الأحد، 22 محرّم 1446| 2024/07/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
کیا حائضہ  انٹرنیٹ اور موبائل فون  کے ذریعے قرآن پڑھ سکتی ہے؟

بسم الله الرحمن الرحيم

 کیا حائضہ  انٹرنیٹ اور موبائل فون  کے ذریعے قرآن پڑھ سکتی ہے؟

سوال :

السلام علیکم ورحمۃ اللہ  وبرکاتہ۔۔۔

میں ایک معاملے پر حکم  شرعی معلوم کرنا   چاہتا ہوں ۔۔۔ کیا حائضہ  انٹرنیٹ اور موبائل فون  کے ذریعے قرآن پڑھ سکتی ہے؟۔۔۔ جواب کی امید ہے۔۔۔والسلام علیکم ورحمۃ اللہ۔

جواب:

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اس سوال کے جواب کے لیے مندجہ ذیل تین امور کی وضاحت ضروری ہے:

- زبانی تلاوتِ قرآن یعنی قرآن  کے بغیر تلاوت کرنا

- مصحف  اور اس سے قرآن کی تلاوت کرنا

-  ایسے کمپیوٹر یا موبائل  کوپاس رکھنا جس میں  قرآن کریم کا پروگرام موجودہو اور اس سے تلاوت کر نا۔

1۔ جہاں تک حائضہ کی جانب سے  زبانی تلاوت کرنے کا تعلق ہے تو اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے ، بعض اس کو حرام سمجھتے ہیں اور بعض اس کو جائز سمجھتے ہیں۔۔۔میرے نزید  اس مسئلے میں راجح یہ ہے کہ حائضہ کی  جانب سے زبانی قرآن پڑھنا  جائز نہیں۔ الحاکم نے  المستدرک میں سلیمان بن حرب  سے ،اس نے حفص بن عمرو بن مرّۃ   اور اس نے عبد اللہ بن سلمۃ سے روایت کیا ہے کہ ہمعلی رضی اللہ عنہ کے پاس گئے  میرے ساتھ دو اور آدمی بھی تھے، علی رضی اللہ عنہ نے کہا:كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْضِي الْحَاجَةَ، وَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ، وَيَأْكُلُ اللَّحْمَ، وَلَمْ يَكُنْ يَحْجُبُهُ عَنْ قِرَاءَتِهِ شَيْءٌ لَيْسَ الْجَنَابَةُ " رسول اللہ ﷺقضائے حاجتکرتے تھے اور قرآن پڑھتے تھے اورگوشت کھاتے تھے اور قرآن پڑھنے سے جنابت کے علاوہ کوئی چیز آپ کو نہیں روکتی تھی"(الحاکم کہتا ہے کہ یہ حدیث  صحیح الاسناد ہے، الذھبی نے بھی اس کو صحیح قرار دیا ہے)۔واضح بات ہے کہ رسول اللہ ﷺ زبانی تلاوت کر تے تھے سوائے جنابت کی حالت کے  یعنی  جنابت کی حالت میں تلاوت جائز نہیں۔  جنابت والے پر جو صادق آتا ہے وہ حائضہ پر بھی صادق آتا ہے کہ وہ بھی قرآن کی تلاوت نہیں کر سکتی۔اس لیے میرے نزدیک راجح قول یہ ہے کہ حائضہ قرآن نہیں پڑھ سکتی۔

2 ۔ جہاں تک حائضہ اور جنابت والے کی جانب سے قرآن کو چھونے کی بات ہے  تو یہ جائز نہیں، یہ اللہ کے  اس فرمان کے مطابق حرام ہے:

لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ

" اس کو سوائے پاک لوگوں کے کوئی اور نہ چھوے"(الواقع:79)

اسی طرح وہ حدیث جس کو امام مالک نے  اپنے الموطا میں عبد اللہ بن ابی بکر بن حزم سے روایت کی ہے کہ اس تحریر میں لکھا تھا جس کو رسول اللہ ﷺ نے  عمرو بن حزم کو لکھا تھا:

َنْ لَا يَمَسَّ الْقُرْآنَ إِلَّا طَاهِرٌ

" قرآن کو پاک آدمی کے علاوہ کوئی نہ چھوے"

مالک ہی کی ایک اور روایت ہے جو الموطا   جو عبد اللہ نام کے مکمل نام سے ہے یہ ہےکہ  عبد اللہ  بن ابی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم سے  اور جس کو الطبرانی نے الکبیر  و الصغیر میں سالم بن عبد اللہ بن عمر سے روایت کیا ہے کہ اس نے  سلیمان بن موسی  سے روایت کیا کہ  ، میں نے سالم بن عبد اللہ بن عمر سے اس کے باپ کے حوالے سے سنا کہ اس نے کہا  کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :

لَا يَمَسُّ الْقُرْآنَ إِلَّا طَاهِرٌ

" قرآن کو پاک آدمی کے علاوہ کوئی نہ چھوے"۔

اس لیے میرے نزدیک راجح  یہ ہے کہ حائضہ  کے لیے قرآن کو چھونا اور اس کو پڑھنا حرام ہے۔

3 ۔ جہاں تک اس لپ ٹاپ یا موبائل کو پاس رکھنے کی بات ہے جس میں قرآن کریم کا پروگرام ہو، اس پر فقہاء نے بحث کی ہے میں پہلے اس کا ذکر کرتا ہوں ۔۔۔یہ بحث ہے قرآن کو اس وقت اٹھانے کا جب وہ کسی ڈبے یا تھیلے میں ہو: اس میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ اس حوالے سے حنفی اور حنابلہ یہ کہتے ہیں کہ  حائضہ اور جنبی کی جانب سے غلاف کے ساتھ قرآن کو اٹھانے میں کوئی مسئلہ نہیں، یا کسی بھی  حائل  کے ساتھ جو اس کے تابع نہ ہو، کیونکہ یہ اس کا چھونا نہیں،اس کو منع نہیں کیا جائے گا ،چاہے اس کو اپنے سامان میں رکھ کر اٹھائے۔جوممانعت ہے وہ چھونے سے   ہے اور یہاں  چھونا ہے ہی نہیں ۔ احناف کہتے ہیں کہ اگر ایسے غلاف کے ساتھ اٹھا ئے جو اس پر لپیٹا نہیں گیا ہو ،یہ کسی بیگ یا تھیلے میں سامان وغیرہ کے ساتھ ہو تو یہ مکروہ بھی نہیں۔

جبکہ مالکی اور شافعی  اور ایک روایت  کہتی ہے جو  احمد کی بھی ایک روایت ہے  کہ یہ جائز نہیں ۔ مالکی کہتے ہیں کہ اس کو پاک آدمی کے علاوہ کوئی اٹھا ہی نہیں سکتا خواہ تکیے  وغیرہ پر رکھ کر ہی کیوں نہ ہو، جیسے کہ رحل  یا غلاف   یا کوئی   بیگ وغیرہ۔   اسی طرح شوافع کے نزدیک بھی صحیح ترین قول کے مطابق یہ جائز نہیں کہ مصحف کو چھو نا یا کسی تھیلے یا بیگ میں رکھ کر اٹھا نا جائز نہیں، یعنی وہ تھیلا اور بیک جو اسی کے لیے تیار کیا گیا ہو، اس صندوق    کو چھونا یا اٹھانا نا جائز ہے  جو سامان کے لیے ہو اور اس میں مصحف بھی رکھا گیا ہو۔

واضح ہے کہ اس مسئلے میں فقہی اختلاف ہے ۔   میں جس کو ترجیح دیتا ہوں وہ یہ کہ  اس موبائل کو  بغیر طہارت  کے پاس رکھنے میں کوئی مسئلہ  نہیں جس میں  قرآن کریم کا پرو گرا  م  ہو کیونکہ وہ قرآن کے حکم میں نہیں۔ کسی پروگرام کو  موبائل کی میموری میں محفوظ کرنا  اس کو لکھنے کی طرح نہیں۔ اسی طرح موبائل میں قرآن کے اس پروگرام کے علاوہ بھی کئی پروگرام ہوتے ہیں  جن کو پڑھنے کے علاوہ دوسرے کاموں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے،  اسی وجہ سے ان کا حکم مصحف کا نہیں اس سے دوحالتیں مستثنی ہیں:

پہلی حالت : قرآن کے پروگرام کو چلانے پر  نصِ قرآنی اس آلے کے اسکرین پر ظاہر ہوتا ہو ، ایسی صورت میں اس  کا حکم کاغذ پر لکھے ہوئے نصِ قرآنی کا ہے ، اس  لیے اس اسکرین کو چھونا جس پر یہ لکھا ہوا ہو  طہارت کے بغیر جائز نہیں کیونکہ  اس کا حکم ورق   صحیفہ اور چمڑے پر لکھے ہوئے کاہے۔  اگر موبائل  کو اٹھانے والا اس میں موجود  قرآن کو پڑھنے  کے لیے اس کی اسکرین آن کرے تو اس کے لیے طہارت لازمی ہے، اسی طرح اگر  اسکرین کھلی ہوئی ہو  تو اس کو اٹھانے کے لیے بھی طہارت شرط ہے۔

اگر موبائل   میں نصِ قرآنی کھلا ہوا نہ ہو تو ایسی حالت میں  جنبی کے لیے اس کو پاس رکھنا جائز ہے  چاہے اس کے میموری میں قرآن ہو،  کیونکہ  موبائل کے مناط کی تحقیق کے مطابق  قرآنی نص اس میں ظاہر نہیں، اس کی مناط مصحف شریف کے مناط سے مختلف ہے ۔

دوسرا: موبائل ایسا ہو کہ اس میں قرآن کے علاوہ کوئی چیز نہ ہو  جو اس کے اسکرین پر پڑھنےکے لیےنظر آتا ہو دوسرے الفاظ میں یہ موبائل  صرف قرآن پڑھنے کے لیے استعمال ہوتا ہو اس میں کوئی اور پروگرام ہی نہ ہو  ایسی حالت میں جنبی کے لیے اس کو پاس رکھنا جائز نہیں۔

اس مسئلے میں میں اس کو ترجیح دیتا ہو ں

اللہ بہتر جانتا ہے

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ

آپ کا بھائی عطا بن خلیل ابو الرشتہ

17 ذی الحجہ 1436 ہجری

   بمطابق یکم اکتوبر 2015

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک