیر جانبدار ثالث“ کے طور پر پیش کرتی ہے جو نیتن یاہو پر اثرانداز ہو سکتا ہے، اور اس طرح خلیجی حکمرانوں کو ایک نام نہاد ”ایماندار دلال“ یعنی ٹرمپ کے ساتھ تعاون کے بہانے اُمّت کے وسائل کو ضائع کرنے کا جواز فراہم کرتی ہے۔ ایسی ڈرامائی چالوں سے بڑے پیمانے پر تجارتی معاہدے اور سرمایہ کاری کے دروازے کھلتے ہیں، جبکہ نیتن یاہو پر تنقید کے ذریعے اُن امریکی ووٹروں کو راغب کیا جاتا ہے جو ”اسرائیلی“ پالیسیوں، خاص طور پر فلسطینی مسئلے پر اختلاف رکھتے ہیں۔ اور اسی دوران، یہ چال سیاسی طور پر نابالغ افراد کو دھوکہ میں رکھتی ہے اور اُن سودوں کی راہ ہموار کرتی ہے جو فلسطینی قضیے کو ختم کرنے، اور لاکھوں شہداء کے خون سے غداری کے مترادف ہیں۔
یہ سطحی توازن کا اقدام دراصل ٹرمپ کے سیاسی اور معاشی مفادات کو سہارا دینے کا ایک حربہ ہے۔ اس سے خلیجی ممالک سے دولت کی مسلسل فراہمی بھی یقینی بنتی ہے، اور ساتھ ہی ٹرمپ کے لئے اس کے اپنے ملک میں مقبولیت برقرار رکھنے کا موقع بھی ملتا ہے۔ اور اس سے ٹرمپ کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ خود کو ایک ایسا ”حل فراہم کرنے والا“ بنا کر پیش کرے جو یہودی وجود کو غزہ کی دلدل سے نکال سکتا ہے — یوں وہ غزہ کے قبضے کو خود ایک ”غیر جانبدار ثالث“ کے طور پر سنبھالنے کی پوزیشن میں آ رہا ہے، اور ممکنہ طور پر غزہ کے لئے ایک ”سخت گیر“ منتظم کو دوبارہ متعارف کرانے کا راستہ ہموار کر رہا ہے۔
تاہم، ٹرمپ اور نیتن یاہو کے درمیان اس بظاہر اختلاف کی نیت پر شکوک و شبہات بدستور قائم ہیں۔دونوں فریقین کے درمیان تاریخی تعلقات، اور امریکہ اور مسلم دنیا کے عین قلب میں واقع اس کے فوجی اڈے ”اسرائیل“ کے درمیان اسٹریٹجک اتحاد، ایک گہرے اور پائیدار شراکت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ٹرمپ کی تنقیدیں محض عارضی سیاسی چالیں ہیں جو جلد ہی پلٹ جائیں گی، جب وہ قطر کی کٹھ پتلی ریاست کی جانب سے تحفے میں ملے 40 کروڑ ڈالر سے زیادہ مالیت کی سونے کی ”سواری“ پر سوار ہو کر امریکہ واپس پہنچے گا، تو وہ یہودی وجود اور نیتن یاہو کی مکمل حمایت پر لوٹ آئے گا اور اس وقت وہ خلیج کے ایجنٹ حکمرانوں، اور ان عرب و مسلم کمانڈرز کو یکسر نظر انداز کر دے گا جو درحقیقت امت مسلمہ اور فلسطین کے خلاف سازشوں میں ملوث ہیں۔
امتِ مسلمہ، جو اپنی دوراندیشی اور حکمت کے لئے معروف ہے، اسے اس امریکی مکار بھیڑئیے، ٹرمپ کے فریب میں ہرگز نہیں آنا چاہیے۔ امتِ مسلمہ کو چاہیے کہ وہ مزید سازشوں کا شکار ہونے سے خود کو بچائے اور یہ پہچان لے کہ اس امت پر مسلط ایجنٹ حکمران ہی ہیں جو وہ ناپاک پل بنا رہے ہیں، جس پر چل کر ٹرمپ امتِ مسلمہ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ امت کے اہلِ نصرۃ (مادی مدد)، اہلِ قوت و طاقت پر لازم ہے کہ ان ایجنٹ حکمرانوں کو اکھاڑ پھینکیں اور ایک خلیفۂ راشد کو مقرر کریں جو امریکی کاؤبوائے سے لوٹا ہوا مال واپس لے گا، مسجدِ اقصیٰ کو آزاد کرائے گا، اور ان ظالموں سے بدلہ لے گا جنہوں نے ہمارے بیٹوں کو شہید کیا، ہمارے گھروں کو مسمار کیا، اور ہمارے مقدسات کو پامال کیا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے،
﴿وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ وَسَتُرَدُّونَ إِلَى عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ﴾
”کہہ دیجئے کہ تم عمل کئے جاؤ تمہارے عمل اللہ خود دیکھ لے گا اور اس کا رسول اور ایمان والے (بھی دیکھ لیں گے) اور ضرور تم کو اس کے پاس جانا ہے جو تمام چھپی اور کھلی چیزوں کا جاننے والا ہے۔ سو وه تم کو تمہارا سب کیا ہوا بتلا دے گا“۔ (سورۃ التوبہ؛9:105)
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لئے لکھا گیا – بلال المہاجر
پاکستان (پاک سرزمین)