بسم الله الرحمن الرحيم
سوال کا جواب
ڈیپ اسٹیٹ
(ترجمہ)
سوال:
اصطلاح "ڈیپ اسٹیٹ" آج کل سیاستدانوں اور میڈیا میں بکثرت استعمال ہو رہی ہے۔ تاہم، جب ان بیانات کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مطلب ایک جیسا نہیں ہوتا۔ کیا آپ اس اصطلاح کے سب سے ممکنہ اور قابل فہم معنی کو واضح کر سکتے ہیں، تاکہ ہم اس سے جڑی سیاسی حقیقتوں کو بہتر طور پر سمجھ سکیں؟ نیز، اگر ممکن ہو تو چند مثالیں بھی فراہم کریں تاکہ مزید وضاحت ہو سکے۔ اگر میرے اس سوال اور مثالوں کی درخواست سے آپ کی کسی اہم تر اور قیمتی مصروفیت میں خلل پڑے تو میں معذرت خواہ ہوں۔ شکریہ۔
جواب:
جی ہاں، "ڈیپ اسٹیٹ" کے بارے میں جو کچھ شائع ہوتا ہے، اس میں واضح فرق پایا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اسے حکومت سے باہر بااثر طبقات کا ایک خفیہ نیٹ ورک سمجھتے ہیں جو موجودہ حکومت کے خلاف کام کرتا ہے، جیسا کہ ترکی میں ہوا۔ کچھ اسے خود حکومت کے اندر ایک قابض قوت سمجھتے ہیں جو جب چاہے ملک پر حکومت کرتی ہے، اور جب کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو اس کا الزام دوسروں پر ڈال دیتی ہے، اور پھر وقتی طور پر اقتدار چھوڑ کر کسی اور کو سامنے ایک حکمران کے طور پر لاتی ہے تاکہ اسے مورد الزام ٹھہرایا جا سکے، اور پھر جب مقصد پورا ہو جائے دوبارہ حکومت پر قابض ہو جاتی ہے، جیسا کہ برطانیہ میں ہو رہا ہے۔ کچھ لوگ اسے بااثر گروہوں کے درمیان طاقت کی جنگ سمجھتے ہیں، جیسا کہ امریکہ میں ٹرمپ کے دور میں ہو رہا ہے۔ کچھ حکمران اپنی حکومتی ناکامیوں اور کمزوریوں کو چھپانے کے لیے اس اصطلاح کو قربانی کے بکرے کے طور پر استعمال کرتے ہیں، اور اپنی کوتاہیوں کو ڈیپ اسٹیٹ کے سر تھوپ دیتے ہیں۔ کچھ لوگ اس اصطلاح کو صرف اس وقت اچھالتے ہیں جب وہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانا چاہتے ہیں — کبھی "ڈیپ اسٹیٹ" کا سہارا لیتے ہیں، تو کبھی کوئی اور مبہم یا دلکش متبادل اصطلاح استعمال کر کے اصل حقیقت کو دھندلا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ لوگ استعماری طاقتوں کو اُن ممالک کی ڈیپ اسٹیٹ قرار دیتے ہیں جن پر وہ بالواسطہ قابض ہیں۔ اس مسئلے کے درست اور متوازن مفہوم کو واضح کرنے کے لیے ہم درج ذیل نکات کا جائزہ لیں گے:
اول: ڈیپ اسٹیٹ کی کچھ تعریفات:
1- ویبسٹر ڈکشنری، جو دنیا کی قدیم ترین لغات میں سے ایک ہے، ڈیپ اسٹیٹ کو یوں بیان کرتی ہے: "ایک مبینہ خفیہ نیٹ ورک، جو خاص طور پر غیر منتخب شدہ سرکاری اہلکاروں اور کبھی کبھار نجی اداروں پر مشتمل ہوتا ہے، جو قانون اور آئین سے ہٹ کر کام کرتے ہوئے حکومتی پالیسیوں پر اثرانداز ہوتا ہے اور انہیں نافذ کرتا ہے۔" اس کا مطلب یہ ہے کہ قوانین اور آئین کے دائرے سے باہر ایک مضبوط طاقت موجود ہے جو قوم پر کنٹرول رکھتی ہے۔ اس طاقت کا اپنا ایجنڈا ہوتا ہے، اور یہ منتخب حکومت کے فیصلوں کو کمزور یا ناکام بنا سکتی ہے۔
2- ویکیپیڈیا کے مطابق: "ترکی میں، ڈیپ اسٹیٹ (ترک زبان میں: derin devlet) ایک ایسا گروہ ہے جو ترک سیاسی ڈھانچے کے اندر بااثر، غیر جمہوری اتحادوں پر مشتمل ہوتا ہے، جن میں انٹیلی جنس اداروں (ملکی اور غیر ملکی)، ترک فوج، سیکیورٹی ایجنسیاں، عدلیہ اور مافیا کے اعلیٰ سطحی عناصر شامل ہوتے ہیں۔۔۔ ڈیپ اسٹیٹ نیٹ ورک کے سیاسی ایجنڈے میں بظاہر قوم پرستی، کارپوریٹ ازم اور ریاستی مفادات سے وفاداری شامل ہے۔ تاریخ میں اس نیٹ ورک نے پرتشدد ذرائع اور دیگر دباؤ کے ہتھکنڈے خفیہ انداز میں استعمال کیے ہیں تاکہ سیاسی اور معاشی اشرافیہ کو قابو میں رکھا جا سکے، اور ایک بظاہر جمہوری سیاسی نظام کے اندر مخصوص مفادات کو یقینی بنایا جا سکے۔"
3- جب ہم ان لوگوں کی ڈیپ اسٹیٹ کے متعلق تعریف یا سمجھ کا جائزہ لیتے ہیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد ریاستی ڈھانچے کے اندر یا باہر ایک ایسی پوشیدہ قوت کا وجود ہے جو سیاسی نظام کو کنٹرول کرتی ہے، یعنی وہ قانونی طور پر منتخب شدہ سیاست دانوں پر اپنی پالیسیاں، آراء اور رجحانات مسلط کرتی ہے۔۔۔ یہ پوشیدہ قوت افراد کا ایک منظم نیٹ ورک ہوتا ہے جو فوج، سلامتی کے اداروں اور سیاسی قوتوں جیسے حساس مراکز میں سرائیت کر چکا ہوتا ہے، اور منتخب حکومت سے بالکل آزاد ہو کر کام کرتا ہے۔۔۔ بعض اوقات اس نیٹ ورک کو ظاہر کرنے کے لیے مختلف اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں، جیسے: "ڈیپ اسٹیٹ (deep state)"، "متوازی ریاست (parallel state)"، "سایہ ریاست (shadow state)" یا "ریاست کے اندر ریاست (state within a state)"۔
4- ایک اور مختلف تعریف وہ ہوتی ہے جو کوئی ناکام سیاست دان، چاہے حکومت میں ہو یا انتخابات میں شکست کھا چکا ہو، اپنی ناکامی کو جواز دینے کے لیے پیش کرتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، یہ ایک گمراہ کن تصور ہوتا ہے جسے حکمران اس وقت استعمال کرتا ہے جب ملک میں کرپشن، ظلم یا غداری عام ہو چکی ہو۔ یہ حکمران کی طرف سے ایک دھوکہ ہوتا ہے، جو اصل ذمہ داری سے بچنے کے لیے الزام اُن افراد پر ڈال دیتا ہے جو پسِ پردہ ہوتے ہیں اور جنہیں وہ "ڈیپ اسٹیٹ" کا نام دیتا ہے، پھر عوام کو یہ گمان دلاتا ہے کہ وہ بے قصور ہے، حالانکہ حقیقت میں وہی اصل ذمہ دار ہوتا ہے، اور اسی کو ہٹایا جانا چاہیے۔
5- ایک اور دعویٰ یہ بھی کیا جاتا ہے کہ استعماری طاقتیں ہی اپنی استعماریت میں "ڈیپ اسٹیٹ" کا کردار ادا کرتی ہیں۔ وہ ان ممالک کے نظاموں کو پسِ پردہ کنٹرول کرتی ہیں، اپنے مفادات کے مطابق بعض حکمرانوں کو برقرار رکھتی ہیں، جبکہ بعض کو ہٹا دیتی ہیں۔
دوم: سب سے زیادہ قرینِ قیاس تعریف:
1- ان تمام تعریفات کا بغور جائزہ لینے اور ان کے مفاہیم پر غور کرنے کے بعد سب سے زیادہ قرینِ قیاس تعریف یہ سامنے آتی ہے کہ کسی بھی ملک میں "ڈیپ اسٹیٹ" سے مراد ایک بااثر قوت ہوتی ہے، خواہ وہ سیاسی ہو، اقتصادی ہو، یا ملک کے اندر یا باہر کی کوئی بااثر اشرافیہ (aristocratic families) ہو۔ یہ قوت سرکاری حکومتی ڈھانچے کا باضابطہ حصہ نہیں ہوتی، لیکن وہ ریاست پر خفیہ یا پوشیدہ انداز میں اثر انداز ہوتی ہے۔ یہ سرکاری حکومتی اداروں پر مؤثر دباؤ ڈال کر یا تو اپنی مرضی کے فیصلے کرواتی ہے یا ان میں تبدیلی لاتی ہے۔
2- جہاں تک حکمرانوں کی طرف سے لوگوں کو گمراہ کرنے اور اپنی کرپشن، ناکامی یا خیانت کا الزام کسی اور پر ڈالنے کی بات ہے، جسے وہ "ڈیپ اسٹیٹ" کہہ کر پیش کرتے ہیں تاکہ خود کو بری الذمہ ٹھہرا سکیں، تو یہ عمل خود حکمرانوں کی فریب کاری ہے، نہ کہ کسی اور قوت کی طرف سے اس کے خلاف کی گئی کوئی چال۔ لہٰذا اسے "ڈیپ اسٹیٹ" کہنا درست نہیں بلکہ یہ حکمرانوں کی جانب سے اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کا ایک فریب ہوتا ہے۔
3- جہاں تک استعماری ریاستوں کو "ڈیپ اسٹیٹ" قرار دینے کا تعلق ہے، تو یہ بھی درست نہیں ہے، کیونکہ استعمار پسند ریاستیں وہ ہوتی ہیں جو اپنی نوآبادیات پر براہِ راست قابض ہوتی ہیں اور ان کے لیے غیر ملکی ہوتی ہیں۔ وہ اس ملک کے عوام کا حصہ نہیں ہوتیں، نہ ہی وہ کوئی ایسی خفیہ داخلی قوت ہوتی ہیں جو ملک کے منتخب حکمرانوں سے چھپ کر کام کر رہی ہو، جبکہ وہ حکمران بھی اسی ملک کے عوام سے ہوتے ہیں۔
سوم: مزید وضاحت کے لیے بعض ممالک میں "ڈیپ اسٹیٹ" کی مثالیں:
1- ترکی [ترکیہ]:
الف: "ڈیپ اسٹیٹ" کی اصطلاح کی ابتدا ترکی سے ہوئی۔ خلافتِ عثمانیہ کے آخری دور میں "کمیٹی آف یونین اینڈ پراگریس" سے وابستہ ایسے فوجی افسران، جو مغربی نظریات سے متاثر تھے، نے 1909 میں ایک فوجی بغاوت کے ذریعے خلیفہ عبد الحمید ثانی کو معزول کر دیا۔ انہوں نے ان کے بھائی محمد رشاد کو خلیفہ مقرر کیا، مگر اس طرح سے کہ جس میں اصل اختیارات ان افسران کے پاس ہی رہے۔
یہ واقعہ ایک ایسے طبقے کے ابھرنے کی ابتدا تھی جو خلیفہ سے بھی زیادہ طاقتور تھا، اور خلیفہ کے باقی رہنے یا زوال پانے پر اثرانداز ہوتا تھا — اور یہ اثر مخفی نہیں بلکہ ظاہر تھا۔ تاہم، ان افسران نے خلافت اور اسلامی نظام حکومت کو ختم نہیں کیا۔ لہٰذا حقیقت میں یہ "ریاست کے اندر ریاست" یعنی خفیہ ڈیپ اسٹیٹ نہیں تھے، بلکہ وہ ریاست کے اندر اعلانیہ موجود تھے اور حکومت پر کنٹرول رکھتے تھے۔
ب: پہلی جنگِ عظیم کے بعد، مصطفیٰ کمال جو برطانیہ کا وفادار تھا، اقتدار پر قابض ہو گیا اور خلافت کو ختم کرنے، شریعت اور اس کے قوانین کے نفاذ کو منسوخ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس نے جمہوریت کا اعلان کیا اور اسے سیکولر بنیادوں پر قائم کیا۔ اس نے نہ صرف اسلامی حکومت کے خلاف بلکہ اسلام کی ظاہری علامتوں کے خلاف بھی بغاوتیں کیں، جیسا کہ "حروف کی بغاوت" جس میں ترکی زبان کے عربی حروف کو لاطینی حروف سے بدل دیا گیا، یا "مذہبی لباس کی بغاوت" جس میں اسلامی لباس کو مغربی لباس سے تبدیل کر دیا گیا، وغیرہ۔ یوں، اُس نے فوج اور سیکیورٹی ادارے مخصوص اصولوں پر استوار کیے تاکہ جمہوریت اور سیکولرازم کی حفاظت کی جا سکے اور اسلام کی حکومت میں واپسی اور خلافت کے دوبارہ قیام کو روکا جا سکے۔ فوج ایک ایسی طاقت بن گئی جو حکومت پر کنٹرول رکھتی تھی، اور جب بھی وہ کمال ازم سے انحراف محسوس کرتی، مداخلت کرتی، اور ساتھ ہی برطانیہ کی تابع داری کو برقرار رکھتی۔ کمالی آمریت اور برطانوی سرپرستی نے اس نظامِ حکمرانی کے خلاف کسی بھی "ڈیپ اسٹیٹ" کے وجود میں آنے کی گنجائش ہی ختم کر دی۔
ج: جب اردگان ترکی میں ووٹوں کے زور پر اقتدار میں آیا، اور اُسے امریکہ کی سیاسی، مالی اور اقتصادی حمایت حاصل تھی، تو وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ فوجی جرنیل، جو سیکولرازم کے محافظ اور برطانیہ کے تابع تھے، ریاست کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور اگر چاہیں تو اُس کے خلاف بغاوت کر سکتے ہیں۔ اسی لیے اُس نے جمہوریت اور آزادی کے نعروں کو فروغ دیا، اور عوامی مقبولیت کی طاقت کے ذریعے اُنہیں گھیرے میں لیا تاکہ وہ اس کے خلاف بغاوت نہ کر سکیں۔ امریکہ نے ترکی کو اپنی مالی اور اقتصادی زنجیروں میں جکڑ رکھا تھا۔ اردگان ان فوجی افسران سے خوفزدہ تھا اور اُنہیں برطرف کرنے سے قاصر تھا کیونکہ وہ تعداد میں زیادہ تھے اور برسوں سے فوج کے ڈھانچے پر مکمل کنٹرول رکھتے تھے۔ تاہم، اردگان نے جلد ہی ترکی کی سیاسی زندگی میں ایک نیا منظرنامہ تشکیل دیا، جس کا نمایاں عنوان "جمہوریت" اور "معاشی کامیابی" تھا، اور یہی چیز بغاوت کی راہ میں رکاوٹ بن گئی۔
اس دور میں ترکی میں "ڈیپ اسٹیٹ" کی موجودگی کی جو تشریح کی گئی — کہ وہ ریاستی اداروں، خاص طور پر فوج، کے اندر خفیہ طور پر سرگرم تھی، منتخب وزیراعظم اردگان کی پالیسیوں کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہی تھی، ان کی مزاحمت کر رہی تھی، اور انہیں ناکام بنانے کی کوششوں میں مصروف تھی — وہ تشریح بالکل بجا تھی۔ یہ افراد ایک منظم نیٹ ورک تھے جن کی شناخت عام سطح پر نظر نہیں آتی تھی، اور وہ لوگ جو حالات کو سطحی نگاہ سے دیکھتے تھے، یہ سمجھتے تھے کہ سب کچھ قانون اور آئین کے مطابق چل رہا ہے۔ یہ ترک نیٹ ورک فوج، عدلیہ، اور وزارتوں کے اندر گھسا ہوا تھا، اور ریاست سے باہر موجود سیکولر جماعتوں سے بھی جڑا ہوا تھا جو اپوزیشن کی نمائندگی کرتی تھیں، اور اس کا مرکز لندن سے منسلک تھا۔ اس کے ارکان خفیہ طور پر ملاقاتیں کرتے، مشورے لیتے اور اردگان کی حکومت کے بارے میں بات چیت کرتے، یہاں تک کہ انہوں نے 2016 میں بغاوت کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن وہ بغاوت ناکام ہوگئی۔ اردگان نے اس ناکامی کو جواز بنا کر فوج سے ان کا صفایا کیا، اور ان کے پیروکاروں کو عدلیہ، وزارتوں اور یہاں تک کہ یونیورسٹیوں سے بھی نکال دیا۔ یوں اردگان نے برطانیہ کے وفادار "ڈیپ اسٹیٹ" کو ترک فوج سے اکھاڑ پھینکنے میں کامیابی حاصل کی، اور وہ اس کے خاتمے کے قریب پہنچ گیا۔ تاہم، اس نیٹ ورک کے کچھ کمزور پیروکار اب بھی باقی ہیں، جو حکومت کے خلاف "ڈیپ اسٹیٹ" کے بیانیے کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
2- امریکہ:
الف: امریکہ میں حکومت دو حقیقی سطحوں پر مشتمل ہے۔ پہلی سطح وہ ہے جو عوامی جواز کی نمائندگی کرتی ہے، یعنی وہ حکومت جسے عوام انتخابات کے ذریعے منتخب کرتے ہیں، جیسے صدر اور اراکین سینٹ اور کانگریس، اور یہ سطح عوامی خواہشات کے مطابق پالیسیاں نافذ کرتی نظر آتی ہے، لہٰذا یہ ریاست کا ظاہری ڈھانچہ جمہوری معلوم ہوتا ہے۔ تاہم، یہ جمہوری سطح صرف اس وقت پالیسی سازی میں مؤثر ہو سکتی ہے جب دوسری، پوشیدہ اور غیر منتخب سطح کی مرضی اس سے ہم آہنگ ہو۔ یہی دوسری سطح "ڈیپ اسٹیٹ" کہلاتی ہے، جو کہ جمہوری نظام کے اصولوں کے تحت غیر قانونی تصور ہوتی ہے۔ اس ڈیپ اسٹیٹ سے وابستہ افراد ریاست کے حساس ترین اداروں میں تعینات ہوتے ہیں اور ان کا اثر اس قدر گہرا ہوتا ہے کہ عوامی سطح پر منتخب حکومت ان کے بغیر کوئی مؤثر فیصلہ نہیں کر سکتی۔ امریکہ میں یہ افراد یا تو خود بڑے سرمایہ دار ہوتے ہیں یا ان کے نمائندے، اور وہ اس امر کو یقینی بناتے ہیں کہ ریاستی اداروں کے اعلیٰ افسران ان کے تجارتی و سیاسی مفادات کا تحفظ کریں۔ مالیاتی اداروں کی خواہش ہوتی ہے کہ ٹیکس محکموں میں ان کے ہم نوا موجود ہوں، اسلحہ ساز کمپنیاں پینٹاگون اور وزارتِ خارجہ پر اپنا اثر قائم رکھتی ہیں، جبکہ دواساز کمپنیاں وزارتِ صحت اور انشورنس شعبے میں اپنی رسائی اور نمائندگی یقینی بناتی ہیں۔ یوں وقت کے ساتھ ساتھ بڑی کارپوریشنز نے حساس عہدوں پر موجود افراد اور طاقتور لابیز کے ذریعے امریکی ریاست پر عملی کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔
ب: یہی امریکہ کے سیاسی نظام کی حقیقت ہے۔ چنانچہ بڑے سرمایہ دار اور بڑی کارپوریشنز ہی امریکہ میں ڈیپ اسٹیٹ کی اصل بنیاد اور زندہ جڑ ہیں۔ یہ وہ چھپی ہوئی اور پوشیدہ قوت ہے جو ریاست کی سیاسی سمتوں کے پیچھے کارفرما ہوتی ہے، اور یہی قوت ریاستی اداروں میں موجود حساس عہدوں پر فائز ملازمین کو اس وقت ریاستی پالیسیوں کی مخالفت پر آمادہ کرتی ہے جب وہ پالیسیز ان کارپوریشنز کے مفادات سے متصادم ہوں۔ اس تعریف کے مطابق، ڈیپ اسٹیٹ ایک ایسی طاقت ہے جو ریاستی ڈھانچے کے اندر بھی موجود ہے اور اس سے باہر بھی، اور یہ مالیاتی، تجارتی اور صنعتی شعبوں میں سرگرم ہے، لیکن اس کی سرگرمی ریاستی اداروں کے اندر نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔
ج: جب ڈونلڈ ٹرمپ 2016 میں اقتدار میں آئے تو اُنہیں اعلیٰ حکومتی عہدیداروں اور مختلف ایجنسیوں، بالخصوص سیکیورٹی اداروں میں بے اطمینانی کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں اپنی پالیسیوں کی مخالفت اور ردعمل شدت سے محسوس ہوئی، جو بعد ازاں امریکی ریاست کے اندر سے ایسی سخت مزاحمت میں تبدیل ہو گئی جو بظاہر بغاوت کے مترادف محسوس ہونے لگی۔ سیکیورٹی اور انٹیلی جنس اداروں سے شرمناک معلومات کے متعدد لیکس ہوئے… پھر اُن پر کئی مقدمات قائم کیے گئے، جن میں سب سے مشہور روس کی جانب سے اُن کی انتخابی حمایت کا الزام تھا۔ کانگریس میں اُن کے خلاف تحقیقات اور مواخذے کی کوششیں شروع ہو گئیں، یہاں تک کہ امریکی محکمہ انصاف اُن کے سخت ترین مخالفین میں شامل ہوگیا۔ ان پر حملہ صرف ریاست کے اندر سے نہیں تھا، بلکہ دوا ساز کمپنیاں، جنہوں نے کورونا وائرس کی ویکسین دریافت کرلی تھی، انہوں نے اس اعلان کو اس وقت تک مؤخر رکھا جب تک 2020 کے آخر میں جو بائیڈن کی انتخابی فتح کا اعلان نہ ہوگیا، تاکہ ٹرمپ ان دریافتوں کا انتخابی فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ اس منظم، خفیہ طاقت سے تنگ آ کر جو ان کے خلاف کام کر رہی تھی، ٹرمپ نے انتخابی نتائج پر شک ظاہر کیا اور انہیں تسلیم نہیں کیا، انہیں دھاندلی زدہ قرار دیا اور کہا کہ اُن کی فتح چُرا لی گئی ہے۔ انہوں نے ریاستی الیکشن کمیشن کو بھی اپنے دشمنوں کی فہرست میں شامل کر لیا۔ 2023 میں صدارت سے سبکدوشی کے بعد ٹیکساس میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا: "یا تو ڈیپ اسٹیٹ امریکہ کو تباہ کرے گی، یا ہم ڈیپ اسٹیٹ کو تباہ کریں گے۔" ٹرمپ کے پہلے دور حکومت کے دوران امریکہ کی اس حقیقت اور ریاست کے اندر موجود ایک خفیہ طاقت جو منتخب صدر کو راستہ بدلنے سے روکتی ہے، کا تجزیہ کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہی امریکی نظامِ حکومت کی اصل حقیقت ہے۔
د: 21 مارچ 2023 کو ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ویڈیو پیغام میں 10 نکاتی منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا: "میں ڈیپ اسٹیٹ کو پاش پاش کر دوں گا، اور حکومت کو عوام کے کنٹرول میں واپس لاؤں گا۔" (کانگریس؛ برطانوی ڈیلی میل، 21 مارچ 2023)۔ یہ ہے امریکی سیاسی نظام کی حقیقت۔ اس کے مطابق، بڑے سرمایہ دار اور بڑی کارپوریشنز امریکہ میں ڈیپ اسٹیٹ کی اصل اور زندہ جڑ ہیں۔ یہ وہ پوشیدہ، خفیہ طاقت ہے جو ریاست کی سیاسی سمتوں کے پیچھے کام کرتی ہے، اور ریاستی اداروں میں حساس عہدوں پر موجود ملازمین کو اس وقت ریاست کی پالیسیوں کی مخالفت پر آمادہ کرتی ہے جب وہ کارپوریشنز کے مفادات سے ٹکراتی ہیں۔ اس وضاحت کے مطابق، ڈیپ اسٹیٹ ریاستی نظام کے اندر بھی موجود ہے اور اس سے باہر بھی، اور یہ مالی، کاروباری، اور صنعتی شعبوں میں سرگرم ہے، لیکن اس کی سرگرمیاں امریکی ریاستی نظام کے اندر واضح طور پر نظر آتی ہیں۔
3- برطانیہ
جہاں تک برطانیہ کا تعلق ہے، تو وہاں بھی ایک ڈیپ اسٹیٹ موجود ہے۔ برطانیہ کا حکومتی نظام کنزرویٹو پارٹی، اشرافیہ خاندانوں اور مالدار طبقے پر مشتمل ہے۔ یہی لوگ درحقیقت برطانیہ کے اصل حکمران ہیں۔ تاہم، کبھی کبھار ان کی اعلانیہ پالیسیاں ملک کو بحرانوں کی طرف لے جاتی ہیں، یعنی وہ بعض اوقات ملکی مفادات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ لہٰذا، کنزرویٹو پارٹی پس منظر میں چلی جاتی ہے اور لیبر پارٹی حکومت سنبھال لیتی ہے۔ لیبر پارٹی کا مشن ان بحرانوں کو حل کرنا اور ملک کو نقصان سے بچانا ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ اقتدار سے ہٹ جاتی ہے۔ حالیہ دنوں میں جو کچھ ہم نے دیکھا — یعنی کنزرویٹو پارٹی کی زبردست شکست اور لیبر پارٹی کی بھرپور کامیابی — یہ دراصل خود کنزرویٹو پارٹی کی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ بریگزٹ کے بعد برطانیہ شدید معاشی بحران سے دوچار ہے، اور یورپی یونین سے علیحدگی خود کنزرویٹو پارٹی کی جانب سے یورپ پر ریفرنڈم کرانے کی غلط منصوبہ بندی کا نتیجہ تھی۔ چونکہ یہ بحران کنزرویٹو پارٹی نے پیدا کیا، اس لیے اب لیبر پارٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بحران کو حل کرے۔
برطانیہ میں "ڈیپ اسٹیٹ" دراصل پرانے اور مالدار خاندان ہیں، جو ہمیشہ سے برطانیہ کے حکمران رہے ہیں۔ اگر وہ خود اقتدار سے الگ ہو کر لیبر پارٹی کو حکومت میں لاتے ہیں، تو اس کا مقصد صرف کنزرویٹو پارٹی کے پیدا کردہ بحران کو حل کرنا ہوتا ہے۔ برطانیہ کی ڈیپ اسٹیٹ نہایت نرمی اور آسانی کے ساتھ حکومت پر کنٹرول رکھتی ہے، یعنی برطانیہ کے پرانے اور مالدار خاندان ہی حکومت کا اصل سرچشمہ اور اس کے محافظ ہیں، چاہے وہ براہ راست حکومت کریں یا کسی اور جماعت کو بطور "کرائے دار" استعمال کریں۔ اس کنٹرول کو برقرار رکھنے کے لیے، برطانیہ میں مؤثر حکمرانی کے اس "سرچشمہ" اور "فعال بنیاد" نے ایسی اقدار کو فروغ دیا ہے جو تبدیلی کی مخالفت کرتی ہیں، اور قدامت پسندی و ماضی پر فخر کو اعلیٰ مقام عطا کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں شاہی خاندان، اس کی خبریں، کہانیاں، شہزادوں کی سالگرہ اور طرزِ زندگی کو عوامی سطح پر غیر معمولی دلچسپی سے دیکھا جاتا ہے۔
آخر میں:
● ڈیپ اسٹیٹ دراصل موجودہ حکومت کے اندر اثر و رسوخ رکھنے والی ایک قوت ہوتی ہے۔ یہ اس ملک کے شہریوں کا ایک ایسا نیٹ ورک ہوتا ہے جو ملک کے اندر یا بیرون ملک سے خفیہ یا پوشیدہ طریقے سے حکمران طبقے کے خلاف کام کرتا ہے تاکہ اسے کمزور یا تبدیل کیا جا سکے۔
● لیکن اگر یہ نیٹ ورک ملک کے شہریوں پر مشتمل نہ ہو بلکہ کوئی غیر ملکی طاقت ہو، جیسے کوئی استعماری ریاست یا دشمن ملک جو اس کے خلاف سرگرم ہو، تو ایسی قوتوں کو "ڈیپ اسٹیٹ" نہیں کہا جاتا۔ بلکہ ان کا معاملہ استعمار، جنگ، اور جارحیت کے زمرے میں آتا ہے۔
● اسی طرح، اگر یہ نیٹ ورک خود حکمران طبقے کی جانب سے تیار کیا گیا ہو تاکہ ریاست اور اس کے منصوبوں کے خلاف ہونے والے کاموں کا الزام اس پر ڈال کر حکمران کو بری الذمہ ظاہر کیا جائے، اور عوام کو حکمران کی کرپشن اور نااہلی سے دھوکہ دیا جائے، تو ایسا نیٹ ورک "ڈیپ اسٹیٹ" نہیں کہلاتا۔
● خلاصہ یہ ہے کہ ڈیپ اسٹیٹ ایک ایسا نیٹ ورک ہوتا ہے جو ملک کے اندر یا باہر سے اسی ملک کے افراد پر مشتمل ہو، اور وہ موجودہ حکومت کے خلاف کام کر رہا ہو تاکہ اسے کمزور یا تبدیل کیا جا سکے۔ اس مفہوم میں یہ صرف اُن ممالک میں موجود ہوتا ہے جہاں انسانی ساختہ قوانین کے تحت حکومت ہوتی ہے، اور جہاں مختلف نیٹ ورکس کے درمیان اس بات پر اختلاف پایا جاتا ہے کہ کس قسم کا انسانی قانون نافذ ہونا چاہیے، جس کے نتیجے میں آپس میں تصادم ہوتا ہے۔
● اگر حکومت کا نظام ربّ العالمین کے نازل کردہ احکام پر مبنی ہو، تو پھر مسلمان، خواہ وہ ملک کے اندر ہوں یا باہر، ایسا کوئی "ڈیپ اسٹیٹ" نیٹ ورک قائم نہیں کر سکتے جو اسلامی نظام حکومت کو کسی اور قانون سے بدلنے کے لیے کام کرے۔ ہاں، اگر کوئی مسلمان اندرونِ ملک یا بیرونِ ملک ایسا قدم اٹھائے بھی، تو وہ عموماً کسی بیرونی استعماری یا جارح قوت کے اثر و دباؤ میں ہوتا ہے۔ دونوں صورتوں میں یہ "ڈیپ اسٹیٹ" کے زمرے میں نہیں آتا، جیسا کہ پہلے وضاحت کی جا چکی ہے۔
لہٰذا، بعض مسلم ممالک میں جو تبدیلیاں یا بغاوتیں دیکھی جاتی ہیں — جیسے پاکستان، بنگلہ دیش، مصر وغیرہ میں ہو چکی ہیں یا ہو رہی ہیں — ان کو "ڈیپ اسٹیٹ" نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ ان ممالک میں اصل محرک قوت وہ استعماری طاقتیں ہیں جن کے یہ ممالک غلام یا ایجنٹ بنے ہوئے ہیں۔
اگر مسلم ممالک میں ، جو انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کے تحت حکومت کر رہی ہو ،کوئی تحریک ہو اور یہ تحریک مسلم ممالک میں انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کو اسلام کے نظام، یعنی خلافت راشدہ سے بدلنے کے لیے کام کر رہی ہو، تو اسے "ڈیپ اسٹیٹ" نہیں کہا جا سکتا۔ بلکہ یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اُس کے رسول ﷺ وسلم کی نصرۃ کی تحریک ہے۔
ہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے مدد اور کامیابی کی دعا کرتے ہیں تاکہ خلافت راشدہ کا قیام دوبارہ ہو سکے، تاکہ اسلام اور مسلمانوں کو فتح ملے اور کفر و کفار ذلیل ہوں:
﴿وَعَدَ اللّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ﴾
"اللہ نے تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں، اُن سے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں زمین میں خلیفہ بنا دے گا، جیسے اُن سے پہلے والوں کو خلیفہ بنایا تھا۔"(النور: 55)۔
6 ذی القعدہ 1446ھ
4/5/2025 عیسوی