بسم الله الرحمن الرحيم
سوال کا جواب
- ٹرمپ کا اوپیک، خصوصاً سعودی عرب سے تیل کی پیداوار بڑھانے اور قیمتیں کم کرنے پر اصرار
سوال:
2 اکتوبر 2018 کو، میسی سیپی میں مڈٹرم الیکشن کے ایک جلسے کے دوران، ٹرمپ نے سعودی عرب کو دھمکایا اور اپنے حمائتیوں کو دکھایا کہ وہ تیل کی بڑھی ہوئی قیمتوں سے متعلق اقدامات کر رہا ہے: "۔۔۔اور ہمارے وہ فوجی معاہدات جہاں ہم امیر قوموں کو تو محفوظ کر دیتے ہیں مگر جواب میں ہمیں کچھ نہیں ملتا، اور اگر اس سے مراد تیل ہو تو؟ یہ بھی بدل رہا ہے دوستو! ہم سعودی عرب کی حفاظت کرتے ہیں۔ کیا وہ امیر ہیں؟ اور مجھے شاہ بہت پسند ہے، شاہ سلمان۔ لیکن میں نے کہا شاہ، ہم تمھیں حفاظت دیتے ہیں، تم ہمارے بغیر دو ہفتے بھی نہ گزار پاؤ گے، تمہیں اپنی فوجوں کے لیے ادائیگی کرنی ہو گی" (خلیج آن لائن 2018/10/03)۔
میرا سوال یہ نہیں کہ کیوں سعودی حکمران اس تذلیل پر خاموش رہے، بلکہ امریکہ کے اطاعت گزار ی کررہے ہیں کیونکہ وہ اپنی ہی نظروں میں گرے ہوئے ہیں، لہٰذا اس تذلیل کے عادی ہو چکے ہیں۔ بلکہ میرا سوال یہ ہے کہ کیوں ٹرمپ سعودی عرب کےپیچھے پڑ کے تیل کی پیداوار زیادہ اور قیمت کم کرانا چاہتا ہے، جبکہ امریکہ خود تیل کی سب سے زیادہ پیداواردینے والا ملک ہے اور وہ قیمتوں کی کمی کو اکیلے ہی کنٹرول کر سکتا ہے؟ تو اب وہ ایسا کیوں کر رہا ہے؟ اور یہ کہ امریکی دباؤ کے باوجود کیوں تیل کی قیمت نہیں گری؟ جزاک اللہ خیراً
جواب:
ہاں آپ نے درست کہا، جس کو ذلیل کیا گیا، اس کو تذلیل کی عادت پڑ گئی ہے۔ ٹرمپ کے سعودی عرب سے متعلق بیانات امریکا سے تعلقات تباہ کرنے کے لیے کافی ہیں، لیکن اگر انہیں شرم محسوس ہوتی اللہ سے، اور رسول اللہ ﷺ سے اور مومنین سے، لیکن انہیں شرم محسوس نہیں ہوتی اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«إِنَّ مِمَّا أَدْرَكَ النَّاسُ مِنْ كَلَامِ النُّبُوَّةِ إِذَا لَمْ تَسْتَحْيِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ»
"بے شک، لوگوں نے جو پچھلے کلامِ نبوت سے سیکھا وہ یہ تھا: اگر تم میں شرم نہیں تو جو چاہے کرو "(بخاری)۔
جہاں تک آپ کے سوال یا سوالات کے جواب کا تعلق ہے، وہ مندرجہ ذیل ہے:
1۔ جب ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوری 2017 میں دفتر سنبھالا، تیل کی قیمت تقریباً 57 ڈالر فی بیرل تھی۔ جون 2017 تک یہ 45 ڈالر فی بیرل تک گر گئی لیکن تب سے بڑھ رہی ہے۔ آج یہ 86 ڈالر فی بیرل ہے اور کچھ تجزیہ نگاروں کے مطابق 100 ڈالر فی بیرل تک جائے گی۔
2018/7/5 کو ٹرمپ نے ٹویٹر پر لکھا: "اوپیک اجارہ داری کو یاد رکھنا چاہیے کہ گیس کی قیمتیں اوپر ہیں اور وہ اس میں مدد نہیں کر رہے۔ اگر کچھ ہے تو یہی کہ وہ قیمتیں اوپر لے جا رہے ہیں جبکہ امریکا بہت کم ڈالروں کے بدلے ان کے بہت سے ممبران (یعنی اوپیک ممبران) کا تحفظ کرتا ہے۔ یہ (تعلق) دوطرفہ ہونا چاہیے (یعنی ہم تمہاری مدد کریں اور بدلے میں تم قیمتیں کم کرو)۔۔۔ قیمتیں ابھی کم کرو!"۔ اس سے پہلے 30 جون 2018 کو ایک ٹویٹ میں لکھا "میں نے ابھی سعودی عرب کے شاہ سلمان سے بات کی اور اسے یہ سمجھایا کہ ایران اور وینزویلا میں بدامنی کے باعث، میں کہہ رہا ہوں کہ سعودی عرب تیل کی پیداوار بڑھائے، شاید 2،000،000 بیرل تک، اس فرق کو پورا کرنے کے لیے۔۔۔بڑھتی قیمتوں کے لیے، وہ مان گیا!" (الحرہ: 2018/6/30)۔
2018/9/25 کو امریکی صدر نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر میں اوپیک پر تنقید کی اور کہا: "اوپیک اور اوپیک قومیں ہمیشہ کی طرح باقی دنیا کو تباہ کر رہی ہیں اور مجھے یہ پسند نہیں۔ کسی کو پسند نہیں کرنا چاہیے۔ ہم کسی قیمت کے بغیر ان میں سے بہت سی قوموں کی حفاظت کرتے ہیں اور وہ ہمارا فائدہ اٹھاتے ہوئے تیل کی قیمتیں بڑھاتی ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ تیل کی قیمتیں کم کریں۔ ہم زیادہ عرصہ ان خوفناک قیمتوں کو برداشت نہیں کر سکتے" (سپتنک، 25 ستمبر 2018)۔ اور 2018/9/27 کو ٹرمپ نے ٹویٹر پر لکھا، "ہم مشرق وسطیٰ کے ممالک کی حفاظت کرتے ہیں۔ وہ زیادہ عرصے ہمارے بغیر محفوظ نہیں رہیں گے اور پھر بھی وہ تیل کی زیادہ اور زیادہ قیمتیں لگا رہے ہیں! ہم یاد رکھیں گے۔ اوپیک اجارہ داری کو قیمتیں لازمی طور پر کم کرنی چاہیے!"
جیسے کے 2018/10/2 کو میسی سیپی میں انتخابی جلسے میں ایک سوال کے جواب میں ٹرمپ نے سعودی عرب کو دھمکایا اور اپنے حمائتیوں کو دکھایا کہ وہ تیل کی بڑھی قیمتوں سے نمٹ رہا ہے: "۔۔۔اور ہمارے وہ فوجی معاہدات جہاں ہم امیر قوموں کو تو محفوظ کر دیتے ہیں مگر جواب میں ہمیں کچھ نہیں ملتا، اور اگر اس سے مراد تیل ہو تو؟ یہ بھی بدل رہا ہے دوستو! ہم سعودی عرب کی حفاظت کرتے ہیں۔ کیا وہ امیر ہیں؟ اور مجھے شاہ بہت پسند ہے، شاہ سلمان۔ لیکن میں نے کہا شاہ، "ہم تمھیں حفاظت دیتے ہیں"، تم ہمارے بغیر دو ہفتے بھی نہ گزار پاؤ گے، تمھیں اپنی فوجوں کے لیے ادائیگی کرنی ہو گی" (خلیج آن لائن 2018/10/03)۔
اس تمام سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ فی الحال اوپیک خصوصاً سعودی عرب سے تیل کی پیداوار بڑھوانے کا خواہشمند ہے۔
2۔ ہاں، امریکی توانائی کے ادارے (EIA)، جو توانائی سے متعلق اعدادوشمار اکٹھے کرتا ہے، کے مطابق امریکا ہی سب سے زیادہ تیل پیدا کرتا ہے۔ 2017 کے آخر میں EIA نے دنیا میں تیل کی پیداوار سے متعلق ایک فہرست دی، جس کے مطابق پیداوار اس وقت عالمی پیداوار 96 ملین بیرل یومیہ تھی۔ اس فہرست کے مطابق پیداوار کے حساب سےسات بڑے ممالک یہ ہیں:
امریکا 14.46 ملین بیرل یومیہ، سعودی عرب 12.08 ملین بیرل یومیہ، روس 11.18ملین بیرل یومیہ، کینیڈا 4.87ملین بیرل یومیہ، ایران 4.67ملین بیرل یومیہ، عراق 4.48ملین بیرل یومیہ، چین 4.45ملین بیرل یومیہ۔
امریکا ہی دنیا میں سب سے زیادہ تیل پیدا کرتا ہے، اس کے بعد سعودی عرب اور پھر روس۔
3۔ اور ہاں، امریکہ جب چاہے تیل کی پیداوار بڑھا سکتا ہے، خصوصاً جب اس کے پاس شیل تیل کے خطیر ذخائر موجود ہیں، لیکن کچھ ہے جو اسے یہ کرنے سے روکتا ہے۔
ا۔ اپنے سٹاک اور ذخائر کو (خرچ ہونے سے) محفوظ رکھنا
ب۔ کچھ الرويبضات (گرے ہوئے حکمران) ہیں جو اس کا حکم مانتے ہیں حتیٰ کہ اگر اس میں ان کی تذلیل بھی ہو جائے۔ وہ تب بھی اطاعت کرتے ہیں چاہے ایسا کرنے سے نقصان ہی ہو جائے، جیسے کہ سعودی عرب کے حکمران!! امریکا سعودی عرب کو قیمتیں کم کرنے کے لیے کہہ رہا ہے تاکہ اپنے لوگوں کو کم قیمت پر تیل مہیا کرے، جبکہ خام تیل کی قیمت اسی سال کے نویں مہینے میں 80 ڈالر فی بیرل تک پہنچے گئی۔ "2018/9/14 کو خام تیل کی عالمی قیمت بڑھ کر 78.21 ڈالر فی بیرل ہو گئی، جو 2018/5/22 سے اب تک بلند ترین ہے"۔۔۔ (رائٹرز 2018/9/14) ۔ نوٹ کریں کہ "اوپیک پیداوار بڑھ کر 32.79 ملین بیرل یومیہ ہو گئی۔ سعودی عرب جس نے اپنی پیداوار میں اضافے کا وعدہ کیا تھا، کہا کہ اس فیصلے سے تقریباً ایک میلین بیرل یومیہ پیداوار بڑھے گی" (رائٹرز 2018/8/31)۔ "جب خام تیل 80 ڈالر فی بیرل کی جانب بڑھ رھا تھا، سعودی عرب نے منڈی کو اپنی پیداوار میں اضافے سے پچھلے ماہ آگاہ کر دیا، جو کہ اس تاریخ سے قبل تھا جس پر عموماً ایسی معلومات عام کی جاتی ہیے،" ذرائع سے اقتباس۔
سعودی حکومت ایک مضبوط امریکی ایجنٹ ہے اور اس کی خدمتگار ہے۔ سعودی عرب نے ہمیشہ تیل کی منڈی کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سعودی عرب کو اس وقت تیل کی قیمت بلند چاہیے، کیونکہ جب سے 2014 میں تیل کی قیمتیں گریں اس کی معیشت اس وقت سےسخت اقتصادی دباؤ میں ہے ۔ خصوصاً جب تیل سعودی عرب کے بجٹ میں اہم ذریعہ محصولات ہے۔ یہ عام معلومات ہے کہ جن ممالک میں آدھے سے زیادہ محصولات کے لیے تیل کی برآمد پر انحصار ہوتا ہے، ان ممالک کو 80 ڈالر فی بیرل سے زیادہ کی قیمت چاہیے تاکہ وہ اپنا بجٹ برابر کر سکیں، یعنی تیل سے اتنا کما لیں کے اخراجات پورے کر سکیں۔ پھر یہ کیسے ہواکہ جب سعودی عرب کا بجٹ مکمل تیل پر انحصار کرتا ہے، مناسب قیمت 80 ڈالر سے اوپر یا 100 ڈالر تک ہے کہ وہ اپنا بجٹ برابر کر لے اور معیشت کو مستحکم کر لے جو ابھی غیر مستحکم ہے، لیکن اس کا حاکم پیداوار بڑھا کر قیمتیں کم کرنے کے لیے تیار ہے، بجز اس نقصان کے جو ٹرمپ کو راضی کرنے کے لیے ملک کو ہو گا، جس ٹرمپ نے اعلانیہ سعودی حاکم کی تذلیل کی، اور اگر یہ امریکہ نہ ہوتا تو اس کا تخت گر چکا ہوتا!! انھوں نے اس کو نظرانداز کیا اور ان کے شہزادے نے کہا کہ وہ ایرانی تیل کی کمی کو پورا کرنے کے لیے تیار ہیں! 2018/10/6 کو بلومبرگ اخبار نے سعودی شہزادے بن سلمان کا بیان نقل کیا: اس نے اصرار کیا کہ سعودی عرب نے اپنے وعدے کا پاس رکھتے ہوئے ایرانی خام تیل کی کمی کو پورا کیا، اور کہا: "سعودی عرب اس وقت 10.7ملین بیرل یومیہ تیل سپلائی کر رہا ہے جو ایک ریکارڈ ہے اور اگر منڈی میں ضرورت پڑی تو مزید 1.3 میلین بیرل اضافہ کر سکتا ہے۔"
جب تک امریکا کا ایک ایجنٹ موجود ہے جو ٹرمپ کی پیداوار بڑھانے کی خواہش میں اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کے لیے تیار ہے تو امریکا کو اپنے ذخائر استعمال کرنے کی ضرورت کیوں ہو؟
4۔ ٹرمپ کیوں اوپیک، خصوصاً سعودی عرب سے پیداوار بڑھانے اور قیمتیں کم کرنے پر اصرار کر رہا ہے؟ یہ اس لیے کہ دو ایسے مسائل ہیں جو ٹرمپ کے لیے فوراً حل کرنا ضروری ہیں، ورنہ ٹرمپ کو بڑھتی قیمتوں سے فرق نہیں پڑتا۔ امریکا بڑھی قیمتوں کو مزید ڈالر چھاپ کر پورا کر سکتا ہے جیسے پچھلی دفعہ کیا تھا جب تیل کی قیمتیں 150 ڈالر پر پہنچ گئی تھی۔ ہم نے پہلے 2009/5/16 کو ایک سوال کے جواب میں کہا تھا: "امریکا بینک نوٹ چھاپ سکتا ہے، چاہے آئی ایم ایف کی رضامندی سے یا خفیہ طور پر، اعلانیہ بھی، اس کی مرضی کے بغیر بھی، کیونکہ فنڈ میں اسی کا عملاً اثر ہے، اور جھوٹی وجوہات دکھا کر اور سچ کو چھپا کر فنڈ کی مدد لے سکتا ہے۔ لیکن اس طرح بینک نوٹ چھاپنے سے ڈالر کی قدر میں کمی اور افراط زر ہوتاہے یعنی قیمتوں میں اضافہ۔ اس لیے امریکا یہ قدم نہیں اٹھاتا جب تک کہ کوئی چھپا مفاد نہ ہو۔ مثلاً یہ بیان کیا جاتا ہے کہ امریکا نے تیل کی قیمتوں پر قیاس آرائیوں کے وقت جس سے تیل کی قیمت 150 ڈالر فی بیرل ہوئی، 20 سے 40 کھرب ڈالر چھاپے، اور امریکا ان قیاس آرائیوں سے دور نہیں تھا۔ امریکا نے وہ ڈالر تیل کے سب سے بڑے ذخیرے کو خریدنے کے لیے چھاپے تاکہ بلواسطہ یا بلاواسطہ اس کو اپنے سٹاک میں شامل کر سکے۔ اس نے اسے بڑھتی قیمتوں اور ڈالر کی قدر میں کمی اور بالا مفاد کے طور پر دیکھا۔۔۔" لیکن چونکہ اسے یہ کرنے میں وقت درکار ہوتا ہے اور چونکہ دونوں مسائل کا حل اجلت طلب ہےورنہ ٹرمپ مصیبت میں پھنس جائے گا، جیسے پہلے بیان ہوا، اس لیے ٹرمپ اوپیک اور خصوصاً سعودی عرب سے ناراض ہو رہا ہے۔ وہ دو مسائل یہ ہیں:
اول: ایران پر پابندیوں کا معاملہ:
سعودی عرب اور عراق کے بعد اوپیک میں تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ تیل ایران پیدا کرتا ہے، اس کی پیداوار 4 ملین بیرل یومیہ خام تیل ہے۔ پابندیوں کی وجہ سے ایران کی تیل کی برآمدات میں کمی واقع ہو گی، خصوصاً نومبر میں جب پابندیوں میں اضافہ ہو گا، جس میں ایران اور ایران سے درآمد کرنے والے ممالک بھی شامل ہیں۔ امریکا نے کمپنیوں سے ایرانی تیل کی درآمد میں کمی کرنے اور پھر نومبر میں ایران سے معاہدے ختم کرنے کا کہا ہے جس سے ایران کی برآمدات میں کمی واقع ہو گی۔ لیکن سعودی عرب تیل کی پیداوار بڑھانے کے لیے تیار ہے یعنی وہ ایران کی تیل کی کمی کو پورا کرنے کے لیے تیار ہے۔ سعودی شہزادے محمد بن سلمان نے کہا: "ہم ایران کے ایک بیرل کے مقابلے میں دو بیرل برآمد کرتے ہیں،" شہزادے نے کہا۔ "لہٰذا ہم نے اپنا کام کر دیا بلکہ زیادہ کیا۔" سعودی عرب اس وقت 10.7ملین بیرل یومیہ سپلائی کر رہا ہے جو ایک ریکارڈ ہے اور اگر منڈی میں ضرورت پڑی تو مزید 1.3 میلین بیرل اضافہ کر سکتا ہے،" (https://www.akhbarak.net, 08/10/2018 )
2018/11/4 کو امریکا کا منصوبہ ہے کہ ایران پر پابندیاں بڑھائی جائیں جن کا ہدف تیل کی برآمدات ہیں اور عالمی حکومتوں اور کمپنیوں پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ ایران سے درآمدات کم کریں۔ اس کا مطلب ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی سپلائی کم ہو جائے گی۔ تیل کی پیداوار کے سات بڑے ممالک کے بیان کے مطابق ایران 4 ملین بیرل یومیہ پیدا کر رہا تھا اور "یہ اب کم ہو گیا ہے"۔ چین، بھارت اور ترکی اس سے 2 ملین بیرل لیتے ہیں۔ ٹرمپ کے خیال میں پابندیوں سے یہ 2 ملین بھی ختم ہو جائے گا۔ امریکا اس کمی کو سعودی عرب اور دیگر اوپیک ممالک سے پورا کرنا چاہتا ہے تاکہ امریکا ایران کے مسئلے کو یورپ، روس اور چین سے ہٹ کر دیکھ سکے جب اس نے 2018/5/8 کو تین سال پہلے ان ممالک سے کیے گئے ایٹمی معاہدے سے دستبرداری اختیار کی۔ وہ صرف ایران سے معاہدہ کرنا چاہتا ہے۔ امریکی صدر نے اس معاہدے کے لیے تیاری کا اعلان کیا ہے لیکن ایران کے لیے موزوں حالات تیار ہونے چاہیے۔ اس میں کچھ وقت لگے گا۔۔۔ ٹرمپ اس کمی کو پورا کرنا چاہتا ہے جب تک وہ امریکا اور ایران کے درمیان، یورپ کو شامل کیے بغیر، ایک معاہدہ کر لے۔ اگر کمی پوری نہ ہوئی اور قیمتیں بڑھ گئیں، تو اس کے لیے مسئلہ بن جائے گا۔ کیونکہ اس نے پابندیوں کی بنیاد اس پر رکھی تھی کہ پابندیوں کے نتیجے میں ایرانی تیل میں کمی کو اوپیک اور سعودی عرب سے پورا کیا جائے گا۔۔۔ دوسرے الفاظ میں امریکا تیل کی کمی کو پورا کرنا چاہتا ہے تاکہ یہ مسئلہ اس وقت تک نہ اٹھے جب تک ایران کے ساتھ یہ مسائل حل نہیں ہو جاتے، کیونکہ اس میں وقت لگے گا۔
دوسری وجہ امریکی انتخابات ہیں
تیل کی بڑھتی قیمتیں ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے مسئلہ ہیں، جو نومبر میں وسط مدتی انتخابات لڑنے جا رہا ہے۔ تیل کی بڑھی قیمتیں اس کے معاونین کو حکومت میں رکھیں گی، خصوصاً جب زیادہ تر رائے عامہ کے تجزیے یہ بتا رہے ہیں کہ ڈیموکریٹس کی اکثریت ہو گی۔ ٹرمپ ووٹر کو یہ دکھانے کے لیے کہ وہ امریکی مفاد کو پہلے رکھتا ہے، وہ پیداوار بڑھانے کی تمام دباؤ اور ذمہ داری سعودی عرب اور اوپیک ممبران پر ڈال رہا ہے۔ ساتھ ہی، ٹرمپ انتظامیہ چین، بھارت اور ترکی پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ ایران سے تعلق ختم کریں اور خام تیل کہیں اور سے لیں۔ تیل کی بڑھتی قیمتیں اس پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں کہ امریکی عوام پیٹرول کی کیا قیمت ادا کرتے ہیں۔ امریکی وسط مدتی انتخابات کے ساتھ یہ ایک کمزور نقطہ ہو گا۔ امریکی عوام تیل کی قیمتوں میں اضافے سے متاثر ہوتے ہیں اور یہ قبول نہیں کریں گے کہ حکومت تیل کی قیمتوں میں اضافہ کر رہی ہے۔ لہٰذا صدر ٹرمپ تیل کی بڑھی قیمتوں کا ذمہ دار خلیجی ممالک اور اوپیک کو ٹھرا رہا ہے، ان پر حملہ کر رہا ہے یہ دیکھانے کے لیے کہ وہ اپنے مفادات کا دفاع کر رہا ہے، اور اس قابل ہے کہ سعودی عرب اور اوپیک پر دباؤ ڈال کر قیمتیں کم کروا سکتا ہے۔ وہ خصوصاً امریکی انتخابات کے عرصے میں قیمتیں کم کروانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ یہ امریکی صدر اور اس کی ریپبلیکن پارٹی کے لیے آج ضروری ہے تاکہ وہ 6 نومبر کو ہونے والے 2018 کے وسط مدتی انتخابات میں امریکی ووٹروں کے ووٹ حاصل کر سکیں، خصوصاً جب رائے عامہ ڈیموکریٹس کے حق میں ہے۔
5۔ ٹرمپ کی دھمکیوں اور دباؤ اور سعودی عرب کے رویے کے باوجود تیل کی قیمتیں کیوں بڑھتی جا رہی ہیں؟ وجہ یہ ہے کہ اوپیک میں دوسری پارٹیاں بھی ہیں جو یورپ کے ساتھ ہیں اور امریکا سے خار کھاتی ہیں، اور روس بھی ہے، اور یہ پارٹیاں جن کا یورپ سے تعلق ہے، اتنی جلدی امریکا کا ساتھ نہیں دیں گی، کم از کم اتنی جلدی نہیں کہ جس سے ٹرمپ کے مقاصد اس کی مرضی کے وقت میں پورے ہو سکیں۔ سعودی عرب اوپیک میں امریکا کا بڑا آلہ ہے، لیکن اوپیک میں دوسرے بھی ہیں جن کے مفادات ہیں، بشمول وہ جو یورپی ممالک کے ساتھ ہیں اور آسانی سے امریکا کی بات نہیں مانیں گے، اس کے علاوہ اوپیک کے علاوہ ممالک ،جیسے روس ، جن کے مفادات ہیں۔ امریکا مکمل طریقے سے اپنی مرضی نہیں چلا سکتا۔
قیمتیں کم کروانے کی کوشش میں صدر نے پیداوار بڑھانے کا کہا۔ مگر اوپیک اور اس کے پیداواری حمایتی 2018/9/23 کو الجزائر میں ہونے والے اجلاس میں، ٹرمپ کی مرضی کے برخلاف، تیل کی قیمتیں بڑھانے پر کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔
جہاں تک روس کا تعلق ہے، تو 2017 سے لے کر آج تک امریکا اس میں کامیاب رہا کہ سعودی عرب کو استعمال کر کے روس پر دباؤ ڈالے اور اسے شرمندہ کرے اور اس سے پیداوار بڑھوا کر قیمتیں کم کروائے۔۔۔ اکتوبر 2017 میں پہلی دفعہ کوئی سعودی شاہ روس گیا، کہ اوپیک اور غیر اوپیک ممبران، خصوصاً روس، کے مابین اجلاس کا حصہ بنے۔ اکتوبر 2017 میں شاہ سلمان روس گیا اور اوپیک اجلاس میں شرکت کی۔ اس کے بعد سے تیل کی قیمتیں 60 ڈالر فی بیرل سے اوپر مستحکم ہو گئی جو 2018 کے وسط سے بڑھنے تک رہی، جیسے پہلے بیان کیا گیا۔ لیکن سعودی عرب اور روس نے ٹرمپ کے کہنے کے مطابق 2 ملین بیرل یومیہ پیداوار حاصل کرنے کے لیے بہت تگ و دو کی۔ بلکہ آزاد تجزیہ نگاروں اور عالمی ادارہ برائے توانائی (IEA) کے خیال میں سعودی عرب اور روس 2 ملین بیرل یومیہ اضافہ کر سکتے تھے۔ عالمی ادارہ برائے توانائی (IEA) کے، جو پیرس میں ہے، حالیہ اندازے کے مطابق مشرق وسطیٰ کی "قلیل المقدار فراہمی"، سعودی عرب ملا کر، 1.14 ملین بیرل یومیہ ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق روس 400،000 بیرل یومیہ کا اضافہ کر سکتا ہے۔ آخر میں، امریکا کے شدید دباؤ کے پیش نظر، ستمبر میں سعودی عرب نے روس سے تیل کی پیداوار بڑھانے پر ایک خفیہ معاہدہ کیا۔ "معاہدے کے مطابق روس اور سعودی عرب دوسرے اوپیک ممبران سے پوچھے بغیر تیل کی پیداوار بڑھانے کی پالیسیوں پراتفاق کر رہے ہیں،"۔ ذرائع کے مطابق سعودی وزیر برائے توانائی خالد الفلیح اور اس کا روسی ہم منصب الیکزینڈر نووک متعدد میٹنگوں کے بعد اس بات پر اتفاق کر چکے ہیں کہ ستمبر سے دسمبر تک پیداوار کو بڑھایا جائے اور قیمت کو 80 ڈالر فی بیرل تک رکھا جائے۔ ذرائع نے کہا: "روسیوں اور سعودیوں نے منڈی میں مزید تیل ترسیل کرنے پر خفیہ اتفاق کر لیا ہے، تاکہ یہ نہ لگے کہ تیل کی ترسیل میں اضافہ ٹرمپ کے احکامات پر ہو رہی ہے"۔ ایک اور ذرائع نے کہا: "سعودی وزیر نے امریکی سیکریٹری برائے توانائی رِک پیری کو بتایا سعودی عرب تیل کی پیداوار بڑھا دے گا اگر اس کی طلب میں اضافہ ہو جائے"۔ (www.reuters.com)
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیوں روس امریکا کے ساتھ مل کر تیل کی بڑھی قیمتوں کو کم کرے گا، جبکہ بڑھی قیمتیں روس کے مفاد میں ہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ روس 65 ڈالر فی بیرل کی قیمت کی حمایت کرتا ہے کیونکہ یہ وہ قیمت ہے جو روس کی تیل کی صنعت میں توازن کے لیے لازمی ہے۔ اس قیمت میں اضافہ بہت سے ممالک سے، جو روس سے تیل خریدتے ہیں، ان کی خرید کی قوت چھین لے گا جس سے طلب میں کمی واقع ہو جائے گی جو روس کی تیل کی صنعت کے لیے نقصان دہ ہے۔
بحرحال، روس اس پورے معاملے میں بڑا مسئلہ نہیں ہے، اس پورے معاملے کو متاثر کرنے والے دراصل یورپی حامی اوپیک ممبران ہیں۔ جو ٹرمپ کہہ رہا ہے، وہ انتہائی دباؤ کے بغیر کرنا ممکن نہیں۔۔۔ لیکن اس کا امکان نہیں کہ قیمت 100 تک پہنچے، کیونکہ درآمد کرنے والے ممالک اسے برداشت نہیں کر پائیں گے اور طلب گر جائے گی اور پھر بڑھاؤ رک جائے گا اور پھر گرے گا۔۔۔ ٹرمپ کی دلچسپی قیمتوں کو انتخابات کے وقت کے لیے کم کرنا ہے یعنی اس سال کے آخر میں جب اس کا امکان ہے کہ ایٹمی معاہدہ یورپ کے بغیر ایک دوطرفہ ایران-امریکا معاہدے کی طرف بڑھے گا اور امریکا کا پیداوار بڑھانے پر دباؤ ختم ہو جائے گا، لہٰذا قیمتیں 80 ڈالر فی بیرل کے گرد رہیں گی۔۔۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بیرونی طاقتیں مسلمانوں کے وسائل استعمال کر کے ایک دوسرے سے کھیلتی ہیں، جبکہ ہمارے حکمران، الرويبضات، ان کی اندھی تقلید کرتے ہیں اورامت کے وقار کی عزت نہیں کرتے۔ دنیا کے زیادہ ترتیل کے ذخائر مسلم علاقوں میں ہیں، چاہے عرب میں، ایران، افریقہ، نائیجیریہ یا وسطیٰ ایشیاء جیسے قازقستان، ترکمانستان یاقفقاز جیسے آزربائیجان، لیکن ملک کی تیل کی درآمدات اس کے لوگوں کی نہیں ہوتی، جن میں سے زیادہ تر غربت اور افلاس کا شکار ہیں۔ حکمران، ان کے خاندان اور احباب اسے لوٹتے ہیں اور پیسہ باہر سمگل کرتے ہیں۔ پچھلے سال 2017/5/21 کو ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب کے دوران جب امریکا نے سعودی عرب سے تقریباً 460 ارب ڈالر مانگے تو آلِ سعود یہ طلب پوری کرنے اور ڈالر ادا کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ لہٰذا مسلمان اس تباہی سے نہیں بچ سکتے سوائے خلیفہ راشد کے جیسے الفاروق عمر ابن الخطاب، جو لوگوں میں عدل سے دولت تقسیم کرے اور غریب ترین سے شروع اور خلیفہ پر ختم کرے جو سب سے آخر میں کھانے اور لینے والا ہو۔ نبی بر حق ﷺ نے فرمایا:
«كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ الْإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ»
"تم میں سے ہر کوئی ذمہ دار ہے اور اپنی رعایا کے لیے جواب دہ ہے۔ حکمران ذمہ دار ہے اور اپنی رعایا کے لیے جواب دہ ہے"۔ (بخاری)
وہ جو اپنے لوگوں کو دھوکہ دیتا ہے، اس کے لیے سخت عذاب ہے جیسے نبی ﷺ نے ایک حدیث میں فرمایا جسے الطبرانی نے الکبیر میں روایت کیا:
«مَا مِنْ عَبْدٍ يَسْتَرْعِيهِ اللَّهُ رَعِيَّةً، يَمُوتُ يَوْمَ يَمُوتُ غَاشّاً لِرَعِيَّتِهِ إِلا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ»
"جس شخص کو اللہ نے اختیار دیا اور وہ اس حال میں مرا کہ اپنی رعایا کو دھوکہ دیا، تو اللہ اس پر جنت حرام کر دے گا"۔ یہی وہ الرويبضات حکمران ہیں، جو غور وفکر نہیں کرتے۔
11 صفر الخیر 1440 ہجری
2018/10/20 عیسوی