الإثنين، 21 جمادى الثانية 1446| 2024/12/23
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال و جواب

امریکی صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی جیت!

سوال:

ایک سوال ہے جس کا مجھے اطمینان بخش جواب نہیں ملا، اوروہ یہ ہے کہ  یہ کیسے ممکن ہوا کہ ٹرمپ نے ہیلری کو اتنے بڑے فرق سے ہرا دیا جبکہ 8 نومبر2016  کےہونے والے انتخابات سے قبل انتخابی سروے اس طرف  اشارہ کر رہے تھے کہ ہیلری  کلنٹن ٹرمپ سے واضح طور سے آگےتھیں۔اس کے علاوہ انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ کے بیانات ہر محاذ پر  بہت ہی جوشیلے اور سخت تھے۔  یورپ ، چین ، سعودی عرب یا عمومی طور پر مسلمان یا پھر کوریا  ہی کیوں نہ ہو سب ہی زد میں تھے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ شام میں امریکہ  کی پالیسی بدلے گی؟ شکریہ اور اللہ آپ کو جزا ئے خیر دے۔

 

جواب:

اوپر کیے گئے سوالات کے جوابات کی حقیقت کو جاننے کے لیےمندرجہ  ذیل چیزوں  کا احاطہ کرنا ضروری ہے:

 

1۔ امریکہ کے انتخابی قانون کے مطابق ایک الیکٹورل کالج تشکیل  پاتا ہے جس میں  ہر سٹیٹ کے ووٹ  ہوتے ہیں  جو کہ کل 538 انتخاب کنندہ پر مشتمل ہوتا ہے۔  یہ اس  معمول کے انتخابی طریقہ کار کے برعکس ہے جس میں  انتخاب  لوگوں کی آرا ء  اور ووٹوں کی گنتی پر منحصر رہتا ہے۔ جو امیدوار  ایک  سٹیٹ کے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرتا ہے چاہےوہ ایک فی صد ہی کی برتری سے  کیوں نہ ہو وہ اس سٹیٹ کے تمام  الیکٹورل ووٹ  حاصل کرلیتا ہے۔ مثلاً  اگر ایک سٹیٹ کی آبادی 20 لاکھ ہے اور الیکٹورل کالج میں اس کے 20 ووٹ ہیں اور ایک امیدوار جیت جا تاہے تو اگر ایک امیدوار کو  مثال کے طور پر51 فیصد ووٹ ملے ہیں اور دوسرے کو  49 فیصد، تو 51 فی صدووٹ حاصل کرنے والے  کو  اس سٹیٹ کے سارے 20 انتخابی ووٹ مل جائیں گے نہ کہ صرف اصل  ووٹوں کا وہ تناسب جو اس نے حاصل کیے تھے ۔ یعنی  اس کو صرف (=10.251٪*20) تقریباً 11 ووٹ اور دوسرے کو 9 ووٹ ہی نہیں ملے بلکہ  اس کو سارے 20 ووٹ حاصل ہوگئے۔

 

اس طرح سے ایک امیدوار زیادہ تر مقبول ووٹ حاصل کر سکتا ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ الیکٹورل کالج کے ووٹوں میں اکثریت  حاصل نہ کرسکے کیونکہ اس کا انحصار   صوبے کی گنجان آبادی ،  الیکٹورل  کالج کے  ووٹوں  میں اس  کے طے شدہ اعداد کے حصّے اور جس تناسب سے ایک امیدوار دوسرے سے جیتتا ہے،  پر ہوتا ہے۔

 

اس طرح سے انتخابی جائزے یا سروےمقبول ووٹوں پر تیار کیے جاتے ہیں نہ کہ  الیکٹورل کالج کے ووٹوں پر اور اس طرح سے مقبول ووٹوں کی اکثریت، الیکٹورل کالج کے ووٹوں کی اکثریت سے  ہو سکتا ہے میل نہ کھائے اور یہی واقعتاً ہوا ہے جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔ "کلنٹن نے 47.6 فیصد سے 60،556،142 کے اکثریت ووٹ حاصل کیے جبکہ اس نے 232 الیکٹورل کالج ووٹ حاصل کیے۔۔۔ٹرمپ نے 47.3  فیصد سے60،116،240 مقبول ووٹ حاصل کیے جو کہ کم تھے  لیکن  پھر بھی  اس نے 306 اکثریت الیکٹورل کالج  کےووٹ  حاصل کیے ۔۔۔"(2016 کے امریکی صدارتی انتخابات-8 نومبر 2016 )

 

دوسری جانب اس معاملے میں ایک امیدوار کا معاشی و سیاسی اثرو رسوخ بھی  اثرانداز ہوتے ہیں۔  ہر امیدوار  اچھے اور برے اعمال کو خاطر میں لائے بغیر اپنی توانائیاں سرف کرتا ہے اور  یہ سب  ووٹروں  کو کسی خاص سمت میں متحرک کرنے میں اثرانداز ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایف بی آئی کے ڈائریکٹر نے انتخاب  سے 11 دن قبل کلنٹن کے ای میل کے  استعمال کے بارے  میں ایک تفتیش کا اعلان کیا۔۔۔(بی بی سی عربی،13 نومبر2016) ۔ اس معاملے کا اثر انتخابات  پر پڑا  یہاں  تک کہ کلنٹن نے بیان دیا کہ "انتخاب سے کچھ دن قبل ان کی بحیثیت سیکریٹری آف سٹیٹ ای میل کے استعمال کے حوالے سے تفتیش کے اعلان نے  ان کی مہم کو کافی سیاسی نقصان پہنچایا"،  انہوں نے مزید  کہا" کومی کے خط نے شکوک پیدا کیے جن کی کوئی بنیاد نہیں تھی،  انہوں نے  بیان دیا کہ مجھ پر کوئی الزام نہیں لگنا چاہیے لیکن اس کا منفی اثر انتخابی نتیجے پر  پڑا"(بی بی سی عربی، 13 نومبر2016)۔

 

