الجمعة، 13 ربيع الأول 1447| 2025/09/05
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

سوال کا  جواب

امریکی حکمتِ عملی اور دو  ریاستی حل

(ترجمہ)

سوال:

ہم جانتے ہیں کہ اسلامی ممالک کے قلب میں یہودی ریاست کو مضبوط کرنے سے متعلق امریکی حکمت عملی زیادہ تر دو ریاستی حل پر مبنی رہی ہے۔ لیکن ٹرمپ کے دور میں اس سے پسپائی شروع ہوئی یا کم از کم اس پر خاموشی اختیار کر لی گئی، جس نے اسے ایک سوالیہ نشان بنا دیا۔ مثال کے طور پر، ٹرمپ نے کہا:  (جب میں مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ دیکھتا ہوں، مجھے اسرائیل بہت چھوٹا نقطہ معلوم ہوتا ہے۔ دراصل، میں نے کہا: کیا زیادہ جگہ حاصل کرنے کا کوئی طریقہ ہے؟ یہ بہت چھوٹا ہے…)  (سکائی نیوز، 19/8/2024)۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کا دو ریاستی حل کا منصوبہ مر چکا ہے اور اس کا معاملہ ختم ہو گیا ہے یا یہ ابھی باقی ہے؟  شکریہ

جواب:

وضاحت کے لیے مندرجہ ذیل نکات پیشِ نظر ہیں:

 

1۔ سن 1959 میں، آئنزنویر کے دورِ صدارت  کے اختتام کی جانب، امریکہ نے اپنا دو ریاستی حل کا منصوبہ اختیار کیا، جسے یوں خلاصہ کیا جا سکتا ہے:   (یہودی ریاست کی حمایت اور اس کا تحفظ، اور اس کے ساتھ فلسطینیوں کے لیے ایک ریاست کا قیام۔۔۔۔)    اس تناظر میں، خطے میں اس کے ایجنٹس، خاص طور پر مصری نظام، اس منصوبے پر عمل کے لیے متحرک ہوئے۔ اسی مقصد کے لیے تنظیم آزادیٔ فلسطین (PLO) تشکیل دی گئی۔    تاہم، برطانیہ نے اردن کی حکومت  کے ذریعے اس منصوبے کی سخت مخالفت کی، اور اس کے بجائے یہ تجویز دی کہ  ایک سیکولر فلسطینی ریاست قائم کی جائے  جس پر یہودیوں کا غلبہ ہو، بالکل لبنان کی سیکولر ریاست کی طرز پر جس پر عیسائیوں کا کنٹرول ہے۔

2۔ اس وقت مغربی کنارہ اردن کے ماتحت تھا، اور غزہ مصر کے ماتحت۔ لیکن جب جون 1967 میں ایک نمائشی جنگ کے نتیجے میں مغربی کنارہ، غزہ، سیناء اور وادیِ گولان یہودی وجود کے قبضے میں چلے گئے، تو بات چیت اب فلسطینی ریاست کے قیام پر مرکوز نہیں رہی، بلکہ سلامتی کونسل کی قرارداد 242 کی بنیاد پر ان مقبوضہ علاقوں سے یہودی ریاست کے انخلا پر ہونے لگی۔۔ چنانچہ امریکہ نے فلسطینی مسئلے کو ایک طرف رکھ دیا اور ایک تحریکی جنگ کی تیاری شروع کر دی۔ یہی پس منظر تھا اکتوبر 1973 کی جنگ کا، جس کا مقصد نام نہاد امن عمل کو متحرک کرنا تھا۔ چنانچہ مصر کے صدر انور السادات کی قیادت میں ستمبر 1978 میں کیمپ ڈیوڈ معاہدہ طے پایا، جس کے تحت یہودی ریاست نے سیناء سے پسپائی اختیار کی، مگر شرط یہ رہی کہ وہ علاقہ غیر مسلح رہے گا تاکہ بطورِ  بفر زون یہودی وجود کی سرحد  کا تحفظ کرے۔ اور آج تک وہ علاقہ اُسی حالت میں ہے، حالانکہ غزہ میں یہ مجرمانہ وجود نسل کش جنگ برپا کیے ہوئے ہے، اور وہ جنگ سیناء کی سرحدوں تک پہنچ چکی ہے!!

 

   اس کے بعد، امریکہ شمالی محاذ کی طرف متوجہ ہوا اور یہودی وجود کو 1982 میں لبنان پر حملہ کرنے کی ہدایت کی تاکہ وہاں سے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کو نکال باہر کیا جائے اور اسے یہودی وجود کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ امن معاہدہ کرنے پر مجبور کیا جائے۔ چنانچہ تنظیم کے چیئرمین یاسر عرفات نے 25/7/1982 کو اس دستاویز  پر دستخط کیے، جسے میکلوسکی دستاویز کے نام سے جانا جاتا ہے، جس میں اس نے کہا: "تنظیم اب اسرائیل کے وجود کے حق کو تسلیم کرتی ہے"۔ 1988 میں، عرفات نے الجزائر میں منعقد ہونے والی فلسطینی قومی کانفرنس میں، اور اسی طرح نیویارک میں اقوام متحدہ کے سامنے ایک اجلاس میں، فلسطینی ریاست کے قیام کی منظوری کا اعلان کیا۔ اس کے بعد برطانیہ اور اس کا ایجنٹ، اردن کا بادشاہ، مغربی کنارے سے علیحدگی پر آمادہ ہو گئے۔

 

4۔ اس کے بعد،امریکہ نے 1991 میں میڈرڈ کانفرنس منعقد کی تاکہ دو ریاستوں کے حل کے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی راہ ہموار کی جا سکے۔ پھر 1993 میں اوسلو معاہدہ طے پایا جو تنظیمِ آزادیِ فلسطین اور یہودی ریاست کے درمیان ہوا، جس کے ذریعے تنظیم نے باضابطہ طور پر یہودی ریاست کو تسلیم کیا۔ اسی طرح 26 اکتوبر 1994 کو وادی عربہ معاہدہ ہوا، جو یہودی ریاست اور اردن کے درمیان تھا، جس کے نتیجے میں اردن نے مغربی کنارے پر اپنا حق چھوڑ دیا اور یہودی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ امریکہ نے ان دونوں معاہدوں کو اپنے دو ریاستی حل کے منصوبے کو نافذ کرنے کے لیے استعمال کیا۔ 2008 کے آخر میں بش کے دو سرے دور کے خاتمے کے بعد، اوباما واشنگٹن میں برسر اقتدار آیا۔ اس نے 2/9/2010 کو فلسطینی اتھارٹی اور یہودی وجود کے درمیان امریکی سرپرستی میں براہ راست مذاکرات کا مطالبہ کیا، اس امید پر کہ ایک سال کے اندر دو ریاستی حل نافذ ہو جائے گا۔ لیکن مذاکرات کسی معاہدے تک پہنچے بغیر ختم ہو گئے۔

 

5۔ عنی 2016 کے آخر میں اوباما کا دوسرا  دور ختم ہوا اور2017 کے آغاز میں ٹرمپ اقتدار میں آیا اور اپنی پہلی مدت مکمل کی،پھر وہ انتخابات ہار گیا اور 2021 کے آغاز میں بائیڈن اس کا جانشین بنا ۔ بائیڈن کی مدت کے اختتام کے بعد، ٹرمپ دوبارہ انتخابات جیت کر 2025 کے آغاز میں صدر بنے۔   ٹرمپ اور بائیڈن، دونوں کے دور میں ایک نیا طریقہ کار ابھر کر سامنے آیا جو گزشتہ صدور سے مختلف تھا۔    سابق صدور نے ہمیشہ دو ریاستی حل کی حمایت کی، بغیر اس بات کی وضاحت کیے کہ فلسطینی ریاست کی تفصیلات  کیا  ہوں گی۔ چنانچہ کوتاہ نظر لوگوں نے یہ گمان کر لیا کہ فلسطینیوں کو فلسطین کے ایک حصے میں ایک خودمختار ریاست دی جائے گی۔   البتہ، ٹرمپ اور بائیڈن نے تفصیلات واضح کیں: فلسطینیوں کو جو "ریاست" دی جائے گی،وہ ایک غیر مسلح ریاست ہو گی، جو ایک محدود خود مختار حکومت کی طرح ہو گی جس کی کوئی حیثیت یا طاقت نہیں ہو گی، بلکہ اس پر یہودیوں کا غلبہ ہو گا،بس دونوں میں اس بات کی شدت اور ابہام میں فرق تھا۔ یہاں سوالات پیدا ہوئے:  کیا امریکہ نے دو ریاستی منصوبہ ترک کر دیا یا یہ جاری ہے؟ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ فلسطین کے حوالے سے یہودیوں کا کوئی بھی بیان معتبر نہیں ہوتا جب تک اسے بیرونی طاقت  یعنی امریکہ کی تائید حاصل نہ ہو۔ لہٰذا، اصل میں امریکی موقف ہی معنی رکھتا ہے۔

 

6۔اس موضوع پر باریک بینی سے غور کرنے سے درج ذیل باتیں واضح ہوتی ہیں:

 

الف: ہم نے اس سوال کا جواب پہلے ہی 23 فروری 2017 کو دیا تھا، جب ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت صدارت شروع کی تھی، اور اس میں کہا گیا تھا: "ٹرمپ کی وہ تمام میڈیا رپورٹس جو عالمی و مقامی  ذرائع ابلاغ نے نشر کیں اور براہِ راست ٹیلی ویژن پر دکھائیں، اس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز مشرق وسطیٰ کے حوالے سے امریکی پالیسی میں ایک نئی تبدیلی کا اشارہ کیا، جب اس نے کہا کہ دو ریاستی حل اسرائیلی فلسطینی تنازع کے خاتمے کا واحد راستہ نہیں ہے، اور اگر کوئی متبادل حل امن لانے کا باعث بنے تو وہ اس کے لیے تیار ہے۔ اس سے پہلے تمام سابق امریکی صدور، خواہ وہ ریپبلکن ہوں یا ڈیموکریٹ، دو ریاستی حل کے حق میں رہے ہیں۔" (فرانس 24، 16 فروری 2017)

ٹرمپ نے کہا: "میں دو ریاستی حل اور ایک ریاستی حل دونوں کو دیکھ رہا ہوں... اگر اسرائیل اور فلسطینی خوش ہیں تو میں اُس حل سے خوش ہوں جو وہ پسند کرتے ہیں، دونوں حل میرے لیے قابل قبول ہیں۔" (الجزیرہ مباشر، 16 فروری 2017)

اور امریکہ کی طرف سے پہلی بار ٹرمپ کے منہ سے ایک ریاستی حل کا ذکر آیا، جسے اس نے واضح نہیں کیا کہ آیا اس کا مطلب فلسطینیوں کو ایک یہودی ریاست کے اندر خود مختاری دینا ہے یا ایک سیکولر ریاست جس میں فلسطینی بھی ریاست کے انتظام میں شریک ہوں، جیسا کہ برطانیہ نے 1939میں ایک وائٹ پیپر کے ذریعے  لبنان کے طرزپر   پیش کیا تھا؟ یہ بات قابل غور ہے کہ دو ریاستی حل کا منصوبہ خود امریکہ کا اپنا منصوبہ ہے، جو 1959 میں صدر آیزن ہاور کے دور میں پیش کیا گیا تھا، اور عالمی برادری کو اسے قبول کرنے پر مجبور کیا گیا جبکہ برطانیہ کے پیش کردہ ایک ریاستی حل کو مسترد کر دیا گیا۔

چاہے جو کچھ بھی ہو، ان بیانات اور ان کے سیاق و سباق سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ نے دو ریاستی حل کے اپنے منصوبے کو ترک نہیں کیا، جیسا کہ امریکہ کی اقوام متحدہ میں سفیر نکی ہیلی نے تصدیق کی:"سب سے پہلے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم دو ریاستی حل کی حمایت کرتے ہیں۔ جو کوئی بھی کہے کہ امریکہ دو ریاستی حل کی حمایت نہیں کرتا وہ غلط کہے گا... ہم یقیناً دو ریاستی حل کی حمایت کرتے ہیں لیکن ہم 'باکس کے باہر' بھی سوچتے ہیں... یہ ضروری ہے تاکہ دونوں فریقوں کو مذاکرات کی میز پر لایا جا سکے اور ہم چاہتے ہیں کہ وہ اتفاق کریں۔" (رائٹرز، 16 فروری 2017) یہ اس بات کی تصدیق ہے کہ ٹرمپ نے دو ریاستی حل کو ترک نہیں کیا، کیونکہ یہ امریکہ کی سرکاری پالیسی ہے جو 1959 سے چلی آ رہی ہے،بلکہ وہ دباؤ ڈالنے کا ایک اور طریقہ آزمانا چاہتا ہے... جیسا کہ ان کی سفیر نے کہا: "ہم یقیناً دو ریاستی حل کی حمایت کرتے ہیں، لیکن ہم 'باکس کے باہر' بھی سوچتے ہیں" یعنی دوسرے طریقے استعمال کرتے ہوئے۔

   ب: ٹرمپ (ریپبلکن) کے دونوں ادوارِ صدارت میں یہودی ریاست کی حمایت کے حوالے سے ان کے بیانات میں تیزی آئی:

"امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کی جانب سے یروشلم (القدس) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیا..." اور ساتھ ہی ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ امریکہ دو ریاستی حل کی حمایت کرتا ہے، بشرطیکہ اسرائیلی اور فلسطینی اس پر متفق ہوں۔ (بی بی سی، 6 دسمبر 2017)

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ٹرمپ نے کہا: "میرا ماننا ہے کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے لیے بہترین حل دو ریاستی حل ہے،" اور مزید کہا: "میرا خواب ہے کہ اپنی پہلی مدتِ صدارت کے اختتام سے پہلے میں اسے عملی جامہ پہنا سکوں۔" (بی بی سی، 26 ستمبر 2018)

ٹرمپ نے کہا: "جب میں مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ دیکھتا ہوں، تو مجھے اسرائیل ایک بہت ہی چھوٹا سا نقطہ نظر آتا ہے۔ حقیقت میں، میں نے کہا: کیا کوئی طریقہ ہے کہ اس کے لیے کچھ مزید رقبہ حاصل کیا جا سکے؟ یہ بہت ہی چھوٹا ہے..." (اسکائی نیوز، 19 اگست 2024)

اسی سال، 10 فروری 2025 کو، ٹرمپ نے دوبارہ زور دے کر کہا کہ امریکہ کی غزہ پر کنٹرول حاصل کرنے اور فلسطینیوں کو وہاں سے بے دخل کرنے کی منصوبہ بندی جاری ہے، اور کہا: "میں غزہ کو خریدنے اور اس کا مالک بننے کے لیے پُرعزم ہوں۔" (بی بی سی، 10 فروری 2025)۔ لیکن دس دن بعد، 21 فروری 2025 کو ٹرمپ نے ایک نیا بیان دیا: "میں فلسطینیوں کو غزہ سے نکالنے کا منصوبہ مسلط نہیں کر رہا بلکہ صرف تجویز دے رہا ہوں۔" (سی این این، 21 فروری 2025)۔  اور یہ الفاظ کے ہیر پھیر کے سوا کچھ نہیں!

ج: دوسری طرف، بعض اوقات صدر بائیڈن (ڈیموکریٹ) کے بیانات، یہودی ریاست کی حمایت میں، ٹرمپ کے بیانات سے بھی آگے بڑھ گئے:

جب ٹرمپ کو انتخابات میں شکست ہوئی  اور ان کی جگہ بائیڈن نے 2021 کے آغاز میں صدارت سنبھالی، تو امریکہ نے ایک بار پھر فلسطینی ریاست کے قیام کی بات چھیڑی، لیکن بغیر اس کے کہ یہ واضح کرے کہ وہ ریاست کیسی ہوگی اور کہاں ہوگی۔ چنانچہ امریکی صدر جو بائیڈن نے 3 ستمبر 2024 کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:

"دو ریاستی حل کے کئی ماڈل موجود ہیں، اور اقوامِ متحدہ کی بہت سی ایسی ریاستیں ہیں جن کے پاس اپنی مخصوص افواج نہیں ہیں"  یعنی بائیڈن فلسطینیوں کے لیے ایک ایسی ریاست کی طرف اشارہ کر رہے تھے جس کے پاس کوئی مسلح افواج نہ ہوں ،  یعنی ایک طرح کا محدود خوداختیار انتظام یا اس سے ملتا جلتا کچھ!

صدر بائیڈن نے جب 18 اکتوبر 2023 کو تل ابیب کا دورہ کیا، جو "طوفان الاقصیٰ" کے آپریشن کے بعد ہوا تھا، تو اس نے وہاں اسرائیلی حکام سے ملاقات کے دوران کہا: "اسرائیل کو یہودیوں کے لیے ایک محفوظ جگہ بن کر رہنا چاہیے، اور اگر اسرائیل موجود نہ ہوتا تو ہم اسے وجود میں لانے کی کوشش کرتے۔" (الجزیرہ، 18 اکتوبر 2023)

اسی طرح بائیڈن نے 12 دسمبر 2023 کو وائٹ ہاؤس میں یہودی تہوار "حانوکا" کے موقع پر ایک خطاب میں کہا: "صہیونی ہونے کے لیے یہودی ہونا ضروری نہیں... میں خود ایک صہیونی ہوں!" (الشرق الاوسط، 12 دسمبر 2023)

 

7۔پچھلے سوال کے جواب، اور ان تمام بیانات و پالیسی موقف پر غور و تدبر سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ٹرمپ اور بائیڈن کے مواقف میں کوئی بنیادی اختلاف نہیں ہے، سوائے بعض طریقۂ کار میں معمولی فرق کے، جو کہ مسئلے کی اصل ماہیت کو ہرگز تبدیل نہیں کرتا۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ امریکہ ہی وہ طاقت ہے جو اس مسئلے کو دو ریاستی حل کی بنیاد پر چلا رہا ہے؛ ایک ریاست یہودیوں کے لیے، جو کہ فلسطین کے بیشتر حصے پر قائم ہے، جسے امریکہ مالی، عسکری، بین الاقوامی بلکہ اپنے ایجنٹ حکمرانوں اور پیروکاروں کے ذریعے  علاقائی سطح پر بھی سپورٹ فراہم کرتا ہے ،جو مسلم ممالک میں برسرِاقتدار ہیں۔ اور دوسری طرف، ایک نام نہاد "ریاست"، یعنی ایک غیر مسلح "خودمختار انتظام"، جو فلسطینیوں کو فلسطین کے ایک حصے کے بھی ایک حصے میں دی جائے گی، اور اس پر بھی یہودی بالادستی قائم رہے گی!  اگرچہ "فلسطینی اتھارٹی" اور "ایجنٹ حکمران" اسے "فلسطینی ریاست" کہنے کی خواہش رکھتے ہیں، لیکن یہ محض ایک لفظی لبادہ ہے، جو اس کی حقیقت کو تبدیل نہیں کرتا، کیونکہ امریکہ ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ یہ ریاست فلسطینیوں کے لیے کسی بھی درجے میں ایک خودمختار ریاست ہو، نہ ہی مکمل فلسطین میں، اور نہ ہی اس کے کسی حصے میں۔ بلکہ امریکہ صرف ایسی "ریاست" چاہتا ہے، جو عملاً ایک محدود خود انتظامی علاقہ ہو، غیر مسلح، جس میں محض پولیس کی سطح تک محدود سیکیورٹی فورس ہو، جو یہودی بالادستی کے تحت کام کرے۔

ٹرمپ اور بائیڈن، دونوں کے ادوار میں، دو ایسے عوامل نمایاں ہوئے جو یہودی وجود کو مستحکم کرنے کے لیے استعمال کیے گئے، اور ان عوامل نے اوپر بیان کردہ حقیقت کو مزید واضح کر دیا ،  اگرچہ ان کا ظہور ٹرمپ کے دور میں زیادہ نمایاں تھا۔اور وہ دو عوامل یہ ہیں:

پہلا، جو آج بھی قائم ہے، یہودی وجود کو مضبوط کرنا اور اسے مال و اسباب سے لیس کرنا تاکہ وہ عسکری طور پر اپنے تمام پڑوسیوں پر غالب رہنے والی سب سے بڑی طاقت بنی رہے۔

اور دوسرا، نارملائزیشن، جسے ٹرمپ نے ابراہام معاہدے کا نام دیا، اور انہوں نے اپنی پہلی مدت میں اس میں آدھا راستہ طے کر لیا تھا اور آج اسے مکمل کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے امریکی ایلچی خطے کا دورہ کر رہے ہیں، نہ صرف سعودی عرب کو نام نہاد "ابراہام معاہدوں" میں شامل ہونے پر قائل کرنے کے لیے، بلکہ وہ عملی طور پر زمین ہموار کر رہے ہیں اور شام اور لبنان کے درمیان یہودی ریاست کے ساتھ مذاکرات شروع کر رہے ہیں جو آج بھی جاری ہیں، اور امریکہ اسے مسلم ممالک کے دیگر ایجنٹ حکمرانوں تک پھیلانا چاہتا ہے!

خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ نے دو ریاستی حل کو ترک نہیں کیا، لیکن اس نے ٹرمپ اور بائیڈن کے دور میں فلسطینی ریاست کا مطلب واضح کر دیا کہ یہ ایک خود مختار حکومت کی طرح ہے جس پر یہودیوں کی مکمل بالادستی ہو گی... جبکہ سابقہ صدور نے دو ریاستی حل کا ذکر کیا بغیر اس بات کی وضاحت کے کہ وہ فلسطینیوں کے لیے کیسی ریاست چاہتے ہیں!

8۔ آخر میں"فلسطین" مسلمانوں کی تاریخ میں ایک درِّ نایاب ہے، کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اسے اپنے حرمت والے گھر کے ساتھ ایک مقدس ربط میں جوڑ دیا، جب اس نے اپنے رسول ﷺ کو مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک سیر کرائی۔ چنانچہ فرمایا:

 

﴿سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ

 

"پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی، جس کے گرد و نواح کو ہم نے برکت دی ہے"[سورۃ الإسراء، آیت 1]۔

 

اس طرح اللہ تعالیٰ نے فلسطین کو ایک پاکیزہ اور بابرکت سرزمین قرار دیا۔اس طرح، اللہ نے مسلمانوں کے دلوں کو فلسطین کے مرکز — بیت المقدس — سے جوڑ دیا، جب اس نے اسے مسلمانوں کی پہلی قبلہ گاہ بنایا، اس سے قبل کہ اللہ تعالیٰ ہجرت کے بعد سولہ ماہ کے عرصے میں مسلمانوں کو کعبہ کی طرف متوجہ کرے اور اسے ان کی دوسری قبلہ گاہ بنائے۔

یہ سب اس وقت ہوا جب فلسطین ابھی اسلام کے زیرِ تسلط نہیں آیا تھا ، پھر  دوسرے خلیفہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اسے 15 ہجری میں فتح کیا،اور  سوفرونیوس سے بیت المقدس کا قبضہ حاصل کیا، اور اساپنا مشہور عہد (عہد عمریہ) دیا، جس کی ایک شق، عیسائیوں کی درخواست پر، یہ تھی کہ" ان کے ساتھ کوئی  یہودی وہاں سکونت اختیار نہیں کرے گا"۔  پھر فلسطین صلیبیوں اور تاتاریوں کا قبرستان بنا... اس میں صلیبیوں اور تاتاریوں کے ساتھ فیصلہ کن معرکے ہوئے: حطین (583ھ - 1187ء)، اور عین جالوت (658ھ – 1260ء)، اور ان شاء اللہ، اسی سرزمین پر یہودیوں کے خلاف بھی ایک فیصلہ کن معرکہ برپا ہوگا، تاکہ فلسطین ایک بار پھر مکمل، پاک، خالص انداز میں اسلامی سرزمین بن کر لوٹے۔

یہ حقیقت ہے کہ آج تک "یہودی ریاست" کا فلسطین میں قائم رہنا ان کی کسی اندرونی طاقت یا بہادری کی وجہ سے نہیں ہے،کیونکہ یہ لوگ جنگ اور فتح والے لوگ نہیں ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

﴿لَنْ يَضُرُّوكُمْ إِلَّا أَذًى وَإِنْ يُقَاتِلُوكُمْ يُوَلُّوكُمُ الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا يُنْصَرُونَ

 

"وہ تمہیں صرف اذیت ہی پہنچا سکتے ہیں، اور اگر تم سے لڑیں گے بھی تو پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے، پھر ان کی مدد نہ کی جائے گی"[سورۃ آل عمران، آیت 111]

بلکہ ان کے باقی رہنے کی اصل وجہ مسلم حکمرانوں کی مجرمانہ غفلت اور خیانت ہے۔مسلمانوں کی اصل مصیبت ان کے یہ حکمران ہیں ،  جو کہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن استعماری کفار کے وفادار بنے ہوئے ہیں۔ یہ فلسطین پر یہودیوں کے قبضے اور ان کی وحشیانہ جرائم و قتلِ عام کو دیکھتے اور سنتے ہیں، لیکن ان کا حال کچھ یوں ہے کہ

 

﴿صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ

 

"وہ بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، پس وہ پلٹنے والے نہیں"[سورۃ البقرة، آیت 18]

 

ان حکمرانوں نے آج تک مسلمانوں کی افواج کو غزہ ہاشم میں اپنے بھائیوں کی مدد کرنے سے روکا ہوا ہے، جبکہ شہداء کی تعداد بڑھ رہی ہے، زخمیوں کی صفیں طویل تر ہو رہی ہیں، اور یہ حکمران محض تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ان میں سے "بہترین" وہ گردانا جاتا  ہے جو شہداء کی گنتی کرتا ہے ، وہ بھی ان کا نام  "ہلاک شدگان" رکھ کر، اور زخمیوں کی فہرست گنواتا ہے، گویا کہ وہ کوئی غیر جانبدار فریق ہے ،  جبکہ حقیقت میں وہ یہودیوں کے زیادہ قریب ہے! ان کے لیے "کرسی" ان کے ملک و قوم سے زیادہ اہم ہے! مگر یہ امت، جسے اللہ نے فرمایا:

 

﴿كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ

 

"تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے ظاہر کی گئی"[سورۃ آل عمران، آیت 110]۔

 

  ان شاء اللہ، یہ امت زیادہ دیر تک  ان رویبضہ حکمرانوں کی اس جابرانہ حکومت پر زیادہ دیر خاموش نہیں رہے گی، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بشارت دی ہے کہ یہ جبر کا دور ختم ہو گا اور خلافتِ راشدہ کا قیام دوبارہ ہو گا، جیسا کہ مسند احمد اور مسند الطیالسی میں حضرت حذیفہ بن یمانؓ سے روایت ہے:

 

«... ثُمَّ تَكُونُ مُلْكاً جَبْرِيَّةً، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خـ ِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ نُبُوَّةٍ»

 

"... پھر جبر کی حکومت ہو گی، وہ جب تک اللہ چاہے گا باقی رہے گی، پھر جب اللہ چاہے گا اسے اٹھا لے گا،پھر نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت ہو گی ۔"

 

  تب مسلمان غالب ہوں گے اور کفار ذلیل ہوں گے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ

 

"اور اس دن مومن خوش ہوں گے ، اللہ کی مدد کے باعث، وہ جسے چاہے مدد دیتا ہے، اور وہ زبردست ہے، مہربان ہے"[سورۃ الروم، آیت 4-5]

 

 

حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ کفار، خاص طور پر یہودی،  اس حقیقت کو آج کے بہت سے مسلمانوں سے زیادہ سمجھتے ہیں! چنانچہ یہودی جانتے ہیں کہ خلافت ان کی ہلاکت کا پیش خیمہ ہے، جیسا کہ ان کے وزیرِ اعظم نے 21 اپریل 2025 کو ایک پریس کانفرنس میں ،  جسے کئی میڈیا اداروں بشمول الجزیرہ نے براہِ راست نشر کیا ،  کہا: "ہم بحیرہ روم کے ساحل پر خلافت کے قیام کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔"اور مزید کہا: "ہم یہاں یا لبنان میں خلافتی ریاست کے وجود کو قبول نہیں کریں گے، اورہم  اسرائیل کی سلامتی کے تحفظ کے لیے کام کر رہے ہیں۔"

لیکن یہ خلافت ان شاء اللہ ضرور قائم ہو گی، ان کی ناک کے نیچے، ان کی مرضی کے خلاف، اور انہیں اس پاک سرزمین سے ہمیشہ کے لیے مٹا کر چھوڑے گی۔ خاص طور پر اس وقت، جبکہ "حزب التحریر" ، جو کہ اللہ کے لیے مخلص، رسول ﷺ کے ساتھ سچی اور دینِ اسلام کے ساتھ وفادار جماعت ہے ، خلافت کے قیام کے لیے انتھک محنت کر رہی ہے، اور اس میں ایسے مردانِ حق موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے گئے وعدے کو سچ کر دکھایا اور وہ اللہ کی مدد پرکامل یقین رکھتے ہیں۔

 

﴿وَاللّٰهُ غَالِبٌ عَلَى أَمرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ

"اللہ اپنے کام پر غالب ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے"[سورۃ يوسف، آیت 21]

10 ربیع‌ الاوّل 1447ھ

2 ستمبر 2025ء

#أمير_حزب_التحرير

 

Last modified onجمعہ, 05 ستمبر 2025 19:33

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک