بسم الله الرحمن الرحيم
سوال و جواب
افغانستان میں دو مشہور معاہدوں دويانی اور نصفگی کا حکم
منجانب: عبد الجميل قامع
سوال:
السلام عليكم... اے ہمارے جلیل قدر شيخ!افغانستان میں ہمارے ہاں ایک معاملہ بہت مشہور ہے جس کے بارے میں ہم حکم نہیں جانتے، اس کی تفصیل درج ذیل ہے: ایک غریب شخص کسی اور کی گائے کا بچہ، جس کی عمرایک سال یا دس ماہ ہو، کی ایک یا دو سال پرورش کرتا ہے۔ اگر یہ مادہ ذات ہو اور اس کا بچہ ہو جائے تو غریب شخص بچے اور دودھ کا مالک بن جاتا ہے اور گائے مالک کو واپس کر دیتا ہےیا پھر بچے کی پیدائش سے پہلے اس کو فروخت کر کے اس کی قیمت مالک کے ساتھ آدھی آدھی تقسیم کر لیتا ہے۔ اور اگر گائے نر ذات ہو تو غریب شخص پرورش کے بعد یا تو اس کو فروخت کر کے قیمت مالک کے ساتھ آدھی آدھی تقسیم کر لے گا یا پھر اسے اپنے پاس رکھے گا اور اس سے حاصل ہونے والے فوائد کو مالک کے ساتھ تقسیم کر ے گا ۔ پہلی صورت"دويانی"اور دوسری "نصفگی"کہلاتی ہے، کیا یہ معاملہ درست ہے؟
جزاک اللہ خیراً
جواب:
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته،
اسلام میں اجارہ کی شرائط میں سے ہے کہ اجرت معلوم ہو، "اسلام کا اقتصادی نظام" کتاب میں "کام کی اجرت" کے مضمون میں درج ذیل کا ذکرہے(صفحہ نمبر – 83 انگریزی زبان میں اور صفحہ نمبر 91 عربی زبان میں):
"اجارہ کے عقد میں مقررہ اجرت کی ادائیگی معلوم ہو جس پر گواہی اور تفصیل اس میں کسی شک و شبہ کو ختم کر دیتا ہے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:»إذا استأجر أحدكم أجيراً فليعلمه أجره«"جو کوئی کسی کو اجارہ پر رکھے اسے ضرور اجرت سے آگاہ کرے"۔
اجارہ کا معاوضہ نقد، مال یا کسی فائدے کی صورت میں ادا کیا جا سکتا ہے۔ معاوضہ ہر وہ چیز ہو سکتی ہے جو کسی شہ کی قیمت بن سکے، چاہے وہ مال ہو یا کسی کام سے منفعت اس شرط پر کہ یہ معلوم ہو اور اگر یہ معلوم نہ ہوتو یہ عقد باطل ہو گا۔ چنانچہ اگر ایک فرد کو کسی فصل کی کٹائی کے لئے ملازم رکھا جائے اور معاوضے کے طور پر فصل کا ایک حصہ مقررکیا جائے تو یہ باطل ہو گا کیونکہ اجرت معلوم نہیں ہے۔ تاہم اگر اس کا معاوضہ دو یا چار کلو گندم ہو تب یہ جائز ہو گا۔ مزدور کو کھانا اور کپڑے کے عوض کام پر رکھنابھی جائز ہوگا کیونکہ یہ عورت کے لئے جائز ہے کہ وہ ان کے عوض بچے کو دودھ پلائے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ﴾
"اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور پہننا دستور کے مطابق بچے کے باپ پر لازم ہے" (البقرہ: 233)۔
لہٰذا دودھ پلانے کے عوض ان کا کھانا اور پہننا اجرت ٹھرا۔ اگر یہ اجرت دودھ پلانے والی ماؤں کے لئے جائز ہے تو پھر باقی تمام لوگ بھی اجرت حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ وہ بھی اجارہ کے ضمن میں آتے ہیں"۔
لہٰذا اجرت پر حاصل کیا گیا کام حتمی طور پر واضح ہونا چاہیے اورکوئی ابہام نہ رہے، تاکہ کام بغیر کسی تنازعے کے لوٹایا جا سکے۔ کیونکہ عقود درحقیقت لوگوں کے مابین تنازعات کو ختم کرنے کے لئے طے پاتے ہیں۔ تاہم اجرت پر حاصل کیے گئے کام کی نوعیت کا واضح ہونا لازم ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرما ن ہے:
«إذا استأجر أحدكم أجيراً فليعلمه أجره»
"جو کوئی کسی کو اجارہ پر رکھے اسے ضرور اجرت سے آگاہ کرے"۔
اسے دارالقطنی نے اب مسعود ؓ سے روایت کیا ہے۔ اور جو مسند احمد نے ابی سعید ؓسے روایت کیا ہے کہ "آپ ﷺ نے مزدور رکھنے سے منع فرمایا جب تک اسے اجرت سے آگاہ نہ کر دیا جائے"، تاہم اگر اجرت طے نہ پائی ہو تو اجارہ کا عقد صحیح تصور ہو گا۔ اور تنازعے کی صورت میں عرف عام میں اجرت کا تعین کیا جائے گا۔ اس موضوع پر تفصیلاً "اسلام کا اقتصادی نظام" کتاب میں "اجارہ" کے باب میں بحث کی گئی ہے۔
تاہم آپ کا معاملہ میری رائے کے مطابق درج ذیل ہے:
ایک غریب شخص ایک سال یا دس ماہ کے بچھڑے کی پرورش میں ایک یا دو سال کام کرتا ہے۔ اس کا معاوضہ اگر بچھڑا مادہ ہو تو:
1۔ اگر اس مدت میں اس گائے کا بچہ ہو جائے تو غریب شخص کا معاوضہ بچہ اور دودھ ہوتاہے اور گائے واپس مالک کو لوٹا دیتا ہے۔
2۔ یا پھر گائے کے بچے کی پیدائش سے پہلے ہی اس کو فروخت کر کے آدھی قیمت بطور معاوضہ وصول کر لیتا ہے۔
اگر بچھڑا نر ذات کا ہو تو ایک یا دو سال کی پرورش کا معاوضہ یوں ہو گا:
3۔ غریب گائے کو فروخت کر کے آدھی قیمت وصول کرتا ہے۔
4 ۔ یا پھر اس گائے کو اپنے پاس ہی رکھے اور اس کا فائدہ دونوں آپس میں تقسیم کر لیں گے۔
اگر مندرجہ بالا فہم درست ہے، تو:
شرعی حکم کا دارومدار معاوضے کے معلوم ہونے پر ہو گا، اور بچھڑے کی پرورش کے اوقات بھی متعین ہونا لازم ہونگے، اس صورت میں جواب مندجہ ذیل ہے:
- نکتہ (1) کا عقد جائز نہیں ہوگا کیونکہ اجرت وہ ہے جو مادہ کے پیٹ میں ہے، لہٰذا معلوم نہیں ہے۔
- نکتہ (2) کا عقد جاِئز ہو گا کیونکہ اجرت معلوم ہے جو کہ گائے کی آدھی قیمت کی صورت میں ہے۔
- نکتہ (3) کا عقد جاِئز ہو گا کیونکہ اجرت معلوم ہے جو کہ گائے کی آدھی قیمت کی صورت میں ہے۔
- نکتہ (4) میں مشترکہ فائدہ کو واضح کرنا ضروری ہے تاکہ ابہام کو رفع کیا جا سکے، اور اگر فائدہ معلوم نہ ہو تب یہ عقد جائز نہیں ہو گا۔
آپ کا بھائی
عطاء بن خليل ابو الرشتہ
3جمادى الثانی1438 ہجری
02/03/2017م