بسم الله الرحمن الرحيم
سوال و جواب: چین اور یوکرین میں امن کی پیشکش
سوال :
27 فروری 2023 کو العربیہ نیوزکی ویب سائٹ پر نشر ہوا (کریملین: ہم چین کے امن منصوبے کا خیر مقدم کرتے ہیں مگر تصفیہ دور ہے)، اسی طرح 27 فروری 2023 کو الیوم چینل کی ویب سائٹ پر یہ خبر آئی (کریملین کا کہناہے کہ روس یوکرین میں چینی امن منصوبے کو اہمیت کی نظر سے دیکھتاہے، بقول ان کے، تجویز کی تفصیلات کا باریک بینی سے جائزہ لینے اور تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے)۔ روسی صدر، پیوٹن نے 21 فروری، 2023 کو اعلان کیا تھا (’’روس نے امریکہ کی طرف سے دستخط کیے گئے نیو اسٹارٹ معاہدے میں شرکت سے معذرت کرلی ہے“۔۔۔اناطولیہ 21 فروری، 2023)۔ یہ بیان امریکی صدر بائیڈن کی جانب سے 20 فروری، 2023 کوکیف شہر کے دورے اور یوکرینی صدر زیلنسکی سے ملاقات کے بعد سامنے آیا جہاں بائیڈن نے کہا (یوکرین کو 500 ملین ڈالر کا نیا فوجی امدادی پیکج موصول ہوگاس جس کا اعلان منگل کو کیا جائے گا۔۔۔سکائی نیوز عرب 20 فروری، 2023)۔اس بیان سے پہلے چینی وزیر خارجہ’’وانگ یی“نے میونخ امن کانفرنس میں کہا کہ چین کے پاس یوکرین میں امن کا منصوبہ ہے، انہوں نے کہا" اس جنگ کو جاری نہیں رہناچاہئے ۔۔۔"(سی این این عرب 18 فروری، 2023)۔
سوال یہ ہے کہ کیا چین ،یوکرین جنگ کو رُکوانے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ چین، یہ تجویز جنگ چھِڑنے کے ایک سال بعد کیوں پیش کر رہا ہے؟ اس پیشکش کے بعد رُوس اس کا خیرمقدم کیوں کررہا ہے اور ساتھ یہ بھی کہہ رہاہے کہ تصفیہ ابھی دُور ہے؟ کیااس کی کامیابی کا کوئی امکان ہے؟
جواب :
درج بالا سوالات کے جواب کی وضاحت کرنے کےلیے ہم مندرجہ ذیل امور کو پیش کریں گے:
اول : روس یوکرین جنگ کے حوالے سے با اثر ممالک
1۔ امریکہ: بائیڈن کی قیادت میں امریکہ ، مغربی دنیا کی قیادت کے حوالے سے یورپی شکوک وشبہات کا ازالہ کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ کیونکہ بائیڈن انتظامیہ نے ہی روسی حملے کے سامنے ڈٹے رہنے کےلیے یوکرین کو عسکری اور غیر عسکری امداد دینے کےلیے مغرب کی کوششوں کو اکٹھا کیا، روس پر اقتصادی پابندیاں لگانے کےلیے سارے مغرب کو ہم آوازکردیا، روس کی توانائی کی سپلائی لائن کو یورپ سے منقطع کرنےمیں کامیاب ہوگیا، بلکہ ان کے علاوہ یورپ سے دُور ممالک جیسے جاپان، جنوبی کوریا اور آسٹریلیاکو بھی روس پر لگائی جانے والی پابندیوں میں شامل کیا، نیٹومعاہدہ کو بھی جِلا بخشی جو اس سے قبل ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں مشکوک ہوگیا تھا۔ بائیڈن انتظامیہ نے یوکرین کو اسلحہ سپلائی کیا اور اُنہوں نے اعلان کیا کہ یوکرین میں اُن کا اصل ہدف رُوس کو شکست دیناہے۔
2۔ یورپ کی بڑی طاقتیں:چونکہ روس کے خلاف امریکی مؤقف اور برطانوی مؤقف میں فرق کرنا ممکن نہ تھا،تو اس کے بعد جرمنی اور فرانس نے بھی یہی مؤقف اختیارکیا اور یورپ کےلیے میسر ، روس کی طرف سے توانائی کی ہر سپلائی بند ہونے کے ساتھ ہی رُوس مخالف جرمن مؤقف میں بھی سختی آتی گئی، حتیٰ کہ جرمن وزیر خارجہ بیربوک نے یوکرین کو ٹینک فراہم کرنے کےلیے یورپ کو متحد کرنے کی کوشش کے دوران کہا : (ہم آپس میں ایک دوسرے کے خلاف نہیں بلکہ روس کے خلاف جنگ میں کُود رہے ہیں، ۔۔۔الشروق 29 جنوری، 2023)۔ جس کو سابق رُوسی صدر مدویدیف نے ’’ایک مفید حماقت“ قرار دیا(اناطولیہ 29 جنوری، 2023)، یعنی اس سے یہ تسلیم کر لیا گیا کہ یوکرین کی جنگ میں یورپ ایک فریق کے طور پرہے۔ فرانسیسی صدر کی جانب سے روسی صدر سے رابطہ کرنے پر فرانس کو اتحادیوں کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے فرانس بھی بالآخر روس کے خلاف اُسی کشتی میں سوار ہو گیا جس میں یورپی ممالک امریکی ایمأ پرسوار ہوئے تھے۔ چنانچہ اسکائی نیوز عرب کے مطابق فرانس کے صدر نے 19فروری،2023کو میونخ کانفرنس سے واپسی کے موقعے پر کہا ( میں چاہتا ہوں کہ روس کو یوکرین میں شکست ہو اور میں چاہتا ہوں کہ یوکرین اپنے مؤقف کے دفاع میں کامیاب ہوجائے)۔
3۔ روس : طاقت کے جس پردےنے عالمی رُوسی فوج کو ڈھانپ رکھا تھا وہ ہٹ گیا اور یوکرین جنگ نے روسی فوج کی خطرناک کمزوریوں کو بے نقاب کردیا ۔ کیف کے اطراف ، خارکیف میں اور آخر کار خیرسون میں شکست نے روسی فوج کو طاقت کے اس مرتبے سے گِرادیا۔ وہ رُوسی فوج جو روس کی عظمتوں کااہم ستون مانی جاتی تھی اب عالمی سطح پر عظمت کی اُن بنیادوں میں رُوس کی صرف ایٹمی قوت ہی باقی رہ گئی ہے۔ جہاں تک روس کی معیشت کا تعلق ہے تو یہ شروع سے ہی کمزوررہی ہے۔۔۔ سیاسی طور پر تو امریکہ اور یورپ نے کافی حدتک رُوس کو عالمی سطح پر تنہا کرکے رکھ دیا ہے اور اِن سب کےعلاوہ اس جنگ کے حوالے سے داخلی طور پر عدم اتحاد اس کے علاوہ ہے کیونکہ جب جنگ کے لئے زبردستی بھرتی شروع کی گئی تو بہت سے لوگ روس سے بھاگ گئے!
دوم : ان تمام عالمی تبدیلیوں کےچین پر اثرات
1۔ چین یہ جانتاہے کہ وہ امریکی ترجیحات میں پہلے نمبر پر ہے، یعنی روس سے بھی پہلے۔ امریکہ، تائیوان کے حوالے سے چین کو چیلنج کرتا رہتا ہے اور اس کو تنگ کرتا ہے۔ امریکہ، جنوبی کوریا کے ساتھ جنگی مشقوں کے ذریعے بھی چین کو چیلنج کرتارہتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ، ماسکو پر عائد پابندیوں کے سبب ہونے والے نقصانات کی تلافی کے اقدامات کرنے کی صورت میں بھی چین کو چیلنج کرتا ہے اور رُوس کو مہلک عسکری مدد فراہم کرنے کی صورت میں بھی چین کو چیلنج کرتاہے۔ اور اس کے ساتھ ہی امریکہ ، خفیہ طور پر چین کا اقتصادی محاصرہ بھی کر رہا ہے جیسا کہ اُس نے چینی کمپنی ہُؤاؤے HUAWEI اور چین کی ٹیکنالوجی کی دوسری کمپنیوں کے خلاف ایک اقتصادی جنگ برپا کر رکھی ہے۔بلکہ جب امریکہ نے یہ کہہ کر کہ چین امریکی قومی سلامتی کےلیے خطرہ ہے، اعلانیہ طور پر عسکری مقاصد کےلیے استعمال ہونے کا بہانہ بناکر الیکٹرانک چِپ بندکر دی۔ دوسری جانب، چین بھی امریکہ کی جانب سے جاپان کو مسلح کرنے کا مُشاہدہ کر رہا ہے اور اس کو دَردِسر سمجھتاہے کہ کہیں امریکہ اسے مزید آگے بڑھاکر چین کےلیے ایک نیا مسئلہ نہ کھڑا کردے ۔ ان کے علاوہ ،دوسرے عسکری اتحادبھی ہیں جو امریکہ ایشیا میں قائم کر رہا ہے جیسے’’اوکوس“ AUKUS اور ’’کواڈ “ یہ سب بھی چین اور اس کی فوج کےلیے بڑے چیلنجز ہیں۔
2۔ وہ یورپی ممالک جو اقتصادی طور پر چین کے بڑے شراکت دار ہیں وہ بھی امریکہ کی طرح ہی ہیں،کیونکہ وہ یورپی ممالک مشترکہ ہم آہنگی کی امریکی خواہش کی طرف مائل ہوئے تھے۔ رُوس کی جانب سے یوکرین میں جنگ کی آگ بھڑکائے جانے اور روسی حملہ کے خطرے کے پیشِ نظر، براعظم کی حفاظت کرنے کےلیے یورپ کو اشد طور پر درکار امریکی دفاعی چھتری کے ظاہر ہوجانے کے بعد، اس باہمی ہم آہنگی میں جان سی آگئی۔دوسری جانب، چین یوکرین میں روسی جنگ کے شروع ہونے کے بعدسے امریکہ کی جانب سے یورپ کی قیادت کرنے کا مشاہدہ کررہا تھا کہ کس طرح امریکہ یورپی ممالک کو چین مخالف مؤقف اپنانے کی طرف کھینچ رہا ہے۔ سرمایہ دار ممالک اور اُن کے پیروکاروں کے ساتھ مشرقی ایشیا کے ’’مغرب نواز“ ملکوں کے الحاق کی طرف اشارہ سے ’’ہم خیال ممالک“ کی ایک اصطلاح سامنے آئی، بلکہ مشرقی ایشیا میں’’نیٹو“ اتحاد کے کردار کی ترویج کی جانے لگی اور یہ چین کےلیے ایک کافی خطرناک دھمکی ہے کہ امریکہ بہت سے ممالک کو بیجنگ کے خلاف ہانک سکتاہے۔
3۔ جہاں تک روس کاتعلق ہے، تو اس کی کمزوریاں اُسے چین کا ایک معمولی اورچھوٹا شراکت دار بنا رہی ہے خاص طور پرجب عالمی میدان روس کےلیے تنگ ہوتا جارہا ہے کیونکہ یورپ رُوس کے تیل اور گیس کی خریداری سے دَستبردار ہوگیا ہے اور اس میں سے اب بہت قلیل معاہدے باقی ہیں جبکہ پہلے روس نے یورپ میں توانائی کی سپلائی کی شہ رَگ کو پکڑرکھا تھا۔ امریکہ اور یورپ نے روس کے لیے اپنے دروازے بند کرنے کے بعد دوسرے ممالک کے بھی پیچھے پڑ کراُن سے مطالبہ کیا کہ وہ روس پر عائد تیل کی قیمتوں کی پابندی کریں۔ اس طرح،یہ سب کچھ روس کے لئے چین کو ایک واحد راستے کے طور پر دیکھنے پر مجبور کرتاہے جس کے ذریعے وہ اپنی توانائی اور خام مال فروخت کرسکتا ہے۔اور اسی مجبوری کو مغرب نے’’چین سے روس کی تجارتی التجا“ کا نام دیاہے۔ یہ صُورتِ حال چین کو امریکہ اور یورپ کے حوالے سے خاصی پریشان کر رہی ہے کیونکہ یہ دونوں ہی تجارتی نقطۂ نظر سے،چین کےلیے بہت زیادہ اہم ہیں۔
4۔ چین خُود بھی یوکرین جنگ کے بارے میں مبہم موقف کے سلسلے کو جاری رکھنے کے باوجود یہ سمجھتا ہے کہ اس جنگ کے نتائج اُس کےلیے خوش آئند نہیں۔ چین نے یوکرین میں جنگ شروع ہونے سے قبل روس کے ساتھ ’’غیر محدود اتحاد“ کا معاہدہ کیا۔ جب امریکہ اور یورپی ممالک نے چین سے یوکرین پر روسی حملے کے خلاف موقف اختیار کرنے کا مطالبہ کیا تو چین کا مؤقف مبہم رہاتھا۔ چین نے نہ تو کُھل کر روسی حملے کی حمایت کی اور نہ ہی دوسری طرف اپنے اتحادی رُوس کا ساتھ دینے کی کوئی بات کی بلکہ یہ کہتے ہوئے صرف امریکہ پر جنگ کی ذمہ داری ڈالتا رہا کہ اس نے روس کو سیکورٹی کی ضمانت دینے سے انکار کیا تھا۔ چین اس بات کا انتظار کر رہا تھا کہ روس یوکرین پر نئی صورتِ حال مسلط کردے گا اور یوکرین کے اندر حالات اس کے قابو میں ہوں گے جس سے وہ یورپی ممالک کو روس کے نئے عالمی مقام کو قبول کرنے پر مجبورکرے گا۔یہی چیز چینیوں کے جذبات کو ترغیب دے رہی تھی کہ اس طرح سے چین کو بھی عالمی سطح پرایک مقام کی ضمانت مل سکےگی ،خاص طور پر تائیوان میں۔ یوکرین کے میدان جنگ میں روسی فوج کی پَے درپَے شکست سے چینی موقف میں بھی تذبذب نمایاں ہونے لگا گویا کہ وہ روس کے ساتھ اتحاد سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔
5۔ اُس مغربی موقف نے جس سے چین کو دُشمنی کی بُو آرہی تھی، چین کو امریکہ اور یورپ کے خلاف اس جیسا رویہ اختیار کرنے پرنہیں اُبھارا اور چین نے رُوس کی حمایت کا اظہارنہیں کیا، کیونکہ چین کی ترقی اور عالمی سطح پر اُس کے نئے مقام کاتمام تر دارومدار اس کی خارجی تجارت پر ہے اور اسی لئے امریکہ اور یورپی ممالک کی منڈیاں، چین کے عروج کےلیے شَہ رگ کی حیثیت رکھتی ہیں اور یہ معاملہ اس رُوس سے مختلف ہےجوکہ سوویت یونین کی عسکری میراث کا نمائندہ ہے۔رُوس کے عالمی مقام کی بنیاد معیشت اور بین الاقوامی تجارت نہیں۔۔۔ تاہم چین نے ایشیا اور ایشیا سے باہرسمندروں میں روس کے ساتھ مُشترکہ فوجی مشقیں بھی جاری رکھیں، شاید وہ درمیانی راستہ اختیار کرنا چاہتا تھا تاکہ اگرامریکہ اور اس کے درمیان کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو اس کو روس کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ چین مغربی ممالک کو بھی نہیں کھونا چاہتا جوکہ اس کی تجارت کےلیےاقتصادی شَہ رگ کی حیثیت رکھتے ہیں۔۔۔
سوم : یوں اس صورتِ حال نے چین کو ثالث کا کردار ادا کرنے کی کوششوں پر مجبور کیا جو فریقین کےمابین بحران کے حل کےلیے تجاویز پیش کرتا ہے اور یہ بات اگرچہ اس کے باوجود ہے کہ چین کے فریقین سے تعلقات بھی متوازن نہیں ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ چین دیکھ رہا ہے کہ روس کی جانب سے یوکرین میں جنگ کی آگ بھڑکانے کے بعد چین کی اپنی فضاؤں میں بہت سے کالےبادل چھاگئےہیں اوریہی کالے بادل چین کی جانب سے یوکرین میں امن تجاویز پیش کرنے کی پہلی وجہ ہے۔مگریہ وجہ دوسری وجہ کے بغیربارآور نہیں ہوسکتی اور دوسری وجہ یعنی روس پرغوروفکر کر نے سے ہمیں یہ معلوم ہوتاہے کہ:
1۔ روس نے اگرچہ جارحیت جاری رکھنے کااعلان کیا ،تقریباً 5لاکھ نئے سپاہی بھی بھرتی کئے اور جنگ نئے سِرے سے دوبارہ شروع کی جیسا کہ دونباس میں باخوت شہر کے اردگردکی صُورتِ حال ہے تاہم روس کو اس بات کا ادراک ہو رہا ہے کہ یہ جنگ جیتنا ناممکن ہے، کیونکہ روس کو صرف یوکرین کی فوج کا سامنا نہیں کرنا پڑرہا بلکہ بقول روس کے، اُسے’’نیٹو اتحادیوں کی قوت“ کا سامناکرنا پڑرہا ہے جو یوکرین کوکھلم کھلا ہلاکت خیز عسکری امداد دے رہے ہیں اور واضح طور پرروس کو یوکرین میں شکست سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔ بہرحال یہ بات توظاہر ہےکہ روس یہ سمجھ چکا ہے کہ امریکہ نہ صرف، یوکرین میں اُسے شکست دینے کا پُختہ ارادہ رکھتا ہے بلکہ وہ عالمی سطح پربھی رُوس کو شکست دینے کا ارادہ کر چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ فن لینڈ اور سویڈن بھی نیٹوکے نئے ممبربننےکے قریب ہیں جبکہ یہ ممالک روس کے ہمسایہ مُمالک ہیں، دوسری طرف جرمنی،جو کہ تاریخی طور پر روس کا بدترین دشمن رہاہے، بہت تیزی سے اپنے اسلحہ میں اضافہ کررہا ہے۔ اس کے علاوہ مشرق کی طرف جاپانی فوج بہت جلد روس کےلیے بہت بڑا خطرہ بن جائے گی، خاص کر جاپان رُوس سے کوریل کے جزیروں کی واپسی کا مطالبہ کر رہا ہے جن پر دوسری جنگ عظیم کے دوران رُوس نے قبضہ کرلیا تھا۔ یوکرینی اور عالمی سطح کی یہ تمام پیشرفت رُوس پر اپنی حفاظت کرسکنے کا بھی ایک بڑا بوجھ ڈالتے ہیں اور یہ روس کی مزیدکمزوری کو نمایاں کرتے ہیں، خاص طورپر اُس وقت جبکہ رُوس پر بے شُمار اقتصادی پابندیاں بھی لاگوہیں۔۔۔
2۔ روس کی کمزوری کے یہ اشارے،یوکرین جنگ کےنتائج کے نئے سِرے سے اعترافات، فوج کی بگڑتی حالت، معیشت کی زَبوں حالی اور روس کےگِرد پریشان کُن عالمی صورتِ حال کے تدارک کی کوشش، یہ سب وہ دوسری روسی وجوہات ہیں جو کہ پہلی وجہ یعنی چین کی جانب سے امن تجاویز کی پیشکش سے کم اہمیت کی حامل نہیں ہیں۔ بالفاظِ دیگر، رُوس یوکرین جنگ کو روکنا چاہتاہے لیکن اُسے اپنی ساکھ بچانے کے لئے کسی مناسب توجیہہ کی ضرورت ہے۔۔۔
یوں ان دونوں وجوہات کا یکجا ہونا؛ یعنی چین پرپڑنے والے اس جنگ کے عالمی منفی اثرات اور یوکرین میں کامیابی حاصل کرنے کی خواہش کے حوالے سے رُوس کی مایوسی،ان کے نتیجے میں چین نے یوکرین امن تجاویزکی پیشکش کی ہے۔ یہ صُورتِ حال ایک سال پہلے جنگ شروع ہوتے وقت نہیں تھی ،ایسا لگتا ہے کہ چین کو توقع تھی کہ روس بہت جلد جنگ کا نقشہ اپنے حق میں پلٹ دے گا ا۔سی لیے چین نے جنگ کے شروع میں کسی قسم کی کوئی امن تجاویز پیش نہیں کیں مگرچونکہ اب رُوس کی جیت کے حوالے سے تقریباً نا امید ہونے اوررُوس کی جانب سے خاموشی سے اپنی ساکھ بچا کر مذاکرات کی حامی بھرنے کے بعد چین نے یہ تجاویز پیش کی ہیں۔
یہ ہے یوکرین میں چینی امن تجاویز کی پیشکش کی حقیقت؛ اس تجویز کا اِسی وقت پیش ہونا ہی اس کی دَرپردہ وجوہات کی تشریح کرتاہے، خاص کر تجاویز میں مغرب اور یوکرین کو لالچ دینے کےلیے ملکوں کی خود مختاری کا احترام کرنے کی عبارت کا شامل ہونا۔ چنانچہ چینی وزیرِ خارجہ نے اعلان کیا کہ چین اپنی تجویز میں یوکرین کی خود مختاری کی حمایت کرتاہے،اُنہوں نے کہا (چینی پیشکش میں تمام ممالک کی خود مختاری کا احترام کیا جائے گا) سی این این،عربی 18 فروری، 2023۔ یہ پیشکش، مذاکرات میں مغرب کےلیے لالچ کا دروازہ کھولنے کےمترادف ہے۔
چہارم : رہا یہ سوال کہ کیا چینی تجاویز کامیاب ہوسکتی ہیں یعنی یوکرین میں جنگ ختم ہوسکتی ہے تو یہ اَمرچند موثر عوامل پر موقوف ہے:
1۔ ایسا ممکن ہونا سب سے پہلے امریکی مؤقف پرموقوف ہے اور اس کے بعد یوکرین کی مدد کرنے والے یورپی ممالک کے مؤقف پر کیونکہ انہی کی پُشت پناہی کی وجہ سے ہی یوکرینی دارالحکومت کیف اور یوکرینی صدر زیلینسکی کا موقف بھی خاصا سخت ہے۔ مغرب اور یوکرین کے مؤقف کا خلاصہ یہ ہے کہ امن مذاکرات کی شرط یہ ہے کہ روسی فوج پورے یوکرین بشمول کریمیا سے انخلاء کرے، یعنی روس کے ساتھ مذاکرات خطہ کے بارے میں نہیں ہونگے بلکہ ہرجانہ اَدا کرنے اور جنگی جرائم کے مرتکب ہونے والوں کو بین الاقوامی عدالت کے سامنے پیش کیے جانے پر ہونگے۔ زمینی حقائق سے یہ لگ رہا ہے کہ یہ شرائط روس کےلیے قابلِ قبول نہیں، یعنی موجودہ محاذوں پر سیز فائراور اسکے بعد مذاکرات۔ یقیناً روس جنگ بندی کے بعد اس طرح کی رعایتیں دینے کےلیے تیار ہے جس میں ایک طرف تو اس کی اپنی ساکھ بھی برقرار رہے گی اور دوسری طرف اس کو کچھ زمینی کامیابیاں بھی مل جائیں گی چاہے وہ برائے نام ہی ہوں اور ساتھ ہی روس پر پابندیوں کا خاتمہ اور اس کے منجمد کیے گئے اثاثوں کا بحال ہونا۔۔۔
2۔ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی ممالک ابھی تک چین کی اِس امن تجویز کو اہمیت نہیں دے رہے ہیں کیونکہ وہ یوکرین میں روس کی مکمل شکست کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور اسی کا انتظار کر رہے ہیں۔ یورپی کمیشن کے سربراہ اُرسلا دیر لاین نے کہا: ( ہمیں اس بات کے مزید ثبوتوں کی ضرورت ہے کہ چین روس کے ساتھ مل کر کام نہیں کر رہا، فی الحال ہمیں یہ نظر نہیں آرہا ہے؛ سی این این عربی 18فروری، 2023)۔ امریکی وزیرخارجہ نے چین پر الزام لگایا کہ وہ روس کی مدد کر رہا ہے: ( بلنکن نے اتوار کو نشر کیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ چین اس پر "سنجیدگی سے غور" کر رہا ہے کہ وہ ایک سال سے جاری یوکرین جنگ میں روس کو مہلک امداد مہیا کرے؛ القدس العربی 20فروری، 2023)۔ یہ سب اس بات کے کافی اشارے ہیں کہ مغرب روس کو شکست دینے کےلیے یوکرین کی مدد کر رہا ہے۔
3۔ یہی وجہ کہ یوکرین میں چینی امن منصوبے سے، جس میں ممالک کی خود مختاری کے احترام کی بات کی گئی ہے، روس اپنے علاقے میں واپس جا سکتا ہے۔ تاہم یہ تجویز موجود حالات میں امریکہ اور اس کے یورپی پیروکاروں کےلیے قابلِ قبول نہیں۔ اور اسی طرح یوکرین کےلیے بھی جس کوخُود اپنے معاملات پر کوئی اختیار نہیں، کیونکہ یہ امریکہ ہی ہے جو مسلسل جدید ترین اسلحے سے یوکرین کی مدد کر رہا ہے۔
امریکہ نے اپنے صدر بائیڈن کی زبانی کہا کہ روسی صدر یوکرین میں ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتا۔ یہ عزم ،امریکہ کے پختہ ارادہ کو ظاہر کرتاہے، برطانیہ کا رویہ بھی ایسا ہی ہے اور اسی طرح مشرقی یورپ کے ممالک جیسے پولینڈ اور بالٹک ممالک کا بھی جو رُوس سے شدید نفرت کرتے ہیں۔۔ یعنی چینی امن تجاویز امریکہ کےلیے قابل قبول نہیں۔۔۔ روس،مغرب کے اس موقف کی وجہ سے پریشان ہے اسی لیے بیانات میں بالواسطہ طور پر ان کو قبول کرنے کا عندیہ دیتا ہے مگر کُھل کر نہیں کہتا یعنی اگر ایک قدم آگے بڑھتا ہے تو ایک قدم پیچھے بھی ہٹتا ہے۔۔۔ اسکائی نیوز عربی نے 27فروری، 2023کو اپنی ویب سائٹ پر خبر شائع کی : ( کرملین نے چینی امن تجاویز کے بارے میں کہا ہے :’’ یوکرین مین حالات امن کےلیے ساز گار نہیں“جبکہ اس نے پھر یہ کہا : ( روس چین کے امن منصوبے کی قدر کرتا ہے۔۔۔)۔ اسی طرح الیوم ٹی وی نے27فروری،2023 کویہ نشرکیا ( روس یوکرین میں چینی امن تجاویز میں دلچسپی رکھتا ہے تاہم بقول ان کے تجاویز کی تفصیلات کے تجزئیے اور باریک بینی سے چھان بین کی ضرورت ہے)۔ گویا روس اپنے آپ کو پسپائی کی راہ پر ڈال رہا ہے۔۔۔
پنجم : خلاصہ یہ ہے کہ آنے والے دونوں میں نئی پیش رفت ہوگی جس کا سَرنامہ یہ ہوگا کہ یوکرین میں جنگ ختم کرنے کےلیے چین کی پیشکش۔ جنگ شروع ہونے کے ایک سال بعدیہ چینی کوشش روس کے یوکرین کی دلدل سے نکلنے کےلیےاوراس کی وجہ سے اس کے بین الاقوامی وقار کو لاحق شدید خطرے سے بچنے کےلیے اُمید کی کرن ہے۔ یہ پیشکش اگرچہ چین کی جانب سے مصالحت کی ایک کوشش ہے مگر امریکہ یورپ اور یوکرین، ان تجاویز کو مسترد کرتے ہیں اور اس پر شک کر رہے ہیں۔
اس لیے ان تجاویز کے کامیاب ہونے کا امکان فی الحال بہت کم ہے سوائے اس کے کہ عالمی منظرنامہ بدل جائے یا روس کو یہ یقین ہوجائے کہ وہ یوکرین پر کاری اور مؤثر حملہ کرسکتاہے۔ لیکن فی الحال ایسا نہیں کیونکہ امریکہ اور نیٹو نے روس کےلیے گھات لگایا ہوا ہے اور یہ ممالک روس کو کامیاب ہونے سے روکنے کےلیے مسلسل میدانِ جنگ گرم رکھے ہوئے ہیں۔
خُلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ کافر استعماری ممالک جن کو دنیا کے بڑے کہا جاتا ہے دنیا کی بھلائی کےلیے نہیں بلکہ صرف شر اور برائی کےلیے ایک دوسرے کے ساتھ دست وگریبان ہیں۔ روس یوکرین میں ہر ذی روح کو قتل کرنے کےلیے حملے کررہا ہے اور امریکہ اور یورپ اپنی فوج کے بجائے ہر یوکرینی کو جنگ کی آگ میں جھونک رہے ہیں! یعنی دونوں فریق ہر یوکرینی کو قتل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔۔یوں یہ ممالک دنیا میں فساد برپا کرتے ہیں،اس قدر زیادہ خون بہنے کو کوئی اہمیت نہیں دیتےاورصرف اپنے مفادات کو دیکھتے ہیں چاہے وہ کچھ ہی کیوں نہ ہوں۔۔۔تاریخ اپنے آپ کودُہرا رہی ہے جب روم اور فارس کی ریاستیں رَسہ کَشی میں مصروف تھیں، کبھی ایک غالب آجاتا تھا توکبھی دوسرا پچھاڑدیتا تھا۔۔۔ہر ایک اپنے مفادات کےلیے انسانوں کا خون چُوستا رہتا تھا۔۔۔یہ سلسلہ اللہ سبحانہ وتعالی کی جانب سے اہلِ حق و اہلِ عدل، مسلم امت کی مدد تک جاری رہا۔ آخر اُمتِ مسلمہ کو فتح مبین نصیب ہوئی، اسلام اور مسلمان غالب آگئے اورکفر اور کفار ذلیل ہوگئے۔ ایک بار پھر اللہ کے حکم سے یہی ہونے والا ہے ۔
﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾
"اور اس دن مومن خوش ہونگے۔اللہ کی مدد سے، وہی جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے وہی غالب اور رحم والا ہے"(الروم:4-5)
9شعبان 1444ہجری
01مارچ، 2023ء