بسم الله الرحمن الرحيم
سوال و جواب
پاکستانی آرمی چیف کا امریکہ کے ساتھ اتحاد اور آرمی چیف کی وفاداری
سوال:
20 دسمبر، 2023 کو آئی ایس پی آر کی رپورٹ کے مطابق، پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے اپنے دورہ امریکہ کے دوران کہا، " پاکستان ایک طویل المدتی، کثیر الشعبہ شراکت داری کے ذریعے امریکہ کے ساتھ دوطرفہ روابط بڑھانے کا خواہاں ہے"۔ اور انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ "امریکہ کے دورے کے دوران سیاسی اور عسکری قیادت کے ساتھ ان کی ملاقاتیں بہت مثبت رہی تھی" (ذرائع، PR220/2023-ISPR)۔ پاکستانی آرمی چیف نے 11/12/2023 کو اعلان کیا تھا کہ آرمی کمانڈر اپنی تقرری کے بعد اپنے پہلے سرکاری دورے میں امریکہ جائیں گے ... امریکہ کے ساتھ پاکستان کے کثیرالشعبہ شراکت داری کو بڑھانے کا کیا مقصد ہے ؟ اور یہ کہ کیا امریکی سیاسی اور عسکری قیادت کے ساتھ ان کی ملاقاتیں مثبت رہیں ؟ کیا اس کا مطلب امریکی استعمار کے ساتھ مزید اتحاد کرنا ہے، خاص طور پر بھارت اور کشمیر کے مسئلے پر ؟ پھر افغانستان کی طرف ۔۔۔ اور یہ بھی کہ یہودی جارحیت کا سامنا کرنے والے فلسطینی عوام کی حمایت کو روکنا اور پھر دو ریاستی حل کے نام پر یہودی وجود کو قبول کرنا ؟
براہ مہربانی وضاحت فرمائیں۔ شکریہ !
جواب:
مندرجہ بالا سوالات کا جواب دینے کے لیے، ہم درج ذیل امور کا جائزہ لیں گے:
1۔24 نومبر 2022ء کو جنرل قمر جاوید باجوہ کی جگہ عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تقرری کا اعلان، قمر باجوہ کی سفارش اور امریکہ نواز وزیر اعظم شہباز شریف کی منظوری سے کیا گیا تھا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں آرمی چیف مقرر کرنے کی خواہش امریکہ کی تھی اور عاصم منیر نے حامی بھری تھی کہ وہ امریکہ کے مطالبات کو اسی طرح من وعن مانیں گے جس طرح باجوہ نے انہیں مانا تھا اور امریکہ سے تعاون رکھا تھا۔ ان کی تقرری ایسے وقت میں ہوئی جب پاکستان معاشی بحران کا شکار تھا۔ عاصم منیر ایسی شخصیت ہیں جنہیں سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک سے رقوم کے بہاؤ کی ضمانت مل سکتی ہے، کیونکہ انہوں نے سعودی عرب میں خدمات انجام دی ہیں اور ان کے سعودی عرب کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔۔۔) مبصرین کا خیال ہے کہ آرمی چیف کا دورہ انتہائی ضروری مالی امداد کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔۔۔ https://tribune.com.pk/05/01/2023
عاصم منیر اس فوجی نظام کا حصہ رہے جو مکمل طور پر امریکہ سے وابستہ تھا... وہ مختلف سیکورٹی اور فوجی عہدوں پر فائز رہے۔ وہ 2014-2016 کے درمیان فوج میں شمالی علاقے کا کمانڈر تھے، پھر 2016-2018 کے دوران ملٹری انٹیلی جنس کے چیف رہے اور اس کے بعد 2018-2019 تک ISI کے چیف رہے، اور انہوں نے قبائل کے علاقے میں جنگ بھی لڑی۔ وہ امریکہ سے وابستہ پاکستانی نظامِ حکومت کے ستونوں میں سے ایک ہیں... پھر سابق وزیراعظم عمران خان نے بغیر کوئی وجہ بتائے انہیںISI چیف کے عہدے سے برطرف کر دیا اور ان کی جگہ فیض حمید کو اس عہدے پر تعینات کر دیا۔ اس کے بعد عمران خان اور فوج کے درمیان نئے آرمی چیف کی تقرری پر تنازعہ پیدا ہو گیا کہ 29 نومبر 2022 کو باجوہ کی مدت ملازمت ختم ہونے پر کون اس کی جگہ لے گا۔ خبریں سامنے آئیں کہ عمران خان کا عاصم منیر سے اختلاف ہے، جو کہ باجوہ کا قریبی ہے، اور وہ فیض حمید کو ISI کا چیف مقرر کرنا چاہتا ہے جو کہ عمران خان کا قریبی سمجھا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ عمران خان بطور وزیراعظم اپنی مرضی فوج پر مسلط کرنا چاہتے تھے تاکہ ان پر فوج کا کنٹرول نہ رہے۔ فوج حکومت کی محافظ کے طور پر کام کرتی رہے اور عمران خان فوج پر اپنی مرضی کی پالیسیاں مسلط کرتا رہے۔ اسی تنازعے کی وجہ سے عمران خان کو اپریل 2022 میں برطرف کر دیا گیا تھا اور پھر ان کے خلاف کرپشن اور ریاستی راز افشا کرنے کے الزامات کے تحت مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔ 05 مئی، 2022 کو ایک سوال کے جواب میں ہم نےبیان گیا تھا کہ: (...اور جیسا کہ ہم نے پہلے کہا تھا کہ عمران خان کو یہ توقع نہیں تھی کہ فوج اور امریکہ کے لیے کی گئی ان کی تمام تر خدمات ان کے کسی کام نہیں آئیں گی! گویا انہیں یہ احساس ہی نہیں تھا کہ جو بھی کافر استعمار کی حمایت حاصل کر کے اور ان کا ایجنٹ بن کے اقتدار میں آئے گا تو پھر وہ ان کے لیے شطرنج کے مہرے کی طرح ہو جاتا ہے، جسے وہ جب چاہیں حرکت دیتے ہیں، اور جب چاہیں، بغیر کسی ہچکچاہٹ کے، گرا دیتے ہیں اگر وہ ان کے مفادات حاصل نہیں کرتا۔ اور یہی عمران خان کے ساتھ ہوا! ) اس طرح امریکہ نے عمران خان کی معزولی پر کوئی اعتراض نہیں کیا اور یہ جاننے کے باوجود کہ وہ اس کا ایجنٹ ہے خاموشی سے اس پر رضامندی ظاہر کر دی۔ عمران خان، باجوہ اور حمید نے 2019 میں کشمیر کو بھارت کے ساتھ الحاق کرنے پر رضامندی ظاہر کی جب وہ الحاق سے دو ہفتے پہلے امریکہ کے دورے پر گئے اور انہوں نے صدر ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کی اور انہوں نے اس الحاق پر ردعمل دینے کے لیے کوئی سنجیدہ اقدام نہیں کیا، بلکہ امریکہ کو خوش کرنے کے لیے اور اپنی پوزیشنوں اور کچھ محدود مفادات کی فکر میں اس پر خاموش اتفاق کیا۔ امریکہ حکومت پر اور عوام کی گردنوں پر فوج کے کنٹرول کی حمایت کرتا ہے کیونکہ اس کے تعلقات فوج کی قیادت سے جڑے ہیں جو اس کے استعماری مفادات پورے کرتیہے۔ اس کے برعکس سیاسی میدان میں اس کے لیے ایجنٹ موجود ہیں بالکل اسی طرح جیسے برطانیہ کے لیے ایجنٹ موجود ہیں لہذا اگر اس سیاسی میدان میں ایجنٹ بدل گئے تو امریکی حکم کی بالادستی کی ضمانت نہیں رہے گی۔
2۔ 10 دسمبر 2023ء کو افواج کے میڈیا آفس،ISPR نے بتایا کہ "پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر ایک سرکاری دورے پر امریکہ روانہ ہوئے۔ اپنے دورے کے دوران وہ امریکہ میں اعلیٰ حکام اور دیگر عہدیداروں سے ملاقاتیں کریں گے۔ چیف آف آرمی سٹاف کا عہدہ سنبھالنے کے بعد امریکہ کا ان کا یہ پہلا دورہ ہے"( ذرائع، PR-212/2023-ISPR)۔ مصری الشروق نیوز نے 11 دسمبر 2023ء کو پاکستانی اخبار ایکسپریس ٹریبیون کے حوالے سے کہا، " یہ دورہ گزشتہ ہفتے سینئر امریکی حکام کے دورہ پاکستان کے بعد ہو رہا ہے اور بائیڈن انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار جو پناہ گزینوں کے مسائل کے ماہر ہیں، انہوں نے اسلام آباد کا چار روزہ دورہ کیا ۔۔۔ جو پاکستان اور افغانستان کے درمیان بگڑے ہوئے تعلقات کے تناظر میں امریکی حکام کے دوروں کے سلسلے میں پہلا دورہ ہے۔ اور بیورو آف پاپولیشن، ریفیوجیز اینڈ امیگریشن کی معاون وزیر خارجہ جولیٹا وینس نوئس گزشتہ جمعرات 7 دسمبر، 2023ء تک پاکستانی دارالحکومت میں ہی مقیم رہیں۔اخبار نے اس دن بھی آرمی سربراہ جنرل عاصم منیر کی یہ بات نقل کی۔ انہوں نے کہا کہ "وہ غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کے اپنی حکومت کے فیصلے کی حمایت کرتے ہیں اور یہ کہ غیر ملکی پاکستان کی سلامتی اور معیشت پر اثرانداز ہو رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ غیر ملکیوں کی واپسی کو معروضی حقائق اور قابل اطلاق قوانین کے مطابق پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے"۔ یہاں پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکہ کی مداخلت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جس میں پناہ گزینوں کا مسئلہ بھی شامل ہے۔ یہ مسئلہ ان افغانوں سے متعلق موضوع ہے جنہوں نے جنگوں کی وجہ سے پاکستان میں پناہ لی اور برسوں سے دوسرے ملک میں رہ رہے ہیں۔۔۔ ان کی کثیر تعداد کئی دہائیوں سے یہاں مقیم ہے۔ اور اب وہ غیر ملکی نہیں رہے۔ بلکہ مسلمانوں کی سرزمین تو ایک ہے، اور اب امریکہ دو مسلم ممالک یعنی پاکستان اور افغانستان کے مابین اختلافات سے فائدہ اٹھانے کے لئے سرگرم ہو رہا ہے ۔ یوں وہ خطے میں اپنے اثر و رسوخ کو مستحکم کرنے کے لئے ان اختلافات کو ہوا دے رہا ہے۔ اس طرح امریکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پیدا کر کے ان کی وحدت کو روکنا چاہتا ہے تاکہ اس کے نتیجے میں پاکستان کشمیر کی آزادی کے لیے بھارت کے ساتھ جنگ میں مصروف ہونے کی بجائے اپنے اور افغانستان کے درمیان ہی اس تناؤ میں مبتلا رہے! اور بھارت کو اس بات کی یقین دہانی کرا دی جائے کہ پاکستان کے ساتھ محاذ محفوظ ہے اور مودی حکومت بے فکر ہو کر چین کے ساتھ تنازعہ میں امریکہ کی خدمت کرنے پر اپنی کوششیں مرکوز رکھے۔
3- عربی ویب سائٹ، "Al-Marifa" نے 15دسمبر 2023ء کو پاکستانی ڈان اخبار کے صفحے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "آرمی سربراہ عاصم منیر نے 14 دسمبر، 2023 کو امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن سے ملاقات کی، اور ملاقات کے بعد پنٹاگون نے ایک مختصر بیان جاری کیا جس میں انہوں نے کہا، "دونوں حکام نے حالیہ علاقائی سلامتی کی پیش رفت اور دوطرفہ دفاعی تعاون کے ممکنہ شعبوں پر تبادلہ خیال کیا"۔ آرمی سربراہ نے 15 دسمبر کو امریکی وزیر خارجہ بلنکن، سیاسی امور کے لئے ان کی نائب وکٹوریہ نولینڈ، امریکی قومی سلامتی کے نائب مشیر جوناتھن وینر اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل کیو براؤن سے ملاقات کی۔ اخبار نے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، "'پاکستان ایک اہم شراکت دار ہے اور ہم پاکستانی حکومت کے اندر وسیع پیمانے پر، بات چیت کرنے والوں کے ساتھ رابطوں میں ہیں ۔۔۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم علاقائی سلامتی اور دفاعی تعاون میں پاکستان کے ساتھ شراکت داری جاری رکھنے کے خواہاں ہیں۔ اخبار نے ایک سفارتی ذرائع کے حوالے سے بلنکن سے ملاقات کے حوالے سے بتایا کہ 'انہوں نے مجموعی طور پر دو طرفہ تعلقات اور علاقائی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا'۔ امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان نے پاکستانی آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ کی انٹونی بلنکن سے ملاقات سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا، "ہم علاقائی سلامتی اور دفاعی تعاون میں ان کے ساتھ شراکت کے منتظر ہیں۔ (ذرائع؛ امریکی حکومت کی ویب سائٹ 18 دسمبر، 2023 www.state.gov)۔
یہ سب کچھ پاکستانی آرمی چیف کی عسکری، سیکورٹی اور یہاں تک کہ سیاسی ملاقاتوں کی وسعت کو ظاہر کرتا ہے، گویا وہی سربراہِ مملکت ہے... یہ بات بعید از امکان نہیں کہ امریکہ ان ملاقاتوں کی توسیع کے ذریعے پاکستان میں معاملات کو ازسرنو ترتیب دینا چاہتا ہے، کیونکہ وہ اس بات کو محقق کرنا چاہتا ہے کہ پاکستان کے اندر اس کے لوگ اور ان کی پالیسیاں وہی رہیں جیسی وہ چاہتا ہے، خاص طور پر جبکہ فروری 2024 میں پاکستان میں انتخابات قریب آ رہے ہیں بشرطیکہ وہ ملتوی نہ ہو جائیں۔ لہٰذا یہ ملاقاتیں اگرچہ بظاہر "تعاون" کے نام سے ہوئی ہیں لیکن درحقیقت یہ امریکہ سے وفاداری کے ضمن میں ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ فوج کے سپہ سالار عاصم منیر اس حد تک مذہبیت کا اظہار کرتے ہیں کہ بعض نے تو انہیں "جنرل ملا" بھی کہا! تاہم، وہ امریکہ کے ساتھ اتحاد کا اعلان کئے ہوئے ہیں، اس کے منصوبوں پر عمل پیرا ہیں، اس کے اہداف کو عملی جامہ پہناتے ہیں اور امریکہ کے لئے شراکت داری اور سلامتی اور دفاعی تعاون کے نام پر خطے میں امریکہ کا اثر و رسوخ بڑھانے کی راہیں کھول رہے ہیں۔ گویا وہ اس بات کو نہیں جانتے کہ اسلام میں حقیقی دین داری اللہ بزرگ وبرتر اور اس کے رسول ﷺ سے وفاداری کو لازم کرتی ہے نہ کہ کافروں سے: ارشادِ باری تعالیٰ ہے،
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَتُرِيدُونَ أَنْ تَجْعَلُوا لِلَّهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَاناً مُبِيناً﴾
"اے ایمان والو، مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بناؤ، کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے اوپر اللہ کا صریح الزام لے لو؟" (النساء؛ 4:144)۔
دین داری کوئی بے معنی شے نہیں ہے! ﴿أَفَلَا يَعْقِلُونَ﴾ کیا وہ عقل نہیں رکھتے ہیں؟ ( یسین؛ 36:68)
4۔ 19 دسمبر،2023 کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل سید عاصم منیر نے فلوریڈا میں ٹمپابے میں سینٹرل کمانڈ کے ہیڈکوارٹرز کا دورہ کیا اور امریکی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر جنرل مائیکل ایرک کوریلا سے فوجی تعلقات اور علاقائی سلامتی سمیت متعدد امور پر تبادلہ خیال کیا۔ پاکستان کے چیف آف اسٹاف نے کہا کہ دونوں افواج کے جرنیلوں نے مشترکہ طور پر تربیت کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا اور تربیتی روابط کو بڑھانے کی ضرورت کا اعادہ کیا۔ اس دورے کے دوران پاکستان کے اعلیٰ جنرل نے امریکی سینٹرل کمانڈ جوائنٹ آپریشن سینٹر کا بھی دورہ کیا (ذرائع؛ PR-219/2023-ISPR)۔ 18 دسمبر، 2023 کو سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان، مارک ملر نے عاصم منیر کے بارے میں کہا، " وہ واشنگٹن میں کئی عہدیداروں سے ملاقات کے لئے مدعو تھے، جن میں یہاں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے افسران، بشمول پینٹاگون اور دیگر مقامات کے اہلکار بھی شامل تھے۔ پاکستان امریکہ کا ایک بڑا "نان نیٹو اتحادی اور نیٹو پارٹنر ہے۔ ہم علاقائی سلامتی اور دفاعی تعاون پر ان کے ساتھ شراکت کے منتظر ہیں (ذرائع؛ www.state.gov)
ان تمام باتوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ دورہ کتنی اہمیت کا حامل ہے اور امریکی انتظامیہ کے لیے پاکستانی فوج کے سربراہ کی اہمیت کس قدر زیادہ ہے۔ امریکی حکام کے ساتھ ان کی ملاقاتیں اعلیٰ سطح پر تھیں ۔ اور ان کے ساتھ اہم امور پر بات چیت ہوئی۔ سیکیورٹی اور دفاعی تعاون پر توجہ مرکوز کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان خطے میں امریکہ کے خلاف مسلم تحریکوں سے مقابلہ کرنے اور اس میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے لیے امریکہ کا تیرانداز ہے۔ امریکہ خود کو سیاسی ایجنٹوں تک محدود نہیں رکھتا بلکہ باہمی تعاون کے نام پر اور پاکستانی حکومت کے اندر موجود متعدد بات چیت کرنے والوں (interloculators)کے ذریعے پاکستانی حکومت کے اندر اس کی پہنچ فوجی ایجنٹوں تک بھی ہے۔ امریکہ پاکستان کو ایک اہم پارٹنر سمجھتا ہے یعنی خطے میں اس کی پالیسیوں پر عملدرآمد کرنے والا ایک اہم خادم۔ خطے میں اسے 2004 سے ایک اہم غیر نیٹو اتحادی قرار دیا جا رہا ہے۔
5۔ پاکستانی فوج کے میڈیا ونگ، آئی ایس پی آر نے 20 دسمبر 2023 کو رپورٹ کیا؛ ("آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے، ممتاز امریکی تھنک ٹینکس اور میڈیا کے ارکان کے ساتھ اندرونی خفیہ ملاقاتیں کیں)۔ آرمی چیف نے علاقائی سلامتی، سرحد پار دہشت گردی اور جنوبی ایشیا میں اسٹریٹجک استحکام برقرار رکھنے کی اہمیت پر پاکستان کے نقطہ نظر کو اجاگر کیا، (ذرائع؛ PR-220/2023-ISPR)۔ آئی ایس پی آر نے مزید بیان کیا کہ آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان جغرافیائی اور جغرافیائی اقتصادی نقطہ نظر سے ایک اہم ملک ہے اور خود کو روابط کے مرکز اور وسطی ایشیا اور اس سے آگے تک کے گیٹ وے کے طور پر ترقی دینا چاہتا ہے تاہم پاکستان بلاک بندی کی سیاست سے گریز کرتا ہے اور تمام دوستانہ ممالک کے ساتھ متوازن تعلقات برقرار رکھنے پر یقین رکھتا ہے۔ آئی ایس پی آر نے تصدیق کی کہ " چیف نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان طویل مدتی کثیرالجہتی پارٹنرشپ کے ذریعے امریکہ کے ساتھ دوطرفہ روابط کو وسیع کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ان کے دورہ امریکہ کے دوران سیاسی اور فوجی قیادت کے ساتھ ان کی ملاقاتیں بہت مثبت رہی تھیں" اور وہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے خواہاں ہیں۔ آئی ایس پی آر نے یہ بھی کہا " چیف نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ "پاکستان علاقائی استحکام اور عالمی امن و سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے کئی دہائیوں سے بین الاقوامی دہشت گردی کے خلاف ایک محافظ کے طور پر کھڑا رہا ہے۔
آئی ایس پی آر نے واضح کیا کہ "پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں بے مثال خدمات اور قربانیاں دی ہیں اور اسے منطقی انجام پہنچانے تک لڑتا رہے گا...''۔ آئی ایس پی آر نے تصدیق کی کہ " چیف نے مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی امنگوں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا کہ کشمیر ایک بین الاقوامی تنازعہ ہے اور کوئی یکطرفہ اقدام خطے کے لاکھوں لوگوں کی خواہشات کے خلاف اس تنازعہ کی نوعیت کو تبدیل نہیں کرسکتا"۔ ۔ اس پریس ریلیز میں یہ بھی کہا گیا کہ " چیف نے غزہ میں مصائب کے خاتمے، انسانی امداد کی فراہمی اور خطے میں پائیدار امن کے لئے دو ریاستی حل پر عمل درآمد کی فوری ضرورت پر روشنی ڈالی"۔
6- یہاں پاکستانی آرمی چیف دوطرفہ تعلقات کے نام پر امریکہ کے ساتھ اتحاد کو وسعت دینے کی اپنی خواہش اور اس کے ساتھ اپنی وفاداری پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ طویل مدتی اور کثیر الجہتی شراکت داری ہو، یعنی تمام معاملات میں ہو۔ اور وہ پاکستان کو امریکہ کے لئے ایک قلعہ بنانا چاہتے ہیں تا کہ اس قلعے کے ذریعے امریکہ امت اور امت میں موجود حریت کی تحریکوں سے لڑ سکے۔ اور اس کے لئے سرحد پار دہشت گردی کا نعرہ استعمال کر کے، خصوصی طور پر افغانستان اور عمومی طور پر دیگر اسلامی علاقوں کے ساتھ جنگ کا ماحول بنانا چاہتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے کہ یہ تمام اسلامی ممالک اصل میں ایک سرزمین جس پر استعمار نے قبضہ کر کے انہیں سرحدوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ استعمار نے انہیں تقسیم کرکے انہیں جنگ کا میدان بنا دیا تاکہ وہ کمزور رہیں اور ان کے پاس کوئی طاقت نہ ہو اور وہ استعمار انہیں باآسانی کنٹرول کرسکے، انہیں اپنی کالونیاں بنا سکے اور انہیں ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرسکے۔
جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے تو جنرل منیر کا دورۂ واشنگٹن ایسے وقت میں ہوا ہے جب بھارتی سپریم کورٹ نے کشمیر کے بھارتی زیر انتظام حصے کے بھارت کے ساتھ انضمام کی توثیق کی تھی، جیسا کہ الجزیرہ نیٹ نے14 دسمبر 2023 کو رپورٹ کیا : (چیف جسٹس چندرچڈ سمیت 5 ججوں پر مشتمل ایک جوڈیشل کونسل نے اس سال 12 دسمبر کو کشمیر کی خودمختاری ختم کرنے کے مودی حکومت کے فیصلے کو قبول کرنے کے لئے اپنے فیصلے کا اعلان کیا ...) بھارت نے یہ فیصلہ امریکہ کی رضامندی اور حمایت کے بغیر نہیں کیا۔ اس کے باوجود آرمی چیف یا تو بھول گئے تھے یا انہوں نے زبردستی اپنے آپ کو بھلا دیا کہ امریکہ بھارت کی حمایت کرتا ہے اور پاکستان سے دشمنی کرتا ہے! اور وہ پھر بھی اس دورے پر روانہ ہو گئے۔ مزید برآں آرمی چیف نے مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی مسئلے کے طور پر پیش کیا جسے اقوام متحدہ کی غیر منصفانہ قراردادوں کے مطابق حل کیا جانا چاہئے۔ یہ جانتے ہوئے کہ مسئلہ کشمیر درحقیقت ایک اسلامی مسئلہ ہے، جہاں بھارت نے ہماری زمین پر قبضہ کر رکھا ہے۔ پاکستان کو اٹھ کھڑا ہونا چاہیے اور کشمیر کو آزاد کروانا چاہئے۔ پاکستان کو اس ہندو قبضے اور ہندو تکبر کے خلاف مزاحمت کرنے میں کشمیریوں کی مدد کرنی چاہیے، خاص طور پر اس لیے کہ پاکستان ایسا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ 1999 میں اگر وزیر اعظم نواز شریف اور اس وقت کے آرمی چیف پرویز مشرف نے غداری نہ کی ہوتی تو کشمیری جہادی تحریکوں نے کارگل کی جنگ میں پاکستانی فوج کی مدد سے بھارت پر تقریباً فتح حاصل کر لی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکہ نے پاکستان کو کشمیریوں کی حمایت بند کرنے، پاکستانی افواج کو واپس بلانے اور کشمیری تحریکوں کو دہشت گرد قرار دینے کا حکم دیا تھا۔
جہاں تک غزہ کے خلاف یہودی وحشیانہ جارحیت اور دو ریاستی حل کا تعلق ہے، جس کے بارے میں پاکستان کے آرمی چیف نے کہا، (اور خطے میں دیرپا امن کے حصول کے لیے دو ریاستی حل پر عمل درآمد)، فلسطین ایک بابرکت سرزمین ہے۔ یہ ایک اسلامی سرزمین ہے جس پر یہودیوں کے اختیار کا کوئی حق نہیں ہے۔ اور دو ریاستی حل کے لئے بھی قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس کے بجائے اس سرزمین کو ویسا ہی ہونا چاہئے جیسا کہ عمر الفاروق نے اسے اسلام کے لئے کھولا، خلفائے راشدین نے اسے محفوظ رکھا، صلاح الدین نے اسے آزاد کرایا اور خلیفہ عبدالحمید دوم نے اس سرزمین کو یہودیوں سے محفوظ کیا... لہٰذا فلسطین ایک اسلامی سرزمین ہے۔ یہ کوئی فروخت کا مال نہیں ہے، اور اس سرزمین کو اس کے لوگوں اور ان کے درمیان تقسیم کرنا قبول نہیں جنہوں نے اس پر قبضہ کیا اور اس کے لوگوں کو وہاں سے نکالا ... اس کا حل دو ریاستی نہیں بلکہ حقیقی حل وہی ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ، العزیز والجبار نے فرما دیا ہے۔
﴿وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُمْ مِنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ﴾
" اور ان کو قتل کرو جہاں تم انہیں پاؤ اور انہیں وہاں سے نکال دو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا تھا" (البقرۃ؛ 2:191) ۔
7۔درحقیقت مسئلہ پاکستان کے حکمرانوں اور اس کے فوجی رہنماؤں کی سوچ اور ان کے غلط طرز فکر میں ہے۔ انہوں نے خود کو امریکہ کے لئے ایک سواری بنا رکھا ہے، حالانکہ وہ ایک طاقتور ملک بننے کی بے پناہ صلاحیت رکھتے ہیں جو امریکہ کو ٹکر کا چیلنج دے سکے اور اس کا مقابلہ کر سکے۔ یہ اسی صورت ہی ممکن ہو سکتا ہے جب وہ اپنے مسائل اور پریشانیوں کو اپنے دین کے تصورات اور پیمانوں کے مطابق لے کر چلیں، وہ تصورات جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ، القوی العزیز کی جانب سے رسول اللہ ﷺ پر نازل کئے گئے۔ یہ وہ دین ہے کہ جس نے عربوں کو اسلام سے پہلے کی آپس میں جاہلیت کی جنگوں سے بچایا۔ عرب قوم اسلام کے ذریعے ہی وہ بہترین قوم بن گئے جو انسانیت کے لئے لائی گئی تھی۔ اسی امت نے فارس کو فتح کیا اور فارسی سلطنت کا خاتمہ کر ڈالا جو کہ اس وقت ایک عظیم الشان ریاست تھی ... اسی امت نے روم کے دارالحکومت، قسطنطنیہ کو فتح کیا اور روم بھی اس وقت ایک بڑی طاقت تھی ... اسلام اور مسلمانوں نے اسلام کی ریاست کو بلند کیا، جس نے دنیا کو عدل و انصاف سے منور کیا، اور پھر حق قائم ہو گیا اور باطل کا خاتمہ ہوا ... اور اسی سب کے لئے حزب التحریر آپ کو پکار رہی ہے تاکہ نبوت کے طریقے پر اسلامی ریاست یعنی خلافت کا قیام کر سکے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے
﴿وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ﴾
"اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہوہ ضرورتم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیےانہیں زمین پرخلیفہ بنائے گا جس طرح اس نے ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا)(النور؛ 24:55)۔
مسند احمد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارت دی ہے کہ :
«ثُمَّ تَكُونُ مُلْكاً جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سَكَتَ»
” پھر جبر کی حکمرانی ہوگی اور اللہ جب چاہے گا اسے اٹھا لےگا، پھر نبوت کے نقش قدم پر خلافت قائم ہوگی، پھر آپ خاموش ہوگئے“۔ ( أحمد)
اکیس جمادی الثانی 1445ھ
بمطابق 03 جنوری، 2024ء