بسم الله الرحمن الرحيم
کیا عالمی معیشت میں ڈالر کےعالمی غلبہ کے ختم ہونے کی شروعات ہوچکی ہے؟
ترجمہ
سوال:
چند ممالک جیسے چین ، روس اور یوروپی یونین کی جانب سے بین الاقوامی تبادلہ کی خاطراستعمال ہونے والی کرنسی کو تبدیل کرنے کے اقدامات سامنے آئے ہیں اور ایسے معاہدات بھی انجام پائے ہیں جن کے تحت چند ممالک کی مقامی کرنسی پر معاملات طے کئے جائیں گےمثلا روس کا ہندوستان کے ساتھ31/10/2018 کوs-400 میزائل کی خریداری کا معاہدہ روسی کرنسی میں طے پایااور ایک مہینہ قبل اسی قسم کی میزائل خریداری کا معاہدہ اس نے ترکی کے ساتھ ان دونوں ممالک کی آپسی کرنسی میں طے کیا ہے، ترکی بولنے والے ممالک کے اجلاس میں اردوگان کی میٹنگ کے دوران چین نے اعلان کیا کہ وہ ایران سےخریدےجانے والے تیل کی قیمت پیٹرو یوان(petro yuan) میں ادا کرے گا اور سینٹرل بنک آف چائنا نے جاپان کے مرکزی بنک کے ساتھ باہمی طور پر مقامی کرنسی کے تبادلہ کے دوطرفہ معاہدہ پر دستخط کئے ہیں جس کے تحت 200 بلین یوان جس کی مالیت (29 billion dollar) ہے ، کا 3.4 ٹریلین ین (yen)کے ساتھ تبادلہ کیا جائے گا، چنانچہ کیا بین الاقوامی معیشت میں ڈالر کے غلبہ کے خاتمہ کا آغاز ہوچکا ہے؟
جواب:
واضح جواب کی خاطر ضروری ہے کہ ہمارے ذہن میں عالمی معیشت میں ڈالر کی حیثیت کیا ہے اس کی حقیقت واضح رہے۔
اول: بین الاقوامی طور پر ڈالر کی حیثیت 1944 میں بریٹن ووڈ معاہدہ (Bretton Wood Agreement)کے تحت نکل کر سامنے آئی جب امریکہ نے اس میٹنگ کے شرکاءپرعائد کیا کہ وہ ڈالرکو اور اس کے غلبے کوقبول کریں کیونکہ وہ دوسری عالمی جنگ کا ایسا فاتح تھا جو جنگ سے متاثر نہیں ہوا تھا، چنانچہ ایسے مالیاتی نظام کی منظوری دی گئی جس کے تحت دس بڑے صنعتی ممالک نے اپنی مقامی کرنسی کی قیمت ڈالر کی مناسبت سے طے کرنا قبول کیا اور امریکہ نے بھی اقراردیا کہ امریکی ڈالر کو سونے کی بنیاد (یعنی فی اونس سونے کی قیمت 35ڈالر) پر طے کرے گا اوریہ کہ وہ بیرونی ممالک کے مرکزی بنکوں کی طرف سے مہیا کرائے گئے ڈالر کاسونے سے مبادلہ سونے سے منسلک ڈالر کی قیمت پر کرے گا،اس دور میں امریکہ خزانہ کے سونے کے ذخائرکا تخمینہ مجموعی طور پر دنیا کا دوتہائی مانا جاتا تھا البتہ بیرونی اخراجات کے سبب ادائیگیوں کے توازن میں مسلسل کمی کی وجہ سےاس کے خزانہ میں موجود سونے کےذخیرہ میں کمی آتی گئی اور 1961اور 1970 کے درمیان یہ گھٹ کر پانچ بلین ڈالر کے برابر ہوگیا ، صدر نکسن نے 1971 میں ڈالر کو سونے سے بدلنے پر پابندی لگادی اور ڈالر کا سونے سے رشتہ منسلک کرنے والے نظام کے خاتمہ کا اعلان کردیا۔
نکسن انتظامیہ نے مالیاتی نظام میں لائی گئی اس تبدیلی کا بندوبست سعودی عرب کے ساتھ1972 سے 1974 تک چلنے والے معاہدات کے ایک سلسلہ کے ذریعہ کیا اور نام نہاد پیٹروڈالر کی بنیاد ڈالی اور دیگر ممالک کو ڈالر کا ذخیرہ اپنے پاس محفوظ رکھنے کی وجہ فراہم کردی کیونکہ انہیں پیٹرول کی خریداری کی ضرورت توپیش آنی ہی تھی جو سعودی عرب کے ساتھ انجام دئیے گئے ان معاہدات کے تحت ڈالر کرنسی میں انجام پانے تھےجو دنیا میں سب سے زیادہ تیل برآمد کرتا ہےاور سعودی عرب بھی اس کے لئے تیار ہوگیا کہ وہ ڈالر کے بدلےقیمت ہتھیار اور انفراسٹرکچر اورامریکی ٹریژری بانڈز ( امریکی ریاستی خزانہ کے بانڈز) حاصل کرے گااور1977 کے آنے تک امریکی خزانہ کےبیرون ممالک میں موجودبانڈز کا20فیصد حصہ سعودی عرب کے پاس آچکا تھا، اگر تیل کوبھی سونے کے ساتھ ملادیا جائے جس کی اپنی قیمت بھی ڈالر میں چکائی جانی ہو تو پھر ہرایک ملک ڈالر حاصل کرنا چاہتا تھا اورسال 2000 تک عالمی ریاستوں کے مرکزی بنکوں کے پاس امریکی ڈالر کی 71 فیصد نقدی جمع ہوچکی تھی تاہم اس کے بعد سےکم ہوکر62 فی صد ہوئی ، اس کے علاوہ 40فیصد عالمی قرضہ بھی ڈالر کی شکل میں پایا جاتا ہے۔
دوم: آج بین الاقوامی لین دین پر ڈالر کا قبضہ ہے جس کی وجہ سے ڈالر کی زبردست مصنوعی مانگ اور مارکیٹ قائم ہے جس کی وجہ سے ڈالر کسی بھی دوسری مقامی کرنسی سے مختلف ہےاورروزانہ لاتعداد لین دین میں ڈالر ایک درمیانے دلال کی حیثیت میں شامل ہوتا ہے ، اس لین دین کی مالیت تقریباً 5.4 ٹرلین ڈالر یومیہ ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ غیر ملکی زرمبادلہ کے یومیہ لین دین میں ڈالر کا حصہ 84.9 فی صدہے جس میں سےخود امریکی لین دین اس کی نصف تعداد سےبھی کم ہےکیونکہ غیر امریکی ممالک بھی اپنی آپسی تجارت میں ڈالر کو استعمال کرتےہیں، ڈالر کی معاشی طاقت کا مطلب ہے کہ امریکہ ڈالر کو نہ صرف معاشی او ر مالیاتی طور پر نشانہ بنائے گئے ملک کے خلاف ہتھیار کے طور پراستعمال کرکے اسےسزادے سکتا ہےبلکہ دیگر ممالک کو بھی اس ملک کے ساتھ تجارتی تعلقات نہ رکھنے کے لئے اُکسا سکتا ہے اور امریکہ اس کڑی کاروائی کو SWIFT سسٹم یعنی (The Society for Worldwide Interbank Financial Telecommunication) کے ذریعہ انجام دے گا، یہ ڈالر کے بندوبست و تصفیہ کا سسٹم ہےچونکہ ڈالر ایک گلوبل ریزرو کرنسی ہے لہذاSWIFT سسٹم ڈالر کے اس عالمی نظام کی سہولت کاری کو انجام دیتا ہے دنیا بھر کے ممالک اس سسٹم کے ذریعہ اپنا لین دین کرتے ہیں اور یہ سسٹم اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ کسی بھی دو فریقین کے مابین ہونے والےسارے تجارتی لین صرف ڈالر میں ہی انجام پائیں اور امریکہ اس سسٹم کے ذریعہ کسی بھی ملک پر زبردست معاشی پابندیاں عائد کرسکتا ہے،اسی سسٹم کےذریعہ امریکہ نے2014اور 2015کے درمیان روسی بنکوں پر پابندی عائد کررکھی تھی جب ان دونوں ممالک کے آپسی تعلقات میں کشیدگی بڑھی ہوئی تھی اورنومبر 2018میں امریکہ نے اسیSWIFT سسٹم کے ذریعہ ایران پر سخت معاشی پابندیاں عائد کی تھیں اور کئی یوروپی ممالک نے امریکہ کے خوف سے ایران کے ساتھ اپنے تجارتی معاہدات کو نبھانے سے انکار کردیا تھا۔
یہ سب اس لئے ممکن ہوا جیسا کہ ہم نے پہلے بتلایا ہے کہ ڈالر دنیاکی گلوبل ریزرو کرنسی ہےاور پچھلے سال کے اختتام تک دنیا کے 146 مرکزی بنکوں کے ذخیرہ کردہ سرمایہ کی مجموعی ریزرو کرنسی کا 64 فی صد حصہ ڈالر کی شکل میں ہو چلا ہےاور اس کے بعد اگلا بڑا حصہ یورو کی شکل میں 20 فی صد ہے جبکہ جاپان کے ین اور اسٹرلنگ پاؤنڈکا 5 فی صد حصہ ہےاور اس میں چین کے یوآن کو شامل نہیں کیا گیا جس کا بیرونی ممالک کے ریزرومیں حصہ108 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ نہیں ہے یعنی ۱یک فی صد سے بھی کم حصہ ہے۔ (www.alquds.co.uk 19/8/2018)
تیسرے: ان تمام باتوں کی روشنی میں دنیا میں اثر ورسوخ رکھنے والےممالک نے ڈالر کے اثر کو کم کرنے کی خاطر دو راستوں کو اختیارکیا جس میں ایک 1999 کا یوروپی موقف تھا جس کے تحت2002 میں امریکی ڈالر کے بالمقابل سرکاری طور پر یورو میں تجارت شروع کی گئی اور یہ یوروپین معیشتوں کے استحکام اور ان کی اپنی قابلیتوں پر اعتماد کی بناء پر تھا دوسرا راستہ روس اور چین جیسے ممالک کے ذریعہ تھا جواس کام میں تاخیر سے شامل ہوئے کیونکہ یہ اس وقت مقابلہ کی پوزیشن میں نہ تھے(جب کہ یورو موجود نہ تھا)اور2008 کا معاشی بحران سامنے نہیں آیا تھااور ان کو اپنے ڈالر کے ریزرو میں کمی اور اس کی قیمت کے گھٹ جانے کاخوف لاحق ہواتووہ پھرسےڈالر کا غلبہ گھٹانے کی خاطر یوروپ کےپرانے ممالک کے ساتھ شامل ہوئے اب جبکہ چین ایک عالمی معیار کی معیشت بن چکا ہےتو اس کی بین الاقوامی کوششیں ڈالر کی اہمیت کو گھٹانے میں اثر پیدا کرنے لگیں ہیں ۔
اس طرح 2008 کا معاشی بحران ان ممالک کے لئے ایک الارم کی طرح بن کر آیا کہ وہ بحران کے بعد اپنے پاس موجود ڈالر کے متعلق سوچنا شروع کریں البتہ جس چیز نے اس مرحلہ کو تیز تر کردیا ہے وہ ٹرمپ کی اشتعال انگیزی اور پابندیاں ہیں اور ٹرمپ انتظامیہ کی نئی پالیسیوں نے دیگر طاقتور ممالک کےذریعہ ڈالر کے عالمی غلبہ کو کم کرنے کے رجحان و منصوبہ میں تیز ی لادی ہےاور صدر ٹرمپ کی ’’پہلےامریکہ‘‘ کی پالیسی کواندھادھند طریقہ سے نافذ کیا جارہا ہے، حالانکہ پچھلی ساری امریکی انتظامیہ امریکی مفاد کےحق میں ہی کام کررہی تھیں لیکن ٹرمپ انتظامیہ دیگر ممالک کے مفادات کاذرہ برابر احترام کئے بغیر کا م کررہی ہے ، ٹرمپ نے پچھلے تمام سالوں میں امریکی ملٹری کے ذریعہ یوروپ کی حفاظت کرنےکا یوروپ سے معاوضہ طلب کیا ہےاور چین کے ساتھ تجارتی جنگ کو بھڑکانے کی خاطرخطرہ کی چنگاری لگائی اور شمالی کوریاکے میزائلوں سےجاپان اور کوریا کے تحفظ کا معاوضہ ان سے طلب کیا اور ٹرمپ نے جب ایران پر پابندیاں عائد کرنا شروع کیں اورجو ایران سے تیل امریکی ڈالر میں خریدنا چاہتا ہو تو ان ملکوں کوبھی اس پابندی میں شامل کرنے کی کوشش کی اور چونکہ چین دنیا کا سب سے بڑا تیل درآمد کرنے والا ملک ہے چنانچہ ٹرمپ کی کاروائی نے چین کوڈالر کےاستعمال کے خلاف اقدامات کے لئے تیارکیا بالخصوص جب کہ وہ امریکہ کےمقابل تجارتی جنگ میں شامل ہے اس طر ح مارچ 2018 میں شنگھائی فیوچرزایکس چینج نے بیرونی سرمایہ کاروں کے لئے اپنا پہلا اوپن اینڈڈفیوچرز کنٹراکٹ (open-ended futures contract) کا آغاز کیا ، یہ فارورڈآئل کنٹریکٹ (a forward oil contract) چین کی یوآن کرنسی میں تھا جوڈالر کی بنیاد پر برینٹ اور WTI کنٹریکٹ کے بالمقابل تھا جو موجودہ عالمی معیارو پیمانہ تسلیم کئے جاتے ہیں۔
چنانچہ 2008 کا امریکی مالیاتی بحران اوراس کا دنیا کے دیگر ممالک کی معیشت پر اثرانداز ہونا اور پھر ٹرمپ کی تحفظ پسندی اور تجارتی جنگ اور معاشی اور مالیاتی پالیسی ان تمام باتوں نے مل کر ڈالر کے غلبہ کےخلاف عالمی رجحان کو مزید بڑھایا ہے۔
چوتھا: چنانچہ ان کاروائیوں نے ایسے ممالک کو اشتعال میں لایا جوخودمختارو طاقتور ہیں اور کئی دفعہ ان ممالک نے بھی نوٹس لیا جو طاقتور ممالک کے گرد گھومتے ہیں البتہ موثر و طاقتور تحریک ان خودمختار ریاستوں کی جانب سے ہے کیونکہ ایسی سیٹیلائٹ ریاستیں جو امریکہ کے مدار میں گردش کرتی ہیں ان کی مدافعتی حرکت عارضی اور کسی مقصد کے تحت ہوتی ہے اوروہ پھرواپس ہوکر گھومنے لگتے ہیں کیونکہ وہ امریکہ کی موثرمخالفت کے آگے اپنی مخالفت جاری نہیں رکھ سکتے جب تک کہ وہ اس کے مدار میں گردش کرتے رہیں اور ہم ان تمام ترممالک کی کاروائیوں کا تجزیہ کریں گے
1۔خودمختار ریاستوں کی کاروائیاں:
الف۔ روس: 2009 میں روسی صدر میڈویڈیف نےG8 ممالک کی لندن میٹنگ میں ڈالر کو بدلنے کے لئے متبادل عالمی کرنسی کی رائے پیش کی تھی چین، روس، ہندوستان ، ترکی اور تیل کی پیداوار کرنےوالے دیگر ممالک نے حال میں اپنے’’ سارے تجارتی اور سرمایہ کاری کے لین دین کو اپنی مقامی کرنسی ‘‘ میں کرنے کا معاہدہ کیا ہےالبتہ ان سب کے باوجود خام مال اور سونے کی قیمتیں ڈالرپر ہی قائم رہیں گی، روس نے بارہا امریکی ڈالر کو دیگر مقامی کرنسی سے بدلنے کے متعلق بیان دیا ہے کیونکہ روس کایوکرین کے کریمیا اور مشرقی یوکرین پر حملہ آور ہونےاور اس پر قبضہ کرنے کے بعدسے امریکہ نے روس پر پابندیاں لگادی تھیں اور پھر یہ 2016 کےامریکی الیکشن میں روسی دخل اندازی کی تحقیقات کے طور پر بھی لگائی گئیں تھیں۔
2015کے بعد سے امریکہ مسلسل روس پر اپنی پابندیاں بڑھاتارہا ہے ،کانگریس’’ پابندیوں کے ذریعہ امریکی دشمنوں کے مقابلہ کےقانون ‘‘کے تحت رفتہ رفتہ ان پابندیوں کادائرہ بڑھا رہی ہے جس کو اگست 2017 میں جاری کیا گیا تھا اور پھر روس کے خلاف مزید سخت پابندیاں عائد کی گئیں اور یہ پابندیاں روس کے لئے کڑی تھیں جس نے روس کے بڑے بنکوں کا تعلق ڈالر سے ختم کردیا تھا جس کی وجہ سے روسی روبل کی قیمت ڈالر کے مقابلے18 فی صد سےگِر گئی تھی اور یہ جب کہ روس اپنے58 فی صد قرض میں ڈالر کا استعمال کرتا ہے یعنی روس تقریباً آدھا قرض ڈالر میں حاصل کرتا ہےچنانچہ روس مشکل میں گھر گیا یہ صورت حال مالیاتی، معاشی اور مادی طور پر ڈالر سے آزادی کے لئےروس پر ڈالر کے استعمال کو کم کرنے کے لئے دباؤ بنارہی تھیں ، پوتن نے ریاست کے ڈوما میں دی گئی تقریر میں کہا ’’ہمیں اپنی معاشی خومختاری کو مستحکم کرنا ہوگا ،سٹاک ایکسچینج میں تیل کی خریداری ڈالر میں ہےاور ہم بے شک سوچ رہے ہیں کہ کس طرح اس بوجھ سے چھٹکارا پائیں" مزید اس نے کہا کہ ہم پچھلی صدی میں ایسی امید کرنے والےبے وقوف تھے کہ بین الاقوامی تجارت اور عالمی معیشت میں بیان کردہ اصولوں کی پاسداری رکھی جائے گی اور ہم اب دیکھتے ہیں کہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے قوانین کی خلاف ورزی کی جارہی ہےاور سیاسی بنیادوں پر پابندیاں عائد کی جارہی ہیں جس کو وہ Sanctions کہتے ہیں ۔(Duniya Al-Watan, 9/5/2018)، اور پھر روس نےرفتہ رفتہ اپنےپاس سےامریکی ٹریزری بانڈز کی تعدادکو کم کرنا شروع کیا جو 2008 میں سب سے زیادہ 223بلین ڈالرتک پہنچے تھے اور پچھلے سال کے اختتام تک 100 بلین ڈالر تک آپہنچے تھے ۔روس پر امریکی پابندی کے نتیجہ میں روس اپریل اور مئی 2018 میں اس سے بھی دستبردار ہوگیا اور اب اس کے پاس امریکی ٹریزری کے 14.5 بلین ڈالر مالیت کے بانڈر موجود ہیں۔
البتہ روس کا روبل امریکی ڈالر کا بدل نہیں ہوسکتا کیونکہ روبل میں اعتماد نہ ہونے کی وجہ سے اہم ممالک کو روبل کی حمایت کے لئے متحرک نہیں کیا جاسکتااور دنیا میں بیشتر ممالک روبل خریدنا نہیں چاہتے کیونکہ کرنسی مارکیٹ میں اس میں بڑی تبدیلی دیکھی جاتی ہے اور بالخصوص دنیا کو روسی روبل میں ریزرو کرنسی کے طور پر اعتماد نہیں ہے چنانچہ روس زیادہ سے زیادہ دیگر ممالک پر روسی توانائی کو روسی روبل میں خریدنے کے لئے زور دے سکتا ہے لیکن روسی روبل ڈالر کی جگہ نہیں لے سکتا ہے۔۔روسی صدر پوتن کے ترجمان ڈمیتری پیسکوف نے Rossiya TV channel کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ’’بیشتر ممالک نہ صرف مشرقی ممالک بلکہ یوروپ میں بھی راستے تلاش کررہیں تاکہ امریکی ڈالر پر انحصار ختم کیا جاسکے۔۔اور اچانک انہیں معلوم ہوا ہے کہ ایک تو یہ ممکن ہے، دوم ایسا کرنا چاہئیے، سوم خودکو جتنا جلدی ہوسکے بچالواور جلد ایسا کرلو‘‘۔
’’ڈالر کو کچھ حد تک منسوخ کرنا توممکن ہے البتہ مسئلہ یہ نہیں کہ آپ ڈالر کےچنگل سے باہر نکلنا چاہتے ہو بلکہ (مسئلہ تو یہ ہے کہ )ڈالر نہیں تو پھر اس کا متبادل کیا ہے،یورو؟ یوآن؟ یا پھر بٹ کوائن ؟ اور ان میں سے ہر ایک فیصلہ کی اپنی قیمت چکانی ہوگی اور ہمیں ڈالر کے ساتھ رہنے اور اس کا متبادل تلاش کرنے کی قیمت کے درمیان توازن حاصل کرنا ہوگا‘‘۔ روسی سنٹرل بنک کے سابق نائب صدر Oreshkin نے کہا(Financial Times, 3/10/2018)، اور ان سب سے ظاہر ہوتا ہے کہ روسی افسران خود بھی ڈالر کے مقابلے میں عالمی ریزرو کرنسی کے طور پر روبل کی اہلیت کے متعلق پُر اعتماد نہیں ہیں۔
ب۔ چین : چین اپنی کرنسی یوآن کو مضبوط گلوبل کرنسی کے طور پر دعویدار بنا سکتا ہے لیکن اس کی عالمی سیاسی دسترس کمزورہےجوامریکہ سے اس کی کشمکش و تنازعہ کے باعث اس کے معاشی میدان عمل کومزید تنگ بناتی ہےچنانچہ وہ بڑی معیشت ہونے کے باوجود اپنی کرنسی کو عالمی طور پر تجارت و مالیاتی مارکیٹ میں نافذ نہیں کرسکا ہے البتہ اس نے ڈالر کو اختیار کرکے بڑے پیمانہ پراکٹھا بھی کیا ہوا ہےجو حالیہ چند سالوں میں ۳ سے ۴ ٹرلین ڈالر تک اس کے پاس جمع ہوا ہے حالانکہ اس نے امریکی مالیاتی اداروں سے دور جانے کی کوشش کی ہےاورایک معاشی گروپ BRICS کو قائم کیا ہے جس میں برازیل ، روس، انڈیا، چین اور ساؤتھ افریقہ شامل ہیں اور BRICS گروپ کی مجموعی معیشت 15 ٹریلین ڈالر ہے جو عالمی معیشت (74ٹرلین ڈالر) کا 20 فیصد ہےاور اس نےشنگھائی میں جولائی 2015 میں ابتدائی طور پر 50بلین ڈالر سرمایہ کے ساتھ ایک ڈیویلپمنٹ بنک بھی قائم کیا ہے تاکہ BRICS گروپ کے لئے سرمایہ کاری اور قرض مہیا کراسکے جوآگے چل کر 100 بلین ڈالر تک پہنچ کر ورلڈ بنک کا متبادل بن سکے۔اس کے باوجود بھی وہ ڈالر سے دست بردار نہیں ہوا ہے ۔
جب صدر ٹرمپ نے ایران پر پابندیاں عائد کیں اور اس میں ہر اس ملک کو شامل کیا جوڈالر کے ذریعہ ایران سےتیل خریدنا چاہتا ہواور چونکہ چین اس وقت دنیا کا سب سے بڑا تیل کا خریدارملک ہے توٹرمپ کے رویہ نے چین کو مجبور کیا کہ وہ ڈالر کے استعمال پر روک تھام لگائے بالخصوص جب کہ وہ امریکہ کےساتھ تجارتی جنگ میں ہے، چنانچہ مارچ 2018میں شنگھائی فیوچرز ایکسچینج نے بیرونی سرمایہ کاروں کے لئے پہلے کھلے فیوچرز کنٹریکٹ کا آغاز کیا ، یہ فیوچرزکنٹراکٹ ڈالر پر مبنی برینٹ اور WTI کنٹریکٹ کے مقابلہ میں یوآن کرنسی میں طے کیے گئے اور یہ تمام اقدامات اہم ہیں اور ڈالر کی اجارہ داری ختم کرسکتے ہیں۔البتہ ڈالر کو ہٹانے کی چین کی اس محنت میں رکاوٹ چین کا امریکی معیشت اور امریکی ڈالر پر انحصار ہےاور چین وامریکی تجارت کا حجم بڑا ہے جو500بلین ڈالر سالانہ ہوتی ہےاوراس کے پاس امریکی ٹریزری بانڈزاب 1170 بلین ڈالر مالیت کے ہیں ((Chinese financial newspaper Xinhua website 20/9/2018)) جو 2013 کے مقابلے ( 1300 بلین ڈالر ) میں گھٹا ہےاور چین ان بانڈز کا دنیا کا سب سے بڑا حصہ دار ہے، چین کے پاس ڈالر کے ریزرو 3سے 4ٹرلین ڈالر تھے جس میں 2016 کے چین کی برآمدات (2.1ٹرلین ڈالر) کو جوڑا جاسکتا ہےاور چین نے 1.6ٹریلین کی درآمدات کیں یوں چین ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے مطابق امریکہ کےبعد دنیا کی بڑی کمرشل ہئیت رکھتا ہے۔
اس طرح امریکہ کے ساتھ چین کی تجارت کی تیزی اور چین کے پاس ٹریزری بانڈز کی موجودگی اورمرکزی بنک کے ریزروڈالر کی وجہ سے ڈالر پر انحصار ہٹانے کی خاطرچین کسی بھی سنجیدہ اقدام کرنے کے لئے ایک قدم آگے اور ایک قدم پیچھے چلتا ہےاور امریکی ڈالر میں بین الاقوامی تجارت کرنے کی طرف امریکی حوصلہ افزائی میں کامیابی کی وجہ سے چین کی ڈالر کو ہٹانے میں دلچسپی نہیں ہےاور وہ جانتا ہے کہ ڈالر کو ہٹانے پر سب سے زیادہ وہی متاثر ہوگااور یہ بات اس کو اپنے رول کو محتاط و آہستہ کرنے کی طرف بڑھاتی ہےتاکہ وہ اپنے ڈالر اور بانڈز کے ذخیرہ کو محفوظ رکھےاور اگر چین کی ساری تجارت ڈالر سے ہٹ کر روس کے ساتھ ہوجائے تو بھی یہ مسئلہ کا حل نہیں ہےکیونکہ دونوں طرف کی باہمی تجارت 120 بلین ڈالر کی ہے(Arabic China 23/9/2018) جو عالمی تجارت کے مقابلہ میں بہت محدودہے جو سالانہ 20ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہے اس طرح ڈالر کے غلبہ کو کم کرنے کی خاطر چین روس کے مقابلہ میں کم حوصلہ دکھا رہا ہے اورمزید محتاط قدم رکھتا ہے۔
البتہ چین نے ڈالر میں لین دین کے نقصان کو پہچان لیا ہے بالخصوص ڈالر اور بانڈز کے سٹاک کی شکل میں ، اس لئے وہ سب سے زیادہ سونے کا خریدار بن چکا ہےاور اس کے سونے کا ذخیرہ 2008 میں 600 ٹن سے بڑھ کر 2018 میں 1842ٹن ہوچکا ہےاور یہ جواز ہے اس کے ڈالرکے ذخیرہ میں کمی آنے کا جو2014 میں سب سے بلند ی (4 ٹرلین ڈالر) پر پہنچا تھا (Trading Economics website). ، غور طلب ہے کہ چین نے 2015میں ہی700 ٹن سے زیادہ سونا خرید لیا تھا اور جہاں تک امریکی ٹریزری بانڈز کی بات ہے تو 2008 کے مالیاتی بحران کے بعد چین نے ان کو فروخت کیا اور اگلے دو سال تک اس کا سٹاک کم ہونے لگا البتہ امریکہ کی جانب سے چین کی تجارت پر قدغن لگانے کی دھمکی جو کہ امریکہ میں درآمد چینی کھلونوں کے غیر محفوظ ہونے کےمسئلہ کے دوران دی گئی تھی اس نے چین کو دوبارہ ڈالر لینے کی طرف موڑ دیا اور ایسا معاملہ 2013 تک چلتا رہا اور پھر ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے تجارتی جنگ چھیڑنے کے باعث چین امریکی ڈالر و بانڈز کے سٹاک کی فروخت کی سمت چل پڑا ہے۔
اور اس نے ان بانڈز کے سٹاک کوکسی تصادم کے بغیر کم کرنا شروع کیا ہے۔اور پھر اپنی تجارت میں ڈالر کا استعمال کم کرنے کی کوششیں کی ہیں اور اس نے روس، جاپان اور دیگرممالک کے ساتھ مقامی کرنسی میں تجارت کرنے کا معاہدہ کیا ہےاور اس نے تیل کی تجارت کے لئے شنگھائی سٹاک ایکسچینج کا قیام کیا تاکہ سونے کی بنیاد پر یوآن میں تیل کی تجارت ہوسکے جس نےاپنے قیام کے پہلے چھ مہینوں میں دنیا میں تیل کی مجموعی تجارت کا 10 فیصداپنے گرفت میں کرلیا ہےاور یوآن اسپیشل ڈرائنگ رائٹس SDR میں شامل ہوگیا۔یوآن اب ڈالر ، یورو، جاپان کے ین، برطانوی پاؤنڈکے ساتھ اسپیشل ڈرائنگ رائٹس SDR رکھنے والی کرنسیوں کے گروہ میں شامل ہوگیا ہےجو 1/10/2016 سے موثر ہوگا ۔https://www.imf.org 30/9/2016))
البتہ ان سب کے باوجود چین کے ڈالر کے سٹاک اور بانڈز کے ذخیرہ کا بڑا حجم ڈالر کو ہٹانے کے کام کو غیر مؤثر کردیتا ہےاور اسی لئے بین الاقوامی ادائیگی کاحصہ 1.7 فیصد سے زیادہ نہیں ہے،اس کے مقابلہ میں ڈالر کے پاس بین الاقوامی ادائیگی 40فیصد تک ہے۔
ج۔ یوروپین یونین: 1999 میں یورو کرنسی کا اجرا ہوا، اس کا استعمال بنکوں میں شروع ہوا اور2002 کے بعد سے یوروچند ممالک کی متبادل مقامی کرنسی کے طور پراستعمال ہوا اور اس نے ڈالر کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی کیونکہ اس کے پشت پر جرمنی اور فرانس جیسےعالمی طور پر مضبوط معیشتی ممالک تھےجس میں دیگر صنعتی اور دولتمند ممالک شامل ہوگئے اس طرح عالمی طور پر یورو مضبوط کرنسی کی شکل میں سامنے آیاجس کی پشت پر ایک جگہ جمع عالمی سیاسی قوتیں تھیں جو عالمی اورسیاسی سطح پر متاثر کن تھیں اور امریکہ کا مقابلہ کرسکتی تھیں اور جس کے پاس اپنی آزادانہ طاقتور فوج قائم کرنے کی طاقت موجود ہےاور یورو بین الاقوامی ریزرو میں 20 سے 23فی صد تک موجود ہےالبتہ یوروکو عالمی معیشت پر چھانے سے جو چیز روکتی ہے وہ امریکہ کا سامنا کرنے میں یوروپی یونین کی سیاسی ، عسکری و معاشی کمزوری ہےابھی تک یوروپی یونین اپنے وجود کے دفاع میں لگی ہوئی ہے جیسا کہ خطرات موجود ہیں جو اس کے وجود کے لئے آسان چیلنج نہیں ہے اور برطانیہ کا یوروپی یونین سے باہر جانا اس کے اعتماد کو جھٹکا تھا اسی کے ساتھ اس کے ممالک میں موجود علیحدگی پسندی کی نسلی تحریکات کو عروج حاصل ہونا جو یونین سے باہر جانے کا مطالبہ کررہے ہیں جس نے اس اتحاد( یونین) میں اعتماد کو مزیدکمزور کردیا ہے ،مزید سیاسی فیصلوں میں نااتفاقیاں وہ عوامل ہیں جو یورو کرنسی اوراس کے متعلق کم اعتمادی میں جھلکتے ہیں ۔
2۔ریاستیں جو روس ، یوروپ اور چین کے معاہدہ کے ساتھ ساتھ امریکہ کے مدار میں گھومتی ہیں : ترکی ، ایران ، ہندوستان اور جاپان
۔ ایران کے مرکزی بنک کے سربراہ عبدالناصر ہمّتی نے اعلان کیا کہ روس او ر ترکی کے نمائندوں کے ساتھ اس کی میٹنگ میں "ڈالر کی بجائے مقامی کرنسی میں تجارت "کے متعلق بات چیت ہوئی ۔ (Tehran Times 9/9/2018)
۔ ترکی ، روس اور ایران ایک دوسرے کے ساتھ ڈالر کی بجائے مقامی کرنسی میں تجارت کرنے کی خاطر تیار ہوئے ہیں،اناطولیہ ایجنسی کی رپورٹ ۔ سرکاری ایجنسی ایران کے مرکزی بنک کے گورنر عبدالناصر ہمّتی کےبیان کا حوالہ دیا ’’تجارتی لین دین مخصوص زرمبادلہ کی شرح کو استعمال کرکے ہوں گے‘‘ (https://ahvalnews.com/ar 9/9/2018)
۔اکتوربر 2018میں چین اور جاپان نے 30بلین ڈالر کی کرنسی کے تبادلہ کا معاہدہ کیا ہےجو جاپان کا سب سے بڑا معاہدہ ہے۔
۔ہندوستان کو روس کی جانب سے S400 میزائل فراہم کرنے کا تجارتی معاہدہ روس کی کرنسی روبل میں کیا جائے گا ، روسی کے نائب وزیراعظم یوری بوریسوف نے31/10/2018 کو بیان دیا۔
یہ تمام ممالک جن کو روس اور چین مقامی کرنسی کے مطابق لین دین کرنے کی پالیسی پر لانے کی کوشش کررہے ہیں ابھی تک امریکہ کے مدار میں گھومتےہیں یا اس کے ایجنٹ ہیں یعنی وہ سیاسی طور پر امریکہ سے جڑے ہوئے ہیں اورجلد مریکہ کے ہمراہ چل پڑتے ہیں اور ڈالر میں لین دین مسترد کرنے کا فیصلہ خود نہیں لیتے یا پھر ڈالر کواپنے نقدی کےسٹاک کی ریزرو کرنسی کے طور پر نہیں بدلتے،معاشی خودمختاری کو سیاسی خود مختاری سے جوڑ کر دیکھنا ضروری ہے جیساکہ خودمختار روس یا چین اور اگر ان ممالک نے روس اور چین کے ساتھ مقامی کرنسی میں لین دین پر غور کرنا شروع کیا ہے تو اس کی وجہ امریکہ کے ذریعہ ان پر دباؤ ڈالا جانا تھا جو ایک ایمرجنسی صورت حال کے تحت ہوا تھا البتہ جب یہ ایمرجنسی ختم ہوجائے گی یہ ممالک واپس پچھلی حالت پر لوٹ جائیں گے۔
چونکہ ترکی کے اسٹیل پر پابندیاں عائد کی گئیں اور امریکہ نے ترکی کی کرنسی کو نشانہ بنایا تو اردوگان نے مقامی عوامی رائے عامہ کی خاطر ڈالر پر تنقید کرنا شروع کی ، ترکی کا مجموعی قرضہ 400 بلین ڈالر ہے جو ڈالر میں وصول کیا جاتا ہےجس کا سیدھا مطلب ہے جب بھی ترکی کرنسی کی قیمت گھٹتی ہے تو قرض کی ادائیگی کے لئےمزید اضافی ترکی لیرا اداء کرنا پڑتا ہےاور پھر مہنگائی بڑھتی ہے اور لوگوں پر بوجھ بڑھتا ہےاور اردوگان پہلے کی طرح اپنی چمکدار تقریریں کرتا رہتا ہے، اردوگان نے تین ستمبر کوکرغیزستان میں ترکی کونسل کی چھٹویں کانفرنس میں روح اردو ثقافتی مرکز Roh Ordu Cultural Center میں بیان کیا کہ’’ہم تجارت کی خاطرڈالر کی بجائے اپنی مقامی کرنسی میں لین دین کی رائے پیش کرتے ہیں ‘‘۔
اس بیان کی کوئی حقیقت نہیں ہے اورنہ بن سکتی ہےکیونکہ ترکی کی تجارت بنیادی طور پر یوروپی یونین کے ساتھ ہےالبتہ ترکی ڈالر میں تجارت کرتا ہے اور ڈالر میں قرض لیتا ہےاور اس کی کرنسی کے ریزرو کا بڑا حصہ ڈالر کی شکل میں ہے اور درآمد شدہ تیل ، قدرتی گیس اور درآمد شدہ خام مال سب ڈالر میں خریدا گیا ہے اور ہم نے دیکھا کہ جب امریکی پادری کو آزاد کیا گیا اور امریکی پابندیاں ہٹالی گئیں تو چیزیں واپس لوٹ گئیں اور پابندیوں کے ہٹنے سے قبل ڈالر کو ہٹا کر مقامی کرنسی میں تجارت کرنے کا جو جوش آاا تھا اب ختم ہوگیا ، جہاں تک وسطی ایشیاء میں ترکی بولنے والے ممالک کی بات ہےتو وہ روسی پالیسی پر عمل کرتے ہیں اور ترکی کی تجارت ان ملکوں کے ساتھ عالمی پیمانے پر کسی اہم مقدار میں نہیں ہےاگر ان سے لین دین کو مقامی کرنسی میں بھی کرلیا جائے کیونکہ ان ممالک کی معیشت چھوٹی ہے۔
اور ایران پر امریکہ نے کئی سال سے سخت مالیاتی پابندیاں عائدہ کیں ہیں جب سے ایران کو امریکی بنک سسٹم سے باہر نکالا گیا ہے جس کے تحت وہ ڈالر میں لین دین نہیں کرسکتا ہے۔ لیکن2015 میں پابندیوں کے ہٹائے جانے کے فوراً بعدسے وہ اپنا تیل ڈالر میں فروخت کررہا تھا اورڈالر میں ہی کئی بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ اس نے بڑے معاہدوں پر دستخط کئے تھے جن میں یوروپی کمپنیاں جیسے ائیربس اور ٹوٹل جو فرانسیسی کمپنی ہے۔ ایران کارد عمل ایسا رہا ہے گویا کچھ بھی اہم نہیں ہوا تھا جبکہ پابندیاں لگانااور اٹھانا ایران کو بری طرح متاثر کرتا ہے اور امریکہ SWIFT سسٹم کے ذریعہ ایران کو ڈالر کے لین دین سے کبھی اندر اور کبھی باہر کردیتا رہا ہے اور امریکہ جب کبھی ایران مخالف بیانات میں اضافہ کرتا ہےاور اس پر ڈالر کا دروازہ بند کردیتا ہےتو ایران کی جانب سے ردعمل بھی محض بیانات ہوتے ہیں کہ وہ ڈالر میں تجارت نہیں کرے گا۔
جہاں تک ہندوستان کی بات ہے تو وہ لمبے عرصہ سے روس سے ہتھیاردرآمد کرتاآیا ہے اور امریکہ کو اس بات کی پرواہ نہیں ہےاورانڈیا امریکہ کے لئے بڑی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ ہندوستان اہم قوت بن کر ابھرے جو ایشیاء میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کو کم کرنے کی کوشش کرےاور ہندوستان بھی یہ بات جانتا ہے چنانچہ نہ ہی ہندوستان ڈالر کو روبل سے تبدیل کرنے کی خواہش رکھتا ہے اور نہ ہی یوان کو عالمی ریزرو کرنسی بنانا چاہتا ہے۔
جاپان جو امریکہ سے جڑا ہوا ہےاس کے متعلق تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ، اس کے روس کے ساتھ لین دین کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ڈالر کے خلاف ہےیا پھر وہ روبل کو ڈالر کے متبادل کے طور پر قبول کرتا ہے
خلاصہ : روس ، چین اور یوروپی یونین ایسے ممالک ہیں جن کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ وہ ڈالر کو اس کے مقام سے گرانے کی موثر طاقت رکھتے ہیں البتہ ان میں سے ہر ایک ریاست کے پاس ایسے عوامل موجود ہیں جو ان کی حرکت کو روک دیتے ہیں جیسا کہ ہم نے واضح کیا ہےالبتہ اگر یہ ان عوامل سے چھٹکارا پاجائیں تو وہ ڈالر کو اس کے مقام سے ہٹا سکتے ہیں اور اگر وہ اس معاملہ میں مضبوط قدم نہ بڑھائیں تو انہیں’’ کمزور ڈالر‘‘ کا جھٹکا جھیلنا پڑسکتا ہےاور ڈالر کے ذخیرہ کی ان کی دولت ہوا ہوجائے گی ، امریکہ زبردست قرضہ سے ڈول رہا ہے واشنگٹن ایکزامنر1/10/2018 ایک امریکن میگزین کے مطابق ’’ ایک امریکی حکومت کی ویب سائٹ کے مطابق2018 مالی سال کے اختتام یعنی 30 ستمبر2018تک امریکی حکومت کا قرضہ 1.3ٹرلین ڈالر تک بڑھ گیا ہے یہ سائٹ قرض کا ریکارڈ رکھتی ہےاور امریکی قومی قرضہ مالی سال 2017 کے اختتام تک 20.25 ٹرلین ڈالرتھا جو 2018 کے مالی سال کے اختتام تک 21.52 ٹرلین ڈالر تک جاپہنچا ہے ‘‘۔
کئی دہائیوں سے امریکی قرضہ کے اکٹھا ہونے سےملک کی مالی حالت بری ہےاور 2008 کے بعد سے اس میں زبردست اضافہ ہوا ہےاور 8 ٹرلین ڈالر سے بڑھ کراب 21 ٹرلین ڈالر تک پہنچ چکا ہےاور امریکی مالی حالت نازک صورت میں ہے جس کو بولٹن نے قومی سلامتی کے لئے ایسا خطرہ قرار دیا جس کا فوری حل درکار ہے یعنی قلیل مدتی یا درمیانہ مدت پر نہ کہ طویل مدتی حل ۔۔۔ایسی صورت میں امریکہ کے لئے اس کے سواکوئی چارہ نہیں کہ مزیدنقدی لائی جائے یعنی ڈالر چھاپیں جائیں جو اتنی مقدار میں ہوکہ حکومت کے اخراجات کو پورے کرسکے نہ کہ قرض کی ادائیگی کر سکے ورنہ اس سے ڈالر کی کرنسی تباہ ہوجائے گی یا پھر جس چیز کو امریکی ٹریزری نے’’ کمزور ڈالر‘‘ کا نام دیا ہے یعنی اس دولت کا نقصان جو ڈالر میں لین دین کرنے والے مختلف ممالک نے اپنے پاس ڈالر کے ریزرو اور ٹریزری بانڈ کی شکل میں جمع کررکھی ہےاور یہ نقصان اسی قدر ہوگا جتنا کہ ڈالر کمزور ہوگاجو ان ممالک کے لئے زبردست جھٹکا ہوگا۔
البتہ موجود ہ حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام ممالک ڈالر کو بدل کردوسری گلوبل کرنسی اختیار نہیں کرسکتے البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ دیگر ممالک کے ساتھ تجارتی معاہدات کی خاطر مقامی کرنسی استعمال کرنے کی روس اور چین کی کوششیں ڈالر کے غلبہ کو توڑنے میں مؤثر ثابت ہوسکتی ہیں اس شرط پر کہ ان کوششوں میں مزید تیزی آئے اور وہ ڈھیلی نہ پڑیں اور چین کے ہمراہ یوروپی یونین کی حرکت مزید اثرانداز ہوسکتی ہے، اس سے سونے کی خریداری کی مانگ بڑھے گی لیکن یہ مسئلہ کو تب تک حل نہیں کرسکتی جب تک سونامرکزی بنکوں میں commodity یعنی جنس کی شکل میں پڑا رہے گا اور ڈالر کے بدلے فروخت کیا جائے گا جب ریاستوں کو اس کی ضرورت پڑے گی یا پھر ریزرو کی طرح پڑا رہےتاکہ ملک کی کاغذی کرنسی کو سہارا دےسکے اوراس کے ذریعہ وہ ہارڈ کرنسی حاصل کرسکیں البتہ یہ سب مسئلہ کا حل نہیں ہے جب تک سونا اور چاندی کرنسی نہ بن جائیں اور بنک نوٹ جاری کئے جائیں جو سونےاور چاندی کی مقدار کے برابر ہوں اوربنک میں ان کوصرف جنس کی طرح استعمال نہ کیا جائے تاکہ ان کے ذریعہ نام نہاد ہارڈ کرنسی خریدی جاسکے ، اس کا مطلب ہے کہ ہر ملک کےسنٹرل بنک کو سونے اور چاندی میں کرنسی کو جاری کرنا ہوگا اور بنک نوٹ جاری کرنے کی اجازت ہوگی جبکہ اس کی قیمت سونے و چاندی کے برابر ہو اور اس کا نقدی بردار اس نوٹ کوکسی بھی وقت بنک لے جاکر سونا اور چاندی بدل میں حاصل کرسکتا ہو یعنی بجائے اسے سونے اور چاندی کی جنس کے طور پر استعمال کرنے کےاس کو کرنسی کی طرح استعمال کیا جائے البتہ نوٹ پر سونے اور چاندی کی مقدار میں اس کی قیمت لکھی ہو ۔ یوںسونا اور چاندی پھرسے غالب ہوں گے اور پھر کوئی ملک کسی دوسرے ملک کی دولت کو برباد نہیں کرسکے گا یا پھر ان کی محنت کا استحصال کرے اور جنگی مشنریوں کو حرکت میں لائے اور اس کی بے قیمت نوٹوں کو لے کر اپنی جابرانہ جنگوں کو دوسروں پر مسلط کرے جیسا کہ ہم آج دیکھتے ہیں ، اور یہ کام سوائے ریاست خلافت کے کوئی دوسری ریاست نہیں کرسکتی کیونکہ سونے چاندی کی کرنسی اللہ کی شریعت کا حکم ہے خلافت جس کا نفاذ کرتی ہےاور نبی کریم ﷺ نے اس کو اپنی ریاست میں نافذ کیا تھا اور خلفاء راشدین نے اس کی پیروی کی تھی ان کے بعد عظیم خلفاءنے بھی اس کی پیروی کی حتی کہ1342ہجری بمطابق1924عیسوی میں خلافت کاخاتمہ ہوگیا اور پھر باطل غالب آگیا ، سرمایہ دارانہ نظریہ حیات یعنی کیپٹلزم دنیا پر چھا گیا اور اس کے آقاصرف لوٹنا اور دھوکہ کے ذریعہ دوسروں کا مال باطل طور پر ہڑپ کرنا جانتے ہیں اور بلین کی تعداد میں مال کو بٹورنا جانتے ہیں ، اور یہ ظلم کی بنیاد پر قائم انسان کا بنا یا ہوا قانون ہےاور ہم مالی بحران کا تباہ کن نتیجہ اور معاشی بربادیاں دیکھتے ہیں، لوگوں کی قابلیتوں کا استحصال ، ان کی دولتوں کو لوٹنا اور کاغذ ی کرنسی کی شکل میں بے وزن وبے قیمت ڈالر میں ان کی دولت کو نقصان پہنچانے کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔ یہ ضروری ہے کہ اس باطل و جھوٹی آئیڈیالوجی کو تباہ کردیا جائےاور اسلامی آئیڈیالوجی کی خودمختاری و حاکمیت کے لئے کام کیا جائے جو کہ حق و انصاف کا نظریہ حیات ہےجو اس کی ریاست میں گہرائی سے پیوست ہوتا ہے جس کاوعدہ اللہ تعالی نے اپنے مخلص بندوں اوراس کی خاطر کام کرنے والے نیکو کاروں سے کررکھا ہے۔
﴿وَعْدَ اللَّهِ لَا يُخْلِفُ اللَّهُ وَعْدَهُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾
یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ اپنے وعدہ سے نہیں مکرتاالبتہ اکثر لوگ بے خبر ہیں۔( سورۃ روم: 6)
یہ دنیا مالیاتی اور معاشی مشکلات میں گھری رہے گی جب تک وہ اللہ کے احکامات کے مطابق حکومت نہ کرنے لگ جائےاوراللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بات سچی ہے۔
﴿وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكاً﴾
جو کوئی ہمارے ذکر سے منہ موڑ لے گا بے شک وہ تنگ زندگی گذارے گا اور ہم آخرت میں اس کو اندھا اٹھائیں گے۔(طہ:124)
18 ربیع الاول 1440
26/11/2018