اس کے علاوہ ری پبلکن ایک  ماحول بنا رہے تھے کہ امریکہ کو بچانے کے لیے اس میں تبدیلی بہت ضروری ہے  کیونکہ ڈیموکریٹ  دور حکومت میں عالمی سطح پر امریکہ کی سیاسی و فوجی طاقت کا معیار گرتا نظر آ رہا ہے۔ مثلاً  ایک کتاب جس کو امریکہ کے سابق نائب صدر  ڈک چینی اور ان کی بیٹی سابق نائب  اسسٹینٹ سیکریٹری آف  اسٹیٹ لز چینی نے اپنی کتاب’Exceptional: Why the World Needs a Powerful America’  جس کے کچھ اقتسابات اپریل میں شائع ہوئے تھے (رائٹرز 8 اپریل 2016) اور جس کو انتخاب سے دو مہینے قبل ستمبر میں شائع کیا گیا ،اس  میں وہ  لکھتے ہیں"بدقسمتی سے آج جب  واضح اور حقیقی  دہشت گرد خطرے کا سامنا کررہے ہیں جو تیزی سے بڑھ رہا ہے ،صدر اوباما نے ہماری  طاقت کو  بہت زیادہ  کمزور کردیا ہے ،  اورامریکہ کے حلیفوں کو چھوڑ دیا  اور دشمنوں کی حوصلہ افزائی کی "۔ یہ سب معاشی حلقے، سیاسی اشرافیہ  کے اثرات اور ہر امیدوار کی  مخفی قوّت کے علاوہ ہے! اور پھر یہودی لابی کا استعمال تا کہ ان کے ووٹ جیتے جاسکیں ۔ یہودی اخبار  اسرائل ہا یوم(Israel HaYom) کو  5 نومبر2016  میں  شائع  ایک انٹرویو میں ٹرمپ نے  کہا کہ" یہودیوں  اور ان   کی  ریاست کےلیے اس کی محبت بہت عرصے سے ہے"۔ اس نے کہا"ہم اسرائل کا تحفظ کریں گے اور ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اسرائل اس علاقے میں ایک امّید کی کرن ہے اس لیے بہت اہم ہے"۔ ٹرمپ نے یہ بھی وعدہ کیا کہ وہ امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کریں گے۔

 

2۔  سرمایہ دارانہ ممالک میں انتخابی مہم بالخصوص امریکہ میں  امیدواروں کے 'کپڑے کھلے میں ٹانگنے' کے مساوی ہے کیونکہ ان کو  کسی بھی طرح کی رسوا کن چہ مگوئیوں ، توہین اور گالیوں کی پرواہ نہیں ہوتی اور  لوگ امیدواروں کے تمام نقائص اور گناہوں   کی تلاش میں لگے رہتے ہیں۔بحر حال اس بار  کی انتخابی مہم نے پچھلی تمام  مہمات کو پیچھے چھوڑ دیا اور یہ امیدواروں کی پست حالت کی طرف واضح اشارہ کرتا ہے اور ان  کے مبالغہ آمیز خطابات کے زوال  کو ظاہر کرتا ہے۔ اس مہم میں ذاتی الزامات، ساکھ پر شدید ترین سوالات اٹھائے گئے اور اس سے یہ ظاہر  تھا کہ  ان کے پاس  امریکہ کے بدتر ہوتے ہوئےمسائل کےلیے کوئی نئے خیالات  اور موثر حل موجود نہیں ہیں۔ ان کے لیے بس دو برائیوں میں سے کم برے کا انتخاب تھا ۔ یہ امریکہ کی حد  درجے کی پستی کو ظاہر کرتا ہے،  اس کی داخلی و معاشی مسائل اور بحران   اور  امریکی سماج  میں بڑھتی ہوئی تقسیم  کو ظاہر کرتا ہے جو کہ ٹرمپ کے تبصروں سے اور زیادہ سنگین ہو گیا ہے۔۔۔ ری پبلکن جماعت کے ایک رکن اور امریکہ کے سابق  سیکریٹری  کولن پاول  نے اپنے اس جماعت کے صدارتی امیدوار  کے متعلق  وضاحت کرتے  ہوئے کہا کہ  وہ ایک "قومی ذلّت  اور عالمی اچھوت ہیں"(بی بی سی عربی،14 ستمبر2016) ۔ دوسری طرف کچھ لوگوں کے لیے   ہیلری کلنٹن   ایک لاپرواہ اور صدارت کے لیے غیر موزوں امیدوار  سمجھی جاتی تھی۔ اس کا  ثبوت ان کا  اپنے ذاتی  ای میل  سرور سے سیکریٹری آف اسٹیٹ کی مدت ملازمت میں خفیہ معلومات کا ارسال کرنا ہے۔ ایف بی آئی نے  ہیلری کلنٹن  کی تفتیش کرنی شروع کر دی تھی(ان کی ای میل کے تعلق سے ، جب وہ  سیکریٹری آف اسٹیٹ تھیں۔۔۔ اور شعبہ عدلیہ اس بات پر غور کر رہا ہے کہ  کیا  اس  کا یہ عمل جرم کے زمرے میں آتا ہے ؟)(بی بی سی عربی 2جولائی 2016)۔ یہ سب امریکہ کی انحطاط پزیری کوظاہر کرتا  ہے جس کی گرفت   میں وہ  اب آنے  لگا ہے۔ ان دو کے علاوہ اور کسی   قابل قبول  امیدوار کا فقدان اپنے آپ میں امریکہ کےطے شدہ زوال کو ظاہر کرتا ہے۔'کپڑوں کو  کھلے میں ٹانگنا'فقرہ  ان سب باتوں سے  بخوبی  ظاہر ہوتا ہے۔

 

 جہاں تک ان بیانات کا عملی صورت اختیار کرنے کا تعلق ہے تو یہ بیانات اس لحاظ سے محض خالی خولی بیانات ہی  ہیں سوائے اس کے کہ یہ ری پبلکن  کے تکبّرانہ مزاج اور ڈیموکریٹک جماعت کے پر فریب انداز سے مطابقت رکھتے ہیں ۔ اس لیے انتخابات کے بعد انتخابی جملوں کو  کسی بھی امیدوار  کی  پالیسی کا معیار قرار نہیں دیا جا  سکتا۔ اس کو محسوس بھی کیا گیا ہے اور اس کا مشاہدہ بھی کیا گیا ہے جب اوباما نے چیخ چیخ کر اپنی  انتخابی مہم کی تقاریر میں گونٹانامو قید خانے کو بند کرنے   کا علان کیا تھا مگر دو بار صدر رہنے کے بعد بھی  وہ قید خانہ  ابھی بھی موجود  ہے! اور اب ٹرمپ نے بھی انتخاب جیتنے کے بعد اپنے بیانات کی تشریحات  کرنی  شروع کر دی ہے۔

 

۔ٹرمپ نےدسمبر 2015 میں مسلمانوں کے" امریکہ میں داخلے پرقطعی اور  مکمّل پابندی ،  ان کے مذہب کے نام  کے ساتھ شناختی کارڈ  کو رائج کرنے،ان کا ڈیٹابیس واضح کرنے اور مساجد  کی کڑی نگرانی کرنے"  کا مطالبہ کیا تھا۔ مگر بعد میں اپنے اس وعدے کے متعلق کہا کہ"یہ  ایک سفارش سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔۔۔"(الجزیرہ،11 نومبر2016)۔  لیکن یہ طے ہے کہ  وہ مسلمانوں کو اس طرح سے ڈراتا   دھمکاتا رہے گا بھلے ہی وہ ان مطالبات  کا نفاذ  نہ بھی کرے۔یہ بھی غیرمتوقع ہے کہ  ایران سے ہوئے نیوکلئیر سمجھوتے کو اس کے کہنے کے مطابق وہ ختم کر دے گا بلکہ  عوام کو  بے وقوف بنانے کے لیے اس نے ایسا کڑا رخ اختیار کیا ہے مگر وہ اس  بات کو بخوبی جانتا ہے کہ  ایران  امریکہ کے منصوبوں کے نفاذ کے لیے کتنا اہم ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کس طرح  سے اپنے اقوال کی تردید  کرتا ہے  یا اپنے حریف گروہوں  کو اپنی بیان بازی  سے خوف زدہ کرنا چاہتا ہے اور امریکی عوام کو گمراہ کرنا چاہتاہے اور ان کے جذبات کو مشتعل کر کے ان کو یہ احساس دلانا چاہتا ہے کہ وہ   ایسا کارنامہ انجام دے گا جو اس کے پیش رو آج تک نہ کر سکے۔ اس نے یہ طرز عمل دھوکہ دینے کے لیے اختیار کیا  ہے تاکہ امریکہ کی خامیوں اور اپنے منصوبوں کو نافذ کرنے سے قاصر ہونے کی کمزور ی پر پردہ ڈال سکے۔

 

۔ امریکی منتخب صدر  ڈونلڈ ٹرمپ نے سی بی ایس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ  امریکہ سے0 3 لاکھ  غیر قانونی تارکین وطن(immigrants )کو نکال باہر کرے گا۔۔۔ اس نے آگے کہا کہ"ہم  مجرموں اور مجرمانہ ریکارڈ  رکھنےوالے اشخاص ، گینگ ممبروں، منشیات کے تاجروں جو کہ   بہت  بڑی تعداد میں ہیں  شائد  20لاکھ یا 30 لاکھ کے قریب ہیں، ان کو حراست میں لیں  گے۔  ان کو اپنے ملک سے  نکال دیں گے یا پھر ان کو قید میں ڈال دیں گے۔ لیکن ہمیں انہیں ملک سے باہر کرنا ہے، وہ یہاں غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں"۔ ری پبلکن منتخب  صدر نے کہا  کہ ایک بار سرحدیں مضبوط ہو جائیں پھر امیگریشن (immigration)ملازمین امریکہ میں رہنے والے غیر دستاویزی تارکین وطن کا تعّین کریں گے۔۔۔میکسیکو اور امریکہ کے درمیان دیوار بنانے کے مسئلے پر  ٹرمپ نے کہا کہ جو دیوار وہ  میکسیکو کی سرحد پر بنانے کا ارادہ رکھتا ہے اس کا کچھ  حصّہ باڑ ھ پر مشتمل ہوسکتا ہے ، اس نے کہا "اس میں کچھ باڑ ھ ہو سکتی ہے اور باقی کچھ علاقوں میں دیوار بنانا ہی مناسب رہے گا اور میں اس میں بہت ماہر ہوں ۔۔ ۔ اسی کو تعمیر کہتے ہیں۔۔۔"(سی بی ایس، الہورہ،13 نومبر2016 )۔ صاف طور سے وہ اپنے بیانات  میں جوڑ توڑ کر رہا ہے؛ اسی  لیے  اس نے ملک بدر  ی  کے معاملے میں  30 لاکھ کہا پھر  اس کی تشریح کرنے کے لیے رجوع کیا اور کچھ  بیان سے خارج کیا اور دیوار  والے   مسئلے میں   کبھی  تھوڑی دیوار تو کبھی تھوڑی باڑھ   کی بات کی ۔۔ اس سے  واضح ہوتا ہے کہ دھمکی  اور  حملہ کرنا اس کا انداز  ہے اور جب چاہے وہ اس سے پیچھے بھی ہٹ سکتا ہے۔

 

۔ ٹرمپ نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ  "ناٹو اب منسوخ ہو چکی ہے" اور اس نے یہ بھی نکتہ ظاہر کیا کہ اگر ان پر روس  حملہ آور ہوتا ہےتو  واشنگٹن کی اپنے یورپی حلیفوں سے  وابستگی اتحاد(alliance) کے  بجٹ   کے لیے     مالی  شراکت پر مشروط ہوگی(اے ایف پی، الخلج اخبار،11 نومبر2016)۔

اسی دوران موجودہ امریکی صدر  باراک اوباما نے کہا: "ٹرمپ نے انہیں بتایا کہ وہ  ایک مضبوط اور پائیدار  ناٹو اتحاد کے لیے پابند رہیں گے۔۔۔(بی بی سی، 14 نومبر2016)۔

 

3۔  جہاں تک  اہم معاملات میں سابق صدر کے دور میں بنائیں گئیں پالیسیوں میں تبدیلی کا سوال ہے تو اس کے  موٹے موٹے خدوخال تو کسی طور پر بدلنے کی توقع نہیں ہے لیکن انداز اور طریقے میں تبدیلی آسکتی ہے۔ امریکی نظام کئی اداروں کی گرفت میں ہے اور ہر ادارے کی  طاقت گھٹتی اور بڑھتی رہتی ہے، مثال کے طور پر صدر اور اس کی انتظامیہ، پنٹاگون، کانگریس، نیشنل سیکیورٹی کونسل اورسیکیورٹی سروسز۔۔۔۔۔۔اور اس کا اثر امریکی پالیسی کے خاکے کو بنائے رکھنے میں  پڑتا ہےجو کہ مختلف انداز اور طریقوں کے باوجود بھی مستقل رہتی ہے۔ اس بات کی وضاحت کرنے کے لیے میں شام پر بات کرو ں گا  جس کے متعلق سوال میں پوچھا بھی   گیا ہے:

 

۔ اوباما بشار کی تائید کرتے ہیں  مگر اس کو کھلے طور پر  نہیں کہتے۔۔ بلکہ وہ یہ   کہتے  ہیں کہ  شام  میں بشار کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔۔۔بشار سے کوئی  گفت و شنیدنہیں ہو سکتی۔۔۔ہمیں بشار سے گفت و شنید کرنے میں کوئی  اعتراض  نہیں  ہے لیکن عبوری دور میں  اس کی موجودگی نہیں ہوگی۔۔۔ ۔ عبوری دور میں اس کی موجودگی پر کوئی  اعتراض نہیں لیکن  اس کے بعد شام کی حکومت  میں اس کا کوئی کردار نہیں  ہے۔۔۔ اور آخر  میں  اوباما نے کہا کہ  وہ بشار کے صدارتی  انتخاب میں  حصّہ  لینے پر معترض  نہیں    ہیں!! جبکہ ٹرمپ بے باکی سے کہتا ہے؛ بشار دہشت گردی سے  لڑ رہا ہے اس لیے  وہ ایک فعال جز ہے اور ہماری   فوقیت  دہشت گردی کا استحصال ہے نہ کہ بشار کا۔ گارجین اخبار نے کہا کہ ٹرمپ نے  زور  دے کر کہا کہ   روس اور شام   کااتحاد  داعش کو شکست دینے کے لیے  ایک لائق ترجیہ پالیسی ہے تاکہ  شام  کے بحران سے  نپٹا جا سکے۔ٹرمپ کو وال اسٹریٹ جنرل میں ایک بیا ن دیتے ہوئے سنا گیا کہ وہ اسد کو بالکل پسند نہیں کرتا" لیکن  شّدت پسندی جو کہ وہاں کی خانہ جنگی میں پروان چڑھی ہے جس سے امریکہ کو خطرہ ہے،  اس    کے خاتمے کے لیے اس کی حکومت کو مستحکم کرنا اشد ضروری ہے"(الجزیرہ13 نومبر2016)۔ جولائی میں نیو یارک ٹائمز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں  ٹرمپ   نے  اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا" میں یقین رکھتا ہوں کہ بشار  سے چھٹکارا پانے سے پہلے  ہمیں داعش کو ٹھکانے لگانا ہوگا"۔ جہاں تک اس کے انتخابی بیانات میں کیے گئےاس  وعدے  کا تعلق ہے کہ وہ دسیوں ہزاروں امریکی سپاہیوں کو  شام اور عراق میں   داعش سے جنگ کرنے کے لیے بھیجے گا تو  اس  نے اس کے بارے میں کہا کہ وہ ان کے ساتھ  ناٹو  افواج کو بھی   بھیجے گا۔۔۔نیوز ایجینسیوں نے ٹرمپ کے  تبصروں کو بیان کیا کہ اس نے کہا "ہم فوجی طاقت اسی صورت میں  استعمال کریں گے جبکہ امریکہ کی قومی  حفاظت  کو  یقینی بنانا ہمارے نقطہ نظر سے بہت اہم ہو جائے"۔  یہی وہ چیز ہے جو ہر سلف و خلف امریکی صدر کہتا  آیا ہے اور ان کو  قومی حفاظت کے بودے بہانے کی خاطر کسی بھی ملک پرظالمانہ  حملہ کرنے میں  کوئی تامّل نہیں رہا  چاہے وہ کھلم کھلا جھوٹ پر ہی مبنی کیوں نہ ہو!۔

 

۔ اوباما نے موثر ہتھیاروں کی رسد شامی اپوزیشن کو اس ڈر سے روکے رکھی کہ کہیں  یہ دہشت گردوں کے ہاتھ نہ لگ جائے۔۔۔۔۔اور ٹرمپ اوّلاً شامی اپوزیشن کو ہتھیار دینے کا مخالف ہے اور اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ وہ  دہشت گردوں کے ہاتھ لگیں گے یا نہیں۔ گارجین  اخبار نے  لکھا کہ ٹرمپ نے ظاہر کیا کہ   وہ شام میں مسلح شامی اپوزیشن کو ، ان کی مدد کی درخواست کے باوجود، ا ن کو دی گئی  تائید و تعاون کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے(الجزیرہ13 نومبر2016)۔

 

۔ اوباما نے یورپ کو بھی  شام کے مسئلے  میں مداخلت سے خارج رکھا ، اسی طرح  اس نے لوسین کو  بھی  اس سے خارج کیا لیکن دوسرے دن ان کی خوشنودی کے لیے ان سے ملاقات کرتا ہے     لیکن اس ملاقات کے نتیجے میں یو رپ کا کردار نہ تو آگے بڑھتا ہے اور نہ ہی ان کا غصہ کم ہوتا ہے ۔ لیکن ٹرمپ یورپ کی خوشنودی کی  پرواہ نہیں کرتا  بلکہ وہ یورپ کو بری طرح سے ڈانٹ پلاتا ہےاور  ان کی ناراضگی کی شدّت کے باوجود ان کے  ردّ عمل کی پرواہ نہیں کرتا۔ فرانس کے صدر ہولینڈ نے ٹرمپ کے بارے میں کہا"وہ  ہم سب کو ابکائی دلوانا چاہتے ہیں"۔  اور برطانیہ کے  خارجہ سیکریٹری   بورس جانسن نے اس کا   حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ" وہ بالکل دماغ سے خالی ہیں"۔ اٹلی کے وزیر اعظم رینزی  ٹرمپ کو  ایک ایسا آدمی سمجھتے ہیں جو"ڈر کی پالیسی میں یقین رکھتے ہیں"۔  یورپ کی پارلیمینٹ کے  صدر  مارٹن شلز نے کہا" ٹرمپ صرف ای یو کے لیے  نہیں بلکہ پورے عالم کے لیے ایک مسئلہ ہیں"(اشرق الاسوت11 نومبر2016) ۔ جرمنی کی وزیر دفاع ارسلا ون در لین  نے11 نومبر 2016   کو جرمن  ٹی وی  ZDFکے ذریعہ ٹرمپ کو مخاطب کرکے اُس کے اِس بیان کہ "اگر ان پر روس  حملہ آور ہوتا ہےتو  واشنگٹن کی اپنے یورپی حلیفوں سے  وابستگی اتحاد(alliance) کے  بجٹ   کے لیے     مالی  شراکت پر مشروط ہوگی" کے  بارے میں کہا کہ "یہ ایک ایسی چیز نہیں ہے کہ کوئی کہہ سکے کہ ماضی میرے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔۔جن اقدار کے ہم خوگر ہیں وہ میرے لیے بے معنی ہیں۔۔بلکہ  اس سے(NATO) جتنا ہو سکے پیسہ  نکلوا لیں۔۔ناٹو کوئی تجارت نہیں ہے نہ ہی یہ کوئی   کمپنی ہے۔۔۔"

 

شام پر ظالمانہ حملوں کے لیے اوباما روس پر انحصار کرتا ہے لیکن ساتھ ہی  اس نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ ان جارہانہ حملوں کے خلاف ہے۔یہ معاملہ چالبازی اور دھوکے کے مترادف ہے مگر ٹرمپ دن دہاڑے روس پر انحصار ظاہر کرتا ہے اور پوٹن کو  اپنے صدر اوباما اور اپنی حریف کلنٹن سے بھی آگے رکھتا ہے! وہ کہتا ہے کہ" پوٹن ہمارے صدر اوباما  سے کہیں پہلے سے ایک قائد رہے ہیں"(بی بی سی14 نومبر2016)۔۔۔ٹرمپ نے آگے یہ بھی کہا کہ پوٹن نے کلنٹن سے زیادہ ہوشیاری دکھائی۔۔انہوں نے کلنٹن کو شام میں مات دے دی۔۔۔(عربی اسکائی نیوز،20 اکتوبر2016)۔اس لیے اوباما اور ٹرمپ دونوں امریکہ کے مفاد کے تحفظ کے لیے  روس سے مراسم رکھنا چاہتےہیں بس  دونوں کے طریقہ کار الگ ہیں اور اس مقصد کو حاصل کرنے میں  روس کی ایک یورپی یا  مغربی ملک بننے کے  احساس کمتری اور اور پھر سے اپنی کھوئی ہوئی عظمت حاصل کرکے ایک عالمی طاقت بننے کی خواہش  نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ٹرمپ کی جیت پر روس  کی پارلیمینٹ  خوشی سے جھوم اٹھی،  جو کہ روس کی احمقانہ روش کو ظاہر کرتا ہے۔

 

مزکورہ بالا نکات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کی موٹی  موٹی پالیسیوں پر ری پبلکن اور ڈیموکریٹ  جماعت کے مابین کوئی فرق واقع نہیں ہوتا اور اختلاف صرف انداز و طریقہ کار کا ہوتا ہے۔

 

4۔ پالیسیوں کے موٹے موٹے خدوخال میں اتفاق لیکن  انداز و طریقہ کار  میں اختلاف کی وجہ کو دونوں جماعتوں  کے ظہور کے پس منظر سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ری پبلکن پارٹی ڈیموکریٹ کےاُس کے بارے میں اِس تاثر کی پرواہ نہیں کرتی کہ وہ بڑا بول بولتی ہے،  بلکہ وہ ایک بے دھڑک کاؤ بوائے مزاج کے  زیر اثر رہتی ہے جو کہ خود پسندی اور تکبّر سے بھرا ہے اور وہ اسی  ماحول سے  نکلی ہے  اورجو اب بھی اس میں  موجود ہے ۔ اور یہ کاؤ بوائے بے دھڑک مزاج اُسی میں نظر آتا ہے جو اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتا ہے، دوسرے کو مارتا اور قتل کرتا ہے،ادھر ادھر اڑتا پھرتا ہے، کسی چیز کو برباد کرتا ہے اور کسی کو چراتا ہے اورنہ  اس کی کوئی مخالفت  کر سکتا ہے اور نہ ہی کوئی  چیلنج بلکہ سب اس کے سامنے چپ اور سر تسلیم خم کر دیتے ہیں۔ نہ ہی وہ معصوم لوگوں کے قتل عام کے جرائم کی کوئی پرواہ کرتا ہے، جو کہ ان کے ملک میں رائج ہے، اور وہ اسلحہ سے محبت کرتے ہیں اور اس  کو شوقیہ استعمال  کرتے ہیں۔پیر کے دن امریکی سینیٹ  نے ڈیموکریٹ جماعت  کی   اس تجویز کو مستردکر دیا جو  ان افراد کے متعلق تفتیش کی اجازت دیتی جو مجرمانہ اور نفسیاتی مسائل کے حوالے سے تاریخ رکھتے ہیں جب  وہ  انفرادی اسلحہ کو خریدنے  میں دلچسپی ظاہر کریں ۔۔۔(اور ری پبلکن نے اس قدم  کے خلاف پیرکے دن 20/06/2016 کو ووٹ دیا ، جو کہ ڈیموکریٹ سالوں سے منظورکرنا چا ہ رہے تھے اورووٹوں کا  نتیجہ 44 موافقت میں اور 56 اس تجویز کے خلاف تھا۔۔۔)( Russia Today 21/06/2016)۔ اس طرح سے ری پبلکن اسلحہ رکھنے کے حوالے سے قوانین بنانے کی پرواہ نہیں کرتےکیونکہ اسلحہ کے صنعت کار وں اور اس کے ڈیلروں کی لابی کا کنٹرول  ری پبلکنز پر ہے۔۔۔ اس نقطہ نظر سے ٹرمپ کا انداز ظاہر ہوتا ہے،  کیونکہ یہ اس آدمی کا انداز ہے جو اپنے آپ کو اور اپنے ملک کو  طاقت ور دکھانا چاہتا ہے اور اس کی عظمت کو  دھمکیوں اور  بے جا مطالبوں سے دوبارہ حاصل کرنا چاہتا ہے،بھلےہی وہ اس کا نفاذ کرے یا نہ کرے  اور پھر پلٹ جاتا ہے  اور  کسی اور طریقے کی طرف رجوع کرتا ہے۔ یہ اس لیے کیونکہ  وہ ویسا ہی ہے جیسا کہ اس نے اپنے بارے میں کہا" میں ناقابل  پیشن گوئی  لگنا چاہتاہوں"(رائیٹرز 10 نومبر2016)۔ اس لیے وہ  دوسروں کو دھمکانے پر ہی اکتفا کرے گا تاکہ وہ امریکی پالیسی کو  قبول کر لیں یا اس کے سامنے ہتھیار ڈال دیں یا اس کی مخالفت کرنا چھوڑ دیں ، لہٰذا اس کے تبصرے چاروںسمتوں میں  گھومتے ہوئے آئے ہیں۔ مسلمانوں اور اسلام  سے اس کی دشمنی بالکل واضح تھی۔۔۔یہی چیز اس نے چائنا اسکوائر میں بھی  دہرائی۔۔اور جنوبی کوریا ، سعودی عرب اور ایران میں بھی اس کے پیروکار اس سے محروم نہ رہے اور اس نے  یورپ کو اکساتے ہوئے اس  کی   شدید  طور سے مذمت کی  جیسے کہ وہ یہ  جان بوجھ کر کر رہا ہو۔ یہ اس کے متکّبرانہ روش کے تعلق سے ہے۔۔۔ لیکن وہ  ایک  شاطر تاجر کے  انداز میں بھی کام کرے گا اور دوسرے ممالک کو بلیک میل  کرے گا اور دوسروں  کو جیت کر ان سے امریکہ کو اس کی قیمت دلوائے گا۔ اس لیے  اس کے یہ تبصرے سامنے آئے:

 

۔ سعودی عرب ایک مالدار ملک ہے  اور  ہم سے جو وہ سیاسی اور حفاظتی  مدد حاصل کرتے ہیں اس کے بدلےمیں انہیں ہمیں    قیمت چکانی چاہئے۔ اس نے کہا"بہت جلد سعودی عرب ایک بڑی مشکل میں پڑنے والا ہے اور انہیں مدد کی ضرورت پڑے گی،  اگر ہم نہیں ہوتے  تو ان کا وجود دشوار ہوتا"(NBC TV 19اگست2016)۔ یہ بات اس نے سعودی عرب کو بلیک میل کرنے کے  لیے  کی اور امریکہ اسی وجہ سے سعودی عرب کی ساری رقم اپنے یہاں جمع کراتا ہے خاص طور سے اب جب کانگریس نے گسٹا قانون پاس کر دیا ہے  جو کہ  سعودی عرب کو مجبور کرتا ہے کہ وہ  نیویارک میں 09/ 11 میں   ورلڈ ٹریڈ سینٹر  پر ہوئے  حملے میں ہلاک ہونے والے امریکیوں کو  معاوضہ دے۔

 

۔ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا کہ  وہ جنوبی  کوریا میں تائینات امریکی فوجیوں کو واپس  بلانا چاہتا ہے کیونکہ  ان کی تائیناتی پر آنے والی لاگت کے   ایک بڑے حصّے کی رقم جنوبی کوریا نے  ادا نہیں کی ہے جن کی  کل تعداد 28500 ہے ۔

 

۔ اس نے یورپ کو ناٹو بجٹ میں زیادہ رقم ادا کرنے کے لیے کہا اور  ناٹو کو متروک بھی قرار دیا اور یہ بھی کہا کہ" اگر ان پر روس  حملہ آور ہوتا ہےتو  واشنگٹن کی اپنے یورپی حلیفوں سے وابستگی اتحاد(alliance) کے بجٹ کے لیے مالی شراکت پر مشروط ہوگی"(AFP Khaleej Newspapaer,11/11/2016 )۔

 

- آب و ہوا((climate کے متعلق اس نے کہا "آب و ہوا کے ضوابط عالمی بازار میں کمپنیوں کو کم مسابقتی بنا رہے ہیں اورآب و ہوا  میں ہونے والی تبدیلیوں کو  ایک مذاق قرار دیا"۔ لہٰذا ٹرمپ اس حد تک معاشی بلیک میل کرنا چاہتا ہے اور اپنے موکلوں اور پیروکاروں کو بھی اس سے باہر نہ رکھنے کی اس کی کوشش روز روشن کی طرح ظاہر ہے۔

 

5۔جبکہ ڈیموکریٹک جماعت دھوکے میں مبتلا  ہو کر اپنے آپ کو جھوٹے جمہوری تاثرات میں ظاہر کرنا چاہتی ہے اور انگریزی تہذیب کی نقل  کرتی ہے۔ یہ زہرکو    شیرینی میں لپیٹ کر دینا چاہتی ہے اور آپ کو مسکرا کر قتل کر دینا چاہتی ہے جب کہ ری پبلکن جماعت براہ راست زہر پلانا چاہتی ہے اس لیے اس کو زبان پر رکھتے ہی آدمی دم  توڑ دیتا ہے۔۔۔اس لیے ڈموکریٹک صدر زیادہ بہتر ڈھنگ سے سادہ لوح  عوام کو بے وقوف بنانے اور ان کا بھروسہ جیتنے  میں کامیاب ہو جاتے ہیں جبکہ ری پبلکن  صدر کسی کو دھوکا نہیں دیتے  کیونکہ  وہ اپنی   دشمنی  کا کھلے عام اظہار کرتے ہیں۔دونوں جماعتوں کے صدور کی قریب  کی تاریخ  سے  مثالوں کا جائزہ لینے سے لوگوں کے لیے ان کے وژن (vision)  کا ادراک  ہو جاتا ہے؛  ری پبلکن جماعت کے  ریگن ، نکسن، بش  سینیر اور جونیر  کی متکبّرانہ روش   اور اسلام و مسلمانوں سے  ان کی  اشتعال انگیز جارہانہ عداوت  سب کے سامنے عیاں ہے۔۔۔اورڈیموکریٹک جماعت کے  کینیڈی ، کارٹر، کلنٹن اور اوباما کی  اسلام اور مسلمانوں کے لیے دل فریب چالبازی،  دھوکا، عیّاری اور  مصنوعی دل جوعی شفّاف آیئنے کی طرح ظاہر ہے۔ بش صاحب صلیبی جنگ کا حوالہ دیتے ہیں جب کہ کلنٹن قاہرہ میں قران   کی آیت سناتے ہیں۔۔۔ اور دونوں ہی اسلام کے خلاف منصوبہ بندی کررہےہوتے ہیں۔۔۔! اسی طرح کی بات ہم نے پہلے بھی  کہی ہے کہ" اس لیے ڈیموکریٹک صدر  زیادہ بہتر ڈھنگ سےسادہ لوح  عوام کو  بے وقوف بنانے اور ان کا بھروسہ جیتنے  میں کامیاب ہو جاتے ہیں جبکہ ری پبلکن  صدر کسی کو دھوکا نہیں دیتے  کیونکہ  وہ اپنی   دشمنی  کا کھلے عام اظہار کرتے ہیں۔

 

6۔یہاں تک کہ دونوں جماعتوں کے نشان(logo) میں بھی  پوشیدہ معنی کے لحاظ سے  فرق ہے اور اس میں ہمارا اوپر کا تجزیہ بالکل موزوں نظر آتا ہے۔جب سے امریکی کارٹون نگار  (نسلاً جرمن) تھومس ناست نے(1870 اور1874) ہارپر میگزین میں ایک تصویر شائع کی تھی  جس میں ایک گدھا شیر کی کھال پہن کر دوسرے جانوروں کو ڈرا رہا تھا، اسی میں بہت بڑا ہاتھی تھا جو اپنے اطراف کی چیزوں کو توڑ کر تباہ کر رہا تھا۔۔۔تب سے گدھا ڈیموکریٹک جماعت کا نشان(logo)بن گیا اور ہاتھی ری پبلکن جماعت کا نشان(logo)بن  گیا اور یہ دو نشان دونوں  پارٹیوں کی  اصلیت کی عکّاسی کرتے ہیں۔ لہٰذا اس   تصور پر مبنی دو  تصاویر کو 2008 کے انتخابی مہم میں خوب اچھالا گیا تھا   جس میں پہلی تصویر میں  ڈیموکریٹ جماعت  کے نشان  کی  عکّاسی کرتے ایک گدھا دکھایا گیاجس پر  ہلیری کلنٹن کی علامت  میں  زرد رنگ کا لباس پہنے ایک عورت بیٹھی ہے اور اس کے پیچھے  نوجوان باراک اوباما کی علامت میں ایک سیاہ رنگ کا آدمی چل رہا ہے اور دونوں ہی اس گدھے کو  لمبی  لکڑی  کی نوک پر بندھی ایک گاجر دے رہے ہیں جو کہ  اس وقت ہونے والے انتخاب میں جو ڈیموکریٹک جماعت  کی   گاجر اور جھڑی (carrot and stick )کی  حکمت عملی کا اظہار تھا۔ اس کے بر عکس اسی  انتخابی مہم میں ایک اور تصویر شائع ہوئی جس میں  دو امّیدواروں کو نمایاں کیا  جس میں جان میک کین (John McCain) اور مٹ رومنی(Mitt Romney)، دونوں ری پبلکن امیدوارایک ہاتھی پر سوار ہیں(پارٹی کے نشان کی نمائندگی کرتے ہوئے) اور دونوں دقیانوسی ری پبلکن سیاست جو کہ "سخت گیری اور زور آوری" پر  اعتماد  رکھتی ہے کو ظاہر کرتے ہوئے اس  ہاتھی کو لکڑیوں سے پیٹ رہے ہیں ۔

 

اس طرح سے ٹرمپ کے اقوال واعمال ری پبلکن امید وار کےتعلق سے کوئی نئی بات نہیں ہے سوائے ان  انفرادی خصوصیات کے جو ایک آدمی کو دوسرے سے علیحدہ کرتی ہیں مگرری پبلکن جماعت کی  کچھ عمومی خصوصیات تقریباً سبھی امیدواروں کے مابین  ان کے کچھ انفرادی خاصیتوں کو چھوڑ کر کم و بیش ایک سی رہتی ہیں جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے۔

 

خلاصہ:

ا۔ سابقہ صدر کے زمانے میں اسلام اور مسلمانوں اور خصوصاً شامی بحران کے حوالے سے بنائی گئی امریکی پالیسی میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئے گی چاہے صدر ڈیموکریٹک جماعت  کا ہو یا ری پبلکن جماعت کا  کیونکہ امریکہ کی پالیسی کو بنانے میں  اداروں کا دخل ہوتا ہے  جن کا اپنا اثر گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔

 

ب۔ انتخابی بیانات عالمی تعلقات یا بیرونی مسائل کے حل کے عملی نفاذکے پیمانے نہیں ہوتے۔

پ۔ امریکہ روس کا استعمال مسلمانوں کے خلاف جنگ میں کرتا رہے گا  جنہوں نے ان کے نظام اور حکومتوں  کے خلاف بغاوت کی ہے۔اس کے علاوہ یورپ کو روکنے کے لیے بھی اس کا استعمال  کر تا رہے گا کیونکہ وہ باغی یورپینز کو بھی روکنا چاہتا ہے اور  یورپ کو اپنا چھوٹا بھائی اور خود کو ان کا بڑا بھائی  سمجھتا ہے اور نہیں چاہتا کہ   اس کے منصوبوں اور پالیسیوں میں یورپ تبدیلی لانے کی کوشش کرے اور اس کی مرضی کے خلاف  وہ اس کے زیر اثر علاقوں میں مداخلت کرے یا  اس کی مرضی اور زیر نگرانی سے ہٹ  آزادنہ کام کرے اور اسے ایک آزاد سیاسی، فوجی اور معاشی قوت بننے سے روکنا چاہتا ہے۔

 

ت۔نئی انتظامیہ کے طریقہ کار میں ڈرانا ، دھمکانا ، مذاق بنانا  اور اپنے دشمنوں پر حملہ آور ہونا اور خود پسندی اور تکبّرانہ رویّے کو اپنانا شامل ہے۔دوسرے ممالک کے لیے سب سے بہتر حکمت عملی یہ ہوگی کہ وہ نہ تو اس کے دباؤ کے آگے سر جھکا  ئیں اور نہ ہی اس کی دھمکیوں سے ڈریں کیونکہ اس کے نزدیک ہنگامہ خیز حالات پیدا کرنے کے علاوہ اور کچھ مقصود نہیں ہے۔ اس کی جگہ انہیں اس کی مخالفت میں پیش قدمی کرنی چاہیے اور اس کے خلاف کام کرکے  علاقے سے اس کے اثر و تسلط کو ہٹانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ یہ اس لیے کیونکہ جب امریکہ  بش جونیر کے وقت  میں اپنے شباب پر تھا، فرانس نے امریکہ کے خلاف  دوسرے ممالک سے مل کر ایک محوربنایا تھا اور اس کا امریکہ پر  کافی حد تک اثر بھی  پڑا تھا تو اب ایسا کیوں نہیں ہوسکتا  جبکہ وہ پستی کی طرف مائل ہے؟!

 

ٹ ۔ایسا لگتا ہے کہ  ٹرمپ کی قیادت میں امریکی انتظامیہ  جبری پیسہ وصولی کا استعمال کرکے ممالک  کو زبردستی پیسہ دینے کے لیے مجبور کرے گی کیونکہ   سوائے اس کےاس کے پاس اور کوئی چال   نہیں بچی ہے۔ اس معاملے میں  ممالک کو اس کی بلیک میلنگ کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالنے چاہیے اور عوام کو اس کے خلاف اکسانا چاہیے۔

 

ث۔امریکہ کے گلے کی سخت پھانس بنے اسلامی امّت  کے باغیانہ روش  رکھنے والے لوگ جو کہ اس کے لیےبہت ہی  برا   خواب  بنے ہوئے ہیں اور اس کی نیند حرام کر رہے ہیں انہیں اپنی جدّوجہداور انقلاب  جاری رکھنا چاہیے تاکہ وہ امریکہ اور دوسرے نوآبادیاتی(colonial)طاقتوں پر اللہ کے اذن سے فتح حاصل کریں۔ انہوں نے  امریکہ کی ناک عراق کی ریت میں اورافغانستان کی خاک میں رگڑ دی ہے۔۔۔ اور انہیں پتہ ہونا چاہیے کہ امریکہ مکڑی کے جالے سے بھی کمزور ہے،  وہ تھک چکا ہے اور تباہی کے راستے پر ہے، اور گرا ہی چاہتا ہےبحرحال امّت  کو امریکہ کے پٹھّووں (agents) ، مقتدین اور ماتحتین سے ہوشیار رہنا چاہیے ، کیونکہ  وہ  مسلم زمینوں میں امریکہ کے لیے دروازے ہیں۔۔۔ اور امّت کو  باشعور  ،مخلص لوگوں  کی طرف رجوع کرنا چاہیے جو  اس کی  اللہ کے اذن سے نجات، آزادی  اور عظمت کی طرف قیادت کریں اور اس کو انہی پر شکوہ ستونوں کی طروف  واپس لائیں :

 

كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۗ

" تم بہترین امّت ہو جو کہ لوگوں کے لیے نکالی  گئئ ہے ، کہ تم  بھلائی کا  حکم دیتے ہواور برائی سے روکتےہو اور اللہ  پر ایمان لاتےہو"(آل عمران:110)

 

«۔۔۔۔۔ثُمَّ تَكُونُ جَبْرِيَّةً، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ»

رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا"۔۔۔پھر ظالمانہ حکومت ہوگی اور وہ تب تک چلے گی جب تک اللہ چاہے پھر وہ اسے اٹھا لے گا جب وہ چاہے گا۔ پھر  نبوت کے نقش قدم پر خلافت ہوگی"( روایت ابو داود تیالسی)۔ اور یہ اللہ کے لیے کوئی  بڑا کام نہیں۔

 

18 سفر 1438 ہجری

18 نومبر2016عیسوی                

Last modified onجمعہ, 09 دسمبر 2016 03:01

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک