اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسول اللہﷺ کے لئے قربانی دینا نمایاں
بسم الله الرحمن الرحيم
اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسول اللہﷺ کے لئے قربانی دینا
تحریر: مصعب عمیر
آج کے دور میں نبوت کے طریقے پر خلافت کے دوبارہ قیام کی جدوجہد کی راہ میں قربانیاں دینے کی مثالیں کم نہیں بلکہ پوری مسلم دنیا میں اس کی جگہ جگہ مثالیں ملتی ہیں۔ گزری دہائیوں میں کئی لوگوں نے عظیم قربانی دیں ہیں یہاں تک کہ جابروں کے ہاتھوں شہادت تک کو قبول کیا گیا۔ یہ وہ قربانیاں ہیں جو ا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مدد سے اس امت کو آگے لے کر گئی ہیں۔ یہ وہ قربانیاں ہیں جنہوں نے امت کو اس قابل بنادیا ہے کہ اب کسی بھی وقت دنیا کے سٹیج پر امت وسط کے طور پر ظاہر ہوا چاہتی ہے جو تمام انسانیت پر گواہ بنائی جائے گی۔ یقیناً ان قربانیوں کے ذریعے وہ تبدیلی انشاء اللہ زیادہ دور نہیں اور آیا ہی چاہتی ہےجس کی ہم شدید خواہش رکھتے ہیں اور اس تبدیلی کے آنے کو وہ بھی محسوس کررہے ہیں جو اسلام کی دعوت اور اس کی جدوجہد میں براہ راست شامل نہیں ہیں۔
یہ عظیم قربانی وہی دیتا ہے جو جابر کے ظلم کا سامنا کرتے ہوئے ناتو اپنی دنیاوی زندگی اور نا ہی اپنے پیاروں اور دولت کے متعلق سوچتا ہے ۔ اور جب جابر ایسی عظیم استقامت اور قربانی کا سامنا کرتے ہیں تو ان کے پاس کوئی راہ نہیں بچتی، نہ دھمکی اور نہ ہی لالچ دینا ان کےکسی کام آتا ہے۔ یقیناً جابروں کے پاس ایسے شخص کے خلاف کون سا حربہ ہوسکتا ہے جو مضبوطی سے اپنی نگاہیں جنت پر ٹکا ئے ہوئے ہوتا ہے اور وہ ان جابروں کو اپنی منزل تک پہنچنے کی راہ میں حائل رکاوٹ سمجھتا ہے؟ ایسے ایمان والا جابروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا ہے اور پوچھتا ہے کہ بتاؤ اب تمہارے پاس کوئی حربہ باقی بچا ہے؟ یہ وہ شخص ہوتا ہے جو جابروں کو اس حد تک بے بس کردیتا ہے کہ وہ شدید مایوسی اور ناامیدی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ وہ شخص ہوتا ہے جو جابروں کو اپنے طریقہ کار کے حوالے سے شک میں مبتلا کر کے بار بار انہیں اپنے حربوں کی افادیت پر غور کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ یہ وہ شخص ہوتا ہے جو ظالم حکمرانوں کا احتساب کرنے کے اہم اور افضل ترین کام کو بہترین طریقے سے ادا کرتا ہے۔ یہ وہ شخص ہوتا ہے جو جابروں کے لئے اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ ان کا ظلم و ستم ، جھوٹ اور خوف کبھی حق کی طاقتور آواز پر غالب نہیں آسکتا کیونکہ یہ وہ آواز ہے جس نے ایک شخص کو عظیم قربانی دینے کے لئے تیار کردیا۔
مسلمان ایسی عظیم قربانیوں سے بہت متاثر ہوتے ہیں ۔ یہ قربانیاں تھکے جسموں کو تروتازں کردیتی ہیں، مایوسی کو اتار پھینکتی ہیں اور بھر پور جدوجہد کرنے پر ابھارتی ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ ہمارے لیے کافی نہیں کیونکہ ہم بھی اسی جنت کے طلب گار ہیں۔ لہٰذا ہمیں بھی ہماری موجودہ صورتحال سے قطع نظر اس عظیم قربانی کے لئے خود کو تیار کرنا ہے اور سنجیدگی سے ویسا ہی شخص بننے کی کوشش کرنی ہے جو کامیابی کی راہ میں آنے والی تمام مشکلات و مصائب کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایسی عظیم قربانی دینے کے لئے تیار اسی وقت ہوا جاسکتا ہے جب اس بات پر کامل یقین ہو کہ صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ ہی اس دنیا اور اس میں موجود تمام چیزوں سے بڑھ کر محبت کیے جانے کے لائق ہیں ۔ یہ وہ یقین ہے جو ایمان والوں کو اپنے تمام دنیاوی مفادات اور تعلقات کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ پرقربان کرنے کے لئے تیار کردیتا ہے اور وہ صرف اور صرف انہیں ہی اپنا مرکز نگاہ بنا دیتا ہے۔ یہ وہ بات ہے جس کے متعلق اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں،
قُلْ إِنْ كَانَ آَبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ
"کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور بیٹے اور بھائی اور عورتیں اور خاندان کے آدمی اور مال جو تم کماتے ہو اور تجارت جس کے بند ہوجانے سے ڈرتے ہو اور مکانات جن کو تم پسند کرتے ہو، اللہ اور رسول سے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ عزیز ہوں تو (جہاد سے بچ کر گھروں میں)ٹہرے رہو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم(یعنی عذاب) بھیجے اور اللہ نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا"(التوبۃ:24)۔
یہ ہے وہ قربانی دینے کی شدید خواہش جو اس امت کو یہ صلاحیت دیتی ہےکہ وہ تمام انسانیت پر گواہ بنے اور اسلام کے پیغام کو دعوت و جہاد کے ذریعے پُر اثر طریقے سے پہنچائے۔ یہ ہے وہ قربانی دینے کی شدید خواہش جس نے خلفہ راشدین کو اس قابل کیا کہ وہ ظالم وجابر فارس و رومی سلطنتوں کو گرا کر وسیع علاقوں کواسلام کی دعوت کے لئے کھول دیا۔
یہ ہے وہ قربانی دینے کی شدید خواہش جس نے اسلامی خلافت کو اس قابل بنایا کہ وہ کئی صدیوں تک دنیا کی صف اول کی ریاست اور روشنی کا میناربنی رہی۔ لہٰذا مسلمان وہ نہیں ہوتا جو صرف اپنے بچوں کی پرورش کرنے کو ہی کافی سمجھتا ہے۔ مسلمان وہ ہے جو اپنے دین کی خدمت میں لگا رہتا ہے، ظلم کا خاتمہ کرتا ہے، ظالم کے ظلم کا انکار کرتا ہے اور دنیا کے تمام نظام ہائے حیات کے مقابلے میں حق کے کلمے کو بلند کرتا ہے اور اس بات کی پروا نہیں کرتا کہ اس مقصد کے حصول کو یقینی بنانے کے لئے کیا قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ مسلمان وہ ہے جو رسول اللہﷺ کی اس تنبیہکو پوری سنجیدگی کے ساتھ لیتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُما قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:
«إِذَا تَبَايَعْتُمْ بِالْعِينَةِ، وَأَخَذْتُمْ أَذْنَابَ الْبَقَرِ، وَرَضِيتُمْ بِالزَّرْعِ، وَتَرَكْتُمْ الْجِهَادَ، سَلَّطَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ ذُلًّا
لَا يَنْزِعُهُ حَتَّى تَرْجِعُوا إِلَى دِينِكُمْ»
"اگر تم کاروبار کررہے ہو ، اپنے بیل کے کان پکڑے ہوئے ہو اور کھیتی باڑی میں مصروف و مطمئن ہو جبکہ اس دوران جہاد کو چھوڑ دیا، تو اللہ تم پر ذلت و رسوائی مسلط کردے گا اور یہ اس وقت تک دور نہ ہوگی جب تک تم اپنے دین پر نہ لوٹ جاؤ"(ابو داود، ابن تیمیہ)۔
مسلمان وہ ہے جو دنیا کی رغبتوں سے منہ موڑتا ہے جو اسے قربانی دینے سے روک سکتی ہیں اور رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث کو یاد رکھتا ہے کہ،
«تُعْرَضُ الْفِتَنُ عَلَى الْقُلُوبِ كَالْحَصِيرِ عُودًا عُودًا فَأَىُّ قَلْبٍ أُشْرِبَهَا نُكِتَ فِيهِ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ وَأَىُّ قَلْبٍ أَنْكَرَهَا نُكِتَ فِيهِ نُكْتَةٌ بَيْضَاءُ حَتَّى تَصِيرَ عَلَى قَلْبَيْنِ عَلَى أَبْيَضَ مِثْلِ الصَّفَا فَلاَ تَضُرُّهُ فِتْنَةٌ مَا دَامَتِ السَّمَوَاتُ وَالأَرْضُ وَالآخَرُ أَسْوَدُ مُرْبَادًّا كَالْكُوزِ مُجَخِّيًا لاَ يَعْرِفُ مَعْرُوفًا وَلاَ يُنْكِرُ مُنْكَرًا إِلاَّ مَا أُشْرِبَ مِنْ هَوَاهُ»
"انسان کے دل پر فتنے ایک کے بعد ایک اس طرح آئیں گے کہ جس طرح بوری اور چٹائی کے تنکے ایک کے بعد ایک ہوتے ہیں۔ جو دل اس فتنے میں مبتلا ہوگا وہ فتنہ اس کے دل میں ایک سیاہ نقطہ ڈال دے گا اور جو دل اسے رد یعنی قبول کرنے سے انکار کرے گا تو اس کے دل میں ایک سفید نقطہ لگ جائے گا، یہاں تک کہ اس کے دو دل ہو جائیں گے۔ ایک سفید دل کہ جس کی سفیدی بڑھ کر کوہ صفا کی طرح ہوجائے گی جب تک زمین و آسمان رہیں گے اسے کوئی فتنہ نقصان نہیں پہنچائے گا اور دوسرا دل سیاہ راکھ کے کوزہ کی طرح علوم سے خالی ہوگا، نہ نیکی کو پہچانے گا اور نہ ہی بدی کا انکار کرے گا مگر اپنی خواہشات کی پیروی کرے گا "(صحیح مسلم)۔
یہ وہ مسلمان ہے جس کااس ماحول میں دم گھٹتا ہے جہاں دنیا کی منفعت کی بات کی جائے جبکہ جہاں امت اور انسانیت کی بھلائی کی بات ہو وہاں قربانی دینے کے لئے تیار رہتا ہے کیونکہ اس کا دل اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اس فرمان پر ایمان رکھتا ہے کہ،
﴿اعْلَمُواْ أَنَّمَا الْحَيَوةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِى الاٌّمْوَلِ وَالاٌّوْلْـدِ﴾
"خوب جان رکھو کہ دنیا کی زندگی صرف کھیل تماشا زینت اور آپس میں فخر اور مال و اولاد میں ایک کا دوسرے سے اپنے آپ کو زیادہ بتلانا ہے "(الحشر:20)۔
وہ مسلمان جو قربانی دیتا ہے تا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا پیارا بن جائے اس بات سے واقف ہوتا ہے کہ یہ دنیا اور اس کی دولت ایک امتحان ہے کیو نکہ اس کے رب نے فرمایا ہے،
﴿إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الاٌّرْضِ زِينَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُم أَحْسَنُ عَمَلاً﴾
"رؤئے زمین پر جو کچھ ہے ہم نے اسے زمین کی رونق کا باعث بنایا ہے کہ ہم انہیں آزمالیں کہ ان میں سے کون نیک اعمال والا ہے"(الکھف:7)۔
اور رسول اللہﷺ نے فرمایا،
«إِنَّ الدُّنْيَا حُلْوَةٌ خَضِرَةٌ، وَإِنَّ اللهَ مُسْتَخْلِفُكُمْ فِيهَا فَنَاظِرٌ مَاذَا تَعْمَلُونَ، فَاتَّقُوا الدُّنْيَا، وَاتَّقُوا النِّسَاءَ، فَإِنَّ أَوَّلَ فِتْنَةِ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَانَتْ فِي النِّسَاء»
" یہ دنیا میٹھی اور سرسبز ہے اور اللہ ایک کے بعد ایک تمہاری نسل کو آگے بڑھاتا ہے، لہٰذا وہ دیکھ رہا ہے کہ تم کیا کررہے ہو۔ دنیا سے ہوشیار رہو اور عورت سے کہ بنی اسرائیل پر جو سب سے پہلی مشکل پڑی تھی وہ عورت کی وجہ سے تھی"(مسلم)۔
مسلمان جانتا ہے کہ یہ دنیا، جس میں وہ ان جابروں کا سامنا کرتا ہے جو ہمیشہ باقی رہنے والی اپنی آخرت کو برباد کررہے ہیں، ایک عارضی مقام ہے۔ اس کے علاوہ یہ دنیا ختم ہوجانی ہے، اس کی ہریالی اور مزے ختم ہوجانے ہیں ، جیسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں، ﴿وَإِنَّا لَجَاعِلُونَ مَا عَلَيْهَا صَعِيداً جُرُزاً﴾"اس(دنیا) پر جو کچھ ہے ہم اسے ہموار صاف میدان کر ڈالنے والے ہیں "(الکھف:8)، جس کا مطلب ہے کہ اس دنیا کو بنانے کے بعد اللہ اس کو تباہ کردیں گے اور اس میں موجود ہر شے بیکار ہوجائے گی جس سے کوئی منفعت حاصل نہ ہوسکے گی۔ العوفی نے ابن عباس سےروایت کیا ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ اس دنیا میں موجود ہر شے ختم اور برباد کردی جائے گی۔ مجاہد نے کہا،"خشک اور بنجر زمین"۔ قتادۃ نے کہا ،"ایسی سطح جس پر کوئی درخت اور نباتات نہ ہوں"۔ تو پھر کیوں ہمیشہ باقی رہنے والی اللہ کی جنت کو اس فانی دنیا کے لئےچھوڑ دیا جائے جو ایک دن بنجر ہوجائے گی اور جہاں زندگی کی لذتیں ختم ہوجائیں گی؟ پھر کیوں ہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے لئے قربانی دینے سے شرمائیں یا بھاگیں؟ آئیں کہ ہم بھی ان میں سے ہوجائیں جو اس دنیا کی آسائشوں سے منہ موڑ کر مشکلات کو گلے لگاتے ہیں اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے بھر پور جدوجہد کرتے ہیں۔
مسلمانوں کی موجودہ نسل ایک بہترین وقت پر آئی ہے جب مغربی تہذیب تنزلی کا شکار ہے، اس کی معیشت اپنی اشرافیہ کی لالچ کے باعث تباہی کا شکار ہے، اس کی استعماری خارجہ پالیسی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور دنیا کے سامنے بے نقاب ہو چکی ہے، اس کا معاشرہ پاک دامنی، غیرت اور خاندانی اقدار کی غیر موجودگی میں ٹکڑے ٹکڑے ہورہا ہے اور اس کے لوگ روحانی خلاء کے باعث سخت افسردہ ہیں۔ دنیا کے حالات اس سطح پر آچکے ہیں کہ محمدﷺ کی امت اپنے مقام کو دوبارہ حاصل کرسکے، ایک انصاف والی امت جو دنیا کے مظلوموں کی نگہبان اور ان کی راحت کا باعث بنے گی۔ آج ہم میں سے ہر ایک کو پوری سنجیدگی کے ساتھ خود کو قربانی دینے کے لئے تیار کرنا ہے جس کی ضرورت ہے اسلام کو ایک بار پھر طرز زندگی بنانے اور اس کی ہدایت کو پوری انسانیت تک پہنچانے کے لئے۔ اور انشاء اللہ ہم میں سے ہر ایک اُس عظیم تبدیلی کا آلہ بنے گا جس کی ابتداء نبوت کے طریقے پر خلافت کے واپسی سے ہوگی اور اس کی انتہاء اس وقت ہوگی جب اسلام پوری دنیا پر غالب ہوجائے گا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،
«إِنَّ اللَّهَ زَوَى لِيَ الأَرْضَ فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا وَإِنَّ أُمَّتِي سَيَبْلُغُ مُلْكُهَا مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا وَأُعْطِيتُ الْكَنْزَيْنِ الأَحْمَرَ وَالأَبْيَضَ وَإِنِّي سَأَلْتُ رَبِّي لأُمَّتِي أَنْ لاَ يُهْلِكَهَا بِسَنَةٍ بِعَامَّةٍ وَأَنْ لاَ يُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ فَيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَهُمْ»
"اللہ نے میرے لیے دنیا کے دونوں کناروں کو میرے سامنے کردیا۔ اور میں نے اس کا مشرقی اور مغربی کنارا دیکھا۔ اور میری امت کی بالادستی وہاں تک پہنچ جائے گی جو میرے قریب کردیے گئے تھے اور مجھے سرخ و سفید خزانے دے دیے گئے اور میں نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ وہ میری امت کو قحط سے ہلاک نہیں کریں گے اور نہ اس پر کوئی ایسا بیرونی دشمن غالب ہو جو ان کی جان لے لے اور انہیں جڑ سے تباہ و برباد کردے"(مسلم)۔
امام احمد نے تمیم ادداری سے روایت کیا کہ اس نے کہا، میں نے رسول اللہﷺ کو یہ کہتے سنا ،
«لَيَبْلُغَنَّ هَذَا الْأَمْرُ مَا بَلَغَ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ، وَلَا يَتْرُكُ اللهُ بَيْتَ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ إِلَّا أَدْخَلَهُ هَذَا الدِّينَ، يُعِزُّ عَزِيزًا وَيُذِلُّ ذَلِيلًا، عِزًّا يُعِزُّ اللهُ بِهِ الْإِسْلَامَ وَذُلًّا يُذِلُّ اللهُ بِهِ الْكُفْر»
"یہ معاملہ (اسلام) وہاں تک پہنچے گا جہاں تک دن اور رات پہنچتے ہیں، یہاں تک کہ اللہ کوئی ایسا گھر ،چاہے وہ مٹی سے بنا ہو یا بالوں سے، نہیں چھوڑیں گے جہاں یہ دین داخل نہ ہوجائے، طاقتور شخص (اسلام) کو طاقت دیں گے اور ذلیل کیے گئے شخص (جو اسلام کو مسترد کرتا ہے) کو ذلیل و رسوا کریں گے۔ وہ طاقت جس سے اللہ اسلام (اور اس کی امت) کو بلند اور کفر (اور کافروں) کو ذلیل و رسوا کریں گے"۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لئے تحریر کیا گیا
مصعب عمیر