السبت، 21 جمادى الأولى 1446| 2024/11/23
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال وجواب :

امریکہ کی افغانستان میں حکمت عملی

 

سوال:

15 اگست 2017 کو طالبان نے امریکی صدر کو ایک کھلا خط بھیجا اور  مطالبہ کیا کہ وہ امریکی فوجیں واپس بلائے اورمزید وہاں امریکی فوج میں اضافہ نہ کرے، "طالبان تحریک نے امریکی صدرسے مطالبہ کیا کہ وہ افغانستان سے امریکی فوجوں کا مکمل  انخلاء کرے اور ملک میں فوجیوں کے مزید اضافہ کے خلاف  اپنے کھلے خط میں خبردارکیا جس کو واشنگٹن اب تک شکست نہیں دے سکا" (Source: Novosti - RT- Russia Today, 15/8/2017)۔

یہ کھلا خط ٹرمپ کی  افغانستان  سے متعلق نئی حکمت عملی  کا منصوبہ بنانےکے جواب میں لکھا گیا  جس کے متعلق طالبان کو اندیشہ ہے کہ اس میں افغانستان میں مزیدا فواج بھیجنابھی شامل ہےجیسا کہ وہائٹ ہاوس کےافسران کے  بیانات سے ظاہر ہوتاہےکہ حکمت عملی کے مطابق جلد ایسا ہوگا۔ دی سائٹ نے 10 اگست 2017 کوٹرمپ کے اخباری نمائندگان کو دئیے گئے  بیان کا حوالہ دیاکہ : اس کی انتظامیہ بہت جلد افغانستان کےمتعلق نئی حکمت عملی کو اختیار کرے گی۔۔ مزید اس نےکہا:"یہ میرے لئے بڑا فیصلہ ہے کیونکہ میرے ہاتھ میں معاملات بڑی  خستہ حالت میں آئے تھےاور ہم اس کی خستہ حالی کو کم کریں  گے "۔ کیااس کا مطلب  ہے کہ امریکہ افغانستان میں ایک نئی حکمت عملی اختیارکرنےکے متعلق سنجیدہ ہے؟ کیا اس میں مزید نئی افواج کو بھیجنا شامل ہوگا یاپھراس میں افواج  کوبھیجے  بغیرصرف پاکستانی اور ہندوستانی کردار میں اضافہ کرنا شامل  ہوگا؟" جزاک اللہ خیر

 

جواب:

جی ہاں، بالکل یہ کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ مجموعی طور پرافغانستان میں اپنی حکمت عملی  پر نظرثانی کررہا ہے اور شائداس کو وہ رستہ بھی مل جائے جس کو وہ افغانستان میں اپنی مداخلت کا آخری مرحلہ کہتا ہے۔ ٹرمپ افغانستان میں اپنےفوجی سربراہوں پر سخت ناراض ہے۔ رائٹرز نے 3 اگست 2017 کورپورٹ دی کہ ٹرمپ اور فوجی افسران کے درمیان واشنگٹن میں  ایک گرم بحث ہوئی ہے: اور اس ملاقات کےدوران  زبردست تناؤہواجب ٹرمپ نے کہا کہ دفاع کے سیکریٹری جنرل جیمس میٹس اور جوائنٹ چیف آف سٹاف جنرل جوسف ڈنفرڈکوچاہیے کہ افغانستان میں  امریکی فوج کے کمانڈرجنرل جان نکولسن کو برطرف کریں کیونکہ اس نے جنگ میں کامیابی حاصل نہیں کی اس طرح ٹرمپ نےافغانستان کی جنگ سےمتعلق اپناخدشہ ظاہرکیا۔  اس سے قبل اوباما انتظامیہ نے بھی افغانستان میں امریکی حکمت عملی  پر نظرثانی کرکے تبدیلی کی تھی البتہ ٹرمپ انتظامیہ کا نظر ثانی کرنا آج  بڑااہم  ہے کیونکہ یہ ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب امریکہ خودعالمی مسائل میں   الجھتا جارہا ہےاوراس کی ساکھ متاثر ہورہی ہے جس کی تفصیل یوں ہے:

 

اول: امریکہ نے 11ستمبر2001 کے حملے کو جواز بنا کر2001 میں افغانستان میں اپنی جنگ کا اعلان کیا تھا جس کی پشت پرنوقدامت پرستوں کا ہاتھ تھا جنہوں نے بش  کی محدودچھوٹی انتظامیہ کو گھیر رکھا تھا ۔اس کے بعد  دو سال کے اندر ہی امریکہ نے عراق پر حملہ کرکے اس پرقابض ہوااور اس کی ریتیلی دلدل میں دھنستا چلا گیا اور پھراس سے نکلنے کے لئے مددتلاش کی۔ عراق میں امریکہ کی ناکامی نے افغانستان کی جنگ سے اس کی توجہ عراق پر مبذول کروائی اورپھر عراقی مزاحمت کے شدیدتر ہونے کی پریشانی کے ساتھ بش انتظامیہ نے اپنی ساری توجہ عراق سے باہر نکلنے میں لگائی اوراس کے بعد اوباما انتظامیہ نے بھی عراق سے باہر نکلنےکی فکرکو مقدم رکھااور اوباما انتظامیہ نے سال 2011 کے اواخرمیں زیادہ تر امریکی فوج کو عراق سے باہرنکال لانے میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعدہی  امریکہ چین کی ابھرتی ہوئی طاقت سے نمٹنے کے لئے کوئی حکمت عملی اختیار کرسکا اوراوباما انتظامیہ کے دوسرے دور میں  اسی سے نمٹنا اس کے لئے نہایت اہم رہااور اس حکمت عملی کی تیاری اور اس کو مکمل شکل دینے سے قبل وسط مشرقی ایشیاء میں  امریکہ کے غلبے کوعرب بہار نے متزلزل کردیا تھا بالخصوص ملک شام میں  اور پھریوں  امریکہ اپنی توانائی اور کوششیں عرب خطے میں انقلابات کے خطروں کا سدباب کرنے میں لگاتا آیا ہےبالخصوص ملک شام اور  مشرق بعید  میں  چین کے خلاف اس نے توجہ مرکوز کررکھی ہے۔

 

امریکہ نےجنوبی چینی سمندر میں چین کے جزیروں  کی ملکیت  کاعلی الاعلان انکارکیا اور جاپانی افواج کو دوبارہ کھڑا کرنے کی کوششیں  شروع کردیں اور شمالی کوریا  کو اشتعال دلانے کی پالیسی پرآگے بڑھتا چلا گیا۔ چنانچہ ان وجوہات اور افغانستان کی جنگ  میں نسبتاً  کم امریکی ہلاکتوں کی وجہ سےافغانستان میں امریکی جنگ پر امریکہ نےکم توجہ دی   حالانکہ اس بات سے افغان جنگ کو نظراندازکیا جانا اتنا ظاہر نہیں ہوتا ہے جتنا کہ یہ کہ امریکہ کا نئی  ترجیحات کو اختیار کیا جانا  امریکہ کی توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔

 

دوم: افغانستان میں جاری 16 سال کی طویل  جنگ کے دوران  اس بات کو یقینی طور پر کہا جاسکتا ہےکہ امریکہ اور ناٹو افواج  جو اس جنگ میں شامل رہی ہیں  افغان مزاحمت  بالخصوص  طالبان کو کچلنے میں بری طرح ناکام رہی ہیں  جو امریکی مداخلت کے ذریعے2011 میں اقتدار سے برطرف کیے گئے تھے۔ ا س کے ساتھ  اس بات کا بھی دعوی کیا جاسکتا ہے کہ امریکی  ایجنٹوں کو افغانستان میں مستحکم کرنے کے تمام امریکی  کوششیں بھی ناکام ہوئی ہیں ؛ امریکہ  بھارت کوافغانستان میں کھینچ لایا تاکہ افغان مزاحمت کو روکا جائے لیکن یہ بھی  اس کے لئےفائدہ مند  نہیں رہا۔ اس کے علاوہ اس جنگ سے بھی امریکہ کوئی خاص  فائدہ حاصل نہیں  کرسکا جو اس کے پاکستانی ایجنٹوں نے  وزیرستان اور دیگرعلاقوں پر مسلط کر رکھی تھی تاکہ افغانستان میں امریکی نقصان کی کسی طرح تلافی کی جاسکےاور اسی طرح طالبان کے ساتھ مصالحت کی کوششوں میں بھی اُسے کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی   ہے۔  چنانچہ سولہ سال  کی جنگ کے باوجود افغانستان میں امریکی صورتحال نازک دکھائی دیتی ہےاور طالبان افغانستان کے اکثر علاقوں میں آزادانہ نقل وحمل کرتے ہیں اور جبکہ کابل میں قائم ایجنٹ حکومت کاان علاقوں پر کوئی کنٹرول اوراثر ورسوخ نہیں ہےاور  افغانستان کے بیش تر علاقوں میں تحریک زبردست اورشدید حملے مسلسل کر رہی ہےجن میں کابل بھی شامل ہے جہاں پر امریکی فوجیں اب تک  تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہیں  جبکہ اکثرحملے  جو امریکی فوج کے خلاف کیے گئے  تھے وہ  ان افغان فوجیوں کی جانب سے تھے جن کو امریکہ نے  ہی تربیت دی تھی  چنانچہ افغانستان میں امریکہ کے پاس مواقع تنگ ہوئے ہیں۔

 

موجودہ افغان صورتحال اور اس کی موجود ہ حقیقت اور خطرات کے متعلق بیان کرتے ہوئے

(Carnegie Endowment for International Peace (22/5/2017 نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ"کمزور ہوتا ہوا افغان اقتدار اورطالبان بغاوت پرکسی قسم کی روک نہ ہونے سے افغان حکومت اور ریاست کا بری طرح  گرجانا عین ممکن ہے جس کے نتیجہ میں یا تو انتشاروبدامنی کی صورت حال واپس لوٹ آئے گی یا  پھر دہشت گرد گروہ دوبارہ منظم ہونے لگیں گے"۔ اور رپورٹ اس بات پر زور دیتی ہے کہ افغان لڑائی کو  ختم ہوجانا  چاہیےاور یہ  نہ صرف اس لئےکہ امریکہ کےاس  جنگ پرسالانہ اخراجات 23 بلین امریکی ڈالر ہیں بلکہ کسی بھی حل کو حاصل کرنے کے لئے امریکہ کے پاس   موجود مواقع بہت ہی محدود ہیں۔

 

اورباوجودیکہ اوباما انتظامیہ کے دور میں  افغانستان سے مختلف امریکی افواج کا انخلاء ہوا اور صرف دس ہزار امریکی فوجی رہ گئے  ہیں جن کوتین ہزار نیٹو افواج اور اس کے علاوہ امریکی سیکوریٹی کمپنی کےبیس ہزار جنگجوؤں کا سہاراوتعاون حاصل ہیں اوریہ انخلاءفتح یا کسی قسم کی کامیابی حاصل ہونے کی وجہ سے نہیں تھا۔ امریکی افواج کے جانے کے ساتھ ہی ان کے خالی کردہ فوجی اڈے فوراًطالبان کے قبےہ میں آگئے اورکسی بھی طرح یہ نظرنہیں آتا کہ امریکہ کی پٹھو افغان حکومت  کی افواج اپنی بڑی تعداد اور  امریکی افواج کے ذریعے تربیت پانےکے باوجود کابل کے باہرکسی طور پربھی موثر کام کرسکتی ہو۔ یہ صورتحال  فوجی پہلؤ کے حوالے سے ہے۔

 

سوم: سیاسی پہلؤ سے ، افغانستان میں اپنے تنگ ہوتے مواقعوں اور بھارت کےاستعمال کےبے سوداورغیر موثر ہونے  کو محسوس کرلینے کےبعد امریکہ نے طالبان کے ساتھ اس امید سے مذاکرات  شروع کیے  تھےتاکہ ان کو کسی طرح افغانستان میں امریکہ کی حکومت میں شامل کرلیا جائےاوراس کے لئے اس نے پاکستان میں موجود اپنے ایجنٹ پٹھوؤں کو استعمال کیا تاکہ طالبان کے سربراہوں کو مذاکرات کی میز پرکھینچ کر لائیں۔ البتہ وہ تمام تر کوششیں ناکام ہوئیں اور امریکہ افغانستان  کے متعلق فوجی  اور سیاسی دونوں محاذ پر ناکام ہوا لیکن امریکہ کےپاس افغان مسئلے کے متعلق کوئی مخصوص منصوبہ موجود نہیں ہےاورکسی منصوبے کا نہ ہونا امریکہ پرتنقیدکا موضوع ہے۔  انٹرفیکس ایجنسی نے جمعرات کے روزروسی  وزارت خارجہ کےذرائع کے حوالے سے بتایا کہ افغانستان میں پھیلے عدم استحکام اور بدامنی کی صورتحال کی ایک وجہ ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ   کا افغانستان کے متعلق کسی واضح پالیسی کو پیش نہ کر پاناہےاور مزید کہاکہ امریکی فوج کی موجودگی   کا انحصار افغان ریاست کے استحکام اور نیٹو رکن ممالک کے موقف  اور  افغانستان کی صورتحال  کو حل کرنےکے امکانات  پر ہے۔ (Russia Today, 3/8/2017)

 

چہارم: چنانچہ افغانستان  میں امریکی بحران کی گہرائی اور اس کو حل کرنے کے مواقعوں کا محدود ہونا ان سب باتوں سے واضح ہوجاتا ہے البتہ اگر وہ مکمل طور پر افغانستان کی جنگ کو ختم نہ کرسکا تو بھی اس  کے لئے نہایت ضروری ہے کہ اُسے سرد کردیا جائےتاکہ اس کی فوج  طاقت اورمعاشی طاقت میں ہونے والی کمی کو روک سکے۔ کچھ امریکی فوجی رہنما سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں جنگ جیتنے کے لئے مزید فوج بھیجنے کی ضرورت ہے جبکہ ٹرمپ کسی بھی منصوبے کو قبول کرنے کے لئے ان سےایک قلیل مدتی فوجی پروگرام ، واضح اور ٹھوس نتائج کی شرط سامنے رکھتا ہےاور 16 سال کی طویل  جنگ کے دوران حاصل   ہوئےتلخ تجربات کی وجہ سےامریکی فوج  یہ فراہم کرنے سے قاصرہے۔  اس منصوبے کو نظریاتی طور پر یعنی کاغذ پر قبول کرنے کے لئے ٹرمپ  کو جس چیز نےآمادہ کیا  ہے وہ افغانستان کی زبردست معدنی دولت ہےجس کو حاصل کرنے کی لالچ میں اس کی رال ٹپک رہی ہے جس  کی مالیت کا حساب ایک ٹریلین ڈالرتک  لگایا جارہا ہےاور اس کے ساتھ ساتھ وسطی ایشیاء سے تیل کی گزرگاہ کے طورپر افغانستان کا جغرافیائی اہمیت کا حامل ہونا بڑا اہم ہے۔ الدستور نیوز پیپر ویب سائٹ نے 26 جولائی 2017 کو نیویارک ٹائمز کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ" کیا کچھ ممکن ہے اس کی تفتیش کے لئے وہائٹ ہاوس نے اپناایک سفیر افغانستان بھیجنے کا فیصلہ کیا ہےجو وہاں جاکر کان کنی کے افسران سے ملاقات کرے گا۔ پچھلے ہفتے وہائٹ ہاؤس میں افغانستان کی پالیسی کو لے کرایک   زبردست بحث  ہوئی جس کے دوران صدر ٹرمپ کے تین سینئرعہدیداران  نے کیمیکل ایگزیکٹو Michael N. Silver مائیکل سلور سے ملاقات کی تاکہ انتہائی نایاب  معدنیات کو نکالنے سے متعلق ممکنات کو جان سکیں ۔ مسٹر سلورکی فرم، امریکن ایلمنٹس-American Elements ،ان معدنیات کو نکالنےمیں مہارت رکھتی ہے جو مختلف  قسم کےاعلیٰ  ترین ٹیکنالوجی کی مصنوعات میں استعمال ہوتے ہیں "۔  البتہ مزیدفوج  افغانستان بھیجنا اورافغانستان کے انفراسٹرکچر جیسے ریلوےاور روڈ وغیرہ پرسرمایہ کاری کرنا  تاکہ معدنیات کو نکالنے میں آسانی ہوبڑاغیر محفوظ ہوگا  حتی کہ امریکی صدر ٹرمپ کی ذہنیت پر حاویتجارتی معاملات کے نقطہ نظر سے بھی یہ غیرمحفوظ ہوگا کیونکہ ان  معدنیات کی کانیں طالبان کے زیراقتدار علاقوں میں  ہیں۔

 

چنانچہ متوقع  ہے کہ ٹرمپ  انتظامیہ امریکی فوج  کو واپس اس کے افغانستان میں پھیلےفوجی اڈوں  میں بلائے گی تاکہ  بھارت کی ناکامی کے بعدامریکہ کی افغانستان  میں   واپسی کےذریع اور پاکستان کی مدد سےافغان پٹھو حکومت کو گرنے سے بچائے اور برقرار رکھا جاسکے۔ یہ سب کچھ طالبان کوکابل میں قائم کردہ امریکی سیاسی نظام  میں شرکت اختیار کرنے کے لئےراضی  کرنے اور افغان انقلاب کو روکنےکی خاطر ہےاور یہی سب سےطویل  امریکی جنگ کے اختتام کامنصوبہ ہے۔ اس طرح امریکہ اپنی  افغان جنگ کے اخراجات میں کمی لانے کی امید رکھتا ہے  اس لئے فوجوں کوفوجی اڈوں میں منتقل کرنا چاہتا ہے اور کسی بھی متوقع خطرے کی صورت میں اس کو دوبارہ حرکت دی جاسکےجیسا کہ اسی سے ملتی جلتی حکمت عملی کے تحت امریکی فوجیں جس طرح خلیج میں فوجی اڈوں کےاندرموجودہیں اور پاکستان میں اپنے ایجنٹوں کی مددسے امیدکرتا ہے، جن کے طالبان  سےروابط ہیں، کہ ان رابطوں کو دوبارہ زندہ کریں اورطالبان کو اعتماد دلانے کی کوشش کریں تاکہ پاکستان کی سرحد  کےاس پارکے طالبان امریکی  شرائط کو تسلیم کرلیں۔ امریکہ نے اس سے قبل اوباما کےدور میں  اپنےپاکستانی ایجنٹوں کوکامیابی کے ساتھ اس  قسم کےکام کےلئے استعمال کیا تھاجب : افغان حکومت نے افغانستان کی سب سے بڑی اسلامی پارٹی کے ساتھ معاہدہ کیا تھا جوملک کا دوسرا سب سے بڑا لڑاکا گروہ ہےاورپارٹی کے لیڈر گلبدین حکمت یار کی غیر موجودگی میں اس گروہ کے نمائندگان نےصدر اشرف علی گیلانی کے ساتھ معاہدے پر دستخط کئے تھے (BBC, 22/9/2016)۔ یہ بات امریکہ کی حوصلہ افزائی کرتی ہے تاکہ وہ پاکستان کو  طالبان سے متعلق اسی طرح استعمال کرے تاکہ وہ بھی اس امریکی  سیاسی نظام کا ایک حصہ بن جائےبالخصوص جبکہ گلبدین حکمت یارنے مصالحت کا موقف  اختیار کرلیا ہےاور کابل واپس لوٹے  اورپھر اسلامی پارٹی کے سربراہ نے طالبان کوبھی  افغان حکومت کے ساتھ مصالحت اختیار کرنے کی دعوت دے ڈالی  اوراپنی پہلی عوامی تقریر میں  تحریک طالبان  کو پُرامن طریقوں سے خارجی افواج کو افغانستان سے نکال باہر کرنے کی خاطر تعاون کے لئے ابھارا  (Al Jazeera.net, 6/5/2017)۔

