الخميس، 19 جمادى الأولى 1446| 2024/11/21
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال و جواب

کریملن پر ڈرون حملہ

 

سوال:

         ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ڈرون ماہرین نے کہا [" کہ دو ڈرون جو گزشتہ بدھ کو کریملن کے اوپر گر کر تباہ ہوئے، ماسکو اور اس کے آس پاس کے دفاعی نظاموں کی ایک بڑی تعداد سے بچ نکلے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں شاید روس کے اندر سے اڑایا گیا تھا ۔ (الجزیرہ، رائٹرز، 6/5/2023)]۔ڈرون حملہ 3/5/2023 کی رات ماسکو کے قلب میں کریملن محل پر ہوا۔ یوکرائنی پارلیمنٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے سیکریٹری نے کہا کہ "کریملن پر حملے کی منصوبہ بندی ماسکو نے کی تھی۔" (الجزیرہ، 3/5/2023)۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ حملہ یوکرین کا خارجی منصوبہ ہے جیسا کہ روس نے الزام لگایا ہے؟ یا یہ ماسکو کا اندرونی مسئلہ ہے جیسا کہ امریکی ماہرین نے کہا اور جیسا کہ یوکرین نے کہا؟ دوسرے لفظوں میں ان مختلف بیانات کے بعد اس حملے کے پیچھے کون ہے؟

 

جواب:

         ہاں، روسی صدارت نے اعلان کیا کہ اس نے کریملن پر دو ڈرونز کے حملے کو ناکام بنا دیا ہے ، اور اسے "دہشت گردی" قرار دیا ۔ یوکرین نے فوری طور پر اس حملے میں ملوث ہونے کی تردید کرتے ہوئے ماسکو پر الزام لگایا کہ وہ جان بوجھ کر اسے میڈیا میں اجاگر کر رہا ہے تاکہ تنازعہ میں ممکنہ اضافے کا جواز پیش کیا جا سکے۔ کریملن نے کہا کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ اس حملے کے مقاصد کو سمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے:

 

         پہلا: روس کی جانب سے فروری 2022 میں یوکرین میں شروع ہونے والی جنگ کے ایک سال سے زیادہ عرصے کے بعد، کسی حد تک جمود نے جنگی محاذوں کو متاثر کیا ہے، سوائے باخموت(Bakhmut) شہر میں آٹھ ماہ سے جاری  لڑائی اور یوکرین میں کچھ روسی میزائل حملوں کے، باقی محاذوں پر خاموشی یا جمود طاری ہے ، اور اس جمود کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ قدرتی ہے یعنی موسم سرما کی وجہ سے ، اور دوسری وجہ دونوں طرف گولہ بارود کی کمی کی  ہے۔ ایک جانب متوقع یوکرائنی حملے کی باتیں مسلسل ہورہی ہیں ، اس دوران  اگر کریملن پر حملہ کامیاب ہوجاتا تو محاذوں پر طاری جمود کی کیفیت ختم ہو جاتی اور اس جنگ میں شدت آجاتی ۔

 

         دوسرا: مغرب، امریکہ کی قیادت میں اور یوکرین کی مسلسل اور بتدریج حمایت کے ذریعے، روس کو کمزور کرنے کامیاب رہا ہے۔ روسی ویگنر گروپ (Wagner Group)کا سربراہ، جو بنیادی طور پر باخموت شہر میں لڑ رہا ہے، گولہ بارود کی کمی کے بارے میں مسلسل چیختا چلاتا رہتا ہے، یہاں تک کہ روسی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے اندر موجود فریقوں پر یہ الزام لگاتا ہے کہ وہ جان بوجھ کر ایسا کر رہے ہیں، اور ایسا اس وقت ہوا جب موسم سرما  کی وجہ سے باقی محاذ تقریباً بند ہو چکے تھے۔ اسی طرح یوکرائن کے کافی اندر روسی حملے اکثرمرحلہ وار شکل میں ہوتے ہیں ، یعنی روس کے پاس ان میزائلوں اور طیاروں کی اتنی مقدار نہیں ہو تی کہ وہ مسلسل حملے کر سکے، لہٰذا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ پہلے ایک ماہ لگا کر انہیں تیار اور جمع  کرتا ہے اور پھر انہیں یوکرین کے اندر استعمال کرتا ہے، اور یہ روس کی تنزلی (کمزوری)کی حالت کی ایک اورنشانی ہے۔ روس کو، مغربی پابندیوں کی وجہ سے ،روسی فوجی صنعت میں استعمال ہونے والے حساس پُرزوں کی کمی کا سامنا ہے ۔ اگرچہ خبروں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مغرب کو بھی گولہ بارود کی کمی کا سامنا ہے ۔ اگرچہ یہ حقیقت ہے، لیکن بہرحال مغرب کی ملٹری انڈسٹری میں اس خلا کو پر کرنے کی صلاحیت روس سےکہیں زیادہ ہے۔

 

         تیسرا: نتیجتاً، روسی فوج میں، فوج میں بھرتی کی مہموں کے باوجود، خاص طور پر جارحانہ زمینی صلاحیتوں کا فقدان دکھائی دیتا ہے، اور روسی فوج جدید مغربی ہتھیاروں کے ساتھ آنے والے یوکرائنی حملے کے خوف کی وجہ سے محاذوں پر خندقیں بنا رہی ہے۔درحقیقت، ویگنر گروپ کے سربراہ نے آنے والے یوکرائنی جوابی حملے کو روس کے لیے "ایک المیہ" قرار دیا ہے، اور اگر اس صورتحال کا موازنہ اس سے کیا جائے کہ جس کی مشابہت روسی فضائیہ کی عدم موجودگی سے ہوتی ہو تویہ  وہ    روسی ہتھیار ہیں جو یوکرین کی فضاوں کو کنٹرول کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں اور صرف دور سے ہی کچھ حملے کرسکے ہیں۔روس کی یہ کمزوری مغرب اور امریکہ پر واضح ہے جو یوکرین میں درپَردہ رہتے ہوئےاس جنگ کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ سے روس کے خلاف جنگی منصوبہ بندی نے ایسی شکلیں اختیار کی ہیں جن کا تصور روس نے جنگ کے آغاز کے وقت نہیں کیا تھا، خاص طور پر امریکہ اور مغرب ابھی تک ایٹمی جنگ کے امکانات کو ختم کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بھی روس نے مختلف طریقوں سے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا اشارہ دیا  تو اس کو بڑے پیمانے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا، یہاں تک کہ روس کی جانب سے اس لاپرواہی (ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال)پر امریکہ کے رد عمل کی دھمکی بھی دی گئی ہے۔

 

         چوتھا: ان تمام حالات کی روشنی میں، یہ موسم گرما بہت سی پابندیوں سے آزاد ہو کر زیادہ تر غیر مستحکم اور قابو سے باہر ہو گا، یعنی جو جنگ اب تک صرف یوکرین کے اندر جاری ہے وہ  اب یوکرین سے باہر بھی پھیل سکتی ہے ۔ روس کے اندر کئی حملے ہوئے ہیں لیکن یوکرین نے ان کی ذمہ داری قبول نہیں کی، حتیٰ کہ روس کے اندر ایک روسی مزاحمت بھی پیدا کی گئی، جو پیوٹن کی حکمرانی کو مسترد کر رہی ہے اور پوٹن کو روس کے اندر حملوں کا ذمہ دار قرار دے رہی ہے۔دارالحکومت ماسکو کے قلب میں واقع کریملن محل پر ہونے والے اس حملے سے روس کے غرور کو شدید ٹھیس پہنچی ہے اور روس نے اسے روسی صدر پیوٹن کو قتل کرنے کی کوشش قرار دیا ہے ۔ اس بات سے قطع نظرکہ دونوں ڈرون کہاں سے اڑائے گئے، حقیقت تویہ ہے کہ وہ محل کے اوپر تک پہنچ گئے تھے، کریملن کی عمارتوں کے گنبد تک آن پہنچنا اور کریملن کے اوپر ان ڈرونز کا پھٹنا روس کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔

 

         پانچواں: اس زبردست جرات مندانہ حملے کی وجہ سے ماسکو اور پورے روس کو ایک دھچکا لگا  اور روس نے اس حملے کا الزام یوکرین پر لگایا، اورروسی حکام کی جانب سے اس دھچکے کی شدت کی نشاندہی کرتےہوئے سخت بیانات سامنے آئے:

 

1۔روسی سلامتی کونسل کے نائب چیئرمین دمتری میدویدیف (Dmitry Medvedev)نے کہا:"کیف حکومت کے کریملن پر حملے کے بعد واحد آپشن یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی اور ان کے ساتھیوں کو ختم کرنا ہے۔ ایک ٹیلی گرام پوسٹ میں، میدویدیف نے کہا، 'ماسکو کے پاس یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی اور ان کے گروہ کے  خاتمے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا ہے۔'" (سپوٹنک، روس، 3/5/2023)۔

 

2۔روسی ریاست ڈوما کے اسپیکر ویاچسلاو ولوڈن (Vyacheslav Volodin)نے کریملن پر دو ڈرون حملوں کے جواب میں "کیف میں دہشت گرد حکومت کو روکنے اور اسےتباہ کردینے کے قابل ہتھیاروں" کے استعمال کا مطالبہ کیا۔ ولوڈن نے ٹیلیگرام پر ایک بیان میں مزید کہا کہ روس کو "مبینہ" حملے کے بعد یوکرین کے صدر کے ساتھ بات چیت نہیں کرنی چاہیے، جس حملہ کی ذمہ داری لینےسےاگرچہ کیف نے انکار کیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زیلنسکی کی حکومت کے ساتھ مذاکرات ممکن نہیں، کیونکہ وہ روس، یورپ اور پوری دنیا کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے، " (الجزیرہ نیٹ، 3/5/2023) ۔

 

کریملن پر ہونے والے دو ڈرونز کے  حملوں کی وجہ سے روس کو جو صدمہ پہنچا ہے اس کی شدت بہت زیادہ  اور واضح ہے۔

 

چھٹا: جہاں تک روس کا تعلق ہے جس نے یوکرین میں ہونے والی جنگ کو تیز کرنے کے لیے حملے کا منصوبہ بنایا تھا، تو یہ حملہ ایک طرف تو اس کے غرور کو ٹھیس پہنچانے اور اس کی عظمت پر ایک طمانچہ ہے، اور یہ انتباہ ہے کہ اب کوئی بھی روس سے یا اس کے صدر سے نہیں ڈرتاہے۔دوسری طرف، روس یوکرین میں جنگ کو مؤثر طریقے سے آگےبڑھانے سے قاصر ہے جب تک کہ ایٹمی ہتھیار نہ استعمال کرے ۔لیکن بہرحال امریکہ کے جوابی ردعمل کے خوف سے وہ یوکرین کے اندر ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی ہمت نہیں کرپاتا۔جو بات اس امکان کی بھی نفی کرتی ہے کہ روس نے خود یہ حملہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ روس نے براہ راست امریکہ پر اس حملے میں ملوث ہونے کا الزام لگادیا  اور اس الزام کی بھی مثال نہیں ملتی جو کہ اس بےباک ڈرون حملے کےنتیجے میں ہونے والے  ماسکو کے صدمے کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔ متعلقہ بیانات اس صورتحال کو ظاہر کرتے ہیں:

 

1۔کریملن کے سرکاری ترجمان دمتری پیسکوف (Dmitry Peskov)نے کہا کہ یوکرین کے کریملن پر ڈرون کی مدد سےہونے والے حملے کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے اور اُس (امریکہ) نے کیف کے لیےاہداف کا انتخاب کیا۔ یہ بیان بروزجمعرات، 4/5/2023، پیسکوف کے پریس بیان میں آیا، جہاں اس نے بیان جاری رکھتے ہوئے کہا: " کیف اور واشنگٹن ،دونوں کا اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکارکی کوششیں، بلاشبہ بالکل مضحکہ خیز ہیں۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس طرح کی کارروائیوں اور اس طرح کے دہشت گردانہ حملوں کے بارے میں فیصلے کیف میں نہیں بلکہ واشنگٹن میں کیے جاتے ہیں، اور کیف وہی کرتا ہے جو اسے بتایا جاتا ہے اور ایسا کرنے کے احکامات بھی آ چکے ہیں۔"امریکہ نے وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے اسٹریٹجک کمیونیکیشن کوآرڈینیٹر جان کربی کے ذریعے اس کی تردید کی ہے جنہوں نے MSNBC پر براہ راست نشریات میں کہا: "ہم ابھی بھی اس بارے میں معلومات اکٹھا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کیا ہوا، اور بہرحال ہمارے پاس کسی طور سے کوئی حتمی ثبوت نہیں ہیں۔ میں نے آج صبح ہی دمتری پیسکوف کے تبصرے دیکھے، یہ الزامات کہ ہم اس معاملے میں کسی نہ کسی طرح ملوث تھے، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس میں امریکہ کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ جو کچھ بھی تھا، اس میں ہم شامل نہیں تھے۔۔۔" (RT, 4 /5/2023

 

2۔اس تمام صورتحال کو دیکھنے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ روس میں جو کمزوری اور تنزلی دیکھی جا رہی ہے اس کی وجہ سے امریکہ نے یوکرین کی جنگ کو مزید آگے بڑھانا شروع کر دیا ہے ۔ بلکہ کریملن پر حملہ روسی صدر کے لیے ذاتی خطرے کی نشاندہی کرتا ہے۔ کریملن کے ترجمان پیسکوف کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ روس اس پیغام کو سمجھ گیا تھا، اس لیے وہ امریکہ کو بتانا چاہتا تھا کہ وہ جانتا ہے کہ اس حملے کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے، لیکن روس اپنے خوف کی وجہ سے امریکہ کو براہ راست دھمکی دینے سے گریز کرتا ہے، اور یوکرین کو دھمکی دینے اور اس کے صدر زیلنسکی کو ختم کرنے کی دھمکی کو ہی کافی سمجھتا ہے۔

 

3۔جو بات اس چیز کی بھی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ حملہ روس کے لیے ایک چیلنج ہے جس کی منصوبہ بندی امریکہ نے کی تھی، وہ یوکرین کے صدر کو یوکرین سے ہٹانا ہے، جیسا کہ حملے کی صبح اچانک یہ ظاہر ہوا کہ وہ فن لینڈ کے شہر ہیلسنکی کے دورے پر تھا، اور اس کے بعد اس کا طیارہ ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈیم میں اترتا دکھائی دیا اور پھر یہ ظاہر ہوا کہ جرمن چانسلر کا پروگرام یوکرین کے صدر زیلنسکی کا استقبال کرے گا اور یہ سب کچھ یوکرین کے صدر زیلنسکی کو روس کے ردعمل سے بچانے کے لیے کیا گیا ، یعنی اسےمنظر سے ہٹانے کے لیے، جیسا کہ میدویدیف نے مطالبہ کیا تھا۔

 

4۔جہاں تک خود امریکہ کا تعلق ہے، تو اس نے ایسا رویہ ظاہر کیا کہ وہ اس واقعے پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا، اور روسی بیانیہ کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار بھی کیا۔ امریکی سیکریٹری خارجہ، انٹونی بلنکن نے کہا کہ انہوں نے ماسکو سے کریملن پر یوکرین کے مبینہ ڈرون حملے کی رپورٹس دیکھی ہیں، لیکن "وہ کسی بھی طرح ان کی توثیق نہیں کر سکتے"۔ اور اس نے کہا، "ہم بالکل نہیں جانتے"۔ بلنکن نے مزید کہا، "ہم دیکھیں گے کہ حقائق کیا ہیں اور  یہ جانے بغیر کہ حقائق کیا ہیں اس پر تبصرہ کرنا یا قیاس کرنا واقعی مشکل ہے"۔ (CNN Arabic, 3/5/2023) ۔

 

5۔جو بات روس کے صدر پیوٹن کو قتل کرنے کی کوشش میں امریکہ کے کردار کی طرف اشارہ کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ وہ امریکی دستاویزات جو گزشتہ مہینوں کے دوران لیک ہوئی تھیں اور اپریل 2023 میں منظر عام پر آئی تھیں، جن میں ممکنہ جنگی پس منظر  میں سے ایک میں روسی صدر پیوٹن کے قتل کی بات کی گئی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکی محکمہ دفاع، پینٹاگون سے خفیہ دستاویزات کو لیک کرنے کے عمل میں بہت سے حیرت انگیز عوامل اور راز شامل ہیں، جن میں نیویارک ٹائمز نے ایک خفیہ انٹیلی جنس دستاویز کے بارے میں انکشاف کیا ہے جو اس نے حاصل کی ہے جس میں یوکرین میں ایک سال کی جنگ کے بعد ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے تیار کیے گئے منصوبوں کی تفصیلات شامل ہیں۔ اس دستاویز میں امریکی دفاعی انٹیلی جنس ایجنسی کی طرف سے کیا گیا ایک تجزیہ شامل ہے جس میں چار فرضی منظرناموں کی نشاندہی کی گئی ہے، اور یہ کہ اگر ایسا ہوتا ہے تویہ یوکرین میں جاری تنازعہ کو کیسے متاثر کر سکتاہے۔ ان فرضی منظرناموں میں یہ شامل ہیں: "روسی صدر ولادیمیر پوٹن ... اور یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی کا قتل...  روسی مسلح افواج کی قیادت میں تبدیلی... اور کریملن پر یوکرینی حملے"۔ (الشرق اخبار، 12/4/2023) ۔

 

ساتواں: خلاصہ یہ کہ ماسکو کے کریملن محل پر دو ڈرونز کا حملہ یوکرین کی جنگ میں خطرناک حد تک اضافہ ہے۔

 

اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ امریکہ اور یوکرین کے پاس روس کے اندر کافی ایجنٹ موجود ہیں تاکہ وہ ایسے طاقتور حملے کر سکیں جو جنگ کا رخ بدل سکتے ہوں۔ ریلوے، تیل اور بجلی کی تنصیبات وغیرہ کو نشانہ بناتے ہوئے روس کے اندر دھماکوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جنگ کو یوکرین سے روس منتقل کرنے کا عمل پہلے ہی سے جاری ہے۔ یہ بہت دلیرانہ عمل ہے، خاص طور پر چونکہ یوکرین میں ہی روسی فوج خاصی کم پڑ چکی ہے اور اس کے لیے ایسے موثر حملے کرنا مشکل ہے جو جنگ کا رخ بدل دیں۔ اسی طرح، مغرب، امریکہ کی قیادت میں، یوکرین کے حق میں جنگ کا رخ بدلنے کے لیے مزید جدید ہتھیاروں کے ساتھ یوکرین کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے، اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ یوکرین کی جانب سے اپنے خرسون(Kherson) اورخارکیف(Kharkiv) کے علاقوں کو دوبارہ حاصل کرنے کے بعد جنگ کی موجودہ صورتحال روس کے حق میں نہیں ہے، اس کے ساتھ ساتھ باخموت پر آٹھ ماہ تک مسلسل حملوں  کے دوران روس نے شدید نقصان اٹھایا ہے جبکہ وہ اس کو فتح بھی نہیں کرسکا ہے۔

 

یہ ہیں روس میں کریملن پر ہونے والے اس حملے کی جہتیں اور یہی اس کا پس منظر تھا۔ یہ سب کچھ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ روس کی فوجی اور سکیورٹی صلاحیت اس حد تک کمزور ہو چکی ہے کہ وہ ماسکو کے قلب میں اپنے سیاسی مرکز کی حفاظت کرنے سے بھی قاصر ہے! البتہ یہ بات درست ہے کہ یہ لڑائی صرف روس اور یوکرین کے درمیان نہیں ہے، امریکہ اور مغرب ،یوکرین کی مالی اور اخلاقی حمایت کرتے ہیں، تاہم یوکرین پر روس کا حملہ ایک سال سے زائد عرصے سے جاری ہے اور یوکرین کے جن علاقوں پر اس نے قبضہ کر رکھا ہے، وہاں روس اب تک استحکام قائم نہیں کرسکا ہے اور اس نے بڑا مالی و جانی نقصان بھی اٹھایا ہے۔ اس سب کچھ سے روس کی سُپرپاور کے مقام سے کافی دُوری ثابت ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ روس کو اس کا علم ہے، اور اسی لیے اس نے 9/5/2023 کو روس کے جشن سے پہلے باخموت کے اس نام نہاد قبضے کو مکمل کرنے کی پوری کوشش کی، لیکن بھر پور  حملوں اور ویگنر گروپ کو متحرک کرنے کے باوجودبھی وہ اس میں آج تک ناکام ہے۔

 

جہاں تک امریکہ اور مغرب کا تعلق ہے، وہ آخری یوکرائنی فوجی تک لڑ رہے ہیں! وہ لڑائی میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔ بلکہ یہ ممالک دوسروں کا خون بہا کر اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں۔

 

آخر میں، میں وہی بات دہراتا ہوں جس کا میں نےاپنےگزشتہ سوال کے جواب، مورخہ 1/3/2023 ،میں ذکر کیا تھا:

 

]آج کی دنیا میں بڑے اور اہم کہلائے جانے والے یہ استعماری کافر ممالک دنیا کی بھلائی کے لیے نہیں، بلکہ شراور نقصان کے لیے آپس میں لڑ رہے ہیں، روس یوکرین پر حملہ کر رہا ہے تاکہ ہر یوکرائنی کو مارا جائے جو زندہ و حرکت میں ہے، اور امریکہ اور مغرب اس میں ہر یوکرینی کو ملوث کرکے روسی جارحیت کا مقابلہ کر رہے ہیں، مگراپنے فوجیوں کو شامل کئے بغیر! دونوں فریق یوکرین میں ہر یوکرائنی کو مارڈالنے کے لیے لڑ رہے ہیں۔۔۔یوں زمین پر فساد کے خواہاں یہ ممالک انسانی خون کے بہنے کو اہمیت نہیں دیتے جب تک وہ اپنے مفادات بلکہ اپنے کچھ مفادات  حاصل نہ کرلیں۔۔۔گویا تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے جب روم اور فارس کی ریاستیں آپس میں لڑ رہی تھیں،کبھی رومی پَست پڑتے  تو کبھی فارس کوشکست کا سامنا کرناپڑتا۔۔۔ ان میں سے ہر ایک اُس مشین کی طرح کام کرتا جو اپنے مفادات کے حصول کے لیے لوگوں کا خون چوستی ہے۔۔۔ اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہاجب تک کہ اللہ تعالیٰ نے حق اور انصاف کے علمبرداروں، امت اسلامیہ کو فتح اور واضح فتح کے ساتھ عزت نہ عطا کردی، تاکہ اسلام اور مسلمانوں کی شان و شوکت واضح ہواور کفر و کفار ذلیل و خوار ہوں اور انشاء اللہ خلافت راشدہ کے دوبارہ قیام کے ذریعے ایک بار پھر ایسا ہی ہوگا،

 

﴿ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ

اور اس دن ایمان والے خوش ہوں گے،(یعنی) اللہ کی مدد سے۔ وہ جسے چاہتا ہے مدد دیتا ہے اور وہ غالب (اور) مہربان ہے۔(الروم، 5-4)

[

﴿وَيَقُولُونَ مَتَى هُوَ قُلْ عَسَى أَنْ يَكُونَ قَرِيباً

کہہ دو کہ امید ہے قریب ہی ہوگا“۔(الاسراء، 51)

 

19 شوال، 1444 ہجری

9 مئی 2023 عیسوی

Last modified onہفتہ, 20 مئی 2023 16:59

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک