بسم الله الرحمن الرحيم
سوال و جواب: اسلام کی طرف دعوت اور اسلام کے لیے عمل کے درمیان فرق
سائل :فہمی برہان
سوال: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔
میں دعوت اور عمل کا مطلب سمجھنا چاہتا ہوں۔ از راہِ کرم میرے سوال کا جواب دیدیں۔
التکتل الحزبی کتاب کے مصنف نے کہا ہے:" ہمارا اعتقاد ہے کہ نشاۃِ ثانیہ کا حقیقی فلسفہ وہ آئیڈیالوجی ہے جو فکر اور طریقہ پر مشتمل ہوتی ہے، یہ آئیڈیالوجی اسلام ہے کیونکہ اسلام ایک ایسا عقیدہ ہے کہ جس سے ریاست اور امت کے تمام امور کو چلانے کے لیے ایک نظام اخذ ہوتا ہے اور زندگی کی تمام مشکلات کا حل نکلتا ہے۔ اگرچہ یہ نظام ایک عالمی نظام ہے تاہم اس کا طریقہ یہ نہیں کہ ابتدا ہی سے اِس کے نفاذ کے لیے عالمی سطح پر کام کیا جائے۔ بلکہ اسلام کی دعوت اگرچہ عالمی ہے لیکن اِس کے نفاذ کے لئے کام کرنے کا مرکز کسی ایک ملک یا کچھ ممالک کو بنایا جائے تاکہ وہ علاقے اس کا مرکز بنیں اور جب کسی ایک جگہ پر اسلامی ریاست وجود میں آجائے گی تو پھر وہ طبعی طور پر آگے بڑھے گی۔۔۔"
اس عبارت سے میں جو سمجھا ہوں وہ یہ کہ دعوت اور عمل کے درمیان فرق ہے، گویا حزب کے نزدیک ان کے لیے مخصوص اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔جیساکہ مصنف نے کہا ہےکہ اسلام کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے نفاذ کے لیے کام عالمی نہ ہو بلکہ صرف یہ ضروری ہے کہ ابتدائی طور پر اس کے لیے عالمی سطح پردعوت دی جائے۔ ایک اور جگہ التکتل الحزبی میں مصنف کہتا ہے :’’ اس دوران اس گروہ کو گرم و سرد موسم ، تند و تیز ہواؤں اور صاف و گرد آلود فضاؤں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پس جب یہ حزبی گروہ ان عوامل کا سامنا کرتا ہے ،تب اس کی فکر میں شفافیت آتی اور اس کا طریقہ نکھرجاتا ہے، وہ اپنے ممبران کو تیار کرنے اوران کے درمیان ربط و تعلق کو مضبوط بنانے میں کامیاب ہوجاتی ہے، اور یہ حزب اس قابل ہوجاتی ہے کہ وہ دعوت کے میدان میں عملی قدم اٹھائے اور ایک کتلہ سے ایک مکمل آئیڈیولاجیکل حزب میں تبدیل ہوجائے،جو درست نشاۃ ثانیہ کے لیے سرگرم ہو۔۔۔"۔
حزب التحریر نے نقطۂ آغاز ( The Starting Point) میں بھی واضح کیا ہے کہ : ’’اس لیے یہ واجب ہے کہ دعوت حزب کی شکل میں اور اس کے نام سے دی جائے، یعنی دعوت اسلام کی طرف ہو اور عمل اسلامی زندگی کی بحالی کے لیے ہو، لیکن اسلام دعوت کا بار اٹھانے والی اور اسلامی زندگی کی بحالی کے لیے کام کرنے والی حزب التحریر ہی ہے"۔
میرا سوال ہے کہ:
أ۔کیا حزب التحریر دعوت اور عمل کے متعلق کوئی خاص فہم رکھتی ہے؟
ب۔ اور کیا دعوت اور عمل میں کوئی فرق موجود ہے؟
اللہ اپ کو جزائے خیر دے اور اسلامی خلافت کا قیام دے۔اگر میں کچھ غلط سمجھا ہوں تو معافی چاہتا ہوں اور آپ کی طرف سے تصحیح کا طالب ہوں۔ اللہ جلد ہمیں اپنی نصرت دے اور تب ہی مومنین خوشیاں منائیں گے۔
جواب:
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘
جی ہاں ! التکتل میں جس عبارت سے متعلق آپ نے پوچھا ہے،اس کے تناظر میں" اسلام کی طرف دعوت" اور"اسلام کے لیے کام کرنے" کے درمیان فرق ہے۔
اسلام کی طرف دعوت تو اس کے افکار کولے کر اُٹھنا اور اس کی تبلیغ اور تشریح ہے، جہاں تک اسلام کے لیے کام کرنے کی بات ہے تو اس کا مطلب اس کو زندگی ، ریاست اور معاشرے میں نافذ کرنے کے لیے سعی وجدو جہد کرنا ہے۔اس کا طریقہ ایسے سیاسی گروہ کا قیام ہے جو اسلام کی علمبردار بنے، اس طرح کہ کسی خاص علاقے میں یا کئی علاقوں میں وہاں کے معاشرے کو تبدیل کرنے ، ریاست کے قیام اور زمامِ حکومت ہاتھ میں لینے کے لیے کام کرے۔پھر ریاست کے ذریعے دعوت کو مسلم دنیا کو یکجا کرنے اور پوری دنیا تک اسلام پھیلانے اور نافذ کرنے کا علمبردار بنے۔ آپ نے التکتل کی کتاب سے اپنے سوال میں جو سطور نقل کیے ہیں، اسی طرح بعد کی سطور میں یہ فرق بیان کیا گیا ہے، کتاب التکتل میں یوں آیا ہے:
"ہمارا اعتقاد ہے کہ نشاۃِ ثانیہ کا حقیقی فلسفہ وہ آئیڈیالوجی ہے جو فکر اور طریقہ پر مشتمل ہوتی ہے، یہ آئیڈیالوجی اسلام ہے کیونکہ اسلام ایک ایسا عقیدہ ہے کہ جس سے ریاست اور امت کے تمام امور کو چلانے کے لیے ایک نظام اخذ ہوتا ہے اور زندگی کی تمام مشکلات کا حل نکلتا ہے۔ اگرچہ یہ نظام ایک عالمی نظام ہے تاہم اس کا طریقہ یہ نہیں کہ ابتدا ہی سے اِس کے نفاذ کے لیے عالمی سطح پر کام کیا جائے۔ بلکہ اسلام کی دعوت اگرچہ عالمی ہے لیکن اِس کے نفاذ کے لئے کام کرنے کا مرکز کسی ایک ملک یا کچھ ممالک کو بنایا جائے تاکہ وہ علاقے اس کا مرکز بنیں اور جب کسی ایک جگہ پر اسلامی ریاست وجود میں آجائے گی تو پھر وہ طبعی طور پر آگے بڑھے گی یہاں تک کہ وہ پہلے تو تمام اسلامی ممالک کو اپنے اندر ضم کرلے گی اور پھر یہ اسلامی ریاست اسلام کی دعوت کو پوری دنیا کے سامنے پیش کرے گی، اس اعتبار سے کہ اسلام پوری انسانیت کے لیے ایک عالمی اوردائمی پیغام ہے"۔(اقتباس ختم)
اسی طرح کتاب "مفاھیم حزب التحریر" میں اس کو مزید واضح بیان کیا ہے:
"عمل کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے اس جگہ کا تعین ناگزیر ہے جہاں سے عمل شروع کیا جائے، اس طرح اس جماعت کا بھی تعین ضروری ہے جو اس کام کا آغاز کرے۔ جی ہاں! اسلام تو عالمی ہے وہ پوری انسانیت کو مدِ نظر رکھتا ہے، تمام انسانوں کو برابر تصور کرتا ہے اور دعوت کے لئے ماحول، فضاء اور علاقے وغیرہ کے اختلاف کو کوئی اہمیت نہیں دیتا، بلکہ تمام بنی نوعِ انسان کو دعوت کو قبول کرنے کا اہل سمجھتا ہے، اور مسلمانوں کو پوری انسانیت تک دعوت کو پہنچانے کا ذمہ دار خیال کرتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ عالمی سطح پر اس دعوت کے لئے کام کا آغاز نہیں کرتا، بلکہ اس کو ناکام کوشش سمجھتا ہے جس سے کوئی مطلق نتیجہ نہیں نکلتا۔ دعوت کی ابتدا ایک فرد سے ہونی چاہیے اور اس کا اختتام پوری دنیا پر ہو۔ اس لئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ دعوت کا آغاز کسی ایک جگہ مضبوط ہو جائے تاکہ یہ جگہ اس دعوت کا نقطہ آغازبن جائے، پھر اس جگہ کو یا کسی اور ایسی جگہ کو جہاں دعوت مضبوط ہو جائے، دعوت کو پھیلانے کے لئے نقطہ انطلاق(روانہ ہونے)کی جگہ بنایا جائے جہاں سے دعوت آگے بڑھتی رہے۔ پھر اس جگہ کو یا اس کے علاوہ کسی اور جگہ کو نقطۂ ارتکاز بنایا جائے جہاں وہ ریاست قائم ہو جو دعوت کا مرکز بنےاور اپنے طریقے پر طبعی طور پر چلتی رہے، یعنی جہاد کے طریقے پر"۔ (کتاب مفاہیم حزب التحریر سے اقتباس ختم ہوا)
لہٰذا، ان دو نوں میں فرق ہے ، یعنی ایک عالمی نظام کے طور پر "اسلام کی طرف دعوت" جو اس لائق اور قابل ہے کہ اس کی طرف بلایا جائے اور دعوت دی جائے اور اسے پوری دنیا میں انسانوں تک پہنچایا جائے، اور "اسلام کیلئے کام "کرنا، جو یہ ہے کہ قابلیت رکھنے والی جگہ کو ایک یا ایک سے زیادہ ممالک تک محدود کرتے ہوئے، تاکہ ان ممالک میں معاشرے کو تبدیل کیا جا سکے،وہاں ایسی ریاست کو قائم کرنا جو اسلام کے ذریعے حکمرانی کرے اور اسلام کو دعوت و جہاد کے ذریعے پوری دنیا تک لے جائے۔
امید ہے کہ بات واضح ہوگئی۔
آپ کا بھائی
عطاء بن خلیل ابو الرشتہ
21 رجب، 1442ھ
بمطابق 5 مارچ، 2021ء