 

پنجم: کیونکہ چین کے  ساحل پر امریکہ کے لیےایک زبردست خطرہ منڈرارہا ہےبالخصوص جو دھماکے دار صورت حال شمالی کوریا کے ساتھ قائم ہوتی جارہی ہےاورملک شام میں  خطرہ جاری ہے  اور حقیقی معاشی بحالی کی  خاطرہر ایک امریکی پالیسی کا ناکام ہونا اورپھر امریکی افواج کا افغانستان میں خستہ حال ہونا، فتح  حاصل نہ کرپانے سے  پست حوصلہ ہونے،  افغان میں مقامی طور پربھارت کا اپنا کردار اداکرپانے میں ناکامی اور گلبدین حکمت یار کے واپس پلٹ آنے سے امریکہ کا امید کا باندھنا ظاہر کرتا ہے کہ اس مصالحت سے امریکہ وہ کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے جو وہ جنگ کرکے حاصل نہیں کرسکا ہےاور یہی وجہ ہے کہ وہ افغانستان میں پاکستان کے کردار کو دوبارہ زندہ کرنےاورافغانستان کی سرحد یا سرحد کے اندر پاکستان کی جانب سے حملوں کو بند کروانےکی طرف پلٹاہے۔  آٹھ مہینےقبل جنرل باجوہ کے ماتحت آئی نئی فوجی قیادت نے گذشتہ فوجی قیادت راحیل شریف کی ماتحتی میں پاکستان کے جنگی میدان  میں بڑے پیمانے پر کیے جانے والے آپریشن جیسے ضرب عضب کو روک دیا ہےجومختلف مرحلوں میں افغان سرحد پرواقع ان لوگوں کے خلاف کیا گیا تھا   جن کوراحیل شریف "دہشت گرد " کہا کرتا تھا۔ اس کے برخلاف اب جنرل باجوہ کی کمان میں پاکستانی فوج اور بھارتی فوج کے مابین  کشمیری سرحد پر چھوٹی جھڑپوں کی رپورٹیں  ہیں اور  بلاشبہ  یہ سب پاکستانی فوجی قیادت کوداخلی طور پر پاکستان اورطالبان  کے رہنماوں  میں قابل قبول بناتا ہے۔

 

نئے پاکستانی  آرمی چیف جنرل باجوہ  نے داعش کے خلاف لڑنے کے نام پر افغانستان کے ساتھ تعاون کا ہاتھ بڑھایا ہےاور اس کا مطلب ایک بار پھر"دہشت گردی کے خلاف" جنگ چھیڑنا ہےاور اب یہ طالبان اور وزیرستان کے مجاہدین کے خلاف لڑنے کی بجائے داعش کے خلاف  لڑنے کے لئے کی جائےگی اوراس میں افغانستان کی حکومت  اور سابق جنرل راحیل شریف سے (ان پرحملوں کی وجہ سے)متنفرافغان قبائل شامل ہیں جبکہ جنرل باجوہ اور طالبان و افغانستان کے درمیان بات چیت کے پس پشت جو کچھ مخفی ہے اوربھی  زیادہ خطرناک ہے(پاکستان آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نےداعش کا سامنا کرنے کے لئے سیکوریٹی  کی خاطر تعاون کا جوہاتھ بڑھایا ہےدونوں پڑوسی ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات میں ہونے والی ایک شاذو نادر پیش رفت ہے جنرل باجوہ نے جمعہ کے روزوادی کرم میں ہونے والی قبائلی سرداروں کے ساتھ  ملاقات میں افغانستان کے ساتھ سیکوریٹی تعاون  شروع کرنے کی خواہش ظاہر کی  جس میں مختلف  قبائل کے سربراہ شامل تھےجوافغان سرحد کے قریب وفاقی انتظامیہ کے ماتحت چلنے والےپاکستان کے قبائلی علاقےکے انتظامی ڈویژن کا حصہ تھے۔  اس دوران پاکستانی کمانڈر نےافغانستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات میں ہونے والی شاذو نادر پیش رفت  میں  شامل دونوں  پڑوسی ملکوں  کےتمام لوگوں کو دعوت دی تاکہ وہ  "متحد اورچوکنا" ہوں ۔ اور قبائلی سربراہوں کی میٹنگ میں اس پر زوردیا کہ "ہمیں اس خطرےکے خلاف متحد  ومستعداورچوکنا رہنا ہوگا"

 (Gulf Online, 1/7/2017)

 

اورجو بات افغان مجاہدین کو شکست دے پانے میں امریکہ کی ناکامی کو ظاہر کرتی ہے بالخصوص طالبان تحریک کو ، وہ ٹرمپ کے سعودی عرب دورےمیں ہونے والےسربراہی اجلاس کے بعد افغان صدر کا بیان ہے جس میں  انہوں نےکہا  کہ:" سب سے اہم بات یہ ہے کہ افغان حکومت   مصالحت چاہتی ہے اور ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ طالبان کو موقع دیا جائے اور اگر وہ مصالحت  کی راہ اختیار کرتے ہیں تو وہ  سیاست اورقانون  کے راستے سے سب کچھ حاصل کرسکیں گےاور ہم طالبان سے دہشت گردوں سے دوری رہنے کا مطالبہ کرتے ہیں (The Middle East, 25/5/2017)

   

یہ بتاتا ہے کہ اب امریکی پالیسی چاہتی ہے کہ طالبان کو دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ  کے دائرہ سے باہر بتایا جائے لیکن اس کےلئےضروری ہے کہ وہ یعنی طالبان اس جنگ میں  افغان حکومت کے ہمراہ کھڑے ہو جائیں اور یہ کہ  طالبان کی جانب سے امریکی افواج کے مکمل انخلاء کامطالبہ امن کے ذریعے  پورا ہو سکے گا  نہ کہ جنگ کے ذریعے ۔

 

ششم اورخلاصہ میں : امریکی صدر ٹرمپ کی افغانستان میں  حکمت عملی   پر ایک ایسےوقت میں نظرثانی کی جارہی ہے جب امریکی پالیسی دنیا بھر میں خطرات سے دوچار ہےاور اوپر بیان ہوئی حقیقتوں کی بناء پرعین ممکن ہے کہ افغانستان میں امریکی پالیسی پرنظرثانی کے لئےان مختلف  نقاط کوشامل کیا جائے گا:

 

1۔ یہ نظرثانی  افغان جنگ کے میدان کوبڑے پیمانے پرسرد کرنے کی خاطر کی جارہی ہےجس کے تحت امریکی افواج کی موجودگی کو فوجی اڈوں  کی حد تک رکھا جائے گااورخطرات کے پیش نظر ان کا استعمال ہوگا تاکہ ظاہر ہو کہ امریکی مشن داعش کے خلاف ہے۔

 

2۔ یہ ناممکن نظرآتا ہے کہ امریکہ لڑائی اور جنگ کو بڑھاوا دینے کی خاطر مزید افواج بھیجے گا لیکن قلیل مدت کے لئے وہ مزیدافواج کو بھیج سکتا ہےجس کا مقصد جنگ یا لڑائی نہیں بلکہ مذاکرات  کے دوران  اس کی موجودگی کو لین دین کے کارڈ کے طور پر استعمال کیا جاسکے ، گویا کہ امریکہ کہہ رہا ہے کہ وہ  اپنی طرف سےان مزیدآنے والی اضافی امریکی فوج کےانخلاء کے ذریع مصالحت کے لئےتیار ہے اور یہ انخلاء طالبان  کی جانب سے اس کے ساتھ مصالحت اختیار کرنےکے عوض  میں ہے اورجبکہ وہ افغان حکومت کے ساتھ اقتدار میں شریک ہو نے کی خاطر مذاکرات کو قبول کرلیں،  اور ہاں جبکہ طالبان امریکی مفاد کو نشانہ نہ بنائے۔

 

3۔ طالبان کو ورغلانے اور امریکی پیشکش کو مزید پرکشش بنانے کی خاطر،  امریکہ دوبارہ پھر سے پاکستانی کردار کوزندہ کرے گا جس کے ذریعےظاہر کرے گا  کہ پاکستان کی فوجی قیادت طالبان کے متعلق نرم اور ہمدردانہ  رویّہ رکھتی ہےتاکہ  وہ طالبان پراس خاطرزور ڈال سکے کہ وہ یعنی طالبان کابل میں موجودہ افغان پٹھو حکومت کے ساتھ مصالحت قبول کرنے اورمذاکرات کے لئے بیٹھنے پر  تیار ہوجائیں اور امریکی سیاسی نظام کے تحت اقتدارمیں شریک ہوجائیں۔

 

ہفتم وآخر: ہم پاکستان کے غدارایجنٹوں پر اعتبارکرنے یا پھر اس کی فوجی قیادت کی جانب سے افغانستان کے لئے کسی بھی نرمی رکھنے کے متعلق کسی قسم کے دھوکے میں رہنےسے خبردارکرتے ہیں۔ ہم پرلازم ہے کہ ہم ماضی سے سبق لیں کہ امریکہ پاکستانی حکومت میں موجوداپنے ایجنٹوں کی مدد کے بغیر اپنے بوٹ افغانستان میں نہیں اُتار سکتا تھا اور طالبان کے خلاف پاکستانی حکومت کی نئی پالیسی ایک نئے امریکی ڈرامے کے سواء کچھ نہیں ہےتاکہ ایک  دوسرے ڈرامے اورشو کوتقویت بخشی جائے جس کے ذریعےمہنگی پڑنے والی امریکی فوجی مداخلت کے بغیر یا کم سےکم قیمت اداء کرکے اپنے پاکستانی ایجنٹوں اور افغان حکومت پر لاحق خطرات کو دورکیا جائے۔ اس پالیسی کا مقصد اس کےسواء کچھ اور نہیں ہےاور پاکستان کے نئے حکمران نئے چہروں کے علاوہ کچھ اور نہیں جوامریکی منصوبہ سے جڑےاوربے نقاب ہوئے چہرے ہیں۔  امریکہ کبھی  پاکستان میں  موجود اپنے ان غلاموں کو کہتا ہے کہ افغان جہاد کے خلاف سخت گیر ہوکر اس کو توڑیں جیساکہ بدنام زمانہ راحیل شریف نے وزیرستان میں اوباما کے منصوبے پر عمل درآمد کرکے کیا تھااور اب امریکہ کے نئے برسراقتدارلوگ اس  کوشش میں ہیں کہ طالبان کو ورغلاسکیں اور ٹرمپ کے منصوبے کے تحت طالبان کوخطرناک " مذاکرات کی میز " پر بٹھانے کی امریکی پالیسی کے ناکام ہوجانے کی صورت میں بھی ان کوقابو میں لایا جاسکےتاکہ جہاد کرنے کے لیےکسی بھی باقی  رہ جانے والی ان کی قوت ارادی کو توڑا جاسکے، اور اسی لئے گمراہ کرنے  اور دھوکہ دینے کےلئے پاکستان کے قریبی روبط  کے توسط سے وہ  مذاکرات کی خاطر زور ڈال رہے ہیں۔  ہم اس خطرے سےخبردار کرتےہیں کہ امریکہ  اور اس کے ایجنٹوں کے بچھائے ہوئےجال میں نہ  پھنسیں یا ان پر کسی قسم کا کوئی بھی اعتبار نہ کریں۔

 

﴿وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ

"اِن ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکنا ورنہ جہنم کی لپیٹ میں آ جاؤ گے اور تمہیں کوئی مددگار نہ ملے گا جو تمہیں اللہ تعالیٰ سے بچا سکے اور کہیں سے تم کو مدد نہ پہنچے گی"

(سورۃ ہود:113)

 

24 ذی القعد 1438 ہجری

16 اگست 2017 

Last modified onبدھ, 13 ستمبر 2017 03:27

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک