الإثنين، 21 جمادى الثانية 1446| 2024/12/23
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

تفسیر سورۃ البقرۃ 142 تا 145

بسم الله الرحمن الرحيم

﴿سَيَقُولُ السُّفَهَاء مِنَ النَّاسِ مَا وَلاَّهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُواْ عَلَيْهَا قُل لِّلّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ يَهْدِي مَن يَشَاء إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ * وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلاَّ عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللّهُ وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌ * قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاء فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّواْ وُجُوِهَكُمْ شَطْرَهُ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوْتُواْ الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ * وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوْتُواْ الْكِتَابَ بِكُلِّ آيَةٍ مَّا تَبِعُواْ قِبْلَتَكَ وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ وَمَا بَعْضُهُم بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءهُم مِّن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ إِنَّكَ إِذَاً لَّمِنَ الظَّالِمِينَ

 

"اب تو یہ بے وقوف لوگ (بت پرست، منافق اور یہود) کہیں گے کہ ان(مسلمانوں)  کو  ان کے اِس قبلے (بیت المقدس)سے کس بات نے پھیر دیا جس کی طرف یہ متوجہ ہوا کرتے تھے۔ کہہ دیجئے (اے محمد) کہ مشرق اور مغرب اللہ کے لیے ہیں  جس کو اللہ چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھا دیتا ہے۔اور اسی طرح ہم نے  تمہیں امت وسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول(ﷺ) تم پر گواہ بنے۔ آپ جس قبلے پر تھے اس کو ہم نے بنایا ہی اس لیے تھا کہ یہ معلوم کریں کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون پیچھے ہٹتا ہے اگر چہ یہ بہت بھاری تھا مگر لوگوں پر نہیں  جن کو اللہ نے ہدایت دی ہوئی ہے۔ اور اللہ تمہارے ایمانوں کو ضائع کرنے والا نہیں بے شک اللہ لوگوں پر شفیق اور مہربان ہے۔ ہم آپ کا منہ باربار آسمان کی طرف اٹھتا دیکھ رہے ہیں اس لیے  ہم آپ کو اس قبلے کی طرف متوجہ کریں گے جو آپ کو پسند ہے تو پھر اپنا چہرہ(نماز میں) مسجد حرام کی طرف موڑئیے اور تم جہاں بھی ہو  اپنے چہروں کو اس کی طرف کرو  اور جن لوگوں کو کتاب دی  گئی ہے وہ یقینی طور پر جانتے ہیں  یہ ان کے رب کی طرف سے حق ہے اور اللہ   ان کے اعمال سے بے خبر نہیں۔ اگر آپ ان اہل کتاب کے سامنے  ہر قسم کی نشانیاں(دلیلیں) پیش کریں تب بھی وہ آپ کے قبلے کی پیروی نہیں کریں گے اور نہ آپ ان کے قبلے کی پیروی کرنے والے ہیں اور نہ ہی وہ ایک دوسرے کے قبلے کی پیروی کرنے والے ہیں اور اگر  علم آنے کے بعد آپ نے ان کی خواہشات کی پیروی کی تب تو آپ ظالموں میں سے ہو جائیں گے"(البقرۃ:145-142)۔

 

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان آیات میں یہ واضح کیا ہے کہ:

 

1۔ایسا لگ رہا ہے کہ ان آیات میں  نزول کے لحاظ سے تقدیم اور تاخیر ہے۔ یہ آیت ﴿سَيَقُولُالسُّفَهَاءُمِنْالنَّاسِ﴾ " اب تو یہ بے وقوف لوگ (بت پرست، منافق اور یہود) کہیں گے"،اس آیت ﴿قَدْنَرَىتَقَلُّبَوَجْهِكَفِيالسَّمَاءِ﴾ " ہم آپ کا منہ باربار آسمان کی طرف اٹھتا دیکھ رہے ہیں " کے بعد ہےجس کے ذریعے اللہ نے اپنے رسول کو مسجد حرام کی طرف متوجہ کیا، اوراس کے بعد فرمایا: ﴿سَيَقُولُالسُّفَهَاءُمِنْالنَّاسِمَاوَلاَّهُمْعَنْقِبْلَتِهِمْالَّتِيكَانُواعَلَيْهَا﴾"اب احمق لوگ (بت پرست، منافقین  اور یہود)کہیں گے کہ کس چیز نے ان کو اس قبلے (بیت المقدس) سے پھیر دیا جس کی طرف یہ رخ کرتے تھے"۔

 

رسول اللہ ﷺ پر آیات نازل ہوتی رہتی تھیں اور آپ کاتبین وحی کو ان کو لکھنے کا حکم دیتے تھے، مسلمانوں کو ترتیب کے لحاظ سے اس سورت میں دوسری آیات کےساتھ ان کا موقع محل بتاتے تھے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «ضعواهذهالآيةفيمكانكذامنسورةكذا»" اس آیت کو فلاں سورت میں فلاں جگہ رکھو" (ترمذی 3011 احمد 378،486)۔ اس لیے  سورت میں اس کی ترتیب نزول میں اس کی ترتیب کے موافق یا اس سے مختلف ہوتی تھی  جس میں موجود حکمت کو اللہ ہی جانتا ہے۔

 

قرآن کریم کی بعض آیات میں یہ واضح ہے ، مثال کے طور پر یہ آیت ﴿وَالَّذِينَيُتَوَفَّوْنَمِنْكُمْوَيَذَرُونَأَزْوَاجًاوَصِيَّةً لأَزْوَاجِهِم﴾ "جو لوگ تم میں سے فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں وہ وصیت کر جائیں کہ ان کے بیویاں سال بھر تک فائدہ اٹھائیں"(البقرۃ:240)نزول کے لحاظ سے اس آیت ﴿وَالَّذِينَيُتَوَفَّوْنَمِنْكُمْوَيَذَرُونَأَزْوَاجًايَتَرَبَّصْنَبِأَنفُسِهِنَّأَرْبَعَةَأَشْهُرٍوَعَشْرًا﴾ "تم میں سے جو لوگ فوت ہوجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں ، وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے دس دن عدت میں رکھیں "(البقرہ:234)سے پہلے ہے۔ دوسری آیت پہلی آیت کی وجہ سے منسوخ ہے یاد رہے کہ قرآنی ترتیب میں دوسری آیت پہلی آیت سے پہلے ہے یعنی قرآن میں ترتیب نزول کی ترتیب سے مختلف ہے۔

 

لہٰذا یہ آیت ﴿سَيَقُولُالسُّفَهَاءُمِنْالنَّاسِمَاوَلاَّهُمْعَنْقِبْلَتِهِمْالَّتِيكَانُواعَلَيْهَا﴾ "اب تو یہ بے وقوف لوگ (بت پرست، منافق اور یہود) کہیں گے کہ ان(مسلمانوں)  کو  ان کے اِس قبلے (بیت المقدس)سے کس بات نے پھیر دیا جس کی طرف یہ متوجہ ہوا کرتے تھے" اورا س  کا معنی یہ تقاضا کرتا ہے کہ یہ بات  اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان  کو پہلے قبلے سے دوسرے قبلے کی جانب متوجہ کرنے کے بعد ہو یعنی اس آیت کے بعد کہ﴿قَدْنَرَىتَقَلُّبَوَجْهِكَفِيالسَّمَاءِفَلَنُوَلِّيَنَّكَقِبْلَةًتَرْضَاهَا﴾ " ہم آپ کا منہ باربار آسمان کی طرف اٹھتا دیکھ رہے ہیں اس لیے  ہم آپ کو اس قبلے کی طرف متوجہ کریں گے جو آپ کو پسند ہے "۔

 

عربی لغت میں تقدیم اور تاخیر کسی حکیمانہ غرض سے خالی نہیں  ہوتا۔ اس لیے ہم غور و فکر کرنے کے بعد  اس میں اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ یہ تقدیم ان احمق لوگوں کی صورت حال کو واضح کرنے کے لیے ہے جو اللہ کے حکم پر اعتراض کرتے ہیں،  کیونکہ مخلص اور سچے مومن اللہ کے اوامر کو بغیر کسی ادنیٰ اعتراض کے قبول کرتے ہیں، ﴿وَمَاكَانَلِمُؤْمِنٍوَلاَمُؤْمِنَةٍإِذَاقَضَىاللَّهُوَرَسُولُهُأَمْرًاأَنْيَكُونَلَهُمْالْخِيَرَةُمِنْأَمْرِهِمْ﴾"جب اللہ اور اس کا رسول  کسی امر کا فیصلہ کردیں تو کسی مومن مرد اور عورت  کے لیے اپنے اس امر میں کو ئی اختیار باقی نہیں رہتا"(الاحزاب:36)۔

 

اس طرح  اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان آیات میں تحویل قبلہ کے بارے میں اللہ کے حکم پر اعتراض  کر کے بیوقوفی کرنے والوں کے بارے میں بتا تے ہیں، اور یہ کہ مسئلہ جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے وہ  یہ نہیں کہ  اللہ کوئی امر منسوخ کرتے ہیں یا کوئی اور نیا امر لاتےہیں بلکہ جس مسئلے پر غور کرنے کی ضرورت ہے وہ  اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم پر اعتراض ہے۔ جہاں تک  ایک سمت سے دوسری سمت تحویل قبلہ کا معاملہ  ہے تو یہ  اللہ کی مرضی ہے۔  اللہ ہی مشرق اور مغرب کا مالک ہے،  اپنے ملک میں جو چاہتا ہے کرتا ہے،  وہ قبلے کو اِس سمت کر دے یا اُس سمت کردے اس کا امر ہے ﴿لاَيُسْأَلُعَمَّايَفْعَلُوَهُمْيُسْأَلُونَ﴾" وہ جو کرتا ہے اس سے کوئی نہیں پوچھ سکتا  جب کہ ان سے پوچھا جائے گا"(الانبیاء:23)۔

 

لہٰذا اللہ سبحانہ کا امر ہی حق اور  ہدایت ہے اور  جو اس کی پیروی کرے گا وہی ہدایت پائے گا  ﴿يَهْدِيمَنْيَشَاءُإِلَىصِرَاطٍمُسْتَقِيم﴾"وہی جس کو چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے"۔ تو  جس نے اللہ کے امر پر اعتراض کیا اور اس میں طرح طرح کی باتیں نکالیں وہی احمق  اور کم عقل  اور ہلاک ہونے والا ہے۔

 

﴿السُّفَهَاءُ﴾سفیہ کی جمع ہے  جس کا معنی جاہل،  کم عقل  اور تدبر سے منہ موڑنے والا ہے۔  "السفہ"  اصل میں خفیف(ہلکے) کو کہا جاتا ہے جیسا کہ عربوں کا قول ہے کہ ثوب سفیہ یعنی  باریک کپڑا، یہاں   السُّفَهَاءُ  الف اور لام کے ساتھ  ہر اس شخص کے لئے ہے جو یہ بات کرے کہ ﴿مَاوَلاَّهُمْعَنْقِبْلَتِهِمْ﴾"کس چیز نے ان (مسلمانوں)کو ان کے قبلے سے پھیر دیا"۔  ایسا کہنے والے بیوقوف یہود،منافقین اور مشرکین اور ان کی راہ پر چلنے والے تھے۔

 

﴿مَا وَلاَّهُمْ﴾"کس چیز نے ان کو  موڑ دیا؟"

﴿عَنْ قِبْلَتِهِمْ﴾"ان کے قبلے سے"، القبلہ فِعلۃ  مقابَلہ سے ہے جیسا کہ  الوجھۃ المواجھۃ سے ہے، اس کا شرعی معنی متعین ہے جو کہ یہ ہے کہ وہ سمت جس کی طرف منہ کر کےمسلمان نماز پڑھتے ہیں۔

 

2۔اس کے بعد اللہ سبحانہ  و تعالیٰ ہمیں بتا رہے ہیں کہ حکم پہلے اور بعد میں اسی کا ہے اور کوئی اس کا حکم ٹال نہیں سکتا،  اللہ ہی فضل اور مہربانی کرنےوالا ہے۔ جیسا کہ اس نے مسلمانوں پر مہربانی کی اور رسول اللہ ﷺ کی دعا قبول کی اور "بیت الحرام" کو ان کا قبلہ بنا یا  اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالی نے محمد ﷺ کی امت پر بھی احسان کیا اور اس کو  امتوں میں سے امت وسط (معتدل امت)بنایا تا کہ وہ لوگوں کے بارے میں گواہ ہو۔  اللہ سبحانہ وتعالی ٰنے اس صفت(امت وسط) یعنی عدل والی امت  کو لوگوں کے بارے میں گواہ کے قابل بنا یا کیونکہ گواہی کے لیے بنیادی شرط عدل ہے۔

 

جہاں تک (الأمة الوسط) کا  عربی زبان میں مطلب  "بہترین" ہے اور لوگوں میں سے سب سے  بہتر عدل کرنے والا ہوتا ہے ۔

لسان العرب میں ہے کہ: کسی بھی چیز کا وسط(درمیان) اس کا بہترین حصہ ہوتا ہے جیسے کے کھیت کا درمیانی حصہ کناروں سے بہتر ہوتا ہے اسی لیے حدیث میں ہے کہ "خیار الامور اوسطھا" "بہترین کام اعتدال ہے" (البیھقی اور القرطبی)۔

اسی معنی میں ہی اللہ کا یہ قول بھی ہے کہ ﴿وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا﴾" اور اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنایا" یعنی عادل امت   اورصاحب لسان اس کے بارے میں کہتا ہے کہ:" یہ الوسط کی تفسیر اور اس کے معنی کی حقیقت ہے"۔

 

 یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ دوسری امتوں کے خلاف اس بات کی گواہ ہو گی کہ ان تک اسلام پہنچا تھا۔  آیت اگر چہ خبر کے صیغے کے ساتھ ہے مگر یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی جانب سے امت مسلمہ سے اس بات کا مطالبہ کرنے کے معنی میں ہے کہ  اسلام کو دوسری امتوں تک پہنچاؤ اور اگر ایسا نہیں کیا تو امت گنہگار ہو گی۔ یہ امت دوسری امتوں کے خلاف حجت ہے ﴿لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ﴾"تاکہ تم لوگوں کے خلاف گواہ بنو،" بالکل ویسے ہی جیسے رسول اللہ ﷺ امت مسلمہ کو اسلام پہنچانے پر گواہ ہیں، ﴿وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا﴾"اور رسول تمہارے پر گواہ ہوں گے"۔

 

یہ تو ایک لحاظ سے ہے کہ امت مسلمہ  اسلام کے آنے  اور ان امتوں تک اسلام کے پہنچانے کے بعد ان امتوں کے پر عادل گواہ ہو گی۔ جبکہ دوسرے لحاظ سے  اسلام کے آنے سے قبل بھی ان امتوں کے خلاف   اس بات پر عادل گواہ ہو گی  کہ سابقہ رسولوں نے ان امتوں کو اپنے رب کا پیغام پہنچایا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ : "یجیء النبی یوم القیامۃ ومعہ الرجل والنبی معہ الرجلان و اکثر ومن ذلک ید عی قومہ فیقال لھم ھل بلّغکم ھذا؟ فیقولون : لا۔ فیقال لہ: ھل بلّغت قومک؟  فیقول: نعم۔ فیقال لہ: ومن یشھد لک ؟ فیقول : محمد و امتہ۔ فیدعی  محمد وامتہ فیقال لھم: ھل بلّغ ھذا قومہ؟ فیقولون: نعم۔فیقال: وما علمکم؟ فیقولون: جاء نا نبینا محمد ﷺ فاخبر نا ان الرسل  قد بلغوا فذالک قولہ تعالی:" قیامت کے دن ایک نبی اپنے صرف ایک امتی کے ساتھ اٹھے گا ، اور ایک نبی اٹھیں گے جن کے ساتھ صرف دو یا اس سے کچھ زیادہ لوگ  ہوں گے اور ان سے کہا جائے گا: کیا تمہیں یہ بتا دیا گیاتھا؟ وہ کہیں گے: نہیں؟ پھر اس نبی سے پوچھا جائے گا: کیا آپ  نے اپنے لوگوں کو بتا دیا تھا؟ وہ کہیں گے: ہاں۔ ان  (نبی)سے کہا جائے گا : آپ کا گواہ کون ہے؟ وہ کہیں گے: محمد اور ان کی امت۔  پھر محمد اور ان کی امت سے پوچھا جائے گا: کیا انہوں نے اپنے لوگوں تک بات پہنچا دی تھی؟ وہ کہیں گے: ہاں۔ ان سے پوچھا جائے گا: آپ کے پاس کیا معلومات ہیں؟ وہ کہیں گے: ہمارے نبی محمد ﷺ ہمارے پاس آئے اور بتایا کہ رسولوں نے  بتایا  تھا  اور اللہ نے فرمایا ہے کہ: وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا "اسی طرح ہم نے تمہیں متوسط امت بنا یا  تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو  اور رسول تم پر گواہ بنے"۔

 

لہٰذا امت مسلمہ عادل گواہ ہے: اسلام کے بعد  اور اسلام سے پہلےدوسری امتوں پر  مندرجہ بالا طریقے سے جو ہم نے بتا یا۔

اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمیں یہ بتا رہے ہیں کہ مسجد اقصی کو مسلمانوں کا پہلا قبلہ فرض قرار دینے کی حکمت یہ ہے کہ  اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرنے والوں  کو ممتاز کیا جائے جن لوگوں نے اللہ کے سامنے سرجھکایا اور سرتسلیم خم کیا  اور جیسے ان کو حکم دیا گیا ویسے قبلے کی طرف متوجہ ہوئے،  یہ لوگ ان لوگوں سے ممتاز ہو گئے جن پر اللہ  اور اس کے رسول کے ایسے  امر کا اتباع بھاری ہے  جو ان کی خواہش اور عادتوں کے خلاف ہو۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مکہ میں  اپنے رسول ﷺ کومسجد اقصی کی طرف  منہ کرنے کا حکم دیا  جو کہ آسان بات نہیں تھی سوائے ان لوگوں کے لیے جن کو اللہ نے ہدایت دی ہو کہ وہ کعبہ،  جو کہ ان کے سامنے ہے،سے  رخ ہٹا کر اقصی کی طرف متوجہ ہوں جس کی وہ تعظیم کرتے تھے اور اس کا حج کرتے تھے اور اس کو ابراہیم علیم السلام کا دین سمجھتے تھے، نماز میں اس کی جگہ  اقصی کی طرف منہ کرنا ان کے لیے بڑی بات تھی، مگر جن لوگوں کو اللہ نے ہدایت دی  اور انہوں نے اللہ کے سامنے سرجھکایا ، اطاعت کی اور  اپنے رب کے حکم کے سامنےسرتسلیم خم کیا اور اس سے راضی ہوئے۔

 

پھر اللہ تعالیٰ نے  اپنی رحمت اور مومنوں پر مہر بانی سے ، کعبہ کی طرف متوجہ ہونے سے پہلے اقصی کی طرف منہ کر کے پڑھی گئی نمازیں قبول کرلیں۔  مسلمان ڈرتے تھے کہ قبلہ اول کی طرف منہ کرکے پڑھی گئیں ان کی نمازیں قبلہ ثانی ،کعبہ، کی طرف منہ کر کے پڑھی گئی نمازوں کی طرح مقبول ہیں یا نہیں؟ مگر اللہ نے ان پر احسان کیا کہ ان کو قبول کیا اور ان کو ضائع نہ کیا ﴿إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ﴾"بے شک اللہ لوگوں پر مہربان اور رحم کرنے والا ہے"۔

 

﴿إِلاَّ لِنَعْلَمَ﴾ "صرف اس لئے کہ ہم جان جائیں" کہ جو ہم جانتے ہیں اس کو ظاہر کریں، یعنی غیب میں ہم جو کچھ جانتے ہیں اس کو  تمہارے سامنے محسوس حقیقت میں ظاہر کریں۔ اس کا قرینہ یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ﴿عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ﴾"وہ (اللہ)ظاہر اور باطن کو جاننے والا ہے"(الحشر:22)۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کا علم  کسی چیز کے انسانوں کے سامنے ظاہر ہونے پر موقوف نہیں، کیونکہ اللہ اس کے واقع ہونے اور ظاہر ہونے سے قبل ہی اس کو جانتا ہے، جیسا کہ اللہ کا یہ فرمان ہے  ﴿أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمْ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّابِرِين﴾"کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ تم جنت میں داخل ہو گے جبکہ اللہ نے تم میں سے جہاد کرنے اور صبر کرنے والوں کو ظاہر نہیں کیا ہے"(آل عمران: 142 )یعنی جب تک تمہارے سامنے اس بات کا انکشاف نہ ہو کہ اللہ جہاد اور صبر کے حوالے سے تمہاری حالت سے باخبر ہے۔

 

 چنانچہ ﴿لِنَعْلَمَ﴾ کا معنی ہو گا "جو ہم جانتے ہیں اس کو ظاہر کریں" اور یہ مجاز(اضمار) کے قبیل سے ہے  اور یہ اللہ کے علمِ غیب کے قرینے کے مطابق  عقلی اعتبار سے ملفوظ(جس کو تلفظ کیا گیا ہے) کے واقع ہونے کے بارے میں دلالۃ اقتضا ہے۔

﴿مِمَّنْ يَنقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ﴾"جو پیچھے مڑتا ہے" یعنی اپنے آباؤ اجداد کے قبلے کی محبت میں اسلام سے مرتد ہوتا ہے اور یہ "من" فصل"جدائی" کے لیے ہے، یہ دو متضاد چیزوں میں سے دوسری  پر داخل ہوتا ہے جیسے اللہ کا یہ فرمان ﴿وَاللَّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنْ الْمُصْلِحِ﴾"اللہ فسادی اور اصلاح کرنے والے کو جانتا ہے" (البقرۃ: 220)، لہٰذا  اصلاح کرنے والا فسادی کا متضاد ہے۔ یہاں بھی  اس آیت ﴿إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ﴾"اس لیے کہ ہم یہ دکھا دیں کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون واپس مڑتا ہے" میں ایسا ہی ہے اور یہ من یتبع الرسول کے متضاد ہے۔

 

﴿لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ﴾"تمہارے ایمان کو ضائع کرے" یعنی  منسوخ ہونے سے قبل قبلہ اول کی طرف منہ کر کے پڑھی گئی تمہاری نمازیں ضائع کرے،  یہ مجازی استدلال ہے کیونکہ  ایمان نماز کی قبولیت کا سبب ہے ایمان نہ ہو تو نماز کا وجود بھی نہیں چاہے اس کےتمام حرکات کو ادا کرے، کیونکہ ایمان عمل سے پہلے ہے،﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَقَامُوا الصَّلاَةَ وَآتَوْا الزَّكَاةَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ﴾"بے شک جو لوگوں  ایمان لائے  اور نیک اعمال کیے اور نماز قائم کی اور زکوۃ ادا کی، ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے   اوران کو نہ کو خوف ہے نہ ہی کوئی غم"(البقرۃ:277)۔

 

اور حدیث میں ہے کہ "أنه لما وجِّه رسول الله صلى الله عليه و سلم إلى القبلة - الكعبة - قالوا: يا رسول الله فكيف بالذين ماتوا وهم يُصَلون إلى بيت المقدس؟ فنزلت وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ"" جب رسول اللہ ﷺ نے قبلہ"کعبہ" کی طرف رخ کیا  تولوگوں نے کہا کہ: اے اللہ کے رسول ان  مرے ہوئےلوگوں کا کیا بنے گا  جنہوں نے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھی تھیں؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ﴿وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُم﴾" اور اللہ تمہارے ایمان کو ضائع نہیں کرے گا" (بخاری 40،ابوداود،ترمذی وغیرہ)۔ یعنی اللہ کے فضل و کرم سے ان کی وہ نمازیں مقبول ہیں۔

 

3۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ واضح  کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کی دعا قبول فرمائی اور مسجد اقصی کی بجائے دوسرے قبلے کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا۔   یہود نے کہنا شروع کردیا کہ: محمد ہماری مخالفت بھی کرتا ہے اور ہمارے قبلے کی جانب رخ بھی کرتا ہے! اس لیے رسول اللہ ﷺ چاہتے تھے کہ آپ کعبہ کی طرف رخ کریں جس کو ابراہیم علیم السلام نے بنا یا تھا اور پھر وہاں سے آپ ﷺ نےعربوں کو ایمان کی دعوت  دی۔ بخاری اور مسلم نے اپنے صحیحین میں  البراء سے روایت کیا ہے کہ، صلينا مع رسول الله صلى الله عليه و سلم بعد قدومه المدينة ستةَ عشرَ شهراً نحو بيت المقدس، ثم علم الله هوى نبيه صلى الله عليه و سلم فنزلت قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ " رسول اللہ ﷺ کے مدینہ آنے کے بعد ہم نے سولہ مہینوں تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھیں،  پھر اللہ نے نبی ﷺ کی چاہت پوری کی اور یہ آیت نازل ہوئی، ﴿قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ﴾ " ہم  تمہارے بار بار آسمان کی طرف چہرہ کرنے کو دیکھ رہے ہیں  اس لیے تمہیں ایسے قبلے کی طرف متوجہ کریں گے جس سے تو خوش ہو گا  پس مسجد حرام کی طرف منہ کرو اور تم جہاں بھی ہو اس کی طرف منہ کرو"۔  یوں قبلہ مسجد حرام کی طرف تبدیل کیا گیا اور  اس آیت کے نزول کے بعد مسلمانوں نے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا ترک کردیا اور بیت الحرام کی طرف منہ کرنا شروع کردیا۔ ابو داود نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ ، "أنه لما نزلت هذه الآية على رسول الله صلى الله عليه و سلم مرّ رجل ببني سلمة فناداهم وهم ركوعٌ في صلاة الفجر نحو بيت المقدس: ألا إن القبلة قد حوِّلت إلى الكعبة فمالوا كلهم ركوعا إلى الكعبة "جب رسول اللہ ﷺ پر یہ آیت نازل ہوئی تو  ایک شخص بنی سلمہ کے محلے سے گزرا اور آواز دی  وہ لوگ فجر کی نماز میں بیت المقدس کی طرف رخ کر کے رکوع میں تھے  کہ: قبلہ   تبدیل ہو گیا اور اب کعبہ قبلہ ہے ان لوگوں نے رکوع کی حالت میں ہی کعبہ کی طرف منہ کیا"۔

 

اس سے یہ مستنبط ہو تا ہے کہ خبر واحد احکام شرعیہ میں دلیل ہے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ خبر واحد کے ذریعے قبلہ اول کی منسوخی ہے کیونکہ  قبلہ اول آیت کریم  سے منسوخ ہوا تھا، ﴿قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا﴾ " ہم  تمہارے باربار آسمان کی طرف چہرہ کرنے کو دیکھ چکے اور تمہیں اس قبلے کی طرف متوجہ کریں گے جس سے تو خوش ہو گا"۔ لہٰذا جویہ واقعہ  پیش آیا کہ ان نماز پڑھنے والوں کو خبر واحد سے حکم شرعی معلوم ہو گیا جو کہ واجب الاتباع ہے جیسا کہ اصول میں اس کے باب میں اس کو بیان کیا گیا ہے۔

 

﴿شَطْرَهُ﴾ یعنی  " اس کی  طرف" جیسا کہ ابن عباس نے کہا ہے، کعبہ کے بغیر مسجد حرام کا ذکر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ  عین (آنکھوں سے نظر) کی بجائے سمت کا لحاظ رکھنا واجب ہے۔ اس لیے بھی کہ مسجد حرام میں کعبہ بھی شامل ہے،  اسی طرح اس کا اطلاق مکہ پر بھی ہوتا ہے، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں : ﴿سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى﴾"پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو  رات کے ایک حصے میں  مسجد حرام سے مسجد اقصی لے گیا" جبکہ رسول اللہ ﷺ کو مسجد حرام کے اندر سے نہیں بلکہ مکہ سے لے جایا گیا تھا۔ اس سے یہ معلوم  ہو تا ہے کہ بیت الحرام-کعبہ- ان لوگوں کے لیے قبلہ ہے جو اس کو دیکھتے ہیں  اور اس کی سمت کو پہچانتے ہیں۔ مسجد حرام کی سمت حرم کے علاقے کے لوگوں کے لیے قبلہ ہے جن کو کعبہ نظر نہیں آتا، مگر ان کو مسجد حرام کی سمت معلوم ہے۔  اسی طرح  جس کو بھی اس کی سمت کا علم ہو جیسے رسول اللہ ﷺ کو وحی کے ذریعے بتایا گیا،  چاہے وہ حرم کے حدود سے باہر رہتا ہو۔  پھر بلد حرام(مکہ مکرمہ) کی سمت تمام دنیا کے لیے قبلے کے طور پر کافی ہے۔

﴿قَدْ نَرَى﴾یعنی "ہم نے دیکھا" ۔  " قد" جب مضارع پر داخل ہوتا ہے  اس کو اس وقت ماضی بنا دیتا ہے جب اس کا تعلق کسی ایسے واقعے سے ہو جو گزر چکا ہو یا اس کے گزرنے کا شبہ ہو،  یوں وہ تحقیق کا فائدہ دیتا ہے ۔اسی طرح اگر اس کے بعد فعل ماضی آئے  جیسا کہ ﴿قَدْ يَعْلَمُ مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ﴾"اللہ جان چکا ہے اس چیزکو جس پر تم ہو"( النور: 64 )،  اسی طرح  اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا یہ فرمان کہ ﴿وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُك﴾" ہم جان گئے ہیں کہ تم دلبرداشتہ ہوگئے ہو"(الحجر: 97)، یعنی میں جانتا تھا۔

 

4۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ  ہمیں خبر دے رہے ہیں کہ یہود ونصاریٰ کے مشائح یہ جانتے ہیں کہ قبلہ اول سے قبلہ ثانیہ کی تحویل حق ہے  کیونکہ ان کو یقین ہے کہ محمد ﷺ ہی وہ نبی ہیں جن کا ذکر ان کی کتابوں میں ہے اور وہ دنوں قبلوں کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں گے۔ اس لیے  ان کو معلوم ہے کہ  آپ اپنے رب کی طرف سے جو کچھ پڑھ کر سناتے ہیں  وہ حق ہے اس میں کوئی شک نہیں۔

 

پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ آیت کا اختتام اس بات پر کرتے ہیں کہ وہ ان کے اعمال کو جانتا ہے  ان سے غافل نہیں بلکہ ان کے خلاف ان کو محفوظ کرتا ہے،  جس بات کا وہ انکار کرتے ہیں چاہے رسول اللہ ﷺ کا ہو یا تحویل قبلے کا یا کسی اور چیز کا، اللہ سبحانہ وتعالیٰ  ان کا محاسبہ کرے گا  اور ان کو وہ سزادے گا جس کے وہ مستحق ہیں اللہ ان کے کسی عمل سے غافل نہیں﴿وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ﴾"اور اللہ ان کے اعمال سے غافل نہیں"۔

﴿الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ﴾"جن کو کتاب دی گئی"(یعنی یہود و نصاریٰ) یہ اہل کتاب کے علماء ہیں (احبار اور رہبان) اس کا قرینہ یہ آیت ہے﴿لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ﴾"وہ یقینا جانتے ہیں کہ یہ حق ہے" جانتے ہیں یعنی بغیر تقلید کے اور یہی اہل کتاب کے علماء ہیں  جو  اس کو پڑھتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ اس میں کیا ہے۔

 

5۔ آخری آیت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ یہ بیان کرتے ہیں کہ آیت میں مذکورہ احبار اور رہبان  مسلمانوں کے قبلے کی پیروی ہرگز نہیں کریں گے چاہے اس کے حوالے سے ان کے خلاف کتنی ہی حجت قائم ہو جائے کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کے قبلے کی مخالفت کسی ایسے شبہے کی وجہ سے نہیں کی جس کو رفع کرنے کے لیے حجت اور برھان درکار ہو، ان کو اپنی کتابوں کے ذریعے اس کا علم ہے مگر وہ  محض عناد اور تکبر کی وجہ سے اس کی پیروی نہیں کرتے، اور ایسے لوگوں  کو  حجت سے فائدہ نہیں ہو تا ۔ یہاں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ : ان میں سے بعض نے کیسے ایمان قبول کیا؟ کیونکہ یہ آیت اہل کتاب کے ان علماء کے بارے میں ہے جو رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں تھے جنہوں نے عناد اور تکبر سے انکار کیا تھا  اور یہ جاننے کے باوجود ایمان لانے سے انکار کیا کہ آپ حق ہیں۔  ان کے علاوہ  عام یہود ونصاریٰ اس میں شامل نہیں اس لیے اس میں ان میں سے بعض کے ایمان لانے کے احتمال کی نفی نہیں۔

 پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے رسول ﷺ کو خبر دے رہے ہیں کہ  آپ ان کے قبلے کی پیروی ہرگز نہیں کریں گے کیونکہ آپ حق پر ہیں  اور آپ پر نازل ہونے والا حق ان کی خواہشات کی ہر گز پیروی نہیں کرے گا،  ساتھ ہی  دونوں میں سے کوئی بھی دوسرے کے قبلے کی پیروی نہیں کرے گا۔ یہ واضح اور قطعی بات ہے اس لیے اس کے لیے کسی بھی قسم کی دلیل لانے سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔

  اسی طرح اللہ اپنے رسول ﷺ کو مخاطب کرتے ہیں کہ  اگر اس حق کے آنے بعد بھی آپ ان کی خواہش کی پیروی کریں گے تو آپ ﷺ بھی ظالموں میں سے ہوں گے جو حق کو   اس کی جگہ سے ہٹ کر رکھتے ہیں۔

 

﴿وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوتُوا الكِتَابَ﴾" اگرچہ تم ان اہل کتاب والوں کو دو"   یہاں "لام" قسم کی جگہ ہے اور  ﴿مَا تَبِعُوا قِبْلَتَكَ﴾ "وہ آپ کے قبلہ کی پیری نہیں کریں گے" جواب قسم ہے  اور جواب شرط ہے  یہ اس لیے کہ قسم(لام قسم)  شرط(ان)  سے پہلے ہےاس لیے یہ شرط کا نہیں قسم کا جواب ہو گا جیسا کہ لغت میں ہے  خاص کر جب (فاء) جزاء  جواب میں موجود نہیں۔

 

﴿وَمَا أَنْتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ وَمَا بَعْضُهُمْ بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ﴾ "اور نہ ہی آپ ان کے قبلے کی پیروی کرنے والے ہیں اور نہ  وہ ایک دوسرے کے قبلے کی پیروی کرنے والے ہیں"  ان  دونوں میں نفی﴿مَا تَبِعُوا قِبْلَتَكَ﴾ "وہ آپ کے قبلے کی پیروی نہیں کریں گے"کے مقابلے میں زیادہ بلیغ ہے کیونکہ  وہ فعلیہ تھا اور اسمیہ ہے  اور اسمیہ فعلیہ سے زیادہ بلیغ ہو تا ہے۔  اس میں اشارۃ  یہ دلالت ہے کہ  نبی ﷺ کی بعثت کے بعد سے  یہود اور نصاریٰ  کے اسلام قبول کرنے کی نسبت مسلمانوں کے نصرانی  یا یہودی ہونا بہت کم ہے ۔ اس طرح یہود کا عیسائی بننا یا عیسائیوں کا یہودی بننے سے زیادہ یہود ونصاری ٰ اسلام قبول کریں گے۔

﴿وَلَئِنْ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ﴾"یقیناً اگر آپ نے ان کی خواہشات کی پیروی کی"، یہاں (ان) پیروی کرنے کو فرض کرنے کی نفی  کا قرینہ ہے  جیسا کہ گزشتہ آیت میں کہا گیا تھا کہ ﴿وَمَا أَنْتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ﴾"آپ ان کے قبلے کی پیروی کرنے والے نہیں" یہاں انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا تھا کہ : ہمارے قبلے کی طرف لوٹ آؤ ہم آپ پر ایمان لائیں گے  اور پیروی کریں گے" مگر یہ ان کی جانب سے دھوکے کی کوشش تھی، اللہ ان پر لعنت کرے۔

 

﴿إِنَّكَ إِذًا لَمِنْ الظَّالِمِينَ﴾ "ورنہ آپ ظالموں میں سے ہو جائیں گے" یہاں "انّ"   مومن کی جانب سے یہود یا نصاریٰ کے قبلے کی پیروی  کرنے کی صورت میں بڑےظلم میں پھنسنے  کے مفروضے کو بیان کیا گیا ہے،  معنی یہ ہے کہ اے محمد ﷺ اگر آپ   اس علم کے آنے کے بعد بھی فرض کریں  کہ ان کی ملت کی تابعد اری کرتے ہیں  تو ظلم عظیم کا شکار ہوں گے۔   یہ یہو د و نصاریٰ کے قبلے کی پیروی کے شدت کو بیان کرنے کے لیے ہے  کہ حق تو اللہ اور اس کے رسول ﷺکی پیروی کرنےمیں ہے اور یہ قبلہ مسجد حرام کا جزو ہے۔

 

﴿وَمَا أَنْتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ﴾ "نہ آپ ان کے قبلے کی پیروی کریں گے"یہاں قبلے کو مفرد رکھا حالانکہ یہ تثنیہ ہے کیونکہ یہود کا اپنا  قبلہ ہے اور نصاریٰ کا اپنا،  اس کے باوجود دہرایا جا رہا ہے  کہ ان کے قبلے کی پیروی نہ کر یں۔ان دونوں کے قبلوں میں اشتراک یہ ہے کہ دونوں  باطل قبلے ہیں اس لیے دونوں ایک ہیں   اور  یہ بہتر ہے  کے اس کا موازنہ ایک "تمہارے قبلہ" سے کیا جائے جیسا کہ اللہ نے فرمایا : ﴿مَا تَبِعُوا قِبْلَتَكَ﴾  "وہ کبھی آپ کے قبلے کی پیروی نہیں کریں گے" جس کے بعد آتا ہے ،﴿وَمَا أَنْتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ﴾  "اور نہ ہی آپ ان کے قبلے کی پیروی کریں گے"۔

Last modified onہفتہ, 10 ستمبر 2016 09:51

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک