الأحد، 22 محرّم 1446| 2024/07/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
لفظ کی عمومیت کواستنباط کے ذریعے ثابت کرنا

بسم الله الرحمن الرحيم

 سوال کا جواب:

لفظ کی عمومیت کواستنباط کے ذریعے ثابت کرنا

علی غیث ابو الحسن کے سوال کا جواب

سوال :

  بسم اللہ الرحمن الرحیم، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ،

الشخصیۃ الاسلامیۃ  جلد 3 (عربی کتاب)صفحہ 331  میں ہے کہ :

  اللہ تعالیٰ کا قول ہے: فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ"ان عورتوں کو ان کے مہر دو"(النساء:24) یہ عام حکم ہے، جس میں دودھ پلانے والی کی اجرت،گھر کی نوکرانی یا گاڑی  کے نوکر وغیرہ کی اجرت شامل ہے۔ تبصرہ:آیت کے نص  کے منطوق    سے دودھ پلانے والی کی اجرت  کے علاوہ  کچھ استنباط   کرنا  درست نہیں،یعنی گھر کی نوکرانی یا گاڑی کے ملازم(ڈرائیور) وغیرہ ، اس کی وضاحت یوں ہے:

1 ۔ شرعی قاعدہ یہ ہے کہ: کسی واقعہ کے موضوع میں لفظ کی عمومیت ہے۔   آیت ہر دودھ پلانے والی کے لیے عام ہے، ہر دودھ پلانے والی دودھ پلانے کی اجرت کی مستحق ہے، آیت کا موضوع بھی صرف رضاعت کی اجرت ہے اس کے علاوہ کچھ اور نہیں۔

2 ۔ اللہ کا فرمان: فَآتُوهُنَّ "ان کو دو" کا معنی ہے : طلاق شدہ، دلہنوں اور دودھ پلانے والیوں  کو دو، کیونکہ 'ھن' کا ضمیر  انہی کی طرف لوٹتا ہے اور یہ ضمیر 'ھن'   ،'ھم' کے ضمیر کو شامل نہیں کرتا۔ جبکہ' ھم ' کا ضمیر  اس کو شامل کر تا ہے۔ یوں اجرت کی ادائیگی طلاق شدہ، دلہنوں اور دودھ پلانے والیوں کے لیےہے،اور یہ عام  ہے اور اس کے ماتحت آنے والی تمام خواتین اس میں شامل  ہیں ۔ یہ بات بھی معلوم ہے کہ مونث سے خطاب میں مذکر شامل نہیں ہوتا۔

3 ۔ آیت اس وقت عام ہو تی کہ اس میں دودھ پلانے والی،گھر اور گاڑی  کے ملازم  کو بھی شامل کر لیتی اگر   یہ یوں ہو تی: فان ارضعن لکم فآتوا الاجراء  اجرھم  "اگر وہ تمہارے لیے دودھ پلائیں تو  مزدوروں کو ان کی مزدوری دو"  کیونکہ لفظ 'اجراء' عام ہے  جس میں  مذکر اور مونث  سب شامل ہیں، اس کا موضوع اجرت  ہے اگرچہ واقعہ رضاعت کا ہے۔

4 ۔ اللہ کا فرمان : فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ" ان عورتوں کو ان کے مہر دو "سے ہم جزوی حکم مستنبط کرتے ہیں  جو کہ دودھ پلانے والی کی اجرت ہے ، اس سے کلی حکم بھی  مستنبط کر تے ہیں  جو کہ نص سے معقول ہو تا ہے جو کہ یہ ہے کہ : اجیر چاہے  کوئی بھی ہو اپنے کام کی وجہ سے اجرت کا مستحق ہوتا ہے۔

علی غیث ( ابو الحسن) ختم شد

جواب:

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبر کاتہ

  ۔۔۔ میرے بھائی لغت میں عموم  کی بحث  کا اہتمام کرنے پرمیں آپ کی قدر کر تا ہوں، مگر آپ نے موضوع پر خوب تدبر نہیں کیا، اس لیے ایک پہلو پر تو غور کیا اور کئی دیگر پہلوں کو ترک کردیا۔۔

کیا ہی اچھا ہو تا کہ آپ سوال کا زیادہ بہتر اسلوب اختیار کرتے اور مسئلے کے بارے میں  پوچھتے ، مگر آپ نے اپنی بات کر کے تبصرہ کیا  کہ، "آیت کے نص  کے منطوق    سے دودھ پلانے والی کی اجرت  کے علاوہ  کچھ استنباط   کرنا  درست نہیں ۔۔۔" ۔تو  آپ نے خود تبصرہ کیا، خود ہی جواب دیا اور پھر خود ہی فیصلہ کر لیا! آپ نے سوال اور استفسار کی کوئی گنجائش ہی باقی نہ رکھی ۔

اس کے باوجود آپ کے سوال سے واضح ہےکہ  آپ اس موضوع کو اہمیت دیتے ہیں ، اور اس لیے میں سوال کا اچھا اسلوب اختیار نہ کرنے پر درگزر کرتا ہوں۔۔۔ اورآپ کو جواب دیتا ہوں، اللہ سے دعا ہے کہ آپ کی بہترین  راہنمائی کرے۔

   اصول کے مسائل میں سے کسی بھی مسئلے   میں بحث   کے لیے  اس کے تمام پہلووں کا احاطہ کرنا ضروری ہے اور کسی ایک پہلو کو سمجھ کر  صرف اس  کی بنیاد پر حکم نہیں لگا یا جا سکتا،اور اگر آپ نے عمومیت کی اقسام کو سمجھا ہوتا تو آپ غلط سمت میں نہ جاتے۔ ہم نے اسلامی شخصیہ جلد 3 (عربی) کے صفحہ   235 – 237   میں "لفظ کی عمومیت کو ثابت کرنے کے طریقے" میں جو کچھ کہا ہے تو میں وہی آپ سے بیان کررہا ہوں۔

وہ عموم جو لفظ سے ثابت ہے، یا تو لغتاً  ثابت ہو جو کہ لغت سے  نکلتا ہے جہاں اس کے مطلب کو اس کے استعمال کے ذریعے سمجھا گیا ہو ، یا عرفاً ثابت ہو تا ہے جہاں اس کے مطلب کو عرف کے ذریعے سمجھا جاتا ہے ، یعنی  اہل لغت سے نہیں بلکہ  ان کے استعمال سے  سے آتا ہے، یا عقلاً ثابت ہو تا ہے جو  کہ استنباط سے حاصل ہو تا ہے نہ کہ عقل سے۔ دوسرے لفظوں میں   لفظ کی عمو میت  یاتو ہمارے لیے   روایت کے ذریعے ثابت ہو گی  وہ اس طرح کہ عربوں نے   اس لفظ کو عموم کے لیے ہی وضع کیا ہو، یا اس لفظ کو عموم میں استعمال کیا ہو،  یا پھر روایت سے استنباط کے ذریعے ہمارے لیے ثابت ہو،

وہ عموم جو  روایت کے طریقے سے ثابت ہو  وہ یا تو لغت سے یا اہل لغت  کے استعمال سے معلوم ہوتا ہے ۔ جہاں تک لغت سے حاصل ہونے والے عموم کا تعلق ہے تو اس کی دو حالتیں ہیں: ایک یہ کہ وہ عام بنفسہ ہو  یعنی کسی قرینے کی محتاج نہ ہو، دوسرا  وہ ہے جس کا عموم لغت سے ہو مگر  قرینے کے ذریعے ہو۔

  وہ عموم  جو اہل لغت کے استعمال سے معلوم  ہوتا ہو  جو کہ عرف سےمعلوم ہو تا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ" تمہاری مائیں تم پر حرام کی گئیں"(النساء:23) اہل عرف نے  اس مرکب کو  عین کی حرمت سے  لذت کی تمام صورتوں کی حرمت  کی طرف منتقل کیا ہے کیونکہ مقصود  بغیر متعاعکی عورتیں ہیں، اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان : (حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ) " تم پر (کھانے کے لئے)مردار حرام کیا گیا ہے"(المائدہ:03)،   کیونکہ یہ  عرف کے مطابق کھانے پر محمول  ہے،یہ عرفی حقیقت سے ہے۔

جہاں تک  استنباط کے ذریعے ثابت ہونے والے عموم کی بات ہےتو اس کا حکم وصف کے بیان پر موقوف ہے  جوسبب کے حرف"فا" کے استعمال کے ذریعے ہو جیسا کہ اللہ کا فرما ن :وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا" اور چور مرد اور چور عورت  دونوں کا ہاتھ کاٹ دو" (المائدہ:38)ختم شدہ

عموم کو اس کے انواع  کے ساتھ اس طرح سمجھا جائے گا، خاص کر اس عموم کو جو استنباط کے ذریعے ثابت ہو، پھر جواب یوں ہو گا:

  یہی آپ کا سوال  ہےجو الشخصیۃ جزو ثالث صفحہ 327  کے بارے میں ہے:

"اللہ کا فرمان فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ " پس دو ان کو ان کے مہر "(النساء:24) جو کہ عام لفظ ہے جس میں دودھ پلانے والی،مزدور،گھر اور گاڑی وغیرہ کے نوکر سب اس میں شامل ہیں۔ یہ   نہیں کہا  جا ئے گا   کہ مزدور  کی اجرت کو  دودھ  پلانے والی کی اجرت پر قیاس کیا گیا ہے، یا گاڑی  کی اجرت کو مزدور کی اجرت پر قیاس کیا گیا ہے ، بلکہ یہ سب اس ماتحت میں داخل ہیں۔

  اس موضوع میں مقصود،  فائدے کے حصول کی وجہ سے اجرت کے مستحق ہونے کا عموم ہے، یہ عموم  دودھ پلانے کےفائدے کے حصول  پر اجرت کے مرتب  ہونے    کی طرف اشارہ کرتا ہے اور یہ سبب کے حرف"فا" کے استعمال کے ذریعے واضح ہوتا ہے، جیسا کہ آیت کہتی ہے: فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ " اگر وہ تمہارے لیے دودھ پلائیں  تو ان کی اجرت ان کو دے دو" (اطلاق:06)، یعنی اجرت کے مستحق ہونے کا سبب  رضاعت سے حاصل ہونے والا فائدہ ہے، یوں یہ فائدہ اٹھانے کے عام ہونے کی وجہ سے استحقاق کے عام ہونے پر دلالت کر تا ہے، چاہے یہ دودھ پلانے کی اجرت ہو جیسا کہ آیت  کا منطوق ہے یا کسی شخص  سے فائدہ اٹھانے کی اجرت  جیسا کہ مزدور کی اجرت ہے،  یا کسی   چیز سے فائدہ اٹھانے کی اجرت جیسا کہ  گاڑی کی اجرت، یہ سب   مذکورہ عموم کی دوسری قسم سے ماخوذ ہے جو کہ " وہ عموم ہے جو  استنباط کے طریقے سے ثابت ہو اور اس کا ضابطہ  سبب کے حرف"فا"کے ذریعے  حکم کے وصف پر مرتب ہو نا ہے۔۔۔"،  یہ حکم کو علت کے مشترک ہونے کی وجہ سے اصل  سے الحاق کرنے کے قیاس کے طریقے سے اخذ نہیں کیا گیا ہے۔  یعنی گویا آیت نے کہا ہے کہ " فائدے کے حصول  پر ہی اجرت کا حصول مرتب ہو تا ہے"، اس میں عموم کو مستنبط کیا گیا ہے ،اس لیے مزدور کی اجرت گاڑی کی اجرت اس عموم کے افراد میں سے فرد ہیں جن پر عموم لاگو      ہو تا ہے  ، یہ مزدور کی اجرت اور  گاڑی کی اجرت  کو فروع کے طور پر  دودھ پلانے والی کی اجرت  کو اصل قرار دے کر  علت کے ایک ہونے کی وجہ سے اس سے الحاق کرنے کے قبیل سے نہیں، یعنی  نص کے معقول پر عمل کرنے کے قبیل سے نہیں، کیونکہ مسئلہ  عموم کے افراد میں سے فرد کا  عموم کے ماتحت ہونے کا ہے  ،قیاس میں داخل ہونے کا نہیں۔

امید ہے مسئلہ کا جواب واضح ہو گیا ہے اور آپ کو یہ معلوم ہو گیا ہے کہ ہم نے کتاب میں جو کہا ہے وہی درست ہے۔

  یاد رہے کہ ذکر کردہ آیت کریمہ  شرع میں اجرت  کی دلائل  کے اصول میں سے ہے  اہل علم میں سے کسی نے بھی اس کو رضاعت تک محدود نہیں کیا ہے، جیسا کہ میرے علم میں ہے، میں بعض متعلقہ مصادر کو آپ کے لیے نقل کرتا ہوں:

   کتاب " بدایۃ المجتھد ونہایۃ المقتصد" جس کے مولف  ابو الولید محمد بن رشد القرطبی  جو کہ پوتا ابن رشد کے نام سے مشہورہیں  (متوفی 595  ہجری)جو کہ دار الحدیث قاہرہ کی مطبوعہ ہے میں کتاب الاجارات میں ہے کہ:

۔۔۔۔ تمام مصر کے فقہاء کے نزدیک اجارہ جائز ہے، متقدمین  کے نزدیک بھی"۔

جمہور کی دلیل اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی یہ آیت ہے: فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ (الطلاق: 27 )اوراسی طرح اللہ کا فرمان: إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُنْكِحَكَ إِحْدَى ابْنَتَيَّ هَاتَيْنِ" میں اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک کو آپ کے نکاح میں دینا  چاہتا ہوں" (القصص:6)۔ ختم شد

ابن قدامۃ کی کتاب "المغنی " میں  باب "الاجارات" میں یوں ہےکہ :

"اجارہ کے جواز میں اصل کتاب ،سنت اور اجماع ہیں۔ جہاں تک کتاب کا تعلق ہے تو اللہ کا فرمان ہے: فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ"(الطلاق) ختم شد

یوں یہ آیت کریمہ اجارہ کی دلیل ہونے کے لیے بہت مشہور ہے

آپ کا بھائی عطاء بن خلیل ابو الرشتہ

14 محرم 1437 ہجری

27 اکتوبر 2015

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک