الأحد، 02 جمادى الأولى 1446| 2024/11/03
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال کا جواب

نماز میں دوری بدعت ہے جس کا گناہ حکمرانوں پر وبال ہے

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ وعلی آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد،

 

ان تمام لوگوں کے لیے جنہوں نے# جمعے اور جماعت کی نماز میں اپنے دائیں بائیں نمازیوں سے دو میٹر فاصلہ رکھنے کے بارے میں سوال کیاہے۔۔۔کہتے ہیں کہ بعض مسلم ممالک میں حکمرانوں نے مساجد کو بند کیا ہوا ہے اور جب کھولتے ہیں تو نمازیوں کے درمیان دومیٹر کے فاصلے کو لازمی قرار دیتے ہیں۔۔۔مقتدر حلقے اس کا جواز یہ بیان کرتے ہیں کہ مریض معذور ہوتا ہے اس لیے وہ جیسے بیٹھ کر نماز پڑھ سکتاہے اسی پر قیاس کرتے ہوئے اپنے پہلو میں نماز پڑھنے والے سے دو میٹر کا فاصلہ رکھ سکتاہے بلکہ  اگر وہ مریض نہ بھی ہو اور مرض کا خوف ہوتب بھی دوری اختیار کرسکتاہے۔۔۔یہ بھی پوچھا ہے کہ کیا حکمرانوں کے لیے اس قسم کا فاصلہ لازمی قرار دینا جائز ہے؟ یا یہ فاصلہ بدعت ہے جس کا گناہ حکمرانوں کے گردن پر ہے؟ سائلین نے جواب کے لیے اصرار کیا ہے۔۔۔

 

ان کے سوالات کے جواب میں  اللہ کی توفیق سے عرض کر رہا ہوں کہ :

پچھلے جوابات میں ہم بدعت کے بارے میں کافی بیان کر چکے ہیں اگر سائلین اسپر غور کریں انہیں  جواب مل جائے گا کہ فاصلہ رکھنا بدعت ہے اگر حکمران لوگوں کو اس پر مجبور کریں تومذکورہ بدعت کا گناہ ان کے سرہے جس کی تفصیل یہ ہے

:

پہلا: 28رجب 1434 بمطابق 7/6/2013 کو سوال کے جواب کے بیان میں آیا(۔۔۔بدعت شارع کے اس امر کی مخالفت ہے جس میں اداء کی کیفیت بیان کی گئی ہو، چنانچہ بدعت لغت میں جیسا کہ لسان العرب میں ہے: "مبتدع وہ ہے جو ایسا کام کرے جس کی شبیہ نہ ہو۔۔۔،ابدعت الشئی کے معنی ہیں اختراع کہ جس کی مثال نہ ہو، اصطلاح میں بھی یہی ہے،  یعنی کسی عمل کی رسول اللہ ﷺ کی جانب سے انجام دینے کی مثال موجود ہو اور کوئی مسلمان اس کی خلاف ورزی کرے، اس کا معنی یہ ہے کہ  بدعت کسی شرعی امر کو انجام دینے کے لیے شرع میں بیان کی گئی کیفیت کی خلاف ورزی ہے، یہی معنی  اس حدیث کا مدلول ہےوَمَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ"جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس کے بارے میں ہمارا حکم نہیں وہ مسترد ہے"(اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے الفاظ بخاری کے ہیں)۔ یہی وجہ ہے کہ نماز میں دو سجدوں کی جگہ تین سجدے کرنا بدعت ہے کیونکہ یہ رسول اللہ ﷺ کے فعل کی خلاف ورزی ہے اسی طرح کوئی جمرات میں سات کی جگہ آٹھ کنکر مارے تو یہ بدعت ہے کیونکہ اس نے رسول اللہ ﷺ کے فعل کے خلاف کیا، اسی طرح آذان کے الفاظ میں اضافہ یا کمی کرنا بدعت ہے کیونکہ یہ رسول اللہ ﷺ کے مقرر کی ہوئی آذان کے خلاف ہے۔۔۔

 

رہی بات شارع کے اس امر کی خلاف ورزی کی جس کی ادائیگی کی کیفیت بیان نہیں کی گئی تو یہ احکام شرعیہ ہیں اور اس خلاف ورزی کو مکروہ یا حرام کہا جائے گا۔۔۔اگر 'خطابِ تكليف' ہو یا اسے باطل اور فاسد کہا جائے گا۔۔۔اگر 'خطابِ وضع' ہو، یہ امر کے ساتھ منسلک قرینے کے لحاظ سے ہوگا۔۔۔ مثال کے طور پر مسلم نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت کی ہے آپ نے رسول اللہ ﷺ کی نماز کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:

كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ «... وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ لَمْ يَسْجُدْ، حَتَّى يَسْتَوِيَ قَائِماً، وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السَّجْدَةِ، لَمْ يَسْجُدْ حَتَّى يَسْتَوِيَ جَالِساً...»

"جب آپ ﷺ رکوع سے سر اٹھاتے تو سیدھا کھڑے ہونے سے قبل سجدہ نہ کرتے، جب سجدے سے سر اٹھاتے سیدھا بیٹھنے سے پہلے سجدہ نہ کرتے۔۔۔"

یہاں رسول اللہ ﷺ نے یہ بیان کیا کہ مسلمان رکوع سے اٹھنے کے بعد قیام میں سیدھا کھڑے ہونے سے قبل سجدہ نہیں کرتا اور سجدے سے سراٹھانے کے بعد سیدھا بیٹھنے سے قبل سجدہ نہیں کرتا، یہ وہ کیفیت ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے بیان کیا جس نے اس کی خلاف ورزی کی اس نے بدعت کا ارتکاب کیا، اگر نمازی نے رکوع سے اٹھنے کے بعد مکمل سیدھا کھڑا ہونے سے قبل سجدہ کیا تو اس نے رسول اللہ ﷺ کی بتائی ہوئی کیفیت کی خلاف ورزی کی۔

مگر مثال کے طور پر مسلم نے عبادہ بن الصامت سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے سنا:

«يَنْهَى عَنْ بَيْعِ الذَّهَبِ بِالذَّهَبِ، وَالْفِضَّةِ بِالْفِضَّةِ، وَالْبُرِّ بِالْبُرِّ، وَالشَّعِيرِ بِالشَّعِيرِ، وَالتَّمْرِ بِالتَّمْرِ، وَالْمِلْحِ بِالْمِلْحِ، إِلَّا سَوَاءً بِسَوَاءٍ، عَيْناً بِعَيْنٍ، فَمَنْ زَادَ، أَوِ ازْدَادَ، فَقَدْ أَرْبَى»

کہ رسول اللہ ﷺ نے "سونے کو سونے کے بدلے، چاندی کو چاندی کے بدلے، گندم کو گندم کے بدلے، جَو کو جَوکے بدلے، کھجور کو کھجور کے بدلے، نمک کو نمک کے بدلے برابر سربرابر کے علاوہ بیچنے سے منع کیا، جس نے کمی بیشی کیا اس نے سود کا ارتکاب کیا"،

 

اگر کسی مسلمان نے اس حدیث کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سونے کو سونے کے بدلے کمی بیشی کے ساتھ بیچا تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس نے بدعت کا ارتکاب کیا بلکہ یہ کہا جائے گا کہ اس نے حرام اور سود کا ارتکاب کیا۔

خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بیان کی ہوئی کیفیت کی خلاف ورزی بدعت ہے اور کیفیت کو بیان کیے بغیر حکم کی خلاف ورزی احکام میں شرعیہ میں سے حرام یا مکروہ ہے۔۔۔باطل یا فاسد ہے۔۔۔ جو کہ دلیل کے لحاظ سے ہے ختم شد۔۔۔ہم نے 8ذوالحجہ 1436ہجری بمطابق 22/9/2015 کو بدعت کے حوالے سے زیادہ تفصیلی بیان شائع کیا تھا، اسی طرح اس سے پہلے اور بعد میں بھی جو کہ ان شاء اللہ کافی شافی ہے۔

 

دوسرا: اسی بنا پرعالم اسلام میں قائم ریاستیں اگر وبا کے خوف سے نمازیوں کو اپنے ساتھ والے نمازی سے دومیٹر کے فاصلے پر کھڑے ہونے پر مجبور کریں گی چاہے یہ جمعے کی نماز میں ہو یا جماعت کی نماز میں، خاص کر بغیر بیماری کی علامات کے تو ایسا کرنے والے حکمران سخت گنہگار ہیں کیونکہ یہ فاصلہ بدعت ہے، کیونکہ یہ صفیں سیدھی کرنے اور مل کر کھڑنے ہونے کی کیفیت کی خلاف ورزی ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے مندرجہ ذیل شرعی دلائل میں بیان کیا ہے:

بخاری نے اپنی صحیح میں ابو سلیمان مالک بن الحویرث سے حدیث روایت کی ہے کہ أَتَيْنَا النَّبِيَّ ﷺ وَنَحْنُ شَبَبَةٌ مُتَقَارِبُون فَأَقَمْنَا عِنْدَهُ عِشْرِينَ لَيْلَةً... وَكَانَ رَفِيقاً رَحِيماً... «فَقَالَ ارْجِعُوا إِلَى أَهْلِيكُمْ فَعَلِّمُوهُمْ وَمُرُوهُمْ وَصَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي وَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أَحَدُكُمْ ثُمَّ لِيَؤُمَّكُمْ أَكْبَرُكُمْ». ہم نبی ﷺ کے پاس آئے ہم ہمعمر نوجوان تھے اور بیس دن تک آپ ﷺ کے پاس ٹھہرے۔۔۔۔آپ شفقت اور رحمت والے تھے۔۔۔"فرمایا: اپنے اہل و عیال کی طرف لوٹ جاؤ اور انہیں علم سکھاؤ انہیں حکم دو نماز ایسے پڑھو جیسے تم مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو اور جب نماز کا وقت ہوجائے تو تم میں سے ایک آذان دے  اور پھر تم میں سے سب سے زیادہ عمر والا تمہاری امامت کرے"۔

 

بخاری نے اپنی صحیح میں انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ: نماز کھڑی ہونے لگی تو رسول اللہ ﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:

«أَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ، وَتَرَاصُّوا، فَإِنِّي أَرَاكُمْ مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِي»

"صفیں درست کرو مل کر کھڑے ہو جاؤ،  میں اپنے پیچھے تمہیں دیکھتا ہوں"۔

 

مسلم نے اپنی صحیح میں نعمان بن بشیرؓ سے حدیث روایت کی ہے کہ

يُسَوِّي صُفُوفَنَا حَتَّى كَأَنَّمَا يُسَوِّي بِهَا الْقِدَاحَ حَتَّى رَأَى أَنَّا قَدْ عَقَلْنَا عَنْهُ، ثُمَّ خَرَجَ يَوْماً فَقَامَ، حَتَّى كَادَ يُكَبِّرُ فَرَأَى رَجُلاً بَادِياً صَدْرُهُ مِنَ الصَّفِّ، فَقَالَ: «عِبَادَ اللهِ لَتُسَوُّنَّ صُفُوفَكُمْ، أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللهُ بَيْنَ وُجُوهِكُمْ

" رسول اللہ ﷺ ہماری صفیں سیدھی فرماتے تھے اور اس قدر سیدھی کرتے گویا کہ ان سے تیر کو سیدھا کریں گے یہاں تک کہ ہم آپ سے یہ سمجھا کہ ایک دن اقامت ہونے والی تھی کہ ایک دیہاتی آدمی کو دیکھا جس کا سینہ صف سے آگے تھا فرمایا:"اللہ کے بندو صفیں ضروری سیدھی کرو ورنہ اللہ تمہارے چہروں ایک دوسرے کے خلاف کردے گا"۔

 

مسلم نے اپنی صحیح میں جابربن سمرہؓ یہ بھی روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«أَلَا تَصُفُّونَ كَمَا تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا؟» فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللهِ، وَكَيْفَ تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا؟ قَالَ: «يُتِمُّونَ الصُّفُوفَ الْأُوَلَ وَيَتَرَاصُّونَ فِي الصَّفِّ

"تم ایسی صف بندی کیوں نہیں کرتے جیسے ملائکہ اپنے رب کے سامنے کرتے ہیں؟ فرمایا:" وہ پہلے صف کو پہلے پُرکرتے ہیں اور صف میں مل کر کھڑے ہوتے ہیں"۔

 

الحاکم نے روایت کی ہے اور اسے مسلم کی شرط پر صحیح حدیث کہا ہے کہ عبد اللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«مَنْ وَصَلَ صَفّاً وَصَلَهُ اللَّهُ، وَمَنْ قَطَعَ صَفّاً قَطَعَهُ اللَّهُ

"جو صفوں کو جوڑ دے اللہ اسے جوڑ دے گا اور جو صفوں کو توڑ دے اللہ اسے توڑ دے گا"۔

 

احمد نے عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«أَقِيمُوا الصُّفُوفَ فَإِنَّمَا تَصُفُّونَ بِصُفُوفِ الْمَلَائِكَةِ وَحَاذُوا بَيْنَ الْمَنَاكِبِ وَسُدُّوا الْخَلَلَ وَلِينُوا فِي أَيْدِي إِخْوَانِكُمْ وَلَا تَذَرُوا فُرُجَاتٍ لِلشَّيْطَانِ وَمَنْ وَصَلَ صَفّاً وَصَلَهُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى وَمَنْ قَطَعَ صَفّاً قَطَعَهُ اللَّهُ».

"صفیں سیدھی کرو تم ملائکہ کی صفوں میں صفیں بناتے ہو کندھے سے کندھا ملاؤ  خالی جگہ پُر کرو اپنے بھائیوں کے بازو سے بازو ملاو  شیطان کے لیے خالی جگہ مت چھوڑو، جو صف کو جوڑ دے اللہ اسے جوڑتا ہے جو صف کو توڑ دے اللہ اسے توڑ دیتاہے"۔

 

یہ جماعت کی نماز کی ادائیگی کے لیے رسول اللہ ﷺ کی جانب سے مکمل وضاحت ہے، صحابہ رضوان اللہ علیھم اس کی پابندی کرتے تھے، مالک نے موطا میں اوربیھقی نےسُنن الکبری میں روایت کی ہے کہ عمر بن خطابؓ صفیں سیدھی کرنے کا حکم دیتے تب تکبیر کرتے جب آپ کو بتادیا جاتا کہ صفیں سیدھی ہوگئی"۔

 

تیسرا:یہ نہیں کہا جاسکتا کہ متعدی مرض عذر ہے جس کی وجہ سے نماز میں فاصلہ جائز ہے، جی ہاں یہ نہیں کہاجاسکتا کیونکہ متعدی مرض مسجد نہ جانے کا عذر ہے اس بات کا عذر نہیں کہ مسجد جاکر نمازی ایک دوسرے سے دو دو میٹر دور کھڑے رہیں!! رسول اللہ ﷺ کے عہد میں بھی متعدی مرض(طاعون) پیش آیا مگر نبی ﷺ سے یہ ثابت نہیں کہ کوئی مریض مسجد گیا اور دوسرے نمازیوں سے فاصلے پر کھڑا ہوگیا، بلکہ وہ معذور ہے تو گھر میں نماز پڑھے گا۔۔۔ جس علاقے میں وبا پھیل گئی ریاست اس کے علاج معالجے پر بھرپور توجہ دے گی  اور مریضوں اور تندرستوں میں اختلاط نہیں ہوگا۔۔۔مسلم نے اپنی صحیح میں اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: "طاعون عذاب کی نشانی ہے اللہ اپنے بندوں میں سے بعض لوگوں کو اس سے آزماتاہے، اگر کہیں تم اس کے بارے میں سنو تو وہاں مت جاؤ اور اگریہ اس زمین پر آئے جہاں تم ہو تو وہاں سے مت بھاگو"۔ یعنی مریض مرض کے ہوتے ہوئے تندرست لوگوں سے میل جول نہیں رکھے گا اور اللہ کے اذن سے اس کےلیے کافی اور شافی علاج کا بندوبست کیا جائے گا۔ جبکہ تندرست حسبت معمول مسجد جاکر بغیر فاصلے کےجمعہ اور جماعت کی نماز پڑھے گا۔۔

 

چوتھا: اسی طرح یہ بھی نہیں کہا جائے گا کہ  وبا کے دوران فاصلے سے نمازپڑھنے کو  مرض کے دوران بیٹھ کر نماز پڑھنے پر قیاس کیاجائے، کیونکہ یہ شرعی قیاس ہی نہیں، کیونکہ مریض کا بیٹھ کر نماز پڑھنا اللہ کی طرف سے رخصت ہے یعنی عذر کی وجہ سے جو کہ مرض ہے، مختلف عذر اسباب ہوتے ہیں نہ کہ علت، شرع نے عذر کو علت قرار نہیں دیا بلکہ ہر عذر کو اس حکم کے لیے عذر قرار دیا جس حکم کا وہ عذر ہے اس کے علاوہ کا نہیں۔ اس لیے وہ عذر اس مخصوص حکم کا عذر ہے  جس کے بارے میں وہ آیا ہے ہر حکم کا عذر نہیں کیونکہ یہ علت ہی نہیں؛ اس لیے اس پر قیاس نہیں کیا  جائے گا، اس میں سبب خاص ہے جوکہ  اس کے وجود کا سبب ہے، یہ اس سے تجاوز کرکے دوسری حقیقت تک نہیں جائے گااس لیے اس کی بنا  پر قیاس نہیں کیاجائے گا۔ یہ علت کے بر خلاف ہے  کیونکہ علت صرف اس حکم کے ساتھ خاص نہیں ہوتی جس کے لیے اس کو مشروع کیا گیا ہو بلکہ یہ اس سے تجاوز کرکے دوسرے تک پہنچتی ہے اس لیے اس پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔۔ یہاں یہ واضح ہوتا ہے کہ عبادات میں جو بھی وارد ہیں وہ اسباب ہیں علت نہیں اس لیے عبادات توقیفی ہیں جن کی نہ علت ہیں نہ ہی ان میں قیاس ہے کیونکہ سبب اسی کے ساتھ خاص ہے جس کا وہ سبب ہے۔

 

پانچواں: رخصت احکامِ وضع میں سے ایک حکم ہے، یہ بندوں کے افعال کے بارے میں وضع کے ساتھ شارع کا خطاب ہے، چونکہ یہ خود شارع کا خطاب ہے چنانچہ اس پر دلالت کرنے کے لیے شرعی دلیل کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر مریض کے بیٹھ کر نماز پڑھنے کے حوالے سے  بخاری نے اپنی صحیح میں عمران بن حصین ؓ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: مجھے بواسیر تھی تو میں نے نبی ﷺ سے نماز کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایا:"کھڑے ہوکر نماز پڑھو، نہیں پڑھ سکتے تو بیٹھ کر پڑھو، اگر بیٹھ کر بھی نہیں پڑھ سکتے تو لیٹ کرپڑھو"، یہ رخصت یعنی عذر ہے جس کی شرعی دلیل موجود ہے، جس کی دلیل نہیں اس کی کوئی قیمت نہیں اس کو مطلقاً شرعی عذر ہی نہیں سمجھا جائے گا۔۔۔چونکہ مریض کے دوسرے نمازیوں سے ایک دومیٹر دور کھڑے ہونے کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں اس لیے اس بات کی کوئی شرعی قیمت نہیں، یہ درست نہیں۔۔۔ یہ تو مریض کے بارے میں ہے جو شخص مریض ہی نہیں بلکہ مرض کی صرف توقع ہو اس کے پاس عذر کہاں ہے؟!

 

 

چھٹا: جو کچھ گزرگیا اس کا خلاصہ یہ ہے:

1-نماز کی اس کیفیت میں تبدیلی بدعت ہے جس کو رسول اللہ ﷺ نے بیان کیا، بلکہ موجودہ حالات میں حکم شرعی یہ ہے کہ تندرست مسلمان حسب معمول نماز کے لیے جائیں اور صفوں میں مل کرکھڑے ہوجائیں، خالی جگہ نہ چھوڑیں جبکہ کسی متعدی مرض میں مبتلا مریض مسجد نہ جائے تاکہ یہ مرض کسی اور کو نہ لگے۔

 

2-اگرریاست نے مساجد بند کرکے تندرست لوگوں کو جمعہ اور جماعت کی نماز کےلیے مساجد آنے سے روکا توحکمران سخت گنہگار ہوں گے مساجد اسی طرح کھلی ہونی چاہیے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان کیا ہے۔

 

3-اسی طرح اگر ریاست لوگوں کو اسی کیفیت کے مطابق نماز پڑھنے سے روکے جو رسول اللہ ﷺ نے بیان کیا بلکہ وبا کے پھیلنے کے خوف سے نمازیوں کے درمیان ایک دومیٹرفاصلہ رکھنے پر مجبورکرے خاص کر بیماری کی علامات کے بغیر تو حکمران سخت گنہگار ہیں۔

اس مسئلے میں یہی حکم شرعی ہے میں اسی کو ترجیح دیتاہوں،اللہ ہی علم اور حکمت والا ہے۔۔۔میں اللہ سبحانہ وتعالی سے دعاگو ہوں کہ مسلمانوں کو رشد وہدایت سے نوازے اور وہ اللہ کے احکامات اور اس کے رسول کے طریقے کے مطابق اس کی عبادت کریں، خلافت راشدہ کے قیام کے ذریعے شرع حنیف کو من و عن قائم کریں۔۔۔اسی میں خیر اور نصر ہے زمین اور آسمان میں کوئی چیز اسے مجبور نہیں کرسکتی وہی غالب اور حکمت والا ہے۔

 

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ

17شوال1441ہجری

8/6/2020

 

آپ کا بھائی

امیر حزب التحریر

#كورونا

#Korona

#Corona

#فيروس_كورونا

Last modified onہفتہ, 13 جون 2020 21:24

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک