بسم الله الرحمن الرحيم
سوال وجواب:
چین اور بھارت کے درمیان سرحدی جھڑپ
(ترجمہ)
سوال:
رائیٹرز نے10جون2020 کوخبردی کہ"۔۔۔ہندوستانی عہدیداروں نے وضاحت کی کہ لداخ کے برف پوش بلندو بالا علاقے میں سرحد پر مامور سینکڑوں فوجی اپریل سے ایک دوسرے سے الجھ رہے ہیں جہاں کئی سالوں سے زبردست سرحدی تناؤ ہے، یہ چینی فوج کی جانب سے اس علاقے میں گشت کے بعد ہوا جس کو بھارت اپنا سرحدی علاقہ سمجھتاہے جبکہ چین کا دعوہٰ ہے کہ وہ علاقہ اُس کی حدود میں آتا ہے اور چین نے ہندوستان کی جانب سے اس علاقے میں سڑکوں کی تعمیر پر اعتراض کیا۔۔۔" چین اور بھارت کے اس سرحدی علاقے میں مئی کے پہلے ہفتے میں دونوں بارڈر سیکورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں دیکھنے میں آئیں۔ کیا اس کے مقامی محرکات ہیں یا اس کے پیچھے امریکہ ہے جو چین کو ہراساں کرنا چاہتا ہے یا اس پر دباؤ ڈالنا چاہتا ہے؟ مزید برآں اس تنازعے کا مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کے مسلمانوں پر کیا اثر ہوگا؟
جواب:
5 مئی کو ہندوستان کے شمال میں لداخ کے بلند وبالا علاقے وادیِ دریاِئے گلوان میں ہونے والی سرحدی جھڑپ، اور پھر تین دن بعد ناتھولا پاس (ہمالیہ کے پہاڑوں میں ہندوستان کی ریاستِ سِکم کوچین کے خودمختار تبت کے علاقے سے ملانے والی درہ) پر ہونے والی جھڑپوں نے دونوں ملکوں کے درمیان عسکری اور سفارتی بحران کو جنم دیا ۔ چین اور بھارت کے تعلقات میں کشیدگی کی ایک طویل تاریخ ہے، جس کی شروعات 1890 میں انگریز کی طرف سےچین کے ساتھ کیے گئے سکم تبت کنونشن کے نتیجے میں کی گئی سرحدی حدبندی سے ہوتی ہے،جب اسلامی برِصغیر ہند پر انگریز کا براہ ِراست قبضہ تھا، جہاں سے نکلتے وقت اُس نے اِس علاقے کو ہندوستان اور پاکستان کی شکل میں دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا، جبکہ کشمیر کو ان دونوں کے درمیان سلگتے ہوئے تنازعے کے طور پر چھوڑ دیا۔۔۔ اسی طرح چین اور بھارت کے درمیان بھی بہت سے متنازعہ سرحدی علاقے چھوڑ دیے۔
حال ہی میں جو کچھ ہوا اس کو بیان کرنے کے لیے مندرجہ ذیل امور پر غور کرنا ہوگا:
پہلا:
ہندوستان اور چین کے مابین حالیہ سرحدی تصادم اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ دونوں ممالک کی فوجیں سال 2013 ، 2014 ، 2017 ء میں آمنے سامنے تھیں اور بالکل جنگ کے دھانے پر تھیں اور یہ تو صرف آخری دِہائی کی بات ہے۔ اس سے پہلے 1962 میں دونوں ملکوں کے درمیان بھرپور جنگ ہوچکی ہے جس میں بھارت کو شکست ہوئی اور چین نے کشمیر کے شمال میں اکسائی چِن کے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ مشرقی بارڈر پر دونوں ملکوں کے مابین تنازعہ برطانوی استعمار اور ارونا چل پردیش کو ہندوستان میں شامل کرنے کا نتیجہ ہے اور اس تنازعے کی ایک اور وجہ ہندوستان کے برطانوی کالونی ہونے کے لمبے عرصے میں چین کے ساتھ سرحدی حدبندی نہ کرنا بھی ہے۔ جہاں تک مغربی بارڈر پر تنازعے کا تعلق ہے تو یہ تنازعہ دونوں ملکوں کی جانب سے اسلامی سرزمینِ کشمیر پر لالچی نظریں جمانے کی وجہ سے ہے خاص کر 1947 کے بعد۔ لیکن ان سرحدی تنازعات کی وجہ سے ، دونوں ممالک بڑے پیمانے پر متضاد اعداد و شمار شائع کرتے ہیں ، حتیٰ کہ اپنی سرحد کی لمبائی کے بارے میں بھی ، جہاں تقریبا ًچار ہزار کلومیٹر کے برابر اختلاف ہے۔ جہاں تک گزشتہ 5 مئی کی جھڑپوں کا معاملہ ہے تو یہ تبت کی سطح مرتفع پر14ہزار فٹ کی بلندی پرپینگونگ سو کی برفیلی جھیل کے کنارے ہوئیں، جس میں دونوں جانب سے درجنوں فوجی زخمی ہوئے، اور اُس کے بعد سے جھڑپوں کے ساتھ ساتھ فوجی کمک میں اضافہ کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ چین نے لداخ کے اس متنازعہ علاقے میں 5000 فوجی اور بکتر بند گاڑیاں پہنچادی ہیں۔ (اخبار بزنس اسٹینڈرڈ کے مطابق، چینی پیپلز لبریشن آرمی کے 5000 سے زیادہ فوجیوں نے لداخ میں پانچ چیک پوسٹوں پر حملہ کیا-جن میں سے چار دریائے گالوان کے ساتھ ہیں جبکہ ایک پینگونگ کی جھیل کے قریب ہے۔ 24مئی 2002www.defense-arabic.com)
دوسرا:
دونوں ملکوں کے درمیان حالات اُس وقت سے کشیدہ ہونے لگے جب بھارت نے لداخ کے علاقے کوجموں وکشمیر سے الگ کردیا۔چین سمجھ گیا کہ لداخ کو جموں وکشمیر سے الگ کرنا اسٹریٹیجک مقاصد کے لیے ہے اور اس کا مقصد چین پر دباؤ بڑھانا ہے جو کہ 2014 میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے سربراہ نیرندر امودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد تیز ہوا ہے۔5اگست2019 کو امت شاہ کی جانب سے اس اعلان پر کہ ہندوستان لداخ کو الگ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا:" ہندوستان کی جانب سے اپنے قانون میں یکطرفہ تبدیلی چین کے لیے نقصان دہ اور اُس کی علاقائی بالادستی کےلیے چیلنج ہے اور یہ ہمیں قبول نہیں"۔ دونوں ملکوں کے درمیان بار بار اٹھنے والے سرحدی تنازعات کے پہچھے دومرکزی نکتے رہے ہیں: ایک مشرقی سرحد پر جہاں چین ارونا چل پردیش کو اپنے ملک میں ضم کرنا چاہتاہے جس کا رقبہ 83ہزار مربع کلومیٹر ہے جس کو چین جنوبی تبت کہتاہے مگر ہندوستان اس کو مستردکرتاہے۔ دوسرا مرکز ہندوستان کا مغربی بارڈر ہے جہاں و ہ اُن علاقوں کو واپس لینا چاہتاہے جن پر1962 میں چین نے قبضہ کیا تھا، یعنی اسلامی سرزمینِ کشمیر کا علاقہ جسے اکسائی چن کہتے ہیں ، جس کا رقبہ 37ہزار مربع کلومیٹر ہے۔یہ کم آبادی والانیم صحرائی علاقہ ہے۔چین اس بات کا انکار کرتاہے، بلکہ وہ کشمیر کے علاقے میں مزید بالادستی چاہتاہے، چنانچہ آج چین نے مغربی بارڈر پر اکسائی چِن سے ملحقہ کشمیر کے لداخ کے علاقے پرنظریں جمائی ہوئی ہیں۔ یہ علاقہ قدیم چین کے تجارتی راستے "شاہراہِ ریشم" کا حصہ تھا۔
تیسرا:
لداخ کا علاقہ ،جہاں بھارت اور چین کے درمیان حالیہ جھڑپیں ہوئیں، اسلامی سرزمین ہے اور یہ کشمیرکا اٹوٹ انگ ہے جوصدیوں تک اسلام کے زیرسایہ تھا، یہ جموں وکشمیر کا حصہ ہے مگراس کو 31اکتوبر 2019 کو ایک قانون کے ذریعے کشمیر سے توڑا گیا! یہ ایک کم آبادی والا لیکناسٹریٹیجکلی انتہائی اہم علاقہ ہے۔ یہ ہندوستان میں سب سے بلند علاقہ ہے جس میں بالائی انڈس ریور بھی شامل ہے۔ اس علاقے کے مشرق میں چینی ایل اے سی(LAC) اور مغرب میں پاکستانی ایل او سی (LOC)ہے جبکہ شمال کی طرف قراقرم پاس واقع ہے۔ قراقرم پاس سے پہلے آخری ہندوستانی آبادی دولت بیگ اولدی واقع ہے۔ یاد رہے کہ ترک زبان میں اس کا معنی" وہ جگہ ہے جہاں کوئی عظیم اور مالدار شخص فوت ہوگیا ہو" ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ نام سلطان سعید خان سے منصوب ہے ، جو یارکنڈ کی ریاست کے خان تھے، اور 938ہجری بمطابق 1531 کی خزاں میں لداخ اور کشمیر کو فتح کرنے کی مہم پر آئے تھے، 939 ہجری کے اواخر میں یار کنڈ لوٹتے ہوئے سخت بیمار ہوئے اوراس جگہ وفات پاگئے۔یوں یہ اسلامی سرزمین ہے جو کشمیر کا حصہ ہے جس پر ہندوستان قابض ہے۔ کشمیر جس کو کئی زخم لگے ہیں، اس پر ایک طرف سے ہندوستان جموںوکشمیر اور لداخ پر قابض ہے تو دوسری طرف چین اکسائی چن اور ٹرانس قراقرم ٹریکٹ (Trans-Karakoram Tract)پر قابض ہے حلانکہ کشمیر کے یہ سارے علاقے اسلامی علاقے ہیں، جن میں سے صرف آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پاکستان کے ساتھ ہیں، جو کہ پورے کشمیر کا ایک تہائی سے بھی کم ہیں۔ آزاد کشمیر سے ملحقہ علاقے پر ہندوستان کا قبضہ ہے جبکہ گلگت وغیرہ کے ملحقہ علاقوں پر چین اور بھارت دونوں کا قبضہ ہے۔ اسلامی دنیا خاص کر پاکستان کی موجودہ کمزورترین حالت میں ہندوستان نے جموںوکشمیر کے علاقے لداخ کو اپنا حصہ قرار دے دیا جبکہ چین اُس کو سنکیانگ یعنی مشرقی ترکستان کا حصہ اور اپنا علاقہ کہتاہے۔ دونوں ممالک اس اسلامی سرزمین کو اپنا حق کہہ کر رسہ کشی میں لگے ہوئے ہیں جبکہ پاکستان مسلسل امریکہ کی اطاعت گزاری میں مصروف ہےاور باقی مسلمان خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں!!
چوتھا:
چین ہندوستان کے زیرِقبضہ لداخ کو ایک خاص نظر سے دیکھتاہے۔ بت پرستوں کی موجودگی کے علاوہ اِس علاقے میں دو قدیم تجارتی راستے بھی شامل ہیں جو وسطی ایشیا تک جاتے ہیں۔ چین کی نئی سٹریٹجی ،"سلک روڈ اکنامک بیلٹ"Silk Road Economic Belt) ( کے لیے اس کی بڑی اہمیت ہے۔اگرچہ چین کےلئے وسطی ایشیا تک پہنچنے کے لیے دیگر راستے موجودہیں لیکن اِس کے باوجود لداخ سے گزرنے والا راستہ وسطی ایشیا کی مارکیٹ اور زیادہ آبادی والے علاقوں تک پہنچنے کا مختصرترین راستہ ہے۔ اس کی اہمیت میں اس وجہ سے بھی اضافہ ہوجاتا ہے کہ یہ قدیم تجارتی راستے چینی مصنوعات کو مشرقی چین کے صنعتی مراکز سے ، پاکستان کے شمال سے ہوتے ہوئے گوادرکی بندرگاہ تک پہنچانے کے فاصلے کو کم کرتے ہیں اور اسی لئے چین نے اس اہم تجارتی شاہراہ (CPEC)پر حالیہ سالوں میں دسیوں ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ لہٰذا یہ تنازعہ چین کی اس ذہنیت سے الگ نہیں۔ اگر چین دوسری طرف (مشرقی بارڈر) ارونا چل پردیش کے حوالے سے ہندوستان کے ساتھ سرحدی تنازعے کو ہوا دیتا تو اس کو یہ"اقتصادی گزرگاہوں کے" فوائد نہ ملتے اسی لیے وہ " سلک روڈ اکنامک بیلٹ "(Silk Road Economic Belt)کی اسٹریٹیجی پر گامزن ہے کیونکہ یہ ان علاقوں سے دور ہے جہاں امریکی بحریہ کا کنٹرول ہے خاص کر آبنائے ملاکہ ۔ جو چیز چینیوں کے ان شکوک وشبہات میں اضافہ کرتی ہے کہ ہندوستان چین کو ابھرنے سے روکنے کے امریکی منصوبے میں ملوث ہے وہ مندرجہ ذیل امور ہیں:
1۔کرونا وبا کے بحران کے بعد امریکہ کو مختلف بہانوں سے چین کو تنگ کرنے کا موقع ملا۔ واشنگٹن مسلسل کہتا جا رہا ہے کہ چین کو کرونا کو پھیلانے کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیےاور وہ کئی ممالک کو بھی اس مطالبے میں ساتھ دینے کے لیے اپنے ساتھ گھسیٹ رہا ہے ، جن میں سے ایک ملک ہندوستان بھی ہے، کہ وائرس کے بارے میں تحقیقات کی جائیں خاص طور پر ووھان انسٹیٹیوٹ آف وائرولوجی کے حوالے سے تحقیقات کی جائیں۔ دوسری طرف چین میں وائرس پھیلنے کے بعد کچھ چینی مصنوعات کی سپلائی منقطع ہونے کی وجہ سے بہت سارے یورپی اور عالمی کارخانوں کی سپلائی متاثرہوئی جس سے چین سے آنے والی ترسیل سے دستبرداری کے مطالبے سامنے آئے۔ اِس کے علاوہ امریکی صدر نے چین میں کام کرنے والی کمپنیوں کو واپس بلانے یا کم ازکم اُن کو چین سے باہر نکالنے کی مہم چلا رکھی ہے۔ اِن وجوہات کی بنا پر چین آج یہ محسوس کرتاہے کہ اس کی معیشت اس طرح دباؤ اور خطرے سے دوچار ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
2۔بھارت کے امریکی منصوبے میں استعمال ہونے کا اشارہ اس بات سے بھی ملتاہے وہ چینی معیشت کو کمزور کرنے کی کوشش کررہاہے(جنرل وینود بھاٹیا جو کہ بھارت کے ملٹری آپریشن کے سابق ڈائریکٹر(Ex-DGMO) ہیں نے اناتولیہ ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ " چین عالمی سطح پر اپنا اثرو رسوخ کھو رہا ہےکیونکہ سمجھا یہ جا رہا ہے کہ کورونا وبا کے پھیلاؤ کا ذمہ دار چین ہے"۔ انہوں نے مزید کہا: " صنعتی کمپنیاں چین سے جانے کےلیے پرتول رہی ہیں؛ یہی چیز چین کو کرونا سے توجہ ہٹانے کی کوشش پر مجبور کر رہی ہے"۔ انہوں نے کہا کہ کرونا کے بعد کی دنیامیں "ہندوستان کے لیے بڑے مواقع ہوں گے کیونکہ طاقت کا توازن اب مغرب سے مشرق کی طرف جھک رہا ہے۔۔۔۔" (اناتولیہ ایجنسی ،ترکی، 9جون 2020)۔ ایسا لگ رہا ہے کہ بھارتی جن مواقع کی بات کر رہے ہیں ان سے مراد غیر ملکی کمپنیوں خاص کر امریکی کمپنیوں کی چین سے بھارت منتقلی ہے۔ چین یہ دیکھ رہا ہے کہ امریکہ چین کا سامنا کرنے کے لیے بھارت کی صلاحیتوں میں اضافہ کررہا ہے۔ امریکہ ہی نے ایٹمی قوت بننے میں بھارت کی مدد کی۔ اسی طرح اقتصادی اور تجارتی تعلقات میں وہ بھارت کوامتیازی درجہ اور فوقیت دیتاہے۔ امریکہ نے پاکستان کو انڈیا سے کشیدگی کم کرنے پر مجبور کیا تا کہ بھارت پاکستان کے حوالے سے بے فکر ہوکر دہائیوں سے پاکستانی سرحد پر موجود بڑے فوجی دستوں کو چینی سرحد پر منتقل کرسکے۔ بھارت کے حوالے سے امریکہ کی یہ پالیسی نئی نہیں بلکہ طویل عرصے سے ہے۔آج امریکہ بھارت کو ساتھ لے کربڑی عالمی کمپنیوں کو چین سے نکالنے کی کوشش کر رہا ہے، بھارت کو چین کا متبادل بنارہا ہے یعنی چینی معیشت پر حملے کے لیے بھارت کو شریک بنارہا ہے۔
3۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ عسکری لحاظ سے چین نے اپنی فوج کوبڑی حدتک جدید اور مضبوط کرلیا ہے۔ فوجی بجٹ کے لحاظ سے وہ امریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔چین کا 2019 کا دفاعی بجٹ 261 ارب ڈالر تھا جو کہ روس، برطانیہ اور فرانس کے مجموعی دفاعی بجٹ سے بھی زیادہ ہے ۔ اگرچہ بھارت بھی 2019 میں تاریخ میں پہلی بار فوجی بجٹ کے لحاظ سے چین کے بعد تیسرے نمبر پر تھا جس کا فوجی بجٹ 72ارب ڈالرپہنچ گیا تاہم چینی فوج (PLA)کے مقابلے میں بھارتی فوج کی صلاحیت بہت کم ہے۔دونوں افواج کی صلاحیتوں میں اس فرق کی وجہ سے ہندوستان چین کے ساتھ کسی جنگ میں الجھنے سے قبل ہزار بار سوچتاہے جبکہ 1962 میں حالات بالکل مختلف تھے۔یہ سب اس کے باوجود ہے کہ لداخ کے متنازعہ علاقے میں روایتی ہتھیاروں میں بھارت کو برتری حاصل ہے، خاص طور پر اس وجہ سے کہ اُس کی فوج کا بڑا حصہ پاکستانی سرحد کے ساتھ تعینات ہے یعنی متنازعہ علاقے کے قریب، جبکہ چینی فوج اب تک اس علاقے میں تعینات نہیں تھی۔ متنازعہ علاقے میں دونوں ملکوں کی افواج کی صلاحیتوں کے حوالے سے یہ اسٹڈی امریکی ہارورڈ یونیورسٹی نے کی ہے (31مئی 2020عربی پوسٹ )۔ تاہم یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ان جھڑپوں کے بعد چین اس علاقے میں اپنی فوجی قوت بڑھا رہا ہے اور مغربی سرحد پر ہندوستان کے مقابلے میں اپنی فوجی قوت میں اضافہ کررہاہے۔
4۔ مشرقی بارڈر پر 2017 میں ہونے والے بھارت چین تنازعے پر ہندوستانی وزیراعظم نریندرا مودی اور چینی صدر شی جین پینگ کے درمیان 2018 میں ملاقات کے ذریعے قابو پایا گیا( دونوں راہنماؤں نے اپریل 2018 میں ووھان میں ملاقات کی جس میں شی نے بھارت کا دورہ کرنے کی مودی کی دعوت قبول کی۔ یورو نیوز عربی9 دسمبر 2019 )، تاہم چین بھارت موجودہ تنازعے کے پیچھے امریکی کوشش بھی کار فرماہے، جس سے یہ تنازعہ مزید پیچیدہ ہوجاتاہےاور حالات معمول پر آنا اور مشکل ہو جاتا ہے۔ چین ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پیدا کردہ ان مسائل کو سمجھتا ہے اسی لیے (چینی صدر شی جین پینگ نے منگل کو کہا کہ "چین اپنی جنگی صلاحیت کی تیاری میں تیزی لے کر آئے گا،اور عسکری مہم کے لیے اپنی طاقت میں اضافہ کر ے گا، کیونکہ کرونا وبا کے سائے میں ہماری قومی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں" سپوٹنک ،رشیا، 26 مئی 2020 )۔
چین کے اس بیان سے صرف ہندوستانی خطرے کی طرف ہی اشارہ نہیں ملتا بلکہ امریکہ کی جانب سے چین پر کرونا وائرس کو پھیلانے کی ذمہ داری ڈالنے کے بعد چین امریکی خطرہ بھی محسوس کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین فکرمند ہے اور اپنی عسکری قوت کے اظہار کا منصوبہ بنارہاہے تاکہ امریکہ اور خطے میں اس کے اتحادیوں بشمول ہندوستان کی جانب سے کسی عسکری مہم کو روکا جاسکے۔ گویا کہ یہ چین کی طرف سے اپنے قریبی دشمنوں کو پیغام ہے کہ وہ امریکہ سے تعاون نہ کریں ورنہ چینی فوج ان کو بہت بڑے نقصان سے دوچار کرسکتی ہے۔ اپریل 2020 کے اوائل میں چین کی ریاستی سلامتی کی وزارت کی جاری کردہ ایک انٹلیجنس رپورٹ ،جس میں بیجنگ سے ایک بڑے عسکری خطرے کا سامنا کرنے کےلیے تیاری کا مطالبہ کیا گیا ، شاید امریکہ کی جانب سے چین کے خلاف منصوبہ بندی کا انکشاف کرتی ہے۔ اسی طرح ہندوستان کی جانب سے فوجی اخراجات میں بہت زیادہ اضافہ حتیٰ کہ تاریخ میں پہلی بار 2019 کے فوجی بجٹ کا 72ارب ڈالر تک پہنچنا، اور بھارت کی جانب سے اسلحے کی خریداری کے بڑے بڑے معاہدے ، یہ سب چین کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔ چین پورے یقین کے ساتھ یہ بات جانتا ہے کہ بھارت اس کے خلاف امریکی جنگ کا آلہ کار ہے۔بھارت کی جانب سے متنازعہ علاقے میں انفراسٹرکچر کی تعمیر اور اسلحے کے انبار لگانے میں تیزی ، چین کو بھارت کے ساتھ تعلقات کے مستقبل کے حوالے سے شش وپنج میں ڈال رہی ہے۔
پانچواں:
جہاں تک حالیہ چین بھارت کشیدگی پر امریکی موقف کا تعلق ہے وہ واضح طور پر ہندوستان کی حمایت میں تھا۔ چنانچہ سفیر الیس ویلز ، جو کہ امریکی دفترِ خارجہ میں پرنسپل ڈپٹی سیکریٹری آف سٹیٹ فار ساؤتھ ایشین افیرز کے عہدے پر فائز ہیں ، نے لداخ میں چینی اقدامات پر تنقید کی اور ان کو جنوبی چین کے سمندر (South China Sea)میں چینی اشتعال انگیزی سے جوڑا( نیوز21-18 مئی 2020)۔ اسی طرح امریکی ایوان نمائیندگان میں خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ الیٹ ایل اینگل نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا:"بھارت چین ایل اے سی پر مسلسل ہونے والی چینی جارحیت پرمجھے سخت تشویش ہے، ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ چین بین الاقوامی قوانین کے مطابق تنازعات کو حل کرنے کی بجائے اپنے ہمسائیوں کے خلاف غنڈہ گردی کرتا ہے۔۔۔ میں چین سے کہتا ہوں کہ وہ اقدار کا احترام کرے اور ہندوستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کو حل کرنے کے لیےسفارت کاری اور مروجہ طریقہ کار اختیار کرے"۔ (امریکی فارین افئیرز میگزین 1 جون2020)۔ یہ تو اس کے علاوہ ہے کہ امریکہ، بھارت چین سرحدی تنازعات سے فائدہ اٹھارہا ہے اور ان کوخطے میں چین کے اثرورسوخ کی راہ میں روکاوٹ بننے کے لیے چین پر دباؤ ڈالنے کےلئے اپنے ہاتھ میں تُرپ کے پتے کے طور پر استعمال کررہا ہے تاکہ ان جھڑپوں کے ذریعے چین کو مشغول کیا جائے اور اُس کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرکےتجارتی جنگ (Trade war)میں اس کو بلیک میل کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ جھڑپ کے بعد صدر ٹرمپ نے ثالثی کی پیشکش کی، جس کا مقصد دونوں کے درمیان صلح کے دوران اپنے مفادات کو محفوظ بنانا تھا۔ 27مئی 2020 کو ٹرمپ نے ٹوئیٹ کیا کہ :" ہم نے چین اور بھارت کو پیغام دیا ہے کہ امریکہ دونوں کے درمیان حالیہ سرحدی تنازعے کے حل میں ثالثی کے لیے تیار اور اس کی قابلیت رکھتاہے" (الحرہ27مئی 2020) ۔چین نے اس کو مسترد کردیا(چینی وزارت خارجہ کے ترجمان زھاو لیجیان نے کہا کہ دونوں ممالک اپنے اختلافات کو حل کرنے کےلیے کسی تیسرے فریق کی "مداخلت" کو مسترد کرتے ہیں۔ اناتولیہ ایجنسی، ترکی،9 جون 2020)۔
چھٹا:
اس کے باجود امریکہ باز نہیں آیا بلکہ پوری طرح اس خطے میں سرگرم رہا جس خطے کو وہ دنیا کا سب سے اہم خطہ گردانتا ہے۔اُس نے مسلسل چین پر دباؤ ڈالنے اور جنوبی چین کے سمندر(South China Sea) میں بلواسطہ اور بلاوسطہ اس کو تنگ کرنےکا سلسلہ جاری رکھا۔ مگر امریکہ خود ہرجگہ جنگ لڑنے اور دنیا بھر میں اپنے اثرورسوخ کو برقرار رکھنے کے قابل نہیں رہا۔اب وہ اس کے لیے علاقائی اور مقامی قوتوں پر انحصار کرتا ہے اوران کو اپنے مفاد میں استعمال کرتا ہے۔ اور پھر کرونا بحران آ گیا: اِس بحران نے تو امریکہ کو مکمل بے نقاب کرکے رکھ دیا کہ یہ وہ ریاست نہیں جوکامیابی سے بحرانوں سے نمٹ سکے بلکہ یہ ثابت کیا کہ یہ ناکام ریاست ہے اورایک وائرس کے سامنے بے بس ہے! اس کے بعد سفید فام امریکی پولیس کی جانب سے سیاہ فام امریکی شہری کو قتل کرنے کے واقعے نے تو امریکہ کو دنیا کے سامنے برہنہ کردیا کہ یہ ایسی ریاست ہے جہاں نسلی امتیاز کی ایک دلدل ہے۔۔۔جبکہ اس وقت چین ایک بڑی علاقائی قوت بن چکاہے ۔لہٰذا امریکہ اپنے مفادات کی حفاظت اور اپنے اثرورسوخ کی بقاء کےلیے اب پہلے سے زیادہ دوسروں پر انحصارکرتا ہے۔۔۔یہی وجہ ہےکہ امریکہ نے ہندوستان میں اپنے ایجنٹوں کو اقتدار تک پہنچایا تاکہ ہندوستان اس کے حکم کے تابع ہو، اور تمام نتائج اس کے حق میں ہوں اوراسکے ایجنٹ اس کے احکامات کی اتباع کریں۔ امریکہ نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو اقتدار تک پہنچانے کےلیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، پس امریکہ کی وفادار بی جے پی نے پہلی بار واجپائی کی قیادت میں 1998 سے 2004 تک حکومت کی اور پھر اُسی سال ہونے والے انتخابات میں مدمقابل کانگریس سے ہار گئی۔پھر 2014 میں وہ دوبارہ انتخابات جیت گئی اور بدستور اقتدار میں ہے۔ اس دوران امریکہ نے بھارت کو چین کے خلاف استعمال کرنا شروع کیااور بھارت کواس کردار میں کامیاب کرنے کی خاطر امریکہ نے پاکستان کو ہندوستان سے کسی قسم کی کشیدگی سے روکا تا کہ بھارت یکسو ہو کر چین کے لیے مسائل پیدا کرے۔ یہی وجہ ہے کہ5 اگست 2019 کو ہندوستان کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کو اپنا حصہ قرار دینے پر پاکستانی حکمرانوں نے حد درجے کی رسوا کن پسپائی دکھائی۔ ہم نے 18 اگست 2019 کے سوال کے جواب میں ذکرکیا تھا کہ("امریکہ سمجھتا تھا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر پر کشید گی کی وجہ سے ہندوستان کو چین کے سامنے لاکھڑا کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔۔۔اس کشیدگی کو کم کرنے کےلیے امریکہ نے ہندوستان پاکستان میں نارملائیزیشن کی ابتداء کی جس کا مقصد کشمیر کے لیے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کسی ممکنہ جنگ کو روکنا اوراس کی بجائے چین کا راستہ روکنے میں امریکہ کی مدد کرنے پر توجہ مبذول کرنا تھا۔ امریکہ یہ سمجھتا تھا کہ ہندوستان کی جانب سے کشمیر پر قبضے کے بعد وہ پاکستانی حکمرانوں پر دباؤ ڈال کر عسکری کاروائی کے ذریعے کشمیر لینے کے موضوع کو دفن کردے گا جیسا کہ وہ فلسطین میں محمود عباس حکومت اور دوسری عرب حکومتوں کے ذریعے عسکری کاروائی کے ذریعے فلسطین آزادکرنے کے موضوع کو دفن کرچکاہے اسی لیے یہود جب چاہتے ہیں جہاں چاہتے ہیں زمین پر قبضہ کرکے اس کو ضم کرلیتے ہیں!۔۔۔") پاکستانی حکمرانوں نے بھی امریکی احکامات کی من وعن پابندی کی چنانچہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے کہا:"ہندوستان کی جانب سے پاکستان پر حملے کی صورت میں پاکستان مناسب جواب دے گا۔۔۔"(اناتولیہ ایجنسی 30 اگست 2019 ) یعنی وہ کشمیر کی آزادی کے لیے کچھ نہیں کرے گا۔ اس کے ایک ماہ بعداُنہوں نے کہا: "آرمی چیف باجوہ نے اُن کو اطمینان دلایا ہے کہ آزاد کشمیر پر بھارت کے حملے کی صورت میں ہم بھارت کو جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔۔۔"(جیو نیوز پاکستان26 دسمبر 2019)۔ یعنی آزاد کشمیر پر حملے کی صورت میں تو ہم کچھ کریں گے لیکن مقبوضہ کشمیر کے لیے کچھ نہیں کریں گے!
ساتواں:
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے جو چین کے ساتھ مضبوط تعلقات رکھتا ہے، اکسائی چن کے اس علاقے پر اپنے حق کا دعویٰ ہی نہیں کرتا جس پر چین نے ہندوستان سے چھین کر قبضہ کررکھا ہےجو کہ کشمیر کا حصہ ہے، نہ ہی وہ ہندوستان کے زیر قبضہ کشمیر کے لداخ کے علاقے پر اپنے حق کا دعویٰ کرتاہے جبکہ چین اس کے ایک حصے پر دعویٰ کرتا ہے! اگرچہ پاکستان، چین اور بھارت کے درمیان تنازعے پر اپنی خوشی کا اظہار کرتا تھا ،اس خیال سے کہ چین اُس کے بدترین دشمن ہندوستان کی ناک کاٹ دے گا، مگر اس باروہ خاموش رہا۔ سی این این نیوز 18 نے 26 مئی 2020کواس خاموشی پر حیرانگی کا اظہار کیا، جس میں پاکستانی ذرائع ابلاغ بھی شامل ہیں، جنہوں نے اس تنازعے پر معمول کے مطابق اپنے موقف کا بھرپور اظہار نہیں کیا۔ یہ خاموشی امریکی دباؤ سے ہی ممکن تھی کیونکہ امریکہ چاہتا ہے کہ ہندوستان پاکستان سے کوئی خطرہ محسوس نہ کرے بلکہ اس کے حوالے سے مکمل بے فکر ہو وہ یہ نہ سمجھے کہ پاکستانی فوج اس انتظار میں ہے کہ کب بھارت کی چین کے ساتھ جنگ چھڑجائے اور یہ بھی اس پر حملہ آور ہوں۔ یہ سب اس لیے کیا گیا تاکہ بھارت پاکستان سے بے فکر ہوکر اپنی فوج پاکستان کے بارڈر سے ہٹا کر چین کے بارڈر پر منتقل کرلے اور وہ چین پر دباؤ بڑھانے کی مضبوط پوزیشن میں ہو، نتیجتاًچین اپنی فوج کی توجہ چینی سمندر پر مرکوز کرنے کی بجائے اس کو تقسیم کرنے پر مجبور ہو جو اس کو کمزور کرے جس سے بغیر جنگ کے بھی وہ کمزور ہوگا کیونکہ اس صورت میں اُسے ایک طرف تو جنوب مغرب میں ہندوستان کے خلاف اپنے عسکری وسائل تیار کرنے پڑیں گے اوردوسری طرف سمندر میں اپنے دو بڑے دشمنوں کے خلاف تیاری کرنا پڑے گی، جہاں امریکی بحریہ اور جاپانی فوج اپنی قوت میں اضافہ کر رہے ہیں۔
آٹھواں:
اس سب سے کشمیری مسلمان یہ محسوس کر رہے ہیں کہ ان کی سرزمین دوکافرریاستوں کے درمیان متنازعہ بن کر رہ گئی ہے جو دونوں اس پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور اس کے وسائل کو لوٹنا چاہتے ہیں۔ جبکہ پاکستانی حکمران اور دوسرے مسلمان حکمران ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں، بلکہ پاکستان ہندوستان کو نقصان سے بچانے کےلیے اپنے ملک میں کشمیر کے مسلح گروہوں کا پیچھا کر رہا ہے۔ پاکستان کا یہ اقدام اور چین بھارت تنازعہ کشمیر کے مسلمانوں کو بہت کمزور کر رہا ہے۔کشمیر ی، جو پاک فوج کی مدد اور حمایت سے مضبوطی سے قابض ہندوستان کا سامنا کررہے تھے آج وہ دوبڑی کافرریاستوں کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ پاکستان امریکہ کے حکم پر بھارت کے حق میں مزید علاقوں سے دستبردار ہورہا ہے!!
کس قدر المناک بات ہے کہ اسلامی سرزمین پر تنازعہ ہندوستان اور چین کے درمیان ہورہا ہے، خاص کرکشمیر اور ملحقہ علاقوں پر؛ ہندوستان مغربی بارڈر پر ان علاقوں کو واپس مانگ رہا ہے جن پر چین نے 1962 میں قبضہ کیا، یہ اسلامی سرزمین کشمیر کا اکسائی چِن کا علاقہ ہے اور چین اکسائی چِن کے پہلو میں لداخ کا علاقہ مانگ رہا ہے اور ان علاقوں پر یہ دعویٰ کررہا ہے کہ یہ سنکیانگ یعنی اسلامی مشرقی ترکستان کا حصہ ہیں۔ یعنی دونوں ممالک مسلمانوں کی سرزمین پر رسہ کشی کر رہے ہیں جبکہ پاکستان امریکہ کی اطاعت کرنے کی وجہ سےپسپاہوگیا ہے اور دوسرے مسلمان خاموش ہیں! مسلمان پر زندگی تنگ ہو چکی ہے اوران کے کئے کے بدلے ان کی حالت پتلی ہے، اللہ نے سچ فرمایا ہے
:
﴿وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكاً وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى * قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَى وَقَدْ كُنْتُ بَصِيراً * قَالَ كَذَلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا وَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُنْسَى﴾"
"جو میرے ذکر سے اعراض کرے گا تو اس کی زندگی تنگ ہوگی اور ہم اس کو قیامت کے دن اندھا اٹھائیں گے۔کہے گا اے میرے رب تو نے مجھے کیوں اندھا کیا میں توبینا تھا اسی طرح تمہارے پاس ہماری آیتیں آئیں تم نے ان کو بھلادیا ہم بھی آج تمہیں بھلادیں گے"۔۔۔
اے مسلمانو:
تمہاری نجات اسیمیں ہے کہ اللہ کی حکمرانی کو قائم کرکے اللہ کی آیات اور رسول اللہ ﷺ کی احادیث کی پیروی کرو۔ خلافت ِراشدہ ہی ہدایت کا راستہ اور جہاد کا طریقہ ہے۔ یہی عزت ،طاقت اورشرسے بچاؤ کا راستہ ہے۔ابوہریرہ کی اس متفق علیہ حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے سچ فرمایا:
»الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ«
"یقینا صرف خلیفہ ہی ڈھال ہے جس کی قیادت میں قتال ہوتا ہے اور جس کے ذریعے حفاظت ہوتی ہے"
اے اہلِ بصیرت، اس پر غور کرو۔۔۔
30شوال1441
21جون 2020
Latest from
- عالمی قانون کا انہدام ...اور ان دنیا والوں کی ناامیدی...
- بچوں کو اغوا کرنے اور ان پر تجربات کرنے کی”اسرائیلی“ قبضے کی ایک لمبی داستان موجود ہے
- امریکی قیادت اور نگرانی میں: ایران کی صفوی حکومت اور یہودی وجود...
- شنگھائی تعاون تنظیم امریکن ورلڈ آرڈر کا حصہ ہے
- استعماری طاقتوں کی تنظیمیں ہماری سلامتی اور خوشحالی کی ضامن نہیں ہو سکتیں