بسم الله الرحمن الرحيم
سوال کا جواب
بھارت، پاکستان اور جنگ بندی
سوال:
گزشتہ ہفتے والے دن، ٹرمپ نے اچانک اپنے ٹروتھ سوشل اکاؤنٹ پر ایک پوسٹ میں اعلان کیا کہ ("رات بھر امریکہ کی ثالثی میں طویل بات چیت کے بعد، مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ بھارت اور پاکستان ایک جامع اور فوری جنگ بندی پر متفق ہو گئے ہیں" اس نے "دونوں ممالک کو دانشمندی اور عظیم ذہانت کا مظاہرہ کرنے پر سراہا"۔ الجزیرہ، 11/5/2025)۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں 22 اپریل 2025 کو ہندوستانی زیر انتظام جموں و کشمیر کے پہلگام کے بائسارن وادی میں سیاحوں پر ہونے والے حملے کے بعد اضافہ ہوا تھا، جس میں 25 ہندوستانی اور ایک نیپالی ہلاک ہوئے تھے۔ 23 اپریل 2025 کو بھارت نے پاکستان کے خلاف تعزیری اقدامات کے ایک سلسلے کے طور پر 1960 کے سندھ طاس معاہدے پر عمل درآمد کو معطل کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے جواب میں پاکستان نے 1972 کے شملہ معاہدے پر عمل درآمد معطل کرنے کا اعلان کیا جو دو طرفہ تعلقات کو منظم کرتا ہے۔7 مئی کو بھارت نے "آپریشن سندور" کے نام سے ایک فوجی کارروائی کا اعلان کیا، جس کے بعد پاکستان نے اس کا مؤثر جواب دیا۔ اور اب جیسا کہ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ جنگ بندی کے لیے ان کی ثالثی کامیاب ہو گئی ہے۔ تو اس کشیدگی اور تنازعے کی حقیقت کیا ہے؟ اور خاص طور پر سندھ طاس معاہدہ کیا ہے جسے بھارت نے عارضی طور پر معطل کیا ہوا ہے؟ اور کیا امریکہ کا اس حملے کو شروع کرنے میں کوئی ہاتھ ہے جیسا کہ اسے روکنے میں ہے؟
جواب:
ان سوالات کے جواب کو واضح کرنے کے لیے درج ذیل حقائق کا جائزہ لینا ضروری ہے:
1. بھارتیا جنتا پارٹی، جو اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں 1998 سے 2004 تک بھارت میں اقتدار میں رہی، اور پھر 10 سال تک برطانیہ نواز کانگریس پارٹی کی حکومت کے بعد 2014 میں نریندر مودی کی قیادت میں دوبارہ اقتدار میں آئی، یہ پارٹی امریکہ نواز ہے اور اس کی یوریشیائی حکمت عملی کا حصہ ہے، جس کا مقصد چین کا مقابلہ کرنا اور اُسے گھیرنا ہے۔ یہ واضح ہے کہ امریکہ کے مشرقی بعید میں قلیل مدتی مفادات ہی 2014 میں ہندو متعصب مودی کے جیتنے کے پیچھے کار فرما تھے اور امریکہ اب بھی اس کی حمایت کر رہا ہے۔ اور نریندر مودی نے ہمیشہ امریکی مفادات ہی کو ترجیح دی ہے — چاہے وہ 2019 میں کشمیر کا انضمام ہو، یا 2014، 2017 اور 2020 میں چین کے ساتھ سرحدی جھڑپیں، افغانستان میں امریکی ایجنڈے کی حمایت ہو، یا پاکستان و چین کی اقتصادی راہداری (CPEC) کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں ہوں۔
2. 2014 میں مودی کے بھارت میں اقتدار میں آنے کے بعد، امریکہ نے بھارت کو چین پر دباؤ بڑھانے، اسے گھیرنے، اور اسے اپنے اردگرد کے علاقوں پر کنٹرول کرنے سے روکنے، اور اسے اپنی سرزمین تک محدود رکھنے کے لیے مؤثر طریقے سے استعمال کیا۔ خاص طور پر چونکہ امریکہ نے چین کے خلاف اقتصادی جنگ کا اعلان کیا ہے اور ٹرمپ نے چینی اشیاء پر بھاری کسٹم ڈیوٹی لگائی ہے۔ ان اضافی کسٹم ڈیوٹیز کے ذریعے ٹرمپ کا مقصد، چینی معیشت کو کمزور کرنا ہے۔ خبریں پھیل رہی ہیں کہ بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں، جیسے آئی فون، کسٹم ڈیوٹیز میں بڑے اضافے کے نتیجے میں اپنی فیکٹریاں بھارت منتقل کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ (ایپل کمپنی نے انکشاف کیا ہے کہ وہ امریکہ میں فروخت ہونے والے تمام آئی فونز کی اسمبلی آپریشنز کو بھارت منتقل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے، جیسا کہ "فنانشل ٹائمز" اخبار نے اطلاع دی ہے۔ یورو نیوز، 26/4/2025) اس طرح، چین کا مقابلہ کرنے کی اپنی حکمت عملی کے فریم ورک میں، امریکہ، بھارت کو خطے کی ایک مظبوط اقتصادی اور فوجی طاقت بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
3. اور اس کے لیے جہاں ایک طرف بھارت کو فوجی اور اقتصادی طاقت کے ذرائع سے مدد فراہم کرنا ضروری ہے، وہیں دوسری طرف بھارت کے پاکستان کے ساتھ مسائل کو حل کرنا بھی ضروری ہے، اگرچہ ان دونوں ممالک کی حکومتیں امریکہ نواز ہیں اور اس کی ایجنٹ ہیں، تاکہ بھارت چین پر اپنی توجہ مرکوز کر سکے۔
پہلا پہلو: امریکہ نے بھارت اور اس کی فوج کو ہر ممکن معاونت فراہم کی — جن میں ایک اہم قدم بھارت کو امریکی جوہری ٹیکنالوجی کی فراہمی بھی شامل ہے۔ واشنگٹن میں بھارتی وزیرِاعظم اور صدر ٹرمپ کی ملاقات کے دوران چین کا مقابلہ کرنے کا موضوع نمایاں طور پر زیرِ بحث رہا۔ (دونوں رہنماؤں نے ایشیا پیسیفک خطے میں "کواڈ" سیکورٹی اتحاد کو مضبوط بنانے پر بھی تبادلہ خیال کیا جس میں جاپان اور آسٹریلیا بھی شامل ہیں۔ بھارت اس سال کے آخر میں اس گروپ کے رہنماؤں کی میزبانی کرنے والا ہے جسے چین کی بڑھتی ہوئی فوجی سرگرمیوں کے خلاف ایک توازن کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ رائٹرز، 14/2/2025)۔
دوسرے پہلو میں نمایاں مسائل یہ تھے:
الف- سرحد پر موجود پاکستانی افواج، بھارتی افواج کی چین کی جانب منتقلی کو محدود کرتی ہیں۔ اسی لیے امریکہ نے پاکستان کو مجبور کیا کہ وہ اپنی افواج کو بھارتی سرحد سے ہٹا کر وزیرستان کے قبائلی علاقوں میں تحریک طالبان پاکستان سے لڑنے، بلوچستان میں بلوچستان لبریشن آرمی کے خلاف کارروائی، اور افغان سرحد پر تعیناتی کے لیے منتقل کرے، تاکہ بھارت کو چین کا مقابلہ کرنے میں آزادی حاصل ہو، اور وہ اپنی فوجیں پاکستانی سرحد پر تعینات رکھنے کے بجائے چینی سرحد کی طرف منتقل کر سکے۔ پھر امریکہ نے پاکستان سے ایک کے بعد ایک رعایت مانگنا شروع کر دی تاکہ بھارت کو پاکستان سے محاذ آرائی سے دستبردار ہونے اور اسے چین کے ساتھ محاذ آرائی میں لانے میں آسانی ہو۔ اور اسی لیے، جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں، پاکستان نے اپنے کئی فوجی دستے بھارت کے ساتھ سرحد سے ہٹا کر ملک کے اندرونی معاملات میں جھونک دیے، اور انہیں پاکستان میں جہادی گروہوں کے خلاف کارروائیوں میں استعمال کیا، نیز افغانستان میں تحریکِ طالبان کے ساتھ جھڑپوں میں بھی مصروف کر دیا۔
ب- کشمیر کا تنازعہ، جسے بھارت نے 5/8/2019 کے اپنے فیصلے سے ضم کر لیا تھا: ہم نے 18/8/2019 کے سوال کے جواب میں کہا:
" 11 ستمبر 2001 کے واقعات کے فوراً بعد، بش انتظامیہ نے اپنی توجہ بھارت پر مرکوز کی، اور اپنے متعدد اقدامات کا رخ بھارت اور چین کے درمیان فوجی عدم توازن کو امریکی منصوبوں کے مطابق توازن میں لانے کی جانب موڑ دیا۔ ان اقدامات میں بھارت کے ساتھ امریکی جوہری معاہدہ بھی شامل تھا…
- امریکہ نے دیکھا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر پر کشیدگی چین کے خلاف بھارت کے محاذ آرائی کو کمزور کر رہی ہے۔ اور ان کشیدگیوں پر قابو پانے کے لیے، امریکہ نے بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کا عمل شروع کیا، اور ان تعلقات کو معمول پر لانے کا مقصد ہندوستانی اور پاکستانی افواج کو کشمیر کی وجہ سے ایک دوسرے سے لڑنے سے روکنا تھا، اور چین کے عروج کو محدود کرنے کے لیے امریکہ کے ساتھ تعاون کرنے کی طرف کوششوں کو موڑنا تھا۔ امریکہ یہ گمان کرتا تھا کہ اگر کشمیر کو بھارت میں ضم کر دیا جائے، اور پاکستان کی حکومت پر دباؤ ڈال کر اُسے عسکری راستہ اختیار کرنے سے روک دیا جائے، نیز معاملے کو محض مذاکرات تک محدود کر دیا جائے، تو مسئلہ ختم ہو جائے گا اور دونوں ممالک کے درمیان کوئی فوجی تصادم نہیں ہوگا۔ یہ بالکل ویسا ہی ماڈل ہے جیسا فلسطین میں محمود عباس کی اتھارٹی اور اس کے اردگرد موجود عرب ریاستوں کے ساتھ ہے، جن کا یہودی وجود سے کوئی عسکری تنازعہ نہیں، حالانکہ وہ (یہودی وجود) جب چاہے فلسطین کے کسی بھی حصے پر قبضہ کر لیتی ہے اور جب چاہے اُسے ضم کر لیتی ہے۔ اسی سوچ کے تحت نریندر مودی نے جموں و کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے اور وہاں آبادیاتی تبدیلی کا منصوبہ شروع کیا، اور 5 اگست 2019 کو بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔) امریکہ کا یہ خیال کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کا انضمام مسلمانوں کو کشمیر کو بھلانے پر مجبور کر دے گا، اور یوں بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی مسئلہ باقی نہیں رہے گا، اس مفروضے پر مبنی تھا کہ دونوں ممالک کی حکومتیں فی الحال امریکی پالیسی کے تابع ہیں۔ تاہم، اس سوچ میں یا تو امریکہ یہ حقیقت بھول گیا، یا پھر اُس نے اور بھارت نے دانستہ طور پر نظرانداز کیا کہ کشمیر صرف ایک زمینی تنازع نہیں بلکہ مسلمانوں کے عقیدے کا مسئلہ ہے — اور ان شاء اللہ، کشمیر ایک دن مسلمانوں کے پاس ضرور واپس آئے گا۔"
ج- پاکستان کے ساتھ پانی کی تقسیم کا مسئلہ: بھارت موجودہ سندھ طاس معاہدے پر نظر ثانی کرنا چاہتا تھا۔ بھارت طویل عرصے سے 1960 میں عالمی بینک کی ثالثی میں نو سال تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد دستخط کیے گئے سندھ طاس معاہدے پر نظر ثانی کی کوشش کر رہا ہے، جس کی وجہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی بتائی جاتی ہے، جبکہ پاکستان اس پر نظرِ ثانی کے کسی بھی دوبارہ مذاکرات کو مسترد کرتا ہے۔ "انڈیا ٹوڈے" اخبار نے، نامعلوم ذرائع کے حوالے سے، بتایا (کہ بھارت نے دریائے چناب پر بگلہار ڈیم کی مدد سے پاکستان کی ظرف پانی کا بہاؤ روک دیا ہے۔ اخبار نے اشارہ کیا کہ بھارت دریائے جہلم پر کشن گنگا ڈیم کے ذریعے بھی پانی کا بہاؤ روکنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ اناطولیہ، 5/5/2025) اس معاہدے کو بھارت کی طرف سے یکطرفہ طور پر معطل کرنے اور برسوں سے اس پر مسلسل نظر ثانی کا مطالبہ کرنے کے پیش نظر، مودی حکومت کا پہلگام حملے کے بعد معاہدے کو معطل کرنے کے اقدام کو پاکستان پر دباؤ ڈالنے اور اسے نظر ثانی کے مطالبے کو ماننے پر مجبور کرنے کی کوشش کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ (گزشتہ چند سالوں میں، ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے معاہدے پر دوبارہ مذاکرات کی کوشش کی ہے، اور دونوں ممالک نے ہیگ کی مستقل ثالثی عدالت میں کشن گنگا اور راتل پن بجلی منصوبوں کے پانی کے ذخیرہ کرنے کے حجم کے بارے میں اپنے کچھ اختلافات کو حل کرنے کی کوشش کی ہے… عربی21، 27/04/2025)
اور یہ ذکر کرنا مناسب ہے کہ سندھ طاس معاہدہ (ISA) بھارت اور پاکستان کے درمیان پانی کی تقسیم کا ایک معاہدہ ہے۔ اس پر مذاکرات اور اس کی تیاری عالمی بینک کی سرپرستی میں ہوئی تھی اور اس اہم معاہدے پر 19 ستمبر 1960 کو کراچی شہر میں دستخط کیے گئے تھے۔ پاکستان کو سندھ طاس کے مغربی حصے میں تین دریاؤں (دریائے جہلم، دریائے چناب، اور خود دریائے سندھ) کے پانی سے مستفید ہونے کے حقوق دیے گئے تھے، جبکہ بھارت نے مشرقی تین دریاؤں (دریائے ستلج، دریائے بیاس، اور دریائے راوی) کے پانی پر مکمل کنٹرول برقرار رکھا تھا۔
د- کشمیر میں جہادی تحریکیں: یہ تحریکیں بھارت کے لیے تشویش کا باعث ہیں لہذا امریکہ ایک جنگ شروع کرنا چاہتا تھا تاکہ بھارت، کشمیر میں ان تحریکوں کی جڑوں پر حملہ کرنے کا جواز پیدا کر سکے اور پاکستان کی حکومت کو پاکستان کے اندر ان تحریکوں پر حملے میں شامل کرنے کی کوشش کر سکے۔ اور یہ دو مراحل میں ہوا:
پہلا: کشمیر میں ایک حملے کو بہانہ بنا کر، جس کا الزام ان تحریکوں پر لگایا جائے، اس حملے کو پاکستان میں ان تحریکوں کے ٹھکانوں کے خلاف بڑے فوجی آپریشن کی بنیاد کے طور پر استعمال کیا جائے، جیسا کہ وہ دعویٰ کرتے ہیں۔ اور کشمیر میں ان تحریکوں کی جڑوں کے خلاف کاروائی کی جائے اور وہاں کے مسلمانوں کو اس بہانے سے قتل یا بے دخل کیا جائے کہ وہ ان تحریکوں کی حمایت کرتے ہیں، جیسا کہ یہودی وجود غزہ میں موجود رہائشیوں پر مزاحمت کی حمایت کا بہانہ بنا کر ان کا قتل عام کرتا ہے۔ پھر اس مرحلے میں پاکستان کی حکومت کو شرمندہ کرنا شامل تھا تاکہ وہ کشمیر کی مدد نہ کر سکے کیونکہ یہ حملہ ان تحریکوں نے شروع کیا تھا!
اور یوں بھارت نے امریکہ کے حکم پر کشمیر میں یہ مصنوعی حملہ شروع کیا۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے:
- 22 اپریل 2025 کو ہندوستانی زیر انتظام کشمیر کے پہلگام کے بائسارن وادی میں سیاحوں کو نشانہ بنانے والا حملہ، جس کا بھارت دعویٰ کرتا ہے کہ یہ پاکستان کی حمایت یافتہ ایک مسلح گروہ نے کیا ہے، جبکہ پاکستان اس کی تردید کرتا ہے، یہ حملہ 22/4/2025 کو کشمیر میں اس وقت ہوا جب امریکی نائب صدر جے ڈی ونس نئی دہلی میں موجود تھے۔ ("جے ڈی ونس" امریکی نائب صدر آج پیر کو چار روزہ دورے کے لیے بھارت پہنچ گئے ہیں، جس کے دوران وہ وزیر اعظم "نریندر مودی" سے بات چیت کریں گے۔ بحرین نیوز ایجنسی، 21/4/2025)، اور بھارت نے اس امریکی عہدیدار کی نئی دہلی میں موجودگی کے دوران، پاکستان کے خلاف اپنے تمام ابتدائی اقدامات کیے، بشمول سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنا، جو امریکہ اور بھارت کے درمیان ہم آہنگی کی نشاندہی کرتا ہے، اور یہ فرض کرنا بالکل بھی صحیح نہیں ہے کہ یہ سب محض اتفاق تھا۔
- 22 اپریل کو حملے کے چند منٹوں بعد ہی، کسی بھی تحقیقات یا تفتیشی کارروائی کے آغاز کے بغیر، ہندوستانی حکومت نے پاکستان پر الزام عائد کرنے میں تیزی دکھائی، حالانکہ پاکستان نے واقعے کی بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ، ہندوستانی میڈیا کوریج نے فوری طور پر "مزاحمتی اتحاد' (TRF) کی طرف اشارہ کیا، جسے لشکر طیبہ (LET) کی ایک شاخ سمجھا جاتا ہے، حالانکہ تنظیم نے حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔ یہ سب کچھ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ ایک "مصنوعی" کارروائی تھی۔ ('مزاحمتی اتحاد (TRF)' نے سوشل میڈیا پر حملے کی ذمہ داری قبول کی، پھر بعد میں اس سے دستبردار ہو گئی، اور اس کی وجہ الیکٹرانک ہیکنگ بتائی گئی... سائٹ 24، 30/04/2025)۔
پھر دوسرا مرحلہ شروع ہوا، چنانچہ بھارت نے 6/5/2025 کی شام کو پاکستان پر میزائل حملہ کیا اور یہ صرف پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر تک محدود نہیں تھا جیسا کہ عموماً ہوتا ہے، بلکہ پنجاب کے صوبے میں بھی اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔ جبکہ پاکستان نے ابتدا میں بھارت کے اندر اہداف کو نشانہ بنا کر جواب نہیں دیا بلکہ سرحدی جھڑپوں اور بھارت کے طیارے سرحد پر گرانے پر ہی اکتفا کیا۔ پھر بھارت نے پاکستان پر حملے کے اثرات کو کم کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ اس نے پاکستانی فوج کے اہداف پر حملہ نہیں کیا اور صرف "دہشت گردوں" پر حملہ کیا۔ العربی ٹیلی ویژن، 7/5/2025)، اور دونوں فریقوں کے درمیان جھڑپیں بڑھتی رہیں۔ (بھارتی اور پاکستانی افواج کے درمیان کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے ساتھ شدید جھڑپیں ہوئیں، اور ہندوستانی میڈیا کے مطابق کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے ساتھ دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں اور ہلاکتوں کی خبریں آئیں... العربیہ، 9/5/2025)۔ بھارت نے اپنے 3 طیارے گرنے کا اعتراف کیا، اور پاکستانی حملوں کے نتیجے میں اپنے زیر کنٹرول کشمیر میں 7 شہریوں کی ہلاکت کا اعلان کیا۔ جبکہ پاکستان نے کہا کہ اس نے 5 ہندوستانی طیارے گرائے ہیں جن میں تین فرانسیسی ساختہ رافیل شامل ہیں اور اسی طرح 25 یہودی وجود کے ساختہ ڈرونز بھی گرائے ہیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم، شہباز شریف، نے کہا (ہم ہندوستانی حملے کے جواب میں 10 ہندوستانی جنگی طیارے گرا سکتے تھے جس نے پاکستانی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا، لیکن فوج کے کمانڈروں نے تحمل کا مظاہرہ کیا اور 5 طیارے گرائے..." الشرق نیوز، 7/5/2025)۔ پاکستانی فوج کے ترجمان احمد شریف چوہدری نے اعلان کیا کہ فوج نے 26 فوجی تنصیبات پر گولہ باری کی اور درجنوں ڈرون طیارے ہندوستان کے بڑے شہروں، بشمول دارالحکومت نئی دہلی، کے اوپر اُڑائے گئے"... اسکائی نیوز، 10/5/2025)۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان ایک بڑا اور وسیع حملہ کرنے اور بھارت کے ساتھ محاذ آرائی میں شامل ہونے اور اسے شکست دینے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ لیکن وہ امریکہ کے تابع ہے جو اسے اس طرح کی محاذ آرائی کی اجازت نہیں دیتا اور اسے بھارت کو عبرتناک شکست دینے سے روکتا ہے جس سے اس کے ایجنٹ مودی کی حکومت گر جائے۔ اور حالانکہ امریکہ، پاکستان میں موجود ایجنٹ حکومت پر دباؤ ڈالنے میں کامیاب رہا تاکہ وہ ہندوستانی جارحیت کا محدود جواب دینے پر اکتفا کرے، لیکن اس محدود جواب سے بھی جو کچھ سامنے آیا وہ پاکستان میں مسلمان سپاہیوں کی بہادری اور لڑنے کے لیے ان کے زبردست جذبے کو ظاہر کرتا ہے، یہاں تک کہ پاکستان میں حکومت کی امریکہ کے ساتھ ساز باز اور فوج کی نقل و حرکت پر پابندی کے باوجود بھی اس مسلمان فوج نے مشرک دشمن کو مؤثر نقصان پہنچایا جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں۔ اس سب نے امریکہ کو مجبور کیا کہ وہ جنگی منصوبے کو اسی طرح ختم کر دے جس طرح اس نے اسے شروع کیا تھا، اور جارحیت کو روکنے کا سہارا لے جو اس نے خود شروع کی تھی، اور جنگی منصوبے کو دونوں ایجنٹ حکومتوں، بھارت اور پاکستان کے درمیان سیاسی مذاکرات کی بدکاری میں تبدیل کر دے، تاکہ بھارت کو وہ حاصل ہو جائے جو وہ فوجی جارحیت سے حاصل نہیں کر سکا۔
4. اس لیے ہندوستانی حملے کے چار دن بعد، 10/5/2025 کو امریکی احکامات پر جنگ بندی کا اعلان کیا گیا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے 10/5/2025 کو اپنے ٹروتھ سوشل اکاؤنٹ پر لکھا ("امریکہ کی جانب سے رات کی طویل بات چیت کے بعد، مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ بھارت اور پاکستان ایک جامع اور فوری جنگ بندی پر متفق ہو گئے ہیں۔ میں دونوں ممالک کو دانشمندی اور اعلیٰ ذہانت کا مظاہرہ کرنے پر مبارکباد دیتا ہوں۔ اس معاملے پر توجہ دینے کا شکریہ")۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے 10 مئی 2025 کو اپنے ایکس اکاؤنٹ پر کہا کہ "ہندوستانی اور پاکستانی حکومتیں فوری جنگ بندی اور غیر جانبدار مقام پر وسیع مسائل پر بات چیت شروع کرنے پر متفق ہو گئی ہیں"۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اور نائب صدر جے ڈی ونس نے گزشتہ دو دنوں میں ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی، پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف، ہندوستانی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر، پاکستانی فوج کے سربراہ عاصم منیر، ہندوستانی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈووال اور پاکستانی قومی سلامتی کے مشیر عاصم ملک کے ساتھ مل کر ایک معاہدے پر پہنچنے کے لیے کام کیا ہے")۔ یعنی امریکہ پاکستانی فوج کی بہادری کا اندازہ نہیں لگا سکا حالانکہ اس کی قیادت اس کے وفادار تھی، چنانچہ امریکہ کو ڈر لگ گیا کہ جنگ جاری رہنے سے مودی اپنا اقتدار کھو دے گا، بجائے اس کے کہ مودی وہ کچھ کرے جو امریکہ نے اسے چین کے مقابلے میں کرنے کو کہا تھا! اور پھر اس نے جنگ روکنے کا حکم دیا اور دونوں ایجنٹ حکومتوں کے درمیان مذاکرات سے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے سیاسی بدکاری کا سہارا لیا۔
5. اور آخر میں حزب التحریر عام مسلمانوں اور خاص طور پر پاکستان کے مسلمانوں کو خبردار کرتی ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں، خاص طور پر ہندوستان میں مشرک ہندوؤں اور فلسطین میں یہودیوں کے ساتھ جاری سیاسی بدکاری اور مذاکرات کوئی خیر پیدا نہیں کریں گے، خاص طور پر جبکہ استعامری کافر امریکہ ہی ان کی قیادت کر رہا ہو جیسا کہ اب ہو رہا ہے، کیونکہ وہ ہر وقت اور ہر جگہ وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ سے جنگ کر رہے ہیں۔ اور ہمارے رسولﷺ نے ان سے جنگ کرنے اور ان پر فتح حاصل کرنے کی خبر دی ہے، اور اس میں بڑا اجر ہے۔ مسلم نے اپنی صحیح میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
«لَتُقَاتِلُنَّ الْيَهُودَ فَلَتَقْتُلُنَّهُمْ...»
"یقیناً تم یہودیوں سے جنگ کرو گے اور یقیناً انہیں قتل کرو گے..."
، اور احمد اور نسائی نے ثوبان سے جو رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام تھے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«عِصَابَتَانِ مِنْ أُمَّتِي أَحْرَزَهُمَا اللهُ مِنَ النَّارِ؛ عِصَابَةٌ تَغْزُو الْهِنْدَ، وَعِصَابَةٌ تَكُونُ مَعَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِمَا السَّلَام»
"میری امت کے دو گروہوں کو اللہ نے جہنم سے محفوظ کر لیا ہے؛ ایک گروہ جو ہند پر حملہ کرے گا، اور ایک گروہ جو عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کے ساتھ ہو گا"
چنانچہ فلسطین میں یہودیوں سے جنگ اور ان کو قتل کرنا، اور ہند کا فتح ہونا اور اسلام کا وہاں غالب آنا انشاء اللہ ضرور ہو گا ،یہ پیغام رسول ﷺ کا حقیقی اور معتبر فرمان ہے۔ لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ مدد آسمان سے خود بہ خود نہیں آئے گی، کہ فرشتے ہمارے پاس آ کر اسے لے آئیں جبکہ ہم محنت و کوشش سے غافل ہوں۔ بلکہ ہمیں خود محنت کرنی ہوگی، دل میں سچائی اور اخلاص لانا ہوگا، تب ہی اللہ کی مدد نازل ہوگی۔ پاکستان کے لوگوں سے ہمیں خیر کی توقع ہے کیونکہ یہ ایک مضبوط اسلامی ملک ہے جس کی بنیادیں اسلام پر گہری ہیں، اور یہاں کے مسلمانوں کے دل خلافت کے قیام کی تڑپ سے بھرے ہوئے ہیں۔ ان کی فوج اللہ کی راہ میں جہاد سے محبت کرتی ہے۔ ان شاء اللہ وہ دن قریب ہے جب ایسا رہنما آئے گا جو اپنے لوگوں سے کبھی جھوٹ نہیں بولے گا اور اللہ کی نصرت حاصل کرے گا...، اور پھر نبیﷺ کے فرمان کے مطابق اس جبر کے دور کے بعد جس میں ہم رہ رہے ہیں، نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت راشدہ کا قیام ہوگی۔ احمد نے اپنی مسند میں حذیفہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«....ثُمَّ تَكُونُ مُلْكاً جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ. ثُمَّ سَكَتَ»
"...پھر جبر کی بادشاہت ہو گی، تو جب تک اللہ چاہے گا وہ رہے گی، پھر جب چاہے گا اسے اٹھا لے گا، پھر نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت ہو گی۔ پھر آپ ﷺ خاموش ہو گئے"
اور اس دن مومن خوش ہوں گے۔
﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾
"اور اس دن مومن خوش ہوں گے۔ اللہ کی مدد سے، وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے اور وہ زبردست ہے، نہایت رحم کرنے والا ہے" (سورۃ الروم: آیت 05-04) ۔
17 ذی القعدہ 1446ھ
15/5/2025ء
#امیر_حزب_التحریر
Latest from
- الرایہ اخبار: شمارہ 547 کی نمایاں سرخیاں
- ٹرمپ اور خلیجی ممالک: مشتبہ سودے اور منظم سازشیں
- کشمیر کی آزادی کا تاریخی موقع: پاک فوج کے مخلصین کے نام ایک پکار
- اے اللہ ﷻ ! کشمیر کی آزادی (تحریر) کو ارض مقدس، فلسطین کی آزادی کا آغاز بنا دے!
- بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازع کی حد کا تعین امریکہ کی پالیسی ..